الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
أَوَّلُ مُسْنَدِ الْبَصْرِيِّينَ
875. حَدِيثُ أُهْبَانَ بْنِ صَيْفِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 20670
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حدثنا روح ، حدثنا عبد الله بن عبيد الديلي ، عن عديسة ابنة اهبان بن صيفي انها كانت مع ابيها في منزله، فمرض، فافاق من مرضه ذلك، فقام علي بن ابي طالب بالبصرة، فاتاه في منزله حتى قام على باب حجرته، فسلم، ورد عليه الشيخ السلام، فقال له علي: كيف انت يا ابا مسلم؟ قال: بخير، فقال علي: الا تخرج معي إلى هؤلاء القوم، فتعينني؟ قال: بلى، إن رضيت بما اعطيك، قال علي:" إذا كانت فتنة بين المسلمين ان اتخذ سيفا من خشب"، فهذا سيفي، فإن شئت خرجت به معك، فقال علي رضي الله عنه: لا حاجة لنا فيك، ولا في سيفك، فرجع من باب الحجرة، ولم يدخل .حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُبَيْدٍ الدِّيلِيُّ ، عَنْ عُدَيْسَةَ ابْنَةِ أُهْبَانَ بْنِ صَيْفِيٍّ أَنَّهَا كَانَتْ مَعَ أَبِيهَا فِي مَنْزِلِهِ، فَمَرِضَ، فَأَفَاقَ مِنْ مَرَضِهِ ذَلِكَ، فَقَامَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ بِالْبَصْرَةِ، فَأَتَاهُ فِي مَنْزِلِهِ حَتَّى قَامَ عَلَى بَابِ حُجْرَتِهِ، فَسَلَّمَ، وَرَدَّ عَلَيْهِ الشَّيْخُ السَّلَامَ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: كَيْفَ أَنْتَ يَا أَبَا مُسْلِمٍ؟ قَالَ: بِخَيْرٍ، فَقَالَ عَلِيٌّ: أَلَا تَخْرُجُ مَعِي إِلَى هَؤُلَاءِ الْقَوْمِ، فَتُعِينَنِي؟ قَالَ: بَلَى، إِنْ رَضِيتَ بِمَا أُعْطِيكَ، قَالَ عَلِيٌّ:" إِذَا كَانَتْ فِتْنَةٌ بَيْنَ الْمُسْلِمِينَ أَنْ اتَّخِذْ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ"، فَهَذَا سَيْفِي، فَإِنْ شِئْتَ خَرَجْتُ بِهِ مَعَكَ، فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَا حَاجَةَ لَنَا فِيكَ، وَلَا فِي سَيْفِكَ، فَرَجَعَ مِنْ بَابِ الْحُجْرَةِ، وَلَمْ يَدْخُلْ .
عدیسہ بنت وھبان کہتی ہیں کہ وہ اپنے والد کے ساتھ ان کے گھر میں تھے کہ وہ بیمار ہوگئے جب انہیں اپنے مرض سے افاقہ ہوا تو کچھ ہی عرصے بعد حضرت علی بصرہ میں تشریف لائے اور ان کے گھر بھی آئے اور گھر کے دروازے پر کھڑے ہو کر سلام کیا والد صاحب نے انہیں جواب دیا حضرت علی نے ان سے پوچھا ابومسلم! آپ کیسے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ خیریت سے ہوں حضرت علی نے فرمایا آپ میرے ساتھ ان لوگوں کی طرف نکل کر میری مدد نہیں کرتے انہوں نے کہا کیوں نہیں بشرطیکہ آپ اس چیز پر راضی ہوجائیں جو میں آپ کو دوں گا حضرت علی نے پوچھا وہ کیا ہے؟ انہوں نے اپنی بیٹی سے کہا لڑکی میری تلوار لاؤ میں نے نیام سمیت ان کی تلوار نکالی اور ان کی گود میں رکھ دی انہوں اس کا کچھ حصہ سے نیام سے باہر نکلا پھر سر اٹھا کر حضرت علی رضی اللہ عنہ سے کہا کہ میرے خلیل اور آپ کے چچازاد بھائی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں فتنے رونماہونے لگے تو میں لکڑی کی تلواربنا لوں یہ میری تلوار حاضر ہے اگر آپ چاہیں تو میں یہ لے کر آپ کے ساتھ نکلنے کو تیارہوں حضرت علی نے فرمایا فی الحال ہمیں آپ کی یا آپ کی تلوار کی فوری ضرورت نہیں ہے پھر وہ کمرے کے دروازے سے باہر تشریف لے گئے اور دوبارہ اس حوالے سے نہیں آئے۔

حكم دارالسلام: حديث حسن بمجموع طرقه وشواهده
حدیث نمبر: 20671
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ابي عمرو القسملي ، عن ابنة اهبان ، ان علي بن ابي طالب اتى اهبان ، فقال: ما يمنعك من اتباعي؟ فقال: اوصاني خليلي وابن عمك يعني رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال: " ستكون فتن وفرقة، فإذا كان ذلك، فاكسر سيفك، واتخذ سيفا من خشب"، فقد وقعت الفتنة والفرقة، وكسرت سيفي، واتخذت سيفا من خشب، وامر اهله حين ثقل ان يكفنوه، ولا يلبسوه قميصا، قال: فالبسناه قميصا فاصبحنا والقميص على المشجب .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ أَبِي عَمْرٍو الْقَسْمَلِيِّ ، عَنْ ابْنَةِ أُهْبَانَ ، أَنَّ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ أَتَى أُهْبَانَ ، فَقَالَ: مَا يَمْنَعُكَ مِنِ اتِّبَاعِي؟ فَقَالَ: أَوْصَانِي خَلِيلِي وَابْنُ عَمِّكِ يَعْنِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " سَتَكُونُ فِتَنٌ وَفُرْقَةٌ، فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ، فَاكْسِرْ سَيْفَكَ، وَاتَّخِذْ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ"، فَقَدْ وَقَعَتْ الْفِتْنَةُ وَالْفُرْقَةُ، وَكَسَرْتُ سَيْفِي، وَاتَّخَذْتُ سَيْفًا مِنْ خَشَبٍ، وَأَمَرَ أَهْلَهُ حِينَ ثَقُلَ أَنْ يُكَفِّنُوهُ، وَلَا يُلْبِسُوهُ قَمِيصًا، قَالَ: فَأَلْبَسْنَاهُ قَمِيصًا فَأَصْبَحْنَا وَالْقَمِيصُ عَلَى الْمِشْجَبِ .
عدیسہ بنت وھبان کہتی ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت علی ان کے والد کے پاس آئے اور فرمایا آپ میرے ساتھ ان لوگوں کی طرف نکل کر میری مدد کیوں نہیں کرتے انہوں نے کہا کہ میرے خلیل اور آپ کے چچازاد بھائی نے مجھ سے یہ عہد لیا تھا کہ جب مسلمانوں میں فتنے رونما ہونے لگے تو میں اپنی تلوار توڑ کر لکڑی کی تلوار بنا لوں اس وقت فتنے رونما ہورہے ہیں اس لئے میں نے اپنی تلوار توڑ کر لکڑی کی بنالی ہے پھر مرض الوفات میں انہوں نے اپنے اہل خانہ کو وصیت کی کہ انہیں کفن تو دیں لیکن قمیص نہ پہنائیں راوی کہتے ہیں کہ ہم انہیں قمیص پہنا دیں صبح ہوئی تو وہ کپڑے ٹانگنے والی لکڑی پر پڑی ہوئی تھی۔

حكم دارالسلام: حسن بمجموع طرقه وشواهده

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.