صحيح مسلم سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
ترقيم عبدالباقی
عربی
اردو
14. باب جواز إرداف المراة الاجنبية إذا اعيت في الطريق:
باب: اگر اجنبی عورت راہ میں تھک گئی ہو تو اس کو اپنے ساتھ سوار کر لینا درست ہے۔
ترقیم عبدالباقی: 2182 ترقیم شاملہ: -- 5693
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، أَنَّ أَسْمَاءَ ، قَالَتْ: " كُنْتُ أَخْدُمُ الزُّبَيْرَ خِدْمَةَ الْبَيْتِ، وَكَانَ لَهُ فَرَسٌ وَكُنْتُ أَسُوسُهُ، فَلَمْ يَكُنْ مِنَ الْخِدْمَةِ شَيْءٌ أَشَدَّ عَلَيَّ مِنْ سِيَاسَةِ الْفَرَسِ كُنْتُ أَحْتَشُّ لَهُ وَأَقُومُ عَلَيْهِ وَأَسُوسُهُ، قَالَ: ثُمَّ إِنَّهَا أَصَابَتْ خَادِمًا جَاءَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبْيٌ فَأَعْطَاهَا خَادِمًا، قَالَتْ: كَفَتْنِي سِيَاسَةَ الْفَرَسِ، فَأَلْقَتْ عَنِّي مَئُونَتَهُ فَجَاءَنِي رَجُلٌ، فَقَالَ يَا أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ: إِنِّي رَجُلٌ فَقِيرٌ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ فِي ظِلِّ دَارِكِ، قَالَتْ: إِنِّي إِنْ رَخَّصْتُ لَكَ، أَبَى ذَاكَ الزُّبَيْرُ فَتَعَالَ فَاطْلُبْ إِلَيَّ وَالزُّبَيْرُ شَاهِدٌ، فَجَاءَ، فَقَالَ يَا أُمَّ عَبْدِ اللَّهِ: إِنِّي رَجُلٌ فَقِيرٌ أَرَدْتُ أَنْ أَبِيعَ فِي ظِلِّ دَارِكِ، قَالَتْ: مَا لَكَ بِالْمَدِينَةِ إِلَّا دَارِي؟ فَقَالَ لَهَا الزُّبَيْرُ: مَا لَكِ أَنْ تَمْنَعِي رَجُلًا فَقِيرًا يَبِيعُ، فَكَانَ يَبِيعُ إِلَى أَنْ كَسَبَ، فَبِعْتُهُ الْجَارِيَةَ فَدَخَلَ عَلَيَّ الزُّبَيْرُ وَثَمَنُهَا فِي حَجْرِي، فَقَالَ: هَبِيهَا لِي، قَالَتْ: إِنِّي قَدْ تَصَدَّقْتُ بِهَا ".
ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ حضرت اسماء رضی اللہ عنہا نے بیان کیا کہ میں گھر کی خدمات سر انجام دے کر حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی خدمت کرتی تھی، ان کا ایک گھوڑا تھا، میں اس کی دیکھ بھال کرتی تھی، میرے لیے گھر کی خدمات میں سے گھوڑے کی نگہداشت سے بڑھ کر کوئی اور خدمت زیادہ سخت نہ تھی۔ میں اس کے لیے چارا لاتی، اس کی ہر ضرورت کا خیال رکھتی اور اس کی نگہداشت کرتی، کہا: پھر انہیں ایک خادمہ مل گئی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو آپ نے ان کے لیے ایک خادمہ عطا کر دی۔ کہا: اس نے مجھ سے گھوڑے کی نگہداشت (کی ذمہ داری) سنبھال لی اور مجھ سے بہت بڑا بوجھ ہٹا لیا۔ میرے پاس ایک آدمی آیا اور کہا: ام عبداللہ! میں ایک فقیر آدمی ہوں: میرا دل چاہتا ہے کہ میں آپ کے گھر کے سائے میں (بیٹھ کر سودا) بیچ لیا کروں۔ انہوں نے کہا: اگر میں نے تمہیں اجازت دے دی تو زبیر رضی اللہ عنہ انکار کر دیں گے۔ جب زبیر رضی اللہ عنہ موجود ہوں تو (اس وقت) آ کر مجھ سے اجازت مانگنا، پھر وہ شخص (حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں) آیا اور کہا: ام عبداللہ! میں ایک فقیر آدمی ہوں اور چاہتا ہوں کہ میں آپ کے گھر کے سائے میں (بیٹھ کر کچھ) بیچ لیا کروں، انہوں نے (حضرت اسماء رضی اللہ عنہا) جواب دیا: مدینہ میں تمہارے لیے میرے گھر کے سوا اور کوئی گھر نہیں ہے؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا: تمہیں کیا ہوا ہے، ایک فقیر آدمی کو سودا بیچنے سے روک رہی ہو؟ وہ بیچنے لگا، یہاں تک کہ اس نے کافی کمائی کر لی، میں نے وہ خادمہ اسے بیچ دی۔ زبیر رضی اللہ عنہ اندر آئے تو اس خادمہ کی قیمت میری گود میں پڑی تھی، انہوں نے کہا: یہ مجھے ہبہ کر دو۔ تو انہوں نے کہا: میں اس کو صدقہ کر چکی ہوں۔ [صحيح مسلم/كتاب السلام/حدیث: 5693]
حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں، میں حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کے گھر کی خدمات سر انجام دیتی تھی اور ان کا گھوڑا تھا، اس کی بھی دیکھ بھال اور انتظام کرتی تھی اور گھوڑے کی نگہداشت سے زیادہ کوئی خدمت میرے لیے سنگین نہ تھی، میں اس کے لیے گھاس لاتی، اس کی خدمت کرتی اور اس کی دیکھ بھال کرتی، پھر اسے ایک نوکرانی مل گئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ قیدی آئے تو آپ نے اسے ایک نوکرانی دی، جو ان کے لیے گھوڑے کے انتظام کے لیے کافی ہو گئی اور اس کی مشقت کا بوجھ اتار دیا، سو ایک دن میرے پاس ایک آدمی آیا اور کہنے لگا، اے عبداللہ کی ماں! میں ایک محتاج آدمی ہوں، میں آپ کے گھر کے سایہ میں سودا سلف بیچنا چاہتا ہوں، حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا نے کہا، اگر میں نے اپنے طور پر تجھے اجازت دے دی، (تو شاید) حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ اس کی اجازت نہیں دیں گے، لہذا تو زبیر رضی اللہ تعالی عنہ کی موجودگی میں آ کر مجھ سے اس کی اجازت طلب کرنا، سو وہ آیا اور کہنے لگا، اے عبداللہ کی ماں! میں ایک محتاج آدمی ہوں، آپ کے گھر کے سایہ میں سامان فروخت کرنا چاہتا ہوں تو میں نے کہا مدینہ میں میرے گھر کے سوا تمہیں کوئی گھر نہیں ملا؟ تو حضرت زبیر رضی اللہ تعالی عنہ نے حضرت اسماء رضی اللہ تعالی عنہا سے کہا، تم ایک فقیر آدمی کو سامان بیچنے سے کیوں روکتی ہو؟ تو وہ خرید و فروخت کرنے لگا، حتی کہ اس نے کمائی کر لی اور وہ لونڈی میں نے اسے فروخت کر دی، (کیونکہ اب انہیں اس کی ضرورت نہیں تھی) حضرت زبیر میرے پاس آئے تو اس کی قیمت میری جھولی میں تھی، انہوں نے کہا، یہ رقم مجھے دے دو، میں نے کہا، میں یہ صدقہ کر چکی ہوں۔ [صحيح مسلم/كتاب السلام/حدیث: 5693]
ترقیم فوادعبدالباقی: 2182
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
الرواة الحديث:
اسم الشهرة | الرتبة عند ابن حجر/ذهبي | أحاديث |
|---|---|---|
| 👤←👥أسماء بنت أبي بكر القرشية، أم عبد الله | صحابي | |
👤←👥عبد الله بن أبي مليكة القرشي، أبو محمد، أبو بكر عبد الله بن أبي مليكة القرشي ← أسماء بنت أبي بكر القرشية | ثقة | |
👤←👥أيوب السختياني، أبو عثمان، أبو بكر أيوب السختياني ← عبد الله بن أبي مليكة القرشي | ثقة ثبتت حجة | |
👤←👥حماد بن زيد الأزدي، أبو إسماعيل حماد بن زيد الأزدي ← أيوب السختياني | ثقة ثبت فقيه إمام كبير مشهور | |
👤←👥محمد بن عبيد الغبري محمد بن عبيد الغبري ← حماد بن زيد الأزدي | ثقة |
تخريج الحديث:
کتاب | نمبر | مختصر عربی متن |
|---|---|---|
صحيح البخاري |
3151
| كنت أنقل النوى من أرض الزبير التي أقطعه رسول الله على رأسي |
صحيح مسلم |
5693
| جاء النبي سبي فأعطاها خادما قالت كفتني سياسة الفرس |
صحيح مسلم |
5692
| والله لحملك النوى على رأسك أشد من ركوبك معه قالت حتى أرسل إلي أبو بكر بعد ذلك بخادم فكفتني |
صحیح مسلم کی حدیث نمبر 5693 کے فوائد و مسائل
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5693
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے حضرت اسماء کے فہم و فراست کا پتہ چلتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ذہانت اور بیدار مغزی سے ایک فقیر آدمی کو اپنے گھر کے سایہ میں بیٹھنے کی اجازت،
اپنے خاوند کی نفسیات اور غیرت کا اندازہ رکھتے ہوئے دلوائی،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
بیوی کو اپنے خاوند کی نفسیات اور جذبات کا لحاظ رکھنا چاہیے،
تاکہ وہ خواہ مخواہ بدظنی کا شکار نہ ہو اور گھر کا ماحول کشیدگی سے محفوظ رہے۔
فوائد ومسائل:
اس حدیث سے حضرت اسماء کے فہم و فراست کا پتہ چلتا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی ذہانت اور بیدار مغزی سے ایک فقیر آدمی کو اپنے گھر کے سایہ میں بیٹھنے کی اجازت،
اپنے خاوند کی نفسیات اور غیرت کا اندازہ رکھتے ہوئے دلوائی،
جس سے معلوم ہوتا ہے،
بیوی کو اپنے خاوند کی نفسیات اور جذبات کا لحاظ رکھنا چاہیے،
تاکہ وہ خواہ مخواہ بدظنی کا شکار نہ ہو اور گھر کا ماحول کشیدگی سے محفوظ رہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5693]
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
ابوبكر قدوسي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح مسلم 5692
اگر اجنبی عورت راہ میں تھک گئی ہو تو اس کو اپنے ساتھ سوار کر لینا
”. . . ایک دن میں وہیں سے گٹھلیاں لا رہی تھی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا پھر اونٹ کے بٹھانے کی بولی بولی اخ اخ تاکہ اپنے پیچھے مجھ کو سوار کر لیں مجھے شرم آئی اور غیرت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم گٹھلیوں کا بوجھ سر پر اٹھانا میرے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے (یعنی ایسے بوجھ کو تو گوارا کرتی ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کیوں نہیں جاتی) اسماء نے کہا: پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی مجھے بھیجی وہ گھوڑے کا سارا کام کرنے لگی گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔“ [صحيح مسلم/كِتَاب السَّلَامِ/ باب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ:/ فواد: 4057، دارالسلام: 5692]
”. . . ایک دن میں وہیں سے گٹھلیاں لا رہی تھی راہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے بلایا پھر اونٹ کے بٹھانے کی بولی بولی اخ اخ تاکہ اپنے پیچھے مجھ کو سوار کر لیں مجھے شرم آئی اور غیرت۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کی قسم گٹھلیوں کا بوجھ سر پر اٹھانا میرے ساتھ سوار ہونے سے زیادہ سخت ہے (یعنی ایسے بوجھ کو تو گوارا کرتی ہے اور میرے ساتھ بیٹھ کیوں نہیں جاتی) اسماء نے کہا: پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ایک لونڈی مجھے بھیجی وہ گھوڑے کا سارا کام کرنے لگی گویا انہوں نے مجھے آزاد کر دیا۔“ [صحيح مسلم/كِتَاب السَّلَامِ/ باب جَوَازِ إِرْدَافِ الْمَرْأَةِ الأَجْنَبِيَّةِ إِذَا أَعْيَتْ فِي الطَّرِيقِ:/ فواد: 4057، دارالسلام: 5692]
فوائد و مسائل
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
پہلی راویت میں لکھا ہے کہ مدینے کی لونڈیوں سے کوئی لونڈی ...اب ترجمہ کرنے والے کی ”مہارت“ دیکھیے کہ آسان سا ترجمہ (مدینے کی لونڈیوں سے ایک لونڈی) بھی کیا جا سکتا تھا ..لیکن اس طرح ”مقصد“ حاصل نہیں ہوتا تھا - کیونکہ اس طرح واضح ہو جاتا کہ وہ ایک لونڈی ایسا کیونکر کرتی تھی ... اور وہی ایسا کیوں کرتی تھی .اب ایک i بجائے ”کوئی لونڈی“ کرنے سے یہ تاثر پڑا کہ کبھی کوئی اور کبھی کوئی ایسا کر لیتی تھی .. روایت کے الفاظ ہیں:
«ان كانت الامه من اماء اهل المدينه»
اور امام بخاری نے اس پر باب باندھا ہے:
«باب الكبر» یعنی تکبر کی برائی ..
مطلوب معنی یہ ہے کہ عورت پاگل تھی پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اہمیت دیتے۔
.دوستو! اسی لونڈی کا تذکرہ ایک اور حدیث میں بھی ہے جس میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے بہت دیر تک کھڑی رہی اور آپ نے اس سے ہاتھ نہیں چھڑایا .... جی ہاں یہی حدیث ہے جس سے غامدی صاحب نے بھی استدلال کرتے ہوے عورت اور مرد کا مصافحہ جائز قرار دیا تھا .....
دوستو! مدینے میں موجود یہ لونڈی اصل میں ذہنی طور پر معذور یا مجذوب تھی اور اس کی اس حالت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت کے سبب اس سے ہاتھ نہ چھڑایا ... یہی وجہ ہے کہ اوپر بیان کردہ پہلی حدیث میں جس میں وہ لونڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے آپ کو کسی نہ کسی کام سے لے جاتی ....کیا عنوان امام بخاری رحمہ اللہ نے تکبر سے اعراض باندھا ہے .. یعنی اس کو آپ کی نرمی اور شفقت اور عدم غرور پر محمول کیا ہے ...
------------------
دوسری حدیث جو سیدنا ابو موسی اشعری والی ہے خود صاحب پوسٹ کے عنوان سے ہی نہیں ملتی کہ مجبوری میں غیر محرم سے اختلاط کیا جا سکتا ہے ... سوال یہ ہے سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کو کیا مجبوری تھی .؟..
کیا جوئیں نکلوانا بھی کوئی ایسی مجبوری ہو جاتی ہے کہ غیر محرم سے یہ کام کروایا جائے؟
... اصل قصہ جو چھپا لیا گیا کہ ہے وہ یہ تھا کہ خاتون ان کی رضاعی خالہ تھیں ... دوستو! ایک حدیث کو پکڑ لیا جاتا ہے، اپنی مرضی کا مفھوم پیش کیا جاتا ہے، جب کہ بسا اوقات اس حدیث سے محدثین کوئی اور مفھوم مراد لے رہے ہوتے ہیں اور ان کی مراد جو مفھوم ہوتا ہے، تو ضرورت کے واسطے وہ مختصر حدیث لے کے آتے ہیں ..جب کہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ اس "اعتراض " کی صورت میں مکمل حدیث پیش کی جا سکتی ہے یا دوسری حدیث جو اس اعتراض کو رفع کرتی ہے اس کو بیان کیا جائے گا ...مگر آجکل کے ”دانش ور“ کبھی لاعلمی سے اور کبھی مجرمانہ طور پر ادھوری احادیث لے کے آتے ہیں اور ہمارے ”معصوم“ دوست الجھ کے رہ جاتے ہیں - سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی یہی معاملہ ہے ...کہ دوسری روایت ان کے اس عورت سے رشتے کو واضح کر رہی تھی لیکن اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا - ظاہر ہے پھر "تھرتھلی " کس طرح مچتی، اور ذہنوں میں شکوک کہاں سے انڈیلے جاتے۔
------------------
تیسری راویت کا بھی یہی معاملہ ہے ...کس طرح ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر محرم خاتون کو اس طرح اونٹ پر بٹھا لیں کہ اس کا جسم آپ سے چھو جائے، بھلے وہ آپ سے عمر میں بہت چھوٹی اور رشتے میں سالی ہی تھیں ..جب کہ انہی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی سگی چھوٹی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہی روایت ہے کہ:
”اللہ کی قسم نبی کریم نے کبھی بیعت کے واسطے بھی کسی غیر محرم عورت کو نہیں چھوا۔“
دوستو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ پر ایک کجاوہ دھرا ہوتا تھا اس کے پیچھے باقاعدہ ٹیک کے لیے اونچی لکڑی ہوتی تھی ...
یوں اگر کوئی پیچھے بٹھ بھی جائے، بیچ میں لکڑی کی رکاوٹ موجود رہتی تھی ... جیسا کی بخاری حدیث نمبر [5967] میں، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے کی کفیت بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں:
«ليس بيني و بينه الا آخره الرحل»
”میرےاور آپ کے درمیان سواے کجاوۓ کی لکڑی کے بیچ کچھ نہ تھا۔“
اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو چھونے سے بہتر ہے کہ جسم میں کوئی لوہے کی کنگھی داخل ہو ے زخمی کر دے - اب خود ہی سوچئے کہ اس تعلیم دینے کے بعد کیا اس بات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ خود آپ ہی اس کا اہتمام نہ کریں۔
جہاں تک تعلق ہے امام نووی رحمہ اللہ کے کے باب کا جو انہوں نے حدیث پر باندھا ہے تو اس سے کس کو انکار ہے .. بنا چھوے، اور جسم ملائے کسی خاتون کو ساتھ بٹھا لینا جائز ضرور ہے .. لیکن یاد رکھیے اس جواز کی صورت وہی ہو گی جو دوسری احادیث کی بیان کردہ شرائط کے مطابق ہو گی۔۔۔۔
ابوبکر قدوسی -
دیتے ہیں دھوکہ یہ بازی گر کھلا
ان کا کہنا ہے کہ عورت اور مردکا ایک دوسرے سے ایسا اختلاط جائز ہے:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صاحب نے تین راویات لکھ کے اہنی دانست میں ”ثابت“ کیا کہ:
”غیر محرم عورت کسی مرد کو اور مرد اس کو چھو سکتے ہیں“ -- بخاری کی دو روایات اور مسلم کی ایک روایت ہے -
لیجئے ان کی اپنی پوسٹ سے راویت کا ترجمہ پڑھئے:
.............
عرض ہے کہ ضرورت کے تحت ایسا اختلاط جائز و مباح ہے اور اس پر یہ دلائل موجود ہیں:
1) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی کام کے لئے جہاں چاہتی لے جاتی۔ [صحيح بخاري، كتاب الادب، باب الكبر، حديث 6072]
2) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنا دورانِ حج کا واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں: پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں اور کنگھی کی۔ [صحيح بخاري، كتاب المغازي، باب حجة الوداع، حديث 4397]
3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کو سر پر وزن لادا ہوا آتے دیکھ کر اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھایا تھا۔ [صحيح مسلم رقم 2182، دارالسلام 5692]
مشہور محدث و امام نووی نے اس واقعہ سے استدلال لیتے ہوئے باب باندھا ہے:
«باب جواز إرداف المرأة الأجنبية إذا أعيت فى الطريق»
”یعنی راستے میں تھک جانے والی اجنبی عورت کو اپنے ساتھ سواری پر بیٹھانے کا جواز“
لہٰذا کریم اور اوبر سروس کا استعمال بلاشبہ مباح اور جائز ہے۔ «هٰذا ما عندي والله اعلم»
.......................
جی یہ تھا ان کا موقف۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ایک صاحب نے تین راویات لکھ کے اہنی دانست میں ”ثابت“ کیا کہ:
”غیر محرم عورت کسی مرد کو اور مرد اس کو چھو سکتے ہیں“ -- بخاری کی دو روایات اور مسلم کی ایک روایت ہے -
لیجئے ان کی اپنی پوسٹ سے راویت کا ترجمہ پڑھئے:
.............
عرض ہے کہ ضرورت کے تحت ایسا اختلاط جائز و مباح ہے اور اس پر یہ دلائل موجود ہیں:
1) حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینہ طیبہ کی لونڈیوں میں سے کوئی لونڈی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ پکڑ لیتی اور اپنے کسی کام کے لئے جہاں چاہتی لے جاتی۔ [صحيح بخاري، كتاب الادب، باب الكبر، حديث 6072]
2) حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ اپنا دورانِ حج کا واقعہ سناتے ہوئے فرماتے ہیں: پھر میں بنو قیس کی ایک عورت کے پاس آیا تو اس نے میرے سر کی جوئیں نکالیں اور کنگھی کی۔ [صحيح بخاري، كتاب المغازي، باب حجة الوداع، حديث 4397]
3) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت اسماء کو سر پر وزن لادا ہوا آتے دیکھ کر اپنے پیچھے اونٹ پر بیٹھایا تھا۔ [صحيح مسلم رقم 2182، دارالسلام 5692]
مشہور محدث و امام نووی نے اس واقعہ سے استدلال لیتے ہوئے باب باندھا ہے:
«باب جواز إرداف المرأة الأجنبية إذا أعيت فى الطريق»
”یعنی راستے میں تھک جانے والی اجنبی عورت کو اپنے ساتھ سواری پر بیٹھانے کا جواز“
لہٰذا کریم اور اوبر سروس کا استعمال بلاشبہ مباح اور جائز ہے۔ «هٰذا ما عندي والله اعلم»
.......................
پہلی راویت میں لکھا ہے کہ مدینے کی لونڈیوں سے کوئی لونڈی ...اب ترجمہ کرنے والے کی ”مہارت“ دیکھیے کہ آسان سا ترجمہ (مدینے کی لونڈیوں سے ایک لونڈی) بھی کیا جا سکتا تھا ..لیکن اس طرح ”مقصد“ حاصل نہیں ہوتا تھا - کیونکہ اس طرح واضح ہو جاتا کہ وہ ایک لونڈی ایسا کیونکر کرتی تھی ... اور وہی ایسا کیوں کرتی تھی .اب ایک i بجائے ”کوئی لونڈی“ کرنے سے یہ تاثر پڑا کہ کبھی کوئی اور کبھی کوئی ایسا کر لیتی تھی .. روایت کے الفاظ ہیں:
«ان كانت الامه من اماء اهل المدينه»
اور امام بخاری نے اس پر باب باندھا ہے:
«باب الكبر» یعنی تکبر کی برائی ..
مطلوب معنی یہ ہے کہ عورت پاگل تھی پھر بھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کو اہمیت دیتے۔
.دوستو! اسی لونڈی کا تذکرہ ایک اور حدیث میں بھی ہے جس میں وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے بہت دیر تک کھڑی رہی اور آپ نے اس سے ہاتھ نہیں چھڑایا .... جی ہاں یہی حدیث ہے جس سے غامدی صاحب نے بھی استدلال کرتے ہوے عورت اور مرد کا مصافحہ جائز قرار دیا تھا .....
دوستو! مدینے میں موجود یہ لونڈی اصل میں ذہنی طور پر معذور یا مجذوب تھی اور اس کی اس حالت کے پیش نظر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شفقت کے سبب اس سے ہاتھ نہ چھڑایا ... یہی وجہ ہے کہ اوپر بیان کردہ پہلی حدیث میں جس میں وہ لونڈی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ہاتھ تھامے آپ کو کسی نہ کسی کام سے لے جاتی ....کیا عنوان امام بخاری رحمہ اللہ نے تکبر سے اعراض باندھا ہے .. یعنی اس کو آپ کی نرمی اور شفقت اور عدم غرور پر محمول کیا ہے ...
------------------
دوسری حدیث جو سیدنا ابو موسی اشعری والی ہے خود صاحب پوسٹ کے عنوان سے ہی نہیں ملتی کہ مجبوری میں غیر محرم سے اختلاط کیا جا سکتا ہے ... سوال یہ ہے سیدنا ابو موسی رضی اللہ عنہ کو کیا مجبوری تھی .؟..
کیا جوئیں نکلوانا بھی کوئی ایسی مجبوری ہو جاتی ہے کہ غیر محرم سے یہ کام کروایا جائے؟
... اصل قصہ جو چھپا لیا گیا کہ ہے وہ یہ تھا کہ خاتون ان کی رضاعی خالہ تھیں ... دوستو! ایک حدیث کو پکڑ لیا جاتا ہے، اپنی مرضی کا مفھوم پیش کیا جاتا ہے، جب کہ بسا اوقات اس حدیث سے محدثین کوئی اور مفھوم مراد لے رہے ہوتے ہیں اور ان کی مراد جو مفھوم ہوتا ہے، تو ضرورت کے واسطے وہ مختصر حدیث لے کے آتے ہیں ..جب کہ ان کے علم میں ہوتا ہے کہ اس "اعتراض " کی صورت میں مکمل حدیث پیش کی جا سکتی ہے یا دوسری حدیث جو اس اعتراض کو رفع کرتی ہے اس کو بیان کیا جائے گا ...مگر آجکل کے ”دانش ور“ کبھی لاعلمی سے اور کبھی مجرمانہ طور پر ادھوری احادیث لے کے آتے ہیں اور ہمارے ”معصوم“ دوست الجھ کے رہ جاتے ہیں - سیدنا ابو موسی اشعری رضی اللہ عنہ کی اس روایت سے بھی یہی معاملہ ہے ...کہ دوسری روایت ان کے اس عورت سے رشتے کو واضح کر رہی تھی لیکن اس کا ذکر ہی نہیں کیا گیا - ظاہر ہے پھر "تھرتھلی " کس طرح مچتی، اور ذہنوں میں شکوک کہاں سے انڈیلے جاتے۔
------------------
تیسری راویت کا بھی یہی معاملہ ہے ...کس طرح ممکن ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک غیر محرم خاتون کو اس طرح اونٹ پر بٹھا لیں کہ اس کا جسم آپ سے چھو جائے، بھلے وہ آپ سے عمر میں بہت چھوٹی اور رشتے میں سالی ہی تھیں ..جب کہ انہی سیدہ اسماء رضی اللہ عنہا کی سگی چھوٹی بہن سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی ہی روایت ہے کہ:
”اللہ کی قسم نبی کریم نے کبھی بیعت کے واسطے بھی کسی غیر محرم عورت کو نہیں چھوا۔“
دوستو! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ پر ایک کجاوہ دھرا ہوتا تھا اس کے پیچھے باقاعدہ ٹیک کے لیے اونچی لکڑی ہوتی تھی ...
یوں اگر کوئی پیچھے بٹھ بھی جائے، بیچ میں لکڑی کی رکاوٹ موجود رہتی تھی ... جیسا کی بخاری حدیث نمبر [5967] میں، سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے بیٹھنے کی کفیت بیان کرتے ہوے فرماتے ہیں:
«ليس بيني و بينه الا آخره الرحل»
”میرےاور آپ کے درمیان سواے کجاوۓ کی لکڑی کے بیچ کچھ نہ تھا۔“
اور خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے کہ کسی غیر محرم عورت کو چھونے سے بہتر ہے کہ جسم میں کوئی لوہے کی کنگھی داخل ہو ے زخمی کر دے - اب خود ہی سوچئے کہ اس تعلیم دینے کے بعد کیا اس بات کا تصور بھی کیا جا سکتا ہے کہ خود آپ ہی اس کا اہتمام نہ کریں۔
جہاں تک تعلق ہے امام نووی رحمہ اللہ کے کے باب کا جو انہوں نے حدیث پر باندھا ہے تو اس سے کس کو انکار ہے .. بنا چھوے، اور جسم ملائے کسی خاتون کو ساتھ بٹھا لینا جائز ضرور ہے .. لیکن یاد رکھیے اس جواز کی صورت وہی ہو گی جو دوسری احادیث کی بیان کردہ شرائط کے مطابق ہو گی۔۔۔۔
ابوبکر قدوسی -
[محدث فورم، حدیث/صفحہ نمبر: 0]
الشيخ الحديث مولانا عبدالعزيز علوي حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث ، صحيح مسلم: 5692
حضرت اسماء بنت ابی بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں، حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے میرے ساتھ ایسے حالات میں شادی کی کہ ان کے پاس اپنے گھوڑے کے سوا کوئی مال و دولت، غلام یا کوئی اور چیز نہ تھی، میں ان کے گھوڑے کے لیے چارہ لاتی اور اس کی ضروریات سے ان کو کفایت کرتی اور میں ہی اس کی دیکھ بھال یا نگہداشت کرتی اور ان کے پانی ڈھونے کے اونٹ کے لیے گٹھلیاں کوٹتی اور اس کو چارہ ڈالتی، پانی لاتی اور ان کے ڈول کو سیتی، آٹا گوندھتی اور مجھے... (مکمل حدیث اس نمبر پر دیکھیں) [صحيح مسلم، حديث نمبر:5692]
حدیث حاشیہ:
فوائد ومسائل:
حضرت اسماء نے جب مکہ مکرمہ میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی کی تو ان کے پاس مال مویشی،
نقدی،
نوکر چاکر اور کاشت کے لیے زمین نہ تھی،
پھر مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے تو حضرت اسماء گھر کے اور باہر کے تمام کام سرانجام دیتی تھی،
حتی کہ اونٹ اور گھوڑے کے لیے چارہ بھی خود لاتیں،
گھوڑے کی دیکھ بھال کرتیں،
پانی ڈھوتیں،
اس طرح چھوٹے موٹے دوسرے کام کرتیں اور عام طور پر متوسط گھرانوں کی عورتیں،
گھریلو کام،
کھانا پکانا،
سینا پرونا،
کپڑے اور برتن دھونا وغیرہ کام خود ہی سرانجام دیتی ہیں،
بلکہ گھر کے باہر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتی ہیں اور یہ چیز میاں بیوی میں پیار و محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے،
گھریلو فرائض کی سرانجام دہی تو متوسط اور غریب خاندانوں کی عورتوں کے لیے مالکیہ اور احناف کے ہاں اخلاقی اور شرعی طور پر ضروری ہے اور بیرونی کام ضروری نہیں ہیں،
وہ محض حسن معاشرت اور احسان کا حصہ ہیں اور امیر گھرانوں کی عورتیں،
جو اپنے ماں باپ کے ہاں،
کام کاج نہیں کرتی تھیں،
ان کے لیے اندرونی یا بیرونی کام کرنا لازم نہیں ہے،
لیکن عموما اچھی گھرانوں کی عورتیں،
یہ کام خود ہی کرتی ہیں،
اپنے ساتھ نوکر چاکر بھی رکھ لیتی ہیں،
لیکن شوافع کے ہاں ہر قسم کی عورتوں کے لیے گھریلو کام کاج کرنا فرض نہیں ہے،
یہ حسن معاشرت اور باہمی پیار و محبت کے تحت ہوتا ہے اور عام طور پر عورتیں یہ کام خود ہی سرانجام دیتی ہیں،
ہمیشہ سے لوگوں کے ہاں یہی معمول چلا آ رہا ہے اور ایسے ہی ہونا چاہیے،
کیونکہ ازواج مطہرات اور آپ کی بیٹیاں گھریلو فرائض خود ہی سرانجام دیتی تھیں،
حتی کہ بعض دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو گھریلو کام کاج میں بہت تکلیف بھی اٹھانا پڑتی تھی،
لیکن آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خادمہ مہیا کرنے کا حکم نہیں دیا،
اس طرح آپ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو حضرت اسماء کے لیے خادمہ مہیا کرنے کے لیے نہیں فرمایا،
حضرت اسماء کے لیے اونٹ بٹھانے سے امام نووی نے استدلال کیا ہے،
یہ اجنبی عورت کو اونٹ پر یا سواری پر پیچھے بٹھانا جائز ہے،
حالانکہ یہ استدلال درست نہیں ہے،
کیونکہ اونٹ بٹھانے سے یہ لازم نہیں آتا،
آپ بھی ساتھ ہی سوار ہو جاتے،
آپ کسی دوسرے ساتھی کے ساتھ سوار ہو سکتے تھے،
نیز حضرت اسماء آپ کے لیے اجنبی نہ تھیں،
وہ آپ کے گھر آمدورفت رکھتی تھیں،
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے کی بیوی تھیں،
حضرت عائشہ کی ہمشیرہ تھیں اور آپ کے یار غار کی صاحب زادی تھیں،
نیز آپ کے پیچھے سوار ہونے کی صورت میں کسی قسم کا خطرہ نہ تھا،
جو کہ ایک بنیادی عنصر ہے،
اس لیے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا،
آپ کے پیچھے سوار ہونا میری غیرت کے لیے ناگوار نہ تھا،
بلکہ دوسروں کو سامنے گٹھلیاں اٹھانا میرے لیے ناگوار ہے اور اس واقعہ کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک نوکرانی دی تاکہ وہ حضرت اسماء کو دے دیں اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا سیاست درحقیقت دوسروں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا نام ہے،
اپنے مفادات اور منافع کے مواقع پیدا کرنے اور لوٹ کھسوٹ کا نام نہیں ہے۔
فوائد ومسائل:
حضرت اسماء نے جب مکہ مکرمہ میں حضرت زبیر رضی اللہ عنہ سے شادی کی تو ان کے پاس مال مویشی،
نقدی،
نوکر چاکر اور کاشت کے لیے زمین نہ تھی،
پھر مدینہ منورہ ہجرت کر کے آئے تو حضرت اسماء گھر کے اور باہر کے تمام کام سرانجام دیتی تھی،
حتی کہ اونٹ اور گھوڑے کے لیے چارہ بھی خود لاتیں،
گھوڑے کی دیکھ بھال کرتیں،
پانی ڈھوتیں،
اس طرح چھوٹے موٹے دوسرے کام کرتیں اور عام طور پر متوسط گھرانوں کی عورتیں،
گھریلو کام،
کھانا پکانا،
سینا پرونا،
کپڑے اور برتن دھونا وغیرہ کام خود ہی سرانجام دیتی ہیں،
بلکہ گھر کے باہر کے کاموں میں بھی ہاتھ بٹاتی ہیں اور یہ چیز میاں بیوی میں پیار و محبت کی علامت سمجھی جاتی ہے،
گھریلو فرائض کی سرانجام دہی تو متوسط اور غریب خاندانوں کی عورتوں کے لیے مالکیہ اور احناف کے ہاں اخلاقی اور شرعی طور پر ضروری ہے اور بیرونی کام ضروری نہیں ہیں،
وہ محض حسن معاشرت اور احسان کا حصہ ہیں اور امیر گھرانوں کی عورتیں،
جو اپنے ماں باپ کے ہاں،
کام کاج نہیں کرتی تھیں،
ان کے لیے اندرونی یا بیرونی کام کرنا لازم نہیں ہے،
لیکن عموما اچھی گھرانوں کی عورتیں،
یہ کام خود ہی کرتی ہیں،
اپنے ساتھ نوکر چاکر بھی رکھ لیتی ہیں،
لیکن شوافع کے ہاں ہر قسم کی عورتوں کے لیے گھریلو کام کاج کرنا فرض نہیں ہے،
یہ حسن معاشرت اور باہمی پیار و محبت کے تحت ہوتا ہے اور عام طور پر عورتیں یہ کام خود ہی سرانجام دیتی ہیں،
ہمیشہ سے لوگوں کے ہاں یہی معمول چلا آ رہا ہے اور ایسے ہی ہونا چاہیے،
کیونکہ ازواج مطہرات اور آپ کی بیٹیاں گھریلو فرائض خود ہی سرانجام دیتی تھیں،
حتی کہ بعض دفعہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو گھریلو کام کاج میں بہت تکلیف بھی اٹھانا پڑتی تھی،
لیکن آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خادمہ مہیا کرنے کا حکم نہیں دیا،
اس طرح آپ نے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو حضرت اسماء کے لیے خادمہ مہیا کرنے کے لیے نہیں فرمایا،
حضرت اسماء کے لیے اونٹ بٹھانے سے امام نووی نے استدلال کیا ہے،
یہ اجنبی عورت کو اونٹ پر یا سواری پر پیچھے بٹھانا جائز ہے،
حالانکہ یہ استدلال درست نہیں ہے،
کیونکہ اونٹ بٹھانے سے یہ لازم نہیں آتا،
آپ بھی ساتھ ہی سوار ہو جاتے،
آپ کسی دوسرے ساتھی کے ساتھ سوار ہو سکتے تھے،
نیز حضرت اسماء آپ کے لیے اجنبی نہ تھیں،
وہ آپ کے گھر آمدورفت رکھتی تھیں،
حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے کی بیوی تھیں،
حضرت عائشہ کی ہمشیرہ تھیں اور آپ کے یار غار کی صاحب زادی تھیں،
نیز آپ کے پیچھے سوار ہونے کی صورت میں کسی قسم کا خطرہ نہ تھا،
جو کہ ایک بنیادی عنصر ہے،
اس لیے حضرت زبیر رضی اللہ عنہ نے کہا تھا،
آپ کے پیچھے سوار ہونا میری غیرت کے لیے ناگوار نہ تھا،
بلکہ دوسروں کو سامنے گٹھلیاں اٹھانا میرے لیے ناگوار ہے اور اس واقعہ کے بعد حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو ایک نوکرانی دی تاکہ وہ حضرت اسماء کو دے دیں اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا سیاست درحقیقت دوسروں کی دیکھ بھال اور نگہداشت کا نام ہے،
اپنے مفادات اور منافع کے مواقع پیدا کرنے اور لوٹ کھسوٹ کا نام نہیں ہے۔
[تحفۃ المسلم شرح صحیح مسلم، حدیث/صفحہ نمبر: 5692]
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 3151
3151. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو زمین عطا فرمائی تھی میں وہاں سے گٹھلیاں اپنے سر پر اٹھا کر لایا کرتی تھی۔ وہ جگہ میرے گھر سے دو تہائی فرسخ پر تھی۔ ابو ضمرہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے اموال میں سے حضرت زبیر ؓ کو زمین عطا فرمائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3151]
حدیث حاشیہ:
حافظ ؒنے کہا میں نے اس تعلیق کو موصولاً نہیں پایا، اس کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ ابوضمرہ نے ابواسامہ کے خلاف اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے نہ کہ موصولاً۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر ؓکو کچھ جاگیر عنایت فرمائی، اسی سے باب کا مطلب نکلا کہ امام خمس وغیرہ میں سے حسب مصلحت تقسیم کرنے کا مختار ہے۔
حافظ ؒنے کہا میں نے اس تعلیق کو موصولاً نہیں پایا، اس کے بیان کرنے سے حضرت امام بخاری ؒ کی غرض یہ ہے کہ ابوضمرہ نے ابواسامہ کے خلاف اس حدیث کو مرسلاً روایت کیا ہے نہ کہ موصولاً۔
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر ؓکو کچھ جاگیر عنایت فرمائی، اسی سے باب کا مطلب نکلا کہ امام خمس وغیرہ میں سے حسب مصلحت تقسیم کرنے کا مختار ہے۔
[صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 3151]
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:3151
3151. حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو جو زمین عطا فرمائی تھی میں وہاں سے گٹھلیاں اپنے سر پر اٹھا کر لایا کرتی تھی۔ وہ جگہ میرے گھر سے دو تہائی فرسخ پر تھی۔ ابو ضمرہ اپنی سند سے بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے اموال میں سے حضرت زبیر ؓ کو زمین عطا فرمائی تھی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:3151]
حدیث حاشیہ:
1۔
حضرت زبیر بن عوام ؓ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ کے شوہر نامدار ہیں۔
وہ زمین ان کے گھر سے تقریباً2۔
میل دور تھی کیونکہ فرسخ3میل کا ہوتا ہے۔
اس اعتبار سے دو تہائی فرسخ 2میل بنتا ہے۔
2۔
امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ امام وقت خمس وغیرہ سے حسب مصلحت تقسیم کرنے کا مجاز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے اموال سے حضرت زبیر ؓ کو زمین عطا کی تھی۔
1۔
حضرت زبیر بن عوام ؓ حضرت اسماء بنت ابی بکر ؓ کے شوہر نامدار ہیں۔
وہ زمین ان کے گھر سے تقریباً2۔
میل دور تھی کیونکہ فرسخ3میل کا ہوتا ہے۔
اس اعتبار سے دو تہائی فرسخ 2میل بنتا ہے۔
2۔
امام بخاری ؒنے اس حدیث سے ثابت کیا ہے کہ امام وقت خمس وغیرہ سے حسب مصلحت تقسیم کرنے کا مجاز ہے جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو نضیر کے اموال سے حضرت زبیر ؓ کو زمین عطا کی تھی۔
[هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 3151]


عبد الله بن أبي مليكة القرشي ← أسماء بنت أبي بكر القرشية