الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
17. بَابُ مَا جَاءَ فِي الصَّرْفِ
بیع صرف کے بیان میں
حدیث نمبر: 1340
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني يحيى، عن مالك، عن ابن شهاب ، عن مالك بن اوس بن الحدثان النصري ، انه التمس صرفا بمائة دينار، قال: فدعاني طلحة بن عبيد الله فتراوضنا حتى اصطرف مني واخذ الذهب يقلبها في يده، ثم قال: حتى ياتيني خازني من الغابة. وعمر بن الخطاب يسمع، فقال عمر : والله لا تفارقه حتى تاخذ منه. ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " الذهب بالورق ربا إلا هاء وهاء، والبر بالبر ربا إلا هاء وهاء، والتمر بالتمر ربا إلا هاء وهاء، والشعير بالشعير ربا إلا هاء وهاء" . حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَوْسِ بْنِ الْحَدَثَانِ النَّصْرِيِّ ، أَنَّهُ الْتَمَسَ صَرْفًا بِمِائَةِ دِينَارٍ، قَالَ: فَدَعَانِي طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ فَتَرَاوَضْنَا حَتَّى اصْطَرَفَ مِنِّي وَأَخَذَ الذَّهَبَ يُقَلِّبُهَا فِي يَدِهِ، ثُمَّ قَالَ: حَتَّى يَأْتِيَنِي خَازِنِي مِنَ الْغَابَةِ. وَعُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ يَسْمَعُ، فَقَالَ عُمَرُ : وَاللَّهِ لَا تُفَارِقْهُ حَتَّى تَأْخُذَ مِنْهُ. ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالْبُرُّ بِالْبُرِّ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالتَّمْرُ بِالتَّمْرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ، وَالشَّعِيرُ بِالشَّعِيرِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ" .
حضرت مالک بن اوس نے کہا: مجھے حاجت ہوئی سو دینار کے درہم لینے کی تو مجھے بلایا طلحہ بن عبیداللہ نے۔ پھر ہم دونوں راضی ہوئے صرف کے اوپر اور انہوں نے دینار مجھ سے لے لئے اور ہاتھ سے الٹ پلٹ کرنے لگے، اور کہا: صبر کرو یہاں تک کہ میرا خزانچی غابہ سے آ جائے (غابہ ایک موضوع ہے قریب مدینہ کے)۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ سن کر کہا: نہیں، قسم اللہ کی! مت چھوڑنا طلحہ کو بغیر روپے لئے، فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: سونے کا بیچنا چاندی کے بدلے میں ربا ہے مگر جب نقداً نقد ہو، اور گہیوں بدلے گیہوں کے بیچنا ربا ہے مگر نقداً نقد، اور کھجور بدلے کھجور کے بیچنا ربا ہے مگر نقداً نقد، اور جو بدلے جو کے بیچنا ربا ہے مگر نقداً نقد، اور نمک بدلے نمک کے بیچنا ربا ہے مگر نقداً نقد۔

تخریج الحدیث: «مرفوع صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 2134، 2170، 2174، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 1586، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 5013، 5019، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4562، 4576، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 6105، 6120، وأبو داود فى «سننه» برقم: 3348، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1243، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2620، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2253، 2259، 2260، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10585، وأحمد فى «مسنده» برقم: 164، 244، 320، 28178، والحميدي فى «مسنده» برقم: 12، 762، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 38»
حدیث نمبر: 1340ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: إذا اصطرف الرجل دراهم بدنانير ثم وجد فيها درهما زائفا فاراد رده، انتقض صرف الدينار ورد إليه ورقه واخذ إليه ديناره. وتفسير ما كره من ذلك: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" الذهب بالورق ربا إلا هاء وهاء". وقال عمر بن الخطاب: وإن استنظرك إلى ان يلج بيته فلا تنظره، وهو إذا رد عليه درهما من صرف بعد ان يفارقه كان بمنزلة الدين او الشيء المتاخر. فلذلك كره ذلك، وانتقض الصرف، وإنما اراد عمر بن الخطاب ان لا يباع الذهب والورق والطعام كله عاجلا بآجل، فإنه لا ينبغي ان يكون في شيء من ذلك تاخير ولا نظرة، وإن كان من صنف واحد او كان مختلفة اصنافهقَالَ مَالِك: إِذَا اصْطَرَفَ الرَّجُلُ دَرَاهِمَ بِدَنَانِيرَ ثُمَّ وَجَدَ فِيهَا دِرْهَمًا زَائِفًا فَأَرَادَ رَدَّهُ، انْتَقَضَ صَرْفُ الدِّينَارِ وَرَدَّ إِلَيْهِ وَرِقَهُ وَأَخَذَ إِلَيْهِ دِينَارَهُ. وَتَفْسِيرُ مَا كُرِهَ مِنْ ذَلِكَ: أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الذَّهَبُ بِالْوَرِقِ رِبًا إِلَّا هَاءَ وَهَاءَ". وَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: وَإِنِ اسْتَنْظَرَكَ إِلَى أَنْ يَلِجَ بَيْتَهُ فَلَا تُنْظِرْهُ، وَهُوَ إِذَا رَدَّ عَلَيْهِ دِرْهَمًا مِنْ صَرْفٍ بَعْدَ أَنْ يُفَارِقَهُ كَانَ بِمَنْزِلَةِ الدَّيْنِ أَوِ الشَّيْءِ الْمُتَأَخِّرِ. فَلِذَلِكَ كُرِهَ ذَلِكَ، وَانْتَقَضَ الصَّرْفُ، وَإِنَّمَا أَرَادَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ أَنْ لَا يُبَاعَ الذَّهَبُ وَالْوَرِقُ وَالطَّعَامُ كُلُّهُ عَاجِلًا بِآجِلٍ، فَإِنَّهُ لَا يَنْبَغِي أَنْ يَكُونَ فِي شَيْءٍ مِنْ ذَلِكَ تَأْخِيرٌ وَلَا نَظِرَةٌ، وَإِنْ كَانَ مِنْ صِنْفٍ وَاحِدٍ أَوْ كَانَ مُخْتَلِفَةً أَصْنَافُهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے روپے اشرفیوں کے بدلے میں لیے، پھر اس میں ایک روپیہ کھوٹا نکلا، اب اس کو پھیرنا چاہے تو سب اشرفیاں اپنی پھیر لے، اور سب روپے اس کے واپس دے دے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سونا بدلے میں چاندی کے ربا ہے مگر جب نقداً نقد ہو۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اگر تجھ سے اپنے گھر جانے کی مہلت مانگے تو مہلت نہ دے، اگر ایک روپیہ اس کو پھیر دے گا اور اس سے جدا ہو جائے گا تو مثل دین کے یا میعاد کے ہو جائے گا، اسی واسطے یہ مکروہ ہے، خود اس بیع کو توڑ ڈالنا چاہیے کہ ایک طرف نقد ہو دوسری طرف وعدہ، خواہ ایک جنس یا کئی جنس ہوں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 38»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.