صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
47. باب ذكر الخوارج وصفاتهم:
باب: خوارج اور ان کی صفات کا ذکر۔
ترقیم عبدالباقی: 1064 ترقیم شاملہ: -- 2461
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ الْقَوَارِيرِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ ، عَنْ الضَّحَّاكِ الْمِشْرَقِيِّ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَدِيثٍ ذَكَرَ فِيهِ: " قَوْمًا يَخْرُجُونَ عَلَى فُرْقَةٍ مُخْتَلِفَةٍ يَقْتُلُهُمْ أَقْرَبُ الطَّائِفَتَيْنِ مِنَ الْحَقِّ ".
ضحاک مشرقی نے حضرت ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ایک حدیث میں روایت کی جس میں آپ نے اس قوم کا تذکرہ فرمایا جو (امت کے) مختلف گروہوں میں بٹنے کے وقت نکلے گی، ان کو دونوں گروہوں میں سے حق سے قریب تر گروہ قتل کرے گا۔ [صحيح مسلم/كتاب الزكاة/حدیث: 2461]
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ایک حدیث بیان کی ہے جس میں ان لوگوں کا تذکرہ ہے جو اختلاف پیدا کرنے والی گروہ بندی میں نکلیں گے ان دونوں گروہوں سے حق کے زیادہ قریب تر گروہ قتل کرے گا۔ [صحيح مسلم/كتاب الزكاة/حدیث: 2461]
ترقیم فوادعبدالباقی: 1064
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
الرواة الحديث:
اسم الشهرة | الرتبة عند ابن حجر/ذهبي | أحاديث |
|---|---|---|
| 👤←👥أبو سعيد الخدري، أبو سعيد | صحابي | |
👤←👥الضحاك بن شراحيل الهمداني، أبو سعيد الضحاك بن شراحيل الهمداني ← أبو سعيد الخدري | صدوق حسن الحديث | |
👤←👥حبيب بن أبي ثابت الأسدي، أبو يحيى حبيب بن أبي ثابت الأسدي ← الضحاك بن شراحيل الهمداني | ثقة فقيه جليل | |
👤←👥سفيان الثوري، أبو عبد الله سفيان الثوري ← حبيب بن أبي ثابت الأسدي | ثقة حافظ فقيه إمام حجة وربما دلس | |
👤←👥محمد بن عبد الله الزبيرى، أبو أحمد محمد بن عبد الله الزبيرى ← سفيان الثوري | ثقة ثبت قد يخطئ في حديث الثوري | |
👤←👥عبيد الله بن عمر الجشمي، أبو سعيد عبيد الله بن عمر الجشمي ← محمد بن عبد الله الزبيرى | ثقة ثبت |
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح مسلم |
2458
| تمرق مارقة عند فرقة من المسلمين يقتلها أولى الطائفتين بالحق |
صحيح مسلم |
2459
| تكون في أمتي فرقتان فتخرج من بينهما مارقة يلي قتلهم أولاهم بالحق |
صحيح مسلم |
2460
| تمرق مارقة في فرقة من الناس فيلي قتلهم أولى الطائفتين بالحق |
صحيح مسلم |
2461
| قوما يخرجون على فرقة مختلفة يقتلهم أقرب الطائفتين من الحق |
سنن أبي داود |
4667
| تمرق مارقة عند فرقة من المسلمين يقتلها أولى الطائفتين بالحق |
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 2461 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 2461
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت قاتلین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےسلسلہ میں دوگروہوں میں بٹ گئی۔
ایک گروہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا اور دوسرا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ،
دونوں گروہ اپنے اپنے مؤقف کو درست تصور کرتے تھے ایک کے سامنے ایک پہلو تھا اور دوسرے کے سامنے دوسرا پہلو تھا۔
دونوں صاحب فکر ونظر اور اہل حل وعقد تھے اورخلوص نیت سے متصف تھے۔
لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مؤقف حق سے قریب تر تھا اور اس کو اپنانا یا اختیار کرنا زیادہ صحیح اور درست تر تھا،
لیکن دوسرا گروہ سراسر باطل یا ناحق پر نہیں تھا۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کی تردید یا تغلیط نہیں کی کیونکہ انہوں نے بھی پورے اخلاص اور سوچ وبچار کے ساتھ مؤقف اختیار کیا تھا۔
اس لیے اس گروہ یا اس کے قائد کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کرنا۔
ان سے بغض وکینہ رکھنا۔
کوئی پسندیدہ حرکت نہیں ہے۔
جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصور وار یا خطاکار بھی قرار نہیں دیا ہے ان کے مد مقابل کو اقرب الی الحق یا اولیٰ بالحق قرار دینے سے یہ کہاں ثابت ہو گیا کہ دوسرے کا حق سے کوئی تعلق رابط نہیں تھا۔
نیز مجتہد تو خطاکار بھی ہوتو وہ اجر سے محروم نہیں رہتا۔
اس لیے اس کے خلاف زبان طعن کیسے دراز کی جا سکتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس دوسرے گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
(أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ (1)
،
وَنَبِيَّنَا وَاحِدٌ،
وَدَعْوَتَنَا فِي الاِْسْلاَمِ وَاحِدَةٌ،
لاَ نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الاِْيمَانِ (2)
باللهِ وَالتَّصْدِيقِ بِرَسُولِهِ (صلى الله عليه وآله)
،
وَلاَ يَسْتَزِيدُونَنَا،
الاَْمْرُ وَاحِدٌ،
إِلاَّ مَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ مِنْ دَمِ عُثْمانَ،
وَنَحْنُ مِنْهُ بَرَاءٌ!)
(نہج البلاغہ جلد 2۔
صفحہ 114۔
تحقیق امام عبدہ بحوالہ رحماء بینھم حصہ چھارم صفحہ 183)
”ہمارا رب ایک ہے،
ہمارا نبی ایک ہے،
اسلام کے بارے میں ہماری دعوت ایک ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کے رسول کی تصدیق کرنے میں نہ ہم سے بڑھ کر ہیں اور نہ وہ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں ہمارا اور ان کا دینی معاملہ ایک جیسا ہے۔
مگرعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کےبارے میں ہمارا ان کا اختلاف ہے۔
حالانکہ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔
“ اورخود حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں گروہوں کو (فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ)
”مسلمانوں کی دو عظیم جماعتیں قراردیاہے۔
“ (بخاری شریف ج،
1 صفحه: 530)
فوائد ومسائل:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشن گوئی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد امت قاتلین عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کےسلسلہ میں دوگروہوں میں بٹ گئی۔
ایک گروہ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ تھا اور دوسرا حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ،
دونوں گروہ اپنے اپنے مؤقف کو درست تصور کرتے تھے ایک کے سامنے ایک پہلو تھا اور دوسرے کے سامنے دوسرا پہلو تھا۔
دونوں صاحب فکر ونظر اور اہل حل وعقد تھے اورخلوص نیت سے متصف تھے۔
لیکن حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مؤقف حق سے قریب تر تھا اور اس کو اپنانا یا اختیار کرنا زیادہ صحیح اور درست تر تھا،
لیکن دوسرا گروہ سراسر باطل یا ناحق پر نہیں تھا۔
اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس گروہ کی تردید یا تغلیط نہیں کی کیونکہ انہوں نے بھی پورے اخلاص اور سوچ وبچار کے ساتھ مؤقف اختیار کیا تھا۔
اس لیے اس گروہ یا اس کے قائد کے خلاف نازیبا کلمات استعمال کرنا۔
ان سے بغض وکینہ رکھنا۔
کوئی پسندیدہ حرکت نہیں ہے۔
جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصور وار یا خطاکار بھی قرار نہیں دیا ہے ان کے مد مقابل کو اقرب الی الحق یا اولیٰ بالحق قرار دینے سے یہ کہاں ثابت ہو گیا کہ دوسرے کا حق سے کوئی تعلق رابط نہیں تھا۔
نیز مجتہد تو خطاکار بھی ہوتو وہ اجر سے محروم نہیں رہتا۔
اس لیے اس کے خلاف زبان طعن کیسے دراز کی جا سکتی ہے۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس دوسرے گروہ کے بارے میں فرماتے ہیں:
(أَنَّ رَبَّنَا وَاحِدٌ (1)
،
وَنَبِيَّنَا وَاحِدٌ،
وَدَعْوَتَنَا فِي الاِْسْلاَمِ وَاحِدَةٌ،
لاَ نَسْتَزِيدُهُمْ فِي الاِْيمَانِ (2)
باللهِ وَالتَّصْدِيقِ بِرَسُولِهِ (صلى الله عليه وآله)
،
وَلاَ يَسْتَزِيدُونَنَا،
الاَْمْرُ وَاحِدٌ،
إِلاَّ مَا اخْتَلَفْنَا فِيهِ مِنْ دَمِ عُثْمانَ،
وَنَحْنُ مِنْهُ بَرَاءٌ!)
(نہج البلاغہ جلد 2۔
صفحہ 114۔
تحقیق امام عبدہ بحوالہ رحماء بینھم حصہ چھارم صفحہ 183)
”ہمارا رب ایک ہے،
ہمارا نبی ایک ہے،
اسلام کے بارے میں ہماری دعوت ایک ہے۔
اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے اور اس کے رسول کی تصدیق کرنے میں نہ ہم سے بڑھ کر ہیں اور نہ وہ ہم سے بڑھے ہوئے ہیں ہمارا اور ان کا دینی معاملہ ایک جیسا ہے۔
مگرعثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے خون کےبارے میں ہمارا ان کا اختلاف ہے۔
حالانکہ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔
“ اورخود حضوراکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں گروہوں کو (فِئَتَيْنِ عَظِيمَتَيْنِ مِنَ المُسْلِمِينَ)
”مسلمانوں کی دو عظیم جماعتیں قراردیاہے۔
“ (بخاری شریف ج،
1 صفحه: 530)
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 2461]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 4667
فتنہ و فساد کے وقت خاموش رہنے کا بیان۔
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں اختلاف کے وقت ایک فرقہ نکلے گا جسے دونوں گروہوں میں سے جو حق سے قریب تر ہو گا قتل کرے گا۔“ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4667]
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مسلمانوں میں اختلاف کے وقت ایک فرقہ نکلے گا جسے دونوں گروہوں میں سے جو حق سے قریب تر ہو گا قتل کرے گا۔“ [سنن ابي داود/كتاب السنة /حدیث: 4667]
فوائد ومسائل:
1: مسلمانوں میں مختلف آرا کے حامل افرا د یا جماعتوں کا وجود ہو سکتا ہے جن میں سے یقینا ایک ہی حق پر ہو گا اور دوسرا اس سے بعید۔
مگر جب تک کوئی واضح صریح باطل فکروعمل سامنے نہ آئے ان کی ضلالت کا حکم نہ لگایا جائے۔
بلکہ علم وحکمت سے تفہیم ہونی چاہیے اور حتی الامکان ان کی اشاعت اور تشہیر سے خاموشی اختیار کی جائے، اسی سے وہ فتنہ دب سکے گا۔
2: اس حدیث میں خوارج کے ظہور کی پیشین گوئی کا بیان ہے، یہ حدیث نبی ؐ کی صداقت کی ایک دلیل ہے کیونکہ خوارج کا جس وقت ظہور ہوا، وہ اس حدیث کے عین مطابق ہے، یہ 32،38 ہجری کا واقعہ ہے جب حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ کے درمیان لڑائی جاری تھی۔
اس وقت نہروان سے فرقہ خوارج کا ظہورہوا اور حضرت علی رضی اللہ نے ان سے جنگ کی اور انہیں شکست فاش دی۔
اسی قسم کی احادیث کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ کو حضرت معاویہ کے مقابلے میں اقرب الی الحق کہا جاتا ہے۔
3: اس میں باہم لڑنے والے دونوں گروہوں کو مسلمان کہا گیا ہے، اس لئے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ دونوں اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں طعن وتشنیع کی بجائے کف لسان (خاموشی) ضروری ہے، کیونکہ دونوں ہی مسلمان اورحق پر تھے، گو ایک احق (زیادہ صحیح) تھا۔
4: فتنہ انگیز یا دین سے نکل جانے والا گروہ خوارج کا تھا، نہ کہ حضرت علی یا حضرت معاویہ رضی اللہ کا گروہ تھا، وہ دونوں تو مسلمانوں کے عظیم گروہ تھے۔
1: مسلمانوں میں مختلف آرا کے حامل افرا د یا جماعتوں کا وجود ہو سکتا ہے جن میں سے یقینا ایک ہی حق پر ہو گا اور دوسرا اس سے بعید۔
مگر جب تک کوئی واضح صریح باطل فکروعمل سامنے نہ آئے ان کی ضلالت کا حکم نہ لگایا جائے۔
بلکہ علم وحکمت سے تفہیم ہونی چاہیے اور حتی الامکان ان کی اشاعت اور تشہیر سے خاموشی اختیار کی جائے، اسی سے وہ فتنہ دب سکے گا۔
2: اس حدیث میں خوارج کے ظہور کی پیشین گوئی کا بیان ہے، یہ حدیث نبی ؐ کی صداقت کی ایک دلیل ہے کیونکہ خوارج کا جس وقت ظہور ہوا، وہ اس حدیث کے عین مطابق ہے، یہ 32،38 ہجری کا واقعہ ہے جب حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ کے درمیان لڑائی جاری تھی۔
اس وقت نہروان سے فرقہ خوارج کا ظہورہوا اور حضرت علی رضی اللہ نے ان سے جنگ کی اور انہیں شکست فاش دی۔
اسی قسم کی احادیث کی بنا پر حضرت علی رضی اللہ کو حضرت معاویہ کے مقابلے میں اقرب الی الحق کہا جاتا ہے۔
3: اس میں باہم لڑنے والے دونوں گروہوں کو مسلمان کہا گیا ہے، اس لئے حضرت علی اور حضرت معاویہ رضی اللہ دونوں اور ان کے ساتھیوں کے بارے میں طعن وتشنیع کی بجائے کف لسان (خاموشی) ضروری ہے، کیونکہ دونوں ہی مسلمان اورحق پر تھے، گو ایک احق (زیادہ صحیح) تھا۔
4: فتنہ انگیز یا دین سے نکل جانے والا گروہ خوارج کا تھا، نہ کہ حضرت علی یا حضرت معاویہ رضی اللہ کا گروہ تھا، وہ دونوں تو مسلمانوں کے عظیم گروہ تھے۔
[سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعیدی، حدیث/صفحہ نمبر: 4667]


الضحاك بن شراحيل الهمداني ← أبو سعيد الخدري