الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
52. باب في النَّهْيِ عَنِ التَّحْلِيلِ:
بڑے آدمی کو دودھ پلانے کا بیان
حدیث نمبر: 2293
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا شعبة، عن اشعث بن سليم، عن ابيه، عن مسروق، عن عائشة: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل عليها وعندها رجل فتغير وجهه، وكانه كره ذلك، فقلت: إنه اخي من الرضاعة، فقال: "انظرن ما إخوانكن فإنما الرضاعة من المجاعة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَشْعَثَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَعِنْدَهَا رَجُلٌ فَتَغَيَّرَ وَجْهُهُ، وَكَأَنَّهُ كَرِهَ ذَلِكَ، فَقُلْتُ: إِنَّهُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ، فَقَالَ: "انْظُرْنَ مَا إِخْوَانُكُنَّ فَإِنَّمَا الرَّضَاعَةُ مِنَ الْمَجَاعَةِ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے، اس وقت ان کے پاس ایک آدمی بیٹھا ہوا تھا، آپ کا چہرہ مبارک بدل گیا اور طبع مبارک پر ناگواری کے آثار دیکھے تو عرض کیا: یہ تو میرا دودھ شریک بھائی ہے، (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ) نے فرمایا: تحقیق و غور کر لو کہ تمہارے (رضاعی) بھائی کون ہیں؟ رضاعت اس وقت معتبر ہے جب دودھ بھوک کے وقت پیا جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2302]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2647، 5102]، [مسلم 1455]، [أبوداؤد 2058]، [نسائي 3312]، [ابن ماجه 1945]، [طيالسي 1569]، [أحمد 94/6، 174]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2292)
یعنی جس وقت دودھ بچے کی غذا ہو اسی وقت رضاعت ثابت ہوگی، اور دوسری احادیث میں ہے کہ اس دودھ کے ذریعہ گوشت پیدا ہو اور ہڈیوں کو مضبوط بنائے، مطلب یہ کہ جو دودھ جزوِ بدن بنے اور گوشت و ہڈی کی نشو و نما کرے اسی دودھ سے حرمت و رضاعت ثابت ہوگی، اور یہ مدت بچے کے پیدا ہونے سے دو سال تک ہے۔
« ﴿حَوْلَيْنِ كَامِلَيْنِ لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يُتِمَّ الرَّضَاعَةَ﴾ [البقرة: 233] » ۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر بڑے آدمی نے کسی عورت کا دودھ پی لیا تو اس سے رضاعت ثابت نہیں ہوگی، اور نہ وہ دودھ پینے والا اس عورت کا رضاعی بیٹا ہوگا اور نہ اس کے لڑکے لڑکیوں کا رضاعی بھائی بنے گا۔
جمہور علمائے کرام کا یہی مسلک ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2294
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو اليمان الحكم بن نافع، اخبرنا شعيب، عن الزهري، عن عروة، عن عائشة، قالت: جاءت سهلة بنت سهيل بن عمرو وكانت تحت ابي حذيفة بن عتبة بن ربيعة، رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: إن سالما مولى ابي حذيفة يدخل علينا وانا فضل وإنما نراه ولدا، وكان ابو حذيفة تبناه كما تبنى النبي صلى الله عليه وسلم زيدا، فانزل الله تعالى: ادعوهم لآبائهم هو اقسط عند الله سورة الاحزاب آية 5 "فامرها النبي صلى الله عليه وسلم عند ذلك ان ترضع سالما". قال ابو محمد: هذا لسالم خاصة.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْيَمَانِ الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيّ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: جَاءَتْ سَهْلَةُ بِنْتُ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو وَكَانَتْ تَحْتَ أَبِي حُذَيْفَةَ بْنِ عُتْبَةَ بْنِ رَبِيعَةَ، رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: إِنَّ سَالِمًا مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَدْخُلُ عَلَيْنَا وَأَنَا فُضُلٌ وَإِنَّمَا نَرَاهُ وَلَدًا، وَكَانَ أَبُو حُذَيْفَةَ تَبَنَّاهُ كَمَا تَبَنَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ زَيْدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: ادْعُوهُمْ لآبَائِهِمْ هُوَ أَقْسَطُ عِنْدَ اللَّهِ سورة الأحزاب آية 5 "فَأَمَرَهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عِنْدَ ذَلِكَ أَنْ تُرْضِعَ سَالِمًا". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: هَذَا لِسَالِمٍ خَاصَّةً.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: سیدہ سہلہ بنت سہیل بن عمرو رضی اللہ عنہا جو سیدنا ابوحذیفہ بن عتبہ بن ربیعہ رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا: ابوحذیفہ کا غلام سالم ہمارے گھر میں آتا ہے اور میں گھر کے معمولی لباس میں ہوتی ہوں، اور ہم اسے اپنا بچہ تصور کرتے ہیں، اور ابوحذیفہ نے ان کو متبنی کر لیا تھا جیسے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو متبنی بنا لیا تھا یہاں تک کہ یہ آیت: «﴿ادْعُوهُمْ لِآبَائِهِمْ ...... ﴾» [احزاب: 5/33] نازل ہوئی۔ بہر حال ان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ وہ سالم کو دودھ پلا دیں۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: بڑے آدمی کو دودھ پلانا یہ صرف سالم کے لئے خاص تھا۔ یعنی اور کوئی بڑا دودھ پی لے تو حرمت ثابت نہ ہو گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2303]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5088]، [مسلم 1453]، [نسائي 3320]، [ابن ماجه 1943]، [ابن حبان 4213، 4215]، [مسند الحميدي 280]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2293)
صحیح بخاری کی روایت میں ہے کہ سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی نے کہا: اے اللہ کے رسول! اب سالم بڑا ہوگیا ہے، میں اسے کس طرح دودھ پلاؤں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرائے اور فرمایا: مجھے معلوم ہوا کہ وہ مرد ہو گیا ہے، جاؤ اسے دودھ پلا دو۔
اس سے مقصد یہ تھا کہ ان کے شوہر کے دل سے کھٹکا نکل جائے اور گھر میں آنے جانے میں پردے کا اہتمام اور مشقت نہ اٹھانی پڑے۔
یہ حدیث بڑی عمر کے آدمی کے دودھ پینے پر حرمت کے ثبوت پر دلالت کرتی ہے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا اور وداود ظاہری کا یہی مسلک ہے۔
لیکن یہ پہلی حدیث کے معارض ہے جس میں مذکور ہے کہ رضاعت دو سال کے دوران ثابت ہو تو حرمت ثابت ہوتی ہے جو جمہور علماء کا مسلک ہے، اور انہوں نے اس آخر الذکر حدیث سالم کا جواب دیا ہے کہ یہ حکم صرف سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ امام دارمی رحمہ اللہ نے بھی ذکر کیا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے کہا کہ رضاعت کے معاملے میں بچپن (کی مدتِ رضاعت) ہی کا اعتبار کیا جائے گا الا یہ کہ جب کوئی حاجت یا ضرورت پیش آجائے، جیسا کہ بڑی عمر کے آدمی کی رضاعت کا مسئلہ ہے جسے عورت کے پاس جانا ناگزیر ہے اور عورت کا اس سے پردہ کرنا بھی دشوار ہے، جیسا کہ سیدنا سالم رضی اللہ عنہ کا سیدنا ابوحذیفہ رضی اللہ عنہ کی بیوی کے ساتھ مسئلہ تھا، اس طرح کے بڑی عمر کے آدمی کو جب ضرورت و حاجت کے لئے عورت نے دودھ پلایا تھا تو اس مرد کا دودھ پینا موثر ہوگا۔
ایک اشکال یہاں یہ پیدا ہوتا ہے کہ سیدہ سہلہ رضی اللہ عنہا نے جوان آدمی کو کس طرح دودھ پلایا، اس کا جواب قاضی عیاض نے یہ دیا ہے کہ ممکن ہے سیدہ سہلہ رضی اللہ عنہا نے دودھ نکال کر پلا دیا ہو اور پستان نکالنے یا چھونے کی نوبت ہی نہ آئی ہو، اور نہ دونوں کے جسم باہم ملے ہوں (انتہیٰ کلامہ)۔
نیز چھاتی سے بھی اگر پلایا ہو تو ممکن ہے کیونکہ سیدنا سالم رضی اللہ عنہ ان کے بچپن کے پالے ہوئے لے پالک اور مثل بیٹے کے تھے اور انہوں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر ایسا کیا تھا، لہٰذا قباحت نہ رہی۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.