الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الوصايا
وصیت کے مسائل
7. باب الْوَصِيَّةِ بِالثُّلُثِ:
ایک تہائی کی وصیت کا بیان
حدیث نمبر: 3227
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو الوليد الطيالسي، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن يونس بن جبير، عن محمد بن سعد، عن ابيه: ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليه وهو بمكة، وليس له إلا ابنة، فقلت له:"إنه ليس لي إلا ابنة واحدة، فاوصي بمالي كله؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم: لا، قلت: فاوصي بالنصف؟ فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: لا، قال: فاوصي بالثلث؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: الثلث، والثلث كثير".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ يُونُسَ بْنِ جُبَيْرٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ: أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهِ وَهُوَ بِمَكَّةَ، وَلَيْسَ لَهُ إِلَّا ابْنَةٌ، فَقُلْتُ لَهُ:"إِنَّهُ لَيْسَ لِي إِلَّا ابْنَةٌ وَاحِدَةٌ، فَأُوصِي بِمَالِي كُلِّهِ؟ فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، قُلْتُ: فَأُوصِي بِالنِّصْفِ؟ فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَا، قَالَ: فَأُوصِي بِالثُّلُثِ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ".
محمد بن سعد (ابن ابی وقاص) نے اپنے والد سے روایت کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں ان کے پاس تشریف لائے، ان کی ایک ہی لڑکی تھی، سیدنا سعد (بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) نے کہا: میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا: میری صرف ایک ہی لڑکی ہے، میں اپنے کل مال کی (کار خیر کے لئے) وصیت کئے دیتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: پھر آدھے مال کی وصیت کر دیتا ہوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں، انہوں نے کہا: پھر ثلث کی وصیت کرتا ہوں؟ سیدنا سعد رضی اللہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ایک تہائی گرچہ ایک تہائی بھی بہت ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3238]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 56، 6733]، [مسلم 1628]، [أبوداؤد 2764]، [ترمذي 2116]، [نسائي 3638]، [ابن ماجه 2708]، [أحمد 137/1]، [أبويعلی 727]، [ابن حبان 4249]، [الحميدي 66]

وضاحت:
(تشریح حدیث 3226)
پیچھے گذر چکا ہے کہ مال اگر زیادہ ہے تو اچھے کاموں کے لئے خرچ کی وصیت کرنا مستحب ہے۔
قربان جائیں اسلامی تعلیمات کے، ہم سے یہ مطالبہ نہیں کیا گیا کہ کل مال راہِ الٰہی میں خرچ کر دیں یا خرچ کر دینے کی وصیت کریں، بلکہ اس کارِ خیر کو محدود فرما دیا، پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک تہائی مال خرچ کرنے کی اجازت دی اور سنہرے حرفوں سے لکھے جانے والی نصیحتیں فرمائیں کہ اپنے بچوں کو مال دار چھوڑو گے تو یہ اس سے بہتر ہوگا کہ وہ تنگدست رہیں اور لوگوں کے سامنے دستِ سوال دراز کرتے پھریں۔
سبحان اللہ العظیم! کیا تعلیماتِ نبویہ ہیں۔
مزید تفصیل آگے آ رہی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3228
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، حدثنا محمد بن إسحاق، عن الزهري، عن عامر بن سعد، عن ابيه، قال:"اشتكيت مع النبي صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع حتى ادنفت، فدخل علي رسول الله صلى الله عليه وسلم يعودني، فقلت: يا رسول الله، ما اراني إلا الم بي وانا ذو مال كثير، وإنما يرثني ابنة لي، افاتصدق بمالي كله؟ قال: لا، قلت: فبنصفه؟ قال: لا، قلت: فالثلث؟ قال: الثلث، والثلث كثير، إنك إن تترك ورثتك اغنياء، خير من ان تتركهم فقراء يتكففون الناس بايديهم، وإنك لا تنفق نفقة إلا آجرك الله فيها، حتى ما تجعل في في امراتك".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ:"اشْتَكَيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ حَتَّى أُدْنِفْتُ، فَدَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أُرَانِي إِلَّا أَلَمَّ بِي وَأَنَا ذُو مَالٍ كَثِيرٍ، وَإِنَّمَا يَرِثُنِي ابْنَةٌ لِي، أَفَأَتَصَدَّقُ بِمَالِي كُلِّهِ؟ قَالَ: لَا، قُلْتُ: فَبِنِصْفِهِ؟ قَال: لَا، قُلْتُ: فَالثُّلُثِ؟ قَالَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ، إِنَّكَ إِنْ تَتْرُكْ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ، خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَتْرُكَهُمْ فُقَرَاءَ يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ بِأَيْدِيهِمْ، وَإِنَّكَ لَا تُنْفِقُ نَفَقَةً إِلَّا آجَرَكَ اللَّهُ فِيهَا، حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ".
عامر بن سعد نے اپنے والد (سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ) سے روایت کیا کہ میں حجۃ الوداع میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا کہ بیمار پڑ گیا اور مرنے کے قریب ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میری عیادت کے لئے تشریف لائے تو میں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! میں سمجھتا ہوں اس بیماری سے جان بر نہ ہو سکوں گا اور میں بہت مال دار ہوں اور ایک لڑکی کے سوا میرا کوئی وارث نہیں، کیا میں اپنا سارا مال صدقہ کر دوں؟ فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: پھر نصف مال صدقہ کر دیتا ہوں؟ فرمایا: نہیں، میں نے عرض کیا: پھر تہائی مال صدقہ کردوں؟ فرمایا: ہاں، ایک تہائی صدقہ کر سکتے ہو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تہائی مال، گرچہ ایک تہائی (کا حصہ) بھی بہت ہے، بیشک تم اپنے وارثین کو مال دار چھوڑو گے تو یہ بہتر ہے اس سے کہ تم انہیں فقیر (تنگدست) چھوڑ کر جاؤ اور وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے (مانگتے) پھریں، اور تم جو بھی خرچ کرو گے اس میں الله تعالیٰ تمہیں اجر و ثواب دے گا یہاں تک کہ اس لقمہ پر ثواب ملے گا جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن إسحاق قد عنعن ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3239]»
اس حدیث کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔

وضاحت:
(تشریح حدیث 3227)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بیوی بچوں پر خرچ کرنا، حلال کمائی سے انہیں کھلانے پلانے اور کپڑے پہنانے میں بھی اجر و ثواب ہے، اور اپنے اہل و عیال پر آدمی کو خرچ کرنا چاہیے۔
کارِ خیر میں خرچ کرنے یا اس کے لئے وصیت کرنے کی بڑی فضیلت ہے، لیکن وارثین کو تنگ دست و پریشان حال چھوڑنا بھی درست نہیں، اسلام ہر کام میں میانہ روی سکھلاتا ہے: « ﴿وَلَا تَجْعَلْ يَدَكَ مَغْلُولَةً إِلَى عُنُقِكَ وَلَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُومًا مَحْسُورًا﴾ [بني إسرائيل: 29] » یعنی انسان نہ بخل سے کام لے اور نہ سب کچھ اسراف و تبذیر میں خرچ کر ڈالے اور پھر بعد میں پچھتائے اور اپنے آپ کو ملامت کرے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن إسحاق قد عنعن ولكن الحديث متفق عليه

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.