الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
45. باب مَنْ كَرِهَ الشُّهْرَةَ وَالْمَعْرِفَةَ:
جس نے شہرت اور خاص پہچان کو ناپسند کیا اس کا بیان
حدیث نمبر: 535
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا احمد بن الحجاج، حدثنا سفيان بن عيينة، عن الاعمش، قال: "جهدنا بإبراهيم حتى ان نجلسه إلى سارية، فابى".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، قَالَ: "جَهَدْنَا بِإِبْرَاهِيمَ حَتَّى أَنْ نُجْلِسَهُ إِلَى سَارِيَةٍ، فَأَبَى".
اعمش (سلیمان بن مہران) نے کہا: ہم نے امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کو مجبور کیا کہ انہیں ستون کے پاس بٹھا دیں، لیکن انہوں نے انکار کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 535]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعه 1997] و [مصنف ابن أبى شيبه 6680]

وضاحت:
(تشریح احادیث 529 سے 535)
یعنی انہیں کسی خاص جگہ بیٹھنے سے انکار تھا کہ یہ نہ کہا جائے کہ ابراہیم فلاں جگہ بیٹھتے تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 536
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عفان، حدثنا ابو عوانة، عن مغيرة، عن إبراهيم"انه كان يكره ان يستند إلى السارية".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ"أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يَسْتَنِدَ إِلَى السَّارِيَةِ".
مغیرہ بن مقسم سے مروی ہے کہ امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ ساریہ سے لگ کر بیٹھنا ناپسند کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 536]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 190/6] اس میں عفان: ابن مسلم ہیں اور ابوعوانہ کا نام وضاح بن عبداللہ ہے اور مغیرہ: ابن مقسم ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 537
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، حدثنا ابو عوانة، عن مغيرة، قال: "كان إبراهيم لا يبتدئ الحديث حتى يسال".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، قَالَ: "كَانَ إِبْرَاهِيمُ لَا يَبْتَدِئُ الْحَدِيثَ حَتَّى يُسْأَلَ".
مغیرہ بن مقسم نے کہا: امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کسی کے طلب کئے بنا حدیث بیان نہیں کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 537]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم و فضله 362]، [طبقات ابن سعد 192/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 538
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا يونس بن بكير، حدثنا الاعمش، عن خيثمة، قال: كان الحارث بن قيس الجعفي وكان من اصحاب عبد الله، وكانوا معجبين به،"فكان يجلس إليه الرجل والرجلان فيحدثهما، فإذا كثروا، قام وتركهم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ بُكَيْرٍ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ خَيْثَمَةَ، قَالَ: كَانَ الْحَارِثُ بْنُ قَيْسٍ الْجُعْفِيُّ وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ، وَكَانُوا مُعْجَبِينَ بِهِ،"فَكَانَ يَجْلِسُ إِلَيْهِ الرَّجُلُ وَالرَّجُلَانِ فَيُحَدِّثُهُمَا، فَإِذَا كَثُرُوا، قَامَ وَتَرَكَهُمْ".
خیثمہ نے کہا: حارث بن قیس الجعفی جو سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے تھے، اور لوگ ان پر فخر کیا کرتے تھے، ان کے پاس ایک یا دو آدمی بیٹھتے تو انہیں کوئی حدیث بیان کرنے لگتے تھے، پھر جب ان کی تعداد بڑھ جاتی تو کھڑے ہو کر چلے جاتے اور انہیں چھوڑ دیتے۔ (یعنی زیادہ لوگوں میں شہرت پانا انہیں پسند نہ تھا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 538]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور خیثمہ: ابن عبدالرحمٰن ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 539
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا احمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا ابو شهاب، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن علقمة، قال: قيل له حين مات عبد الله رضي الله عنه: لو قعدت فعلمت الناس السنة؟، فقال: "اتريدون ان يوطا عقبي؟".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، قَالَ: قِيلَ لَهُ حِينَ مَاتَ عَبْدُ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: لَوْ قَعَدْتَ فَعَلَّمْتَ النَّاسَ السُّنَّةَ؟، فَقَالَ: "أَتُرِيدُونَ أَنْ يُوطَأَ عَقِبِي؟".
ابراہیم سے مروی ہے جب سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا انتقال ہوا تو علقمہ (بن قیس) سے کہا گیا: کاش آپ (ابن مسعود کی جگہ) بیٹھیں اور لوگوں کو (ان کی طرح) سنت کی تعلیم دیں، کہا: کیا تم چاہتے ہو کہ میری ایڑی کچل دی جائے؟ (یعنی اپنے پیچھے آنے والوں سے میں فتنے میں پڑ جاؤں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 539]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 60/6] و [حلية الأولياء 100/2]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 540
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن العلاء، حدثنا ابن إدريس، قال: سمعت هارون بن عنترة، عن سليم بن حنظلة، قال: اتينا ابي بن كعب لنتحدث إليه، فلما قام قمنا، ونحن نمشي خلفه، فرهقنا عمر رضي الله عنه، فتبعه فضربه عمر بالدرة، قال: فاتقاه بذراعيه، فقال: يا امير المؤمنين، ما نصنع؟، قال: "او ما ترى؟ فتنة للمتبوع، مذلة للتابع".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، قَالَ: سَمِعْتُ هَارُونَ بْنَ عَنْتَرَةَ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ حَنْظَلَةَ، قَالَ: أَتَيْنَا أُبَيَّ بْنَ كَعْبٍ لِنَتَحَدَّثَ إِلَيْهِ، فَلَمَّا قَامَ قُمْنَا، وَنَحْنُ نَمْشِي خَلْفَهُ، فَرَهَقَنَا عُمَرُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَتَبِعَهُ فَضَرَبَهُ عُمَرُ بِالدِّرَّةِ، قَالَ: فَاتَّقَاهُ بِذِرَاعَيْهِ، فَقَالَ: يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، مَا نَصْنَعُ؟، قَالَ: "أَوَ مَا تَرَى؟ فِتْنَةً لِلْمَتْبُوعِ، مَذَلَّةً لِلتَّابِعِ".
سلیم بن حنظلہ نے کہا کہ ہم سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تاکہ بات چیت کریں، جب وہ کھڑے ہوئے تو ہم بھی کھڑے ہو گئے اور ان کے پیچھے چلنے لگے، پس سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ہم سے قریب ہوئے اور ابی رضی اللہ عنہ کے پیچھے جا کر انہیں درے سے ضرب لگائی۔ راوی نے کہا: جسے انہوں نے اپنی کلائی سے روکا، اور کہا: اے امیر المؤمنین! کیا کرتے ہو؟ فرمایا: دیکھتے نہیں (یہ لوگوں کا پیچھے چلنا) متبوع کے لئے فتنہ اور پیچھے چلنے والے کے لئے ذلت و رسوائی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 540]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6366]، [الزهد الكبير للبيهقي 303]، [الجامع لأخلاق الراوي 931] و [حلية الأولياء 12/9]

وضاحت:
(تشریح احادیث 535 سے 540)
یعنی متبوع جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے فتنے میں پڑنے کا اندیشہ ہے کہ دل میں بڑا پن اور ریاء نہ آ جائے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
حدیث نمبر: 541
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم قال: "كانوا يكرهون ان توطا اعقابهم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ قَالَ: "كَانُوا يَكْرَهُونَ أَنْ تُوطَأَ أَعْقَابُهُمْ".
منصور (بن المعتمر) سے مروی ہے کہ ابراہیم نے کہا: پیچھے پیچھے چلنے کو (اسلاف کرام) ناپسند کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 541]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم 158]، [مصنف ابن أبى شيبه 5864]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 542
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن بسطام بن مسلم، قال: كان محمد بن سيرين إذا مشى معه الرجل قام، فقال: "الك حاجة؟ فإن كانت له حاجة، قضاها، وإن عاد يمشي معه قام، فقال: الك حاجة؟".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ بِسْطَامِ بْنِ مُسْلِمٍ، قَالَ: كَانَ مُحَمَّدُ بْنُ سِيرِينَ إِذَا مَشَى مَعَهُ الرَّجُلُ قَامَ، فَقَالَ: "أَلَكَ حَاجَةٌ؟ فَإِنْ كَانَتْ لَهُ حَاجَةٌ، قَضَاهَا، وَإِنْ عَادَ يَمْشِي مَعَهُ قَامَ، فَقَالَ: أَلَكَ حَاجَةٌ؟".
بسطام بن مسلم نے کہا: امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ کے پیچھے جب کوئی آدمی چلتا تو وہ کھڑے ہو جاتے اور فرماتے: تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ اگر اس کی کوئی حاجت ہوتی تو پوری فرماتے، پھر بھی اگر وہ آپ کے پیچھے چلتا تو پوچھتے: کوئی اور حاجت ہے؟

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 542]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 267/2]

وضاحت:
(تشریح احادیث 540 سے 542)
یعنی وہ اپنے پیچھے کسی کا چلنا پسند نہ کرتے تھے، یہ ان لوگوں کے لئے باعثِ نصیحت ہے جو چاہتے ہیں کہ لوگ ان کے آگے پیچھے حاشیہ برداری کریں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 543
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا ابو نعيم، حدثنا حسن بن صالح، عن ابي حمزة، عن إبراهيم، قال: "إياكم ان توطا اعقابكم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ صَالِحٍ، عَنْ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "إِيَّاكُمْ أَنْ تُوطَأَ أَعْقَابُكُمْ".
ابوحمزہ سے مروی ہے ابراہیم نے کہا: اس سے ہوشیار رہو کہ تمہارے پیچھے چلا جائے۔ (یعنی اس سے بچنا کہ تمہارے نقشِ پا پر چلا جائے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة ميمون الأعور، [مكتبه الشامله نمبر: 543]»
اس روایت کی سند میں ابوحمزة میمون الاعور ضعیف ہیں، اور اسے صرف امام دارمی نے ذکر کیا ہے۔ ابونعیم: فضل بن دکین ہیں، (541) پر یہ روایت گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة ميمون الأعور
حدیث نمبر: 544
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا مخلد بن مالك، حدثنا حجاج بن محمد، حدثنا شعبة، عن الهيثم، عن عاصم بن ضمرة انه راى اناسا يتبعون سعيد بن جبير، قال: فاراه قال: نهاهم، وقال: "إن صنيعكم هذا او مشيكم هذا مذلة للتابع، وفتنة للمتبوع".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْهَيْثَمِ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ أَنَّهُ رَأَى أُنَاسًا يَتْبَعُونَ سَعِيدَ بْنَ جُبَيْر، قَالَ: فَأُرَاهُ قَالَ: نَهَاهُمْ، وَقَالَ: "إِنَّ صَنِيعَكُمْ هَذَا أَوْ مَشْيَكُمْ هَذَا مَذَلَّةٌ لِلتَّابِعِ، وَفِتْنَةٌ لِلْمَتْبُوعِ".
عاصم بن ضمرہ سے مروی ہے کہ انہوں نے دیکھا کچھ لوگ سعید بن جبیر کے پیچھے چل رہے ہیں، راوی نے کہا: میرا خیال ہے عاصم نے کہا: انہوں نے انہیں اپنے پیچھے چلنے سے روکا اور فرمایا: تمہارا یہ فعل، یا کہا: تمہارا یہ میرے پیچھے چلنا متابعت کرنے والے کے لئے خواری ہے اور (متبوع) جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے لئے فتنہ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل عاصم بن ضمرة والهيثم بن حبيب الصيرفي، [مكتبه الشامله نمبر: 544]»
اس روایت کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 932]، [العلم 123]، [مصنف ابن أبى شيبه 6364]، [الزهد للبيهقي 304]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل عاصم بن ضمرة والهيثم بن حبيب الصيرفي
حدیث نمبر: 545
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سعيد بن عامر، حدثنا حميد بن اسود، عن ابن عون، قال: "شاورت محمدا في بناء اردت ان ابنيه في الكلاء، قال: فاشار علي، وقال: إذا اردت اساس البناء فآذني حتى اجيء معك، قال: فاتيته، قال: فبينما نحن نمشي إذ جاء رجل فمشى معه، فقام، فقال: الك حاجة؟، قال: لا، قال: اما لا، فاذهب، ثم اقبل علي، فقال: انت ايضا فاذهب، قال: فذهبت حتى خالفت الطريق".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا حُمَيْدُ بْنُ أَسْوَدَ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: "شَاوَرْتُ مُحَمَّدًا فِي بِنَاءٍ أَرَدْتُ أَنْ أَبْنِيَهُ فِي الْكَلَّاءِ، قَالَ: فَأَشَارَ عَلَيَّ، وَقَالَ: إِذَا أَرَدْتَ أَسَاسَ الْبِنَاءِ فَآذِنِّي حَتَّى أَجِيءَ مَعَكَ، قَالَ: فَأَتَيْتُهُ، قَالَ: فَبَيْنَمَا نَحْنُ نَمْشِي إِذْ جَاءَ رَجُلٌ فَمَشَى مَعَهُ، فَقَامَ، فَقَالَ: أَلَكَ حَاجَةٌ؟، قَالَ: لَا، قَالَ: أَمَّا لَا، فَاذْهَبْ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، فَقَالَ: أَنْتَ أَيْضًا فَاذْهَبْ، قَالَ: فَذَهَبْتُ حَتَّى خَالَفْتُ الطَّرِيقَ".
عبداللہ بن عون نے کہا: میں نے محمد (ابن سیرین رحمہ اللہ) سے کھیت میں گھر بنانے کے بارے میں مشورہ کیا، انہوں نے جواب دیتے ہوئے فرمایا: جب تمہارا بنیاد رکھنے کا ارادہ ہو تو مجھے خبر کرنا، لہٰذا جب میں ان کے پاس آیا اور ہم دونوں چلنے لگے کہ اچانک ایک آدمی آیا اور ان کے پیچھے چلنے لگا، محمد رحمہ اللہ کھڑے ہو گئے اور فرمایا: تمہاری کوئی ضرورت ہے؟ اس نے کہا: نہیں، فرمایا: جب کوئی حاجت نہیں ہے تو جاؤ، پھر میری طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: جاؤ تم بھی جاؤ، لہٰذا میں بھی (انہیں چھوڑ کر) دوسرے راستے سے روانہ ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 545]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [حلية الأولياء 267/2]

وضاحت:
(تشریح احادیث 542 سے 545)
ان آثار سے معلوم ہوتا ہے اسلاف کرام شہرت سے اور اپنے پیچھے کسی کے چلنے سے احتیاط برتتے تھے کیوں کہ اپنے پیچھے شاگردوں یا متبعین کی بھیڑ دیکھ کر کبر و غرور کے فتنہ میں پڑنے کا اندیشہ بہت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 546
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا احمد بن الحجاج، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن نسير، ان الربيع كان إذا اتوه، يقول: "اعوذ بالله من شركم"، يعني: اصحابه.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْحَجَّاجِ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ نُسَيْرٍ، أَنَّ الرَّبِيعَ كَانَ إِذَا أَتَوْهُ، يَقُولُ: "أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنْ شَرِّكُمْ"، يَعْنِي: أَصْحَابَهُ.
نسیر (ابن ذعلوق) سے مروی ہے ربیع رحمہ اللہ کے پاس جب لوگ (ان کے شاگرد) آتے تو وہ کہتے تھے: میں تمہارے شر سے الله کی پناہ چاہتا ہوں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 546]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [العلم 129]، [زوائد نعيم بن حماد على زهد ابن المبارك 55]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 547
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا مخلد بن مالك، حدثنا يحيى بن سعيد، عن الاعمش، عن رجاء الانصاري، عن عبد الرحمن بن بشر، قال: كنا عند خباب بن الارت رضي الله عنه، فاجتمع إليه اصحابه وهو ساكت، فقيل له: الا تحدث اصحابك؟، قال: "اخاف ان اقول لهم ما لا افعل".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مَخْلَدُ بْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ رَجَاءٍ الْأَنْصَارِيِّ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ بِشْرٍ، قَالَ: كُنَّا عِنْدَ خَبَّابِ بْنِ الْأَرَتِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَاجْتَمَعَ إِلَيْهِ أَصْحَابُهُ وَهُوَ سَاكِتٌ، فَقِيلَ لَهُ: أَلَا تُحَدِّثُ أَصْحَابَكَ؟، قَالَ: "أَخَافُ أَنْ أَقُولَ لَهُمْ مَا لَا أَفْعَلُ".
عبدالرحمٰن بن بشر نے کہا: ہم سیدنا خباب بن الارت رضی اللہ عنہ کے پاس تھے، ان کے شاگرد ان کے پاس آئے اور وہ چپ بیٹھے رہے، کہا گیا: کیا آپ اپنے شاگردوں کو حدیث بیان نہیں کریں گے؟ فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ ایسی چیز ان سے بیان کر دوں جس پر خود عمل نہیں کرتا۔

تخریج الحدیث: «في إسناده رجاء الأنصاري وهذا إسناد ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 547]»
اس روایت کی سند حسن کے درجہ کو پہنچتی ہے۔ ابوخیثمہ نے [العلم 16] میں اسے روایت کیا ہے، لیکن ان کی سند ضعیف ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 545 سے 547)
قول و عمل میں مطابقت ضروری ہے، اسی کے پیشِ نظر سیدنا خباب رضی اللہ عنہ نے احتیاط کیا کہ قول عمل کے خلاف نہ ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في إسناده رجاء الأنصاري وهذا إسناد ضعيف
حدیث نمبر: 548
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن صالح، قال: سمعت الشعبي، قال: "وددت اني نجوت من عملي كفافا لا لي ولا علي".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ صَالِحٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، قَالَ: "وَدِدْتُ أَنِّي نَجَوْتُ مِنْ عَمَلِي كَفَافًا لَا لِي وَلَا عَلَيَّ".
صالح (بن صالح بن حي) نے کہا: میں نے امام شعبی رحمہ اللہ کو کہتے سنا: میری آرزو ہے کاش میں اپنے علم میں برابر سرابر ہی چھوٹ جاؤں، نہ مجھے کچھ ملے (نہ مؤاخذہ ہو) نا گناہ کا مجھ پر بوجھ ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 548]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المعرفة للفسوي 592/2]

وضاحت:
(تشریح حدیث 547)
ایسا شدتِ مؤاخذہ کے ڈر سے انہوں نے کہا: « ﴿إِنَّ بَطْشَ رَبِّكَ لَشَدِيدٌ﴾ [البروج: 12] » ترجمہ: بے شک تیرے رب کی پکڑ یقینا بہت سخت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 549
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا ابن عون، عن الحسن، ان ابن مسعود رضي الله عنه كان يمشي وناس يطئون عقبه، فقال: "لا تطئوا عقبي، فوالله لو تعلمون ما اغلق عليه بابي، ما تبعني رجل منكم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا ابْنُ عَوْنٍ، عَنْ الْحَسَنِ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ كَانَ يَمْشِي وَنَاسٌ يَطَئُونَ عَقِبَهُ، فَقَالَ: "لَا تَطَئُوا عَقِبِي، فَوَاللَّهِ لَوْ تَعْلَمُونَ مَا أُغْلِقُ عَلَيْهِ بَابِي، مَا تَبِعَنِي رَجُلٌ مِنْكُمْ".
امام حسن بصری رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ جا رہے تھے کہ لوگ ان کے پیچھے چلنے لگے، انہوں نے فرمایا: میرے پیچھے نہ چلو، قسم الله کی اگر تم جان لو کہ میں کس وجہ سے اپنا دروازہ بند کر لیتا ہوں تو تم میں سے کوئی آدمی میرے پیچھے نہ آئے۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع الحسن لم يدرك ابن مسعود. وابن عون هو: عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 549]»
اس روایت کے رجال ثقات ہیں، لیکن اس میں انقطاع ہے۔ امام حسن بصری رحمہ اللہ نے سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو پایا ہی نہیں۔ حوالہ کے لئے دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6365]، [المستدرك 316/3]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع الحسن لم يدرك ابن مسعود. وابن عون هو: عبد الله
حدیث نمبر: 550
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا جرير، عن مغيرة، عن سعيد بن جبير، قال: "فتنة للمتبوع، مذلة للتابع".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ، قَالَ: "فِتْنَةٌ لِلْمَتْبُوعِ، مَذَلَّةٌ لِلتَّابِعِ".
سعید بن جبیر رحمہ اللہ نے فرمایا: جس کے پیچھے چلا جا رہا ہے اس کے لئے فتنہ اور پیچھے چلنے والے کے لئے ذلت و خواری ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد، [مكتبه الشامله نمبر: 550]»
اس روایت کی سند محمد بن حمید کی وجہ سے ضعیف ہے، اور تخریج رقم (544) پر گذر چکی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن حميد
حدیث نمبر: 551
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا شهاب بن عباد، حدثنا سفيان، عن امي، قال: مشوا خلف علي رضي الله عنه، فقال: "عني خفق نعالكم، فإنها مفسدة لقلوب نوكى الرجال".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا شِهَابُ بْنُ عَبَّادٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أُمَيٍّ، قَالَ: مَشَوْا خَلْفَ عَلِيٍّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَقَالَ: "عَنِّي خَفْقَ نِعَالِكُمْ، فَإِنَّهَا مُفْسِدَةٌ لِقُلُوبِ نَوْكَى الرِّجَالِ".
اُمی (بن ربیعہ) نے کہا: لوگ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل رہے تھے، انہوں نے کہا: مجھ سے اپنے جوتوں کی چراہٹ دور رکھو، کیونکہ یہ بے وقوف و عاجز لوگوں کے دلوں کو خراب کر دینے والی (چیز) ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 551]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 899]، لیکن ابن عبدالبر نے اسے تعلیقاً روایت کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 552
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن يزيد بن حازم، قال: سمعت الحسن، يقول: "إن خفق النعال حول الرجال قل ما يلبث الحمقى".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَازِمٍ، قَالَ: سَمِعْتُ الْحَسَنَ، يَقُولُ: "إِنَّ خَفْقَ النِّعَالِ حَوْلَ الرِّجَالِ قَلَّ مَا يُلَبِّثُ الْحَمْقَى".
یزید بن حازم سے مروی ہے کہ میں نے امام حسن بصری رحمہ اللہ کو سنا، وہ فرماتے تھے: لوگوں کے پیچھے جوتے چرانا بے وقوفوں کو علم میں اضافے سے باز رکھتا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 552]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [الجامع لأخلاق الراوي 934]، [طبقات ابن سعد 122/1/7]، [زيادات نعيم بن حماد على زهد بن المبارك 50]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 553
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن حاتم المكتب، حدثنا قاسم هو ابن مالك، حدثنا ليث، عن طاوس، قال: "كان إذا جلس إليه الرجل او الرجلان، قام فتنحى".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ الْمُكْتِبُ، حَدَّثَنَا قَاسِمُ هُوَ ابْنُ مَالِكٍ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ، عَنْ طَاوُسٍ، قَالَ: "كَانَ إِذَا جَلَسَ إِلَيْهِ الرَّجُلُ أَوْ الرَّجُلَانِ، قَامَ فَتَنَحَّى".
لیث نے بیان کیا کہ امام طاؤوس رحمہ اللہ کے پاس جب ایک یا دو آدمی آ بیٹھتے تو وہ کھڑے ہو کر وہاں سے پرے ہٹ جاتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 553]»
اس روایت کی سند میں لیث بن ابی سلیم ضعیف ہیں، اور امام دارمی کے علاوہ اسے کسی نے روایت نہیں کیا۔ نیز اسی طرح کی روایت (538) میں گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 548 سے 553)
ان تمام روایات سے سلف صالحین کی تواضع اور خاکساری ظاہر ہوتی ہے، انہیں شہرت قطعاً پسند نہ تھی اسی لئے اپنے آگے پیچھے بھیڑ لگانا وہ پسند نہیں کرتے تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
حدیث نمبر: 554
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا اسود بن عامر، حدثنا ابو بكر، عن الاعمش، عن سعيد بن عبد الله بن جريج، عن ابي برزة الاسلمي، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "لا تزول قدما عبد يوم القيامة حتى يسال عن عمره فيما افناه، وعن علمه ما فعل به، وعن ماله من اين اكتسبه وفيما انفقه، وعن جسمه فيما ابلاه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ أَبِي بَرْزَةَ الْأَسْلَمِيِّ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ مَا فَعَلَ بِهِ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ وَفِيمَا أَنْفَقَهُ، وَعَنْ جِسْمِهِ فِيمَا أَبْلَاهُ".
سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی بھی بندے کے قدم (قیامت) کے دن نہ ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے پوچھ نہ لیا جاوے کہ اپنی عمر کس میں گزاری؟ اپنے علم پر کتنا عمل کیا؟ مال کہاں سے کمایا اور کس میں خرچ کیا؟ اور جسم کو کس (کام) میں لگایا؟

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 554]»
اس روایت کی یہ سند حسن ہے، لیکن حدیث کا متن صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن الترمذي 2417]، [المعجم الأوسط 2212]، [مسند أبى يعلی 7434]، [مجمع البحرين 4783] و [مجمع الزوائد 346/10]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش والحديث صحيح
حدیث نمبر: 555
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سعيد بن منصور، حدثنا عبد العزيز بن محمد، عن عمارة بن غزية، عن يحيى بن راشد، حدثني فلان العرني، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه، قال: "لا يدع الله العباد يوم القيامة يوم يقوم الناس لرب العالمين حتى يسالهم عن اربع: عما افنوا فيه اعمارهم، وعما ابلوا فيه اجسادهم، وعما كسبوا وفيما انفقوا، وعما عملوا فيما علموا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ مُحَمَّدٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ غَزِيَّةَ، عَنْ يَحْيَى بْنِ رَاشِدٍ، حَدَّثَنِي فُلَانٌ الْعُرَنِيُّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَا يَدَعُ اللَّهُ الْعِبَادَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَوْمَ يَقُومُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعَالَمِينَ حَتَّى يَسْأَلَهُمْ عَنْ أَرْبَعٍ: عَمَّا أَفْنَوْا فِيهِ أَعْمَارَهُمْ، وَعَمَّا أَبْلَوْا فِيهِ أَجْسَادَهُمْ، وَعَمَّا كَسَبُوا وفِيمَا أَنْفَقُوا، وَعَمَّا عَمِلُوا فِيمَا عَلِمُوا".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، انہوں نے کہا: قیامت کے دن جب کہ لوگ رب العالمین کے حضور کھڑے ہوں گے، اللہ تعالیٰ بندوں کو چار چیزیں پوچھنے سے پہلے نہیں چھوڑے گا۔ اپنی عمر کیسے گزاری؟ اپنے جسم کس کام میں استعال کئے؟ مال کیسے کمایا اور کس میں خرچ کیا؟ اور جو علم حاصل کیا اس پر عمل کتنا کیا؟

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف فيه جهالة، [مكتبه الشامله نمبر: 555]»
اس روایت کی سند میں فلاں العرنی مجہول ہیں، اور سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ پر موقوف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف فيه جهالة
حدیث نمبر: 556
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن ليث، عن عدي بن عدي، عن ابي عبد الله الصنابحي، عن معاذ بن جبل رضي الله عنه، قال: "لا تزول قدما عبد يوم القيامة حتى يسال عن اربع: عن عمره فيما افناه، وعن جسده فيما ابلاه، وعن ماله من اين اكتسبه، وفيما وضعه، وعن علمه ماذا عمل فيه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ عَدِيِّ بْنِ عَدِيٍّ، عَنْ أَبِي عَبْدِ اللَّهِ الصُّنَابِحِيِّ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَا تَزُولُ قَدَمَا عَبْدٍ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حَتَّى يُسْأَلَ عَنْ أَرْبَعٍ: عَنْ عُمُرِهِ فِيمَا أَفْنَاهُ، وَعَنْ جَسَدِهِ فِيمَا أَبْلَاهُ، وَعَنْ مَالِهِ مِنْ أَيْنَ اكْتَسَبَهُ، وَفِيمَا وَضَعَهُ، وَعَنْ عِلْمِهِ مَاذَا عَمِلَ فِيهِ".
سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قیامت کے دن کسی بھی بندے کے قدم نہیں ہٹیں گے یہاں تک کہ اس سے چار چیزوں کے بارے میں پوچھ نہ لیا جائے، اپنی عمر کس میں گنوائی؟ اپنے جسم کو کس میں لگایا؟ اپنا مال کیسے کمایا اور کہاں اس کو خرچ کیا؟ اور اپنے علم پر عمل کتنا کیا؟۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف وهوموقوف، [مكتبه الشامله نمبر: 556]»
اس قول کی سند ضعیف ہے اور موقوف بھی۔ یہ روایت [كشف الاستار 3438]، [الاقتضاء 3] میں موجود ہے، لیکن سند ضعیف ہے، لیکن [الاقتضاء 2]، [تاريخ بغداد 441/11]، [شعب الايمان 1785] میں صحیح سند سے مروی ہے۔ نیز سیدنا ابوبرزہ اسلمی رضی اللہ عنہ کی ہم معنی روایت صحیح سند سے گزر چکی ہے، اس لئے معنی کے اعتبار سے یہ روایت صحیح اور موصول ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 553 سے 556)
ان روایات سے قیامت کے دن حساب کتاب اور پوچھ گچھ ثابت ہوتی ہے، نیز یہ کہ علم، عمر، جسم اور مال کے بارے میں حساب ہوگا، اس لئے ہر بندے کو ان چیزوں کا خیال رکھنا چاہئے، زندگی اچھے کاموں میں گزر رہی ہے یا نہیں؟ جسم و صحت کو اچھے کام میں لگایا یا نہیں؟ اور مال کہاں سے حاصل کیا، کہاں خرچ کیا؟ اچھے کاموں میں یا لہو و لعب اور منکرات و خواہش میں؟ الله تعالیٰ سب کو سمجھ اور عمل کی توفیق بخشے۔
آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف وهوموقوف
حدیث نمبر: 557
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن ليث، قال: قال لي طاوس: "ما تعلمت، فتعلم لنفسك، فإن الناس قد ذهبت منهم الامانة".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ لَيْثٍ، قَالَ: قَالَ لِي طَاوُسٌ: "مَا تَعَلَّمْتَ، فَتَعَلَّمْ لِنَفْسِكَ، فَإِنَّ النَّاسَ قَدْ ذَهَبَتْ مِنْهُمْ الْأَمَانَةُ".
لیث بن ابی سلیم سے مروی ہے امام طاؤوس رحمہ اللہ نے مجھ سے کہا: تم نے جو علم سیکھا اسے اپنے لئے سیکھو کیونکہ لوگوں سے امانت اٹھ گئی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 557]»
لیث کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ دیکھئے: [المصنف 17086]، [المحدث الفاصل 704]، [حلية الأولياء 11/4]، [جامع بيان العلم وفضله 884-1155]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث بن أبي سليم
حدیث نمبر: 558
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سليمان بن حرب، عن عمارة بن مهران، عن الحسن، قال: "ادركت الناس والناسك إذا نسك لم يعرف من قبل منطقه، ولكن يعرف من قبل عمله، فذلك العلم النافع".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ مِهْرَانَ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "أَدْرَكْتُ النَّاسَ وَالنَّاسِكُ إِذَا نَسَكَ لَمْ يُعْرَفْ مِنْ قِبَلِ مَنْطِقِهِ، وَلَكِنْ يُعْرَفُ مِنْ قِبَلِ عَمَلِهِ، فَذَلِكَ الْعِلْمُ النَّافِعُ".
عمارة بن مہران سے مروی ہے امام حسن رحمہ اللہ نے فرمایا: میں نے ایسی جماعت کو پایا کہ ان میں کوئی عبادت گزار جب عبادت کرتا تو اس کی گفتگو سے اس کا پتہ نہیں لگ پاتا تھا، لیکن اپنے عمل سے وہ پہچان لئے جاتے، نفع بخش علم یہی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 558]»
اس قول کی سند صحیح ہے، اور اسے صرف امام دارمی نے روایت کیا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 556 سے 558)
یعنی جس علم کے ساتھ عمل ہو وہی فائدے مند ہے، نیز دکھاوا اور ریا و نمود عمل کو ضائع کر دیتے ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.