سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے زیادہ معزز ایمان یہ ہے کہ لوگ تمہیں امانت دار سمجھیں، اور سب سے زیادہ معزز اسلام یہ ہے کہ لوگ تمہارى زبان اور ہاتھ سے محفوظ رہیں، اور سب سے زیادہ معزز ہجرت یہ ہے کہ تم گناہوں کو چھوڑ دو، اور سب سے زیادہ معزز جہاد یہ ہے کہ تم اپنى جان اس کى راہ میں دے دو اور تمہارا گھوڑا بھى ذبح ہو جائے۔“
55722 - D 1 - U
تخریج الحدیث: « «كنز العمال، رقم: 65 - مجمع الزوائد: 60/1 قال الهيثمي إسناده ضعيف.» »
سیدنا انس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر دین کا ایک خلق ہوتا ہے اور اسلام کا خلق حیاء ہے۔“
55723 - D 2 - U
تخریج الحدیث: «سنن ابن ماجه، كتاب الزهد، باب الحياء: 4181، قال الشيخ الألباني حسن - مؤطا مالك: 905/2، رقم: 1610 - صحيح ترغيب و ترهيب، رقم: 2632 - سلسلة صحيحة، رقم: 940.»
ابوغالب بیان کرتے ہیں جب خارجیوں کے سر لائے گئے اور مسجد دمشق کى ایک سیڑھى پر رکھے گئے تو لوگ انہیں دیکھنے آرہے تھے، میں بھى انہیں دیکھنے نکلا تو ابوامامہ رضی اللہ عنہ ایک گدھے پر سوار ہو کر آئے، وہ ایک سنبلانی قمیص پہنے ہوئے تھے، انہوں نے ان کو دیکھا اور کہنے لگے: اس امّت کے ساتھ شیطان نے کیا کچھ کر دیا۔ یہ بات انہوں نے دو دفعہ کہى، پھر فرمایا: آسمان کے سائے تلے سب سے بدترین مقتول یہ ہیں اور جنہیں انہوں نے قتل کیا وہ بہترین مقتول ہیں۔ پھر فرمایا: یہ (خارجى) جہنم کے کتے ہیں۔ تین دفعہ کہہ کر رو پڑے، پھر واپس چلے گئے۔ ابوغالب نے کہا: میں بھی ان کے پیچھے چلا گیا، پھر میں نے کہا: میں نے آپ سے تھوڑى دیر پہلے ایک بات سنى ہے تو کیا وہ بات آپ نے کہی ہے؟ انہوں نے کہا: سبحان اللہ میں ایسی جرأت کیسے کر سکتا ہوں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کئى بار فرماتے ہوئے سنا ہے۔ میں نے کہا: پھر آپ روئے بھى ہیں، تو وہ کہنے لگے: ہاں، ان پر رحم کھاتے ہوئے کہ وہ بھی پہلے کبھى مسلمان تھے۔ پھر انہوں نے مجھے فرمایا: کیا تم قرآن پڑھتے ہو؟ میں نے کہا: کیوں نہیں، تو کہنے لگے: آل عمران پڑھو، میں نے پڑھى تو فرمانے لگے: کیا تم نے سنا ہے کہ اللہ تعالىٰ فرماتے ہیں کہ ”جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ قرآن کى متشابہ آیات پر چلتے ہیں“، گویا ان کے دلوں میں کجی تھى جس نے انہیں ٹیڑھا چلایا۔ پھر کہا: سو (100) آیات کے آخر سے پڑھیں، تو میں نے پڑھا: ﴿يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ فَأَمَّا الَّذِينَ اسْوَدَّتْ وُجُوهُهُمْ أَكَفَرْتُمْ بَعْدَ إِيمَانِكُمْ﴾ ”جس دن کچھ چہرے سفید ہوں گے اور کچھ چہرے سیاہ ہوں گے تو جن لوگوں کے چہرے سیاہ ہوں گے انہیں کہا جائے گا: کیا تم نے ایمان لانے کے بعد کفر کیا تھا؟“ تو میں نے کہا: اے ابوامامہ! کیا یہ وہى لوگ ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! یہ وہى لوگ ہیں۔
55724 - D 3 - U
تخریج الحدیث: «سنن ترمذي، كتاب تفسير القرآن، باب سورة آل عمران، رقم: 300، قال الشيخ الألباني: حسن صحيح - مجمع الزوائد: 233/6 - طبراني كبير: 3298.»
اسی سند سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص مجھ پر جان بوجھ کر جھوٹ باندھے، تو وہ اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنا لے۔“
55726 - D 5 - U
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب العلم، باب اثم من كذب على النبى صلى الله عليه وسلم، رقم: 107 - مسلم، كتاب المقدمة، باب تغليظ الكذب على رسول الله صلى الله عليه وسلم، رقم: 3.»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ تعالیٰ نے موسیٰ علیہ السلام سے کلام کیا تو وہ صاف سل پر چیونٹی کے تاریکی رات میں چلنے کو دس فرسخ کی مسافت سے دیکھ رہا تھا۔“
55727 - D 6 - U
تخریج الحدیث: «مجمع الزوائد: 203/8 - قال الهيثمي فيه الحسن بن أبى جعفر وهو متروك - كنز العمال، رقم: 32381.»
سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ایک گناہ نہیں بخشا جاتا، اور ایک گناہ نہیں چھوڑا جاتا، اور ایک گناہ بخش دیا جاتا ہے۔ جو گناہ نہیں بخشا جاتا ہے وہ اللہ ساتھ شرک کرنا ہے، اور جو گناہ نہیں چھوڑا جاتا وہ لوگوں کے ایک دوسرے پر ظلم ہیں، اور جو گناہ بخش دیا جاتا ہے وہ بندے کى اللہ کے حقوق میں کوتاہى ہے۔“
سیدنا مالک بن حویرث رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اللہ کوئى روح پیدا کرنا چاہتا ہے تو آدمى اپنی عورت سے مجامعت کرتا ہے، ہر رگ اور پٹھے سے اس کا پانى اڑ جاتا ہے، اور جب ساتواں دن ہوتا ہے تو اللہ تعالىٰ ہر ایک رگ کو اس کے اور آدم علیہ السلام کے درمیان حاضر کرتا ہے۔“ اور پھر یہ آیت پڑھى: «﴿فِي أَيِّ صُوْرَةٍ مَا شَاءَ رَكَّبَكَ﴾»”جس صورت میں بھى اس نے چاہا تجھے جوڑ دیا۔“
سیدنا جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے میں نے سنا: ”سب سے بڑی چیز جس کے متعلق میں اپنی امّت سے ڈر رہا ہوں وہ آسمانی ستاروں کی منازل سے پانی طلب کرنا ہے، اور بادشاہ کے ظلم اور تقدیر کو جھٹلانے سے ڈرتا ہوں۔“
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین آدمى ہیں جن کو دوہرا اجر دیا جائے گا، ایک اہلِ کتاب کا وہ آدمى جو اپنے نبى پر بھى ایمان لائے اور پھر نبى صلی اللہ علیہ وسلم کو پاکر ان پر بھى ایمان لائے، اور دوسرا وہ ہے کہ جس کى ایک لونڈى ہو، وہ اسے آزاد کر کے اس سے شادى کر لے، اور ایک وہ غلام ہے جو اللہ سے بھى ڈرا اور اپنے آقا کے حقوق بھى ادا کیے۔“
55731 - D 10 - U
تخریج الحدیث: «بخاري، كتاب العلم، باب تعليم الرجل أمته، رقم: 97 - مسلم، كتاب الإيمان، باب ثواب العبد، رقم: 1666.»