الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

موطا امام مالك رواية يحييٰ کل احادیث 1852 :حدیث نمبر
موطا امام مالك رواية يحييٰ
كِتَابُ الْبُيُوعِ
کتاب: خرید و فروخت کے احکام میں
36. بَابُ بَيْعِ الْمُرَابَحَةِ
مرابحہ کا بیان
حدیث نمبر: 1377Q1
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: الامر المجتمع عليه عندنا في البز يشتريه الرجل ببلد، ثم يقدم به بلدا آخر، فيبيعه مرابحة إنه لا يحسب فيه اجر السماسرة، ولا اجر الطي، ولا الشد، ولا النفقة، ولا كراء بيت، فاما كراء البز في حملانه، فإنه يحسب في اصل الثمن، ولا يحسب فيه ربح، إلا ان يعلم البائع من يساومه بذلك كله، فإن ربحوه على ذلك كله بعد العلم به فلا باس به.
قَالَ مَالِكٌ: الْأَمْرُ الْمُجْتَمَعُ عَلَيْهِ عِنْدَنَا فِي الْبَزِّ يَشْتَرِيهِ الرَّجُلُ بِبَلَدٍ، ثُمَّ يَقْدَمُ بِهِ بَلَدًا آخَرَ، فَيَبِيعُهُ مُرَابَحَةً إِنَّهُ لَا يَحْسِبُ فِيهِ أَجْرَ السَّمَاسِرَةِ، وَلَا أَجْرَ الطَّيِّ، وَلَا الشَّدِّ، وَلَا النَّفَقَةَ، وَلَا كِرَاءَ بَيْتٍ، فَأَمَّا كِرَاءُ الْبَزِّ فِي حُمْلَانِهِ، فَإِنَّهُ يُحْسَبُ فِي أَصْلِ الثَّمَنِ، وَلَا يُحْسَبُ فِيهِ رِبْحٌ، إِلَّا أَنْ يُعْلِمَ الْبَائِعُ مَنْ يُسَاوِمُهُ بِذَلِكَ كُلِّهِ، فَإِنْ رَبَّحُوهُ عَلَى ذَلِكَ كُلِّهِ بَعْدَ الْعِلْمِ بِهِ فَلَا بَأْسَ بِهِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ ہمارے نزدیک یہ حکم اتفاقی ہے: جو شخص ایک شہر سے کپڑا خرید کر کے دوسرے شہر میں لائے، پھر مرابحہ کے طور پر بیچنا چاہے، تو اصل لاگت میں دلالوں کی دلالی، اور تہہ کرنے کی مزدوری، اور باندھا بوندھی کی اجرت، اور اپناخرچ، اور مکان کا کرایہ شریک نہ کرے، البتہ کپڑے کی بار برداری اس میں شریک کر لے مگر اس پر نفع نہ لے مگر جب مشتری کو اطلاع دے، اور وہ اس پر بھی نفع دینے کو راضی ہوجائے، تو کچھ قباحت نہیں۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 77»
حدیث نمبر: 1377Q2
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: فاما القصارة، والخياطة، والصباغ، وما اشبه ذلك، فهو بمنزلة البز يحسب فيه الربح كما يحسب في البز، فإن باع البز، ولم يبين شيئا مما سميت إنه لا يحسب له فيه ربح، فإن فات البز، فإن الكراء يحسب، ولا يحسب عليه ربح، فإن لم يفت البز فالبيع مفسوخ بينهما، إلا ان يتراضيا على شيء مما يجوز بينهما.
قَالَ مَالِكٌ: فَأَمَّا الْقِصَارَةُ، وَالْخِيَاطَةُ، وَالصِّبَاغُ، وَمَا أَشْبَهَ ذَلِكَ، فَهُوَ بِمَنْزِلَةِ الْبَزِّ يُحْسَبُ فِيهِ الرِّبْحُ كَمَا يُحْسَبُ فِي الْبَزِّ، فَإِنْ بَاعَ الْبَزَّ، وَلَمْ يُبَيِّنْ شَيْئًا مِمَّا سَمَّيْتُ إِنَّهُ لَا يُحْسَبُ لَهُ فِيهِ رِبْحٌ، فَإِنْ فَاتَ الْبَزُّ، فَإِنَّ الْكِرَاءَ يُحْسَبُ، وَلَا يُحْسَبُ عَلَيْهِ رِبْحٌ، فَإِنْ لَمْ يَفُتِ الْبَزُّ فَالْبَيْعُ مَفْسُوخٌ بَيْنَهُمَا، إِلَّا أَنْ يَتَرَاضَيَا عَلَى شَيْءٍ مِمَّا يَجُوزُ بَيْنَهُمَا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ کپڑوں کی دھلائی اور رنگوائی اس لاگت میں داخل ہوگی، اور اس پر نفع لیا جائے گا۔ جیسے کپڑے پر نفع لیا جاتا ہے۔ اگر کپڑوں کو بیچا اور ان چیزوں کا حال بیان نہ کیا تو ان پر نفع نہ ملے گا، اب اگر کپڑا تلف ہوگیا تو کرایہ بار برداری کا محسوب ہوگا، مگر اس پر نفع نہ لگایا جائے گا۔ اگر کپڑا موجود ہے تو بیع کو فسخ کردیں گے، جب دونوں راضی ہوجائیں کسی امر پر۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 77»
حدیث نمبر: 1377Q3
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: في الرجل يشتري المتاع بالذهب او بالورق، والصرف يوم اشتراه عشرة دراهم بدينار، فيقدم به بلدا فيبيعه مرابحة، او يبيعه حيث اشتراه مرابحة على صرف ذلك اليوم الذي باعه فيه، فإنه إن كان ابتاعه بدراهم، وباعه بدنانير، او ابتاعه بدنانير، وباعه بدراهم، وكان المتاع لم يفت، فالمبتاع بالخيار إن شاء اخذه، وإن شاء تركه، فإن فات المتاع كان للمشتري بالثمن الذي ابتاعه به البائع، ويحسب للبائع الربح على ما اشتراه به على ما ربحه المبتاع.
قَالَ مَالِكٌ: فِي الرَّجُلِ يَشْتَرِي الْمَتَاعَ بِالذَّهَبِ أَوْ بِالْوَرِقِ، وَالصَّرْفُ يَوْمَ اشْتَرَاهُ عَشَرَةُ دَرَاهِمَ بِدِينَارٍ، فَيَقْدَمُ بِهِ بَلَدًا فَيَبِيعُهُ مُرَابَحَةً، أَوْ يَبِيعُهُ حَيْثُ اشْتَرَاهُ مُرَابَحَةً عَلَى صَرْفِ ذَلِكَ الْيَوْمِ الَّذِي بَاعَهُ فِيهِ، فَإِنَّهُ إِنْ كَانَ ابْتَاعَهُ بِدَرَاهِمَ، وَبَاعَهُ بِدَنَانِيرَ، أَوِ ابْتَاعَهُ بِدَنَانِيرَ، وَبَاعَهُ بِدَرَاهِمَ، وَكَانَ الْمَتَاعُ لَمْ يَفُتْ، فَالْمُبْتَاعُ بِالْخِيَارِ إِنْ شَاءَ أَخَذَهُ، وَإِنْ شَاءَ تَرَكَهُ، فَإِنْ فَاتَ الْمَتَاعُ كَانَ لِلْمُشْتَرِي بِالثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَهُ بِهِ الْبَائِعُ، وَيُحْسَبُ لِلْبَائِعِ الرِّبْحُ عَلَى مَا اشْتَرَاهُ بِهِ عَلَى مَا رَبَّحَهُ الْمُبْتَاعُ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے کوئی اسباب سونے یا چاندی کے بدلے میں خریدا، تو اس دن چاندی سونے کا بھاؤ یہ تھا کہ دس درہم کو ایک دینار آتا تھا، پھر مشتری اس مال کو لے کر دوسرے شہر میں آیا، اور اسی شہر میں مرابحہ کے طور پر بیچنا چاہا اسی نرخ پر جو سونے چاندی کا اس دن تھا، اگر اس نے دراہم کے بدلے میں خریدا تھا اور دیناروں کے بدلے میں بیچا، یا دیناروں کے بدلے میں خریدا تھا اور درہموں کے بدلے میں بیچا، اور اسباب موجود ہے تلف نہیں ہوا، تو خریدار کو اختیار ہوگا چاہے لے چاہے نہ لے، اور اگر وہ اسباب تلف ہوگیا تو مشتری سے وہ ثمن جس کے عوض میں بائع نے خریدا تھا نفع حساب کر کے بائع کو دلا دیں گے۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 77»
حدیث نمبر: 1377Q4
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: وإذا باع رجل سلعة قامت عليه بمائة دينار، للعشرة احد عشر، ثم جاءه بعد ذلك انها قامت عليه بتسعين دينارا، وقد فاتت السلعة خير البائع، فإن احب فله قيمة سلعته يوم قبضت منه، إلا ان تكون القيمة اكثر من الثمن الذي وجب له به البيع اول يوم، فلا يكون له اكثر من ذلك، وذلك مائة دينار وعشرة دنانير، وإن احب ضرب له الربح على التسعين، إلا ان يكون الذي بلغت سلعته من الثمن اقل من القيمة فيخير في الذي بلغت سلعته وفي راس ماله وربحه وذلك تسعة وتسعون دينارا.
قَالَ مَالِكٌ: وَإِذَا بَاعَ رَجُلٌ سِلْعَةً قَامَتْ عَلَيْهِ بِمِائَةِ دِينَارٍ، لِلْعَشَرَةِ أَحَدَ عَشَرَ، ثُمَّ جَاءَهُ بَعْدَ ذَلِكَ أَنَّهَا قَامَتْ عَلَيْهِ بِتِسْعِينَ دِينَارًا، وَقَدْ فَاتَتِ السِّلْعَةُ خُيِّرَ الْبَائِعُ، فَإِنْ أَحَبَّ فَلَهُ قِيمَةُ سِلْعَتِهِ يَوْمَ قُبِضَتْ مِنْهُ، إِلَّا أَنْ تَكُونَ الْقِيمَةُ أَكْثَرَ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِي وَجَبَ لَهُ بِهِ الْبَيْعُ أَوَّلَ يَوْمٍ، فَلَا يَكُونُ لَهُ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ، وَذَلِكَ مِائَةُ دِينَارٍ وَعَشْرَةُ دَنَانِيرَ، وَإِنْ أَحَبَّ ضُرِبَ لَهُ الرِّبْحُ عَلَى التِّسْعِينَ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ الَّذِي بَلَغَتْ سِلْعَتُهُ مِنَ الثَّمَنِ أَقَلَّ مِنَ الْقِيمَةِ فَيُخَيَّرُ فِي الَّذِي بَلَغَتْ سِلْعَتُهُ وَفِي رَأْسِ مَالِهِ وَرِبْحِهِ وَذَلِكَ تِسْعَةٌ وَتِسْعُونَ دِينَارًا.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر ایک شخص نے اپنی چیز جو سو دینار کو پڑی تھی، دس فی صدی کے نفع پر بیچی، پھر معلوم ہوا کہ وہ چیز نوے دینار کو پڑی تھی، اور وہ چیز مشتری کے پاس تلف ہوگئی، تو اب بائع کو اختیار ہوگا چاہے اس چیز کی قیمت بازار کی لے لے، اس دن کی قیمت جس دن وہ شئے مشتری کے پاس آئی تھی، مگر جس صورت میں قیمت بازار کی اس ثمن سے جو اول میں ٹھہری تھی، یعنی ایک سو دس دینار سے زیادہ ہو، تو بائع کو ایک سو دس دینار سے زیادہ نہ ملیں گے، اور اگر چاہے تو نوے دینار پر اسی حساب سے نفع لگا کر، یعنی ننانوے دینار لے لے مگر جس صورت میں یہ ثمن قیمت سے کم ہو تو بائع کا اختیار ہوگا۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 77»
حدیث نمبر: 1377Q5
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال مالك: وإن باع رجل سلعة مرابحة، فقال: قامت علي بمائة دينار. ثم جاءه بعد ذلك انها قامت بمائة وعشرين دينارا. خير المبتاع. فإن شاء اعطى البائع قيمة السلعة يوم قبضها، وإن شاء اعطى الثمن الذي ابتاع به على حساب ما ربحه. بالغا ما بلغ. إلا ان يكون ذلك اقل من الثمن الذي ابتاع به السلعة. فليس له ان ينقص رب السلعة من الثمن الذي ابتاعها به، لانه قد كان رضي بذلك، وإنما جاء رب السلعة يطلب الفضل فليس للمبتاع في هذا حجة على البائع. بان يضع من الثمن الذي ابتاع به على البرنامج. قَالَ مَالِكٌ: وَإِنْ بَاعَ رَجُلٌ سِلْعَةً مُرَابَحَةً، فَقَالَ: قَامَتْ عَلَيَّ بِمِائَةِ دِينَارٍ. ثُمَّ جَاءَهُ بَعْدَ ذَلِكَ أَنَّهَا قَامَتْ بِمِائَةٍ وَعِشْرِينَ دِينَارًا. خُيِّرَ الْمُبْتَاعُ. فَإِنْ شَاءَ أَعْطَى الْبَائِعَ قِيمَةَ السِّلْعَةِ يَوْمَ قَبَضَهَا، وَإِنْ شَاءَ أَعْطَى الثَّمَنَ الَّذِي ابْتَاعَ بِهِ عَلَى حِسَابِ مَا رَبَّحَهُ. بَالِغًا مَا بَلَغَ. إِلَّا أَنْ يَكُونَ ذَلِكَ أَقَلَّ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَ بِهِ السِّلْعَةَ. فَلَيْسَ لَهُ أَنْ يُنَقِّصَ رَبَّ السِّلْعَةِ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَهَا بِهِ، لِأَنَّهُ قَدْ كَانَ رَضِيَ بِذَلِكَ، وَإِنَّمَا جَاءَ رَبُّ السِّلْعَةِ يَطْلُبُ الْفَضْلَ فَلَيْسَ لِلْمُبْتَاعِ فِي هَذَا حُجَّةٌ عَلَى الْبَائِعِ. بِأَنْ يَضَعَ مِنَ الثَّمَنِ الَّذِي ابْتَاعَ بِهِ عَلَى الْبَرْنَامَجِ.
امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے ایک چیز مرابحہ پر بیچی اور کہا سو دینار کو مجھ کو پڑی ہے، پھر اس کو معلوم ہوا ایک سو بیس دینار کو پڑی، تو اب خریدار کو اختیار ہوگا، اگر چاہے تو بائع کا اس دن کی قیمت بازار کی جس دن وہ شئے لی ہے دے دے، اور اگر چاہے تو جس ثمن پر خرید کیا ہے نفع لگا کر جہاں تک پہنچے دے، مگر جس صورت میں قیمت بازار کی پہلی ثمن سے (یعنی جو سو دینار پر لگی ہے) کم ہو تو مشتری کو یہ نہیں پہنچتا کہ اس سے کم دے، اس واسطے کہ مشتری اس پر راضی ہوچکا ہے، مگر بائع نے اس سے زیادہ بیان کیا تو خریدار کو اصلی ثمن سے کم کرنے کا اختیار نہ ہوگا۔

تخریج الحدیث: «فواد عبدالباقي نمبر: 31 - كِتَابُ الْبُيُوعِ-ح: 77»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.