الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب النكاح
نکاح کے مسائل
2. باب مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَوْلٌ فَلْيَتَزَوَّجْ:
اس کا بیان کہ جس کے پاس استطاعت ہو اس کو شادی کر لینی چاہیے
حدیث نمبر: 2202
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن عمارة، عن عبد الرحمن بن يزيد، قال: قال عبد الله: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم شبابا ليس لنا شيء، فقال:"يا معشر الشباب من استطاع منكم الباءة، فليتزوج فإنه اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم يستطع، فعليه بالصوم فإن الصوم له وجاء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ عُمَارَة، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ، قَال: قَالَ عَبْدُ اللَّه: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَبَابًا لَيْسَ لَنَا شَيْءٌ، فَقَال:"يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنِ اسْتَطَاعَ مِنْكُمُ الْبَاءَة، فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ، فَعَلَيْهِ بِالصَّوْمِ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم نوجوان، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے اور ہمیں کوئی چیز میسر نہ تھی۔ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے نو جوانو! تم میں سے جس کے پاس نکاح کی طاقت ہو اسے نکاح کر لینا چاہیے کیونکہ یہ نظر کو بہت زیادہ نیچی رکھنے والا اور شرم گاہ کی حفاظت کرنے والا عمل ہے، اور جو نکاح کی (بوجہ غربت) طاقت نہ رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ روزے رکھے کیونکہ روزہ اس کی نفسانی (جنسی) خواہشات کا توڑ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2211]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1905، 5066]، [مسلم 1400]، [ترمذي 1081]، [نسائي 2238]، [أبويعلی 5110]، [ابن حبان 4026]، [الحميدي 115]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2201)
اس حدیث میں نکاح کے فوائد بیان کئے گئے ہیں کہ وہ غیر عورتوں سے زنا کاری و فحاشی سے بچنے اور نظر نیچی رکھنے کا سبب ہے، اور جس کو نکاح کی طاقت نہ ہو اس کو روزہ رکھنے کا حکم ہے کیونکہ روزہ شہوت کو کم کر دیتا ہے، بلکہ كل خواہشیں روزے سے ٹوٹ جاتی ہیں۔
اس حدیث میں نکاح کی قوت و استطاعت سے مراد کھانے، کپڑے، مہر اور جماع کی طاقت ہے، اور نکاح کرنا سنّت ہے۔
استطاعت کے باوجود نکاح نہ کرنا خلافِ سنّت ہے، اور اگر گناه میں پڑ جانے کا اندیشہ ہو تو نکاح کرنا واجب ہے، اس صورت میں نکاح نہ کر کے گناہ کا مرتکب ہوگا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2203
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله، قال: لقيه عثمان وانا معه، فقال له: يا ابا عبد الرحمن هل لك في جارية بكر تذكرك؟، فقال: قلت: ذاك فقد سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:"يا معشر الشباب من كان يستطيع منكم الباءة فليتزوج فإنه اغض للبصر واحصن للفرج ومن لم يستطع فليصم فإن الصوم له وجاء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَة، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: لَقِيَهُ عُثْمَانُ وَأَنَا مَعَهُ، فَقَالَ لَهُ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ هَلْ لَكَ فِي جَارِيَةٍ بِكْرٍ تُذَكِّرُك؟، فَقَالَ: قُلْتَ: ذَاكَ فَقَدْ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:"يَا مَعْشَرَ الشَّبَابِ مَنْ كَانَ يَسْتَطِيعُ مِنْكُمْ الْبَاءَةَ فَلْيَتَزَوَّجْ فَإِنَّهُ أَغَضُّ لِلْبَصَرِ وَأَحْصَنُ لِلْفَرْجِ وَمَنْ لَمْ يَسْتَطِعْ فَلْيَصُمْ فَإِنَّ الصَّوْمَ لَهُ وِجَاءٌ".
علقمہ نے کہا: میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا کہ ان سے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے (منیٰ میں) ملاقات کی اور فرمایا: اے ابوعبدالرحمٰن! کیا آپ منظور کریں گے کہ ہم آپ کا نکاح کسی کنواری لڑکی سے کردیں؟ جو آپ کو گزرے ہوئے ایام یاد دلا دے، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے جواب دیا: اگر آپ کا یہ مشورہ ہے تو سنیے، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: اے نوجوانو! تم میں جو بھی شادی کی طاقت رکھتا ہو اس کو نکاح کر لینا چاہیے اور جو طاقت نہ رکھتا ہو اسے روزہ رکھنا چاہیے کیونکہ یہ خواہشِ نفسانی کو توڑ دے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2212]»
اس روایت کی سند صحیح و حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1905، 5060]، [مسلم 1398]، [أبوداؤد 2046]، [ترمذي 1081]، [نسائي 2239]، [ابن ماجه 1845]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2202)
یعنی خصی ہونے سے یہ بہتر و افضل ہے کہ روزہ رکھ کر شہوت کو کم کیا جائے، خصی ہونے کی کسی حالت میں اجازت نہیں، اس لئے مجرد نوجوانوں کو بکثرت روزہ رکھنا چاہیے کہ خواہشِ نفسانی ان کو گناہ پر نہ ابھار سکے۔
آج کی دنیا میں ایسے خدا ترس ایماندار نوجوانوں کا فرض ہے کہ سینما بازی و فحش رسائل کے پڑھنے اور ریڈیائی فحش گانوں کے سننے سے بالکل دور رہیں۔
وجاء کے معنی خصی ہو جانا ہے، یعنی روزہ رکھنے سے گویا شہوت کا زور ٹوٹ گیا اور آدمی خصی ہوگیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.