الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الصوم
روزے کے مسائل
30. باب فِيمَنْ يُصْبِحُ صَائِماً تَطَوُّعاً ثُمَّ يُفْطِرُ:
کوئی شخص نفلی روزہ رکھے پھر صبح کو افطار کر لے
حدیث نمبر: 1773
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا حماد بن سلمة، عن سماك بن حرب، عن هارون ابن ابنة ام هانئ او ابن ابن ام هانئ، عن ام هانئ، ان النبي صلى الله عليه وسلم دخل عليها وهي صائمة، فاتي بإناء فشرب ثم ناولها فشربت، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: "إن كان قضاء رمضان، فصومي يوما آخر، وإن كان تطوعا، فإن شئت، فاقضيه، وإن شئت، فلا تقضيه".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ، عَنْ هَارُونَ ابْنِ ابْنَةِ أُمِّ هَانِئٍ أَوْ ابْنِ ابْنِ أُمِّ هَانِئٍ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ عَلَيْهَا وَهِيَ صَائِمَةٌ، فَأُتِيَ بِإِنَاءٍ فَشَرِبَ ثُمَّ نَاوَلَهَا فَشَرِبَتْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "إِنْ كَانَ قَضَاءَ رَمَضَانَ، فَصُومِي يَوْمًا آخَرَ، وَإِنْ كَانَ تَطَوُّعًا، فَإِنْ شِئْتِ، فَاقْضِيهِ، وَإِنْ شِئْتِ، فَلَا تَقْضِيهِ".
سیدہ ام ہانی بنت ابی طالب رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس تشریف لائے تو وہ روزے سے تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پانی کا برتن لایا گیا جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پانی پیا، پھر وہ برتن سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کو دیا، انہوں نے بھی پانی پی لیا (پھر عرض کیا: میرا روزہ تھا اور میں نے افطار کر لیا)، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ روزہ رمضان کے روزے کی قضا کا تھا تو دوسرے دن روزہ رکھ لینا، اور اگر نفلی روزہ تھا تو جی چاہے تو قضا کر لینا دل نہ چاہے تو قضا نہ کرنا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف هارون مجهول، [مكتبه الشامله نمبر: 1776]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے لیکن کئی طرق سے مروی ہے۔ دیکھئے: [أحمد 343/6]، [طيالسي 916]، [أبوداؤد 2456]، [ترمذي 731]، [نسائي فى الكبرى 3305]، [دارقطني 174/2، 12]، [شرح معاني الآثار 107/2، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1772)
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قضاء روزے کو اگر توڑا ہے تب اس کی قضا کے طور پر دوسرا روزہ رکھنا ہوگا، اور اگر کوئی نفلی روزہ توڑ دے تو اس کو اختیار ہے چاہے تو اس کی جگہ روزہ رکھے چاہے نہ رکھے، لیکن اس بارے میں علمائے کرام کا اختلاف ہے، اہل الحدیث اور امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا مسلک یہ ہے کہ نفلی روزے کو توڑنے پر اس کی قضا کر لینی چاہیے، امام شافعی و امام احمد و امام اسحاق رحمۃ اللہ علیہم نے کہا کہ واجب نہیں، قضا مستحب ہے۔
(واللہ اعلم)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف هارون مجهول
حدیث نمبر: 1774
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عثمان بن محمد , حدثنا جرير، عن يزيد بن ابي زياد، عن عبد الله بن الحارث، عن ام هانئ، قالت: لما كان يوم فتح مكة، جاءت فاطمة فجلست عن يسار رسول الله صلى الله عليه وسلم وام هانئ عن يمينه. قالت: فجاءت الوليدة بإناء فيه شراب فناولته، فشرب منه ثم ناوله ام هانئ، فشربت منه ثم قالت: يا رسول الله، لقد افطرت، وكنت صائمة. فقال لها: "اكنت تقضين شيئا؟ قالت: لا. قال:"فلا يضرك إن كان تطوعا". قال ابو محمد: اقول به.(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ مُحَمَّدٍ , حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي زِيَادٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ أُمِّ هَانِئٍ، قَالَتْ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ فَتْحِ مَكَّةَ، جَاءَتْ فَاطِمَةُ فَجَلَسَتْ عَنْ يَسَارِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُمُّ هَانِئٍ عَنْ يَمِينِهِ. قَالَتْ: فَجَاءَتْ الْوَلِيدَةُ بِإِنَاءٍ فِيهِ شَرَابٌ فَنَاوَلَتْهُ، فَشَرِبَ مِنْهُ ثُمَّ نَاوَلَهُ أُمَّ هَانِئٍ، فَشَرِبَتْ مِنْهُ ثُمَّ قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، لَقَدْ أَفْطَرْتُ، وَكُنْتُ صَائِمَةً. فَقَالَ لَهَا: "أَكُنْتِ تَقْضِينَ شَيْئًا؟ قَالَتْ: لَا. قَالَ:"فَلَا يَضُرُّكِ إِنْ كَانَ تَطَوُّعًا". قَالَ أَبُو مُحَمَّد: أَقُولُ بِهِ.
سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا نے کہا: فتح مکہ کے دن سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا آئیں اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بائیں طرف بیٹھ گئیں، اور سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا دائیں طرف تھیں، انہوں نے کہا: لونڈی پانی کا برتن لے کر آئی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا، آپ نے اس سے پانی پیا، پھر سیدہ ام ہانی رضی اللہ عنہا کو دیا، انہوں نے بھی اس برتن سے پانی پیا پھر عرض کیا: اے اللہ کے رسول! میں تو روزے سے تھی اور اب روزه توڑ دیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قضا کا روزہ تھا؟ عرض کیا: نہیں، فرمایا: تب کوئی حرج نہیں جبکہ نفلی روز ہ تھا۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: یہ ہی میرا قول ہے (یعنی نفلی روزہ اگر توڑ دیا تو کہا کوئی حرج نہیں)۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد، [مكتبه الشامله نمبر: 1777]»
اس حدیث کی سند بھی ضعیف ہے۔ تفصیل اوپر گذر چکی ہے۔ مزید دیکھئے: [أبوداؤد 2456]، [البيهقي 277/4]، [فتح الباري 212/4]، [نيل الأوطار 346/4-348]، [المعرفة للبيهقي 8924]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1773)
«فَلَا يَضُرُّكِ» یعنی کچھ گناہ نہیں، اس سے اختلاف ہوا کہ نفلی روزے کو توڑا ہے تو اس کی قضا ہے یا نہیں، صحیح یہ ہے کہ قضا ضرور کرنی چاہیے کیونکہ ایک اور حدیث میں ہے: اس کی جگہ پر دوسرے دن روزہ رکھ لینا۔
والله اعلم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف يزيد بن أبي زياد

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.