الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
روزے کے مسائل
21. باب الرُّخْصَةِ في الْقُبْلَةِ لِلصَّائِمِ:
21. روزے دار کے لئے بیوی کے بوسہ لینے کی اجازت کا بیان
حدیث نمبر: 1760
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حجاج بن منهال، حدثنا حماد بن سلمة، عن هشام بن عروة، عن ابيه، عن عائشة، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم"كان يقبل وهو صائم". فقال عروة: اما إنها لا تدعو إلى خير.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مِنْهَالٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُقَبِّلُ وَهُوَ صَائِمٌ". فَقَالَ عُرْوَةُ: أَمَا إِنَّهَا لَا تَدْعُو إِلَى خَيْرٍ.
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا کرتے تھے، عروہ نے کہا: لیکن یہ بوسہ (روزے کی حالت میں) کوئی اچھی بات نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1763]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1928]، [مسلم 1106]، [أبوداؤد 2382]، [ترمذي 727]، [ابن ماجه 1683]، [أبويعلی 4428]، [ابن حبان 537، 3539]، [الحميدي 198، 199]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1761
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعد بن حفص الطلحي، حدثنا شيبان، عن يحيى بن كثير، عن ابي سلمة، عن عمر بن عبد العزيز، عن عروة، عن عائشة، ان النبي صلى الله عليه وسلم كان "يقبلها وهو صائم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعْدُ بْنُ حَفْصٍ الطَّلْحِيُّ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ كَثِيرٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ عُمَرَ بْنِ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ "يُقَبِّلُهَا وَهُوَ صَائِمٌ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں ان کا بوسہ لے لیا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1764]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1762
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا ليث بن سعد، عن بكير بن عبد الله بن الاشج، عن عبد الملك بن سعيد الانصاري، عن جابر بن عبد الله، عن عمر بن الخطاب، قال: هششت فقبلت وانا صائم، فجئت رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: إني صنعت اليوم امرا عظيما: قبلت وانا صائم. قال:"ارايت لو مضمضت من الماء؟"قلت: إذا لا يضر. قال:"ففيم؟".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ سَعِيدٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ: هَشِشْتُ فَقَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ، فَجِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: إِنِّي صَنَعْتُ الْيَوْمَ أَمْرًا عَظِيمًا: قَبَّلْتُ وَأَنَا صَائِمٌ. قَالَ:"أَرَأَيْتَ لَوْ مَضْمَضْتَ مِنْ الْمَاءِ؟"قُلْتُ: إِذًا لَا يَضُرُّ. قَالَ:"فَفِيمَ؟".
سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں نے سرور میں آ کر روزے کی حالت میں بوسہ لے لیا، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ: آج میں نے بہت بڑا جرم کیا، میں روزے سے تھا اور بوسہ لے لیا؟ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم روزے میں پانی سے کلی کر لو تو کیا خیال ہے؟ میں نے کہا: اس میں تو کوئی حرج نہیں، فرمایا: پھر اس میں کیوں (حرج) ہونے لگا۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 1765]»
مذکورہ بالا حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2385]، [ترمذي 727]، [ابن حبان 3544]، [موارد الظمآن 905]، [المحلی 209/6]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1759 سے 1762)
سیدنا عمر الفاروق رضی اللہ عنہ اتنے جلیل القدر صحابی ایک معمولی سی حرکت ان سے سرزد ہوئی لیکن مواخذے کا اتنا شدید خوف کہ گھبرائے ہوئے محسنِ انسانیت صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئے، ماجرا سنایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کمالِ شفقت و محبت سے مثال دیکر سمجھایا کہ جس طرح کلی کرنے سے روزے میں خلل نہیں پڑا، بوس و کنار سے بھی کوئی خلل نہیں، اس طرح سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی پریشانی دور ہو کر انہیں تسلی ہوئی۔
شریعت ایک آسان و جامع قانون کا نام ہے جس کا زندگی کے ہر ہر گوشے سے تعلق ضروری ہے، میاں بیوی کا تعلق جو بھی ہے ظاہر ہے اس لئے حالتِ روزہ میں اپنی بیوی کے ساتھ بوس و کنار جائز رکھا گیا ہے بشرطیکہ روزہ رکھنے والے کو اپنی طبیعت پر پورا قابو حاصل ہو (جیسا کہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں ہے: «كَانَ أَمْلَكُكُمْ لِإِرْبِهِ» یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش کو کنٹرول میں رکھنے پر تم سے زیادہ اختیار رکھتے تھے)۔
اسی لئے (کچھ علماء نے کہا) جوانوں کے واسطے بوس و کنار کی اجازت نہیں، ان کا نفس غالب رہتا ہے، ہاں یہ خوف نہ ہو تو جائز ہے (مولانا راز رحمۃ اللہ علیہ)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
22. باب فِيمَنْ يُصْبِحُ جُنُباً وَهُوَ يُرِيدُ الصَّوْمَ:
22. جس شخص کا روزے کا ارادہ ہو اور جنابت کی حالت میں صبح ہو جائے
حدیث نمبر: 1763
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو عاصم، حدثنا عبد الملك يعني ابن جريج، اخبرني ابن شهاب، ان ابا بكر اخبره، عن ابيه، ان ام سلمة، وعائشة اخبرتاه، ان النبي صلى الله عليه وسلم"كان يصبح جنبا من اهله، ثم يصوم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ يَعْنِي ابْنَ جُرَيْجٍ، أَخْبَرَنِي ابْنُ شِهَابٍ، أَنَّ أَبَا بَكْرٍ أَخْبَرَهُ، عَنْ أَبِيهِ، أَنَّ أُمَّ سَلَمَةَ، وَعَائِشَةَ أَخْبَرتَاهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ"كَانَ يُصْبِحُ جُنُبًا مِنْ أَهْلِهِ، ثُمَّ يَصُومُ".
ام المومنین سیدہ ام سلمہ اور ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی جماع کے سبب جنابت کی حالت میں بھی صبح ہو جاتی، پھر بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھ لیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1766]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1926]، [مسلم 1109]، [أبويعلی 4427]، [ابن حبان 3487]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1762)
پیغمبرِ اسلام محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایسا کرنے سے امّت کے لئے آسانی ہوگئی، کوئی آدمی صبحِ صادق سے پہلے جماع کر لے اور غسل نہ کر سکے تو وہ اذان کے بعد بھی غسلِ جنابت کر سکتا ہے اور اس کا روزہ صحیح ہوگا۔
بعض صحابہ کو اس امر میں تردد تھا لیکن جب امہات المومنین نے بتایا کہ سید الخلق صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح ہونے کے بعد غسلِ جنابت بھی کیا اور روزہ بھی رکھا ہے تو ان کا تردد ختم ہوگیا اور انہوں نے اپنے قول سے رجوع کر لیا اور اس پر اتفاق ہو گیا کہ جنبی صبح ہو جانے کے بعد بھی نہائے تو اس کا روزہ خواہ فرض ہو یا نفل صحیح ہوگا اور اس پر کوئی قضا بھی نہیں ہے۔
لیکن صبحِ صادق کے بعد غسل میں تاخیر مناسب نہیں کیوں کہ نمازِ فجر میں تاخیر ہوگی۔
(والله اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
23. باب فِيمَنْ أَكَلَ نَاسِياً:
23. روزے میں بھول کر کچھ کھا لینے کا بیان
حدیث نمبر: 1764
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا جرير، عن هشام، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "من نسي وهو صائم فاكل او شرب، فليتم صومه، فإنما اطعمه الله وسقاه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ هِشَامِ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ نَسِيَ وَهُوَ صَائِمٌ فَأَكَلَ أَوْ شَرِبَ، فَلْيُتِمَّ صَوْمَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص روزے میں بھول کر کھا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ الله تعالیٰ نے اس کو کھلا پلا دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1767]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1933]، [مسلم 1155]، [أبوداؤد 2398]، [ترمذي 721]، [ابن ماجه 1673]، [أبويعلی 6028، 6058]، [ابن حبان 3519، 3520]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1765
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو جعفر محمد بن مهران الجمال، حدثنا حاتم بن إسماعيل، عن الحارث بن عبد الرحمن بن ابي ذباب، عن عمه، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا اكل احدكم او شرب ناسيا وهو صائم، ثم ذكر، فليتم صيامه، فإنما اطعمه الله وسقاه". قال ابو محمد: اهل الحجاز يقولون: يقضي، وانا اقول: لا يقضي.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ مِهْرَانَ الْجَمَّالُ، حَدَّثَنَا حَاتِمُ بْنُ إِسْمَاعِيل، عَنْ الْحَارِثِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي ذُبَابٍ، عَنْ عَمِّهِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا أَكَلَ أَحَدُكُمْ أَوْ شَرِبَ نَاسِيًا وَهُوَ صَائِمٌ، ثُمَّ ذَكَرَ، فَلْيُتِمَّ صِيَامَهُ، فَإِنَّمَا أَطْعَمَهُ اللَّهُ وَسَقَاهُ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَهْلُ الْحِجَازِ يَقُولُونَ: يَقْضِي، وَأَنَا أَقُولُ: لَا يَقْضِي.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم میں سے کوئی روزے کی حالت میں بھول کر کھا یا پی لے، پھر اسے یاد آ جائے تو وہ اپنا روز ہ پورا کرے، بیشک اللہ تعالیٰ نے اس کو کھلایا اور پلایا ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: اہل حجاز کہتے ہیں کہ ایسی صورت میں روزہ قضا کرنا ہو گا، اور میں یہ کہتا ہوں قضا نہیں کرنا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد إذا ثبتت الصحية لعم الحارث وهو: عياض بن عبد الله بن سعد بن أبي ذئاب فقد ذكره ابن مندة وأبو نعيم في الصحابة وإلا فهو مجهول والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1768]»
اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1763 سے 1765)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ روزے کی حالت میں کوئی بھول کر کچھ کھا پی لے تو اس کا روزہ صحیح ہے، نہ اس پر قضا ہے اور نہ کفارہ، یہ ہی صحیح مسلک ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد إذا ثبتت الصحية لعم الحارث وهو: عياض بن عبد الله بن سعد بن أبي ذئاب فقد ذكره ابن مندة وأبو نعيم في الصحابة وإلا فهو مجهول والحديث متفق عليه
24. باب الْقَيْءِ لِلصَّائِمِ:
24. روزے میں قصداً قے کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 1766
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثني ابي، حدثني حسين المعلم، عن يحيى بن ابي كثير، عن الاوزاعي، عن يعيش بن الوليد، عن ابيه، عن معدان بن ابي طلحة، عن ابي الدرداء، ان النبي صلى الله عليه وسلم "قاء فافطر". قال: فلقيت ثوبان بمسجد دمشق، فذكرت ذلك له، فقال: صدق، انا صببت له الوضوء. قال عبد الله: إذا استقاء.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ الْمُعَلِّمُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ يَعِيشَ بْنِ الْوَلِيدِ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ مَعْدَانَ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ "قَاءَ فَأَفْطَرَ". قَالَ: فَلَقِيتُ ثَوْبَانَ بِمَسْجِدِ دِمَشْقَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: صَدَقَ، أَنَا صَبَبْتُ لَهُ الْوَضُوءَ. قَالَ عَبْد اللَّهِ: إِذَا اسْتَقَاءَ.
سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قصداً قے کی اور پھر روزہ توڑ دیا، معدان نے کہا: میں نے دمشق کی مسجد میں سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے ملاقات کی، ان سے اس کا تذکرہ کیا تو سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے کہا: سیدنا ابودرداء رضی اللہ عنہ نے سچ کہا، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے پانی انڈیلا تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1769]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2381]، [ترمذي 87]، [أبويعلی 484/11]، [ابن حبان 1097]، [موارد الظمآن 908]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1765)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اگر کسی وجہ سے قصداً اُلٹی یا قے کی ہے تو روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اکثر علماء کے نزدیک اس روزے کی قضا اس پر لازم ہے کفارہ نہیں، خواہ قے تھوڑی ہو یا بہت، اور اگر خود بخود اُلٹی ہو جائے تو روزہ نہیں ٹوٹتا ہے، ائمۂ اربعہ کا یہی قول ہے اور اس میں نہ قضا ہے نہ کفارہ۔
(والله اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
25. باب الرُّخْصَةِ فِيهِ:
25. قے کرنے پر رخصت کا بیان
حدیث نمبر: 1767
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا إسحاق بن إبراهيم، حدثنا عيسى بن يونس، عن هشام بن حسان، عن ابن سيرين، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إذا ذرع الصائم القيء وهو لا يريده، فلا قضاء عليه، وإذا استقاء، فعليه القضاء". قال عيسى: زعم اهل البصرة ان هشاما اوهم فيه , فموضع الخلاف ههنا.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ حَسَّانَ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِذَا ذَرَعَ الصَّائِمَ الْقَيْءُ وَهُوَ لَا يُرِيدُهُ، فَلَا قَضَاءَ عَلَيْهِ، وَإِذَا اسْتَقَاءَ، فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ". قَالَ عِيسَى: زَعَمَ أَهْلُ الْبَصْرَةِ أَنَّ هِشَامًا أَوْهَمَ فِيهِ , فَمَوْضِعُ الْخِلَافِ هَهُنَا.
سیدنا ابوہريرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب روزے دار کو خود بخود قے آ جائے تو اس پر کوئی قضا نہیں، اور قصداً قے کرے تو اس پر قضاء ہے۔ عیسیٰ بن یونس نے کہا: اہل بصرہ کا خیال ہے کہ اس حدیث میں ہشام بن حسان کو وہم ہوا ہے جو اختلاف کا سبب ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1770]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2380]، [ترمذي 720]، [ابن ماجه 1676]، [أبويعلی 6604]، [ابن حبان 3518]، [الموارد 907]۔ اہلِ بصرہ کا قول مردود ہے کیونکہ ہشام بن حسان ثقات اور اثبات میں سے ہیں، ابن سیرین سے روایت کرنے میں وہ اثبت الناس ہیں، لہٰذا یہ حدیث اور اس کا حکم بالکل صحیح ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
26. باب الْحِجَامَةِ تُفْطِرُ الصَّائِمَ:
26. سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے
حدیث نمبر: 1768
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا عاصم، عن عبد الله بن زيد، عن ابي الاشعث الصنعاني، عن ابي اسماء الرحبي، عن شداد بن اوس، قال: مررت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في ثمان عشرة خلت من رمضان، فابصر رجلا يحتجم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "افطر الحاجم والمحجوم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زِيدَ، عَنْ أَبِي الْأَشْعَثِ الصَّنْعَانِيِّ، عَنْ أَبِي أَسْمَاءَ الرَّحَبِيِّ، عَنْ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، قَالَ: مَرَرْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ثَمَانِ عَشْرَةَ خَلَتْ مِنْ رَمَضَانَ، فَأَبْصَرَ رَجُلًا يَحْتَجِمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ".
سیدنا شداد بن اوس رضی اللہ عنہ نے کہا: میں اٹھارہ رمضان کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جاتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو دیکھا جو پچھنے لگا رہا تھا، فرمایا: پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1771]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2369]، [ابن ماجه 1681]، [أبويعلی 231/10]، [ابن حبان 3523]، [الموارد 900]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1769
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا وهب بن جرير، حدثنا هشام، عن يحيى، عن ابي قلابة، ان ابا اسماء الرحبي حدثه، ان ثوبان حدثه، قال: بينما رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي بالبقيع إذا رجل يحتجم، فقال: "افطر الحاجم والمحجوم". قال ابو محمد: انا اتقي الحجامة في الصوم في رمضان.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا وَهْبُ بْنُ جَرِيرٍ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ، عَنْ يَحْيَى، عَنْ أَبِي قِلَابَةَ، أَنَّ أَبَا أَسْمَاءَ الرَّحَبِيَّ حَدَّثَهُ، أَنَّ ثَوْبَانَ حَدَّثَهُ، قَالَ: بَيْنَمَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي بِالْبَقِيعِ إِذَا رَجُلٌ يَحْتَجِمُ، فَقَالَ: "أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَنَا أَتَّقِي الْحِجَامَةَ فِي الصَّوْمِ فِي رَمَضَانَ.
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ نے حدیث بیان کی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بقیع کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک آدمی کو پچھنے لگاتے دیکھا تو فرمایا: پچھنے لگانے والے اور لگوانے والے کا روزہ ٹوٹ گیا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے فرمایا: میں رمضان میں روزے کی حالت میں سینگی لگوانے سے بچتا ہوں۔ امام دارمی رحمہ اللہ سے پوچھا گیا: آپ یہی کہتے ہیں یعنی روزے میں سینگی لگوانے سے بچا جائے؟ فرمایا: ہاں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1772]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 2367]، [ابن ماجه 1680]، [أبويعلی 231/10]، [ابن حبان 3532]، [الموارد 899]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1766 سے 1769)
امام احمد رحمۃ اللہ علیہ وغیرہ کا مسلک یہ ہے کہ حجامت سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے، کچھ لوگوں نے کہا نہیں ٹوٹتا ہے لیکن صحیح قول امام احمد رحمہ اللہ کا ہی ہے، پچھنا لگانے والے کا روزہ اس لئے ٹوٹ جاتا ہے کہ خون کا منہ کے اندر چلے جانے کا احتمال ہے اور لگوانے والے کا روزہ اس لئے ٹوٹ جاتا ہے کہ ضعف کا احتمال ہے اور ضعف ہوگا تو روزہ توڑنا پڑے گا، اسی طرح تبرع بالدم (یعنی کسی کو خون دینا) کا معاملہ ہے، بہتر یہ ہے کہ روزے کی حالت میں خون نہ نکلوایا جائے جیسا کہ امام دارمی رحمہ اللہ سے مروی ہے۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    8    9    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.