الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 

مسند الشهاب کل احادیث 1499 :حدیث نمبر
مسند الشهاب
احادیث801 سے 1000
590. لَا تَزَالُ نَفْسُ الرَّجُلِ مُعَلَّقَةً بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ
بندے کی روح اس کے قرض کی وجہ سے ہمیشہ معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کی طرف سے ادا نہ کردیا جائے
حدیث نمبر: 915
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
915 - اخبرنا ابو محمد عبد الرحمن بن عمر الصفار، ابنا ابن الاعرابي، ثنا الزعفراني، ثنا إسحاق بن يوسف الازرق، عن زكريا بن ابي زائدة، عن سعد بن إبراهيم، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «لا تزال نفس الرجل معلقة بدينه حتى يقضى عنه» 915 - أَخْبَرَنَا أَبُو مُحَمَّدٍ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ الصَّفَّارُ، أبنا ابْنُ الْأَعْرَابِيِّ، ثنا الزَّعْفَرَانِيُّ، ثنا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ الْأَزْرَقُ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ، عَنْ سَعْدِ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «لَا تَزَالُ نَفْسُ الرَّجُلِ مُعَلَّقَةً بِدَيْنِهِ حَتَّى يُقْضَى عَنْهُ»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے کی روح اس کے قرض کی وجہ سے ہمیشہ معلق رہتی ہے جب تک کہ اس کی طرف سے ادا نہ کردیا جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3061، والحاكم فى «مستدركه» برقم: 2232، 2233، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1078، 1079، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2633، وابن ماجه فى «سننه» برقم: 2413، والطبراني فى «الصغير» برقم: 1144، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9810»

وضاحت:
تشریح: -
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ قرض فوت ہونے والے کو بھی معاف نہیں، اس کی اخروی نجات کا فیصلہ قرض کی ادائیگی تک موقوف رہتا ہے لہٰذا اولاً: تو یہی ہونا چاہیے کہ مقروض خود اپنا قرض ادا کرے اور اس سلسلے میں سستی نہ کرے کیونکہ موت کا کوئی پتا نہیں کہ کب آ جائے۔
ثانیاً: یہ کہ اگر مقروض کسی وجہ سے خود قرض ادا نہ کر سکا اور دنیا سے چلا گیا تو ورثاء یا کوئی بھی شخص اس کی طرف سے جلد از جلد اسے ادا کر دے کیونکہ اتنی دیر تک روح کو جنت میں جانے کی اجازت نہیں ملتی جب تک اس کا قرض ادا نہ کر دیا جائے۔ اس سے پتا چلا کہ قرض کا معاملہ بڑا سنگین ہے اور اس کے بارے میں بڑی سختی وارد ہوئی ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: جو آدمی اس حال میں فوت ہو جائے کہ اس کے ذمہ ایک دینار یا درہم (قرض) ہو تو وہ اس کی نیکیوں میں سے ادا کیا جائے گا (کیونکہ) وہاں نہ دینار ہوں گے نہ درہم۔ [ابن ماجه: 2414، صحيح]
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ عہد رسالت میں جب کوئی مومن فوت ہوتا اور اس پر قرض ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دریافت فرماتے: کیا اس شخص نے اتنا مال چھوڑا ہے کہ اس سے قرض ادا ہو جائے؟ اگر لوگ کہتے ہیں: جی ہاں۔ تو آپ اس کی نماز جنازہ پڑھا دیتے اور اگر وہ کہتے کہ نہیں چھوڑا تو آپ فرماتے: اپنے ساتھی کی نماز جنازہ پڑھ لو (میں نہیں پڑھوں گا)۔
پھر جب اللہ نے اپنے رسول کو فتوحات سے نوازا تو آپ نے فرمایا: میں ہر مومن کے اس کی جان سے بھی زیادہ قریب ہوں لہٰذا جو فوت ہو جائے اور اس پر قرض ہو تو اس کی ادائیگی میرے ذمہ ہے اور جو کوئی مال چھوڑ جائے تو وہ اس کے ورثاء کے لیے ہے۔ [مسلم: 1619، ابن ماجه: 2415]
سیدنا ابوقتادہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (خطبہ کے لیے) کھڑے ہوئے تو آپ نے ذکر فرمایا کہ بے شک جہاد فی سبیل اللہ اور ایمان باللہ افضل اعمال ہیں۔ تو ایک شخص کھڑا ہوا اور عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو بتلائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جاؤں تو کیا مجھ سے میرے گناہ مٹادیے جائیں گے؟ آپ نے اسے فرمایا: ہاں، اگر تو اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جائے اور تو صبر کرنے والا، ثواب کی نیت رکھنے والا ہو، ڈٹ کر مقابلہ کرنے والا ہو، پیٹھ پھیر کر بھاگنے والا نہ ہو۔ پھر آپ نے فرمایا: تو نے کیا کہا تھا؟ اس نے کہا: بتلائیے کہ اگر میں اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جاؤں تو کیا مجھ سے میرے گناہ مٹا دیئے جائیں گے؟ تب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، جبکہ تو صبر کرنے والا، ثواب کی نیت رکھنے والا ہو، ڈٹ کر مقابلہ کرنے والا ہو، پیٹھ پھیر کر بھاگنے والا نہ ہو سوائے قرض کے (وہ معاف نہیں ہوگا) بلاشبہ جبریل علیہ السلام نے (مجھے ابھی) یہ بات کہی ہے۔ [مسلم: 1885]
سیدنا ثوبان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کی روح (اس کے) جسم سے اس حال میں نکلے کہ وہ تین چیزوں سے پاک ہو وہ جنت میں داخل ہوگا: تکبر سے، قرض سے اور خیانت سے۔ ([أحمد: 282/5، وسنده صحيح]
سیدنا محمد بن جحش رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ آپ نے اپنا سر آسمان کی طرف اٹھایا پھر اپنی ہتھیلی اپنی پیشانی پر رکھی پھر فرمایا: سبحان اللہ! کس قدر سخت حکم اترا ہے۔ ہم خاموش رہے لیکن گھبرا گئے، اگلے دن میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! وہ کیا سخت حکم تھا؟ آپ نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر کوئی آدمی اللہ کی راہ میں شہید کر دیا جائے پھر اسے زندہ کیا جائے پھر شہید کیا جائے پھر زندہ کیا جائے پھر شہید کیا جائے جبکہ اس کے ذمہ قرض ہو تو وہ جنت میں داخل نہ ہوگا جب تک کہ وہ قرض اس کی طرف سے ادا نہ کر دیا جائے۔ [نسائي: 4688، و سنده صحيح]

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.