كتاب الصيام کتاب: روزوں کے احکام و مسائل و فضائل 83. بَابُ: كَيْفَ يَصُومُ ثَلاَثَةَ أَيَّامٍ مِنْ كُلِّ شَهْرٍ وَذِكْرِ اخْتِلاَفِ النَّاقِلِينَ لِلْخَبَرِ فِي ذَلِكَ باب: ہر مہینے تین روزے کس طرح رکھے؟ اس سلسلے کی حدیث کے ناقلین کے اختلاف کا ذکر۔
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے تین دن روزے رکھتے تھے، مہینے کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو، اور اس کے بعد کے قریبی جمعرات کو، پھر اس کے بعد کے جمعرات کو۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پا کر یہ روایت بھی صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں بڑا اضطراب ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
ہنیدہ خزاعی کہتے ہیں کہ میں ام المؤمنین کے پاس آیا، اور میں نے انہیں کہتے ہوئے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے تین دن روزہ رکھتے تھے۔ مہینے کے پہلے کہ دوشنبہ (پیر) کو، پھر جمعرات کو، پھر اس کے بعد کے آنے والے جمعرات کو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15814) (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کی سند میں بڑا اضطراب ہے)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین حفصہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ چار باتیں ایسی ہیں جنہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نہیں چھوڑتے تھے: ۱- عاشوراء کے روزے کو ۲- ذی الحجہ کے پہلے عشرہ کے روزے کو ۱؎ ۳- ہر مہینہ کے تین روزے ۴- اور فجر سے پہلے کی دونوں رکعتوں کو۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 15813)، مسند احمد 6/287 (ضعیف) (اس کے راوی ”ابو اسحاق اشجعی‘‘ لین الحدیث ہیں)»
وضاحت: ۱؎: مراد ذی الحجہ کے ابتدائی نو دن ہیں، ذی الحجہ کی دسویں تاریخ اس سے خارج ہے کیونکہ یوم النحر کو روزے رکھنا جائز نہیں۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعض بیویوں سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذی الحجہ کے نو روزے، عاشوراء کے دن (یعنی دسویں محرم کو) اور ہر مہینے میں تین روزے رکھتے ۱؎ ہر مہینہ کے پہلے دوشنبہ (پیر) کو، اور دوسرا اس کے بعد والی جمعرات کو، پھر اس کے بعد والی جمعرات کو۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2374 (صحیح) (شواہد اور متابعات سے تقویت پاکر یہ روایت بھی صحیح لغیرہ ہے، ورنہ اس کی سند میں بڑا اضطراب ہے)»
وضاحت: ۱؎: پہلی تاریخ سے لے کر نویں تاریخ تک۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیوی کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم (ذی الحجہ کے پہلے) عشرہ میں روزے رکھتے تھے، اور ہر مہینہ میں تین دن: دوشنبہ (پیر) اور (دو) جمعرات کو۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2374 (صحیح) (’’الخمیسین‘‘ کے لفظ کے ساتھ صحیح ہے، جیسا کہ اوپر گزرا)»
قال الشيخ الألباني: صحيح بلفظ الخميسين
ام المؤمنین ام سلمہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہر مہینے میں تین دن۔ ہر مہینے کی پہلی جمعرات کو، اور دو اس کے بعد والے دو شنبہ (پیر) کو پھر اس کے بعد والے دوشنبہ (پیر) کو روزے رکھنے کا حکم دیتے تھے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: 2374 (شاذ) (’’حکم دیتے تھے“ کا لفظ شاذ ہے، محفوظ یہ ہے کہ آپ خود روزے رکھتے تھے)»
وضاحت: ۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ نے دوشنبہ (پیر) کو مکرر رکھنے کا حکم دیا اور اس سے پہلے ایک حدیث گزری ہے جس میں ہے کہ آپ جمعرات کو مکرر رکھتے تھے، ان دونوں روایتوں کے ملانے سے یہ بات معلوم ہوئی کہ مطلوب ان دونوں دنوں میں تین دن روزے ہیں، خواہ وہ دوشنبہ (پیر) کو مکرر کر کے ہوں یا جمعرات کو، واللہ اعلم۔ قال الشيخ الألباني: شاذ
جریر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر مہینے میں تین دن کا روزے پورے سال کا روزے ہے“ (یعنی ایام بیض کے روزے) اور ایام بیض (چاند کی) تیرہویں چودہویں اور پندرہویں راتیں ہیں ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ النسائي، (تحفة الأشراف: 3222) (حسن)»
وضاحت: ۱؎: انہیں ایام بیض اس لیے کہتے ہیں کہ ان کی راتیں چاندنی کی وجہ سے سفید اور روشن ہوتی ہیں۔ قال الشيخ الألباني: حسن
|