الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 
سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
روزے کے مسائل
13. باب الْفَضْلِ لِمَنْ فَطَّرَ صَائِماً:
13. روزے دار کو افطار کرانے کے ثواب کا بیان
حدیث نمبر: 1740
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يعلى، حدثنا عبد الملك، عن عطاء، عن زيد بن خالد الجهني، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "من فطر صائما، كتب له مثل اجره، إلا انه لا ينقص من اجر الصائم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ خَالِدٍ الْجُهَنِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "مَنْ فَطَّرَ صَائِمًا، كُتِبَ لَهُ مِثْلُ أَجْرِهِ، إِلَّا أَنَّهُ لَا يَنْقُصُ مِنْ أَجْرِ الصَّائِمِ".
سیدنا زید بن خالد جہنی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی کسی روزے دار کو افطار کرا دے تو اس کو روزے دار کے برابر ہی ثواب ملے گا، اور روزے دار کا ثواب بھی کم نہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1744]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 806]، [ابن ماجه 1746]، [ابن حبان 3429]، [موارد الظمآن 895]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1739)
اس حدیث میں روزہ کھلوانے، افطار کرانے کی فضیلت اور ثواب ذکر کیا گیا ہے، یہ اسلام کا نظامِ رحمت ہے کہ اگر آدمی روزے رکھے اس کا ثواب، افطار کرائے اس کا ثواب الگ، کسی کے عمل میں کوئی کمی نہیں۔
بیہقی کی ایک روایت میں ہے کہ ہم نے عرض کیا اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! ہر شخص کو اتنی وسعت کہاں کہ وہ روزے دار کو افطار کرائے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ ثواب اس کو بھی ملے گا جو روزے دار کا روزہ دودھ ملے ایک گھونٹ پانی پر کھلوا دے یا ایک کھجور پر، ایک گھونٹ پانی پر افطار کرا دے، اور جو کوئی روزے دار کو پیٹ بھر کر کھلائے گا اس کو اللہ تعالیٰ میرے حوض سے ایک گھونٹ پلائے گا، اس کے بعد وہ پیاسا نہ ہوگا یہاں تک کہ جنت میں داخل ہوجائے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
14. باب النَّهْيِ عَنِ الْوِصَالِ في الصَّوْمِ:
14. روزے میں وصال کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 1741
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إياكم والوصال"مرتين. قالوا: فإنك تواصل؟ قال:"إني لست مثلكم، إني ابيت يطعمني ربي ويسقيني".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِيَّاكُمْ وَالْوِصَالَ"مَرَّتَيْنِ. قَالُوا: فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ؟ قَالَ:"إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ، إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم لوگ وصال سے بچو، لوگوں نے عرض کیا: آپ تو وصال کرتے ہیں؟ فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں، رات میں مجھے میرا رب کھلاتا اور پلاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1745]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1965]، [مسلم 1103]، [ترمذي 778]، [أبويعلی 6088]، [ابن حبان 3575]، [مسند الحميدي 1039]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1740)
وصال کے معنی ملانے یا جوڑنے کے ہیں اور روزے کا وصال یہ ہے کہ دو دن یا چند ایام مسلسل روزے سے رہے اور رات دن میں کبھی افطار نہ کرے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی ممانعت میں بہت سی احادیث آئی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صراحۃً روزے میں وصال سے منع فرمایا ہے، نہیٰ کی ان احادیث کو بعض علماء نے نہیٰ تحریمی پر اور بعض نے نہیٰ تنزیہی پر محمول کیا ہے، مذکور بالا حدیث میں بھی وصال سے بچنے کا حکم ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وصال کرتے تھے جو صرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص تھا جیسا کہ حدیث میں واضح طور پر ہے کہ میں تمہاری طرح سے نہیں ہوں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
حدیث نمبر: 1742
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا سعيد بن الربيع، حدثنا شعبة، عن قتادة، عن انس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"لا تواصلوا. قيل: إنك تفعل ذلك. قال:"إني لست كاحدكم، إني اطعم واسقى".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ الرَّبِيعِ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"لَا تُوَاصِلُوا. قِيلَ: إِنَّكَ تَفْعَلُ ذَلِكَ. قَالَ:"إِنِّي لَسْتُ كَأَحَدِكُمْ، إِنِّي أُطْعَمُ وَأُسْقَى".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزے میں وصال نہ کرو، عرض کیا گیا: آپ تو ایسا کرتے ہیں؟ فرمایا: میں تم میں سے کسی کے مثل نہیں ہوں، مجھے تو کھلایا اور پلایا جاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1746]»
اس روایت کی سند صحیح اورمتفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1961]، [مسلم 1104]، [أبويعلی 2874]، [ابن حبان 3574]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1743
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني يزيد بن عبد الله، عن عبد الله بن خباب، عن ابي سعيد الخدري، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول:"لا تواصلوا، فايكم يريد ان يواصل، فليواصل إلى السحر". قالوا: إنك تواصل يا رسول الله. قال:"إني ابيت لي مطعم يطعمني، ويسقيني".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ:"لَا تُوَاصِلُوا، فَأَيُّكُمْ يُرِيدُ أَنْ يُوَاصِلَ، فَلْيُوَاصِلْ إِلَى السَّحَرِ". قَالُوا: إِنَّكَ تُوَاصِلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:"إِنِّي أَبِيتُ لِي مُطْعِمٌ يُطْعِمُنِي، وَيَسْقِينِي".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: مسلسل بلا افطار و سحری کے روزہ نہ رکھو، ہاں اگر کوئی ایسا کرنا ہی چاہے تو وہ سحری کے وقت تک وصال کر سکتا ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: آپ تو وصال کرتے ہیں، فرمایا: میں رات اس طرح گزارتا ہوں کہ ایک کھلانے والا مجھے کھلاتا اور پلاتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف: عبد الله بن صالح سيئ الحفظ جدا غير أن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1747]»
اس روایت کی سند میں عبدالله بن صالح «سيئ الحفظ جدا» ہیں لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1963]، [أبوداؤد 2361]، [أبويعلی 1133، 1407]، [ابن حبان 3577، 3578]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف: عبد الله بن صالح سيئ الحفظ جدا غير أن الحديث صحيح
حدیث نمبر: 1744
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عبد الله بن صالح، حدثني الليث، حدثني عقيل، عن ابن شهاب، اخبرني ابو سلمة بن عبد الرحمن، ان ابا هريرة قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الوصال. فقال له رجال من المسلمين: فإنك تواصل. قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إني لست مثلكم، إني ابيت يطعمني ربي ويسقيني". فلما ابوا ان ينتهوا عن الوصال، واصل بهم يوما ثم يوما، ثم راوا الهلال، فقال:"لو تاخر لزدتكم"، كالمنكل لهم حين ابوا ان ينتهوا.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنِي اللَّيْثُ، حَدَّثَنِي عُقَيْلٌ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، أَخْبَرَنِي أَبُو سَلَمَةَ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ الْوِصَالِ. فَقَالَ لَهُ رِجَالٌ مِنْ الْمُسْلِمِينَ: فَإِنَّكَ تُوَاصِلُ. قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنِّي لَسْتُ مِثْلَكُمْ، إِنِّي أَبِيتُ يُطْعِمُنِي رَبِّي وَيَسْقِينِي". فَلَمَّا أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا عَنْ الْوِصَالِ، وَاصَلَ بِهِمْ يَوْمًا ثُمَّ يَوْمًا، ثُمَّ رَأَوْا الْهِلَالَ، فَقَالَ:"لَوْ تَأَخَّرَ لَزِدْتُكُمْ"، كَالْمُنَكِّلِ لَهُمْ حِينَ أَبَوْا أَنْ يَنْتَهُوا.
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وصال صوم (مسلسل کئی دن تک بنا افطار و سحری کے روزہ رکھنے) سے منع فرمایا، اس پر مسلمانوں میں سے ایک آدمی نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ تو وصال کرتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہاری طرح نہیں ہوں، مجھے تو رات میں میرا رب کھلاتا پلاتا ہے۔ لوگ اس پر بھی جب وصال صوم سے نہ رکے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے ساتھ دو دن تک وصال کیا، پھر عید کا چاند نکل آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ: اگر چاند دکھائی نہ دیتا تو میں کئی اور دن وصال کرتا، گویا جب وصال صوم سے صحابہ کرام نہ رکے تو آپ نے سزا کے طور پر یہ کہا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف كسابقه ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1748]»
اگلی روایت کی طرح اس کی سند بھی ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1965]، [مسلم 1103]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1741 سے 1744)
ان تمام احادیث سے روزے میں وصال کی ممانعت ثابت ہوتی ہے یعنی بنا افطار و سحری کے پے درپے روزے رکھنا منع ہے کیونکہ اس میں مشقت ہے، اللہ تعالیٰ نے جو احکام نازل فرمائے ان پر عمل کرنے میں رحمت و برکت ہے، آدمی سحری کرے، بارہ گھنٹے یا کم و بیش اوقات میں افطار کرے تو صحت و قوت باقی رہے گی اور روزے دار مشقت و پریشانی میں نہ پڑے گا۔
اس نہی عن الوصال کے بارے میں علماء کا اختلاف ہے، بعض علماء نے کہا یہ نہی تحریمی ہے بعض نے کہا نہی تنزیہی ہے اور بعض علماء نے بیچ کا راستہ اختیار کیا کہ جس پر وصال شاق ہو تو اس پر حرام اور اگر شاق نہ ہو تو وصال اس کے لئے جائز ہے، ایک حدیثِ صحیح میں ہے کہ اگر کوئی روزے میں وصال کرنا ہی چاہے تو صرف سحری تک وصال کرے۔
نیز اس حدیث میں: میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے سے مراد بہشت کا حقیقی طعام و شراب بھی ہو سکتا ہے اور روحانی غذا بھی ہو سکتی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو الله تعالیٰ نے اتنی قوت دی کہ کھانے پینے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف كسابقه ولكن الحديث متفق عليه
15. باب الصَّوْمِ في السَّفَرِ:
15. سفر میں روزہ رکھنے کا بیان
حدیث نمبر: 1745
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن هشام بن عروة، عن عروة، عن عائشة، ان حمزة بن عمرو الاسلمي سال رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: رسول الله إني اريد السفر، فما تامرني؟ قال: "إن شئت، فصم، وإن شئت، فافطر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ عُرْوَةَ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ حَمْزَةَ بْنَ عَمْرٍو الْأَسْلَمِيَّ سَأَلَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُرِيدُ السَّفَرَ، فَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: "إِنْ شِئْتَ، فَصُمْ، وَإِنْ شِئْتَ، فَأَفْطِرْ".
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا سفر کا ارادہ ہے، آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: اگر چاہو تو روزہ رکھنا اور چاہو تو نہ رکھنا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1748]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1942]، [مسلم 1121]، [أبوداؤد 2402]، [ترمذي 1121]، [نسائي 2383]، [ابن ماجه 1662]، [أبويعلی 4502]، [ابن حبان 3560]، [الحميدي 201]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1746
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا خالد بن مخلد، حدثنا مالك، عن الزهري، عن عبيد الله بن عبد الله بن عتبة، عن ابن عباس، قال:"خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم عام الفتح فصام وصام الناس حتى بلغ الكديد، ثم افطر، فافطر الناس، فكانوا ياخذون بالاحدث فالاحدث من فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا خَالِدُ بْنُ مَخْلَدٍ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ:"خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْفَتْحِ فَصَامَ وَصَامَ النَّاسُ حَتَّى بَلَغَ الْكَدِيد، ثُمَّ أَفْطَرَ، فَأَفْطَرَ النَّاسُ، فَكَانُوا يَأْخُذُونَ بِالْأَحْدَثِ فَالْأَحْدَثِ مِنْ فِعْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس سال مکہ فتح ہوا (مدینہ سے) نکلے تو (سفر میں) روزہ رکھا اور سب لوگوں نے بھی روزہ رکھا، اور جب آپ کدید مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑ دیا اور سب لوگوں نے بھی روزہ توڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کے نئے عمل کو فوراً اپنا لیتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1749]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1944]، [مسلم 1113]، [أبوداؤد 2404]، [نسائي 2312]، [ابن حبان 3555]، [الحميدي 524]

وضاحت:
(تشریح احادیث 1744 سے 1746)
یعنی صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کرتے دیکھتے فوراً اس پر عمل کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں روزہ رکھ کر نکلے تو صحابہ کرام نے بھی روزہ رکھا، حبیبِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑا تو انہوں نے بھی روزہ توڑ دیا، اور یہی حقیقی اطاعت و اتباع ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
حدیث نمبر: 1747
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا هاشم بن القاسم، وابو الوليد، قالا: حدثنا شعبة، عن محمد بن عبد الرحمن الانصاري، قال: سمعت محمد بن عمرو بن الحسن يحدث، عن جابر بن عبد الله، انه ذكر ان النبي صلى الله عليه وسلم كان في سفر فراى زحاما ورجل قد ظلل عليه، فقال:"ما هذا؟ قالوا: هذا صائم. فقال النبي صلى الله عليه وسلم: "ليس من البر الصوم في السفر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ، وَأَبُو الْوَلِيدِ، قَالَا: حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَنْصَارِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ مُحَمَّدَ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْحَسَنِ يُحَدِّثُ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ ذَكَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ فِي سَفَرٍ فَرَأَى زِحَامًا وَرَجُلٌ قَدْ ظُلِّلَ عَلَيْهِ، فَقَالَ:"مَا هَذَا؟ قَالُوا: هَذَا صَائِمٌ. فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصَّوْمُ فِي السَّفَرِ".
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر (غزوہ فتح) میں تھے کہ آپ نے بھیڑ دیکھی اور دیکھا کہ لوگوں نے ایک شخص پر سایہ کر رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: کیا بات ہے؟ عرض کیا: ایک روزے دار ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر میں روزہ رکھنا نیکی (اچھا کام) نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1750]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1946]، [مسلم 1115]، [أبوداؤد 2407]، [نسائي 2261]، [ابن ماجه 1665]، [أبويعلی 1883]، [ابن حبان 3552]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1746)
اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی جو سفر میں افطار ضروری سمجھتے ہیں، اور ان کے مقابل علماء نے کہا کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ جس کو سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو اس کو سفر میں روزہ رکھنا اچھی بات نہیں ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1748
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عثمان بن محمد، حدثنا يونس، عن الزهري، عن صفوان بن عبد الله، عن ام الدرداء، عن كعب بن عاصم الاشعري، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: "ليس من البر الصيام في السفر".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدُ، حَدَّثَنَا يُونُسُ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ الْأَشْعَرِيِّ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ".
سیدنا کعب بن عاصم اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1751]»
اس سند سے بھی یہ روایت صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 2254]، [ابن ماجه 1664]، [الحميدي 887]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 1749
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، حدثنا الزهري، عن صفوان بن عبد الله بن صفوان، عن ام الدرداء، عن كعب بن عاصم الاشعري، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "ليس من البر الصيام في السفر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا الزُّهْرِيُّ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَفْوَانَ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ، عَنْ كَعْبِ بْنِ عَاصِمٍ الْأَشْعَرِيِّ، عَنْ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "لَيْسَ مِنْ الْبِرِّ الصِّيَامُ فِي السَّفَرِ".
سیدنا کعب بن عاصم اشعری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ سفر میں روزہ رکھنا اچھا نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1752]»
اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 1747 سے 1749)
ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز ہے اور نہ رکھے تو بھی درست ہے، البتہ فضیلت میں اختلاف ہے، کچھ لوگوں نے کہا روزہ رکھنا افضل ہے اور کچھ علماء نے ترکِ روزہ کو افضل کہا ہے، کچھ علماء نے کہا طاقت ہے تو سفر میں روزہ افضل ہے اور طاقت نہیں تو افطار افضل ہے، واضح رہے کہ یہ صومِ رمضان کے متعلق ہے یعنی فرض روزے، نفلی روزے کی سفر میں ضرورت ہی نہیں ہے۔
(والله اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

Previous    1    2    3    4    5    6    7    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.