الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 
صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
قرآن کے فضائل اور متعلقہ امور
حدیث نمبر: 1907
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه عبيد الله بن معاذ ، حدثنا ابي ، حدثنا شعبة ، بهذا الإسناد مثله.وحَدَّثَنَاه عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، بِهَذَا الإِسْنَادِ مِثْلَهُ.
معاذ عنبری نےشعبہ سے اسی سند کے ساتھ اسی کے مانند حدیث بیان کی۔
امام صاحب یہی حدیث دوسری سند سے لائے ہیں۔
49. باب تَرْتِيلِ الْقِرَاءَةِ وَاجْتِنَابِ الْهَذِّ وَهُوَ الإِفْرَاطُ فِي السُّرْعَةِ وَإِبَاحَةِ سُورَتَيْنِ فَأَكْثَرَ فِي الرَّكْعَةِ.
49. باب: قرآن ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے اور ایک رکعت میں دو یا دو سے زیادہ سورتیں پڑھنے کا بیان۔
Chapter: Slow, measured pace of recitation (tartil), and to not rush when reciting, and the permissibility of reciting two or more surahs in one rak`ah
حدیث نمبر: 1908
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابن نمير جميعا، عن وكيع ، قال ابو بكر: حدثنا وكيع ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، قال: جاء رجل، يقال له: نهيك بن سنان إلى عبد الله، فقال: يا ابا عبد الرحمن، كيف تقرا هذا الحرف، الفا تجده، ام ياء من ماء غير آسن، او من ماء غير ياسن؟ قال: فقال عبد الله : وكل القرآن قد احصيت غير هذا؟ قال: إني لاقرا المفصل في ركعة، فقال عبد الله: هذا كهذ الشعر، إن اقواما يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم، ولكن إذا وقع في القلب فرسخ فيه، نفع إن افضل الصلاة، الركوع، والسجود، إني لاعلم النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرن بينهن، سورتين في كل ركعة، ثم قام عبد الله، فدخل علقمة في إثره، ثم خرج، فقال: قد اخبرني بها، قال ابن نمير في روايته: جاء رجل من بني بجيلة إلى عبد الله، ولم يقل: نهيك بن سنان.حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَابْنُ نُمَيْرٍ جميعا، عَنْ وَكِيعٍ ، قَالَ أَبُو بَكْرٍ: حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ، يُقَالُ لَهُ: نَهِيكُ بْنُ سِنَانٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: يَا أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ، كَيْفَ تَقْرَأُ هَذَا الْحَرْفَ، أَلِفًا تَجِدُهُ، أَمْ يَاءً مِنْ مَاءٍ غَيْرِ آسِنٍ، أَوْ مِنْ مَاءٍ غَيْرِ يَاسِنٍ؟ قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : وَكُلَّ الْقُرْآنِ قَدْ أَحْصَيْتَ غَيْرَ هَذَا؟ قَالَ: إِنِّي لَأَقْرَأُ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ، إِنَّ أَقْوَامًا يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ لَا يُجَاوِزُ تَرَاقِيَهُمْ، وَلَكِنْ إِذَا وَقَعَ فِي الْقَلْبِ فَرَسَخَ فِيهِ، نَفَعَ إِنَّ أَفْضَلَ الصَّلَاةِ، الرُّكُوعُ، وَالسُّجُودُ، إِنِّي لَأَعْلَمُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرُنُ بَيْنَهُنَّ، سُورَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ، ثُمَّ قَامَ عَبْدُ اللَّهِ، فَدَخَلَ عَلْقَمَةُ فِي إِثْرِهِ، ثُمَّ خَرَجَ، فَقَالَ: قَدْ أَخْبَرَنِي بِهَا، قَالَ ابْنُ نُمَيْرٍ فِي رِوَايَتِهِ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي بَجِيلَةَ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، وَلَمْ يَقُلْ: نَهِيكُ بْنُ سِنَانٍ.
ابو بکر بن ابی شیبہ اور ابن نمیر نے وکیع سے، انھوں نے اعمش سے اور انھوں نے ابو وائل سے روایت کی، انھوں نے کہا: ا یک آدمی جو نہیک بن سنان کہلاتا تھا۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: ابو عبدالرحمان! آپ اس کلمے کو کیسےپڑھتے ہیں؟آپ اسے الف کے ساتھ مِّن مَّاءٍ غَیْرِ‌آسِنٍ سمجھتے ہیں۔ یا پھر یاء کے ساتھ ص مِّن مَّاءٍ غَیْرِ‌یاسِنٍ؟تو عبداللہ رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: تم نے اس لفظ کے سواتمام قرآن مجید یادکرلیاہے؟اس نے کہا: میں (تمام) مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھتاہوں۔اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: شعر کی سی تیز رفتاری کےساتھ پڑھتے ہو؟کچھ لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں وہ ان کے گلوں سے نیچے نہیں اترتا، لیکن جب وہ دل میں پہنچتا اور اس میں راسخ ہوتاہے تو نفع دیتا ہے۔نماز میں افضل رکوع اور سجدے ہیں اور میں ان ایک جیسی سورتوں کو جانتا ہوں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملایا کر تے تھے، دو دو (ملا کر) ایک رکعت میں پڑھتے تھے، پھر عبداللہ اٹھ کرچلے گئے، اس پر علقمہ بھی ان کے پیچھے اندر چلے گئے، پھر واپس آئے اور کہا: مجھے انھوں نے وہ سورتیں بتادی ہیں۔ ابن نمیر نے اپنی روایت میں کہا: بنو بجیلہ کا ایک شخص حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (بن مسعود) کے پاس آیا، انھوں نے "نہیک بن سنان" نہیں کہا۔
ابو وائل سے روایت ہے کہ، نہیک بن سنان نامی ایک آدمی حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور پوچھنے لگا، اے ابو عبدالرحمان! آپ اس کلمے کو کیسےپڑھتے ہیں؟ آپ اسے الف سمجھتے ہیں یا ﴿مِّن مَّاءٍ غَيْرِ‌ آسِنٍ﴾ یا ﴿مِّن مَّاءٍ غَيْرِ‌ ياسِنٍ﴾ (پانی جس کا ذائقہ اور رنگ بدلا نہیں ہوگا) تو حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس سے پوچھا: اس لفظ کے سوا تمام قرآن مجید کی تحقیق تم نے کر لی ہے؟ اس نے کہا: میں تمام مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھتا ہوں۔ اس پر حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: شعروں کی سی تیز رفتاری سے پڑھتے ہو؟ کچھ لوگ قرآن مجید پڑھتے ہیں اور وہ ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترتا، اور لیکن وہ جب دل پر پڑتا ہے اور اس میں راسخ ہو جاتا ہے تو نفع دیتا ہے۔ بہترین نماز وہ ہے جس میں رکوع اور سجدہ کو اہمیت حاصل ہے اور میں ان ملتی جلتی سورتوں کو جانتا ہوں، جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو دوملا کر ایک رکعت میں پڑھتے تھے، پھر عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ اٹھ کر چلے گئے، اور علقمہ بھی ان کے پیچھے اندر چلے گئے، پھر واپس آئے اور کہا: مجھے انھوں نے وہ سورتیں بتادی ہیں۔
حدیث نمبر: 1909
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي وائل ، قال: جاء رجل إلى عبد الله ، يقال له: نهيك بن سنان، بمثل حديث وكيع، غير انه قال: فجاء علقمة ليدخل عليه، فقلنا له: سله عن النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرا بها في ركعة، فدخل عليه فساله، ثم خرج علينا، فقال: عشرون سورة من المفصل في تاليف عبد الله .وحَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ ، يُقَالُ لَهُ: نَهِيكُ بْنُ سِنَانٍ، بِمِثْلِ حَدِيثِ وَكِيعٍ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: فَجَاءَ عَلْقَمَةُ لِيَدْخُلَ عَلَيْهِ، فَقُلْنَا لَهُ: سَلْهُ عَنِ النَّظَائِرِ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَأُ بِهَا فِي رَكْعَةٍ، فَدَخَلَ عَلَيْهِ فَسَأَلَهُ، ثُمَّ خَرَجَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: عِشْرُونَ سُورَةً مِنَ الْمُفَصَّلِ فِي تَأْلِيفِ عَبْدِ اللَّهِ .
ابو معاویہ نے اعمش سے، انھوں نے ابو وائل سے روایت کی، انھوں نے کہا: حضرت عبداللہ کے پاس ایک آدمی آیا جسے نہیک بن سنان کہا جاتا تھا۔۔۔ (آگے) وکیع کی روایت کے مانند ہے، مگر انھوں نے کہا: علقمہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس (گھر کے اندر) حاضری دینے آئے تو ہم نے ان سے کہا: حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ سے ان باہم ملتی جلتی سورتوں کے بارے میں پوچھیں جو ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔وہ ان کے پاس اندر چلے گئے اور ان سورتوں کے بارے میں ان سے پوچھا، پھر ہمارے پاس تشریف لائے اوربتایا، وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ (کے مصحف) کی ترتیب کے مطابق مفصل بیس سورتیں ہیں (جنھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم ) دس رکعتوں میں (پڑھتے تھے۔)
امام صاحب ایک دوسرے استاد سے نقل کرتے ہیں کہ ابووائل نے بتایا کہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا، جسے نہیک بن سنان کہا جاتا تھا۔ اس کے آخر میں ہے کہ علقمہ آئے تا کہ عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس جائیں تو ہم نے ان سے کہا: عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ان باہم ملتی جلتی سورتوں کے نام پوچھنا جنہیں ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ وہ ان کے پاس اندر چلے گئے اور ان سے ان سورتوں کے بارے میں پوچھا، پھر ہمارے پاس تشریف لائے اوربتایا، وہ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ترتیب کے مطابق مفصل کی(تقریباً) بیس سورتیں ہیں۔
حدیث نمبر: 1910
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثناه إسحاق بن إبراهيم ، اخبرنا عيسى بن يونس ، حدثنا الاعمش ، في هذا الإسناد بنحو حديثهما، وقال: إني لاعرف النظائر التي كان يقرا بهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، " اثنتين في ركعة، عشرين سورة في عشر ركعات ".وحَدَّثَنَاه إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الأَعْمَشُ ، فِي هَذَا الإِسْنَادِ بِنَحْوِ حَدِيثِهِمَا، وَقَالَ: إِنِّي لَأَعْرِفُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ يَقْرَأُ بِهِنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " اثْنَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ، عِشْرِينَ سُورَةً فِي عَشْرِ رَكَعَاتٍ ".
عیسیٰ بن یونس نے کہا: اعمش نے ہم سے اپنی اسی سند کے ساتھ ان دونوں (وکیع اور ابو معاویہ) کی حدیث کی طرح بیان کی۔اس میں ہے انھوں (عبداللہ رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں ان ایک جیسی سورتوں کو جانتا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو ملا کر ایک رکعت میں پڑھتے تھے، بیس سورتیں دس رکعتوں میں۔
امام صاحب یہی روایت ایک دوسرے استاد سے بیان کرتے ہیں، اس میں ہے کہ عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا، میں ان باہم متشابہ سورتوں کو جانتا ہوں جنہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو ملا کر ایک رکعت میں پڑھتے تھے یعنی بیس سورتیں دس رکعات میں۔
حدیث نمبر: 1911
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا مهدي بن ميمون ، حدثنا واصل الاحدب ، عن ابي وائل ، قال: غدونا على عبد الله بن مسعود يوما بعد ما صلينا الغداة، فسلمنا بالباب، فاذن لنا، قال: فمكثنا بالباب هنية، قال: فخرجت الجارية، فقالت: الا تدخلون؟ فدخلنا فإذا هو جالس يسبح، فقال: ما منعكم ان تدخلوا وقد اذن لكم؟ فقلنا: لا، إلا انا ظننا ان بعض اهل البيت نائم، قال: ظننتم بآل ابن ام عبد غفلة، قال: ثم اقبل يسبح، حتى ظن ان الشمس قد طلعت، فقال: يا جارية، انظري هل طلعت؟ قال: فنظرت فإذا هي لم تطلع، فاقبل يسبح حتى إذا ظن ان الشمس قد طلعت، قال: يا جارية، انظري هل طلعت؟ فنظرت فإذا هي قد طلعت، فقال: الحمد لله الذي اقالنا يومنا هذا، فقال: مهدي واحسبه، قال: ولم يهلكنا بذنوبنا، قال: فقال رجل من القوم: قرات المفصل البارحة كله، قال: فقال عبد الله: هذا كهذ الشعر، إنا لقد سمعنا القرائن، وإني لاحفظ القرائن التي كان يقرؤهن رسول الله صلى الله عليه وسلم، " ثمانية عشر من المفصل، وسورتين من آل، حم ".حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ ، حَدَّثَنَا وَاصِلٌ الأَحْدَبُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، قَالَ: غَدَوْنَا عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ يَوْمًا بَعْدَ مَا صَلَّيْنَا الْغَدَاة، فَسَلَّمْنَا بِالْبَابِ، فَأَذِنَ لَنَا، قَالَ: فَمَكَثْنَا بِالْبَابِ هُنَيَّةً، قَالَ: فَخَرَجَتِ الْجَارِيَةُ، فَقَالَتْ: أَلَا تَدْخُلُونَ؟ فَدَخَلْنَا فَإِذَا هُوَ جَالِسٌ يُسَبِّحُ، فَقَالَ: مَا مَنَعَكُمْ أَنْ تَدْخُلُوا وَقَدْ أُذِنَ لَكُمْ؟ فَقُلْنَا: لَا، إِلَّا أَنَّا ظَنَنَّا أَنَّ بَعْضَ أَهْلِ الْبَيْتِ نَائِمٌ، قَالَ: ظَنَنْتُمْ بِآلِ ابْنِ أُمِّ عَبْدٍ غَفْلَةً، قَالَ: ثُمَّ أَقْبَلَ يُسَبِّحُ، حَتَّى ظَنَّ أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ طَلَعَتْ، فَقَالَ: يَا جَارِيَةُ، انْظُرِي هَلْ طَلَعَتْ؟ قَالَ: فَنَظَرَتْ فَإِذَا هِيَ لَمْ تَطْلُعْ، فَأَقْبَلَ يُسَبِّحُ حَتَّى إِذَا ظَنَّ أَنَّ الشَّمْسَ قَدْ طَلَعَتْ، قَالَ: يَا جَارِيَةُ، انْظُرِي هَلْ طَلَعَتْ؟ فَنَظَرَتْ فَإِذَا هِيَ قَدْ طَلَعَتْ، فَقَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَقَالَنَا يَوْمَنَا هَذَا، فَقَالَ: مَهْدِيٌّ وَأَحْسِبُهُ، قَالَ: وَلَمْ يُهْلِكْنَا بِذُنُوبِنَا، قَالَ: فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ الْبَارِحَةَ كُلَّهُ، قَالَ: فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ، إِنَّا لَقَدْ سَمِعْنَا الْقَرَائِنَ، وَإِنِّي لَأَحْفَظُ الْقَرَائِنَ الَّتِي كَانَ يَقْرَؤُهُنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " ثَمَانِيَةَ عَشَرَ مِنَ الْمُفَصَّلِ، وَسُورَتَيْنِ مِنْ آلِ، حم ".
مہدی بن میمون نے کہا: واصل حدب نے ہمیں ابو وائل سے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: ایک دن ہم صبح کی نماز پڑھنے کے بعدحضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے دروازے سے (انھیں) سلام عرض کیا، انھوں نے ہمیں اندر آنے کی اجازت دی، ہم کچھ دیر دروازے پر رکے رہے، اتنے میں ایک بچی نکلی اور کہنے لگی: کیا آپ لوگ اندر نہیں آئیں گے؟ ہم اندر چلے گئے اور وہ بیٹھے تسبیحات پڑھ رہے تھے، انھوں نے پوچھا: جب آپ لوگوں کو اجازت دے دی گئی تو پھر آنے میں کیارکاوٹ تھی؟ہم نے عرض کی: نہیں (رکاوٹ نہیں تھی)، البتہ ہم نے سوچا (کہ شاید) گھر کے بعض افراد سوئے ہوئے ہوں۔انھوں نے فرمایا: تم نے ابن ام عبد کے گھر والوں کے متعلق غفلت کا گمان کیا؟ پھر دوبارہ تسبحات میں مشغول ہوگئے حتیٰ کہ انھوں نے محسوس کیا کہ سورج نکل آیا ہوگا تو فرمایا: اے بچی!دیکھو تو! کیا سورج نکل آیا ہے؟اس نے دیکھا، ابھی سورج نہیں نکلا تھا، وہ پھر تسبیح کی طرف متوجہ ہوگئے حتیٰ کہ پھر جب انھوں نے محسوس کیا کہ سورج طلوع ہوگیا ہے تو کہا اے لڑکی!دیکھو کیاسورج طلوع ہوگیا ہے اس نے د یکھا تو سورج طلوع ہوچکا تھا، انھوں نے فرمایا: اللہ کی حمد جس نے ہمیں یہ دن لوٹا دیا۔مہدی نے کہا: میرے خیال میں انھوں نے یہ بھی کہا۔۔۔اور ہمارے گناہوں کی پاداش میں ہمیں ہلاک نہیں کیا۔لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا: میں نے کل رات تمام مفصل سورتوں کی تلاوت کی، اس پر عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تیزی سے، جس طرح شعر تیز پڑھے جاتے ہیں؟ہم نے باہم ملا کر پڑھی جانے والی سورتوں کی سماعت کی ہے۔اور مجھے وہ دو دو سورتیں یاد ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھےمفصل میں سے اٹھارہ سورتیں اور دوسورتیں حمٰ والی۔
ابووائل بیان کرتے ہیں کہ ایک دن ہم صبح کی نماز پڑھنے کے بعد عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوئے، ہم نے دروازے پر ٹھہر کر السلام علیکم کہا، انھوں نے ہمیں اجازت دے دی، اور ہم کچھ وقت کے لئے دروازے پر رک گئے، تو ایک لونڈی آئی اور اس نے آ کر کہا: داخل کیوں نہیں ہوتے؟ تو ہم اندر چلے گئے، اور وہ بیٹھے تسبیحات پڑھ رہے تھے،اور انھوں نے پوچھا، جب میں نے تمہیں اجازت دے دی تھی تو پھر تمارے لئے داخلہ میں کون سی چیز رکاوٹ بنی؟ ہم نے عرض کیا، رکاوٹ تو کوئی نہیں تھی، ہم نے سوچا شاید گھر کے بعض افراد سوئے ہوئے ہوں۔ انھوں نے فرمایا: تم نے ام عبد کے بیٹے کے گھر والوں کے متعلق غفلت کا گمان کیا؟ پھر وہ تسبیح کرنے میں مشغول ہوگئے حتیٰ کہ انھوں نے خیال کیا کہ سورج نکل آیا ہے تو فرمایا، اے لوںڈی! دیکھو! کیا سورج نکل آیا ہے؟ اس نے دیکھا، ابھی سورج نہیں نکلا تھا، وہ پھر تسبیح میں مشغول ہو گئے حتیٰ کہ انھوں نے خیال کیا کہ سورج طلوع ہوگیا ہے تو کہا، اے لوںڈی! دیکھو کیا سورج طلوع ہو گیا ہے، اس نے د یکھا تو سورج طلوع ہو چکا ہے، تو انھوں نے کہا،شکریہ کے لائق اللہ ہے جس نے یہ دن لوٹا دیا۔ مہدی کہتے ہیں: میرے خیال میں انھوں نے یہ بھی کہا۔۔۔ ہمارے گناہوں کی پاداش میں ہمیں ہلاک نہیں کیا۔ لوگوں میں سے ایک آدمی نے کہا، میں نے کل رات تمام مفصل سورتوں کی تلاوت کی، اس پر عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا تیز جس طرح شعر تیزی سے نقل کئے جاتے ہیں؟ ہم نے ملتی جلتی سورتیں نقل کی ہیں اور مجھے وہ جو ڑے یاد ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پڑھا کرتے تھے، مفصل میں سے اٹھارہ سورتیں اور حمٰ والی دو۔
حدیث نمبر: 1912
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد بن حميد ، حدثنا حسين بن علي الجعفي ، عن زائدة ، عن منصور ، عن شقيق ، قال: جاء رجل من بني بجيلة، يقال له: نهيك بن سنان إلى عبد الله، فقال: إني اقرا المفصل في ركعة، فقال عبد الله : هذا كهذ الشعر، لقد علمت النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم " يقرا بهن سورتين في ركعة ".حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ عَلِيٍّ الْجُعْفِيُّ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ شَقِيقٍ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ مِنْ بَنِي بَجِيلَةَ، يُقَالُ لَهُ: نَهِيكُ بْنُ سِنَانٍ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: إِنِّي أَقْرَأُ الْمُفَصَّلَ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ : هَذًّا كَهَذِّ الشِّعْرِ، لَقَدْ عَلِمْتُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَقْرَأُ بِهِنَّ سُورَتَيْنِ فِي رَكْعَةٍ ".
منصور نے (ابووائل) شقیق سے روایت کی، انھوں نے کہا: بنو بجیلہ میں سے ایک آدمی جسے نہیک بن سنان کہا جاتاتھا۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں (تمام) مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھتا ہوں۔حضرت عبداللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تیزی سے جیسے شعر تیزی سے پڑھے جاتے ہیں؟مجھے وہ باہم ملتی جلتی سورتیں معلوم ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک رکعت میں دو دو کرکے پڑھتے تھے۔
شقیق بیان کرتے ہیں کہ بنو بجیلہ کا ایک آدمی جسے نہیک بن سنان کہا جاتا تھا۔ حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہنے لگا: میں مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھتا ہوں۔حضرت عبداللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا: تیزی سے جیسے شعروں کے لئے تیزی کی جاتی ہے؟ مجھے وہ نظائر باہمی ملتی جلتی سورتیں معلوم ہیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک رکعت میں دو دو کر کے پڑھتے تھے۔
حدیث نمبر: 1913
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عمرو بن مرة ، انه سمع ابا وائل يحدث، ان رجلا جاء إلى ابن مسعود ، فقال: إني قرات المفصل الليلة كله في ركعة، فقال عبد الله: هذا كهذا الشعر، فقال عبد الله: لقد عرفت النظائر التي كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرن بينهن، قال: فذكر، " عشرين سورة من المفصل، سورتين، سورتين في كل ركعة ".حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، أَنَّ رَجُلًا جَاءَ إِلَى ابْنِ مَسْعُودٍ ، فَقَالَ: إِنِّي قَرَأْتُ الْمُفَصَّلَ اللَّيْلَةَ كُلَّهُ فِي رَكْعَةٍ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: هَذًّا كَهَذِّا الشِّعْرِ، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ: لَقَدْ عَرَفْتُ النَّظَائِرَ الَّتِي كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرُنُ بَيْنَهُنَّ، قَالَ: فَذَكَرَ، " عِشْرِينَ سُورَةً مِنَ الْمُفَصَّلِ، سُورَتَيْنِ، سُورَتَيْنِ فِي كُلِّ رَكْعَةٍ ".
عمرو بن مرہ سے روایت ہے۔انھوں نے ابو وائل سے سنا وہ حدیث بیان کر رہے تھے کہ ایک آدمی حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے آج رات (تمام) مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھی ہیں تو عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس تیز رفتاری سے جس طرح شعر پڑھے جاتے ہیں؟ (پھر) عبد اللہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: میں وہ نظائر (ایک جیسی سورتیں) پہچا نتا ہوں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھا کرتے تھے انھوں نے مفصل سورتوں میں سے بیس سورتیں بتا ئیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو دوملا کر ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔ (ان سورتوں کی تفصیل کے لیے دیکھیے سنن ابی داؤد شھر رمضان باب تخریب القرآن 1396)
ابووائل بیان کرتے ہیں، کہ ایک آدمی حضرت عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس آیا اور کہا: میں نے آج رات مفصل سورتیں ایک رکعت میں پڑھی ہیں تو عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فریا: شعرو، كی سی تيزي كے ساتھ؟ اور عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فر یا: مجھے وہ نظائرمعلوم ہیں جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ملا کر پڑھا کرتے تھے، انھوں نے مفصل سورتوں میں سے بیس سورتیں بتائیں جنھیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دو دوملا کر ایک رکعت میں پڑھتے تھے۔
50. باب مَا يَتَعَلَّقُ بِالْقِرَاءَاتِ:
50. باب: قرأت کا بیان۔
Chapter: Concerning various recitations
حدیث نمبر: 1914
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا احمد بن عبد الله بن يونس ، حدثنا زهير ، حدثنا ابو إسحاق ، قال: " رايت رجلا سال الاسود بن يزيد وهو يعلم القرآن في المسجد، فقال: كيف تقرا هذه الآية، فهل من مدكر سورة القمر آية 15 ادالا، ام ذالا؟ قال: بل دالا، سمعت عبد الله بن مسعود ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " مدكر دالا ".حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاق ، قَالَ: " رَأَيْتُ رَجُلًا سَأَلَ الأَسْوَدَ بْنَ يَزِيدَ وَهُوَ يُعَلِّمُ الْقُرْآنَ فِي الْمَسْجِدِ، فَقَالَ: كَيْفَ تَقْرَأُ هَذِهِ الآيَةَ، فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ سورة القمر آية 15 أَدَالًا، أَمْ ذَالًا؟ قَالَ: بَلْ دَالًا، سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ مَسْعُودٍ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " مُدَّكِرٍ دَالًا ".
زہیر نے کہا: ہم سے ابو اسحاق نے حدیث بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے ایک آدمی کو دیکھا اس نے اسود بن یزید (سبیعی کوفی) سے جبکہ وہ مسجد میں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے۔سوال کیا: تم اس (آیت) کو کیسے پڑھتے ہو؟دال پڑھتے یا ذال؟ انھوں نے جواب دیا: دال پڑھتا ہوں۔میں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا وہ بتا رہے تھے۔کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فَہَلْ مِن مُّدَّکِرٍ‌ دال کے ساتھ پڑھتے سنا۔
ابواسحاق سے روایت ہے کہ میں نے ایک آدمی کو دیکھا اس نے اسود بن یزید سے جبکہ وہ مسجد میں قرآن کی تعلیم دے رہے تھے، سوال کیا، تم اس آیت کو کیسے پڑھتے ہو؟ ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ‌﴾ دال پڑھتے ہویا ذال؟ انھوں نے جواب دیا، دال پڑھتا ہوں۔ میں نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے سنا وہ بتا رہے تھے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ﴿مُّدَّكِرٍ‌﴾ دال کے ساتھ سنا ہے۔
حدیث نمبر: 1915
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن المثنى ، وابن بشار ، قال ابن المثنى: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن ابي إسحاق ، عن الاسود ، عن عبد الله ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، " انه كان يقرا هذا الحرف: فهل من مدكر ".وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، وَابْنُ بَشَّارٍ ، قَالَ ابْنُ الْمُثَنَّى: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق ، عَنِ الأَسْوَدِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " أَنَّهُ كَانَ يَقْرَأُ هَذَا الْحَرْف: فَهَلْ مِنْ مُدَّكِرٍ ".
شعبہ نے ابو اسحاق سے انھوں نے اسود سے انھوں نے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روا یت کی کہ آ پ صلی اللہ علیہ وسلم اس کلمے مُّدَّکِرٍ‌ پڑھتے تھے (یعنی دال کے ساتھ)
حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کلمہ کو ﴿فَهَلْ مِن مُّدَّكِرٍ‌﴾ پڑھتے تھے، یعنی دال پڑھتے تھے۔
حدیث نمبر: 1916
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، وابو كريب واللفظ لابي بكر، قالا: حدثنا ابو معاوية ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، قال: قدمنا الشام، فاتانا ابو الدرداء ، فقال: " افيكم احد يقرا على قراءة عبد الله؟ فقلت: نعم، انا، قال: " فكيف سمعت عبد الله يقرا هذه الآية والليل إذا يغشى سورة الليل آية 1؟ قال: سمعته يقرا 0 والليل إذا يغشى والذكر والانثى 0، قال: وانا والله هكذا سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقرؤها، ولكن هؤلاء يريدون ان اقرا، وما خلق فلا اتابعهم ".وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، وَأَبُو كُرَيْبٍ وَاللَّفْظُ لِأَبِي بَكْرٍ، قَالَا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، قَالَ: قَدِمْنَا الشَّامَ، فَأَتَانَا أَبُو الدَّرْدَاءِ ، فَقَالَ: " أَفِيكُمْ أَحَدٌ يَقْرَأُ عَلَى قِرَاءَةِ عَبْدِ اللَّهِ؟ فَقُلْتُ: نَعَمْ، أَنَا، قَالَ: " فَكَيْفَ سَمِعْتَ عَبْدَ اللَّهِ يَقْرَأُ هَذِهِ الآيَةَ وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى سورة الليل آية 1؟ قَالَ: سَمِعْتُهُ يَقْرَأُ 0 وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى وَالذَّكَرِ وَالأُنْثَى 0، قَالَ: وَأَنَا وَاللَّهِ هَكَذَا سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقْرَؤُهَا، وَلَكِنْ هَؤُلَاءِ يُرِيدُونَ أَنْ أَقْرَأَ، وَمَا خَلَقَ فَلَا أُتَابِعُهُمْ ".
اعمش نے ابرا ہیم سے اور انھوں نے علقمہ (بن قیس کوفی) سے روایت کی انھوں نے کہا: ہم شام آئے تو ہمارے پاس حضرت ابو دارداء رضی اللہ عنہ تشریف لا ئے اور انھوں نے پو چھا: کیا تم میں سے کوئی ایسا ہے جو عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی قراءت کے مطابق پڑھتا ہو؟میں نے عرض کی: جی ہاں میں (پڑھتا ہوں) انھوں نے پو چھا: تم نے عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کو یہ آیت وَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَیٰ کسی طرح پڑھتے سناہے۔ (میں نے) کہا: میں نے انھیںوَاللَّیْلِ إِذَا یَغْشَیٰ و الذَّکَرَ‌وَالْأُنثَیٰ پڑھتے سنا۔انھوں نے کہا: اور میں نے بھی اللہ کی قسم!رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی پڑھتے سنا لیکن یہ لو گ چا ہتے ہیں کہ میں وَمَا خَلَقَ الذَّکَرَ‌وَالْأُنثَیٰ پڑھوں میں ان کے پیچھے نہیں چلوں گا۔ (ابن مسعود اور ابودرداء رضی اللہ عنہ غالباًقراءت کی اس دوسری صورت سے آگاہ نہ ہو سکے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہی نے سکھا ئی تھی۔)
علقمہ سے روایت ہے کہ ہم شام آئے تو ہمارے پاس حضرت ابو دارداء رضی اللہ تعالیٰ عنہ تشریف لا ئے اور انھوں نے پو چھا: کیا تم میں سے کوئی عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی قراءت میں پڑھتا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں میں پڑھتا ہوں۔ انھوں نے پوچھا: تم نے عبداللہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ آیت کیسے پڑھتے سنا ہے۔ ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ﴾ میں نے کہا: ﴿وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَىٰ و الذَّكَرَ‌ وَالْأُنثَىٰ﴾ انھوں نے کہا: اور میں نے بھی اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایسے ہی پڑھتے سنا لیکن یہ حضرات چاہتے ہیں کہ ﴿وَمَا خَلَقَ الذَّكَرَ‌ وَالْأُنثَىٰ" پڑھوں، میں ان کے پیچھے نہیں چلوں گا۔

Previous    4    5    6    7    8    9    10    11    12    Next    

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.