صحيح البخاري سے متعلقہ
تمام کتب
ترقیم شاملہ
عربی
اردو
5. باب: {إذ يبايعونك تحت الشجرة} :
باب: آیت کی تفسیر ”وہ وقت یاد کرو جب کہ وہ درخت کے نیچے آپ کے ہاتھ پر بیعت کر رہے تھے“۔
حدیث نمبر: 4844
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ إِسْحَاقَ السُّلَمِيُّ، حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ سِيَاهٍ، عَنْ حَبِيبِ بْنِ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: أَتَيْتُ أَبَا وَائِلٍ أَسْأَلُهُ، فَقَالَ: كُنَّا بِصِفِّينَ، فَقَالَ رَجُلٌ: أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ يُدْعَوْنَ إِلَى كِتَابِ اللَّهِ؟ فَقَالَ عَلِيٌّ: نَعَمْ، فَقَالَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ: اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ، فَلَقَدْ رَأَيْتُنَا يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ يَعْنِي النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالْمُشْرِكِينَ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا، فَجَاءَ عُمَرُ، فَقَالَ: أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ؟ أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ، وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ؟ قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَفِيمَ نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا وَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا، فَقَالَ:" يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا"، فَرَجَعَ مُتَغَيِّظًا، فَلَمْ يَصْبِرْ حَتَّى جَاءَ أَبَا بَكْرٍ، فَقَالَ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ؟ قَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ، إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا، فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ.
ہم سے احمد بن اسحاق سلمی نے بیان کیا، کہا ہم سے یعلیٰ نے، کہا ہم سے عبدالعزیز بن سیاہ نے، ان سے حبیب بن ثابت نے، کہ میں ابووائل رضی اللہ عنہ کی خدمت میں ایک مسئلہ پوچھنے کے لیے (خوارج کے متعلق) گیا، انہوں نے فرمایا کہ ہم مقام صفین میں پڑاؤ ڈالے ہوئے تھے (جہاں علی اور معاویہ رضی اللہ عنہما کی جنگ ہوئی تھی) ایک شخص نے کہا کہ آپ کا کیا خیال ہے اگر کوئی شخص کتاب اللہ کی طرف صلح کے لیے بلائے؟ علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھیک ہے۔ لیکن خوارج نے معاویہ رضی اللہ عنہ کے خلاف علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے اس کے خلاف آواز اٹھائی۔ اس پر سہل بن حنیف نے فرمایا تم پہلے اپنا جائزہ لو۔ ہم لوگ حدیبیہ کے موقع پر موجود تھے آپ کی مراد اس صلح سے تھی جو مقام حدیبیہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مشرکین کے درمیان ہوئی تھی اور جنگ کا موقع آتا تو ہم اس سے پیچھے ہٹنے والے نہیں تھے۔ (لیکن صلح کی بات چلی تو ہم نے اس میں بھی صبر و ثبات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا) اتنے میں عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا کیا ہم حق پر نہیں ہیں؟ اور کیا کفار باطل پر نہیں ہیں؟ کیا ہمارے مقتولین جنت میں نہیں جائیں گے اور کیا ان کے مقتولین دوزخ میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا پھر ہم اپنے دین کے بارے میں ذلت کا مظاہرہ کیوں کریں (یعنی دب کر صلح کیوں کریں) اور کیوں واپس جائیں، جبکہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس کا حکم فرمایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ تعالیٰ مجھے کبھی ضائع نہیں کرے گا۔ عمر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے واپس آ گئے ان کو غصہ آ رہا تھا، صبر نہیں آیا اور ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا، اے ابوبکر! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ ابوبکر نے بھی وہی جواب دیا کہ اے ابن خطاب! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں اور اللہ انہیں ہرگز ضائع نہیں کرے گا۔ پھر سورۃ الفتح نازل ہوئی۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 4844]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 189
حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ صَالِحٍ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مَحْمُودُ بْنُ الرَّبِيعِ، قَالَ: وَهُوَ الَّذِي مَجّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجْهِهِ، وَهُوَ غُلَامٌ مِنْ بِئْرِهِمْ، وَقَالَ عُرْوَةُ: عَنْ الْمِسْوَرِ وَغَيْرِهِ يُصَدِّقُ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا صَاحِبَهُ،" وَإِذَا تَوَضَّأَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَادُوا يَقْتَتِلُونَ عَلَى وَضُوئِهِ".
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب بن ابراہیم بن سعد نے، کہا ہم سے میرے باپ نے، انہوں نے صالح سے سنا۔ انہوں نے ابن شہاب سے، کہا انہیں محمود بن الربیع نے خبر دی، ابن شہاب کہتے ہیں محمود وہی ہیں کہ جب وہ چھوٹے تھے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ہی کے کنویں (کے پانی) سے ان کے منہ میں کلی ڈالی تھی اور عروہ نے اسی حدیث کو مسور وغیرہ سے بھی روایت کیا ہے اور ہر ایک (راوی) ان دونوں میں سے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وضو فرماتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بچے ہوئے وضو کے پانی پر صحابہ رضی اللہ عنہم جھگڑنے کے قریب ہو جاتے تھے۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 189]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 1639
حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عُلَيَّةَ، عَنْ أَيُّوبَ، عَنْ نَافِعٍ أَنَّ ابْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، دَخَلَ ابْنُهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَظَهْرُهُ فِي الدَّارِ، فَقَالَ:" إِنِّي لَا آمَنُ أَنْ يَكُونَ الْعَامَ بَيْنَ النَّاسِ قِتَالٌ فَيَصُدُّوكَ عَنْ البيت فَلَوْ أَقَمْتَ، فَقَالَ: قَدْ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنهُ وَبَيْنَ البيت، فَإِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ أَفْعَلُ كَمَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21، ثُمَّ قَالَ: أُشْهِدُكُمْ أَنِّي قَدْ أَوْجَبْتُ مَعَ عُمْرَتِي حَجًّا، قَالَ: ثُمَّ قَدِمَ فَطَافَ لَهُمَا طَوَافًا وَاحِدًا".
ہم سے یعقوب بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے اسماعیل بن علیہ نے بیان کیا، ان سے ایوب سختیانی نے، ان سے نافع نے کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما کے لڑکے عبداللہ بن عبداللہ ان کے یہاں گئے۔ حج کے لیے سواری گھر میں کھڑی ہوئی تھی۔ انہوں نے کہا کہ مجھے خطرہ ہے کہ اس سال مسلمانوں میں آپس میں لڑائی ہو جائے گی اور آپ کو وہ بیت اللہ سے روک دیں گے۔ اس لیے اگر آپ نہ جاتے تو بہتر ہوتا۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تشریف لے گئے تھے (عمرہ کرنے صلح حدیبیہ کے موقع پر) اور کفار قریش نے آپ کو بیت اللہ تک پہنچنے سے روک دیا تھا۔ اس لیے اگر مجھے بھی روک دیا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا اور تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔ پھر آپ نے فرمایا کہ میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میں نے اپنے عمرہ کے ساتھ حج (اپنے اوپر) واجب کر لیا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ پھر آپ مکہ آئے اور دونوں عمرہ اور حج کے لیے ایک ہی طواف کیا۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 1639]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 1810
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا يُونُسُ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: أَخْبَرَنِي سَالِمٌ، قَالَ: كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، يَقُولُ: أَلَيْسَ حَسْبُكُمْ سُنَّةَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟" إِنْ حُبِسَ أَحَدُكُمْ عَنِ الْحَجِّ طَافَ بِالْبَيْتِ وَبِالصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ، ثُمَّ حَلَّ مِنْ كُلِّ شَيْءٍ حَتَّى يَحُجَّ عَامًا قَابِلًا، فَيُهْدِي أَوْ يَصُومُ إِنْ لَمْ يَجِدْ هَدْيًا"، وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ، عَنِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَالِمٌ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، نَحْوَهُ.
ہم سے احمد بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم کو عبداللہ نے خبر دی، کہا کہ ہم کو یونس نے خبر دی، ان سے زہری نے کہا کہ مجھے سالم نے خبر دی، کہا کہ ابن عمر رضی اللہ عنہما فرمایا کرتے تھے کیا تمہارے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کافی نہیں ہے کہ اگر کسی کو حج سے روک دیا جائے، ہو سکے تو وہ بیت اللہ کا طواف کر لے اور صفا اور مروہ کی سعی، پھر وہ ہر چیز سے حلال ہو جائے، یہاں تک کہ وہ دوسرے سال حج کر لے پھر قربانی کرے، اگر قربانی نہ ملے تو روزہ رکھے، عبداللہ سے روایت ہے کہ ہمیں معمر نے خبر دی، ان سے زہری نے بیان کیا کہ مجھ سے سالم نے بیان کیا، ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اسی پہلی روایت کی طرح بیان کیا۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 1810]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 1812
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحِيمِ، أَخْبَرَنَا أَبُو بَدْرٍ شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ مُحَمَّدٍ الْعُمَرِيِّ، قَالَ: وَحَدَّثَ نَافِعٌ، أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ، وَسَالِمًا، كَلَّمَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، فَقَالَ:" خَرَجْنَا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُعْتَمِرِينَ، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ دُونَ الْبَيْتِ، فَنَحَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بُدْنَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ".
ہم سے محمد بن عبدالرحیم نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ ہم کو ابوبدر شجاع بن ولید نے خبر دی، انہوں نے کہا کہ ہم سے معمر بن محمد عمری نے بیان کیا اور ان سے نافع نے بیان کیا کہ عبداللہ اور سالم نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے گفتگو کی، (کہ وہ اس سال مکہ نہ جائیں) تو انہوں نے فرمایا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عمرہ کا احرام باندھ کر گئے تھے اور کفار قریش نے ہمیں بیت اللہ سے روک دیا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی قربانی کو نحر کیا اور سر منڈایا۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 1812]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2698
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْبَرَاءَ بْنَ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، قَالَ:" لَمَّا صَالَحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَهْلَ الْحُدَيْبِيَةِ كَتَبَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بَيْنَهُمْ كِتَابًا، فَكَتَبَ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ الْمُشْرِكُونَ: لَا تَكْتُبْ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، لَوْ كُنْتَ رَسُولًا لَمْ نُقَاتِلْكَ، فَقَالَ لِعَلِيٍّ: امْحُهُ، فَقَالَ عَلِيٌّ: مَا أَنَا بِالَّذِي أَمْحَاهُ، فَمَحَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، وَصَالَحَهُمْ عَلَى أَنْ يَدْخُلَ هُوَ وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، وَلَا يَدْخُلُوهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلَاحِ، فَسَأَلُوهُ مَا جُلُبَّانُ السِّلَاحِ، فَقَالَ: الْقِرَابُ بِمَا فِيهِ".
ہم سے محمد بن بشار نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے سنا، آپ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیبیہ کی صلح (قریش سے) کی تو اس کی دستاویز علی رضی اللہ عنہ نے لکھی تھی۔ انہوں نے اس میں لکھا محمد اللہ کے رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی طرف سے۔ مشرکین نے اس پر اعتراض کیا کہ لفظ محمد کے ساتھ رسول اللہ نہ لکھو، اگر آپ رسول اللہ ہوتے تو ہم آپ سے لڑتے ہی کیوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا رسول اللہ کا لفظ مٹا دو، علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ میں نے کہا کہ میں تو اسے نہیں مٹا سکتا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے وہ لفظ مٹا دیا اور مشرکین کے ساتھ اس شرط پر صلح کی کہ آپ اپنے اصحاب کے ساتھ (آئندہ سال) تین دن کے لیے مکہ آئیں اور ہتھیار میان میں رکھ کر داخل ہوں، شاگردوں نے پوچھا کہ جلبان السلاح (جس کا یہاں ذکر ہے) کیا چیز ہوتی ہے؟ تو انہوں نے بتایا کہ میان اور جو چیز اس کے اندر ہوتی ہے (اس کا نام جلبان ہے)۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2698]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2701
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ، عَنْ نَافِعٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" خَرَجَ مُعْتَمِرًا، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَنَحَرَ هَدْيَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ بِالْحُدَيْبِيَةِ، وَقَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يَعْتَمِرَ الْعَامَ الْمُقْبِلَ، وَلَا يَحْمِلَ سِلَاحًا عَلَيْهِمْ إِلَّا سُيُوفًا، وَلَا يُقِيمَ بِهَا إِلَّا مَا أَحَبُّوا، فَاعْتَمَرَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَدَخَلَهَا كَمَا كَانَ صَالَحَهُمْ، فَلَمَّا أَقَامَ بِهَا ثَلَاثًا أَمَرُوهُ أَنْ يَخْرُجَ، فَخَرَجَ".
ہم سے محمد بن رافع نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن نعمان نے بیان کیا، کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا، ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کا احرام باندھ کر نکلے، تو کفار قریش نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بیت اللہ جانے سے روک دیا۔ اس لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قربانی کا جانور حدیبیہ میں ذبح کر دیا اور سر بھی وہیں منڈوا لیا اور کفار مکہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شرط پر صلح کی تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم آئندہ سال عمرہ کر سکیں گے۔ تلواروں کے سوا اور کوئی ہتھیار ساتھ نہ لائیں گے۔ (اور وہ بھی نیام میں ہوں گی) اور قریش جتنے دن چاہیں گے اس سے زیادہ مکہ میں نہ ٹھہر سکیں گے۔ (یعنی تین دن) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ سال عمرہ کیا اور شرائط کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں داخل ہوئے، پھر جب تین دن گزر چکے تو قریش نے مکے سے چلے جانے کے لیے کہا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں سے واپس چلے آئے۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2701]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2713
قَالَ عُرْوَةُ: فَأَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَمْتَحِنُهُنَّ بِهَذِهِ الْآيَةِ يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا جَاءَكُمُ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَامْتَحِنُوهُنَّ سورة الممتحنة آية 10 إِلَى غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة الممتحنة آية 12، قَالَ عُرْوَةُ: قَالَتْ عَائِشَةُ: فَمَنْ أَقَرَّ بِهَذَا الشَّرْطِ مِنْهُنَّ؟ قَالَ لَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَدْ بَايَعْتُكِ كَلَامًا يُكَلِّمُهَا بِهِ، وَاللَّهِ مَا مَسَّتْ يَدُهُ يَدَ امْرَأَةٍ قَطُّ فِي الْمُبَايَعَةِ، وَمَا بَايَعَهُنَّ إِلَّا بِقَوْلِهِ".
عروہ نے کہا کہ مجھے عائشہ رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرنے والی عورتوں کا اس آیت کی وجہ سے امتحان لیا کرتے تھے «{ يا أيها الذين آمنوا إذا جاءكم المؤمنات مهاجرات فامتحنوهن } إلى { غفور رحيم }.» ”اے مسلمانو! جب تمہارے یہاں مسلمان عورتیں ہجرت کر کے آئیں تو تم ان کا امتحان لے لو غفور رحیم تک۔“ عروہ نے کہا کہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ ان عورتوں میں سے جو اس شرط کا اقرار کر لیتیں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے کہ میں نے تم سے بیعت کی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے بیعت کرتے تھے۔ قسم اللہ کی! بیعت کرتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ نے کسی بھی عورت کے ہاتھ کو کبھی نہیں چھوا، بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے بیعت لیا کرتے تھے۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2713]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 2734
وَقَالَ اللَّيْثُ حَدَّثَنِي جَعْفَرُ بْنُ رَبِيعَةَ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ هُرْمُزَ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ ذَكَرَ رَجُلاً سَأَلَ بَعْضَ بَنِي إِسْرَائِيلَ أَنْ يُسْلِفَهُ أَلْفَ دِينَارِ، فَدَفَعَهَا إِلَيْهِ إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى.
اور لیث نے کہا کہ مجھ سے جعفر بن ربیعہ نے بیان کیا ‘ ان سے عبدالرحمٰن بن ہرمز نے بیان کیا ‘ ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کا ذکر کیا جنہوں نے بنی اسرائیل کے کسی دوسرے شخص سے ایک ہزار اشرفی قرض مانگا اور اس نے ایک مقررہ مدت تک کے لیے دے دیا۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2734]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3181
حَدَّثَنَا عَبْدَانُ، أَخْبَرَنَا أَبُو حَمْزَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ، قَالَ: سَأَلْتُ أَبَا وَائِلٍ شَهِدْتَ صِفِّينَ، قَالَ: نَعَمْ، فَسَمِعْتُ سَهْلَ بْنَ حُنَيْفٍ، يَقُولُ:" اتَّهِمُوا رَأْيَكُمْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ أَمْرَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَرَدَدْتُهُ وَمَا وَضَعْنَا أَسْيَافَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا لِأَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلَّا أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ غَيْرِ أَمْرِنَا هَذَا".
ہم سے عبدان نے بیان کیا، کہا ہم کو ابوحمزہ نے خبر دی، کہا کہ میں نے اعمش سے سنا، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے ابووائل سے پوچھا، کیا آپ صفین کی جنگ میں موجود تھے؟ انہوں نے بیان کیا کہ ہاں (میں تھا) اور میں نے سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کو یہ کہتے سنا تھا کہ تم لوگ خود اپنی رائے کو غلط سمجھو، جو آپس میں لڑتے مرتے ہو۔ میں نے اپنے تئیں دیکھا جس دن ابوجندل آیا (یعنی حدیبیہ کے دن) اگر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم پھیر دیتا اور ہم نے جب کسی مصیبت میں ڈر کر تلواریں اپنے کندھوں پر رکھیں تو وہ مصیبت آسان ہو گئی۔ ہم کو اس کا انجام معلوم ہو گیا۔ مگر یہی ایک لڑائی ہے (جو سخت مشکل ہے اس کا انجام بہتر نہیں معلوم ہوتا)۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3181]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3182
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، عَنْ أَبِيهِ، حَدَّثَنَا حَبِيبُ بْنُ أَبِي ثَابِتٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبُو وَائِلٍ، قَالَ: كُنَّا بِصِفِّينَ، فَقَامَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ، فَقَالَ: أَيُّهَا النَّاسُ اتَّهِمُوا أَنْفُسَكُمْ فَإِنَّا كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ وَلَوْ نَرَى قِتَالًا لَقَاتَلْنَا فَجَاءَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ،" أَلَسْنَا عَلَى الْحَقِّ وَهُمْ عَلَى الْبَاطِلِ؟ فَقَالَ:" بَلَى، فَقَالَ: أَلَيْسَ قَتْلَانَا فِي الْجَنَّةِ وَقَتْلَاهُمْ فِي النَّارِ، قَالَ: بَلَى، قَالَ: فَعَلَي مَا نُعْطِي الدَّنِيَّةَ فِي دِينِنَا أَنَرْجِعُ وَلَمَّا يَحْكُمِ اللَّهُ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُمْ، فَقَالَ: يَا ابْنَ الْخَطَّابِ إِنِّي رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَنِي اللَّهُ أَبَدًا فَانْطَلَقَ عُمَرُ إِلَى أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: لَهُ مِثْلَ مَا قَالَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ رَسُولُ اللَّهِ وَلَنْ يُضَيِّعَهُ اللَّهُ أَبَدًا فَنَزَلَتْ سُورَةُ الْفَتْحِ فَقَرَأَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى عُمَرَ إِلَى آخِرِهَا، فَقَالَ: عُمَرُ يَا رَسُولَ اللَّهِ أَوَفَتْحٌ هُوَ، قَالَ: نَعَمْ".
ہم سے عبداللہ بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یحییٰ بن آدم نے، ان سے یزید بن عبدالعزیز نے، ان سے ان کے باپ عبدالعزیز بن سیاہ نے، ان سے حبیب بن ابی ثابت نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے ابووائل نے بیان کیا کہ ہم مقام صفین میں ڈیرے ڈالے ہوئے تھے۔ پھر سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور فرمایا اے لوگو! تم خود اپنی رائے کو غلط سمجھو۔ ہم صلح حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اگر ہمیں لڑنا ہوتا تو اس وقت ضرور لڑتے۔ عمر رضی اللہ عنہ اس موقع پر آئے (یعنی حدیبیہ میں) اور عرض کیا، یا رسول اللہ! کیا ہم حق پر اور وہ باطل پر نہیں ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیوں نہیں! عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کیا ہمارے مقتول جنت میں اور ان کے مقتول جہنم میں نہیں جائیں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، کہ کیوں نہیں! پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر ہم اپنے دین کے معاملے میں کیوں دبیں؟ کیا ہم (مدینہ) واپس چلے جائیں گے، اور ہمارے اور ان کے درمیان اللہ کوئی فیصلہ نہیں کرے گا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”ابن خطاب! میں اللہ کا رسول ہوں اور اللہ مجھے کبھی برباد نہیں کرے گا۔“ اس کے بعد عمر رضی اللہ عنہ ابوبکر رضی اللہ عنہ کے پاس گئے اور ان سے وہی سوالات کئے، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ابھی کر چکے تھے۔ انہوں نے بھی یہی کہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ انہیں کبھی برباد نہیں ہونے دے گا۔ پھر سورۃ فتح نازل ہوئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عمر رضی اللہ عنہ کو اسے آخر تک پڑھ کر سنایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کیا یہی فتح ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہاں! بلا شک یہی فتح ہے۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3182]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3184
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عُثْمَانَ بْنِ حَكِيمٍ، حَدَّثَنَا شُرَيْحُ بْنُ مَسْلَمَةَ، حَدَّثَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ يُوسُفَ بْنِ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الْبَرَاءُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَمَّا أَرَادَ أَنْ يَعْتَمِرَ أَرْسَلَ إِلَى أَهْلِ مَكَّةَ يَسْتَأْذِنُهُمْ لِيَدْخُلَ مَكَّةَ فَاشْتَرَطُوا عَلَيْهِ أَنْ لَا يُقِيمَ بِهَا إِلَّا ثَلَاثَ لَيَالٍ، وَلَا يَدْخُلَهَا إِلَّا بِجُلُبَّانِ السِّلَاحِ وَلَا يَدْعُوَ مِنْهُمْ أَحَدًا، قَالَ: فَأَخَذَ يَكْتُبُ الشَّرْطَ بَيْنهُمْ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالُوا: لَوْ عَلِمْنَا أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ لَمْ نَمْنَعْكَ وَلَبَايَعْنَاكَ وَلكِنِ اكْتُبْ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: أَنَا وَاللَّهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ وَأَنَا وَاللَّهِ رَسُولُ اللَّهِ، قَالَ: وَكَانَ لَا يَكْتُبُ، قَالَ: فَقَالَ: لِعَلِيٍّ امْحَ رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: عَلِيٌّ وَاللَّهِ لَا أَمْحَاهُ أَبَدًا، قَالَ: فَأَرِنِيهِ، قَالَ: فَأَرَاهُ إِيَّاهُ فَمَحَاهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ فَلَمَّا دَخَلَ وَمَضَى الْأَيَّامُ أَتَوْا عَلِيًّا، فَقَالُوا: مُرْ صَاحِبَكَ فَلْيَرْتَحِلْ فَذَكَرَ ذَلِكَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: نَعَمْ، ثُمَّ ارْتَحَلَ".
ہم سے احمد بن عثمان بن حکیم نے بیان کیا، کہا ہم سے شریح بن مسلمہ نے بیان کیا، کہا ہم سے ابراہیم بن یوسف بن ابی اسحاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا، ان سے ابواسحاق نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب عمرہ کرنا چاہا تو آپ نے مکہ میں داخلہ کے لیے مکہ کے لوگوں سے اجازت لینے کے لیے آدمی بھیجا۔ انہوں نے اس شرط کے ساتھ (اجازت دی) کہ مکہ میں تین دن سے زیادہ قیام نہ کریں۔ ہتھیار نیام میں رکھے بغیر داخل نہ ہوں اور (مکہ کے) کسی آدمی کو اپنے ساتھ (مدینہ) نہ لے جائیں (اگرچہ وہ جانا چاہے) انہوں نے بیان کیا کہ پھر ان شرائط کو علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے لکھنا شروع کیا اور اس طرح ”یہ محمد اللہ کے رسول کے صلح نامہ کی تحریر ہے۔“ مکہ والوں نے کہا کہ اگر ہم جان لیتے کہ آپ اللہ کے رسول ہیں تو پھر آپ کو روکتے ہی نہیں بلکہ آپ پر ایمان لاتے، اس لیے تمہیں یوں لکھنا چاہئے، ”یہ محمد بن عبداللہ کی صلح نامہ کی تحریر ہے“۔ اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اللہ گواہ ہے کہ میں محمد بن عبداللہ ہوں اور اللہ گواہ ہے کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم لکھنا نہیں جانتے تھے۔ راوی نے بیان کیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ رسول اللہ کا لفظ مٹا دے۔ علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ اللہ کی قسم! یہ لفظ تو میں کبھی نہ مٹاؤں گا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر مجھے دکھلاؤ، راوی نے بیان کیا کہ علی رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ لفظ دکھایا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود اپنے ہاتھ سے اسے مٹا دیا۔ پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ تشریف لے گئے اور (تین) دن گزر گئے تو قریش علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اب اپنے ساتھی سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں (علی رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ) میں نے اس کا ذکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کیا تو آپ نے فرمایا کہ ہاں، چنانچہ آپ وہاں سے روانہ ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3184]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 3687
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سُلَيْمَانَ، قَالَ: حَدَّثَنِي ابْنُ وَهْبٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي عُمَرُ هُوَ ابْنُ مُحَمَّدٍ، أَنَّ زَيْدَ بْنَ أَسْلَمَ حَدَّثَهُ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلَنِي ابْنُ عُمَرَ، عَنْ بَعْضِ شَأْنِهِ يَعْنِي عُمَرَ فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ:" مَا رَأَيْتُ أَحَدًا قَطُّ بَعْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حِينَ قُبِضَ كَانَ أَجَدَّ وَأَجْوَدَ حَتَّى انْتَهَى مِنْ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ".
ہم سے یحییٰ بن سلیمان نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عبداللہ بن وہب نے بیان کیا، کہا کہ مجھ سے عمر بن محمد نے بیان کیا، ان سے زید بن اسلم نے بیان کیا اور ان سے ان کے والد نے بیان کیا، انہوں نے کہا کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے مجھ سے اپنے والد عمر رضی اللہ عنہ کے بعض حالات پوچھے، جو میں نے انہیں بتا دیئے تو انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد میں نے کسی شخص کو دین میں اتنی زیادہ کوشش کرنے والا اور اتنا زیادہ سخی نہیں دیکھا اور یہ خصائل عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ پر ختم ہو گئے۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 3687]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4151
حَدَّثَنِي فَضْلُ بْنُ يَعْقُوبَ , حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَعْيَنَ أَبُو عَلِيٍّ الْحَرَّانِيّ , حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ , حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ , قَالَ: أَنْبَأَنَا الْبَرَاءُ بْنُ عَازِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا: أَنَّهُمْ كَانُوا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ أَلْفًا وَأَرْبَعَ مِائَةٍ أَوْ أَكْثَرَ , فَنَزَلُوا عَلَى بِئْرٍ فَنَزَحُوهَا , فَأَتَوْا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَأَتَى الْبِئْرَ وَقَعَدَ عَلَى شَفِيرِهَا , ثُمَّ قَالَ:" ائْتُونِي بِدَلْوٍ مِنْ مَائِهَا" , فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ فَدَعَا ثُمَّ قَالَ:" دَعُوهَا سَاعَةً" , فَأَرْوَوْا أَنْفُسَهُمْ وَرِكَابَهُمْ حَتَّى ارْتَحَلُوا.
مجھ سے فضل بن یعقوب نے بیان کیا ‘ ہم سے حسن بن محمد بن اعین ابوعلی حرانی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے زہیر بن معاویہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے ابواسحاق سبیعی نے بیان کیا کہ ہمیں براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے خبر دی کہ وہ لوگ غزوہ حدیبیہ کے موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک ہزار چار سو کی تعداد میں تھے یا اس سے بھی زیادہ۔ ایک کنویں پر پڑاؤ ہوا لشکر نے اس کا (سارا) پانی کھینچ لیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کنویں کے پاس تشریف لائے اور اس کی منڈیر پر بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا کہ ایک ڈول میں اسی کنویں کا پانی لاؤ۔ پانی لایا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں کلی کی اور دعا فرمائی۔ پھر فرمایا کہ کنویں کو یوں ہی تھوڑی دیر کے لیے رہنے دو۔ اس کے بعد سارا لشکر خود بھی سیراب ہوتا رہا اور اپنی سواریوں کو بھی خوب پلاتا رہا۔ یہاں تک کہ وہاں سے انہوں نے کوچ کیا۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 4151]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4153
حَدَّثَنَا الصَّلْتُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ , عَنْ سَعِيدٍ , عَنْ قَتَادَةَ , قُلْتُ لِسَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ , بَلَغَنِي أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ , كَانَ يَقُولُ:" كَانُوا أَرْبَعَ عَشْرَةَ مِائَةً" , فَقَالَ لِي سَعِيدٌ: حَدَّثَنِي جَابِرٌ:" كَانُوا خَمْسَ عَشْرَةَ مِائَةً الَّذِينَ بَايَعُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ. تَابَعَهُ أَبُو دَاوُدَ , حَدَّثَنَا قُرَّةُ , عَنْ قَتَادَةَ.
ہم سے صلت بن محمد نے بیان کیا، کہا ہم سے یزید بن زریع نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی عروبہ نے، ان سے قتادہ نے کہ میں نے سعید بن مسیب سے پوچھا ‘ مجھے معلوم ہوا ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ کہا کرتے تھے کہ (حدیبیہ کی صلح کے موقع پر) صحابہ کی تعداد چودہ سو تھی۔ اس پر سعید بن مسیب نے بیان کیا کہ مجھ سے جابر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تھا اس موقع پر پندرہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے۔ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیبیہ میں بیعت کی تھی۔ ابوداؤد طیالسی نے بیان کیا، ہم سے قرۃ بن خالد نے بیان کیا، ان سے قتادہ نے اور محمد بن بشار نے بھی ابوداؤد طیالسی کے ساتھ اس کو روایت کیا ہے۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 4153]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4179
حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , قَالَ: سَمِعْتُ الزُّهْرِيَّ حِينَ حَدَّثَ هَذَا الْحَدِيثَ حَفِظْتُ بَعْضَهُ , وَثَبَّتَنِي مَعْمَرٌ , عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ , عَنْ الْمِسْوَرِ بْنِ مَخْرَمَةَ , وَمَرْوَانَ بْنِ الْحَكَمِ يَزِيدُ , أَحَدُهُمَا عَلَى صَاحِبِهِ , قَالَا: خَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ الْحُدَيْبِيَةِ فِي بِضْعَ عَشْرَةَ مِائَةً مِنْ أَصْحَابِهِ , فَلَمَّا أَتَى ذَا الْحُلَيْفَةِ قَلَّدَ الْهَدْيَ وَأَشْعَرَهُ وَأَحْرَمَ مِنْهَا بِعُمْرَةٍ , وَبَعَثَ عَيْنًا لَهُ مِنْ خُزَاعَةَ , وَسَارَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى كَانَ بِغَدِيرِ الْأَشْطَاطِ أَتَاهُ عَيْنُهُ , قَالَ: إِنَّ قُرَيْشًا جَمَعُوا لَكَ جُمُوعًا , وَقَدْ جَمَعُوا لَكَ الْأَحَابِيشَ وَهُمْ مُقَاتِلُوكَ , وَصَادُّوكَ عَنْ الْبَيْتِ وَمَانِعُوكَ , فَقَالَ:" أَشِيرُوا أَيُّهَا النَّاسُ عَلَيَّ , أَتَرَوْنَ أَنْ أَمِيلَ إِلَى عِيَالِهِمْ وَذَرَارِيِّ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ يُرِيدُونَ أَنْ يَصُدُّونَا عَنْ الْبَيْتِ؟ فَإِنْ يَأْتُونَا كَانَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ قَطَعَ عَيْنًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَإِلَّا تَرَكْنَاهُمْ مَحْرُوبِينَ" , قَالَ أَبُو بَكْرٍ: يَا رَسُولَ اللَّهِ خَرَجْتَ عَامِدًا لِهَذَا الْبَيْتِ لَا تُرِيدُ قَتْلَ أَحَدٍ وَلَا حَرْبَ أَحَدٍ , فَتَوَجَّهْ لَهُ , فَمَنْ صَدَّنَا عَنْهُ قَاتَلْنَاهُ , قَالَ:" امْضُوا عَلَى اسْمِ اللَّهِ".
ہم سے عبداللہ بن محمد مسندی نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان بن عیینہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ جب زہری نے یہ حدیث بیان کی (جو آگے مذکور ہوئی ہے) تو اس میں سے کچھ میں نے یاد رکھی اور معمر نے اس کو اچھی طرح یاد دلایا۔ ان سے عروہ بن زبیر نے ‘ ان سے مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ اور مروان بن حکم نے بیان کیا ‘ ان میں سے ہر ایک دوسرے سے کچھ بڑھاتا ہے۔ انہوں نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم صلح حدیبیہ کے موقع پر تقریباً ایک ہزار صحابہ کو ساتھ لے کر روانہ ہوئے۔ پھر جب آپ ذو الحلیفہ پہنچے تو آپ نے قربانی کے جانور کو قلادہ پہنایا اور اس پر نشان لگایا اور وہیں سے عمرہ کا احرام باندھا۔ پھر آپ نے قبیلہ خزاعہ کے ایک صحابی کو جاسوسی کے لیے بھیجا اور خود بھی سفر جاری رکھا۔ جب آپ غدیر الاشطاط پر پہنچے تو آپ کے جاسوس بھی خبریں لے کر آ گئے۔ جنہوں نے بتایا کہ قریش نے آپ کے مقابلے کے لیے بہت بڑا لشکر تیار کر رکھا ہے اور بہت سے قبائل کو بلایا ہے۔ وہ آپ سے جنگ کرنے پر تلے ہوئے ہیں اور آپ کو بیت اللہ سے روکیں گے۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ سے فرمایا کہ مجھے مشورہ دو کیا تمہارے خیال میں یہ مناسب ہو گا کہ میں ان کفار کی عورتوں اور بچوں پر حملہ کر دوں جو ہمارے بیت اللہ تک پہنچنے میں رکاوٹ بننا چاہتے ہیں؟ اگر انہوں نے ہمارا مقابلہ کیا تو اللہ عزوجل نے مشرکین سے ہمارے جاسوس کو محفوظ رکھا ہے اور اگر وہ ہمارے مقابلے پر نہیں آتے تو ہم انہیں ایک ہاری ہوئی قوم جان کر چھوڑ دیں گے۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یا رسول اللہ! آپ تو صرف بیت اللہ کے عمرہ کے لیے نکلے ہیں نہ آپ کا ارادہ کسی کو قتل کرنے کا ہے اور نہ کسی سے لڑائی کا۔ اس لیے آپ بیت اللہ تشریف لے چلیں۔ اگر ہمیں پھر بھی کوئی بیت اللہ تک جانے سے روکے گا تو ہم اس سے جنگ کریں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ کا نام لے کر سفر جاری رکھو۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 4179]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4181
حَدَّثَنِي إِسْحَاقُ , أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ , حَدَّثَنِي ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ , عَنْ عَمِّهِ , أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ بْنُ الزُّبَيْرِ أَنَّهُ , سَمِعَ مَرْوَانَ بْنَ الْحَكَمِ ,وَالْمِسْوَرَ بْنَ مَخْرَمَةَ يُخْبِرَانِ خَبَرًا مِنْ خَبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عُمْرَةِ الْحُدَيْبِيَةِ , فَكَانَ فِيمَا أَخْبَرَنِي عُرْوَةُ عَنْهُمَا:" أَنَّهُ لَمَّا كَاتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سُهَيْلَ بْنَ عَمْرٍو يَوْمَ الْحُدَيْبِيَةِ عَلَى قَضِيَّةِ الْمُدَّةِ , وَكَانَ فِيمَا اشْتَرَطَ سُهَيْلُ بْنُ عَمْرٍو أَنَّهُ قَالَ: لَا يَأْتِيكَ مِنَّا أَحَدٌ وَإِنْ كَانَ عَلَى دِينِكَ إِلَّا رَدَدْتَهُ إِلَيْنَا , وَخَلَّيْتَ بَيْنَنَا وَبَيْنَهُ , وَأَبَى سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلَى ذَلِكَ , فَكَرِهَ الْمُؤْمِنُونَ ذَلِكَ وَامَّعَضُوا فَتَكَلَّمُوا فِيهِ , فَلَمَّا أَبَى سُهَيْلٌ أَنْ يُقَاضِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا عَلَى ذَلِكَ كَاتَبَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَرَدَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَبَا جَنْدَلِ بْنَ سُهَيْلٍ يَوْمَئِذٍ إِلَى أَبِيهِ سُهَيْلِ بْنِ عَمْرٍو , وَلَمْ يَأْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدٌ مِنَ الرِّجَالِ إِلَّا رَدَّهُ فِي تِلْكَ الْمُدَّةِ وَإِنْ كَانَ مُسْلِمًا , وَجَاءَتِ الْمُؤْمِنَاتُ مُهَاجِرَاتٍ فَكَانَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ بِنْتُ عُقْبَةَ بْنِ أَبِي مُعَيْطٍ مِمَّنْ خَرَجَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهِيَ عَاتِقٌ , فَجَاءَ أَهْلُهَا يَسْأَلُونَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَرْجِعَهَا إِلَيْهِمْ حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى فِي الْمُؤْمِنَاتِ مَا أَنْزَلَ".
مجھ سے اسحاق بن راہویہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم کو یعقوب بن ابراہیم نے خبر دی ‘ کہا کہ مجھ سے میرے بھتیجے ابن شہاب نے بیان کیا ‘ ان سے ان کے چچا محمد بن مسلم بن شہاب نے کہا کہ مجھ کو عروہ بن زبیر نے خبر دی اور انہوں نے مروان بن حکم اور مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ دونوں راویوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عمرہ حدیبیہ کے بارے میں بیان کیا تو عروہ نے مجھے اس میں جو کچھ خبر دی تھی ‘ اس میں یہ بھی تھا کہ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور (قریش کا نمائندہ) سہیل بن عمرو حدیبیہ میں ایک مقررہ مدت تک کے لیے صلح کی دستاویز لکھ رہے تھے اور اس میں سہیل نے یہ شرط بھی رکھی تھی کہ ہمارا اگر کوئی آدمی آپ کے یہاں پناہ لے خواہ وہ آپ کے دین پر ہی کیوں نہ ہو جائے تو آپ کو اسے ہمارے حوالے کرنا ہی ہو گا تاکہ ہم اس کے ساتھ جو چاہیں کریں۔ سہیل اس شرط پر اڑ گیا اور کہنے لگا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس شرط کو قبول کر لیں اور مسلمان اس شرط پر کسی طرح راضی نہ تھے۔ مجبوراً انہوں نے اس پر گفتگو کی (کہا یہ کیونکر ہو سکتا ہے کہ مسلمان کو کافر کے سپرد کر دیں) سہیل نے کہا کہ یہ نہیں ہو سکتا تو صلح بھی نہیں ہو سکتی۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ شرط بھی تسلیم کر لی اور ابوجندل بن سہیل رضی اللہ عنہ کو ان کے والد سہیل بن عمرو کے سپرد کر دیا (جو اسی وقت مکہ سے فرار ہو کر بیڑی کو گھسیٹتے ہوئے مسلمانوں کے پاس پہنچے تھے) (شرط کے مطابق مدت صلح میں مکہ سے فرار ہو کر) جو بھی آتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے واپس کر دیتے ‘ خواہ وہ مسلمان ہی کیوں نہ ہوتا۔ اس مدت میں بعض مومن عورتیں بھی ہجرت کر کے مکہ سے آئیں۔ ام کلثوم بنت عقبہ ابن ابی معیط بھی ان میں سے ہیں جو اس مدت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی تھیں ‘ وہ اس وقت نوجوان تھیں ‘ ان کے گھر والے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ سے مطالبہ کیا کہ انہیں واپس کر دیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ نے مومن عورتوں کے بارے میں وہ آیت نازل کی جو شرط کے مناسب تھی۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 4181]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4184
حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ , حَدَّثَنَا يَحْيَى , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنْ نَافِعٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , أَنَّهُ أَهَلَّ وَقَالَ:" إِنْ حِيلَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ لَفَعَلْتُ كَمَا فَعَلَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ حَالَتْ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ , وَتَلَا: لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ سورة الأحزاب آية 21".
ہم سے مسدد بن مسرہد نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے یحییٰ بن سعید قطان نے بیان کیا ‘ ان سے عبیداللہ بن عبداللہ نے ‘ ان سے نافع نے کہ عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے احرام باندھا اور کہا کہ اگر مجھے بیت اللہ جانے سے روکا گیا تو میں بھی وہی کام کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا۔ جب آپ کو کفار قریش نے بیت اللہ جانے سے روکا تو اس آیت کی تلاوت کی کہ «لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة» ”یقیناً تم لوگوں کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے۔“ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 4184]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4189
حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَابِقٍ , حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ مِغْوَلٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا حَصِينٍ , قَالَ: قَالَ أَبُو وَائِلٍ:" لَمَّا قَدِمَ سَهْلُ بْنُ حُنَيْفٍ مِنْ صِفِّينَ أَتَيْنَاهُ نَسْتَخْبِرُهُ , فَقَالَ: اتَّهِمُوا الرَّأْيَ فَلَقَدْ رَأَيْتُنِي يَوْمَ أَبِي جَنْدَلٍ وَلَوْ أَسْتَطِيعُ أَنْ أَرُدَّ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَمْرَهُ لَرَدَدْتُ وَاللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ , وَمَا وَضَعْنَا أَسْيَافَنَا عَلَى عَوَاتِقِنَا لِأَمْرٍ يُفْظِعُنَا إِلَّا أَسْهَلْنَ بِنَا إِلَى أَمْرٍ نَعْرِفُهُ قَبْلَ هَذَا الْأَمْرِ , مَا نَسُدُّ مِنْهَا خُصْمًا إِلَّا انْفَجَرَ عَلَيْنَا خُصْمٌ مَا نَدْرِي كَيْفَ نَأْتِي لَهُ".
ہم سے حسن بن اسحاق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے محمد بن سابق نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے مالک بن مغول نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابوحصین سے سنا ‘ ان سے ابووائل نے بیان کیا کہ سہل بن حنیف رضی اللہ عنہ جب جنگ صفین (جو علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ میں ہوئی تھی) سے واپس آئے تو ہم ان کی خدمت میں حالات معلوم کرنے کے لیے حاضر ہوئے۔ انہوں نے کہا کہ اس جنگ کے بارے میں تم لوگ اپنی رائے اور فکر پر نازاں مت ہو۔ میں یوم ابوجندل (صلح حدیبیہ) میں بھی موجود تھا۔ اگر میرے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کو ماننے سے انکار ممکن ہوتا تو میں اس دن ضرور حکم عدولی کرتا۔ اللہ اور اس کا رسول خوب جانتے ہیں کہ جب ہم نے کسی مشکل کام کے لیے اپنی تلواروں کو اپنے کاندھوں پر رکھا تو صورت حال آسان ہو گئی اور ہم نے مشکل حل کر لی۔ لیکن اس جنگ کا کچھ عجیب حال ہے ‘ اس میں ہم (فتنے کے) ایک کونے کو بند کرتے ہیں تو دوسرا کونا کھل جاتا ہے۔ ہم نہیں جانتے کہ ہم کو کیا تدبیر کرنی چاہئے۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 4189]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4251
حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُوسَى، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: لَمَّا اعْتَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ذِي الْقَعْدَةِ فَأَبَى أَهْلُ مَكَّةَ أَنْ يَدَعُوهُ يَدْخُلُ مَكَّةَ حَتَّى قَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يُقِيمَ بِهَا ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَتَبُوا الْكِتَابَ، كَتَبُوا هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ، قَالُوا: لَا نُقِرُّ لَكَ بِهَذَا، لَوْ نَعْلَمُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ مَا مَنَعْنَاكَ شَيْئًا، وَلَكِنْ أَنْتَ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ:" أَنَا رَسُولُ اللَّهِ، وَأَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ"، ثُمَّ قَالَ لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ:" امْحُ رَسُولَ اللَّهِ"، قَالَ عَلِيٌّ: لَا، وَاللَّهِ لَا أَمْحُوكَ أَبَدًا، فَأَخَذَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْكِتَابَ، وَلَيْسَ يُحْسِنُ يَكْتُبُ، فَكَتَبَ هَذَا مَا قَاضَى عَلَيْهِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَا يُدْخِلُ مَكَّةَ السِّلَاحَ إِلَّا السَّيْفَ فِي الْقِرَابِ، وَأَنْ لَا يَخْرُجَ مِنْ أَهْلِهَا بِأَحَدٍ إِنْ أَرَادَ أَنْ يَتْبَعَهُ، وَأَنْ لَا يَمْنَعَ مِنْ أَصْحَابِهِ أَحَدًا إِنْ أَرَادَ أَنْ يُقِيمَ بِهَا، فَلَمَّا دَخَلَهَا وَمَضَى الْأَجَلُ، أَتَوْا عَلِيًّا فَقَالُوا: قُلْ لِصَاحِبِكَ اخْرُجْ عَنَّا فَقَدْ مَضَى الْأَجَلُ، فَخَرَجَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَتَبِعَتْهُ ابْنَةُ حَمْزَةَ تُنَادِي: يَا عَمِّ، يَا عَمِّ، فَتَنَاوَلَهَا عَلِيٌّ، فَأَخَذَ بِيَدِهَا، وَقَالَ لِفَاطِمَةَ عَلَيْهَا السَّلَام: دُونَكِ ابْنَةَ عَمِّكِ حَمَلَتْهَا، فَاخْتَصَمَ فِيهَا عَلِيٌّ، وَزَيْدٌ، وَجَعْفَرٌ، قَالَ عَلِيٌّ: أَنَا أَخَذْتُهَا وَهِيَ بِنْتُ عَمِّي، وَقَالَ جَعْفَرٌ: ابْنَةُ عَمِّي وَخَالَتُهَا تَحْتِي، وَقَالَ زَيْدٌ: ابْنَةُ أَخِي، فَقَضَى بِهَا النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِخَالَتِهَا، وَقَالَ:" الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ"، وَقَالَ لِعَلِيٍّ:" أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ"، وَقَالَ لِجَعْفَرٍ:" أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي"، وَقَالَ لِزَيْدٍ:" أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا"، وَقَالَ عَلِيٌّ: أَلَا تَتَزَوَّجُ بِنْتَ حَمْزَةَ؟، قَالَ:" إِنَّهَا ابْنَةُ أَخِي مِنَ الرَّضَاعَةِ".
مجھ سے عبیداللہ بن موسیٰ نے بیان کیا ‘ ان سے اسرائیل نے بیان کیا ‘ ان سے ابواسحاق نے اور ان سے براء رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ انس رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ذی قعدہ میں عمرہ کا احرام باندھا۔ مکہ والے آپ کے مکہ میں داخل ہونے سے مانع آئے۔ آخر معاہدہ اس پر ہوا کہ (آئندہ سال) مکہ میں تین دن آپ قیام کر سکتے ہیں۔ معاہدہ یوں لکھا جانے لگا ”یہ وہ معاہدہ ہے جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا۔ کفار قریش کہنے لگے کہ ہم یہ تسلیم نہیں کرتے۔ اگر ہم آپ کو اللہ کا رسول مانتے تو روکتے ہی کیوں ‘ آپ تو بس محمد بن عبداللہ ہیں۔ آپ نے فرمایا کہ میں اللہ کا رسول بھی ہوں اور محمد بن عبداللہ بھی ہوں۔ پھر علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ (رسول اللہ کا لفظ مٹا دو) انہوں نے کہا کہ ہرگز نہیں، اللہ کی قسم! میں یہ لفظ کبھی نہیں مٹا سکتا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ تحریر اپنے ہاتھ میں لے لی۔ آپ لکھنا نہیں جانتے تھے لیکن آپ نے اس کے الفاظ اس طرح کر دیئے ”یہ معاہدہ ہے جو محمد بن عبداللہ نے کیا کہ وہ ہتھیار لے کر مکہ میں نہیں آئیں گے۔ البتہ ایسی تلوار جو نیام میں ہو ساتھ لا سکتے ہیں اور یہ اگر مکہ والوں میں سے کوئی ان کے ساتھ جانا چاہے گا تو اسے اپنے ساتھ نہیں لے جائیں گے۔ لیکن اگر ان کے ساتھیوں میں کوئی مکہ میں رہنا چاہے گا اسے نہ روکیں گے۔ پھر جب (آئندہ سال) آپ اس معاہدہ کے مطابق مکہ میں داخل ہوئے (اور تین دن کی) مدت پوری ہو گئی تو مکہ والے علی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور کہا کہ اپنے ساتھی سے کہو کہ اب یہاں سے چلے جائیں ‘ کیونکہ مدت پوری ہو گئی ہے۔ جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے نکلے تو آپ کے پیچھے حمزہ رضی اللہ عنہ کی بیٹی چچا چچا کہتی ہوئی آئیں۔ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں لے لیا اور ہاتھ پکڑ کر فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس لائے اور کہا کہ اپنے چچا کی بیٹی کو لے لو میں اسے لیتا آیا ہوں۔ علی ‘ زید ‘ جعفر رضی اللہ عنہم کا اختلاف ہوا۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اور جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ یہ میرے چچا کی لڑکی ہے اس کی خالہ میرے نکاح میں ہیں۔ زید رضی اللہ عنہ نے کہا یہ میرے بھائی کی لڑکی ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی خالہ کے حق میں فیصلہ فرمایا (جو جعفر رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں) اور فرمایا خالہ ماں کے درجے میں ہوتی ہے اور علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ جعفر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم صورت و شکل اور عادت و اخلاق دونوں میں مجھ سے مشابہ ہو اور زید رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ تم ہمارے بھائی اور ہمارے مولا ہو۔ علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ حمزہ رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کو آپ اپنے نکاح میں لے لیں لیکن آپ نے فرمایا کہ وہ میرے رضاعی بھائی کی لڑکی ہے۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 4251]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة
حدیث نمبر: 4252
حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ، حَدَّثَنَا سُرَيْجٌ، حَدَّثَنَا فُلَيْحٌ. ح وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، حَدَّثَنَا فُلَيْحُ بْنُ سُلَيْمَانَ،عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا:" أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَرَجَ مُعْتَمِرًا، فَحَالَ كُفَّارُ قُرَيْشٍ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْبَيْتِ، فَنَحَرَ هَدْيَهُ، وَحَلَقَ رَأْسَهُ بِالْحُدَيْبِيَةِ، وَقَاضَاهُمْ عَلَى أَنْ يَعْتَمِرَ الْعَامَ الْمُقْبِلَ، وَلَا يَحْمِلَ سِلَاحًا عَلَيْهِمْ إِلَّا سُيُوفًا، وَلَا يُقِيمَ بِهَا إِلَّا مَا أَحَبُّوا، فَاعْتَمَرَ مِنَ الْعَامِ الْمُقْبِلِ فَدَخَلَهَا كَمَا كَانَ صَالَحَهُمْ، فَلَمَّا أَنْ أَقَامَ بِهَا ثَلَاثًا، أَمَرُوهُ أَنْ يَخْرُجَ، فَخَرَجَ".
مجھ سے محمد بن رافع نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سریج نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے فلیح نے بیان کیا۔ (دوسری سند اور مجھ سے محمد بن حسین بن ابراہیم نے بیان کیا ‘ کہا کہ مجھ سے میرے والد نے بیان کیا ‘ ان سے فلیح بن سلیمان نے بیان کیا ‘ ان سے نافع نے اور ان سے ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عمرہ کے ارادے سے نکلے ‘ لیکن کفار قریش نے بیت اللہ پہنچنے سے آپ کو روکا۔ چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا قربانی کا جانور حدیبیہ میں ہی ذبح کر دیا اور وہیں سر بھی منڈوایا اور ان سے معاہدہ کیا کہ آپ آئندہ سال عمرہ کر سکتے ہیں لیکن (نیام میں) تلواروں کے سوا اور کوئی ہتھیار ساتھ نہیں لا سکتے اور جتنے دنوں مکہ والے چاہیں گے ‘ اس سے زیادہ آپ وہاں ٹھہر نہیں سکیں گے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آئندہ سال عمرہ کیا اور معاہدہ کے مطابق مکہ میں داخل ہوئے۔ تین دن وہاں مقیم رہے۔ پھر قریش نے آپ سے جانے کے لیے کہا اور آپ مکہ سے چلے آئے۔ [صحيح البخاري/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 4252]
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة»
الحكم على الحديث: أحاديث صحيح البخاريّ كلّها صحيحة

