الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
48. باب صِيَانَةِ الْعِلْمِ:
علم کی حفاظت کا بیان
حدیث نمبر: 591
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن سعيد، حدثنا عبد السلام بن حرب، عن عبد الاعلى، عن الحسن، انه دخل السوق فساوم رجلا بثوب، فقال: "هو لك بكذا وكذا، والله لو كان غيرك ما اعطيته، فقال: فعلتموها، فما رئي بعدها مشتريا من السوق، ولا بائعا حتى لحق بالله عز وجل".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عَبْدِ الْأَعْلَى، عَنْ الْحَسَنِ، أَنَّهُ دَخَلَ السُّوقَ فَسَاوَمَ رَجُلًا بِثَوْبٍ، فَقَالَ: "هُوَ لَكَ بِكَذَا وَكَذَا، وَاللَّهِ لَوْ كَانَ غَيْرَكَ مَا أَعْطَيْتُهُ، فَقَالَ: فَعَلْتُمُوهَا، فَمَا رُئِيَ بَعْدَهَا مُشْتَرِيًا مِنْ السُّوقِ، وَلَا بَائِعًا حَتَّى لَحِقَ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ".
عبدالاعلی سے مروی ہے امام حسن بصری رحمہ اللہ بازار میں داخل ہوئے، ایک آدمی سے کسی کپڑے کا بھاؤ کیا تو اس نے کہا: آپ کے لئے اتنے کا ہے، قسم اللہ کی آپ کے علاوہ کوئی اور ہوتا تو اتنی قیمت پر نہ دیتا، امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: تم نے ایسا کیوں کیا؟ اس کے بعد ان کو بازار میں خرید و فروخت کرتے نہ دیکھا گیا یہاں تک کہ الله تعالیٰ سے جا ملے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 592]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور اس کو صرف امام دارمی نے ذکر کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 590)
حسن رحمہ اللہ کا تقویٰ و پرہیزگاری دیکھئے، ان کو یہ گوارہ نہ تھا کہ ان کے علم اور مقام ومرتبے کی وجہ سے کوئی ان کے ساتھ رعایت کرے اور علم کی قیمت لگائی جائے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 592
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الهيثم بن جميل، عن حسام، عن ابي معشر، عن إبراهيم، انه كان "لا يشتري ممن يعرفه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ جَمِيلٍ، عَنْ حُسَامٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّهُ كَانَ "لَا يَشْتَرِي مِمَّنْ يَعْرِفُهُ".
ابومعشر (زیاد بن کلیب) نے کہا: امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ جس سے جان پہچان ہوتی اس سے خرید نہ کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا حسام بن مصك كاد أن يترك، [مكتبه الشامله نمبر: 593]»
اس روایت کی سند حسام بن مصک کی وجہ سے ضعیف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا حسام بن مصك كاد أن يترك
حدیث نمبر: 593
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن سعيد، اخبرنا عبد السلام، عن عبد الله بن الوليد المزني، عن عبيد بن الحسن، قال: قسم مصعب بن الزبير مالا في قراء اهل الكوفة حين دخل شهر رمضان، فبعث إلى عبد الرحمن بن معقل بالفي درهم، فقال له: استعن بها في شهرك هذا، فردها عبد الرحمن بن معقل وقال: "لم نقرا القرآن لهذا".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ سَعِيدٍ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ السَّلَامِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْوَلِيدِ الْمُزَنِيِّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ الْحَسَنِ، قَالَ: قَسَمَ مُصْعَبُ بْنُ الزُّبَيْرِ مَالًا فِي قُرَّاءِ أَهْلِ الْكُوفَةِ حِينَ دَخَلَ شَهْرُ رَمَضَانَ، فَبَعَثَ إِلَى عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَعْقِلٍ بِأَلْفَيْ دِرْهَمٍ، فَقَالَ لَهُ: اسْتَعِنْ بِهَا فِي شَهْرِكَ هَذَا، فَرَدَّهَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَعْقِلٍ وَقَالَ: "لَمْ نَقْرَأْ الْقُرْآنَ لِهَذَا".
عبید بن الحسن سے مروی ہے کہ مصعب بن زبیر نے رمضان شروع ہوتے وقت کچھ مال کوفہ کے قراء میں تقسیم کیا، اور عبدالرحمٰن بن معقل کے پاس دو ہزار درہم بھیجے اور کہا کہ اس ماہ مبارک میں اس مال سے مدد لیجئے، لیکن عبدالرحمٰن بن معقل نے وہ درہم واپس کر دیئے اور کہا: ہم قرآن اس کے لئے نہیں پڑھتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 594]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اور عبدالسلام: ابن حرب ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 594
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن احمد بن ابي خلف، حدثنا انس بن عياض، حدثني عبيد الله بن عمر، ان عمر بن الخطاب عليه رضوان الله تعالى، قال لعبد الله بن سلام رضي الله عنه: "من ارباب العلم؟"، قال:"الذين يعملون بما يعلمون، قال: فما ينفي العلم من صدور الرجال؟، قال: الطمع".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ، حَدَّثَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ عَلَيْه رضْوَانُ اللَّهِ تَعَالَى، قَالَ لِعَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ؟"، قَالَ:"الَّذِينَ يَعْمَلُونَ بِمَا يَعْلَمُونَ، قَالَ: فَمَا يَنْفِي الْعِلْمَ مِنْ صُدُورِ الرِّجَالِ؟، قَالَ: الطَّمَعُ".
عبیداللہ بن عمر نے بیان کیا کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے سیدنا عبدالله بن سلام رضی اللہ عنہ سے دریافت فرمایا: اہل علم کون ہیں؟ عرض کیا: جو علم کے مطابق عمل کریں، پوچھا: لوگوں کے دلوں سے کون سی چیز علم کو دور کر دیتی ہے؟ فرمایا: لالچ۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات وإسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 595]»
اس اثر کی سند صحیح ہے، اور مذکورہ بالا تینوں روایات کہیں اور نہیں مل سکیں۔ نیز دیکھئے: رقم (604)۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 591 سے 594)
اس قول سے معلوم ہوا کہ عمل کے ذریعہ اور لالچ سے دور رہتے ہوئے علم محفوظ رہ سکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات وإسناده صحيح
حدیث نمبر: 595
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن زيد، عن عطاء، قال: "ما اوى شيء إلى شيء ازين من حلم إلى علم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَطَاءٍ، قَالَ: "مَا أَوَى شَيْءٌ إِلَى شَيْءٍ أَزْيَنَ مِنْ حِلْمٍ إِلَى عِلْمٍ".
زید سے مروی ہے کوئی چیز کسی چیز سے زیادہ اچھی نہیں جتنا کہ حلم سے لے کر علم تک ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 596]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور تمام رجال ثقات ہیں، لیکن امام دارمی کے علاوہ کسی نے ذکر نہیں کیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 596
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عفان، حدثنا حماد بن سلمة، اخبرنا عاصم الاحول، عن عامر الشعبي، قال: "زين العلم حلم اهله".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، أَخْبَرَنَا عَاصِمٌ الْأَحْوَلُ، عَنْ عَامِرٍ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: "زَيْنُ الْعِلْمِ حِلْمُ أَهْلِهِ".
عاصم الأحول سے مروی ہے: عامر شعبی نے فرمایا: علم کی زینت اہل علم کی برد باری ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 597]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم لأبي خيثمه 81]، [جامع بيان العلم 806، 807]، [شعب الايمان 8520]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 597
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا عبد الرحمن، حدثنا زمعة بن صالح، عن سلمة بن وهرام، عن طاوس، قال: "ما حمل العلم في مثل جراب حلم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ، حَدَّثَنَا زَمْعَةُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ وَهْرَامٍ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: "مَا حُمِلَ الْعِلْمُ فِي مِثْلِ جِرَابِ حِلْمٍ".
سلمہ بن وہرام سے مروی ہے امام طاؤوس رحمہ اللہ نے کہا: برد باری کی تھیلی کی طرح کسی چیز میں علم نہیں اٹھایا گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل زمعة بن صالح، [مكتبه الشامله نمبر: 598]»
اس قول کی سند زمعۃ بن صالح کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے [مصنف ابن أبى شيبه 5675]، [حلية الأولياء 24/9]، [شعب الايمان 8531]، نیز اس کا شاہد [مصنف ابن أبى شيبه 5676] میں موجود ہے، جس سے روایت کو تقویت ملتی ہے۔ نیز رقم (598) بھی اس کی شاہد ہے جو صحیح ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل زمعة بن صالح
حدیث نمبر: 598
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا جرير، عن ابن شبرمة، عن الشعبي، قال: "زين العلم حلم اهله".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، قَالَ: "زَيْنُ الْعِلْمِ حِلْمُ أَهْلِهِ".
ابن شبرمہ سے مروی ہے: شعبی نے کہا: علم کی زینت اہل علم کی برد باری ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 599]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 5673]، [الحلية 318/4]، [شعب الايمان 8530]

وضاحت:
(تشریح احادیث 594 سے 598)
اس کا مطلب یہ ہے کہ علم پر عمل کرتے ہوئے حلم و بردباری اختیار کرنا علم کو آرائش و زینت عطا کرتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد
حدیث نمبر: 599
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، اخبرنا مطرف بن مازن، عن يعلى بن مقسم، عن وهب بن منبه، قال: "إن الحكمة تسكن القلب الوادع الساكن".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، أَخْبَرَنَا مُطَرِّفُ بْنُ مَازِنٍ، عَنْ يَعْلَى بْنِ مِقْسَمٍ، عَنْ وَهْبِ بْنِ مُنَبِّهٍ، قَالَ: "إِنَّ الْحِكْمَةَ تَسْكُنُ الْقَلْبَ الْوَادِعَ السَّاكِنَ".
یعلی بن مقسم سے مروی ہے: وہب بن منبہ نے فرمایا: حكمت حلیم و بردبار اور مطمئن دل میں رہتی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل مطرف بن مازن، [مكتبه الشامله نمبر: 600]»
اس قول کی سند ضعیف لیکن معنی صحیح ہے۔ دیکھئے الاثر السابق۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل مطرف بن مازن
حدیث نمبر: 600
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن احمد، قال: سمعت سفيان، يقول: قال عبيد الله: "شنتم العلم واذهبتم نوره، ولو ادركني وإياكم عمر رضوان الله عليه لاوجعنا".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، قَالَ: سَمِعْتُ سُفْيَانَ، يَقُولُ: قَالَ عُبَيْدُ اللَّهِ: "شِنْتُمْ الْعِلْمَ وَأَذْهَبْتُمْ نُورَهُ، وَلَوْ أَدْرَكَنِي وَإِيَّاكُمْ عُمَرُ رِضْوَانُ الله عَلَيْهِ لَأَوْجَعَنَا".
سفیان کہتے تھے: عبید اللہ (ابن عمر) نے فرمایا: تم نے علم کو دھبہ لگایا اور اس کے نور کو ضائع کر دیا ہے، اگر مجھے اور تم کو سیدنا عمر (رضی اللہ عنہم اجمعین) پا لیتے تو مار لگاتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 601]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [شرف أصحاب الحديث 284]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 601
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا شهاب بن عباد، حدثنا سفيان بن عيينة، عن امي المرادي، قال: قال علي رضوان الله عليه: "تعلموا العلم، فإذا علمتموه، فاكظموا عليه ولا تشوبوه بضحك، ولا بلعب فتمجه القلوب".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ أُمَيٍّ الْمُرَادِيِّ، قَالَ: قَالَ عَلِيٌّ رِضْوَانُ اللَّهِ عَلَيْهِ: "تَعَلَّمُوا الْعِلْمَ، فَإِذَا عَلِمْتُمُوهُ، فَاكْظِمُوا عَلَيْهِ وَلَا تَشُوبُوهُ بِضَحِكٍ، وَلَا بِلَعِبٍ فَتَمُجَّهُ الْقُلُوبُ".
اُمی المرادی سے مروی ہے سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا: علم سیکھو، اور جب علم حاصل کر چکو تو اس کی حفاظت کرو، ہنسی مذاق، کھیل کود سے اسے خلط ملط نہ کرو کہ دل اسے نکال پھینکیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 602]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 300/7]، [الجامع 213]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 602
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا جرير، عن الفضيل بن غزوان، عن علي بن حسين رحمة الله عليه، قال: "من ضحك ضحكة مج مجة من العلم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ الْفُضَيْلِ بْنِ غَزْوَانَ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ حُسَيْنٍ رَحِمَةُ اللَّهِ عَلَيْهِ، قَالَ: "مَنْ ضَحِكَ ضَحْكَةً مَجَّ مَجَّةً مِنْ الْعِلْمِ".
فضیل بن غزوان سے مروی ہے: علی بن حسین رحمہ اللہ نے فرمایا: جو ایک بار ہنسا اس نے علم کی ایک بار کلی کر دی۔ یعنی ہنسنا اور قہقہے لگانا عالم کی شان نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 603]»
اس قول کی سند محمد بن حمید کی وجہ سے ضعیف ہے۔ دیکھئے: [زوائد عبدالله على زهد الإمام أحمد 166]، لیکن [حلية الأولياء 133/3] اور [شعب الايمان 1830] میں یہ روایت صحیح سند سے موجود ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف من أجل محمد بن حميد
حدیث نمبر: 603
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، ان عمر رضي الله عنه، قال لكعب: "من ارباب العلم؟، قال: الذين يعملون بما يعلمون، قال: فما اخرج العلم من قلوب العلماء؟، قال: الطمع".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، أَنَّ عُمَرَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ لِكَعْبٍ: "مَنْ أَرْبَابُ الْعِلْمِ؟، قَالَ: الَّذِينَ يَعْمَلُونَ بِمَا يَعْلَمُونَ، قَالَ: فَمَا أَخْرَجَ الْعِلْمَ مِنْ قُلُوبِ الْعُلَمَاءِ؟، قَالَ: الطَّمَعُ".
سفیان سے مروی ہے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا کعب رضی اللہ عنہ سے فرمایا: اہل علم کون لوگ ہیں؟ کہا: جو علم کے مطابق عمل کرتے ہیں، فرمایا: اور علماء کے دل سے علم کو کس چیز نے خارج کر دیا؟ جواب دیا: (طمع) لالچ نے۔

تخریج الحدیث: «إسناده معضل، [مكتبه الشامله نمبر: 604]»
اس روایت کی سند سے دو راوی ساقط ہیں، لہٰذا یہ روایت معضل ہے، دیگر کسی محدث نے اسے روایت نہیں کیا، لیکن عبداللہ بن سلام سے صحیح سند کے ساتھ یہ روایت (594) پر گزر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده معضل
حدیث نمبر: 604
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا محمد بن بشر، حدثنا عبد الله بن الوليد، عن عمر بن ايوب، عن ابي إياس، قال: كنت نازلا على عمرو بن النعمان فاتاه رسول مصعب بن الزبير حين حضره رمضان بالفي درهم، فقال: إن الامير يقرئك السلام، وقال: إنا لم ندع قارئا شريفا إلا وقد وصل إليه منا معروف، فاستعن بهذين على نفقة شهرك هذا، فقال: اقرئ الامير السلام، وقل له: "إنا والله ما قرانا القرآن نريد به الدنيا ودرهمها".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْوَلِيدِ، عَنْ عُمَرَ بْنِ أَيُّوبَ، عَنْ أَبِي إِيَاسٍ، قَالَ: كُنْتُ نَازِلًا عَلَى عَمْرِو بْنِ النُّعْمَانِ فَأَتَاهُ رَسُولُ مُصْعَبِ بْنِ الزُّبَيْرِ حِينَ حَضَرَهُ رَمَضَانُ بِأَلْفَيْ دِرْهَمٍ، فَقَالَ: إِنَّ الْأَمِيرَ يُقْرِئُكَ السَّلَامَ، وَقَالَ: إِنَّا لَمْ نَدَعْ قَارِئًا شَرِيفًا إِلَّا وَقَدْ وَصَلَ إِلَيْهِ مِنَّا مَعْرُوفٌ، فَاسْتَعِنْ بِهَذَيْنِ عَلَى نَفَقَةِ شَهْرِكَ هَذَا، فَقَالَ: أَقْرِئْ الْأَمِيرَ السَّلَامَ، وَقُلْ لَهُ: "إِنَّا وَاللَّهِ مَا قَرَأْنَا الْقُرْآنَ نُرِيدُ بِهِ الدُّنْيَا وَدِرْهَمَهَا".
ابوایاس نے کہا: میں عمرو بن نعمان کے پاس مقیم تھا کہ مصعب بن زبیر کا قاصد رمضان میں دو ہزار درہم لے کر ان کے پاس حاضر ہوا اور عرض کیا: امیر (محترم) نے آپ کو سلام کہا ہے اور حکم دیا ہے کہ ہم کسی بھی معزز قاری کو بنا کسی تحفہ تحائف کے نہ چھوڑیں اس لئے یہ دو ہزار اس مہینہ کا خرچ قبول فرمایئے۔ عمرو بن نعمان نے کہا: ان امیر محترم کو میرا سلام کہو، اور ان سے کہدو الله کی قسم ہم نے قرآن (کریم) کو دنیا اور دراہم کی چاہت میں نہیں پڑھا ہے۔

تخریج الحدیث: «محمد بن حميد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 605]»
اس روایت کی سند میں محمد بن حمید ضعیف ہیں، لیکن [مصنف ابن أبى شيبه 10054] میں جید سند سے یہ روایت موجود ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 598 سے 604)
خلوصِ وللّٰہیت کا یہ بہترین نمونہ ہے اور اپنے علم کو مال و دولت کی طمع سے بچا کر محفوظ رکھا جاسکتا ہے، اسی میں عزت ہے، وقار ہے، اور علم کی سربلندی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: محمد بن حميد ضعيف

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.