من كتاب الصوم روزے کے مسائل 54. باب في قِيَامِ رَمَضَانَ: رمضان کے مہینے میں قیام کی فضیلت کا بیان
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے رمضان کی راتوں میں نماز تراویح پڑھی ایمان اور ثواب کی نیت سے اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے گئے، اور جو شخص لیلۃ القدر میں ایمان اور نیت اجر و ثواب کے ساتھ نماز کے لئے کھڑا ہو اس کے اگلے تمام گناہ معاف کر دیئے جائیں گے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1817]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1901]، [مسلم 759]، [ترمذي 683]، [نسائي 2204]، [ابن ماجه 1641]، [أبويعلی 960، 5920، 5997]، [ابن حبان 3432، 3632]، [الحميدي 980، 1037]، بخاری میں «من صام» اور مسلم میں «من قام رمضان» ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رمضان کے مہینے کے روزے رکھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پورے مہینے کسی رات میں تراویح نہیں پڑھی یہاں تک کہ جب سات راتیں باقی رہ گئیں (یعنی تئیسویں رات کو) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام فرمایا یعنی تراویح پڑھی یہاں تک کہ رات کا ایک تہائی حصہ گزر گیا، پھر جب چھ راتیں باقی تھیں (یعنی چوبیسویں رات کو) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں کیا، جب پانچویں رات باقی تھی (یعنی پچیسویں شب) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے ساتھ قیام کیا (تراویح پڑھی) یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، ہم نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! ہم رات کے بقیہ حصہ میں بھی نماز پڑھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی امام کے ساتھ نماز میں کھڑا رہے یہاں تک کہ وہ اپنی نماز سے فارغ ہو جائے تو اس کے لیے پوری رات کا قیام لکھا جاتا ہے“، پھر جب چار راتیں باقی رہ گئیں (چھبیسویں رات) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام نہیں فرمایا، اس کے بعد جب تین راتیں باقی رہ گئیں، یعنی ستائیسویں شب، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اہل و عیال (گھر والوں) کو جمع کیا اور لوگ بھی جمع ہو گئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قیام کیا یہاں تک ہم کو ڈر ہوا کہ فلاح فوت ہو جائے گی، ہم نے سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے پوچھا: فلاح سے کیا مراد ہے؟ جواب دیا: سحری کا کھانا، پھر سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیہ دنوں میں قیام نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1818]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1375]، [ترمذي 806]، [نسائي 1364]، [ابن ماجه 1327]، [عبدالرزاق 7706]، [ابن ابي شيبه 394/2]، [أحمد 159/5]، [طحاوي فى شرح معاني الآثار 349/1]، [ابن خزيمه 2206]، [بغوي فى شرح السنة 991، وغيرهم] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
اس سند سے بھی سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ سے حسب سابق مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1819]»
تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1813 سے 1816) پہلی حدیث سے قیام اللیل یا نمازِ تراویح کی فضیلت ثابت ہوئی اور لیلۃ القدر میں جاگنا، قیام و عبادت کرنا ثابت ہوا، اور اس کا اتنا ثواب ہے کہ اگلے گناہ معاف کر دیئے جاتے ہیں، قیام، تراویح، تہجد سب ایک ہی چیز ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف تین رات قیام فرمایا اور نمازِ تراویح پڑھی، بقیہ دنوں میں باجماعت تراویح اس لئے نہیں پڑھیں کہ خوف تھا امّت پر فرض نہ کر دی جائیں «(فِدَاهُ أَبِيْ وَأُمِّيْ)» رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی رمضان و غیر رمضان میں گیارہ رکعت سے زیادہ تراویح یا تہجد نہیں پڑھی، ایک روایت میں 13 رکعت ہے اس لئے سنّت یہی ہے، 20 رکعت سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے عہدِ مبارک میں پڑھی گئیں اس لئے بیس رکعت بھی پڑھی جا سکتی ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جب رات کی نفلی نماز کے بارے میں پوچھا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «صَلَاةُ اللَّيْلِ مَثْنَيٰ مَثْنَيٰ» ”رات کی نماز دو دو رکعت ہے۔ “ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکعات کی تحدید نہیں فرمائی اسی لئے حرمین شریفین میں 20، 36 اور چالیس رکعت تک تراویح پڑھی گئی ہیں لیکن رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل 11 یا 13 رکعت تک محدود رہا ہے اس لئے یہ ہی سنّت اور بہتر و افضل ہے۔ واللہ اعلم۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|