الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الصوم
روزے کے مسائل
55. باب اعْتِكَافِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اعتکاف کا بیان
حدیث نمبر: 1817
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا عاصم بن يوسف، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن ابي حصين، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال:"كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعتكف العشر الاواخر، فلما كان العام الذي قبض فيه، اعتكف عشرين يوما".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا عَاصِمُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنِ عَيَّاشٍ، عَنْ أَبِي حَصِينٍ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:"كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعْتَكِفُ الْعَشْرَ الْأَوَاخِرَ، فَلَمَّا كَانَ الْعَامُ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، اعْتَكَفَ عِشْرِينَ يَوْمًا".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کرتے تھے اور جس سال آپ کی وفات ہوئی اس سال بیس دن کا اعتکاف کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش وأبو حصين هو: أبو عثمان بن عاصم، [مكتبه الشامله نمبر: 1820]»
اس روایت کی سند حسن ہے لیکن حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2044]، [أبوداؤد 2466]، [ابن ماجه 1769]، [أحمد 336/2، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1816)
اعتکاف مخلوق سے کٹ کر خالق کی عبادت کے لئے وقتِ محدود تک مسجد میں بیٹھنے کو کہتے ہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مدنی زندگی میں رمضان المبارک میں ہمیشہ اعتکاف کرتے رہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد امہات المؤمنین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہے، ابن بطال نے کہا: اس حدیث سے یہ نکلا کہ اعتکاف سنّتِ مؤکدہ ہے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس دن کا اعتکاف اس لئے کیا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو علم ہو گیا تھا کہ رب العالمین سے لقاء کا وقت قریب آگیا ہے۔
اعتکاف دس دن کا سنّت ہے، اس سے کم دنوں کا بھی ہو سکتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن من أجل أبي بكر بن عياش وأبو حصين هو: أبو عثمان بن عاصم
حدیث نمبر: 1818
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو اليمان، اخبرنا شعيب بن ابي حمزة، عن الزهري، اخبرني علي بن حسين، ان صفية بنت حيي اخبرته، انها جاءت النبي صلى الله عليه وسلم تزوره في "اعتكافه في المسجد، في العشر الاواخر من رمضان، فتحدثت عنده ساعة ثم قامت".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ أَبِي حَمْزَةَ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، أَخْبَرَنِي عَلِيُّ بْنُ حُسَيْنٍ، أَنَّ صَفِّيَةَ بِنْتَ حُيَيٍّ أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا جَاءَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَزُورُهُ فِي "اعْتِكَافِهِ فِي الْمَسْجِدِ، فِي الْعَشْرِ الْأَوَاخِرِ مِنْ رَمَضَانَ، فَتَحَدَّثَتْ عِنْدَهُ سَاعَةً ثُمَّ قَامَتْ".
ام المومنین سیدہ صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا نے خبر دی کہ وہ رمضان کے آخری عشرے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے مسجد میں آئیں جب کہ آپ اعتکاف میں بیٹھے ہوئے تھے، تھوڑی دیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باتیں کیں اور کھڑی ہو گئیں۔ (یعنی واپسی کے لئے)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1821]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے، اور تفصیل سے صحیحین میں مذکور ہے۔ دیکھئے: [بخاري 2035]، [مسلم 2175]، [أبوداؤد 2470]، [ابن ماجه 1779]، [أبويعلی 1721]، [ابن حبان 3671]

وضاحت:
(تشریح حدیث 1817)
اعتکاف میں مسجد سے بلاضرورت باہر نکلنا، فضول باتیں کرنا ممنوع ہوتا ہے، اس حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف کرنے والا اپنی بیوی سے بات کر سکتا ہے اور بیوی ملنے کے لئے مسجد جا سکتی ہے، مذکور بالا حدیث لمبی حدیث کا ایک جزء ہے، تفصیل بخاری شریف وغیرہ میں دیکھی جا سکتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.