الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الطلاق
طلاق کے مسائل
15. باب في تَخْيِيرِ الأَمَةِ تَكُونُ تَحْتَ الْعَبْدِ فَتُعْتَقُ:
لونڈی جو غلام کے نکاح میں ہو آزاد ہونے کے بعد اس کو اختیار ہو گا
حدیث نمبر: 2326
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن الاسود، عن عائشة: انها ارادت ان تشتري بريرة، فاراد مواليها ان يشترطوا ولاءها، فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: "اشتريها، فإنما الولاء لمن اعتق"، فاشترتها فاعتقتها، وخيرها من زوجها وكان حرا وان النبي صلى الله عليه وسلم اتي بلحم، فقال:"من اين هذا؟"قيل: تصدق به على بريرة، فقال:"هو لها صدقة، ولنا هدية".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ الْأَسْوَدِ، عَنْ عَائِشَةَ: أَنَّهَا أَرَادَتْ أَنْ تَشْتَرِيَ بَرِيرَةَ، فَأَرَادَ مَوَالِيهَا أَنْ يَشْتَرِطُوا وَلَاءَهَا، فَذَكَرَتْ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: "اشْتَرِيهَا، فَإِنَّمَا الْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ"، فَاشْتَرَتْهَا فَأَعْتَقَتْهَا، وَخَيَّرَهَا مِنْ زَوْجِهَا وَكَانَ حُرًّا وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أُتِيَ بِلَحْمٍ، فَقَالَ:"مِنْ أَيْنَ هَذَا؟"قِيلَ: تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَقَالَ:"هُوَ لَهَا صَدَقَةٌ، وَلَنَا هَدِيَّةٌ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو خریدنے کا ارادہ کیا تو اس کے مالکان نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی میراث کی اپنے لئے شرط لگانی چاہی (یعنی ہم بیچ دیں گے لیکن اس کا ولاء ہمارے لئے ہوگا)، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بریرہ کو خرید لو اور ولاء تو اس کا ہے جو غلام یا لونڈی کو آزاد کرے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: لہٰذا میں نے بریرہ کو خریدا اور اسے آزاد کر دیا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اختیار دیا شوہر کے پاس رہنے کا جو کہ آزاد تھے، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں گوشت پیش کیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کہاں سے آیا؟ عرض کیا گیا: بریرہ کے لئے صدقہ آیا تھا۔ فرمایا: وہ اس کے لئے صدقہ تھا اور ہمارے لئے اس کی طرف سے ہدیہ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2335]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2168، 5284]، [مسلم 1504]، [أبويعلی 4435]، [ابن حبان 4269]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2325)
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا: علماء کا اس پر اجماع ہے کہ جب لونڈی آزاد ہو جائے اور اس کا شوہر غلام ہو تو لونڈی کو اختیار ہوگا، چاہے نکاح فسخ کر ڈالے چاہے باقی رکھے، اور اگر اس کا خاوند آزاد ہو تو عورت کو اختیار نہ ہوگا، امام مالک، امام شافعی رحمہما اللہ و جمہور علماء کا یہی قول ہے۔
امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے نزدیک چاہے شوہر آزاد ہو تب بھی لونڈی کو اختیار ہوگا، اور ان کی دلیل مذکورہ بالا روایت ہے کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر آزاد تھے، لیکن یہ جملہ قابلِ اعتبار نہیں کیونکہ اکثر رواۃ نے بیان کیا ہے کہ ان کے شوہر مغیث بھی غلام تھے۔
نیز بخاری و مسلم کی روایت میں ہے کہ جب شعبہ یا نافع سے پوچھا گیا کہ مغیث آزاد تھے تو انہوں نے کہا: پتہ نہیں آ زاد تھے یا غلام، لہٰذا یہ کہنا کہ وہ غلام تھے شاذ ہے اور قابلِ احتجاج نہیں، اور اگر آزاد ہی ہوتے تو پھر اختیار دیئے جانے کا کیا فائدہ۔
اس حدیث میں عام قاعده مذکور ہے کہ لونڈی یا غلام کو آزاد کیا جائے تو اس کا ولاء (میراث) آزاد کرنے والے کی ملکیت ہوگی۔
نیز یہ کہ اگر کسی غریب مسکین کو صدقہ دیا جائے اور وہ مسکین اسی کو ہدیہ دے تو یہ صدقہ نہیں ہدیہ ہوگا۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
حدیث نمبر: 2327
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسماعيل بن خليل، حدثنا علي بن مسهر، حدثنا هشام بن عروة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة، قالت: دخل النبي صلى الله عليه وسلم علي فقربت إليه طعاما ليس فيه لحم، فقال: "الم ار لكم قدرا منصوبة؟"قلت: يا رسول الله، هذا لحم تصدق به على بريرة، فاهدت لنا، قال:"هو عليها صدقة، وهو لنا منها هدية"، وكان لها زوج، فلما عتقت، خيرت.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ خَلِيلٍ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: دَخَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَيَّ فَقَرَّبْتُ إِلَيْهِ طَعَامًا لَيْسَ فِيهِ لَحْمٌ، فَقَالَ: "أَلَمْ أَرَ لَكُمْ قِدْرًا مَنْصُوبَةً؟"قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا لَحْمٌ تُصُدِّقَ بِهِ عَلَى بَرِيرَةَ، فَأَهْدَتْ لَنَا، قَالَ:"هُوَ عَلَيْهَا صَدَقَةٌ، وَهُوَ لَنَا مِنْهَا هَدِيَّةٌ"، وَكَانَ لَهَا زَوْجٌ، فَلَمَّا عُتِقَتْ، خُيِّرَتْ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے کھانا پیش کیا جس میں گوشت نہیں تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا میں تمہاری گوشت کی ہانڈی چڑھی ہوئی نہیں دیکھ رہا ہوں؟ میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ گوشت بریرہ کو صدقہ میں ملا ہے، اور بریرہ نے ہمیں ہدیہ کر دیا، اور آپ تو صدقہ کھاتے نہیں، فرمایا: وہ ان کے لئے صدقہ ہے اور ہمارے لئے بریرہ کی طرف سے ہدیہ ہے، اور ان کا (بریرہ کا) شوہر تھا جب وہ آزاد کر دی گئیں تو انہیں شوہر کے بارے میں اختیار دیا گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو طرف من الحديث السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 2336]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5279]، [مسلم 1505]، [نسائي 3448، وغيرهم كما تقدم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2326)
اس حدیث سے بھی معلوم ہوا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے اور انہیں اختیار دیا گیا کہ مغیث کی زوجیت میں رہیں یا نہ رہیں، اور انہوں نے جدائی کو ترجیح دی جیسا کہ آگے آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو طرف من الحديث السابق
حدیث نمبر: 2328
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الرحمن بن الضحاك، عن المغيرة بن عبد الرحمن المخزومي، عن هشام بن عروة، عن عبد الرحمن بن القاسم، عن ابيه، عن عائشة:"ان بريرة حين اعتقتها عائشة، كان زوجها عبدا، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يحضها عليه، فجعلت تقول لرسول الله صلى الله عليه وسلم اليس لي ان افارقه؟ قال:"بلى"، قالت: فقد فارقته.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ الضَّحَّاكِ، عَنْ الْمُغِيرَةِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمَخْزُومِيِّ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ:"أَنَّ بَرِيرَةَ حِينَ أَعْتَقَتْهَا عَائِشَةُ، كَانَ زَوْجُهَا عَبْدًا، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَحُضُّهَا عَلَيْهِ، فَجَعَلَتْ تَقُولُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلَيْسَ لِي أَنْ أُفَارِقَهُ؟ قَالَ:"بَلَى"، قَالَتْ: فَقَدْ فَارَقْتُهُ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب انہوں نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کو آزاد کیا اس وقت ان کا شوہر غلام تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے شوہر کے بارے میں ترغیب دلاتے تھے (کہ اسے چھوڑیں نہیں) اور وہ برابر کہتی رہتیں: کیا میرے لئے اختیار نہیں ہے کہ میں اس سے جدائی کرلوں؟ فرمایا: ہاں اختیار تو ہے، تو سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: پھر میں نے اس سے جدائی کر لی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو طرف من الحديث السابق، [مكتبه الشامله نمبر: 2337]»
اس روایت کی تخریج وتشریح اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو طرف من الحديث السابق
حدیث نمبر: 2329
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عمرو بن عون، اخبرنا خالد بن عبد الله، عن خالد يعني الحذاء عن عكرمة، عن ابن عباس: ان زوج بريرة كان عبدا يقال له: مغيث، كاني انظر إليه يطوف خلفها يبكي ودموعه تسيل على لحيته، فقال النبي صلى الله عليه وسلم للعباس:"يا عباس، الا تعجب من شدة حب مغيث بريرة، ومن شدة بغض بريرة مغيثا؟"فقال لها:"لو راجعتيه فإنه ابو ولدك"، فقالت: يا رسول الله اتامرني؟ قال:"إنما انا شافع"، قالت: لا حاجة لي فيه.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ خَالِدٍ يَعْنِي الْحَذَّاءَ عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ: أَنَّ زَوْجَ بَرِيرَةَ كَانَ عَبْدًا يُقَالُ لَهُ: مُغِيثٌ، كَأَنِّي أَنْظُرُ إِلَيْهِ يَطُوفُ خَلْفَهَا يَبْكِي وَدُمُوعُهُ تَسِيلُ عَلَى لِحْيَتِهِ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِلْعَبَّاسِ:"يَا عَبَّاسُ، أَلَا تَعْجَبُ مِنْ شِدَّةِ حُبِّ مُغِيثٍ بَرِيرَةَ، وَمِنْ شِدَّةِ بُغْضِ بَرِيرَةَ مُغِيثًا؟"فَقَالَ لَهَا:"لَوْ رَاجَعْتِيهِ فَإِنَّهُ أَبُو وَلَدِكِ"، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَتَأْمُرُنِي؟ قَال:"إِنَّمَا أَنَا شَافِعٌ"، قَالَتْ: لَا حَاجَةَ لِي فِيهِ.
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے روایت کیا کہ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے شوہر غلام تھے جن کا نام مغیث تھا، گویا کہ میں اسے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کے آگے پیچھے طواف کرتے دیکھ رہا ہوں اور آنسوؤں سے اس کی داڑھی تر ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عباس رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اے عباس! دیکھو تو کیا تمہیں تعجب نہیں ہوتا کہ مغیث کو بریرہ سے کتنی زیادہ محبت ہے اور بریرہ کو مغیث سے اتنی ہی زیادہ نفرت ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا سے کہا: تم اپنے فیصلے پر نظرِ ثانی کر لو کیونکہ وہ تمہارے بچے کا باپ ہے۔ سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! کیا یہ آپ کا حکم ہے؟ فرمایا: نہیں، میں سفارش کر رہا ہوں، سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا نے کہا: تب پھر (مجھے اس میں نظرِ ثانی کی ضرورت نہیں ہے اور) مجھے مغیث نہیں چاہیے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2338]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5283]، [أبوداؤد 2231]، [نسائي 5432]، [ابن ماجه 2075]، [ابن حبان 4270]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2327 سے 2329)
ان تمام روایات سے یہ ثابت ہوا کہ لونڈی کا شوہر اگر غلام ہے تو آزاد ہونے کے بعد اس کو اختیار ہے چاہے تو شوہر کے پاس رہے اور چاہے تو جدائی اختیار کرے، یہاں سیدہ بریرہ رضی اللہ عنہا کی سمجھداری اور ہوشمندی بھی سامنے آئی، پوچھا اگر آپ کا حکم ہے تو سر آنکھوں پر، اور اسی طرح رسولِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رحم دلی اور بیانِ شریعت میں قلبی جذبہ اور رجحان سے دوری بھی سامنے آئی، جب فرمایا کہ نہیں، شریعت کی رو سے تو تمہیں اختیار ہے لیکن میری سفارش ہے کہ تم مغیث کو مایوس نہ کرو۔
«فداه أبى وأمي وصلى اللّٰه على نبينا محمد وعلى آله وصحبه أجمعين ومن تبعهم باحسان إلى يوم الدين.»

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.