وعن عمر بن الخطاب انه خرج يوما إلى مسجد رسول الله صلى الله عليه وسلم فوجد معاذ بن جبل قاعدا عند قبر النبي صلى الله عليه وسلم يبكي فقال: ما يبكيك؟ قال: يبكيني شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن يسير الرياء شرك ومن عادى لله وليا فقد بارز الله بالمحاربة إن الله يحب الابرار الاتقياء الاخفياء الذين إذا غابوا لم يتفقدوا وإن حضروا لم يدعوا ولم يقربوا قلوبهم مصابيح الهدى يخرجون من كل غبراء مظلمة» . رواه ابن ماجه والبيهقي في «شعب الإيمان» وَعَن عمر بن الْخطاب أَنَّهُ خَرَجَ يَوْمًا إِلَى مَسْجِدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَجَدَ مُعَاذَ بْنَ جَبَلٍ قَاعِدًا عِنْدَ قَبْرِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَبْكِي فَقَالَ: مَا يُبْكِيكَ؟ قَالَ: يُبْكِينِي شَيْءٌ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ يَسِيرَ الرِّيَاءِ شِرْكٌ وَمَنْ عَادَى لِلَّهِ وَلِيًّا فَقَدْ بَارَزَ اللَّهَ بِالْمُحَارَبَةِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْأَبْرَارَ الْأَتْقِيَاءَ الْأَخْفِيَاءَ الَّذِينَ إِذَا غَابُوا لَمْ يُتَفَقَّدُوا وَإِنْ حَضَرُوا لَمْ يُدْعَوْا وَلَمْ يُقَرَّبُوا قُلُوبُهُمْ مَصَابِيحُ الْهُدَى يَخْرُجُونَ مِنْ كُلِّ غَبْرَاءَ مُظْلِمَةٍ» . رَوَاهُ ابْنُ مَاجَهْ وَالْبَيْهَقِيُّ فِي «شُعَبِ الْإِيمَانِ»
عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مسجد کی طرف آئے تو انہوں نے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی قبر کے پاس روتا ہوا دیکھ کر ان سے پوچھا: تمہیں کون سی چیز رلا رہی ہے؟ انہوں نے فرمایا: مجھے وہ چیز رلا رہی ہے جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے سنی تھی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”معمولی سی ریا کاری بھی شرک ہے، اور جس شخص نے میرے کسی دوست سے دشمنی رکھی تو وہ شخص اللہ کے ساتھ جنگ کرنے کے لیے میدان میں اتر آیا، بے شک اللہ ایسے نیک، متقی اور گم نام لوگوں کو پسند کرتا ہے کہ جب وہ غائب ہوں تو انہیں تلاش نہ کیا جاتا ہو اور اگر موجود ہوں تو انہیں مدعو نہیں کیا جاتا اور نہ انہیں قریب کیا جاتا ہے۔ ان کے دل ہدایت کے چراغ ہیں، وہ ہر قسم کے گرد و غبار سے دور ہیں۔ “(کسی فتنے کا شکار نہیں ہوتے) اسنادہ ضعیف جذا، رواہ ابن ماجہ و البیھقی فی شعب الایمان۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف جدًا، رواه ابن ماجه (3989) و البيھقي في شعب الإيمان (6812)»