الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
95. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمُسْتَحَاضَةِ أَنَّهَا تَجْمَعُ بَيْنَ الصَّلاَتَيْنِ بِغُسْلٍ وَاحِدٍ
باب: مستحاضہ ایک غسل سے دو نمازیں ایک ساتھ جمع کر سکتی ہے۔
حدیث نمبر: 128
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا ابو عامر العقدي، حدثنا زهير بن محمد، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن إبراهيم بن محمد بن طلحة، عن عمه عمران بن طلحة، عن امه حمنة بنت جحش، قالت: كنت استحاض حيضة كثيرة شديدة، فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم استفتيه واخبره، فوجدته في بيت اختي زينب بنت جحش، فقلت: يا رسول الله إني استحاض حيضة كثيرة شديدة فما تامرني فيها قد منعتني الصيام والصلاة , قال: " انعت لك الكرسف فإنه يذهب الدم " , قالت: هو اكثر من ذلك، قال: " فتلجمي " , قالت: هو اكثر من ذلك، قال: " فاتخذي ثوبا " , قالت: هو اكثر من ذلك إنما اثج ثجا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " سآمرك بامرين ايهما صنعت اجزا عنك، فإن قويت عليهما فانت اعلم " , فقال: " إنما هي ركضة من الشيطان، فتحيضي ستة ايام او سبعة ايام في علم الله، ثم اغتسلي، فإذا رايت انك قد طهرت واستنقات، فصلي اربعا وعشرين ليلة او ثلاثا وعشرين ليلة وايامها وصومي وصلي، فإن ذلك يجزئك، وكذلك فافعلي كما تحيض النساء وكما يطهرن لميقات حيضهن وطهرهن، فإن قويت على ان تؤخري الظهر وتعجلي العصر، ثم تغتسلين حين تطهرين وتصلين الظهر والعصر جميعا، ثم تؤخرين المغرب وتعجلين العشاء، ثم تغتسلين وتجمعين بين الصلاتين، فافعلي وتغتسلين مع الصبح وتصلين، وكذلك فافعلي وصومي إن قويت على ذلك " , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وهو اعجب الامرين إلي ". قال ابو عيسى: هذا حسن صحيح، ورواه عبيد الله بن عمرو الرقي , وابن جريج , وشريك، عن عبد الله بن محمد بن عقيل، عن إبراهيم بن محمد بن طلحة، عن عمه عمران، عن امه حمنة، إلا ان ابن جريج يقول: عمر بن طلحة والصحيح: عمران بن طلحة، قال: وسالت محمدا عن هذا الحديث، فقال: هو حديث حسن صحيح، وهكذا قال احمد بن حنبل: هو حديث حسن صحيح، وقال احمد , وإسحاق في المستحاضة: إذا كانت تعرف حيضها بإقبال الدم وإدباره، وإقباله ان يكون اسود، وإدباره ان يتغير إلى الصفرة، فالحكم لها على حديث فاطمة بنت ابي حبيش، وإن كانت المستحاضة لها ايام معروفة قبل ان تستحاض، فإنها تدع الصلاة ايام اقرائها، ثم تغتسل وتتوضا لكل صلاة وتصلي، وإذا استمر بها الدم ولم يكن لها ايام معروفة ولم تعرف الحيض بإقبال الدم وإدباره، فالحكم لها على حديث حمنة بنت جحش , وكذلك قال ابو عبيد، وقال الشافعي: المستحاضة إذا استمر بها الدم في اول ما رات فدامت على ذلك، فإنها تدع الصلاة ما بينها وبين خمسة عشر يوما، فإذا طهرت في خمسة عشر يوما او قبل ذلك، فإنها ايام حيض، فإذا رات الدم اكثر من خمسة عشر يوما، فإنها تقضي صلاة اربعة عشر يوما، ثم تدع الصلاة بعد ذلك، اقل ما تحيض النساء وهو يوم وليلة. قال ابو عيسى: واختلف اهل العلم في اقل الحيض واكثره، فقال بعض اهل العلم: اقل الحيض ثلاثة واكثره عشرة، وهو قول سفيان الثوري واهل الكوفة، وبه ياخذ ابن المبارك، وروي عنه خلاف هذا , وقال بعض اهل العلم منهم عطاء بن ابي رباح: اقل الحيض يوم وليلة، واكثره خمسة عشر يوما، وهو قول مالك، والاوزاعي، والشافعي، واحمد، وإسحاق، وابي عبيد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَامَرٍ الْعَقَدِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ، قَالَتْ: كُنْتُ أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً، فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْتَفْتِيهِ وَأُخْبِرُهُ، فَوَجَدْتُهُ فِي بَيْتِ أُخْتِي زَيْنَبَ بِنْتِ جَحْشٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنِّي أُسْتَحَاضُ حَيْضَةً كَثِيرَةً شَدِيدَةً فَمَا تَأْمُرُنِي فِيهَا قَدْ مَنَعَتْنِي الصِّيَامَ وَالصَّلَاةَ , قَالَ: " أَنْعَتُ لَكِ الْكُرْسُفَ فَإِنَّهُ يُذْهِبُ الدَّمَ " , قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَتَلَجَّمِي " , قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، قَالَ: " فَاتَّخِذِي ثَوْبًا " , قَالَتْ: هُوَ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ إِنَّمَا أَثُجُّ ثَجًّا، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " سَآمُرُكِ بِأَمْرَيْنِ أَيَّهُمَا صَنَعْتِ أَجْزَأَ عَنْكِ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَيْهِمَا فَأَنْتِ أَعْلَمُ " , فَقَالَ: " إِنَّمَا هِيَ رَكْضَةٌ مِنَ الشَّيْطَانِ، فَتَحَيَّضِي سِتَّةَ أَيَّامٍ أَوْ سَبْعَةَ أَيَّامٍ فِي عِلْمِ اللَّهِ، ثُمَّ اغْتَسِلِي، فَإِذَا رَأَيْتِ أَنَّكِ قَدْ طَهُرْتِ وَاسْتَنْقَأْتِ، فَصَلِّي أَرْبَعًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً أَوْ ثَلَاثًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً وَأَيَّامَهَا وَصُومِي وَصَلِّي، فَإِنَّ ذَلِكِ يُجْزِئُكِ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي كَمَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَكَمَا يَطْهُرْنَ لِمِيقَاتِ حَيْضِهِنَّ وَطُهْرِهِنَّ، فَإِنْ قَوِيتِ عَلَى أَنْ تُؤَخِّرِي الظُّهْرَ وَتُعَجِّلِي الْعَصْرَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ حِينَ تَطْهُرِينَ وَتُصَلِّينَ الظُّهْرَ وَالْعَصْرَ جَمِيعًا، ثُمَّ تُؤَخِّرِينَ الْمَغْرِبَ وَتُعَجِّلِينَ الْعِشَاءَ، ثُمَّ تَغْتَسِلِينَ وَتَجْمَعِينَ بَيْنَ الصَّلَاتَيْنِ، فَافْعَلِي وَتَغْتَسِلِينَ مَعَ الصُّبْحِ وَتُصَلِّينَ، وَكَذَلِكِ فَافْعَلِي وَصُومِي إِنْ قَوِيتِ عَلَى ذَلِكَ " , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَهُوَ أَعْجَبُ الْأَمْرَيْنِ إِلَيَّ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَاهُ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ , وَابْنُ جُرَيْجٍ , وَشَرِيكٌ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ طَلْحَةَ، عَنْ عَمِّهِ عِمْرَانَ، عَنْ أُمِّهِ حَمْنَةَ، إِلَّا أَنَّ ابْنَ جُرَيجٍ يَقُولُ: عُمَرُ بْنُ طَلْحَةَ وَالصَّحِيحُ: عِمْرَانُ بْنُ طَلْحَةَ، قَالَ: وَسَأَلْتُ مُحَمَّدًا عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ، فَقَالَ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ: هُوَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وقَالَ أَحْمَدُ , وَإِسْحَاق فِي الْمُسْتَحَاضَةِ: إِذَا كَانَتْ تَعْرِفُ حَيْضَهَا بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ، وَإِقْبَالُهُ أَنْ يَكُونَ أَسْوَدَ، وَإِدْبَارُهُ أَنْ يَتَغَيَّرَ إِلَى الصُّفْرَةِ، فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ فَاطِمَةَ بِنْتِ أَبِي حُبَيْشٍ، وَإِنْ كَانَتِ الْمُسْتَحَاضَةُ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ قَبْلَ أَنْ تُسْتَحَاضَ، فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلَاةَ أَيَّامَ أَقْرَائِهَا، ثُمَّ تَغْتَسِلُ وَتَتَوَضَّأُ لِكُلِّ صَلَاةٍ وَتُصَلِّي، وَإِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ وَلَمْ يَكُنْ لَهَا أَيَّامٌ مَعْرُوفَةٌ وَلَمْ تَعْرِفْ الْحَيْضَ بِإِقْبَالِ الدَّمِ وَإِدْبَارِهِ، فَالْحُكْمُ لَهَا عَلَى حَدِيثِ حَمْنَةَ بِنْتِ جَحْشٍ , وَكَذَلِكَ قَالَ أَبُو عُبَيْدٍ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: الْمُسْتَحَاضَةُ إِذَا اسْتَمَرَّ بِهَا الدَّمُ فِي أَوَّلِ مَا رَأَتْ فَدَامَتْ عَلَى ذَلِكَ، فَإِنَّهَا تَدَعُ الصَّلَاةَ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، فَإِذَا طَهُرَتْ فِي خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا أَوْ قَبْلَ ذَلِكَ، فَإِنَّهَا أَيَّامُ حَيْضٍ، فَإِذَا رَأَتِ الدَّمَ أَكْثَرَ مِنْ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، فَإِنَّهَا تَقْضِي صَلَاةَ أَرْبَعَةَ عَشَرَ يَوْمًا، ثُمَّ تَدَعُ الصَّلَاةَ بَعْدَ ذَلِكَ، أَقَلَّ مَا تَحِيضُ النِّسَاءُ وَهُوَ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِي أَقَلِّ الْحَيْضِ وَأَكْثَرِهِ، فَقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ: أَقَلُّ الْحَيْضِ ثَلَاثَةٌ وَأَكْثَرُهُ عَشَرَةٌ، وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَأَهْلِ الْكُوفَةِ، وَبِهِ يَأْخُذُ ابْنُ الْمُبَارَكِ، وَرُوِيَ عَنْهُ خِلَافُ هَذَا , وقَالَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْهُمْ عَطَاءُ بْنُ أَبِي رَبَاحٍ: أَقَلُّ الْحَيْضِ يَوْمٌ وَلَيْلَةٌ، وَأَكْثَرُهُ خَمْسَةَ عَشَرَ يَوْمًا، وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ، وَالْأَوْزَاعِيِّ، وَالشَّافِعِيِّ، وَأَحْمَدَ، وَإِسْحَاق، وَأَبِي عُبَيْدٍ.
حمنہ بنت جحش رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی تھی، میں نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں مسئلہ پوچھنے اور آپ کو اس کی خبر دینے کے لیے حاضر ہوئی، میں نے آپ صلی الله علیہ وسلم کو اپنی بہن زینب بنت حجش کے گھر پایا تو عرض کیا: اللہ کے رسول! میں سخت قسم کے استحاضہ میں مبتلا رہتی ہوں، اس سلسلہ میں آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں، اس نے تو مجھے صوم و صلاۃ دونوں سے روک دیا ہے؟ آپ نے فرمایا: میں تجھے روئی رکھنے کا حکم دے رہا ہوں اس سے خون بند ہو جائے گا، انہوں نے عرض کیا: وہ اس سے زیادہ ہے (روئی رکھنے سے نہیں رکے گا) آپ نے فرمایا: تو لنگوٹ باندھ لیا کرو، کہا: خون اس سے بھی زیادہ آ رہا ہے، تو آپ نے فرمایا: تم لنگوٹ کے نیچے ایک کپڑا رکھ لیا کرو، کہا: یہ اس سے بھی زیادہ ہے، مجھے بہت تیزی سے خون بہتا ہے، تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تو میں تجھے دو باتوں کا حکم دیتا ہوں ان دونوں میں سے تم جو بھی کر لو تمہارے لیے کافی ہو گا اور اگر تم دونوں پر قدرت رکھ سکو تو تم زیادہ بہتر جانتی ہو، آپ نے فرمایا: یہ تو صرف شیطان کی چوٹ (مار) ہے تو چھ یا سات دن جو اللہ کے علم میں ہیں انہیں تو حیض کے شمار کر پھر غسل کر لے اور جب تو سمجھ لے کہ تو پاک و صاف ہو گئی ہو تو چوبیس یا تئیس دن نماز پڑھ اور روزے رکھ، یہ تمہارے لیے کافی ہے، اور اسی طرح کرتی رہو جیسا کہ حیض والی عورتیں کرتی ہیں: حیض کے اوقات میں حائضہ اور پاکی کے وقتوں میں پاک رہتی ہیں، اور اگر تم اس بات پر قادر ہو کہ ظہر کو کچھ دیر سے پڑھو اور عصر کو قدرے جلدی پڑھ لو تو غسل کر کے پاک صاف ہو جا اور ظہر اور عصر کو ایک ساتھ پڑھ لیا کرو، پھر مغرب کو ذرا دیر کر کے اور عشاء کو کچھ پہلے کر کے پھر غسل کر کے یہ دونوں نمازیں ایک ساتھ پڑھ لے تو ایسا کر لیا کرو، اور صبح کے لیے الگ غسل کر کے فجر پڑھو، اگر تم قادر ہو تو اس طرح کرو اور روزے رکھو، پھر رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ان دونوں باتوں ۱؎ میں سے یہ دوسری صورت ۲؎ مجھے زیادہ پسند ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- محمد بن اسماعیل بخاری نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے اور اسی طرح احمد بن حنبل نے بھی کہا ہے کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۳- احمد اور اسحاق بن راہویہ مستحاضہ کے بارے میں کہتے ہیں کہ عورت جب اپنے حیض کے آنے اور جانے کو جانتی ہو، اور آنا یہ ہے کہ خون کالا ہو اور جانا یہ ہے کہ وہ زردی میں بدل جائے تو اس کا حکم فاطمہ بن ابی حبیش رضی الله عنہا کی حدیث کے مطابق ہو گا ۳؎ اور اگر مستحاضہ کے لیے استحاضہ سے پہلے (حیض کے) ایام معروف ہیں تو وہ اپنے حیض کے دنوں میں نماز چھوڑ دے گی پھر غسل کرے گی اور ہر نماز کے لیے وضو کرے گی۔ اور جب خون جاری رہے اور (حیض کے) ایام معلوم نہ ہوں اور نہ ہی وہ حیض کے آنے جانے کو جانتی ہو تو اس کا حکم حمنہ بنت جحش رضی الله عنہا کی حدیث کے مطابق ہو گا ۴؎ اسی طرح ابو عبید نے کہا ہے۔ شافعی کہتے ہیں: جب مستحاضہ کو پہلی بار جب اس نے خون دیکھا تبھی سے برابر خون جاری رہے تو وہ خون شروع ہونے سے لے کر پندرہ دن تک نماز چھوڑے رہے گی، پھر اگر وہ پندرہ دن میں یا اس سے پہلے پاک ہو جاتی ہے تو گویا یہی اس کے حیض کے دن ہیں اور اگر وہ پندرہ دن سے زیادہ خون دیکھے، تو وہ چودہ دن کی نماز قضاء کرے گی اور اس کے بعد عورتوں کے حیض کی اقل مدت جو ایک دن اور ایک رات ہے، کی نماز چھوڑ دے گی،
۴- حیض کی کم سے کم مدت اور سب سے زیادہ مدت میں اہل علم کے درمیان اختلاف ہے، بعض اہل علم کہتے ہیں: حیض کی سب سے کم مدت تین دن اور سب سے زیادہ مدت دس دن ہے، یہی سفیان ثوری، اور اہل کوفہ کا قول ہے اور اسی کو ابن مبارک بھی اختیار کرتے ہیں۔ ان سے اس کے خلاف بھی مروی ہے، بعض اہل علم جن میں عطا بن ابی رباح بھی ہیں، کہتے ہیں کہ حیض کی کم سے کم مدت ایک دن اور ایک رات ہے اور اس کی زیادہ سے زیادہ مدت پندرہ دن ہے، اور یہی مالک، اوزاعی، شافعی، احمد، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبید کا قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الطہارة 110 (287)، سنن ابن ماجہ/الطہارة 115 (622)، (تحفة الأشراف: 15821)، مسند احمد (6/439)، سنن الدارمی/الطہارة 83 (812) (حسن)»

وضاحت:
۱؎: ان دونوں باتوں سے مراد: یا تو ہر نماز کے لیے الگ الگ وضو کرنا یا ہر نماز کے لیے الگ ایک غسل کرنا اور دوسری بات روزانہ صرف تین بار نہانا۔
۲؎: یعنی روزانہ تین بار نہانا ایک بار ظہر اور عصر کے لیے، دوسری مغرب اور عشاء کے لیے اور تیسرے فجر کے لیے۔
۳؎: یعنی حیض کے اختتام پر مستحاضہ عورت غسل کرے گی پھر ہر نماز کے لیے وضو کرتی رہے گی۔
۴؎: یعنی ہر روز تین مرتبہ غسل کرے گی، پہلے غسل سے ظہر اور عصر کی نماز ایک ساتھ پڑھے گی اور دوسرے غسل سے مغرب اور عشاء کی اور تیسرے غسل سے فجر کی۔

قال الشيخ الألباني: حسن، ابن ماجة (627)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.