الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
مقدمه
مقدمہ
42. باب مَنْ لَمْ يَرَ كِتَابَةَ الْحَدِيثِ:
حدیث کی عدم کتابت کا بیان
حدیث نمبر: 464
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا همام، عن زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "لا تكتبوا عني شيئا إلا القرآن، فمن كتب عني شيئا غير القرآن، فليمحه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا هَمَّامٌ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "لَا تَكْتُبُوا عَنِّي شَيْئًا إِلَّا الْقُرْآنَ، فَمَنْ كَتَبَ عَنِّي شَيْئًا غَيْرَ الْقُرْآنِ، فَلْيَمْحُهُ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھ سے قرآن کریم کے علاوہ کچھ نہ لکھو، اور کسی نے مجھ سے قرآن کے علاوہ جو کچھ بھی لکھا ہے اسے مٹا دے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 464]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسند أبى يعلی 1288]، [صحيح ابن حبان 64]، [تقييد العلم ص: 31-32]۔ نیز دیکھئے: [فتح الباري 208/1]

وضاحت:
(تشریح احادیث 460 سے 464)
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فرمایا: صحابہ و تابعین کی ایک جماعت نے حدیث لکھنے کو ناپسند کیا اور یہ اچھا سمجھا تھا کہ جس طرح انہوں نے حدیث یاد کی وہ بھی حدیث حفظ کر لیں۔
اور کتابتِ حدیث سے ابتدائے امر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا تھا، اور یہ اس لئے کہ قرآن و حدیث خلط ملط نہ ہو جائے، بعد میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حدیث لکھنے کی اجازت دیدی تھی، چنانچہ سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما وغیرہ لکھا کرتے تھے جیسا کہ اگلے باب میں آرہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 465
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو معمر، عن سفيان بن عيينة، قال: حدثنا زيد بن اسلم، عن عطاء بن يسار، عن ابي سعيد الخدري رضي الله عنه: انهم استاذنوا النبي صلى الله عليه وسلم في ان يكتبوا عنه"فلم ياذن لهم".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو مَعْمَرٍ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ أَسْلَمَ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّهُمْ اسْتَأْذَنُوا النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي أَنْ يَكْتُبُوا عَنْهُ"فَلَمْ يَأْذَنْ لَهُمْ".
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کتابت حدیث کی اجازت چاہی تو آپ نے انہیں اس کی اجازت نہ دی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 465]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2667]، [الالماع للقاضي ص: 148]، [المحدث الفاصل 362]، [الجامع للخطيب 461]، [تقييد العلم ص: 32] و [جامع بيان العلم 335] یہ حکم شروع اسلام میں تھا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 466
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا بشر بن الحكم، عن سفيان بن عيينة، عن ابن شبرمة، عن الشعبي، انه كان يقول: "يا شباك، ارد عليك، يعني: الحديث؟ ما اردت ان يرد علي حديث قط".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا بِشْرُ بْنُ الْحَكَمِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ عُيَيْنَةَ، عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، أَنَّهُ كَانَ يَقُولُ: "يَا شِبَاكُ، أَرُدُّ عَلَيْكَ، يَعْنِي: الْحَدِيثَ؟ مَا أَرَدْتُ أَنْ يُرَدَّ عَلَيَّ حَدِيثٌ قَطُّ".
امام شعبی رحمہ اللہ کہا کرتے تھے: اے شباک! کیا تمہارے لئے کوئی حدیث لوٹائی گئی ہے؟ میں نہیں چاہتا کہ میرے لئے بھی کوئی حدیث دوبارہ لوٹائی جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 466]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعه 1981]، [الجامع 461]، لیکن اس میں ہے: «يقول يا شباك أرد عليك؟ ما قلت لأحد قط رد على (باب) إعاده المحدث الحديث حال الرواية ليحفظ» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 467
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن احمد بن ابي خلف، قال: سمعت عبد الرحمن بن مهدي، يقول: سمعت مالك بن انس، يقول: جاء الزهري بحديث فلقيته في بعض الطريق، فاخذت بلجامه، فقلت: يا ابا بكر، اعد علي الحديث الذي حدثتنا به، قال: "وتستعيد الحديث؟، قال: قلت: وما كنت تستعيد الحديث؟، قال: لا، قلت: ولا تكتب؟، قال: لا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ بْنِ أَبِي خَلَفٍ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَهْدِيٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ، يَقُولُ: جَاءَ الزُّهْرِيُّ بِحَدِيثٍ فَلَقِيتُهُ فِي بَعْضِ الطَّرِيقِ، فَأَخَذْتُ بِلِجَامِهِ، فَقُلْتُ: يَا أَبَا بَكْرٍ، أَعِدْ عَلَيَّ الْحَدِيثَ الَّذِي حَدَّثْتَنَا بِهِ، قَالَ: "وَتَسْتَعِيدُ الْحَدِيثَ؟، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا كُنْتَ تَسْتَعِيدُ الْحَدِيثَ؟، قَالَ: لَا، قُلْتُ: وَلَا تَكْتُبُ؟، قَالَ: لَا".
عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں: میں نے امام مالک بن انس رحمہ اللہ کو کہتے سنا کہ ابن شہاب زہری ایک حدیث کے کر آئے، میں نے ان سے راستے میں ملاقات کی اور لگام تھام لی، پھر عرض کیا: اے ابوبکر! مجھے وہی حدیث دوبارہ سنایئے جو آپ بیان کر چکے ہیں، فرمایا: کیا دوبارہ سننا چاہتے ہو؟ میں نے عرض کیا: آپ دوبارہ نہیں سنتے تھے؟ فرمایا نہیں، میں نے عرض کیا: اور لکھتے بھی نہیں تھے؟ فرمایا: نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 467]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تاريخ أبى زرعه 1381]، [المحدث الفاصل 782] و [الجامع 461]

وضاحت:
(تشریح احادیث 464 سے 467)
اس سے ان کی قوّتِ حافظہ، توجہ اور چاہت ثابت ہوتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 468
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، قال:"كان قتادة يكره الكتابة، فإذا سمع وقع الكتاب، انكره والتمسه بيده"..(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ:"كَانَ قَتَادَةُ يَكْرَهُ الْكِتَابَةَ، فَإِذَا سَمِعَ وَقْعَ الْكِتَابِ، أَنْكَرَهُ وَالْتَمَسَهُ بِيَدِهِ"..
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: قتادہ حدیث لکھنا ناپسند کرتے تھے، اور جب معلوم ہوتا کہ لکھا جا چکا ہے تو ناپسند کرتے اور اپنے ہاتھ سے مٹا دیتے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 468]»
محمد بن کثیر کی وجہ سے یہ روایت ضعیف ہے۔ نیز امام اوزاعی رحمہ اللہ سے کتابتِ حدیث کی اباحت بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 340]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير بن أبي عطاء
حدیث نمبر: 469
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا ابو المغيرة، قال: "كان الاوزاعي يكرهه"..(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، قَالَ: "كَانَ الْأَوْزَاعِيُّ يَكْرَهُهُ"..
ابوالمغيرہ (حجاج بن عبدالقدوس) نے خبر دی کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ اس کو مکروہ سمجھتے تھے (یعنی حدیث کی کتابت)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 469]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، لیکن کہیں دوسری جگہ نہیں مل سکی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 470
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن منصور"ان إبراهيم كان يكره الكتاب"، يعني: العلم.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ مَنْصُورٍ"أَنَّ إِبْرَاهِيمَ كَانَ يَكْرَهُ الْكِتَابَ"، يَعْنِي: الْعِلْمَ.
منصور سے مروی ہے کہ امام ابراہیم نخعی علم کی کتابت مکروہ سمجھتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 470]»
اس کی سند صحیح ہے، اور امام ابراہیم نخعی نے ایسا فرمایا ہے۔ دیکھئے: [العلم 160]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 471
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يوسف بن موسى، اخبرنا ازهر، عن ابن عون، عن ابن سيرين، قال: "لو كنت متخذا كتابا، لاتخذت رسائل النبي صلى الله عليه وسلم".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، أَخْبَرَنَا أَزْهَرُ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، قَالَ: "لَوْ كُنْتُ مُتَّخِذًا كِتَابًا، لَاتَّخَذْتُ رَسَائِلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: اگر مجھے کتاب بنانی ہوتی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطوط کی کتاب بناتا۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 471]»
اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 48] و [المحدث الفاصل 366، 368]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 472
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا إسماعيل بن ابان، حدثنا ابن إدريس، عن ابن عون، قال: "رايت حمادا يكتب عند إبراهيم، فقال له إبراهيم: الم انهك؟، قال: إنما هي اطراف".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، قَالَ: "رَأَيْتُ حَمَّادًا يَكْتُبُ عِنْدَ إِبْرَاهِيمَ، فَقَالَ لَهُ إِبْرَاهِيمُ: أَلَمْ أَنْهَكَ؟، قَالَ: إِنَّمَا هِيَ أَطْرَافٌ".
عبداللہ بن عون سے مروی ہے کہ میں نے حماد کو امام ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کے پاس لکھتے دیکھا تو امام ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: کیا میں نے تم کو لکھنے سے منع نہیں کیا تھا؟ حماد نے جواب دیا کہ بس اطراف لکھے ہیں (یعنی اشارے لکھے ہیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 472]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6481]، [العلم 126، 135، 161]، [جامع بيان العلم 400]، [حلية الأولياء 225/4]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 473
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا إسماعيل بن ابان، حدثنا ابن إدريس، عن شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، قال: قال لي عبيدة: "لا تخلدن علي كتابا".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ أَبَانَ، حَدَّثَنَا ابْنُ إِدْرِيسَ، عَنْ شُعْبَةَ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَالَ لِي عَبِيدَةُ: "لَا تُخَلِّدَنَّ عَلَيَّ كِتَابًا".
ابراہیم سے مروی ہے کہ عبیدہ نے مجھ سے کہا: میری طرف سے کوئی کتاب نہ بنانا۔ (یعنی کچھ لکھنا نہیں کہ کتاب بن جائے اور باقی رہے۔)

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 473]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6494، 6502]، [جامع بيان العلم 362] و [تقييد العلم ص: 46]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 474
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا سعيد بن عامر، عن هشام، قال: "ما كتبت عن محمد إلا حديث الاعماق، فلما حفظته، محوته".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ عَامِرٍ، عَنْ هِشَامٍ، قَالَ: "مَا كَتَبْتُ عَنْ مُحَمَّدٍ إِلَّا حَدِيثَ الْأَعْمَاقِ، فَلَمَّا حَفِظْتُهُ، مَحَوْتُهُ".
ہشام بن حسان نے کہا: میں نے امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ سے صرف حدیث الأعماق لکھی تھی، پھر جب یاد کر لی تو اسے مٹا دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 474]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 373]

وضاحت:
(تشریح احادیث 467 سے 474)
حدیث الأعماق سے مراد غالباً امام مسلم کی یہ حدیث ہے: «لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَنْزِلَ الرُّومُ بِالْأَعْمَاقِ.» دیکھئے: [صحيح مسلم 2897] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 475
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا مروان بن محمد، قال: سمعت سعيد بن عبد العزيز، يقول: "ما كتبت حديثا قط".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَرْوَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ، قَالَ: سَمِعْتُ سَعِيدَ بْنَ عَبْدِ الْعَزِيزِ، يَقُولُ: "مَا كَتَبْتُ حَدِيثًا قَطُّ".
مروان بن محمد نے کہا: میں نے سنا: سعید بن عبدالعزیز فرماتے تھے: میں نے کبھی کوئی حدیث نہیں لکھی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 475]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 367]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 476
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الله بن عمران، حدثنا ابو داود، حدثنا شعبة، عن مغيرة، عن إبراهيم، قال: "ما كتبت شيئا قط".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ مُغِيرَةِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "مَا كَتَبْتُ شَيْئًا قَطُّ".
ابراہیم (بن یزید) نے فرمایا: میں نے کبھی کوئی حدیث نہیں لکھی۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 476]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 367]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 477
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا عبد الله بن عمران، حدثنا ابو داود، حدثنا شعبة، عن إسماعيل بن رجاء، عن إبراهيم، قال: سالت عبيدة قطعة جلد اكتب فيه، فقال:"يا إبراهيم، لا تخلدن عني كتابا"..(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عِمْرَانَ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ رَجَاءٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: سَأَلْتُ عَبِيدَةَ قِطْعَةَ جِلْدٍ أَكْتُبُ فِيهِ، فَقَالَ:"يَا إِبْرَاهِيمُ، لَا تُخَلِّدَنَّ عَنِّي كِتَابًا"..
ابراہیم نے کہا: میں نے عبیده (ابن عمر السلمانی) سے چمڑے کا ٹکڑا طلب کیا تاکہ اس میں لکھ لوں تو انہوں نے کہا: اے ابراہیم! مجھ سے کوئی کتاب باقی نہ رکھنا (یعنی لکھی ہوئی چیز باقی نہ رکھنا)۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 477]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ تخریج کے لئے اثر قم (473) ملاحظہ کیجئے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 478
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا عبد الله، حدثنا ابو داود، حدثنا شعبة، عن الحكم، عن إبراهيم، عن عبيدة، مثله..(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْحَكَمِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبِيدَةَ، مِثْلَهُ..
ابراہیم نے عبیدہ سے مذکورہ بالا الفاظ بیان کئے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 478]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 63/6]۔ نیز مذکورہ بالا اثر ملاحظہ کیجئے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 479
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا يحيى بن حماد، حدثنا ابو عوانة، عن سليمان بن عتيك، عن ابي معشر، عن إبراهيم: "انه كان يكره ان يكتب الحديث في الكراريس، ويقول: يشبه بالمصاحف"..(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَتِيكٍ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ: "أَنَّهُ كَانَ يَكْرَهُ أَنْ يُكْتَبَ الْحَدِيثُ فِي الْكَرَارِيسِ، وَيَقُولُ: يُشَبَّهُ بِالْمَصَاحِفِ"..
ابراہیم کاپیوں میں حدیث لکھنا ناپسند کرتے تھے، اور فرماتے تھے: یہ مصحف کے مانند ہو جائے گا۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 479]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6360]، [جامع بيان العلم 365] و [تقييد العلم ص: 48]، اس سند میں ابوعوانہ کا نام وضاح بن عبداللہ اور ابومعشر کا نام زیاد بن کلیب ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 480
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) قال يحيى: ووجدت في كتابي، عن زياد الكاتب، عن ابي معشر،"فاكتب كيف شئت"..(حديث مقطوع) قَالَ يَحْيَى: وَوَجَدْتُ فِي كِتَابِي، عَنْ زِيَادٍ الْكَاتِبِ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ،"فَاكْتُبْ كَيْفَ شِئْتَ"..
یحییٰ نے کہا: میں نے اپنی کتاب میں دیکھا کہ زیاد الکاتب نے لکھا: ابومعشر سے مروی ہے جس طرح چاہو لکھو۔

تخریج الحدیث: «إلى قوله في الحديث الشريف " الحديث في الكراريس " إسناده جيد وإلى نهاية الحديث الشريف " كيف شئت " إسناده صحيح وهو وجادة، [مكتبه الشامله نمبر: 480]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور طرق تحمل حدیث میں یہ «وجادة» کی قسم سے ہے، «و انفرد به الدارمي» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إلى قوله في الحديث الشريف " الحديث في الكراريس " إسناده جيد وإلى نهاية الحديث الشريف " كيف شئت " إسناده صحيح وهو وجادة
حدیث نمبر: 481
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا محمد بن يوسف، وعبيد الله، عن سفيان، عن نعمان بن قيس، ان عبيدة دعا بكتبه فمحاها عند الموت، وقال: "إني اخاف ان يليها قوم، فلا يضعونها مواضعها".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، وَعُبَيْدُ اللَّهِ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ نُعْمَانَ بْنِ قَيْسٍ، أَنَّ عَبِيدَةَ دَعَا بِكُتُبِهِ فَمَحَاهَا عِنْدَ الْمَوْتِ، وَقَالَ: "إِنِّي أَخَافُ أَنْ يَلِيَهَا قَوْمٌ، فَلَا يَضَعُونَهَا مَوَاضِعَهَا".
نعمان بن قیس سے مروی ہے کہ عبیدہ بن عمرو نے وفات سے پہلے اپنی کتابیں منگائیں اور انہیں مٹا دیا، نیز فرمایا: مجھے ڈر ہے کہ کچھ لوگ انہیں پائیں اور انہیں ان کے مناسب مقام پر نہ رکھیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 481]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6353]، [طبقات ابن سعد 63/6]، [العلم لأبي خيثمه 112]، [تقييد العلم ص: 61، 62] و [جامع بيان العلم 363، 364]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 482
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الحكم بن المبارك، وزكريا بن عدي، عن عبد الواحد بن زياد، عن ليث، عن مجاهد،"انه كره ان يكتب العلم في الكراريس".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، وَزَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، عَنْ عَبْدِ الْوَاحِدِ بْنِ زِيَادٍ، عَنْ لَيْثٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ،"أَنَّهُ كَرِهَ أَنْ يُكْتَبَ الْعِلْمُ فِي الْكَرَارِيسِ".
مجاہد رحمہ اللہ نے کاپیوں میں علم کی باتیں لکھنے کو ناپسند فرمایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم، [مكتبه الشامله نمبر: 482]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن کچھ اسلاف سے بسند صحیح کتابت کی کراہت ثابت ہے۔ یہ اثر دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6359] و [تقييد العلم ص: 47]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف ليث وهو: ابن أبي سليم
حدیث نمبر: 483
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عبد الرحمن بن صالح، حدثنا ابن المبارك، عن الاوزاعي، قال: "ما زال هذا العلم عزيزا يتلاقاه الرجال حتى وقع في الصحف، فحمله، او دخل فيه غير اهله".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ صَالِحٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: "مَا زَالَ هَذَا الْعِلْمُ عَزِيزًا يَتَلَاقَاهُ الرِّجَالُ حَتَّى وَقَعَ فِي الصُّحُفِ، فَحَمَلَهُ، أَوْ دَخَلَ فِيهِ غَيْرُ أَهْلِهِ".
امام اوزاعی رحمہ اللہ نے فرمایا: یہ علم جب تک لوگوں سے زبانی حاصل کیا جاتا رہا تو قوی تھا تا آنکہ مصحف میں لکھا جانے لگا، تو پھر نااہل لوگوں نے اسے اٹھانا یا اس میں داخل ہونا شروع کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 483]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 64] و [جامع بيان العلم 371]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 484
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يوسف بن موسى، حدثنا ابو داود الطيالسي، اخبرنا شعبة، عن يونس، قال: "كان الحسن يكتب ويكتب، وكان ابن سيرين لا يكتب ولا يكتب".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا أَبُو دَاوُدَ الطَّيَالِسِيُّ، أَخْبَرَنَا شُعْبَةُ، عَنْ يُونُسَ، قَالَ: "كَانَ الْحَسَنُ يَكْتُبُ وَيُكْتِبُ، وَكَانَ ابْنُ سِيرِينَ لَا يَكْتُبُ وَلَا يُكْتِبُ".
یونس بن عبید نے کہا: امام حسن بصری رحمہ اللہ لکھتے لکھاتے تھے اور امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نہ لکھتے اور نہ لکھاتے تھے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 484]»
اس قول کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [جامع بيان العلم 387، 390]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 485
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد، اخبرنا العوام، عن إبراهيم التيمي، قال: بلغ ابن مسعود رضي الله عنه: ان عند ناس كتابا يعجبون به، فلم يزل بهم حتى اتوه به، فمحاه، ثم قال: "إنما هلك اهل الكتاب قبلكم: انهم اقبلوا على كتب علمائهم، وتركوا كتاب ربهم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ، أَخْبَرَنَا الْعَوَّامُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ التَّيْمِيِّ، قَالَ: بَلَغَ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَنَّ عِنْدَ نَاسٍ كِتَابًا يُعْجَبُونَ بِهِ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِمْ حَتَّى أَتَوْهُ بِهِ، فَمَحَاهُ، ثُمَّ قَالَ: "إِنَّمَا هَلَكَ أَهْلُ الْكِتَابِ قَبْلَكُمْ: أَنَّهُمْ أَقْبَلُوا عَلَى كُتُبِ عُلَمَائِهِمْ، وَتَرَكُوا كِتَابَ رَبِّهِمْ".
ابراہیم تیمی نے کہا: سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کو خبر لگی کہ کچھ لوگوں کے پاس کتاب ہے جس پر وہ فخر کرتے ہیں، سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے اسے مٹا دیا اور پھر فرمایا: تم سے پہلے اہل کتاب اس لئے ہلاک ہوئے کہ وہ اپنے علماء کی کتابوں کی طرف متوجہ ہو گئے اور رب کی کتاب کو ترک کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 485]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 56] و [جامع بيان العلم 319 نحوه]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 486
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن زيد، عن ابن عون، عن محمد قال: قلت لعبيدة: "اكتب ما اسمع منك، قال: لا، قلت: فإن وجدت كتابا اقرؤه؟، قال: لا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ مُحَمَّدٍ قَالَ: قُلْتُ لِعَبِيدَةَ: "أَكْتُبُ مَا أَسْمَعُ مِنْكَ، قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَإِنْ وَجَدْتُ كِتَابًا أَقْرَؤُهُ؟، قَالَ: لَا".
امام محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے عبیدہ (بن عمرو السلمانی) سے کہا: میں آپ سے جو سنتا ہوں اسے لکھ لوں؟ فرمایا: نہیں، میں نے کہا: اگر لکھا ہوا مل جائے تو اسے پڑھ لوں؟ فرمایا: نہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 486]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 45]، [جامع بيان العلم 360]، [مصنف ابن أبى شيبه 6356]، [العلم لأبي خيثمه 150]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 487
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا الجريري، عن ابي نضرة، قال: قلت لابي سعيد الخدري رضي الله عنه: الا تكتبنا، فإنا لا نحفظ؟، فقال: "لا، إنا لن نكتبكم، ولن نجعله قرآنا، ولكن احفظوا عنا كما حفظنا نحن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا الْجُرَيْرِيُّ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ، قَالَ: قُلْتُ لِأَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: أَلَا تُكْتِبُنَا، فَإِنَّا لَا نَحْفَظُ؟، فَقَالَ: "لَا، إِنَّا لَنْ نُكْتِبَكُمْ، وَلَنْ نَجْعَلَهُ قُرْآنًا، وَلَكِنْ احْفَظُوا عَنَّا كَمَا حَفِظْنَا نَحْنُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ".
ابونضرہ نے کہا: میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے عرض کیا کہ آپ ہمیں لکھائیں گے نہیں؟ ہم حفظ نہیں کر سکتے، انہوں نے فرمایا: نہیں، ہم تمہیں ہرگز نہیں لکھائیں گے اور اس لکھے ہوئے کو قرآن نہیں بننے دیں گے، ہاں ہم سے احادیث یاد کر لو جس طرح ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے یاد کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 487]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابونضرة کا نام منذر بن مالک ہے۔ حوالہ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 37]، [جامع بيان العلم 338، 340]، [مصنف ابن أبى شيبه 6491]، [المحدث الفاصل 363]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 488
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا حدثنا محمد بن كثير، عن الاوزاعي، قال: سمعت ابا كثير، يقول: سمعت ابا هريرة، يقول: "إن ابا هريرة لا يكتب، ولا يكتب".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا كَثِيرٍ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، يَقُولُ: "إِنَّ أَبَا هُرَيْرَةَ لَا يَكْتُبُ، وَلَا يُكْتِبُ".
امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے: میں نے ابوکثیر کو کہتے سنا، کہا: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے تھے: ابوہریرہ نہ لکھتے ہیں اور نہ لکھاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير الصنعاني ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه المعافى بن عمران وهو ثقة فيصح الإسناد، [مكتبه الشامله نمبر: 488]»
اس روایت کی سند محمد بن کثیر کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن المعافیٰ بن عمران سے بھی اسی طرح مروی ہے جو ثقہ ہیں۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 42]، [العلم 140]، [جامع بيان العلم 357]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن كثير الصنعاني ولكنه لم ينفرد به بل تابعه عليه المعافى بن عمران وهو ثقة فيصح الإسناد
حدیث نمبر: 489
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا اسد بن موسى، حدثنا شعبة، عن ابي موسى، عن حميد بن هلال، عن ابي بردة: "انه كان يكتب حديث ابيه، فرآه ابو موسى، فمحاه".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا أَسَدُ بْنُ مُوسَى، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ أَبِي مُوسَى، عَنْ حُمَيْدِ بْنِ هِلَالٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ: "أَنَّهُ كَانَ يَكْتُبُ حَدِيثَ أَبِيهِ، فَرَآهُ أَبُو مُوسَى، فَمَحَاهُ".
ابوبردہ سے مروی ہے کہ وہ اپنے والد کی حدیث لکھا لیا کرتے تھے، ابوموسیٰ نے انہیں ایسا کرتے دیکھا تو اس کو مٹا دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لجهالة أبي موسى، [مكتبه الشامله نمبر: 489]»
اس اثر کی سند ابوموسیٰ کی جہالت کی وجہ سے ضعیف ہے، لیکن [المحدث الفاصل 369] و [تقييد العلم ص: 39، 40] میں صحیح سند سے مروی ہے۔ نیز دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6495]، [العلم 153] و [جامع بيان العلم 347]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لجهالة أبي موسى
حدیث نمبر: 490
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الوليد بن شجاع، حدثني قريش بن انس، قال: قال لي ابن عون: "والله ما كتبت حديثا قط".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ شُجَاعٍ، حَدَّثَنِي قُرَيْشُ بْنُ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ لِي ابْنُ عَوْنٍ: "وَاللَّهِ مَا كَتَبْتُ حَدِيثًا قَطُّ".
قریش بن انس نے بیان کیا کہ ابن عون نے مجھ سے کہا: قسم اللہ کی میں نے کبھی کوئی حدیث نہیں لکھی، اور ابن عون نے کہا: ابن سیرین رحمہ اللہ نے بھی فرمایا: نہیں، قسم الله کی میں نے کبھی کوئی حدیث نہیں لکھی۔

تخریج الحدیث: «إلى قوله في الحديث الشريف " ما كتبت حديث قط " أسناده فيه قريش بن أنس وقد اختلط وهو من رجال البخاري في صحيحه. وإلى نهاية الحديث الشريف " هؤلاء وما تقول " إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 490]»
اس روایت کی سند میں قریش بن انس کو اختلاط ہوگیا تھا، اور اس اثر کو رامهرمزی نے [المحدث الفاصل 368] میں ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إلى قوله في الحديث الشريف " ما كتبت حديث قط " أسناده فيه قريش بن أنس وقد اختلط وهو من رجال البخاري في صحيحه. وإلى نهاية الحديث الشريف " هؤلاء وما تقول " إسناده صحيح
حدیث نمبر: 491
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) (حديث مقطوع) قال: وقال ابن سيرين رضي الله عنه: "لا والله ما كتبت حديثا قط"، قال ابن عون: قال لي ابن سيرين: عن زيد بن ثابت رضي الله عنه ارادني مروان بن الحكم وهو امير على المدينة ان اكتبه شيئا، قال: فلم افعل، قال: فجعل سترا بين مجلسه وبين بقية داره، قال: فكان اصحابه يدخلون عليه، ويتحدثون في ذلك الموضع، فاقبل مروان على اصحابه، فقال: ما ارانا إلا قد خناه، ثم اقبل علي، قال: قلت وما ذاك؟، قال: ما ارانا إلا قد خناك، قال: قلت: وما ذاك؟، قال:"إنا امرنا رجلا يقعد خلف هذا الستر، فيكتب ما تفتي هؤلاء وما تقول". (حديث موقوف) (حديث مقطوع) قَالَ: وقَالَ ابْنُ سِيرِينَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "لَا وَاللَّهِ مَا كَتَبْتُ حَدِيثًا قَطُّ"، قَالَ ابْنُ عَوْنٍ: قَالَ لِي ابْنُ سِيرِينَ: عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ أَرَادَنِي مَرْوَانُ بْنُ الْحَكَمِ وَهُوَ أَمِيرٌ عَلَى الْمَدِينَةِ أَنْ أُكْتِبَهُ شَيْئًا، قَالَ: فَلَمْ أَفْعَلْ، قَالَ: فَجَعَلَ سِتْرًا بَيْنَ مَجْلِسِهِ وَبَيْنَ بَقِيَّةِ دَارِهِ، قَالَ: فَكَانَ أَصْحَابُهُ يَدْخُلُونَ عَلَيْهِ، وَيَتَحَدَّثُونَ فِي ذَلِكَ الْمَوْضِعِ، فَأَقْبَلَ مَرْوَانُ عَلَى أَصْحَابِهِ، فَقَالَ: مَا أُرَانَا إِلَّا قَدْ خُنَّاهُ، ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيَّ، قَالَ: قُلْتُ وَمَا ذَاكَ؟، قَالَ: مَا أُرَانَا إِلَّا قَدْ خُنَّاكَ، قَالَ: قُلْتُ: وَمَا ذَاكَ؟، قَالَ:"إِنَّا أَمَرْنَا رَجُلًا يَقْعُدُ خَلْفَ هَذَا السِّتْرِ، فَيَكْتُبُ مَا تُفْتِي هَؤُلَاءِ وَمَا تَقُولُ".
عبداللہ بن عون نے کہا: مجھ سے محمد بن سیرین رحمہ اللہ نے فرمایا: سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مروان بن الحکم نے جو مدینہ کے گورنر تھے، مجھ سے چاہا کہ میں انہیں کچھ لکھاؤں، لیکن میں نے ایسا نہیں کیا۔ راوی نے کہا: امیر (محترم) نے اپنے اور باقی زنان خانہ (گھر کے لوگوں) کے درمیان پردہ کرا دیا، پھر گورنر (صاحب) کے مصاحب ان کے پاس اس جگہ آئے اور باتیں کرنے لگے، پھر مروان اپنے مصاحبین کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: میرا خیال ہے ہم نے ان کے ساتھ خیانت کی ہے۔ پھر میری (زید بن ثابت کی) طرف متوجہ ہوئے، میں نے کہا: کیسی خیانت؟ کہا: میرے خیال میں ہم نے آپ کی خیانت کی ہے، کہا بات کیا ہے؟ کہا: ہم نے ایک آدمی کو حکم دیا تھا کہ اس پردے کے پیچھے بیٹھ جائے اور جو کچھ یہ لوگ فتویٰ دیں وہ اور جو کچھ آپ کہیں اس کو لکھ لے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 491]»
اس روایت کی سند صحیح ہے، اور یہ روایت [مصنف ابن أبى شيبه 6497]، [جامع بيان العلم 349] میں صحیح سند سے مروی ہے۔ نیز ابن سعد نے [الطبقات 117/2/2] اور طبری نے [المعجم الكبير 4871] میں بھی اسے ذکر کیا ہے لیکن ان کی سند ضعیف ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 492
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا عفان، حدثنا يحيى بن سعيد القطان، حدثنا سفيان، عن منصور، قال: قلت لإبراهيم: إن سالما اتم منك حديثا؟ قال: "إن سالما كان يكتب".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مَنْصُورٍ، قَالَ: قُلْتُ لِإِبْرَاهِيمَ: إِنَّ سَالِمًا أَتَمُّ مِنْكَ حَدِيثًا؟ قَالَ: "إِنَّ سَالِمًا كَانَ يَكْتُبُ".
منصور (بن المعتمر) نے کہا: میں نے ابراہیم سے کہا کہ سالم (ابن ابی الجعد) آپ سے زیادہ حدیث میں کامل ہیں، ابراہیم نے کہا: کیونکہ سالم لکھ لیا کرتے تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 492]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [طبقات ابن سعد 203/6]، [المحدث الفاصل 349]، [تقييد العلم ص: 108-109] و [جامع بيان العلم 385]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 493
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا الوليد بن هشام، حدثنا الحارث بن يزيد الحمصي، عن عمرو بن قيس، قال: وفدت مع ابي إلى يزيد بن معاوية بحوارين حين توفي معاوية رضي الله عنه نعزيه، ونهنيه بالخلافة، فإذا رجل في مسجدها، يقول: "الا إن من اشراط الساعة ان ترفع الاشرار، ويوضع الاخيار، الا إن من اشراط الساعة ان يظهر القول ويخزن العمل، الا إن من اشراط الساعة ان تتلى المثناة، فلا يوجد من يغيرها، قيل له: وما المثناة؟، قال: ما استكتب من كتاب غير القرآن، فعليكم بالقرآن فبه هديتم، وبه تجزون، وعنه تسالون"، فلم ادر من الرجل، فحدثت هذا الحديث بعد ذلك بحمص، فقال لي رجل من القوم: او ما تعرفه؟، قلت: لا، قال: ذلك عبد الله بن عمرو رضي الله عنهما.(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا الْوَلِيدُ بْنُ هِشَامٍ، حَدَّثَنَا الْحَارِثُ بْنُ يَزِيدَ الْحِمْصِيُّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: وَفَدْتُ مَعَ أَبِي إِلَى يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ بِحُوَّارَيْنَ حِينَ تُوُفِّيَ مُعَاوِيَةُ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ نُعَزِّيهِ، وَنُهَنِّيهِ بِالْخِلَافَةِ، فَإِذَا رَجُلٌ فِي مَسْجِدِهَا، يَقُولُ: "أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُرْفَعَ الْأَشْرَارُ، ويُوضَعُ الْأَخْيَارُ، أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ يَظْهَرَ الْقَوْلُ وَيُخْزَنَ الْعَمَلُ، أَلَا إِنَّ مِنْ أَشْرَاطِ السَّاعَةِ أَنْ تُتْلَى الْمَثْنَاةُ، فَلَا يُوجَدُ مَنْ يُغَيِّرُهَا، قِيلَ لَهُ: وَمَا الْمَثْنَاةُ؟، قَالَ: مَا اسْتُكْتِبَ مِنْ كِتَابٍ غَيْرِ الْقُرْآنِ، فَعَلَيْكُمْ بِالْقُرْآنِ فَبِهِ هُدِيتُمْ، وَبِهِ تُجْزَوْنَ، وَعَنْهُ تُسْأَلُونَ"، فَلَمْ أَدْرِ مَنْ الرَّجُلُ، فَحَدَّثْتُ هذَا الْحَدِيثِ بَعْدَ ذَلِكَ بِحِمْصَ، فَقَالَ لِي رَجُلٌ مِنْ الْقَوْمِ: أَوَ مَا تَعْرِفُهُ؟، قُلْتُ: لَا، قَالَ: ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا.
عمرو بن قیس نے کہا: سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات پر میں اپنے والد کے ساتھ تعزیت اور خلافت کی مبارکباد دینے کے لئے یزید بن معاویہ کے پاس حوارّین گیا، کیا دیکھتے ہیں کہ ان کی مسجد میں ایک آدمی کہہ رہا ہے: خبردار دیکھو! قیامت کی نشانیوں میں سے یہ ہے کہ اشرار سر چڑھائے جائیں گے اور اخیار (اچھے لوگ) گرائے جائیں گے، سنو! قیامت کی نشانیوں میں سے ہے کہ قول کا اظہار ہو گا اور عمل محفوظ رہے گا۔ سنو! اشراط ساعۃ میں سے ہے کہ مثناة (ثانوی کتاب) پڑھی جائے گی اور کوئی اس میں تغیر کرنے والا نہ ہو گا، عرض کیا گیا: یہ مثناة کیا ہے، فرمایا: قرآن کے علاوہ کسی کتاب لکھنے کی درخواست کرنا، لہٰذا تم قرآن کو ہی تھامے رکھنا، اسی کے ذریعہ تم کو ہدایت ملی ہے، اور اسی کے ذریعہ تم کو اجر ملے گا، اور اس کے بارے میں تم سے پوچھا جائے گا۔ میں نے نہیں پہچانا کہ یہ کون آدمی ہیں؟ پھر میں نے یہ حدیث حمص میں بیان کی تو جماعت کے ایک آدمی نے مجھ سے کہا کہ تم انہیں پہچانتے نہیں؟ میں نے کہا: نہیں، تو انہوں نے کہا: یہ سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ تھے۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 493]»
اس اثر کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [المستدرك 554/4]، [غريب الحديث لأبي عبيد 282/4]

وضاحت:
(تشریح احادیث 474 سے 493)
حوّارین حمص کے قریب ایک گاؤں کا نام ہے جس میں یزید بن معاویہ کا انتقال ہوا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
حدیث نمبر: 494
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا احمد بن عبد الله بن يونس، حدثنا ابو زبيد، حدثنا حصين، عن مرة الهمداني، قال: جاء ابو قرة الكندي بكتاب من الشام، فحمله، فدفعه إلى عبد الله بن مسعود رضي الله عنه، فنظر فيه، فدعا بطست، ثم دعا بماء، فمرسه فيه، وقال: "إنما هلك من كان قبلكم باتباعهم الكتب وتركهم كتابهم"، قال حصين: فقال مرة:"اما إنه لو كان من القرآن، او السنة لم يمحه، ولكن كان من كتب اهل الكتاب".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يُونُسَ، حَدَّثَنَا أَبُو زُبَيْدٍ، حَدَّثَنَا حُصَيْنٌ، عَنْ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيِّ، قَالَ: جَاءَ أَبُو قُرَّةَ الْكِنْدِيُّ بِكِتَابٍ مِنْ الشَّامِ، فَحَمَلَهُ، فَدَفَعَهُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، فَنَظَرَ فِيهِ، فَدَعَا بِطَسْتٍ، ثُمَّ دَعَا بِمَاءٍ، فَمَرَسَهُ فِيهِ، وَقَالَ: "إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِاتِّبَاعِهِمْ الْكُتُبَ وَتَرْكِهِمْ كِتَابَهُمْ"، قَالَ حُصَيْنٌ: فَقَالَ مُرَّةُ:"أَمَا إِنَّهُ لَوْ كَانَ مِنْ الْقُرْآنِ، أَوْ السُّنَّةِ لَمْ يَمْحُهُ، وَلَكِنْ كَانَ مِنْ كُتُبِ أَهْلِ الْكِتَابِ".
مره ہمدانی نے کہا کہ ابوقره کندی شام سے ایک کتاب لے کر آئے اور اسے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے حوالے کر دیا، انہوں نے اس کتاب کو پڑھا اور ایک تھالی منگائی اور پانی طلب کیا اور اس کو رگڑ رگڑ کر دھو دیا اور فرمایا: تم سے پہلے لوگ ان کی دیگر کتاب کے پیچھے لگنے اور اپنی اصلی کتاب ترک کرنے کی وجہ سے ہلاک ہوئے۔ حصین سے مروی ہے: مرہ نے کہا: اگر وہ کتاب و سنت میں سے کچھ ہوتا تو سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ اسے نہ مٹاتے، وہ نوشتہ اہل کتاب کی کتب میں سے تھا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 494]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ اس میں ابوزبید کا نام عبثر بن قاسم ہے اور حصین: ابن عبدالرحمٰن اور مرة: ابن شرحبیل ہیں۔تخریج کے لئے دیکھئے: [مصنف ابن أبى شيبه 6355]، [تقييد العلم ص: 53]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 495
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن احمد، حدثنا سفيان، عن عمرو، عن يحيى بن جعدة، قال: اتي النبي صلى الله عليه وسلم بكتف فيه كتاب، فقال: "كفى بقوم ضلالا ان يرغبوا عما جاء به نبيهم إلى ما جاء به نبي غير نبيهم، او كتاب غير كتابهم"، فانزل الله عز وجل: اولم يكفهم انا انزلنا عليك الكتاب يتلى عليهم إن في ذلك لرحمة وذكرى لقوم يؤمنون سورة العنكبوت آية 51.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَحْمَدَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ عَمْرٍو، عَنْ يَحْيَى بْنِ جَعْدَةَ، قَالَ: أُتِيَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِكَتِفٍ فِيهِ كِتَابٌ، فَقَالَ: "كَفَى بِقَوْمٍ ضَلَالًا أَنْ يَرْغَبُوا عَمَّا جَاءَ بِهِ نَبِيُّهُمْ إِلَى مَا جَاءَ بِهِ نَبِيٌّ غَيْرُ نَبِيِّهِمْ، أَوْ كِتَابٌ غَيْرُ كِتَابِهِمْ"، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ سورة العنكبوت آية 51.
یحییٰ بن جعدہ نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لکھی ہوئی کندھے کی ہڈی لائی گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کسی قوم کی گمراہی کے لئے کافی ہے کہ وہ اپنے نبی کی لائی ہوئی چیز سے بےرغبتی کریں اور اپنے نبی کو چھوڑ کر کسی اور نبی کی طرف مائل ہوں یا اپنی کتاب کو چھوڑ کر کسی اور کتاب کی طرف مائل ہوں۔ اور اس کی تائید میں الله تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: «﴿أَوَلَمْ يَكْفِهِمْ أَنَّا أَنْزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ يُتْلَى عَلَيْهِمْ إِنَّ فِي ذَلِكَ لَرَحْمَةً وَذِكْرَى لِقَوْمٍ يُؤْمِنُونَ﴾» [عنكبوت: 51/29] کیا انہیں یہ کافی نہیں ہے کہ ہم نے آپ پر کتاب نازل فرمائی جو ان پر پڑھی جارہی ہے اس میں رحمت بھی ہے اور نصیحت بھی ان لوگوں کے لئے جو ایمان والے ہیں۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 495]»
یہ روایت مرسل صحیح ہے۔ دیکھئے: [مراسيل أبى داؤد 454]، [تفسير ابن جرير 7/21] و [فتح الباري 68/9]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 496
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن الاشعث، عن ابيه، وكان من اصحاب عبد الله، قال: رايت مع رجل صحيفة فيها: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله اكبر، فقلت له: انسخنيها، فكانه بخل بها، ثم وعدني ان يعطينيها، فاتيت عبد الله رضي الله عنه فإذا هي بين يديه، فقال: "إن ما في هذا الكتاب بدعة، وفتنة، وضلالة، وإنما اهلك من كان قبلكم هذا واشباه هذا، إنهم كتبوها، فاستلذتها السنتهم، واشربتها قلوبهم، فاعزم على كل امرئ يعلم بمكان كتاب إلا دل عليه، واقسم بالله، قال شعبة: فاقسم بالله؟، قال: احسبه اقسم: لو انها ذكرت له بدير الهند نراه يعني مكانا بالكوفة بعيدا، لآتيته ولو مشيا".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ الْأَشْعَثِ، عَنْ أَبِيهِ، وَكَانَ مِنْ أَصْحَابِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: رَأَيْتُ مَعَ رَجُلٍ صَحِيفَةً فِيهَا: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَالْحَمْدُ لِلَّهِ، وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَاللَّهُ أَكْبَرُ، فَقُلْتُ لَهً: أَنْسِخْنِيهَا، فَكَأَنَّهُ بَخِلَ بِهَا، ثُمَّ وَعَدَنِي أَنْ يُعْطِيَنِيهَا، فَأَتَيْتُ عَبْدَ اللَّهِ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ فَإِذَا هِيَ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ: "إِنَّ مَا فِي هَذَا الْكِتَابِ بِدْعَةٌ، وَفِتْنَةٌ، وَضَلَالَةٌ، وَإِنَّمَا أَهْلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ هَذَا وَأَشْبَاهُ هَذَا، إِنَّهُمْ كَتَبُوهَا، فَاسْتَلَذَّتْهَا أَلْسِنَتُهُمْ، وَأُشْرِبَتْهَا قُلُوبُهُمْ، فَأَعْزِمُ عَلَى كُلِّ امْرِئٍ يَعْلَمُ بِمَكَانِ كِتَابٍ إِلَّا دَلَّ عَلَيْهِ، وَأُقْسِمُ بِاللَّهِ، قَالَ شُعْبَةُ: فَأَقْسَمَ بِاللَّهِ؟، قَالَ: أَحْسَبُهُ أَقْسَمَ: لَوْ أَنَّهَا ذُكِرَتْ لَهُ بِدَيْرٍ الْهِنْدِ نَرَاهُ يَعْنِي مَكَانًا بِالْكُوفَةِ بَعِيدًا، لآَتَيْتُهُ وَلَوْ مَشْيًا".
اشعث (ابن ابی الشعثاء) نے اپنے والد سے روایت کیا جو کہ سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے شاگردوں میں سے تھے کہ میں نے ایک آدمی کے پاس صحیفہ دیکھا جس میں مکتوب تھا: «سبحان الله والحمد لله ولا إله إلا الله والله أكبر»، میں نے کہا: مجھے بھی لکھا دو، اس نے گویا بخل سے کام لیا، پھر مجھ سے وعدہ کیا کہ اس صحیفہ کو مجھے دیدے گا، پھر میں سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس آیا تو دیکھا وہی صحیفہ ان کے سامنے ہے۔ فرمانے لگے: اس مکتوب میں بدعت، فتنہ اور گمراہی ہے، تم سے پہلے لوگوں کو یہ اور اسی طرح کی چیزوں نے ہلاک کیا، انہوں نے اسے لکھا اور ان کی زبانوں نے اس کا چٹخارہ لیا اور وہی دلوں میں بیٹھ گیا، پس میں ہر آدمی کو تاکید کرتا ہوں کہ کسی بھی کتاب کی وہ جگہ جانتا ہو تو اسے بتا دے اور اسے قسم دیتا ہوں، شعبہ نے کہا: اور انہوں نے قسم کھلائی۔ راوی نے کہا: میرا گمان ہے کہ انہوں نے قسم کھا کر بتایا کہ اگر وہ کتاب ہند کے کسی مقام پر جو کوفہ سے دور ہو گی میں وہاں پہنچوں گا چاہے پیدل چل کر ہی جانا پڑے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 496]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ ابوالشعثاء کا نام سلیم بن اسود ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 55] و [مصنف ابن أبى شيبه 6498]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 497
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا زكريا بن عدي، حدثنا عبيد الله هو ابن عمرو، عن عبد الملك بن عمير، عن ابي بردة، عن ابي موسى رضي الله عنه: "ان بني إسرائيل كتبوا كتابا، فتبعوه وتركوا التوراة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا زَكَرِيَّا بْنُ عَدِيٍّ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ هُوَ ابْنُ عَمْرٍو، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ، عَنْ أَبِي مُوسَى رَضِيَ اللهُ عَنْهُ: "أَنَّ بَنِي إِسْرَائِيلَ كَتَبُوا كِتَابًا، فَتَبِعُوهُ وَتَرَكُوا التَّوْرَاةَ".
سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے فرمایا: بنی اسرائیل نے ایک کتاب لکھی، انہوں نے اس کی پیروی کی اور توراۃ کو چھوڑ دیا۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 497]»
اس روایت کی سند تو صحیح ہے لیکن موقوف ہے۔ دیکھئے: [تقييد العلم ص: 56] و [مجمع الزوائد 676، 940]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 498
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا اخبرنا ابو نعيم، حدثنا إسرائيل، عن عثمان بن ابي المغيرة، عن عفاق المحاربي، عن ابيه، قال: سمعت ابن مسعود رضي الله عنه، يقول: "إن ناسا يسمعون كلامي، ثم ينطلقون فيكتبونه، وإني لا احل لاحد ان يكتب إلا كتاب الله".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْمُغِيرَةِ، عَنْ عَفَّاقٍ الْمُحَارِبِيِّ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَمِعْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، يَقُولُ: "إِنَّ نَاسًا يَسْمَعُونَ كَلَامِي، ثُمَّ يَنْطَلِقُونَ فَيَكْتُبُونَهُ، وَإِنِّي لَا أُحِلُّ لِأَحَدٍ أَنْ يَكْتُبَ إِلَّا كِتَابَ اللَّهِ".
عفان (بن عبداللہ بن مرداس المحاربی) نے اپنے والد (عبدالله) سے روایت کیا کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے سنا وہ فرماتے تھے: بیشک کچھ لوگ میرا کلام سنتے ہیں پھر جا کر اسے لکھتے ہیں اور میں کسی کے لئے حلال نہیں کرتا کہ وہ اللہ عزوجل کی کتاب کے علاوہ کچھ لکھے۔

تخریج الحدیث: «، [مكتبه الشامله نمبر: 498]»
اس اثر کی سند جید ہے، اور اس معنی کی روایت اثر رقم (494، 496) پرگذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 493 سے 498)
یہ سب اس خوف کی بنا پر تھا کہ کتاب اللہ اور سنّتِ رسول اللہ خلط ملط نہ ہو جائے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني:
حدیث نمبر: 499
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) اخبرنا مالك بن إسماعيل، حدثنا محمد بن فضيل، عن ابن شبرمة، قال: سمعت الشعبي، يقول: "ما كتبت سوداء في بيضاء، ولا استعدت حديثا من إنسان".(حديث مقطوع) أَخْبَرَنَا مَالِكُ بْنُ إِسْمَاعِيل، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ ابْنِ شُبْرُمَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ الشَّعْبِيَّ، يَقُولُ: "مَا كَتَبْتُ سَوْدَاءَ فِي بَيْضَاءَ، وَلَا اسْتَعَدْتُ حَدِيثًا مِنْ إِنْسَانٍ".
ابن شبرمہ نے کہا: میں نے امام شعبی رحمہ اللہ کو کہتے سنا: میں نے سوداء کو بیضاء میں کبھی نہیں لکھا، اور نہ کبھی کسی انسان سے دوبارہ کوئی حدیث سننے کی درخواست کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 499]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [المحدث الفاصل 365]، [العلم 28]، [تاريخ بغداد 229/12]، [الجامع لأخلاق الراوي 1832]، [جامع بيان العلم 368] و [الحلية 321/4]

وضاحت:
(تشریح حدیث 498)
اس سے ان کی قوّتِ حافظ کا پتہ چلتا ہے، ان تمام آثار سے یہ معلوم ہوا کہ اسلاف کرام کتابتِ حدیث سے زیادہ قوّتِ حافظہ کو ترجیح دیتے تھے۔
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے [فتح الباري 208/1] میں لکھا ہے، اسلاف کرام نے کہا ہے: صحابہ کرام کی ایک جماعت کچھ بھی لکھنے کو ناپسند کرتی تھی، وہ یہ چاہتے تھے کہ جس طرح انہوں نے حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو دلوں میں محفوظ رکھا ہے اسی طرح وہ بھی حفظ کریں، لکھیں نہیں، لیکن جب انہوں نے سستی و کاہلی اور طلابِ علم میں پست ہمتی دیکھی تو علمِ نبوّت کے ضائع ہو جانے سے ڈر گئے اور لکھنے کی اجازت دے دی۔
جیسا کہ اگلے باب میں آ رہا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.