سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ معزز ایمان یہ ہے کہ لوگ تمہیں امانت دار سمجھیں، اور سب سے زیادہ معزز اسلام یہ ہے کہ لوگ تمہارى زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں، اور سب سے زیادہ معزز ہجرت یہ ہے کہ تم گناہوں کو چھوڑ دو، اور سب سے زیادہ معزز جہاد یہ ہے کہ تم اپنى جان اس کى راہ میں دے دو اور تمہارا گھوڑا بھى ذبح ہو جائے۔“
حدثنا ابو الدحداح احمد بن محمد بن إسماعيل العذري الدمشقي ، بدمشق، حدثنا موسى بن عامر ابو عامر ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا خليد بن دعلج ، حدثنا ابو غالب ، قال: جيء برءوس الخوارج، فنصبت على درج مسجد دمشق، فجعل الناس ينظرون إليها، وخرجت انا انظر إليها، فجاء ابو امامة ، على حمار وعليه قميص سنبلاني، فنظر إليهم، فقال:"ما صنع الشيطان بهذه الامة؟، يقولها ثلاثا، شر قتلى تحت ظل السماء هؤلاء، خير قتلى تحت ظل السماء من قتله هؤلاء، هؤلاء كلاب النار، يقولها ثلاثا ثم بكى، ثم انصرف، قال ابو غالب: فاتبعته، فقلت: سمعتك تقول قولا قبل، فانت قلته؟، فقال: سبحان الله، إني إذا لجريء، بل سمعت ذلك من رسول الله صلى الله عليه وسلم مرارا، فقلت له: رايتك بكيت، فقال: رحمة لهم كانوا من اهل الإسلام مرة، ثم قال لي: اما تقرا؟ قلت: بلى قال: فاقرا من آل عمران، فقرات، فقال: اما تسمع قول الله عز وجل: فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه سورة آل عمران آية 7 كان في قلوب هؤلاء زيغ، فزيغ بهم، اقرا عند راس المائة، فقرات حتى إذا بلغت: يوم تبيض وجوه وتسود وجوه فاما الذين اسودت وجوههم اكفرتم بعد إيمانكم سورة آل عمران آية 106، فقلت: يا ابا امامة، اهم هؤلاء؟ قال: نعم هم هؤلاء". لم يروه عن خليد بن دعلج، إلا ابن الوليدحَدَّثَنَا أَبُو الدَّحْدَاحِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْمَاعِيلُ الْعُذْرِيُّ الدِّمَشْقِيُّ ، بِدِمَشْقَ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَامِرٍ أَبُو عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا خُلَيْدُ بْنُ دَعْلَجٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو غَالِبٍ ، قَالَ: جِيءَ بِرُءُوسِ الْخَوَارِجِ، فَنُصِبَتْ عَلَى دَرَجِ مَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَجَعَلَ النَّاسُ يَنْظُرُونَ إِلَيْهَا، وَخَرَجْتُ أَنَا أَنْظُرُ إِلَيْهَا، فَجَاءَ أَبُو أُمَامَةَ ، عَلَى حِمَارٍ وَعَلَيْهِ قَمِيصٌ سُنْبُلانِيُّ، فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ، فَقَالَ:"مَا صَنَعَ الشَّيْطَانُ بِهَذِهِ الأُمَّةِ؟، يَقُولُهَا ثَلاثًا، شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ هَؤُلاءِ، خَيْرُ قَتْلَى تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ مَنْ قَتَلَهُ هَؤُلاءِ، هَؤُلاءِ كِلابُ النَّارِ، يَقُولُهَا ثَلاثًا ثُمَّ بَكَى، ثُمَّ انْصَرَفَ، قَالَ أَبُو غَالِبٍ: فَاتَّبَعْتُهُ، فَقُلْتُ: سَمِعْتُكَ تَقُولُ قَوْلا قَبْلُ، فَأَنْتَ قُلْتَهُ؟، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، إِنِّي إِذًا لَجَرِيءٌ، بَلْ سَمِعْتُ ذَلِكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِرَارًا، فَقُلْتُ لَهُ: رَأَيْتُكَ بَكَيْتَ، فَقَالَ: رَحْمَةً لَهُمْ كَانُوا مِنْ أَهْلِ الإِسْلامِ مَرَّةً، ثُمَّ قَالَ لِي: أَمَا تَقْرَأُ؟ قُلْتُ: بَلَى قَالَ: فَاقْرَأْ مِنْ آلِ عِمْرَانَ، فَقَرَأْتُ، فَقَالَ: أَمَا تَسْمَعُ قَوْلَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ سورة آل عمران آية 7 كَانَ فِي قُلُوبِ هَؤُلاءِ زَيْغٌ، فَزِيغَ بِهِمُ، اقْرَأْ عِنْدَ رَأْسِ الْمِائَةِ، فَقَرَأْتُ حَتَّى إِذَا بَلَغْتُ: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ سورة آل عمران آية 106، فَقُلْتُ: يَا أَبَا أُمَامَةَ، أَهُمْ هَؤُلاءِ؟ قَالَ: نَعَمْ هُمْ هَؤُلاءِ". لَمْ يَرْوِهِ عَنْ خُلَيْدِ بْنِ دَعْلَجٍ، إِلا ابْنُ الْوَلِيدِ
ابوغالب بیان کرتے ہیں جب خارجیوں کے سر لائے گئے اور مسجد دمشق کى ایک سیڑھى پر رکھے گئے تو لوگ انہیں دیکھنے آرہے تھے، میں بھى انہیں دیکھنے نکلا تو ابوامامہ رضی اللہ عنہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے، وہ ایک سنبلانی قمیص پہنے ہوئے تھے، انہوں نے ان کو دیکھا اور کہنے لگے: اس امّت کے ساتھ شیطان نے کیا کچھ کر دیا۔ یہ بات انہوں نے دو دفعہ کہى، پھر فرمایا: آسمان کے سائے تلے سب سے بدترین مقتول یہ ہیں اور جنہیں انہوں نے قتل کیا وہ بہترین مقتول ہیں۔ پھر فرمایا: یہ (خارجى) جہنم کے کتے ہیں۔ تین دفعہ کہہ کر رو پڑے، پھر واپس چلے گئے۔ ابوغالب نے کہا: میں بھی ان کے پیچھے چلا گیا، پھر میں نے کہا: میں نے آپ سے تھوڑى دیر پہلے ایک بات سنى ہے تو کیا وہ بات آپ نے کہی ہے؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ میں ایسی جرأت کیسے کر سکتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کئى بار فرماتے ہوئے سنا ہے۔ میں نے کہا: پھر آپ روئے بھى ہیں، تو وہ کہنے لگے: ہاں، ان پر رحم کھاتے ہوئے کہ وہ بھی پہلے کبھى مسلمان تھے۔ پھر انہوں نے مجھے فرمایا: کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، تو کہنے لگے: آل عمران پڑھو، میں نے پڑھى تو فرمانے لگے: کیا تم نے سنا ہے کہ اللہ تعالىٰ فرماتے ہیں کہ ”جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ قرآن کى متشابہ آیات پر چلتے ہیں“، گویا ان کے دلوں میں کجی تھى جس نے انہیں ٹیڑھا چلایا۔ پھر کہا: سو (100) آیات کے آخر سے پڑھیں، تو میں نے پڑھا: ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ ”جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے انہیں کہا جائے گا: کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا تھا؟“ تو میں نے کہا: اے ابوامامہ! کیا یہ وہى لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! یہ وہى لوگ ہیں۔
وبه وبه قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"من كذب علي متعمدا فليتبوا مقعده من النار"وَبِهِ وَبِهِ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"مَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ"
اسی سند سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے، تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تو وہ صاف سل پر چیونٹی کے تاریکی رات میں چلنے کو دس فرسخ کی مسافت سے دیکھ رہا تھا۔“
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک گناہ نہیں بخشا جاتا، اور ایک گناہ نہیں چھوڑا جاتا، اور ایک گناہ بخش دیا جاتا ہے۔ جو گناہ نہیں بخشا جاتا ہے وہ اللہ ساتھ شرک کرنا ہے، اور جو گناہ نہیں چھوڑا جاتا وہ لوگوں کے ایک دوسرے پر ظلم ہیں، اور جو گناہ بخش دیا جاتا ہے وہ بندے کى اللہ کے حقوق میں کوتاہى ہے۔“
حدثنا احمد بن الحسين بن نصر الحذاء البغدادي ، حدثنا شباب العصفري ، حدثنا انيس بن سوار الجرمي ، حدثنا ابي ، حدثنا مالك بن الحويرث ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إذا اراد الله جل ذكره ان يخلق النسمة، فجامع الرجل المراة طار ماؤه في كل عرق وعصب منها، فإذا كان يوم السابع احضر الله له كل عرق بينه وبين آدم، ثم قرا: في اي صورة ما شاء ركبك سورة الانفطار آية 8"، لا يروى عن مالك بن الحويرث إلا بهذا الإسناد، تفرد به ابن سوارحَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ نَصْرٍ الْحَذَّاءُ الْبَغْدَادِيُّ ، حَدَّثَنَا شَبَابٌ الْعُصْفُرِيُّ ، حَدَّثَنَا أُنَيْسُ بْنُ سَوَّارٍ الْجَرْمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ الْحُوَيْرِثِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِذَا أَرَادَ اللَّهُ جَلَّ ذِكْرُهُ أَنْ يَخْلُقَ النَّسَمَةَ، فَجَامَعَ الرَّجُلُ الْمَرْأَةَ طَارَ مَاؤُهُ فِي كُلِّ عِرْقٍ وَعَصَبٍ مِنْهَا، فَإِذَا كَانَ يَوْمُ السَّابِعِ أَحْضَرَ اللَّهُ لَهُ كُلَّ عِرْقٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ آدَمَ، ثُمَّ قَرَأَ: فِي أَيِّ صُورَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ سورة الانفطار آية 8"، لا يُرْوَى عَنْ مَالِكِ بْنِ الْحُوَيْرِثِ إِلا بِهَذَا الإِسْنَادِ، تَفَرَّدَ بِهِ ابْنُ سَوَّارٍ
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ کوئى روح پیدا کرنا چاہتا ہے تو آدمى اپنی عورت سے مجامعت کرتا ہے، ہر رگ اور پٹھے سے اس کا پانى اڑ جاتا ہے، اور جب ساتواں دن ہوتا ہے تو اللہ تعالىٰ ہر ایک رگ کو اس کے اور آدم علیہ السلام کے درمیان حاضر کرتا ہے۔“ اور پھر یہ آیت پڑھى: «﴿فِي أَيِّ صُوْرَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ﴾»”جس صورت میں بھى اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا۔“
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا: ”سب سے بڑی چیز جس کے متعلق میں اپنی امّت سے ڈر رہا ہوں وہ آسمانی ستاروں کی منازل سے پانی طلب کرنا ہے، اور بادشاہ کے ظلم اور تقدیر کو جھٹلانے سے ڈرتا ہوں۔“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمى ہیں جن کو دوہرا اجر دیا جائے گا، ایک اہلِ کتاب کا وہ آدمى جو اپنے نبى پر بھى ایمان لائے اور پھر نبى صلی اللہ علیہ وسلم کو پاکر ان پر بھى ایمان لائے، اور دوسرا وہ ہے کہ جس کى ایک لونڈى ہو، وہ اسے آزاد کر کے اس سے شادى کر لے، اور ایک وہ غلام ہے جو اللہ سے بھى ڈرا اور اپنے آقا کے حقوق بھى ادا کیے۔“