الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحَجِّ حج کے احکام و مسائل 31. باب جَوَازِ الْعُمْرَةِ فِي أَشْهُرِ الْحَجِّ: باب: حج کے مہینوں میں عمرہ کرنے کا جواز۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا کہ لوگ جاہلیت میں (یعنی اسلام کے زمانہ سے پہلے) حج کے دونوں میں عمرہ لانے کو زمین کے اوپر بڑا گناہ جانتے تھے اور محرم کے مہینہ کو صفر کر دیا کرتے تھے (یعنی اس لیے کہ تین مہینے برابر ماہ حرام کے جو آتے ذیقعدہ، ذی الحجہ اور محرم تو وہ گھبرا جاتے اور لوٹ پوٹ نہ کر سکتے اس لیے یہ شرارت نکالی کہ محرم کی جگہ صفر کو لکھ دیا اور خوب لوٹ پاٹ کی اور جب صفر کا مہینہ آیا تو محرم کی طرح اس کا ادب کیا اور یہی نسئی تھی جس کو قرآن میں اللہ تعالیٰ مشرکوں کی عادت فرماتا ہے) کہتے تھے: جب اونٹوں کی پیٹھیں اچھی ہو جائیں (یعنی جو سفر حج کے سبب سے لگ گئی ہیں اور زخمی ہو گئیں ہیں) اور راستوں سے حاجیوں کے اونٹوں کے نشان قدم مٹ جائیں اور صفر کا مہینہ تمام ہو جائے تب عمرہ جائز ہے عمرہ کرنے والے کو پھر جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ چوتھی ذی الحجہ کو حج کا احرام باندھے ہوئے مکہ میں داخل ہوئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم فرمایا کہ اس حج کے احرام کو عمرہ بنا دیں (جیسے مذہب ابن قیم رحمہ اللہ وغیرہ کا ہے کہ اوپر بدلائل گزر چکا) سو یہ لوگوں کو بڑی انوکھی بات لگی اور عرض کی: یا رسول اللہ! ہم کیسے حلال ہوں! (یعنی پورے یا ادھورے کہ بعض چیز سے بچتے رہیں) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پورے حلال ہو۔“ یعنی کسی چیز سے پرہیز کی ضرورت نہیں۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کے فرزند فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبیک پکاری حج کی، پھر جب چار تاریخیں گزریں ذی الحجہ کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز پڑھی، پھر جب نماز صبح سے فارغ ہوئے فرمایا: ”جس کا جی چاہے اس احرم حج کو عمرہ کر ڈالے۔“
چند الفاظ کے فرق کے ساتھ مذکورہ بالا حدیث اس سند سے بھی روایت کی گئی ہے۔
عبداللہ، سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے فرزند سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے اصحاب چوتھی تاریخ ذی الحجہ کی مکہ میں آئے لبیک پکارتے ہوئے حج کی سو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو حکم فرمایا: ”اس کو عمرہ کر ڈالو۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ نماز پڑھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی ذی طویٰ میں (وہ ایک وادی ہے مکہ کے قریب) اور مکہ میں صبح آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب تاریخ چوتھی گزر چکی ذی الحجہ کی اور اپنے یاروں کو حکم فرمایا کہ اپنے حج کے احرام کو عمرہ کر ڈالیں۔ مگر جن کے پاس قربانی ہو۔
سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ عمرہ جس سے ہم نے نفع لیا سو جس کے پاس قربانی نہ ہو وہ اسی طرح حج کا احرام عمرہ کر کے کھول ڈالے اس لیے کہ عمرہ حج کے دنوں میں روا ہو گیا قیامت تک۔“
شعبہ نے ابوجمرہ ضبعی سے سنا ہے کہ انہوں نے کہا: میں نے تمتع کیا اور لوگوں نے مجھے منع کیا۔ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آیا اور ان سے پوچھا، سو انہوں نے مجھے حکم دیا اور پھر میں بیت اللہ کے پاس جا کر سو رہا اور خواب میں دیکھا کہ ایک شخص آیا اور اس نے کہا کہ عمرہ بھی مقبول ہے اور حج بھی مقبول ہے۔ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے خواب بیان کیا کہا: سب بزرگی اللہ کو ہے، سب بزرگی اللہ کو ہے، یہ سنت ہے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ (یعنی پھر کیوں نہ قبول ہو)۔
|