الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الاطعمة
کھانا کھانے کے آداب
28. باب في الْوَلِيمَةِ:
ولیمہ کا بیان
حدیث نمبر: 2101
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا يزيد بن هارون، اخبرنا حميد، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال لعبد الرحمن بن عوف، وراى عليه وضرا من صفرة:"مهيم؟"قال: تزوجت، قال: "اولم ولو بشاة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا حُمَيْدٌ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ لِعَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، وَرَأَى عَلَيْهِ وَضَرًا مِنْ صُفْرَةٍ:"مَهْيَمْ؟"قَالَ: تَزَوَّجْتُ، قَالَ: "أَوْلِمْ وَلَوْ بِشَاةٍ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ پر زردی کا نشان دیکھا تو فرمایا: یہ زردی کیسی ہے؟ عرض کیا: میں نے شادی کر لی ہے۔ فرمایا: (پھر) ولیمہ کرو چاہے ایک بکری کا ہی ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2108]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2049]، [مسلم 1427]، [أبوداؤد 2109]، [ترمذي 1094]، [نسائي 3372]، [ابن ماجه 1907]، [أبويعلی 3205]، [ابن حبان 4060، 4096، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2100)
ولیمہ اس کھانے کو کہتے ہیں جو شبِ زفاف کے بعد خاوند کی طرف سے ہوتا ہے۔
بعض علماء نے اس کو واجب کہا ہے کیونکہ مذکورہ بالا حدیث میں بصیغۂ امر آیا ہے اور امر وجوب پر دلالت کرتا ہے۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ولیمہ میں کم از کم ایک بکرے یا بکری کا ذبیحہ ہونا چاہیے، اگر یہ بھی میسر نہ ہو تو ستّو اور مٹھائی وغیرہ کا بھی ولیمہ ہو سکتا ہے۔
اسی حدیث میں زعفرانی رنگ کا ذکر ہے لیکن مرد کو زعفران لگانا منع ہے، اس کی توجیہ یہ ہو سکتی ہے کہ دلہن کے پاس رہنے سے عورت کا زرد رنگ یا مخلوط خوشبو کا زردئی رنگ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے بدن یا کپڑے پر لگ گیا ہو۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2102
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عفان، حدثنا همام، حدثنا قتادة، عن الحسن، عن عبد الله بن عثمان الثقفي، عن رجل من ثقيف اعور، قال: كان يقال له معروف: اي يثنى عليه خير إن لم يكن اسمه زهير بن عثمان، فلا ادري ما اسمه، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: "الوليمة اول يوم حق، والثاني معروف، والثالث سمعة ورياء". قال قتادة: وحدثني رجل، عن سعيد بن المسيب، انه دعي اول يوم فاجاب، ودعي اليوم الثاني فاجاب، ودعي اليوم الثالث فحصب الرسول ولم يجبه، وقال:"اهل سمعة ورياء".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَفَّانُ، حَدَّثَنَا هَمَّامٌ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ الْحَسَنِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُثْمَانَ الثَّقَفِيِّ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ ثَقِيفَ أَعْوَرَ، قَالَ: كَانَ يُقَالُ لَهُ مَعْرُوفٌ: أَيْ يُثْنَى عَلَيْهِ خَيْرٌ إِنْ لَمْ يَكُنْ اسْمُهُ زُهَيْرَ بْنَ عُثْمَانَ، فَلَا أَدْرِي مَا اسْمُهُ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: "الْوَلِيمَةُ أَوَّلَ يَوْمٍ حَقٌّ، وَالثَّانِيَ مَعْرُوفٌ، وَالثَّالِثَ سُمْعَةٌ وَرِيَاءٌ". قَالَ قَتَادَةُ: وَحَدَّثَنِي رَجُلٌ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، أَنَّهُ دُعِيَ أَوَّلَ يَوْمٍ فَأَجَابَ، وَدُعِيَ الْيَوْمَ الثَّانِيَ فَأَجَابَ، وَدُعِيَ الْيَوْمَ الثَّالِثَ فَحَصَبَ الرَّسُولَ وَلَمْ يُجِبْهُ، وَقَالَ:"أَهْلُ سُمْعَةٍ وَرِيَاءٍ".
عبداللہ بن عثمان ثقفی سے روایت ہے۔ ثقیف کے ایک نابینا شخص نے کہا جس کو لوگ اس کی بھلائی کی وجہ سے معروف کہتے تھے، اس کا نام زہیر بن عثمان تھا، اگر یہ نام نہ ہو تو مجھ کو معلوم نہیں، پھر اس کا کیا نام تھا۔ اس نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ولیمہ کا کھانا پہلے دن ضروری، دوسرے دن کا بہتر (یعنی اس میں بلایا جائے اور دعوت قبول کی جائے)، اور تیسرے دن کا ولیمہ ریا و نمود (دکھلاوا) ہے۔ قتادہ نے کہا: مجھے ایک شخص نے بیان کیا کہ سعيد بن المسيب کو پہلے دن دعوت دی گئی تو انہوں نے منظور کر لی، دوسرے دن کی بھی دعوت منظور کر لی، لیکن تیسرے دن کی دعوت منظور نہ کی اور کہا کہ یہ لوگ نام و نمود والے ہیں۔

تخریج الحدیث: «في اسناده عبد الله بن عثمان الثقفي ترجمه البخاري في الكبير 146/ 5، وابن أبي حاتم في ((الجرح والتعديل)) 11/ 5 ولم يذكرا فيه جرحا ولا تعديلا. فهو على شرط ابن حبان وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 2109]»
اس روایت کی سند میں کلام ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3745]، [أحمد 48/5]، [عبدالرزاق 19660]، [ابن ابي شيبه 17763]، [طبراني 314/5]، [طحاوي فى مشكل الآثار 46/4، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2101)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ ولیمہ میں جلدی کرنی چاہیے اور بہت زیادہ تکلف و تأخیر نہیں کرنی چاہیے۔
ولیمہ سے متعلق دیگر معلومات آگے نکاح کے مسائل میں (2241) پر آ رہی ہیں۔
واللہ اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: في اسناده عبد الله بن عثمان الثقفي ترجمه البخاري في الكبير 146/ 5، وابن أبي حاتم في ((الجرح والتعديل)) 11/ 5 ولم يذكرا فيه جرحا ولا تعديلا. فهو على شرط ابن حبان وباقي رجاله ثقات
حدیث نمبر: 2103
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا ابو المغيرة، حدثنا الاوزاعي، عن الزهري، عن الاعرج، عن ابي هريرة، انه قال: "شر الطعام طعام الوليمة، يدعى إليه الاغنياء، ويترك المساكين، ومن ترك الدعوة، فقد عصى الله ورسوله".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ، حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، أَنَّهُ قَالَ: "شَرُّ الطَّعَامِ طَعَامُ الْوَلِيمَةِ، يُدْعَى إِلَيْهِ الْأَغْنِيَاءُ، وَيُتْرَكُ الْمَسَاكِينُ، وَمَنْ تَرَكَ الدَّعْوَةَ، فَقَدْ عَصَى اللَّهَ وَرَسُولَهُ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: برا کھانا ولیمہ کا کھانا ہے جس میں مال داروں کو مدعو کیا جاتا ہے اور غریبوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے، اور جس نے دعوت قبول نہ کی اس نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2110]»
اس روایت کی سند صحیح ہے اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5177]، [مسلم 1432]، [أبويعلی 5891]، [ابن حبان 5304]، [الحميدي 1204]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2102)
دعوتِ ولیمہ میں اکثر ایسا ہی ہوتا ہے کہ بڑے بڑے مالدار لوگوں کو مدعو کیا جا تا ہے اور بڑی شان و شوکت سے اس سنّت کو ادا کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے یہ سنّت ریا و نمود میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
اپنے غریب محتاج مسلمان بھائیوں کو ولیمہ یا اور بھی کسی مناسبت میں نہیں بھولنا چاہیے۔
آج کے زمانے میں مسلمان ہی نہیں غیر مسلموں تک کو دعوتیں دی جاتی ہیں اور اپنے غریب عزیز اور رشتے دار مسلمان بھائیوں کو چھوڑ دیا جاتا ہے، ایسا ولیمہ اور ایسی دعوت یقیناً برکت سے خالی ہوگی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2104
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا سعيد بن سليمان، عن سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن انس، قال: جاء رجل قد صنع طعاما إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، هكذا واوما إليه بيده، قال: يقول له رسول الله صلى الله عليه وسلم: هكذا، واشار إلى عائشة، قال: لا، فاعرض عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاوما إليه الثانية: واوما إليه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاعرض عنه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فاوما إليه الثالثة، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:"وهذه؟"قال: نعم، فانطلق معه رسول الله صلى الله عليه وسلم، وعائشة فاكلا من طعامه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا سَعِيدُ بْنُ سُلَيْمَانَ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ قَدْ صَنَعَ طَعَامًا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَكَذَا وَأَوْمَأَ إِلَيْهِ بِيَدِهِ، قَالَ: يَقُولُ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَكَذَا، وَأَشَارَ إِلَى عَائِشَةَ، قَالَ: لَا، فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ الثَّانِيَةَ: وَأَوْمَأَ إِلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَعْرَضَ عَنْهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَوْمَأَ إِلَيْهِ الثَّالِثَةَ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"وَهَذِهِ؟"قَالَ: نَعَمْ، فَانْطَلَقَ مَعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَعَائِشَةُ فَأَكَلَا مِنْ طَعَامِهِ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے کھانا بنایا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، اپنے ہاتھ کے اشارے سے عرض کیا: اے اللہ کے رسول! کھانے کے لئے تشریف لے چلئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارے سے فرمایا کہ یہ بھی میرے ساتھ چلیں؟ اس نے کہا: (اتنی گنجائش نہیں)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے توجہ ہٹا لی، اس نے دوبارہ اشارۃً آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعوت کے لئے کہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کیا، اس نے ویسا ہی جواب دیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر اس کی طرف سے توجہ ہٹا لی۔ اس شخص نے پھر تیسری بار رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اشارةً چلنے کے لئے کہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف اشارہ کیا تو اس نے کہا: انہیں بھی لے چلئے، چنانچہ اس کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دونوں گئے اور اس کے دسترخوان سے کھانا تناول فرمایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2111]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 2037]، [نسائي 158/6]، [أحمد 123/2]، [أبويعلی 3354]، [ابن حبان 5301]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2103)
امام نووی رحمہ اللہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فارسی ہمسایہ کی دعوت اس لئے قبول نہ کی کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بھی بھوکی تھیں، اور یہ حسنِ معاشرت کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے کہ تنہا دعوت اڑانا پسند نہ فرمایا، اور جب اس شخص نے اُم المومنین کو بھی ساتھ لے چلنے کی اجازت دیدی تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعوت قبول فرمائی، دعوت قبول کرنا واجب ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت قبول نہ کرنے کی علماء نے کئی وجوہات تحریر کی ہیں۔
ایک یہ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت قبول کرنے یا نہ کرنے کا اختیار تھا۔
دوسرے یہ کہ صرف دعوتِ ولیمہ قبول کرنا واجب ہے اور کوئی دعوت قبول کرنا واجب نہیں (والله اعلم)۔
اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اشارے سے بھی بات چیت اور عمل کیا جا سکتا ہے اور شریعت میں اس کا اعتبار ہے حتیٰ کہ طلاق کا بھی اشارہ کیا تو طلاق واقع ہوجائے گی۔
اسی لئے امام نسائی رحمہ اللہ نے اس حدیث کو کتاب الطلاق میں ذکر کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2105
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يوسف، عن سفيان، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن ابي مسعود، قال: كان رجل يقال له ابو شعيب، وكان له غلام لحام، فقال: اصنع لي طعاما ادعو رسول الله صلى الله عليه وسلم خامس خمسة. قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم خامس خمسة، فتبعهم رجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:"إنك دعوتنا خامس خمسة، وهذا رجل قد تبعني، فإن شئت اذنت له، وإن شئت تركته". قال: فاذن له.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ أَبِي مَسْعُودٍ، قَالَ: كَانَ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ أَبُو شُعَيْبٍ، وَكَانَ لَهُ غُلَامٌ لَحَّامٌ، فَقَالَ: اصْنَعْ لِي طَعَامًا أَدْعُو رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ. قَالَ: فَدَعَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَامِسَ خَمْسَةٍ، فَتَبِعَهُمْ رَجُلٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:"إِنَّكَ دَعَوْتَنَا خَامِسَ خَمْسَةٍ، وَهَذَا رَجُلٌ قَدْ تَبِعَنِي، فَإِنْ شِئْتَ أَذِنْتَ لَهُ، وَإِنْ شِئْتَ تَرَكْتَهُ". قَالَ: فَأَذِنَ لَهُ.
سیدنا ابومسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ایک صحابی نے جن کی کنیت ابوشعيب تھی اپنے ایک غلام سے کہا جو قصاب تھا کہ میرے لئے اتنا کھانا تیار کر دو جو پانچ اشخاص کے لئے کافی ہو، میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کرنا چاہتا ہوں، چنانچہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور چار ساتھیوں کو ساتھ آنے کی دعوت دی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک اور صحابی بھی لگ گئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے چار آدمی کے ساتھ ہماری دعوت کی تھی اور یہ صاحب بھی ہمارے ساتھ لگے چلے آئے ہیں یا تو ان کو بھی (کھانے کی) اجازت دے دو اور چاہو تو واپس کر سکتے ہو؟ راوی نے کہا: انہوں نے اسے بھی (داخل ہونے اور کھانے کی) اجازت دیدی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2112]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5434]، [مسلم 2037]، [ابن حبان 5300]، [ترمذي 1099]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2104)
یہ صحابی جو ساتھی بن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چلے آئے تھے ان کا نام معلوم نہ ہو سکا۔
اس حدیث میں سیدنا ابوشعيب رضی اللہ عنہ نے تعداد محدود کر دی تھی اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زائد شخص کے لئے اجازت طلب کی، یہ بھی ہمارے نبی محترم صلی اللہ علیہ وسلم کا حسن اخلاق تھا کہ زبردستی کسی پر بوجھ نہ ڈالتے تھے۔
امام بخاری رحمہ اللہ نے اس حدیث کو «باب ما قيل فى اللحام والجزار» میں ذکر کیا ہے اور استدلال کیا ہے کہ قصاب (گوشت کاٹنے اور بیچنے) کا پیشہ جائز ہے، نیز اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ مہمان کے ساتھ اگر کوئی شخص طفیلی چلا آوے تو اجازت طلب کی جائے اور صاحبِ خانہ کو اختیار ہے کہ کوئی ضرر نہ ہو تو اس کو اجازت دے یا رد کر دے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.