(حديث مرفوع) اخبرنا علي بن عبد الحميد، حدثنا سليمان بن المغيرة، عن ثابت، عن انس بن مالك رضي الله عنه، قال: "لما نهينا ان نبتدئ النبي صلى الله عليه وسلم كان يعجبنا ان يقدم البدوي والاعرابي العاقل فيسال النبي صلى الله عليه وسلم، ونحن عنده فبينا نحن كذلك إذ جاء اعرابي، فجثا بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: يا محمد، إن رسولك اتانا فزعم لنا انك تزعم ان الله ارسلك؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، قال: فبالذي رفع السماء وبسط الارض ونصب الجبال، آلله ارسلك؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا خمس صلوات في اليوم والليلة؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، قال: فبالذي ارسلك، آلله امرك بهذا؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا صوم شهر في السنة؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، قال: فبالذي ارسلك، آلله امرك بهذا؟، قال: نعم، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا في اموالنا الزكاة؟، فقال: النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، قال: فبالذي ارسلك، آلله امرك بهذا؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم، قال: فإن رسولك زعم لنا انك تزعم ان علينا الحج إلى البيت من استطاع إليه سبيلا؟، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: صدق، قال: فبالذي ارسلك آلله امرك بهذا؟، قال النبي صلى الله عليه وسلم: نعم، قال: فوالذي بعثك بالحق لا ادع منهن شيئا، ولا اجاوزهن، قال: ثم وثب الاعرابي، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: إن صدق الاعرابي دخل الجنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْحَمِيدِ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ، قَالَ: "لَمَّا نُهِينَا أَنْ نَبْتَدِئَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُعْجِبُنَا أَنْ يَقْدُمَ الْبَدَوِيُّ وَالْأَعْرَابِيُّ الْعَاقِلُ فَيَسْأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ عِنْدَهُ فَبَيْنَا نَحْنُ كَذَلِكَ إِذْ جَاءَ أَعْرَابِيٌّ، فَجَثَا بَيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، إِنَّ رَسُولَكَ أَتَانَا فَزَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ اللَّهَ أَرْسَلَكَ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي رَفَعَ السَّمَاءَ وَبَسَطَ الْأَرْضَ وَنَصَبَ الْجِبَالَ، آللَّهُ أَرْسَلَكَ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا صَوْمَ شَهْرٍ فِي السَّنَةِ؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا فِي أَمْوَالِنَا الزَّكَاةَ؟، فَقَالَ: النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّ رَسُولَكَ زَعَمَ لَنَا أَنَّكَ تَزْعُمُ أَنَّ عَلَيْنَا الْحَجَّ إِلَى الْبَيْتِ مَنْ اسْتَطَاعَ إِلَيْهِ سَبِيلًا؟، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ، قَالَ: فَبِالَّذِي أَرْسَلَكَ آللَّهُ أَمَرَكَ بِهَذَا؟، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: نَعَمْ، قَالَ: فَوَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَا أَدَعُ مِنْهُنَّ شَيْئًا، وَلَا أُجَاوِزُهُنَّ، قَالَ: ثُمَّ وَثَبَ الْأَعْرَابِيُّ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنْ صَدَقَ الْأَعْرَابِيُّ دَخَلَ الْجَنَّةَ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا: جب ہم کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام میں پہل کرنے سے منع کر دیا گیا تو ہم یہ پسند کرتے تھے کہ کوئی ہوشیار سمجھدار دیہاتی بدوی آئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کرے اور ہم آپ کے پاس بیٹھے ہوں۔ اتفاق سے ایک بار ہم بیٹھے تھے کہ ایک دیہاتی آیا اور رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے دو زانو ہو کر بیٹھ گیا اور عرض کیا: اے محمد! آپ کا قاصد ہمارے پاس آیا اور ہم سے کہا کہ آپ فرماتے ہیں کہ آپ کو اللہ نے رسول بنا کر بھیجا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے بالکل سچ کہا۔“ اس نے عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آسمان کو بلند فرمایا، زمین کو پھیلایا، پہاڑوں کو کھڑا کر دیا، کیا اس اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ عرض کیا: آپ کے مبلغ نے بتایا کہ آپ فرماتے ہیں کہ دن رات میں ہمارے اوپر پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا“۔ عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا، کیا اس اللہ نے اس کا آپ کو حکم دیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ اعرابی نے عرض کیا کہ آپ کے داعی نے ہمیں بتایا کہ آپ فرماتے ہیں ہمارے اوپر سال میں ایک مہینے کے روزے فرض ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں۔“ پھر عرض کیا: آپ کو اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنایا، کیا اللہ (تعالیٰ) نے آپ کو اس کا حکم دیا؟ فرمایا: ”ہاں۔“ دیہاتی نے عرض کیا: آپ کے مبلغ نے بتایا کہ آپ نے ہمارے مال میں زکاة فرض کی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بالکل سچ ہے۔“ عرض کیا: اس ذات کی قسم دے کر پوچھتا ہوں جس نے آپ کو رسول بنایا، کیا اللہ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ فرمایا: ”ہاں۔“ اعرابی نے عرض کیا: آپ کے مبلغ نے بتایا کہ آپ نے فرمایا: جو استطاعت رکھے اس پر بیت اللہ کا حج فرض ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس نے سچ کہا۔“ عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو رسول بنایا، کیا اللہ ہی نے آپ کو اس کا حکم دیا؟ فرمایا: ”ہاں۔“ دیہاتی نے کہا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ مبعوث فرمایا، میں ان باتوں میں سے کسی کو نہ چھوڑوں گا اور نہ ان سے تجاوز کروں گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اس اعرابی نے (اپنی بات کو) سچ کر دکھایا تو جنت میں داخل ہو گیا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح والحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 676]» اس حدیث کی سند صحیح اور متفق علیہ حدیث ہے۔ دیکھئے: [بخاري 63]، [مسلم 12]، [ابويعلی 3333]، [ابن حبان 154]
وضاحت: (تشریح احادیث 668 سے 673) اعرابی کے ان تمام سوالات کا تعلق اصول و فرائضِ دین سے ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اصولی طور پر صرف فرائض ہی ذکر فرمائے، اور نوافل چونکہ فرائض کے تابع ہیں اس لئے ان کے ذکر کرنے کی چنداں ضرورت نہ تھی۔ اس لئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سکوت فرمایا، اس سے سنن و نوافل کی اہمیت کم نہیں ہوتی۔ لیکن یہ کہا جا سکتا ہے کہ حدیث کی روشنی میں اگر کوئی شخص صرف فرائض پر صدقِ دل سے عمل پیرا ہو تو جنت میں داخل ہو سکتا ہے۔ واللہ اعلم
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح والحديث متفق عليه
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن يزيد، حدثنا ابن فضيل، حدثنا عطاء بن السائب، عن سالم بن ابي الجعد، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: "جاء اعرابي إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: السلام عليك يا غلام بني عبد المطلب، فقال: وعليك، قال: إني رجل من اخوالك من بني سعد بن بكر، وانا رسول قومي إليك ووافدهم، وإني سائلك فمشدد مسالتي إليك، ومناشدك فمشدد مناشدتي إياك، قال: خذ عنك يا اخا بني سعد، قال: من خلقك، وخلق من قبلك، ومن هو خالق من بعدك؟، قال: الله قال فنشدتك بذلك، اهو ارسلك؟، قال: نعم، قال: من خلق السموات السبع والارضين السبع، واجرى بينهن الرزق؟، قال: الله، قال: فنشدتك بذلك، اهو ارسلك؟، قال: نعم، قال: إنا وجدنا في كتابك، وامرتنا رسلك ان نصلي في اليوم والليلة خمس صلوات لمواقيتها، فنشدتك بذلك، اهو امرك؟، قال: نعم، قال: فإنا وجدنا في كتابك، وامرتنا رسلك ان ناخذ من حواشي اموالنا فنردها على فقرائنا، فنشدتك بذلك، اهو امرك بذلك؟، قال: نعم، ثم قال: اما الخامسة، فلست بسائلك عنها، ولا إرب لي فيها، ثم قال: اما والذي بعثك بالحق لاعملن بها ومن اطاعني من قومي، ثم رجع، فضحك النبي صلى الله عليه وسلم حتى بدت نواجذه، ثم قال: والذي نفسي بيده، لئن صدق، ليدخلن الجنة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَطَاءُ بْنُ السَّائِبِ، عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: "جَاءَ أَعْرَابِيٌّ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكَ يَا غُلَامَ بَنِي عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، فَقَالَ: وَعَلَيْكَ، قَالَ: إِنِّي رَجُلٌ مِنْ أَخْوَالِكَ مِنْ بَنِي سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ، وَأَنَا رَسُولُ قَوْمِي إِلَيْكَ وَوَافِدُهُمْ، وَإِنِّي سَائِلُكَ فَمُشَدِّدٌ مَسْأَلَتِي إِلَيْكَ، وَمُنَاشِدُكَ فَمُشَدِّدٌ مُنَاشَدَتِي إِيَّاكَ، قَالَ: خُذْ عَنْكَ يَا أَخَا بَنِي سَعْدٍ، قَالَ: مَنْ خَلَقَكَ، وَخَلَقَ مَنْ قَبْلَكَ، وَمَنْ هُوَ خَالِقُ مَنْ بَعْدَكَ؟، قَالَ: اللَّهُ قَالَ فَنَشَدْتُكَ بِذَلِكَ، أَهُوَ أَرْسَلَكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: مَنْ خَلَقَ السَّمَوَاتِ السَّبْعَ وَالْأَرَضِينَ السَّبْعَ، وَأَجْرَى بَيْنَهُنَّ الرِّزْقَ؟، قَالَ: اللَّهُ، قَالَ: فَنَشَدْتُكَ بِذَلِكَ، أَهُوَ أَرْسَلَكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: إِنَّا وَجَدْنَا فِي كِتَابِكَ، وَأَمَرَتْنَا رُسُلُكَ أَنْ نُصَلِّيَ فِي الْيَوْمِ وَاللَّيْلَةِ خَمْسَ صَلَوَاتٍ لِمَوَاقِيتِهَا، فَنَشَدْتُكَ بِذَلِكَ، أَهُوَ أَمَرَكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: فَإِنَّا وَجَدْنَا فِي كِتَابِكَ، وَأَمَرَتْنَا رُسُلُكَ أَنْ نَأْخُذَ مِنْ حَوَاشِي أَمْوَالِنَا فَنَرُدَّهَا عَلَى فُقَرَائِنَا، فَنَشَدْتُكَ بِذَلِكَ، أَهُوَ أَمَرَكَ بِذَلِكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا الْخَامِسَةُ، فَلَسْتُ بِسَائِلِكَ عَنْهَا، وَلَا إِرَبَ لِي فِيهَا، ثُمَّ قَالَ: أَمَا وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ لَأَعْمَلَنَّ بِهَا وَمَنْ أَطَاعَنِي مِنْ قَوْمِي، ثُمَّ رَجَعَ، فَضَحِكَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى بَدَتْ نَوَاجِذُهُ، ثُمَّ قَالَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ، لَئِنْ صَدَقَ، لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: اے فرزند بنی عبد المطلب! ”السلام علیک“، آپ نے فرمایا: ”وعلیک“، دیہاتی نے کہا: میں آپ کے ننہال بنی سعد بن بکر میں سے ہوں، اور اپنی قوم کا قاصد بن کر آپ کے پاس آیا ہوں، اور آپ سے کچھ دریافت کرنا چاہتا ہوں، اور ذرا سختی سے پوچھوں گا، اور آپ سے سخت لہجے میں گفتگو کروں گا، (وفي روايۃ: آپ برا نہ مانیے گا)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے برادر بنو سعد! جس طرح چاہو گفتگو کرو“، تب اس نے کہا: آپ کو کس نے پیدا کیا؟ آپ سے پہلے جو لوگ تھے انہیں کس نے پیدا کیا؟ اور آپ کے بعد پیدا کرنے والا کون ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله“، عرض کیا: میں اسی الله کی قسم دیتا ہوں، کیا اسی اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا ہے؟ فرمایا: ”ہاں“، عرض کیا: ساتوں آسمان اور ساتوں زمین کس نے پیدا کئے اور ان کے درمیان رزق کس نے جاری فرمایا؟ جواب دیا: ”اللہ نے“، عرض کیا: کیا اسی اللہ نے آپ کو رسول بنا کر بھیجا؟ فرمایا: ”ہاں۔“ عرض کیا: ہم نے آپ کی تحریر میں دیکھا اور آپ کے مبلغین نے ہمیں حکم دیا کہ دن رات میں ہم پانچ وقتوں میں نماز پڑھیں، میں آپ کو قسم دیتا ہوں کیا اس نے آپ کو حکم دیا؟ فرمایا: ”ہاں۔“ عرض کیا: ہم نے آپ کی تحریر میں پڑھا اور آپ کے دعاة نے حکم دیا کہ ہم اپنے مال کا کچھ حصہ فقیروں کو لوٹا دیں، میں قسم دیتا ہوں کیا اس نے ہی اس کا بھی حکم دیا؟ فرمایا: ”ہاں۔“ پھر اس اعرابی نے عرض کیا: پانچویں بات جو میں آپ سے نہیں پوچھتا اور مجھے اس کی حاجت بھی نہیں، پھر عرض کیا: اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق دے کر مبعوث فرمایا، میں اور جس نے میری قوم میں سے میری اطاعت کی اس پر ضرور ضرور عمل کریں گے، پھر وہ اعرابی واپس چلا گیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کی داڑھیں دکھائی دینے لگیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے، اگر اس نے سچ کہا (اور کر دکھایا) تو ضرور ضرور جنت میں داخل ہو جائے گا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن فضيل متأخر السماع من عطاء، [مكتبه الشامله نمبر: 677]» یہ حدیث اس سند سے ضعیف ہے، لیکن اس کا متن اور معنی صحیح ہے۔ جیسا کہ پہلی حدیث میں بیان کیا جا چکا ہے۔ نیز دیکھئے [مسند أبى يعلي 5088] و [مجمع الزوائد مع تحقيق حسين الداراني رقم 1623]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن فضيل متأخر السماع من عطاء
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن حميد، حدثنا سلمة، حدثني محمد بن إسحاق، حدثني سلمة بن كهيل، ومحمد بن الوليد بن نويفع، عن كريب مولى ابن عباس، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: بعث بنو سعد بن بكر ضمام بن ثعلبة رضي الله عنه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فقدم عليه، فاناخ بعيره على باب المسجد، ثم عقله، ثم دخل المسجد ورسول الله صلى الله عليه وسلم جالس في اصحابه، وكان ضمام رجلا جلدا، اشعر، ذا غديرتين، حتى وقف على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: ايكم ابن عبد المطلب؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "انا ابن عبد المطلب، قال: محمد؟، قال: نعم، قال: يا ابن عبد المطلب، إني سائلك ومغلظ في المسالة، فلا تجدن في نفسك، قال: لا اجد في نفسي، فسل عما بدا لك، قال: إني انشدك بالله إلهك وإله من هو كان قبلك، وإله من هو كائن بعدك، آلله بعثك إلينا رسولا؟، قال: اللهم نعم، قال: فانشدك بالله إلهك وإله من كان قبلك، وإله من هو كائن بعدك، آلله امرك ان نعبده وحده لا نشرك به شيئا، وان نخلع هذه الانداد التي كانت آباؤنا تعبدها من دونه؟، قال: اللهم نعم، قال: فانشدك بالله إلهك وإله من كان قبلك، وإله من هو كائن بعدك، آلله امرك ان نصلي هذه الصلوات الخمس؟، قال: اللهم نعم، قال: ثم جعل يذكر فرائض الإسلام فريضة فريضة: الزكاة، والصيام، والحج، وشرائع الإسلام كلها، ويناشده عند كل فريضة كما ناشده في التي قبلها حتى إذا فرغ، قال: فإني اشهد ان لا إله إلا الله، واشهد ان محمدا عبده ورسوله، وساؤدي هذه الفريضة، واجتنب ما نهيتني عنه، ثم قال: لا ازيد ولا انقص، ثم انصرف إلى بعيره، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم حين ولى: إن يصدق ذو العقيصتين، يدخل الجنة، فاتى إلى بعيره فاطلق عقاله، ثم خرج حتى قدم على قومه فاجتمعوا إليه، فكان اول ما تكلم ان قال: بئست اللات والعزى، قالوا: مه يا ضمام، اتق البرص، واتق الجنون، واتق الجذام، قال: ويلكم، إنهما والله ما يضران ولا ينفعان، إن الله قد بعث رسولا، وانزل عليه كتابا استنقذكم به مما كنتم فيه، وإني اشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا عبده ورسوله، وقد جئتكم من عنده بما امركم به ونهاكم عنه، قال: فوالله ما امسى من ذلك اليوم وفي حاضره رجل، ولا امراة إلا مسلما، قال: يقول ابن عباس: فما سمعنا بوافد قوم كان افضل من ضمام بن ثعلبة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا سَلَمَةُ، حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاق، حَدَّثَنِي سَلَمَةُ بْنُ كُهَيْلٍ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْوَلِيدِ بْنِ نُوَيْفِعٍ، عَنْ كُرَيْبٍ مَوْلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ رَضِيَ اللهُ عَنْهُمَا، قَالَ: بَعَثَ بَنُو سَعْدِ بْنِ بَكْرٍ ضِمَامَ بْنَ ثَعْلَبَةَ رَضِيَ اللهُ عَنْهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَدِمَ عَلَيْهِ، فَأَنَاخَ بَعِيرَهُ عَلَى بَابِ الْمَسْجِدِ، ثُمَّ عَقَلَهُ، ثُمَّ دَخَلَ الْمَسْجِدَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ فِي أَصْحَابِهِ، وَكَانَ ضِمَامٌ رَجُلًا جَلْدًا، أَشْعَرَ، ذَا غَدِيرَتَيْنِ، حَتَّى وَقَفَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: أَيُّكُمْ ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "أَنَا ابْنُ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، قَالَ: مُحَمَّدٌ؟، قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: يَا ابْنَ عَبْدِ الْمُطَّلِبِ، إِنِّي سَائِلُكَ وَمُغَلِّظٌ فِي الْمَسْأَلَةِ، فَلَا تَجِدَنَّ فِي نَفْسِكَ، قَالَ: لَا أَجِدُ فِي نَفْسِي، فَسَلْ عَمَّا بَدَا لَكَ، قَالَ: إِنِّي أَنْشُدُكَ بِاللَّهِ إِلَهِكَ وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَانَ قَبْلَكَ، وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكَ، آللَّهُ بَعَثَكَ إِلَيْنَا رَسُولًا؟، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ إِلَهِكَ وَإِلَهِ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ، وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نَعْبُدَهُ وَحْدَهُ لَا نُشْرِكُ بِهِ شَيْئًا، وَأَنْ نَخْلَعَ هَذِهِ الْأَنْدَادَ الَّتِي كَانَتْ آبَاؤُنَا تَعْبُدُهَا مِنْ دُونِهِ؟، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: فَأَنْشُدُكَ بِاللَّهِ إِلَهِكَ وَإِلَهِ مَنْ كَانَ قَبْلَكَ، وَإِلَهِ مَنْ هُوَ كَائِنٌ بَعْدَكَ، آللَّهُ أَمَرَكَ أَنْ نُصَلِّيَ هَذِهِ الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ؟، قَالَ: اللَّهُمَّ نَعَمْ، قَالَ: ثُمَّ جَعَلَ يَذْكُرُ فَرَائِضَ الْإِسْلَامِ فَرِيضَةً فَرِيضَةً: الزَّكَاةَ، وَالصِّيَامَ، وَالْحَجَّ، وَشَرَائِعَ الْإِسْلَامِ كُلَّهَا، وَيُنَاشِدُهُ عِنْدَ كُلِّ فَرِيضَةٍ كَمَا نَاشَدَهُ فِي الَّتِي قَبْلَهَا حَتَّى إِذَا فَرَغَ، قَالَ: فَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَسَأُؤَدِّي هَذِهِ الْفَرِيضَةَ، وَأَجْتَنِبُ مَا نَهَيْتَنِي عَنْهُ، ثُمَّ قَالَ: لَا أَزِيدُ وَلَا أُنْقِصُ، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى بَعِيرِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ وَلَّى: إِنْ يَصْدُقْ ذُو الْعَقِيصَتَيْنِ، يَدْخُلْ الْجَنَّةَ، فَأَتَى إِلَى بَعِيرِهِ فَأَطْلَقَ عِقَالَهُ، ثُمَّ خَرَجَ حَتَّى قَدِمَ عَلَى قَوْمِهِ فَاجْتَمَعُوا إِلَيْهِ، فَكَانَ أَوَّلَ مَا تَكَلَّمَ أَنْ قَالَ: بَئْسَتِ اللَّاتِ وَالْعُزَّى، قَالُوا: مَهْ يَا ضِمَامُ، اتَّقِ الْبَرَصَ، وَاتَّقِ الْجُنُونَ، وَاتَّقِ الْجُذَامَ، قَالَ: وَيْلَكُمْ، إِنَّهُمَا وَاللَّهِ مَا يَضُرَّانِ وَلَا يَنْفَعَانِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ بَعَثَ رَسُولًا، وَأَنْزَلَ عَلَيْهِ كِتَابًا اسْتَنْقَذَكُمْ بِهِ مِمَّا كُنْتُمْ فِيهِ، وَإِنِّي أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، وَقَدْ جِئْتُكُمْ مِنْ عِنْدِهِ بِمَا أَمَرَكُمْ بِهِ وَنَهَاكُمْ عَنْهُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا أَمْسَى مِنْ ذَلِكَ الْيَوْمِ وَفِي حَاضِرِهِ رَجُلٌ، وَلَا امْرَأَةٌ إِلَّا مُسْلِمًا، قَالَ: يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَمَا سَمِعْنَا بِوَافِدِ قَوْمٍ كَانَ أَفْضَلَ مِنْ ضِمَامِ بْنِ ثَعْلَبَةَ".
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: بنو سعد بن بکر نے سیدنا ضمام بن ثعلبۃ رضی اللہ عنہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بھیجا، چنانچہ وہ آئے اور مسجد کے دروازے پر اپنے اونٹ کو بٹھایا پھر اسے باندھا پھر مسجد میں داخل ہوئے، اس وقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے ساتھ تشریف فرما تھے، اور ضمام مضبوط آدمی، بڑے بالوں اور دو چوٹیوں والے تھے۔ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کھڑے ہوئے اور کہا: تم میں سے عبدالمطلب کا بیٹا کون سا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں عبدالمطلب کا بیٹا ہوں“، اس نے کہا: محمد؟ فرمایا: ”ہاں“، اس نے کہا: اے ابن عبد المطلب! میں آپ سے دینی مسائل دریافت کرنے والا ہوں، اور سختی سے پوچھوں گا تو آپ مجھ پر غصہ نہ کیجئے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں غصہ نہیں کروں گا جو دل چاہے پوچھے“، وہ بولا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جو آپ اور آپ سے پہلے لوگوں کا اور آپ کے بعد والے لوگوں کا معبود ہے، کیا اسی اللہ نے آپ کو ہماری طرف رسول بنا کر بھیجا ہے؟ فرمایا: ”ہاں، بے شک۔“ اس نے عرض کیا: میں آپ کو اللہ کی قسم دیتا ہوں جو آپ کا اور جو آپ سے پہلے تھے ان کا اور جو آپ کے بعد آنے والے ہیں ان کا معبود ہے، کیا اس اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے کہ ہم یہ پنجوقتہ نمازیں پڑھیں؟ فرمایا: ” «اللهم نعم» ہاں۔“ راوی نے کہا: پھر اسی طرح وہ فرائض اسلام روزہ اور حج و دیگر شعائر اسلام کا ایک ایک کر کے ذکر کرتا رہا اور ہر فریضہ کے پہلے قسم دلاتا تھا جیسا کہ پہلی بار کیا، پھر جب پوچھ چکا تو کہا: «اشهد ان ...» میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ بیشک محمد اللہ کے بندے اور اس کے رسول ہیں، اور میں اس فریضے کو ادا کروں گا، اور جس چیز سے اجتناب کا آپ نے حکم دیا ہے اس سے بچوں گا، پھر عرض کیا کہ نہ اس میں زیادتی کروں گا اور نہ کمی، پھر وہ اپنے اونٹ کی طرف واپس ہوا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر دو چوٹیوں والے نے سچ کر دکھایا تو جنت میں داخل ہو گا۔“ پھر وہ اپنے اونٹ کے پاس پہنچا اور اس کی رسی کھولی اور واپس اپنی قوم میں پہنچا تو لوگ اس کے پاس جمع ہو گئے، اور اس نے سب سے پہلی جو بات کہی تھی وہ یہ کہ لات و عزی کی بربادی ہو، انہوں نے کہا: ٹھہرو اے ضمام، کوڑھ اور پاگل پن و جذام سے ڈرو، اس نے جواب دیا: تمہاری خرابی ہو، اللہ کی قسم بیشک یہ دونوں کچھ نفع نقصان نہیں پہنچا سکتے، بیشک اللہ تعالیٰ نے ایک رسول مبعوث فرمایا ہے، اور اس کے اوپر ایک کتاب نازل فرمائی ہے، جس کے ذریعے وہ تم کو اس (نجاست) سے نکالنا چاہتا ہے، اور میں تو گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد اس کے بندے اور رسول ہیں، اور میں انہیں کے پاس سے تمہارے پاس وہ چیز لے کر آیا ہوں جس کا انہوں نے تم کو حکم دیا ہے، اور جس سے انہوں نے تمہیں روکا ہے۔ راوی نے کہا: قسم الله کی اس دن شام ہونے تک کوئی مرد اور عورت ایسا نہیں تھا جو مسلمان نہ ہو گیا ہو۔ راوی نے کہا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے تھے: ہم نے کسی قوم کے ایسے وافد و قاصد کو نہیں سنا جو ضمام بن ثعلبہ سے افضل ہو۔
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 678]» اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن حدیث صحیح ہے، جیسا کہ پہلی احادیث کی تخریج میں ذکر کیا جاچکا ہے۔ نیز دیکھئے: [مجمع الزوائد 1622 تحقيق حسين سليم]
قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف ولكن الحديث صحيح