الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
39. بَابُ مَا جَاءَ فِي الرِّبَا فِي الدَّيْنِ
قرض میں سود کا بیان
حدیث نمبر: 1379
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني حدثني يحيى، عن مالك، عن ابي الزناد ، عن بسر بن سعيد ، عن عبيد ابي صالح مولى السفاح، انه قال:" بعت بزا لي من اهل دار نخلة إلى اجل، ثم اردت الخروج إلى الكوفة، فعرضوا علي ان اضع عنهم بعض الثمن وينقدوني، فسالت عن ذلك زيد بن ثابت، فقال: " لا آمرك ان تاكل هذا ولا توكله" حَدَّثَنِي حَدَّثَنِي يَحْيَى، عَنْ مَالِك، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ ، عَنْ بُسْرِ بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُبَيْدٍ أَبِي صَالِحٍ مَوْلَى السَّفَّاحِ، أَنَّهُ قَالَ:" بِعْتُ بَزًّا لِي مِنْ أَهْلِ دَارِ نَخْلَةَ إِلَى أَجَلٍ، ثُمَّ أَرَدْتُ الْخُرُوجَ إِلَى الْكُوفَةِ، فَعَرَضُوا عَلَيَّ أَنْ أَضَعَ عَنْهُمْ بَعْضَ الثَّمَنِ وَيَنْقُدُونِي، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ زَيْدَ بْنَ ثَابِتٍ، فَقَالَ: " لَا آمُرُكَ أَنْ تَأْكُلَ هَذَا وَلَا تُوكِلَهُ"
عبید ابوصالح نے کہا: میں نے اپنا کپڑا دار نخلہ (ایک مقام ہے مکّہ اور طائف کے بیچ میں) والوں کے ہاتھ بیچا ایک وعدے پر، جب میں کوفہ جانے لگا تو ان لوگوں نے کہا: اگر کچھ کم کر دو تو تمہارا روپیہ ہم ابھی دے دیتے ہیں۔ میں نے یہ سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے بیان کیا، انہوں نے کہا: میں تجھے اس روپے کے کھانے اور کھلانے کی اجازت نہیں دیتا۔

تخریج الحدیث: «موقوف صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 11138، وعبد الرزاق فى «مصنفه» برقم: 14355، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 61/11، 62/11، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 81»
حدیث نمبر: 1380
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني، عن وحدثني، عن مالك، عن عثمان بن حفص بن خلدة ، عن ابن شهاب ، عن سالم بن عبد الله ، عن عبد الله بن عمر ، انه سئل عن الرجل " يكون له الدين على الرجل إلى اجل، فيضع عنه صاحب الحق ويعجله الآخر، فكره ذلك عبد الله بن عمر ونهى عنه" وَحَدَّثَنِي، عَنْ وَحَدَّثَنِي، عَنْ مَالِك، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ حَفْصِ بْنِ خَلْدَةَ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ سَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ ، أَنَّهُ سُئِلَ عَنِ الرَّجُلِ " يَكُونُ لَهُ الدَّيْنُ عَلَى الرَّجُلِ إِلَى أَجَلٍ، فَيَضَعُ عَنْهُ صَاحِبُ الْحَقِّ وَيُعَجِّلُهُ الْآخَرُ، فَكَرِهَ ذَلِكَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ وَنَهَى عَنْهُ"
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے سوال ہوا ایک شخص کا: میعادی قرض کسی پر آتا ہو، قرضدار یہ کہے: یہ مجھ سے کچھ کم کر کے نقد لے لے، اور قرض خواہ اس پر راضی ہو جائے؟ تو سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کو مکروہ جانا، اور اس سے منع کیا۔

تخریج الحدیث: «موقوف حسن، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10467، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3328، والطحاوي فى «شرح مشكل الآثار» برقم: 61/11، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 82»
حدیث نمبر: 1381
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني مالك، عن زيد بن اسلم، انه قال: " كان الربا في الجاهلية ان يكون للرجل على الرجل الحق إلى اجل، فإذا حل الاجل، قال: اتقضي ام تربي؟ فإن قضى اخذ، وإلا زاده في حقه واخر عنه في الاجل" .
وَحَدَّثَنِي مَالِك، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، أَنَّهُ قَالَ: " كَانَ الرِّبَا فِي الْجَاهِلِيَّةِ أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ عَلَى الرَّجُلِ الْحَقُّ إِلَى أَجَلٍ، فَإِذَا حَلَّ الْأَجَلُ، قَالَ: أَتَقْضِي أَمْ تُرْبِي؟ فَإِنْ قَضَى أَخَذَ، وَإِلَّا زَادَهُ فِي حَقِّهِ وَأَخَّرَ عَنْهُ فِي الْأَجَلِ" .
حضرت زید بن اسلم نے کہا: ایامِ جاہلیت میں سود اس طور پر ہوتا تھا، ایک شخص کا قرض میعادی دوسرے شخص پر آتا ہو، جب میعاد گزر جائے تو قرض خواہ قرضدار سے کہے: یا تم قرض ادا کرو یا سود دو، اگر اس نے قرض ادا کیا تو بہتر ہے، نہیں تو قرض خواہ اپنا قرضہ بڑھا دیتا اور پھر میعاد کراتا۔

تخریج الحدیث: «مقطوع صحيح، وأخرجه البيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 10467، والبيهقي فى «معرفة السنن والآثار» برقم: 3328، فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 83»
حدیث نمبر: 1381ب1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: والامر المكروه الذي لا اختلاف فيه عندنا: ان يكون للرجل على الرجل الدين إلى اجل، فيضع عنه الطالب ويعجله المطلوب، وذلك عندنا بمنزلة الذي يؤخر دينه بعد محله عن غريمه ويزيده الغريم في حقه، قال: فهذا الربا بعينه، لا شك فيه قَالَ مَالِك: وَالْأَمْرُ الْمَكْرُوهُ الَّذِي لَا اخْتِلَافَ فِيهِ عِنْدَنَا: أَنْ يَكُونَ لِلرَّجُلِ عَلَى الرَّجُلِ الدَّيْنُ إِلَى أَجَلٍ، فَيَضَعُ عَنْهُ الطَّالِبُ وَيُعَجِّلُهُ الْمَطْلُوبُ، وَذَلِكَ عِنْدَنَا بِمَنْزِلَةِ الَّذِي يُؤَخِّرُ دَيْنَهُ بَعْدَ مَحِلِّهِ عَنْ غَرِيمِهِ وَيَزِيدُهُ الْغَرِيمُ فِي حَقِّهِ، قَالَ: فَهَذَا الرِّبَا بِعَيْنِهِ، لَا شَكَّ فِيهِ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک اس امر کی کراہت میں کچھ اختلاف نہیں۔ ایک شخص کا میعادی قرض کسی پر آتا ہو، قرض خواہ قرض میں کمی کر دے اور قرض دار نقد ادا کردے، یہ بعینہ ایسا ہے کہ میعاد گزرنے کے بعد قرض خواہ میعاد بڑھا دے اور قرض دار قرض کو بڑھا دے، یہ تو بالکل سود ہے، اس میں کچھ شک نہیں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 83»
حدیث نمبر: 1381ب2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك في الرجل يكون له على الرجل مائة دينار إلى اجل، فإذا حلت، قال له الذي عليه الدين: بعني سلعة يكون ثمنها مائة دينار نقدا بمائة وخمسين إلى اجل: هذا بيع لا يصلح، ولم يزل اهل العلم ينهون عنه قَالَ مَالِك فِي الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ عَلَى الرَّجُلِ مِائَةُ دِينَارٍ إِلَى أَجَلٍ، فَإِذَا حَلَّتْ، قَالَ لَهُ الَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ: بِعْنِي سِلْعَةً يَكُونُ ثَمَنُهَا مِائَةَ دِينَارٍ نَقْدًا بِمِائَةٍ وَخَمْسِينَ إِلَى أَجَلٍ: هَذَا بَيْعٌ لَا يَصْلُحُ، وَلَمْ يَزَلْ أَهْلُ الْعِلْمِ يَنْهَوْنَ عَنْهُ
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص کے دوسرے شخص پر سو دینار آتے ہوں وعدے پر، جب وعدہ گزر جائے تو قرضدار قرض خواہ سے کہے: تو میرے ہاتھ کوئی ایسی چیز جس کی قیمت سو دینار ہوں، ڈیڑھ سو دینار کو بیچ ڈال ایک میعاد پر، یہ بیع درست نہیں اور ہمیشہ اہلِ علم اس سے منع کرتے رہے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 83»
حدیث نمبر: 1381ب3
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: وإنما كره ذلك، لانه إنما يعطيه ثمن ما باعه بعينه ويؤخر عنه المائة الاولى إلى الاجل الذي ذكر له آخر مرة، ويزداد عليه خمسين دينارا في تاخيره عنه، فهذا مكروه ولا يصلح، وهو ايضا يشبه حديث زيد بن اسلم في بيع اهل الجاهلية، إنهم كانوا إذا حلت ديونهم، قالوا للذي عليه الدين: إما ان تقضي وإما ان تربي، فإن قضى اخذوا، وإلا زادوهم في حقوقهم وزادوهم في الاجل قَالَ مَالِك: وَإِنَّمَا كُرِهَ ذَلِكَ، لِأَنَّهُ إِنَّمَا يُعْطِيهِ ثَمَنَ مَا بَاعَهُ بِعَيْنِهِ وَيُؤَخِّرُ عَنْهُ الْمِائَةَ الْأُولَى إِلَى الْأَجَلِ الَّذِي ذَكَرَ لَهُ آخِرَ مَرَّةٍ، وَيَزْدَادُ عَلَيْهِ خَمْسِينَ دِينَارًا فِي تَأْخِيرِهِ عَنْهُ، فَهَذَا مَكْرُوهٌ وَلَا يَصْلُحُ، وَهُوَ أَيْضًا يُشْبِهُ حَدِيثَ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ فِي بَيْعِ أَهْلِ الْجَاهِلِيَّةِ، إِنَّهُمْ كَانُوا إِذَا حَلَّتْ دُيُونُهُمْ، قَالُوا لِلَّذِي عَلَيْهِ الدَّيْنُ: إِمَّا أَنْ تَقْضِيَ وَإِمَّا أَنْ تُرْبِيَ، فَإِنْ قَضَى أَخَذُوا، وَإِلَّا زَادُوهُمْ فِي حُقُوقِهِمْ وَزَادُوهُمْ فِي الْأَجَلِ
کہا امام مالک رحمہ اللہ نے: اس لیے کہ قرض خواہ نے اپنی چیز کی قیمت سو دینار وصول کر لی، اور وہ جو سو دینار قرضے کے تھے ان کی میعاد بڑھا دی، بعوض پچاس دینار کے، جو اس کو فائدہ حاصل ہو اس شئے کے بیچنے میں۔ یہ بیع مشابہ ہے اس کے جو زید بن اسلم نے روایت کیا کہ جاہلیت کے زمانے میں جب قرض کی مدت گزر جاتی تو قرض خواہ قرضدار سے کہتا یا تو قرض ادا کر یا سود دے، اگر وہ ادا کردیتا تو لے لیتا، نہیں تو اور مہلت دے کر قرضہ کو بڑھا دیتا۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 83»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.