الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
روزے کے مسائل
حدیث نمبر: 1730
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثني عصمة بن الفضل، حدثنا حسين الجعفي، عن زائدة، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وقال: إني رايت الهلال. فقال:"اتشهد ان لا إله إلا الله، واني رسول الله؟"قال: نعم. قال:"يا بلال، ناد في الناس، فليصوموا غدا".(حديث مرفوع) حَدَّثَنِي عِصْمَةُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ الْجُعْفِيُّ، عَنْ زَائِدَةَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهِ عَنْهُمَا، قَالَ: جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ: إِنِّي رَأَيْتُ الْهِلَالَ. فَقَالَ:"أَتَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ؟"قَالَ: نَعَمْ. قَالَ:"يَا بِلَالُ، نَادِ فِي النَّاسِ، فَلْيَصُومُوا غَدًا".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: ایک اعرابی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا کہ: میں نے چاند دیکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس بات کی گواہی دیتے ہو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں؟ اس نے کہا: جی ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے بلال! لوگوں میں منادی کر دو کہ وہ کل روزہ رکھیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 1734]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن مذکورہ بالا حدیث اس کی شاہد ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2340]، [ترمذي 691]، [نسائي 2111]، [ابن ماجه 1652]، [أبويعلی 2531]، [ابن حبان 3446]، [موارد الظمآن 870]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1728 سے 1730)
مذکور بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ رمضان کے رؤیتِ ہلال کے لئے ایک آدمی کی شہادت کافی ہے لیکن شوال کے رؤیتِ ہلال کے لئے دو آدمی کی شہادت ضروری ہے جیسا کہ سنن ابی داؤد وغیرہ میں ہے دیکھئے: [أبوداؤد 2337، 2340] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف
7. باب مَتَى يُمْسِكُ الْمُتَسَحِّرُ عَنِ الطَّعَامِ وَالشَّرَابِ:
7. سحری کھانے والا کھانے پینے سے کب رکے؟
حدیث نمبر: 1731
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبيد الله بن موسى، عن إسرائيل، عن ابي إسحاق، عن البراء، قال: كان اصحاب محمد صلى الله عليه وسلم إذا كان الرجل صائما فحضر الإفطار، فنام قبل ان يفطر لم ياكل ليلته ولا يومه حتى يمسي، وإن قيس بن صرمة الانصاري كان صائما، فلما حضر الإفطار، اتى امراته، فقال: عندك طعام؟ فقالت: لا، ولكن انطلق فاطلب لك، وكان يومه يعمل، فغلبته عينه، وجاءت امراته، فلما راته، قالت: خيبة لك. فلما انتصف النهار، غشي عليه فذكر ذلك للنبي صلى الله عليه وسلم، "فنزلت هذه الآية: احل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم هن لباس لكم وانتم لباس لهن علم الله انكم كنتم تختانون انفسكم فتاب عليكم وعفا عنكم فالآن باشروهن وابتغوا ما كتب الله لكم وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر ثم اتموا الصيام إلى الليل ولا تباشروهن وانتم عاكفون في المساجد تلك حدود الله فلا تقربوها كذلك يبين الله آياته للناس لعلهم يتقون سورة البقرة آية 187، ففرحوا بها فرحا شديدا، واكلوا واشربوا حتى تبين لهم الخيط الابيض من الخيط الاسود".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْبَرَاءِ، قَالَ: كَانَ أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا كَانَ الرَّجُلُ صَائِمًا فَحَضَرَ الْإِفْطَارُ، فَنَامَ قَبْلَ أَنْ يُفْطِرَ لَمْ يَأْكُلْ لَيْلَتَهُ وَلَا يَوْمَهُ حَتَّى يُمْسِيَ، وَإِنَّ قَيْسَ بْنَ صِرْمَةَ الْأَنْصَارِيَّ كَانَ صَائِمًا، فَلَمَّا حَضَرَ الْإِفْطَارُ، أَتَى امْرَأَتَهُ، فَقَالَ: عِنْدَكِ طَعَامٌ؟ فَقَالَتْ: لَا، وَلَكِنْ أَنْطَلِقُ فَأَطْلُبُ لَكَ، وَكَانَ يَوْمَهُ يَعْمَلُ، فَغَلَبَتْهُ عَيْنُهُ، وَجَاءَتْ امْرَأَتُهُ، فَلَمَّا رَأَتْهُ، قَالَتْ: خَيْبَةً لَكَ. فَلَمَّا انْتَصَفَ النَّهَارُ، غُشِيَ عَلَيْهِ فَذُكِرَ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، "فَنَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ هُنَّ لِبَاسٌ لَكُمْ وَأَنْتُمْ لِبَاسٌ لَهُنَّ عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنْتُمْ تَخْتَانُونَ أَنْفُسَكُمْ فَتَابَ عَلَيْكُمْ وَعَفَا عَنْكُمْ فَالآنَ بَاشِرُوهُنَّ وَابْتَغُوا مَا كَتَبَ اللَّهُ لَكُمْ وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ سورة البقرة آية 187، فَفَرِحُوا بِهَا فَرَحًا شَدِيدًا، وَأَكُلُوا وَاشَرِبُوا حَتَّى تَبَيَّنَ لَهُمْ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنْ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ".
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا: ابتدائے اسلام میں جب اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم روزے سے ہوتے اور افطار کا وقت آتا تو کوئی روزے دار اگر افطار سے پہلے سو جاتا تو اس رات بھی اور آنے والے دن بھی شام تک وہ کھا نہیں سکتا تھا۔ پھر ایسا ہوا کہ سیدنا قیس بن صرمہ انصاری رضی اللہ عنہ روزے سے تھے، جب افطار کا وقت ہوا تو وہ اپنی بیوی کے پاس آئے اور کہا: تمہارے پاس کھانے کو کچھ ہے؟ انہوں نے کہا: اس وقت تو کچھ نہیں لیکن میں جاتی ہوں کہیں سے لے آؤں گی، قیس نے دن بھر کام کیا تھا اس لئے ان کی آنکھ لگ گئی، جب بیوی واپس آئیں تو انہیں سوتے دیکھا تو کہا: افسوس تم محروم رہ گئے، جب دوپہر ہوئی تو قیس کو غش آ گیا، جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا گیا تو یہ آیت نازل ہوئی: «أُحِلَّ لَكُمْ لَيْلَةَ الصِّيَامِ الرَّفَثُ إِلَى نِسَائِكُمْ ......» [بقره: 187/2] یعنی حلال کر دیا گیا تمہارے لئے رمضان کی راتوں میں اپنی بیویوں سے صحبت کرنا۔ اس پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم بہت خوش ہوئے اور انہوں نے کھایا اور پیا یہاں تک کہ ظاہر ہو گئی ان کے لئے (صبح کی) سفید دھاری کالی سیاہ دھاری سے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1735]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1915]، [أبوداؤد 2314]، [ترمذي 2968]، [ابن حبان 3460، 3461]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1730)
سیاہ دھاری سے مراد صبحِ کاذب رات کی اندھیری ہے، اور سفید دھاری صبحِ صادق اور صبح کا اجالا ہے، ابتدائے اسلام میں لوگ افطار کے بعد کھاتے پیتے، عورتوں سے صحبت کرتے، لیکن سونے کے بعد کچھ نہیں کر سکتے تھے حتیٰ کہ افطار کا وقت آجائے۔
لیکن بعد میں اللہ تعالیٰ نے روزے کی تفصیلات سے آگاہ کیا اور مذکورہ بالا آیتِ شریفہ نازل ہوئی اور جملہ مشکلات آسان ہوگئیں، تب لوگوں کو سکون و راحت ملی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 1732
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو الوليد، حدثنا شريك، عن حصين، عن الشعبي، عن عدي بن حاتم، قال: قلت: يا رسول الله، لقد جعلت تحت وسادتي خيطا ابيض وخيطا اسود، فما تبين لي شيء. قال:"إنك لعريض الوساد، وإنما ذلك الليل من النهار في قوله تعالى: وكلوا واشربوا حتى يتبين لكم الخيط الابيض من الخيط الاسود من الفجر ثم اتموا الصيام إلى الليل ولا تباشروهن وانتم عاكفون في المساجد تلك حدود الله فلا تقربوها كذلك يبين الله آياته للناس لعلهم يتقون سورة البقرة آية 187".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ حُصَيْنٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ حَاتِمٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ جَعَلْتُ تَحْتَ وِسَادَتِي خَيْطًا أَبْيَضَ وَخَيْطًا أَسْوَدَ، فَمَا تَبَيَّنَ لِي شَيْءٌ. قَالَ:"إِنَّكَ لَعَرِيضُ الْوِسَادِ، وَإِنَّمَا ذَلِكَ اللَّيْلُ مِنْ النَّهَارِ فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ أَتِمُّوا الصِّيَامَ إِلَى اللَّيْلِ وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ تِلْكَ حُدُودُ اللَّهِ فَلا تَقْرَبُوهَا كَذَلِكَ يُبَيِّنُ اللَّهُ آيَاتِهِ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ يَتَّقُونَ سورة البقرة آية 187".
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت: «وَكُلُوا وَاشْرَبُوا حَتَّى يَتَبَيَّنَ لَكُمُ الْخَيْطُ الْأَبْيَضُ مِنَ الْخَيْطِ الْأَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ» [بقرة: 187/2] نازل ہوئی تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں نے اپنے تکیے کے نیچے ایک سفید اور ایک کالا دھاگہ رکھا لیکن میرے لئے تو کچھ بھی ظاہر نہ ہوا، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم بڑے تکیے والے ہو، اس سے مراد: رات کا اندھیرا اور دن کی سفیدی ہے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1736]»
اس روایت کی سند حسن لیکن حدیث صحیح ہے اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1916]، [مسلم 1090]، [أبوداؤد 2349]، [ترمذي 2971]، [ابن حبان 3462]، [مسند الحميدي 941]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1731)
ابتدائے اسلام میں بعض صحابہ نے طلوعِ فجر کا مطلب نہیں سمجھا اس لئے وہ سفید اور سیاہ دھاگے سے فجر معلوم کرنے لگے۔
مگر جب «مِنَ الْفَجْرِ» کا لفظ نازل ہوا تو ان کو حقیقت کا علم ہوا کہ سیاہ دھاری سے رات کی اندھیری اور سفید دھاگے سے صبح کا اجالا مراد ہے۔
اس حدیث سے ثابت ہوا کہ افطار کے بعد سے صبحِ صادق تک آدمی کھا پی سکتا اور بیوی سے صحبت بھی کر سکتا ہے، اور شرعی اصطلاح میں روزے کا نام ہی یہ ہے کہ آدمی صبحِ صادق سے لیکر غروبِ آفتاب تک کھانے پینے اور جماع سے رکا رہے، افطار کے بعد اس کے لئے سب کچھ جو روزے میں حرام تھا حلال ہو جاتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
8. باب مَا يُسْتَحَبُّ مِنْ تَأْخِيرِ السُّحُورِ:
8. سحری کھانے میں تاخیر کرنا مستحب ہے
حدیث نمبر: 1733
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا هشام، عن قتادة، عن انس، عن زيد بن ثابت، قال: "تسحرنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: ثم قام إلى الصلاة. قال: قلت: كم كان بين الاذان والسحور؟ قال: قدر قراءة خمسين آية".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ، قَالَ: "تَسَحَّرْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ. قَالَ: قُلْتُ: كَمْ كَانَ بَيْنَ الْأَذَانِ وَالسُّحُورِ؟ قَالَ: قَدْرُ قِرَاءَةِ خَمْسِينَ آيَةً".
سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سحری کھائی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کے لئے کھڑے ہوئے، راوی نے کہا: میں نے زید سے پوچھا سحری اور اذان میں کتنا فاصلہ ہوتا تھا؟ بتایا کہ پچاس آیات پڑھنے کے برابر فاصلہ ہوتا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1737]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1921]، [مسلم 1097]، [ترمذي 703]، [نسائي 2154]، [ابن ماجه 1694]، [أبويعلی 2943]، [ابن حبان 1497]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1732)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خود سید البشر افضل الخلق محمد صلی اللہ علیہ وسلم سحری کرتے تھے اور طلوعِ فجر سے پہلے آخر وقت میں کھانا تناول فرماتے تھے، اس سے سحری تاخیر سے کھانا ثابت ہوا جو سنّتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مستحب و مسنون ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
9. باب في فَضْلِ السُّحُورِ:
9. سحری کھانے کی فضیلت کا بیان
حدیث نمبر: 1734
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن شعبة، عن عبد العزيز بن صهيب، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "تسحروا فإن في السحور بركة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ صُهَيْبٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "تَسَحَّرُوا فَإِنَّ فِي السُّحُورِ بَرَكَةً".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سحری کرو اس لئے کہ سحری میں برکت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1738]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1923]، [مسلم 1095]، [ترمذي 708]، [نسائي 2145]، [ابن ماجه 1692]، [أبويعلی 2848]، [ابن حبان 3466]، [شعب الايمان 3908]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1735
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا وهب بن جرير، حدثنا موسى بن علي، قال: سمعت ابي يحدث، عن ابي قيس مولى عمرو بن العاص، قال: كان عمرو بن العاص يامرنا ان نصنع له الطعام يتسحر به فلا يصيب منه كثيرا، فقلنا: تامرنا به ولا تصيب منه كثيرا؟ قال: إني لا آمركم به اني اشتهيه، ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: "فصل ما بين صيامنا وصيام اهل الكتاب اكلة السحر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُلَيٍّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي يُحَدِّثُ، عَنْ أَبِي قَيْسٍ مَوْلَى عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، قَالَ: كَانَ عَمْرُو بْنُ الْعَاصِ يَأْمُرُنَا أَنْ نَصْنَعَ لَهُ الطَّعَامَ يَتَسَحَّرُ بِهِ فَلَا يُصِيبُ مِنْهُ كَثِيرًا، فَقُلْنَا: تَأْمُرُنَا بِهِ وَلَا تُصِيبُ مِنْهُ كَثِيرًا؟ قَالَ: إِنِّي لَا آمُرُكُمْ بِهِ أَنِّي أَشْتَهِيهِ، وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: "فَصْلُ مَا بَيْنَ صِيَامِنَا وَصِيَامِ أَهْلِ الْكِتَابِ أَكْلَةُ السَّحَرِ".
ابوقیس عمرو بن العاص کے غلام نے کہا کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ ہم کو کھانا رکھنے کا حکم دیتے تھے تاکہ سحری کریں لیکن کچھ زیادہ تناول نہ کرتے، ہم نے عرض کیا: آپ ہمیں کھانا رکھنے کا حکم تو دیتے ہیں لیکن کچھ زیادہ تناول نہیں فرماتے؟ سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میں اس لئے کھانا رکھنے کا حکم نہیں دیتا کہ مجھے کھانے کی بہت زیادہ اشتہاء ہوتی ہے، بلکہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، آپ فرماتے ہیں: ہمارے اور اہل کتاب کے روزے میں فرق یہ ہی سحری کھانا ہے (اس لئے تھوڑا سا کھا لیتا ہوں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1739]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھے: [مسلم 1096]، [أبوداؤد 2343]، [ترمذي 708]، [نسائي 2165]، [أبويعلی 7337]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1733 سے 1735)
پہلی حدیث سے سحری کھانے کی فضیلت ثابت ہوئی کہ اس میں برکت ہے، روزے دار کو تقویت ملتی ہے، سحری کے لئے صائم اٹھتا ہے، اللہ تعالیٰ کا ذکر کرتا ہے، اس کی خوشنودی کے لئے کھانے سے فارغ ہو کر نماز باجماعت پڑھتا ہے، یہ سب فضیلتیں حاصل ہوتی ہیں۔
دوسری حدیث میں بتایا گیا کہ اہلِ کتاب سحری نہیں کرتے اس لئے تم سحری کرو، ایک اور حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سحری کے کھانے کو «الغذاء المبارك» کہا اور نسائی شریف کی ایک روایت میں ہے کہ سحری اللہ تعالیٰ کے عطیات میں سے ہے اس کو چھوڑو نہیں، ان تمام روایات سے سحری کھانے کی فضیلت ثابت ہوئی، اس لئے اس کو چھوڑنا نہ چاہیے، چاہے چند لقے ہی سہی سحری ضرور کرنی چاہیے جیسا کہ سیدنا عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ و دیگر صحابہ کرام کیا کرتے تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
10. باب مَنْ لَمْ يُجْمِعِ الصِّيَامَ مِنَ اللَّيْلِ:
10. جو شخص رات میں روزوں کی نیت نہ کرے اس کا بیان
حدیث نمبر: 1736
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن شرحبيل، حدثنا ليث بن سعد، عن يحيى بن ايوب، عن عبد الله بن ابي بكر، عن سالم بن عبد الله بن عمر، عن ابن عمر، عن حفصة، عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "من لم يبيت الصيام قبل الفجر، فلا صيام له". قال عبد الله: في فرض الواجب اقول به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ شُرَحْبِيلَ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ لَمْ يُبَيِّتْ الصِّيَامَ قَبْلَ الْفَجْرِ، فَلَا صِيَامَ لَهُ". قَالَ عَبْد اللَّهِ: فِي فَرْضِ الْوَاجِبِ أَقُولُ بِهِ.
ام المومنین سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص فجر سے پہلے روزے کی نیت نہ کرے اس کا روزہ نہ ہو گا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: میں فرض و واجب روزے میں یہی کہتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1740]»
اس حدیث کی سند قوی ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2454]، [نسائي 196/4]، [ابن ماجه 1700]، [دارقطني 172/2]، [شرح السنة 1744]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1735)
فرض روزے میں طلوعِ فجر سے پہلے روزے کی دل میں نیّت کرنا ضروری ہے، امام دارمی رحمہ اللہ کا یہ ہی مسلک تھا اور یہ ہی اہلِ حدیث کا مسلک ہے، نفلی روزے میں رات کو نیّت نہ بھی کرے تو بھی روزہ درست ہوگا جیسا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کھانا طلب کرنے اور نہ ہونے پر یہ فرمانا کہ اب میں روزہ رکھتا ہوں سے ثابت ہوتا ہے، اور روزے کی نیّت صرف دل میں کرنی ہے نویت یوما من شهر رمضان وغیرہ الفاظ لوگوں کے بنائے ہوئے ہیں کسی حدیثِ صحیح سے ثابت نہیں، اس لئے اسے ترک کر دینا چاہیے۔
(والله اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
11. باب في تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ:
11. افطار میں جلدی کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1737
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان الثوري، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ".
سیدنا سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ اس وقت تک خیر میں رہیں گے جب تک وہ افطار میں جلدی کرتے رہیں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1741]»
یہ حدیث صحیح اور متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1957]، [مسلم 1098]، [ترمذي 699]، [ابن ماجه 1697]، [أبويعلی 7511]، [ابن حبان 3502، 3506]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1736)
یعنی افطار کا وقت آنے پر افطار میں جلدی کریں گے، ایسا نہیں کہ اندھیرا پھیلنے کا انتظار کریں اور افطار میں تاخیر کریں، بلکہ سورج غروب ہونے پر فوراً افطار کریں گے تو شریعت پر عمل کی برکت سے خیر اور برکت و بھلائی میں رہیں گے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1738
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد، حدثنا عبدة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عاصم بن عمر، عن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا اقبل الليل وادبر النهار وغابت الشمس، فقد افطرت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدَةُ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ، عَنْ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَقْبَلَ اللَّيْلُ وَأَدْبَرَ النَّهَارُ وَغَابَتْ الشَّمْسُ، فَقَدْ أَفْطَرْتَ".
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب رات اس طرف (یعنی مشرق) سے آئے اور دن ادھر (یعنی مغرب میں) چلا جائے تو تمہارا افطار (کا وقت) ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1742]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1954]، [مسلم 1100]، [أبوداؤد 2351]، [ترمذي 698]، [أبويعلی 240]، [ابن حبان 3513]، [مسند الحميدي 20]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1737)
بخاری شریف کی روایت میں ہے: «فقد أفطر الصائم» یعنی جب سورج مغرب میں ڈوب جائے تو روزے دار کے افطار کا ٹائم ہوگیا، امام ابن خزیمہ رحمۃ اللہ علیہ نے کہا: اس کا مطلب ہے «فليفطر الصائم» یعنی روزے دار افطار کر لے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جب غروبِ آفتاب کا یقین ہو جائے تو روزہ افطار کر لینا چاہیے اور تاخیر کرنا درست نہیں۔
مصنف عبدالرزاق میں ہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب روزہ جلدی کھولتے اور سحری کھانے میں لوگوں سے زیادہ تاخیر کرتے۔
دورِ حاضر میں بعض لوگ عموماً روزہ تو دیر سے کھولتے ہیں اور سحری جلدی کھا لیتے ہیں اسی وجہ سے خیر ان سے دور ہو رہا ہے اور شر و فتنہ میں پڑ گئے ہیں اور ان پر تباہی آ رہی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان درست ثابت ہو رہا ہے، جب سے مسلمانوں نے سنّت پر عمل چھوڑا ہے روز بروز تنزل کے غار میں گرتے جارہے ہیں اور خیر و برکت مفقود ہوتی جا رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
12. باب مَا يُسْتَحَبُّ الإِفْطَارُ عَلَيْهِ:
12. کس چیز سے روزہ افطار کرنا مستحب ہے؟
حدیث نمبر: 1739
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ثابت بن يزيد، حدثنا عاصم، عن حفصة، عن الرباب الضبية، عن عمها سلمان بن عامر، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "إذا افطر احدكم، فليفطر على تمر، فإن لم يجد، فليفطر على ماء، فإن الماء طهور".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا ثَابِتُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا عَاصِمٌ، عَنْ حَفْصَةَ، عَنْ الرَّبَاب الضَّبِّيَّةِ، عَنْ عَمِّهَا سَلْمَانَ بْنِ عَامِرٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "إِذَا أَفْطَرَ أَحَدُكُمْ، فَلْيُفْطِرْ عَلَى تَمْرٍ، فَإِنْ لَمْ يَجِدْ، فَلْيُفْطِرْ عَلَى مَاءٍ، فَإِنَّ الْمَاءَ طَهُورٌ".
سیدنا سلمان بن عامر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی افطار کرے تو اسے کھجور سے افطار کرنا چاہیے، اگر کھجور نہ ملے تو صاف پانی سے افطار کرے کیونکہ پانی پاک ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد الرباب، [مكتبه الشامله نمبر: 1743]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2355]، [ترمذي 695]، [ابن ماجه 1699]، [ابن حبان 3514]، [الموارد 892]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1738)
اس حدیث میں کھجور سے روزہ افطار کرنے کا حکم ہے اور یہ حکم یا امر استحباب کے لئے ہے، کھجور دستیاب نہ ہو تو پانی یا کسی اور چیز سے روزہ افطار کیا جا سکتا ہے۔
لیکن کھجور سے روزہ کھولنا مستحب ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد الرباب

Previous    1    2    3    4    5    6    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.