من كتاب الصوم روزے کے مسائل 9. باب في فَضْلِ السُّحُورِ: سحری کھانے کی فضیلت کا بیان
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سحری کرو اس لئے کہ سحری میں برکت ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1738]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1923]، [مسلم 1095]، [ترمذي 708]، [نسائي 2145]، [ابن ماجه 1692]، [أبويعلی 2848]، [ابن حبان 3466]، [شعب الايمان 3908] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
ابوقیس عمرو بن العاص کے غلام نے کہا کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہم کو کھانا رکھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ سحری کریں لیکن کچھ زیادہ تناول نہ کرتے، ہم نے عرض کیا: آپ ہمیں کھانا رکھنے کا حکم تو دیتے ہیں لیکن کچھ زیادہ تناول نہیں فرماتے؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں اس لئے کھانا رکھنے کا حکم نہیں دیتا کہ مجھے کھانے کی بہت زیادہ اشتہاء ہوتی ہے، بلکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے ہیں: ”ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق یہ ہی سحری کھانا ہے“ (اس لئے تھوڑا سا کھا لیتا ہوں)۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1739]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھے: [مسلم 1096]، [أبوداؤد 2343]، [ترمذي 708]، [نسائي 2165]، [أبويعلی 7337] وضاحت:
(تشریح احادیث 1733 سے 1735) پہلی حدیث سے سحری کھانے کی فضیلت ثابت ہوئی کہ اس میں برکت ہے، روزے دار کو تقویت ملتی ہے، سحری کے لئے صائم اٹھتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے، اس کی خوشنودی کے لئے کھانے سے فارغ ہو کر نماز باجماعت پڑھتا ہے، یہ سب فضیلتیں حاصل ہوتی ہیں۔ دوسری حدیث میں بتایا گیا کہ اہلِ کتاب سحری نہیں کرتے اس لئے تم سحری کرو، ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے کھانے کو «الغذاء المبارك» کہا اور نسائی شریف کی ایک روایت میں ہے کہ سحری اللہ تعالیٰ کے عطیات میں سے ہے اس کو چھوڑو نہیں، ان تمام روایات سے سحری کھانے کی فضیلت ثابت ہوئی، اس لئے اس کو چھوڑنا نہ چاہیے، چاہے چند لقے ہی سہی سحری ضرور کرنی چاہیے جیسا کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ کرام کیا کرتے تھے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|