الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
13. باب اسْتِحْقَاقِ الْقَاتِلِ سَلَبَ الْقَتِيلِ:
باب: قاتلوں کو مقتول کا سامان دلانا۔
Chapter: The killer is entitled to the belongings of the one who is killed
حدیث نمبر: 4566
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، اخبرنا هشيم ، عن يحيي بن سعيد ، عن عمر بن كثير بن افلح ، عن ابي محمد الانصاري وكان جليسا لابي قتادة، قال: قال ابو قتادة واقتص الحديث،حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ الْأَنْصَارِيِّ وَكَانَ جَلِيسًا لِأَبِي قَتَادَةَ، قَالَ: قَالَ أَبُو قَتَادَةَ وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ،
‏‏‏‏ ابومحمد انصاری رحمہ اللہ سے روایت ہے، وہ مصاحب تھے ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کے، کہا کہ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا پھر ذکر کیا حدیث کو (جیسے آگے آتی ہے)۔
حدیث نمبر: 4567
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا ليث ، عن يحيي بن سعيد ، عن عمر بن كثير ، عن ابي محمد مولى ابي قتادة: ان ابا قتادة ، قال: وساق الحديث،وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا لَيْثٌ ، عَنْ يَحْيَي بْنِ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرٍ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ: أَنَّ أَبَا قَتَادَةَ ، قَالَ: وَسَاقَ الْحَدِيثَ،
‏‏‏‏ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے ایسی ہی روایت ہے جیسے آگے آتی ہے۔
حدیث نمبر: 4568
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو الطاهر ، وحرملة واللفظ له، اخبرنا عبد الله بن وهب ، قال: سمعت مالك بن انس ، يقول: حدثني يحيي بن سعيد ، عن عمر بن كثير بن افلح ، عن ابي محمد مولى ابي قتادة، عن ابي قتادة ، قال: " خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حنين، فلما التقينا كانت للمسلمين جولة، قال: فرايت رجلا من المشركين قد علا رجلا من المسلمين، فاستدرت إليه حتى اتيته من ورائه فضربته على حبل عاتقه واقبل علي، فضمني ضمة وجدت منها ريح الموت ثم ادركه الموت، فارسلني، فلحقت عمر بن الخطاب، فقال: ما للناس؟، فقلت: امر الله، ثم إن الناس رجعوا وجلس رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: من قتل قتيلا له عليه بينة فله سلبه، قال: فقمت، فقلت: من يشهد لي، ثم جلست، ثم قال: مثل ذلك، فقال: فقمت، فقلت من يشهد لي، ثم جلست، ثم قال: ذلك الثالثة، فقمت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما لك يا ابا قتادة؟، فقصصت عليه القصة، فقال رجل من القوم: صدق يا رسول الله، سلب ذلك القتيل عندي فارضه من حقه، وقال ابو بكر الصديق: لا ها الله إذا لا يعمد إلى اسد من اسد الله، يقاتل عن الله وعن رسوله، فيعطيك سلبه؟، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: صدق فاعطه إياه "، فاعطاني، قال: فبعت الدرع فابتعت به مخرفا في بني سلمة فإنه لاول مال تاثلته في الإسلام، وفي حديث الليث، فقال ابو بكر: كلا لا يعطيه اضيبع من قريش ويدع اسدا من اسد الله، وفي حديث الليث لاول مال تاثلته.وحَدَّثَنَا أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ وَاللَّفْظُ لَهُ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ أَنَسٍ ، يَقُولُ: حَدَّثَنِي يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ عُمَرَ بْنِ كَثِيرِ بْنِ أَفْلَحَ ، عَنْ أَبِي مُحَمَّدٍ مَوْلَى أَبِي قَتَادَةَ، عَنْ أَبِي قَتَادَةَ ، قَالَ: " خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حُنَيْنٍ، فَلَمَّا الْتَقَيْنَا كَانَتْ لِلْمُسْلِمِينَ جَوْلَةٌ، قَالَ: فَرَأَيْتُ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَدْ عَلَا رَجُلًا مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَاسْتَدَرْتُ إِلَيْهِ حَتَّى أَتَيْتُهُ مِنْ وَرَائِهِ فَضَرَبْتُهُ عَلَى حَبْلِ عَاتِقِهِ وَأَقْبَلَ عَلَيَّ، فَضَمَّنِي ضَمَّةً وَجَدْتُ مِنْهَا رِيحَ الْمَوْتِ ثُمَّ أَدْرَكَهُ الْمَوْتُ، فَأَرْسَلَنِي، فَلَحِقْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ، فَقَالَ: مَا لِلنَّاسِ؟، فَقُلْتُ: أَمْرُ اللَّهِ، ثُمَّ إِنَّ النَّاسَ رَجَعُوا وَجَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: مَنْ قَتَلَ قَتِيلًا لَهُ عَلَيْهِ بَيِّنَةٌ فَلَهُ سَلَبُهُ، قَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ: مَنْ يَشْهَدُ لِي، ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: مِثْلَ ذَلِكَ، فَقَالَ: فَقُمْتُ، فَقُلْتُ مَنْ يَشْهَدُ لِي، ثُمَّ جَلَسْتُ، ثُمَّ قَالَ: ذَلِكَ الثَّالِثَةَ، فَقُمْتُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا لَكَ يَا أَبَا قَتَادَةَ؟، فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ الْقِصَّةَ، فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْقَوْمِ: صَدَقَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، سَلَبُ ذَلِكَ الْقَتِيلِ عِنْدِي فَأَرْضِهِ مِنْ حَقِّهِ، وَقَالَ أَبُو بَكْرٍ الصِّدِّيقُ: لَا هَا اللَّهِ إِذًا لَا يَعْمِدُ إِلَى أَسَدٍ مِنْ أُسُدِ اللَّهِ، يُقَاتِلُ عَنِ اللَّهِ وَعَنْ رَسُولِهِ، فَيُعْطِيكَ سَلَبَهُ؟، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: صَدَقَ فَأَعْطِهِ إِيَّاهُ "، فَأَعْطَانِي، قَالَ: فَبِعْتُ الدِّرْعَ فَابْتَعْتُ بِهِ مَخْرَفًا فِي بَنِي سَلِمَةَ فَإِنَّهُ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ فِي الْإِسْلَامِ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: كَلَّا لَا يُعْطِيهِ أُضَيْبِعَ مِنْ قُرَيْشٍ وَيَدَعُ أَسَدًا مِنْ أُسُدِ اللَّهِ، وَفِي حَدِيثِ اللَّيْثِ لَأَوَّلُ مَالٍ تَأَثَّلْتُهُ.
‏‏‏‏ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلے جس سال حنین کی لڑائی ہوئی۔ جب ہم لوگ دشمنوں سے بھڑے تو مسلمانوں کو شکست ہوئی (یعنی کچھ مسلمان بھاگے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور کچھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ میدان میں جمے رہے) پھر میں نے ایک کافر کو دیکھا وہ ایک مسلمان پر چڑھا تھا (اس کے مارنے کو) میں گھوم کر اس کی طرف آیا اور ایک مار لگائی مونڈے اور گردن کے بیچ میں، اس نے مجھ کو ایسا دبایا کہ موت کی تصویر میری آنکھوں میں پھر گئی بعد اس کے وہ خود مر گیا اور اس نے مجھ کو چھوڑ دیا۔ میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے ملا انہوں نے کہا لوگوں کو کیا ہو گیا (جو ایسا بھاگ نکلے) میں نے کہا: اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ پھر لوگ لوٹے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے کسی کو مارا ہو اور وہ گواہ رکھتا ہو تو سامان اس کا وہی لے جائے۔ سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ سن کر میں کھڑا ہوا پھر میں نے کہا: میرا گواہ کون ہے بعد اس کے میں بیٹھ گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ ایسا ہی فرمایا: میں کھڑا ہوا پھر میں نے کہا: میرے لیے کون گواہی دے گا، میں بیٹھ گیا۔ پھر تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا ہی فرمایا: میں کھڑا ہوا آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ہوا تجھے اے ابوقتادہ۔ میں نے سارا قصہ بیان کیا ایک شخص بولا سچ کہتے ہیں ابو قتادہ یا رسول اللہ! اس شخص کا سامان میرے پاس ہے تو راضی کر دیجئئے ان کو کہ اپنا حق مجھے دے دیں۔ یہ سن کر سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: نہیں اللہ کی قسم ایسا کبھی نہیں ہو گا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی قصد نہ کریں کہ اللہ تعالیٰ شیروں میں سے ایک شیر جو لڑتا ہے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کی طرف سے اسباب تجھے دلانے کے لیے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ابوبکر سچ کہتے ہیں (اس حدیث سے سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی بڑی فضیلت ثابت ہوئی کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے فتویٰ دیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے فتوے کو سچ کہا) تو دے دے ابوقتادہ کو وہ سامان۔ پھر اس نے وہ سامان مجھ کو دے دیا۔ ابوقتادہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے (اس سامان میں سے) زرہ کو بیچا اور اس کے بدلے میں ایک باغ خریدا بنو سلمہ کے محلہ میں اور یہ پہلا مال ہے جس کو میں نے کمایا اسلام کی حالت میں۔ اور لیث کی روایت میں یہ ہے کہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے کہا: ہرگز نہیں رسول اللہ یہ اسباب کبھی نہ دیں گے قریش کی ایک لومڑی کو۔ کبھی نہ چھوڑیں گے ایک شیر کو اللہ کے شیروں میں سے۔
حدیث نمبر: 4569
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يحيي بن يحيي التميمي ، اخبرنا يوسف بن الماجشون ، عن صالح بن إبراهيم بن عبد الرحمن بن عوف ، عن ابيه ، عن عبد الرحمن بن عوف ، انه قال: " بينا انا واقف في الصف يوم بدر نظرت عن يميني وشمالي، فإذا انا بين غلامين من الانصار حديثة اسنانهما تمنيت لو كنت بين اضلع منهما، فغمزني احدهما، فقال: يا عم هل تعرف ابا جهل، قال: قلت: نعم، وما حاجتك إليه يا ابن اخي؟، قال: اخبرت انه يسب رسول الله صلى الله عليه وسلم، والذي نفسي بيده لئن رايته لا يفارق سوادي سواده حتى يموت الاعجل منا، قال: فتعجبت لذلك، فغمزني الآخر، فقال: مثلها قال: فلم انشب ان نظرت إلى ابي جهل يزول في الناس، فقلت: الا تريان هذا صاحبكما الذي تسالان عنه؟، قال: فابتدراه فضرباه بسيفيهما حتى قتلاه، ثم انصرفا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فاخبراه، فقال: ايكما قتله، فقال كل واحد منهما: انا قتلت، فقال: هل مسحتما سيفيكما؟، قالا: لا، فنظر في السيفين، فقال: كلاكما قتله "، وقضى بسلبه لمعاذ بن عمرو بن الجموح، والرجلان معاذ بن عمرو بن الجموح، ومعاذ بن عفراء.حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ يَحْيَي التَّمِيمِيُّ ، أَخْبَرَنَا يُوسُفُ بْنُ الْمَاجِشُونِ ، عَنْ صَالِحِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ ، أَنَّهُ قَالَ: " بَيْنَا أَنَا وَاقِفٌ فِي الصَّفِّ يَوْمَ بَدْرٍ نَظَرْتُ عَنْ يَمِينِي وَشِمَالِي، فَإِذَا أَنَا بَيْنَ غُلَامَيْنِ مِنْ الْأَنْصَارِ حَدِيثَةٍ أَسْنَانُهُمَا تَمَنَّيْتُ لَوْ كُنْتُ بَيْنَ أَضْلَعَ مِنْهُمَا، فَغَمَزَنِي أَحَدُهُمَا، فَقَالَ: يَا عَمِّ هَلْ تَعْرِفُ أَبَا جَهْلٍ، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، وَمَا حَاجَتُكَ إِلَيْهِ يَا ابْنَ أَخِي؟، قَالَ: أُخْبِرْتُ أَنَّهُ يَسُبُّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ لَئِنْ رَأَيْتُهُ لَا يُفَارِقُ سَوَادِي سَوَادَهُ حَتَّى يَمُوتَ الْأَعْجَلُ مِنَّا، قَالَ: فَتَعَجَّبْتُ لِذَلِكَ، فَغَمَزَنِي الْآخَرُ، فَقَالَ: مِثْلَهَا قَالَ: فَلَمْ أَنْشَبْ أَنْ نَظَرْتُ إِلَى أَبِي جَهْلٍ يَزُولُ فِي النَّاسِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَرَيَانِ هَذَا صَاحِبُكُمَا الَّذِي تَسْأَلَانِ عَنْهُ؟، قَالَ: فَابْتَدَرَاهُ فَضَرَبَاهُ بِسَيْفَيْهِمَا حَتَّى قَتَلَاهُ، ثُمَّ انْصَرَفَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخْبَرَاهُ، فَقَالَ: أَيُّكُمَا قَتَلَهُ، فَقَالَ كُلُّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا: أَنَا قَتَلْتُ، فَقَالَ: هَلْ مَسَحْتُمَا سَيْفَيْكُمَا؟، قَالَا: لَا، فَنَظَرَ فِي السَّيْفَيْنِ، فَقَالَ: كِلَاكُمَا قَتَلَهُ "، وَقَضَى بِسَلَبِهِ لِمُعَاذِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَالرَّجُلَانِ مُعَاذُ بْنُ عَمْرِو بْنِ الْجَمُوحِ، وَمُعَاذُ بْنُ عَفْرَاءَ.
‏‏‏‏ سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں بدر کی لڑائی میں صف میں کھڑا ہوا تھا میں نے اپنی داہنی اور بائیں طرف دیکھا تو دو انصار کے لڑکے نظر آئے نوجوان اور کم عمر۔ میں نے آرزو کی کاش! میں ان سے زور آور شخص کے پاس ہوتا (یعنی آزو بازو اچھے قوی لوگ ہوتے تو زیادہ اطمینان ہوتا) اتنے میں ان میں سے ایک نے مجھے دبایا اور کہا: اے چچا! تم ابوجہل کو پہچانتے ہو؟ میں نے کہا: ہاں اور تیرا کیا مطلب ہے ابوجہل سے اے بیٹے میرے بھائی کے، اس نے کہا: میں نے سنا ہے کہ ابوجہل رسول اللہ کو برا بھلا کہتا ہے۔ قسم اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے۔ اگر میں ابوجہل کو پاؤں تو اس سے جدا نہ ہوں جب تک ایک نہ مر لے جس کی موت پہلے نہ آئی ہو۔ عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھ کو تعجب ہوا اس کے ایسا کہنے سے (کہ بچہ ہو کر ابوجہل ایسے قوی ہیکل کے مارنے کا ارادہ رکھتا ہے) پھر دوسرے نے مجھ کو دبایا اور ایسا ہی کہا تھوڑی دیر نہیں گزری تھی کہ میں نے ابوجہل کو دیکھا وہ پھر رہا ہے لوگوں میں۔ میں نے ان دونوں لڑکوں سے کہا: یہی وہ جس شخص ہے جس کو تم پوچھتے تھے۔ یہ سنتے ہی وہ دونوں دوڑے اور تلواروں سے اسے مارا یہاں تک کہ مار ڈالا، پھر دونوں لوٹ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور یہ حال بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: تم میں سے کس نے اس کو مارا۔ ہر ایک بولنے لگا میں نے مارا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم نے اپنی تلواریں صاف کر لیں۔؟ وہ بولے نہیں تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں کی تلواریں دیکھیں اور فرمایا: تم دونوں نے اس کو مارا ہے۔ پھر اس کا سامان معاذ بن عمرو بن جموح کو دلایا اور دونوں لڑکے یہی تھے ایک معاذ بن عمرو بن جموح اور دوسرے معاذ بن عفراء۔
حدیث نمبر: 4570
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني ابو الطاهر احمد بن عمرو بن سرح ، اخبرنا عبد الله بن وهب ، اخبرني معاوية بن صالح ، عن عبد الرحمن بن جبير ، عن ابيه ، عن عوف بن مالك ، قال: " قتل رجل من حمير رجلا من العدو، فاراد سلبه، فمنعه خالد بن الوليد وكان واليا عليهم، فاتى رسول الله صلى الله عليه وسلم، عوف بن مالك فاخبره، فقال لخالد: ما منعك ان تعطيه سلبه؟، قال: استكثرته يا رسول الله، قال: ادفعه إليه، فمر خالد، بعوف فجر بردائه، ثم قال: هل انجزت لك ما ذكرت لك من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟، فسمعه رسول الله صلى الله عليه وسلم فاستغضب، فقال: لا تعطه يا خالد لا تعطه يا خالد، هل انتم تاركون لي امرائي؟ إنما مثلكم ومثلهم كمثل رجل استرعي إبلا او غنما، فرعاها ثم تحين سقيها فاوردها حوضا، فشرعت فيه، فشربت صفوه وتركت كدره فصفوه لكم وكدره عليهم "،وحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ أَحْمَدُ بْنُ عَمْرِو بْنِ سَرْحٍ ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: " قَتَلَ رَجُلٌ مِنْ حِمْيَرَ رَجُلًا مِنَ الْعَدُوِّ، فَأَرَادَ سَلَبَهُ، فَمَنَعَهُ خَالِدُ بْنُ الْوَلِيدِ وَكَانَ وَالِيًا عَلَيْهِمْ، فَأَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، عَوْفُ بْنُ مَالِكٍ فَأَخْبَرَهُ، فَقَالَ لِخَالِدٍ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تُعْطِيَهُ سَلَبَهُ؟، قَالَ: اسْتَكْثَرْتُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: ادْفَعْهُ إِلَيْهِ، فَمَرَّ خَالِدٌ، بِعَوْفٍ فَجَرَّ بِرِدَائِهِ، ثُمَّ قَالَ: هَلْ أَنْجَزْتُ لَكَ مَا ذَكَرْتُ لَكَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، فَسَمِعَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَاسْتُغْضِبَ، فَقَالَ: لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ لَا تُعْطِهِ يَا خَالِدُ، هَلْ أَنْتُمْ تَارِكُونَ لِي أُمَرَائِي؟ إِنَّمَا مَثَلُكُمْ وَمَثَلُهُمْ كَمَثَلِ رَجُلٍ اسْتُرْعِيَ إِبِلًا أَوْ غَنَمًا، فَرَعَاهَا ثُمَّ تَحَيَّنَ سَقْيَهَا فَأَوْرَدَهَا حَوْضًا، فَشَرَعَتْ فِيهِ، فَشَرِبَتْ صَفْوَهُ وَتَرَكَتْ كَدْرَهُ فَصَفْوُهُ لَكُمْ وَكَدْرُهُ عَلَيْهِمْ "،
‏‏‏‏ سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حمیر (ایک قبیلہ ہے) کے ایک شخص نے دشمنوں میں سے ایک شخص کو مارا اور اس کا سامان لینا چاہا لیکن خالد بن ولید نے (جو سردار تھے لشکر کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے) نہ دیا اور وہ حاکم تھے، تو عوف بن مالک رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حال بیان کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خالد رضی اللہ عنہ سے فرمایا: تم نے اس کو سامان کیوں نہ دیا؟ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے کہا: وہ سامان بہت تھا یا رسول اللہ! (تو میں نے وہ سب دینا مناسب نہ جانا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: دے دے اس کو۔ پھر سیدنا خالد، عوف رضی اللہ عنہ کے سامنے سے نکلے اور ان کی چادر کھینچی اور کہا جو میں نے بیان کیا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے وہی ہوا نا (یعنی خالد رضی اللہ عنہ کو شرمندہ کیا کہ آخر تم کو سامان دینا پڑا) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غصہ ہوئے اور فرمایا: اے خالد مت دے اس کو، اے خالد! مت دے اس کو۔ کیا تم چھوڑنے والے ہو میرے سرداروں کو تمہاری ان کی مثال ایسی ہے جیسے کسی نے اونٹ یا بکریاں چرانے کو لیں پھر چرایا ان کو اور ان کی پیاس کا وقت دیکھ کر حوض پر لایا، انہوں نے پینا شروع کیا پھر صاف صاف پی گئیں اور تلچھٹ چھوڑ دیا تو صاف (یعنی اچھی باتیں) تو تمہارے لیے ہیں اور بری باتیں سرداروں پر ہیں (یعنی بدنامی اور مؤاخذہ ان سے ہو)۔
حدیث نمبر: 4571
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني زهير بن حرب ، حدثنا الوليد بن مسلم ، حدثنا صفوان بن عمرو ، عن عبد الرحمن بن جبير بن نفير ، عن ابيه ، عن عوف بن مالك الاشجعي ، قال: خرجت مع من خرج مع زيد بن حارثة في غزوة مؤتة، ورافقني مددي من اليمن وساق الحديث عن النبي صلى الله عليه وسلم بنحوه غير، انه قال: في الحديث، قال عوف: فقلت يا خالد اما علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قضى بالسلب للقاتل، قال: بلى ولكني استكثرته.وحَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جُبَيْرِ بْنِ نُفَيْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَوْفِ بْنِ مَالِكٍ الْأَشْجَعِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ مَنْ خَرَجَ مَعَ زَيْدِ بْنِ حَارِثَةَ فِي غَزْوَةِ مُؤْتَةَ، وَرَافَقَنِي مَدَدِيٌّ مِنْ الْيَمَنِ وَسَاقَ الْحَدِيثَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِنَحْوِهِ غَيْرَ، أَنَّهُ قَالَ: فِي الْحَدِيثِ، قَالَ عَوْفٌ: فَقُلْتُ يَا خَالِدُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَضَى بِالسَّلَبِ لِلْقَاتِلِ، قَالَ: بَلَى وَلَكِنِّي اسْتَكْثَرْتُهُ.
‏‏‏‏ سیدنا عوف بن مالک اشجعی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، جو لوگ سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ گئے میں ان کے ساتھ گیا غزوہ موتہ میں اور میری مدد یمن سے بھی آ پہنچی۔ پھر بیان کیا حدیث کو اسی طرح جیسے اوپر گزرا۔ اس میں یہ ہے کہ عوف نے کہا: اے خالد! تم کو معلوم نہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سامان قاتل کو دلایا ہے خالد نے کہا: بے شک۔ مگر مجھے یہ سامان بہت معلوم ہوتا ہے۔
حدیث نمبر: 4572
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا زهير بن حرب ، حدثنا عمر بن يونس الحنفي ، حدثنا عكرمة بن عمار ، حدثني إياس بن سلمة ، حدثني ابي سلمة بن الاكوع ، قال: " غزونا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم هوازن، فبينا نحن نتضحى مع رسول الله صلى الله عليه وسلم، إذ جاء رجل على جمل احمر، فاناخه ثم انتزع طلقا من حقبه، فقيد به الجمل ثم تقدم يتغدى مع القوم وجعل ينظر وفينا ضعفة ورقة في الظهر وبعضنا مشاة، إذ خرج يشتد، فاتى جمله، فاطلق قيده ثم اناخه وقعد عليه، فاثاره فاشتد به الجمل فاتبعه رجل على ناقة ورقاء، قال سلمة: وخرجت اشتد، فكنت عند ورك الناقة ثم تقدمت حتى كنت عند ورك الجمل، ثم تقدمت حتى اخذت بخطام الجمل، فانخته فلما وضع ركبته في الارض اخترطت سيفي، فضربت راس الرجل فندر ثم جئت بالجمل اقوده عليه رحله وسلاحه، فاستقبلني رسول الله صلى الله عليه وسلم والناس معه، فقال: من قتل الرجل؟، قالوا: ابن الاكوع، قال: له سلبه اجمع ".حَدَّثَنَا زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْحَنَفِيُّ ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنِي إِيَاسُ بْنُ سَلَمَةَ ، حَدَّثَنِي أَبِي سَلَمَةُ بْنُ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: " غَزَوْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ هَوَازِنَ، فَبَيْنَا نَحْنُ نَتَضَحَّى مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذْ جَاءَ رَجُلٌ عَلَى جَمَلٍ أَحْمَرَ، فَأَنَاخَهُ ثُمَّ انْتَزَعَ طَلَقًا مِنْ حَقَبِهِ، فَقَيَّدَ بِهِ الْجَمَلَ ثُمَّ تَقَدَّمَ يَتَغَدَّى مَعَ الْقَوْمِ وَجَعَلَ يَنْظُرُ وَفِينَا ضَعْفَةٌ وَرِقَّةٌ فِي الظَّهْرِ وَبَعْضُنَا مُشَاةٌ، إِذْ خَرَجَ يَشْتَدُّ، فَأَتَى جَمَلَهُ، فَأَطْلَقَ قَيْدَهُ ثُمَّ أَنَاخَهُ وَقَعَدَ عَلَيْهِ، فَأَثَارَهُ فَاشْتَدَّ بِهِ الْجَمَلُ فَاتَّبَعَهُ رَجُلٌ عَلَى نَاقَةٍ وَرْقَاءَ، قَالَ سَلَمَةُ: وَخَرَجْتُ أَشْتَدُّ، فَكُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ النَّاقَةِ ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى كُنْتُ عِنْدَ وَرِكِ الْجَمَلِ، ثُمَّ تَقَدَّمْتُ حَتَّى أَخَذْتُ بِخِطَامِ الْجَمَلِ، فَأَنَخْتُهُ فَلَمَّا وَضَعَ رُكْبَتَهُ فِي الْأَرْضِ اخْتَرَطْتُ سَيْفِي، فَضَرَبْتُ رَأْسَ الرَّجُلِ فَنَدَرَ ثُمَّ جِئْتُ بِالْجَمَلِ أَقُودُهُ عَلَيْهِ رَحْلُهُ وَسِلَاحُهُ، فَاسْتَقْبَلَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالنَّاسُ مَعَهُ، فَقَالَ: مَنْ قَتَلَ الرَّجُلَ؟، قَالُوا: ابْنُ الْأَكْوَعِ، قَالَ: لَهُ سَلَبُهُ أَجْمَعُ ".
‏‏‏‏ سیدنا سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم نے جہاد کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہوازن کا (جو ۸ ہجری میں ہوا) ایک دن ہم صبح کا ناشتہ کر رہے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اتنے میں ایک شخص آیا، لال اونٹ پر سوار، اس کو بٹھایا پھر ایک تسمہ اس کی کمر پر سے نکالا اور اس سے باندھ دیا۔ بعد اس کے آیا اور لوگوں کے ساتھ کھانا کھانے لگا اور ادھر ادھر دیکھنے لگا (وہ جاسوس گوئندہ تھا کافروں کا) اور ہم لوگ ان دنوں ناتواں تھے اور بعض پیدل بھی تھے (جس کے پاس سواری نہ تھی) اتنے میں اچانک دوڑا اپنے اونٹ کے پاس آیا اور اس کا تسمہ کھولا اس کو بٹھایا پھر آپ اس پر بیٹھا اور اونٹ کو کھڑا کیا، اونٹ اس کو لے کر بھاگا (اب چلا کافروں کو خبر دینے کے لیے) ایک شخص نے اس کا پیچھا کیا خاکی رنگ کی اونٹنی پر۔ سلمہ نے کہا: میں پیدل دوڑتا چلا پہلے میں اونٹنی کے سرین کے پاس تھا (جو اس کے تعاقب میں جا رہی تھی) میں اور آگے بڑھا یہاں تک کہ اونٹ کے سرین کے پاس آ گیا اور آگے بڑھا۔ یہاں تک کہ اونٹ کی نکیل میں نے پکڑ لی اس کو بٹھایا جونہی اونٹ نے اپنا گھٹنا زمین پر ٹیکا میں نے تلوار سونتی اور اس مرد کے سر پر ایک وار کیا وہ گر پڑا پھر میں اونٹ کو کھینچتا ہوا اس کے سامان اور ہتھیار سمیت لے کر آیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے ساتھ تھے جو تشریف لائے تھے (میرے انتظار میں) مجھ سے ملے اور پوچھا: کس نے مارا اس مرد کو؟ لوگوں نے کہا: اکوع کے بیٹے نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کا سب سامان اکوع کے بیٹے کا ہے۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.