الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الحج عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: حج کے احکام و مناسک
The Book on Hajj
25. باب مَا جَاءَ فِي أَكْلِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ
باب: محرم شکار کا گوشت کھائے اس کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About The Muhrim Eating Hunted Animals
حدیث نمبر: 846
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا يعقوب بن عبد الرحمن، عن عمرو بن ابي عمرو، عن المطلب، عن جابر بن عبد الله، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " صيد البر لكم حلال وانتم حرم ما لم تصيدوه او يصد لكم ". قال: وفي الباب عن ابي قتادة، وطلحة. قال ابو عيسى: حديث جابر حديث مفسر، والمطلب لا نعرف له سماعا من جابر، والعمل على هذا عند اهل العلم لا يرون باكل الصيد للمحرم باسا إذا لم يصطده او لم يصطد من اجله، قال الشافعي: هذا احسن حديث روي في هذا الباب وافسر، والعمل على هذا، وهو قول احمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي عَمْرٍو، عَنْ الْمُطَّلِبِ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " صَيْدُ الْبَرِّ لَكُمْ حَلَالٌ وَأَنْتُمْ حُرُمٌ مَا لَمْ تَصِيدُوهُ أَوْ يُصَدْ لَكُمْ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، وَطَلْحَةَ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ جَابِرٍ حَدِيثٌ مُفَسَّرٌ، وَالْمُطَّلِبُ لَا نَعْرِفُ لَهُ سَمَاعًا مِنْ جَابِرٍ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ لَا يَرَوْنَ بِأَكْلِ الصَّيْدِ لِلْمُحْرِمِ بَأْسًا إِذَا لَمْ يَصْطَدْهُ أَوْ لَمْ يُصْطَدْ مِنْ أَجْلِهِ، قَالَ الشَّافِعِيُّ: هَذَا أَحْسَنُ حَدِيثٍ رُوِيَ فِي هَذَا الْبَاب وَأَفْسَرُ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا، وَهُوَ قَوْلُ أَحْمَدَ، وَإِسْحَاق.
جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خشکی کا شکار تمہارے لیے حالت احرام میں حلال ہے جب کہ تم نے اس کا شکار خود نہ کیا ہو، نہ ہی وہ تمہارے لیے کیا گیا ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں ابوقتادہ اور طلحہ رضی الله عنہما سے بھی روایت ہے،
۲- جابر کی حدیث مفسَّر ہے،
۳- اور ہم مُطّلب کا جابر سے سماع نہیں جانتے،
۴- اور بعض اہل علم کا اسی پر عمل ہے۔ وہ محرم کے لیے شکار کے کھانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے جب اس نے خود اس کا شکار نہ کیا ہو، نہ ہی وہ اس کے لیے کیا گیا ہو،
۵- شافعی کہتے ہیں: یہ اس باب میں مروی سب سے اچھی اور قیاس کے سب سے زیادہ موافق حدیث ہے، اور اسی پر عمل ہے۔ اور یہی احمد اور اسحاق بن راہویہ کا بھی قول ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الحج 41 (1851)، سنن النسائی/الحج 81 (2830)، (تحفة الأشراف: 3098)، مسند احمد (3/362) (ضعیف) (سند میں عمروبن ابی عمرو ضعیف ہیں، لیکن اگلی روایت سے اس کے معنی کی تائید ہو رہی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (2700 / التحقيق الثاني) // ضعيف الجامع الصغير (3524)، ضعيف أبي داود (401 / 1851) //
حدیث نمبر: 847
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك بن انس، عن ابي النضر، عن نافع مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة، انه كان مع النبي صلى الله عليه وسلم، حتى إذا كان ببعض طريق مكة تخلف مع اصحاب له محرمين وهو غير محرم، فراى حمارا وحشيا فاستوى على فرسه، فسال اصحابه ان يناولوه سوطه فابوا، فسالهم رمحه فابوا عليه فاخذه، ثم شد على الحمار فقتله، فاكل منه بعض اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وابى بعضهم، فادركوا النبي صلى الله عليه وسلم، فسالوه عن ذلك، فقال: " إنما هي طعمة اطعمكموها الله ".(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ، عَنْ أَبِي النَّضْرِ، عَنْ نَافِعٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ، أَنَّهُ كَانَ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى إِذَا كَانَ بِبَعْضِ طَرِيقِ مَكَّةَ تَخَلَّفَ مَعَ أَصْحَابٍ لَهُ مُحْرِمِينَ وَهُوَ غَيْرُ مُحْرِمٍ، فَرَأَى حِمَارًا وَحْشِيًّا فَاسْتَوَى عَلَى فَرَسِهِ، فَسَأَلَ أَصْحَابَهُ أَنْ يُنَاوِلُوهُ سَوْطَهُ فَأَبَوْا، فَسَأَلَهُمْ رُمْحَهُ فَأَبَوْا عَلَيْهِ فَأَخَذَهُ، ثُمَّ شَدَّ عَلَى الْحِمَارِ فَقَتَلَهُ، فَأَكَلَ مِنْهُ بَعْضُ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبَى بَعْضُهُمْ، فَأَدْرَكُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلُوهُ عَنْ ذَلِكَ، فَقَالَ: " إِنَّمَا هِيَ طُعْمَةٌ أَطْعَمَكُمُوهَا اللَّهُ ".
ابوقتادہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، یہاں تک کہ آپ جب مکے کا کچھ راستہ طے کر چکے تو وہ اپنے بعض محرم ساتھیوں کے ساتھ پیچھے رہ گئے جب کہ ابوقتادہ خود غیر محرم تھے، اسی دوران انہوں نے ایک نیل گائے دیکھا، تو وہ اپنے گھوڑے پر سوار ہوئے اور اپنے ساتھیوں سے درخواست کی کہ وہ انہیں ان کا کوڑا اٹھا کر دے دیں تو ان لوگوں نے اسے انہیں دینے سے انکار کیا۔ پھر انہوں نے ان سے اپنا نیزہ مانگا۔ تو ان لوگوں نے اسے بھی اٹھا کر دینے سے انکار کیا تو انہوں نے اسے خود ہی (اتر کر) اٹھا لیا اور شکار کا پیچھا کیا اور اسے مار ڈالا، تو بعض صحابہ کرام نے اس شکار میں سے کھایا اور بعض نے نہیں کھایا۔ پھر وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آ کر ملے اور اس بارے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا تو آپ نے فرمایا: یہ تو ایک ایسی غذا ہے جسے اللہ نے تمہیں کھلایا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/جزاء الصید 4 (1823)، والجہاد 88 (2914)، والذباع 10 (5490)، و11 (5492)، صحیح مسلم/الحج 8 (1196)، سنن ابی داود/ الحج 41 (1852)، سنن النسائی/الحج 78 (2818)، (تحفة الأشراف: 12131)، موطا امام مالک/الحج 24 (76)، مسند احمد (5/301) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/جزاء الصید 2 (1821)، و3 (1822)، و5 (1824)، والہبة 3 (2570)، والجہاد 46 (2854)، والأطعمة 19 (5406، 5407)، سنن ابن ماجہ/المناسک 93 (3093)، مسند احمد (5/307)، سنن الدارمی/المناسک 22 (1867) من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت:
۱؎ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ خشکی کا شکار اگر کسی غیر احرام والے نے اپنے لیے کیا ہو اور محرم نے کسی طرح کا تعاون اس میں نہ کیا ہو تو اس میں اسے محرم کے لیے کھانا جائز ہے، اور اگر کسی غیر محرم نے خشکی کا شکار محرم کے لیے کیا ہو یا محرم نے اس میں کسی طرح کا تعاون کیا ہو تو محرم کے لیے اس کا کھانا جائز نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (1028)، صحيح أبي داود (1623)
حدیث نمبر: 848
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، عن مالك، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي قتادة في حمار الوحش مثل حديث ابي النضر رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " هل معكم من لحمه شيء ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ فِي حِمَارِ الْوَحْشِ مِثْلَ حَدِيثِ أَبِي النَّضْرِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " هَلْ مَعَكُمْ مِنْ لَحْمِهِ شَيْءٌ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
اس سند سے بھی ابوقتادہ سے نیل گائے کے بارے میں ابونضر ہی کی حدیث کی طرح مروی ہے البتہ زید بن اسلم کی اس حدیث میں اتنا زائد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہارے پاس اس کے گوشت میں سے کچھ ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (تحفة الأشراف: 12120) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح انظر الذي قبله (847)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.