كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل The Book of Faith 68. باب تَأَلُّفِ قَلْبِ مَنْ يَخَافُ عَلَى إِيمَانِهِ لِضَعْفِهِ وَالنَّهْيِ عَنِ الْقَطْعِ بِالإِيمَانِ مِنْ غَيْرِ دَلِيلٍ قَاطِعٍ. باب: کمزور ایمان والے کی تالیف قلبی کرنا، اور بغیر دلیل کے کسی کو قطعی مومن کہنے کی ممانعت۔ Chapter: Being kind to one for whose faith there is concern because it is weak; Prohibition of attributing Faith to someone without definitive evidence حدثنا ابن ابي عمر ، حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن عامر بن سعد ، عن ابيه ، قال: قسم رسول الله صلى الله عليه وسلم قسما، فقلت: يا رسول الله، اعط فلانا فإنه مؤمن، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: او مسلم، اقولها ثلاثا، ويرددها علي ثلاثا، او مسلم، ثم قال: " إني لاعطي الرجل وغيره احب إلي منه، مخافة ان يكبه الله في النار ".حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: قَسَمَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَسْمًا، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَعْطِ فُلَانًا فَإِنَّهُ مُؤْمِنٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم: أَوْ مُسْلِمٌ، أَقُولُهَا ثَلَاثًا، وَيُرَدِّدُهَا عَلَيَّ ثَلَاثًا، أَوْ مُسْلِمٌ، ثُمَّ قَالَ: " إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، مَخَافَةَ أَنْ يَكُبَّهُ اللَّهُ فِي النَّارِ ". سفیان نے زہری سے حدیث بیان کی، انہوں نے عامر بن سعد سے اور انہوں نے اپنے والد (حضرت سعد بن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تقسیم کا کچھ مال بانٹا تو میں نے عرض کی: اللہ کے رسول! فلاں کو بھی دیجیے کیونکہ وہ مومن ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان ہے۔“ میں تین بار یہ بات کہتا ہوں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم تین بار میرے سامنے یہی الفاظ دہراتے ہیں: ”یا مسلمان ہے۔“ پھر آپ نے فرمایا: ”میں ایک آدمی کو دیتا ہوں جبکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے، اس ڈر سے کہ کہیں اللہ اس کو منہ کے بل آگ میں (نہ) ڈال دے۔“ عامر بن سعد رحمہ اللہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ مال تقسیم کیا تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں کو بھی دیجیے وہ مومن ہے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان ہے۔“ میں نے تین دفعہ گزارش کی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی تینوں دفعہ یہی جواب دیا: ”یا مسلمان۔“ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں ایک آدمی کو دیتا ہوں حالانکہ اس کے مقابلے میں دوسرا آدمی مجھے زیادہ پسند ہوتا ہے، کہ کہیں اللہ اس کو اوندھے منھ جہنم میں نہ ڈال دے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الايمان، باب: اذا لم يكن الاسلام على الحقيقة، وكان الاستسلام أو الخوف من القتل لقوله تعالى: ﴿ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا... الآية ﴾ برقم (27) وفى الزكاة، باب: قول الله تعالى ﴿ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ﴾ وكم الغنى... الخ برقم (1478) والمولف [مسلم] في الزكاة، باب: اعطاء من يخاف علی ایمانه برقم (2430 و 2431) وابوداؤد في ((سننه))، باب: الدليل على زيادة الايمان ونقصانه برقم (4683 و 4685) والنسائي في ((المجتبى)) 104/8 في الايمان، باب: تاویل قوله عز وجل ﴿ قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا ۖ قُل لَّمْ تُؤْمِنُوا... الآية ﴾ - انظر ((التحفة)) برقم (3890)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة

حدثني زهير بن حرب ، حدثنا يعقوب بن إبراهيم ، حدثنا ابن اخي ابن شهاب ، عن عمه ، قال: اخبرني عامر بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، اعطى رهطا، وسعد جالس فيهم، قال سعد: فترك رسول الله صلى الله عليه وسلم، منهم من لم يعطه وهو اعجبهم إلي، فقلت: يا رسول الله، ما لك عن فلان، فوالله إني لاراه مؤمنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: او مسلما، قال: فسكت قليلا، ثم غلبني ما اعلم منه، فقلت: يا رسول الله، ما لك عن فلان، فوالله إني لاراه مؤمنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: او مسلما، قال: فسكت قليلا، ثم غلبني ما علمت منه، فقلت: يا رسول الله، ما لك عن فلان، فوالله إني لاراه مؤمنا؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " او مسلما، إني لاعطي الرجل وغيره احب إلي منه، خشية ان يكب في النار على وجهه ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَخِي ابْنِ شِهَابٍ ، عَنْ عَمِّهِ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عَامِرُ بْنُ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ سَعْدٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَعْطَى رَهْطًا، وَسَعْدٌ جَالِسٌ فِيهِمْ، قَالَ سَعْدٌ: فَتَرَكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْهُمْ مَنْ لَمْ يُعْطِهِ وَهُوَ أَعْجَبُهُمْ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ مُسْلِمًا، قَالَ: فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا أَعْلَمُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَوْ مُسْلِمًا، قَالَ: فَسَكَتُّ قَلِيلًا، ثُمَّ غَلَبَنِي مَا عَلِمْتُ مِنْهُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ عَنْ فُلَانٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَأَرَاهُ مُؤْمِنًا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَوْ مُسْلِمًا، إِنِّي لَأُعْطِي الرَّجُلَ وَغَيْرُهُ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْهُ، خَشْيَةَ أَنْ يُكَبَّ فِي النَّارِ عَلَى وَجْهِهِ ". ابن شہاب (زہری) کے بھتیجے نے اپنے چچا سے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا: مجھے بن ابی وقاص نےاپنے والد سعد رضی اللہ عنہ سے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو کچھ عطا فرمایا، سعد رضی اللہ عنہ بھی ان میں بیٹھے تھے، سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک کو چھوڑ دیا، اسے کچھ عطا نہ فرمایا، حالانکہ ان سب سے وہی مجھے زیادہ اچھا لگتا تھا، چنانچہ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! آپ نے فلاں سے اعراض کیوں فرمایا؟ اللہ کی قسم! میں اسے مومن سمجھتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان۔“ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر میں تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو گیا، پھر مجھ پر اس بات کا غلبہ ہوا جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا تو میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! فلاں سے آپ نے اعراض کیوں فرمایا؟ اللہ کی قسم! میں تو اسے مومن سمجھتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان۔“ تو میں تھوڑی دیر کے لیے چپ ہو گیا، پھر مجھ پر اس بات کا غلبہ ہوا جو میں اس کے بارے میں جانتا تھا، چنانچہ میں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! فلاں سے آپ نے اعراض کیوں فرمایا؟ کیونکہ اللہ کی قسم! میں نے اسے مومن سمجھتا ہوں۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان۔ بلاشبہ میں ایک آدمی کو (عطیہ) دیتا ہوں، حالانکہ دوسرا مجھے اس سے زیادہ پیارا ہوتا ہے، اس بات سے ڈرتے ہوئے کہ اسے منہ کے بل آگ میں ڈال دیا جائے گا۔“ عامر بن سعد رحمہ اللہ اپنے باپ سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک گروہ کو کچھ مال دیا اور سعد رضی اللہ عنہ بھی ان میں بیٹھے ہوئے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان میں سے ایک آدمی کو چھوڑ دیا، اس کو کچھ نہ دیا حالانکہ وہ مجھے ان سب سے اچھا لگتا تھا، تو میں نے عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! فلاں سے اعراض کی وجہ کیا ہے؟ (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو کیوں نہیں دیا) میں تو اللہ کی قسم اس کو مومن سمجھتا ہوں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(مومن) یا مسلمان۔“ تو میں کچھ دیر کے لیے چپ ہو گیا۔ پھر میں اس کے بارے میں جو کچھ جانتا تھا، اس کا مجھ پر غلبہ ہوا تو میں نے دوبارہ عرض کیا: اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کو کیوں چھوڑ دیا؟ اللہ کی قسم! میں تو اس کو مومن جانتا ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان۔“ تو پھر کچھ وقت خاموش رہا، پھر میں اس کے بارے میں جو علم رکھتا تھا اس نے غلبہ کیا، میں نے تیسری بار عرض کیا: (پہلی بات دہرائی) کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فلاں کو کیوں نظر انداز فرمایا؟ اللہ کی قسم! میں تو اس کو مومن سمجھتا ہوں۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا مسلمان، میں ایک آدمی کو دیتا ہوں حالانکہ دوسرا مجھے زیادہ پسند ہوتا ہے اس اندیشہ سے کہ اللہ اس کو اوندھے منہ آگ میں نہ ڈال دے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (376)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
صالح نے ابن شہاب سے روایت کی، انہوں نے کہا: مجھے عامر بن سعد نے اپنے والد (حضرت سعد) رضی اللہ عنہ سے خبر دی، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو (عطیہ) دیا اور میں ان میں بیٹھا تھا ..... آگے ابن شہاب (زہری) کے بھتیجے کی اپنے چچا سے روایت کی طرح ہے اور اتنا اضافہ ہے: ”میں اٹھ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گیا اور سرگوشی کرتے ہوئے آپ سے عرض کی: فلاں سے آپ نے اعراض کیوں فرمایا؟“ عامر بن سعد رحمہ اللہ اپنے باپ سے بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کچھ لوگوں کو مال دیا اور میں بھی ان میں بیٹھا ہوا تھا۔ اوپر کی روایت میں اتنا اضافہ ہے: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جا کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرگوشی کی، اور عرض کیا: فلاں سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اعراض کیوں فرمایا؟
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه برقم (376)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
(عامر بن سعد کے بھائی) محمد بن سعد یہ حدیث بیان کرتے ہیں، انہوں نے اپنی حدیث میں کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری (سعد بن ابی وقاص) رضی اللہ عنہ کی گردن اور کندھے کے درمیان اپنا ہاتھ مارا، پھر فرمایا: ”کیا لڑائی کر رہے ہو سعد؟ کہ میں ایک آدمی کو دیتا ہوں .....“ محمد بن سعد رحمہ اللہ نے اپنی حدیث میں یہ الفاظ کہے: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گردن اور کندھے کے درمیان اپنا ہاتھ مارا، پھر فرمایا: ”اے سعد! کیا لڑائی کرو گے؟ میں ایک آدمی کو دیتا ہوں۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الزكاة، باب: قول الله تعالی ﴿ لَا يَسْأَلُونَ النَّاسَ إِلْحَافًا ﴾ برقم (1478) والمولف [مسلم] في الزكاة، باب: اعطاء من يخاف علی ايمانه برقم (2432) انظر (((التحفة)) برقم (3921)»
حكم: أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة
|