الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 

مسند الشهاب کل احادیث 1499 :حدیث نمبر
مسند الشهاب
احادیث801 سے 1000
644. إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ
بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والدکے دوستوں سے صلہ رحمی کرے
حدیث نمبر: 993
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
993 - اخبرنا عبد الرحمن بن عمر التجيبي، ابنا احمد بن إبراهيم بن جامع، ثنا علي بن عبد العزيز، ثنا عاصم بن علي، ثنا ليث بن سعد، ثنا يزيد بن عبد الله بن اسامة، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «إن ابر البر ان يصل الرجل اهل ود ابيه» 993 - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ التُّجِيبِيُّ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ جَامِعٍ، ثنا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ، ثنا عَاصِمُ بْنُ عَلِيٍّ، ثنا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ، ثنا يَزِيدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والدکے دوستوں سے صلہ رحمی کرے۔

تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2552، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 430، 431، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5143، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1903، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7862، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5716، 5757، 5825»
حدیث نمبر: 994
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
994 - اخبرنا ابو الحسن، علي بن عبد الغالب البغدادي، ابنا احمد بن محمد بن موسى القرشي، ابنا إبراهيم بن عبد الصمد الهاشمي، ثنا الحسين بن الحسن المروزي، ثنا ابن المبارك، ثنا حيوة بن شريح، عن الوليد بن ابي الوليد، عن عبد الله بن دينار، عن ابن عمر، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن ابر البر ان يصل الرجل اهل ود ابيه بعد ان يولي الاب» ، ورواه مسلم بن الحجاج نا الحسن بن علي الحلواني، نا يعقوب بن إبراهيم بن سعد، نا ابي والليث بن سعد جميعا، عن يزيد بن عبد الله بن اسامة بإسناده: «إن من ابر البر صلة الرجل اهل ود ابيه بعد ان يولي» 994 - أَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ، عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ الْغَالِبِ الْبَغْدَادِيُّ، أبنا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ مُوسَى الْقُرَشِيُّ، أبنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ عَبْدِ الصَّمَدِ الْهَاشِمِيُّ، ثنا الْحُسَيْنُ بْنُ الْحَسَنِ الْمَرْوَزِيُّ، ثنا ابْنُ الْمُبَارَكِ، ثنا حَيْوَةُ بْنُ شُرَيْحٍ، عَنِ الْوَلِيدِ بْنِ أَبِي الْوَلِيدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ أَبَرَّ الْبِرِّ أَنْ يَصِلَ الرَّجُلُ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّيَ الْأَبُ» ، وَرَوَاهُ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ نَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ الْحُلْوَانِيُّ، نَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ بْنِ سَعْدٍ، نَا أَبِي وَاللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ جَمِيعًا، عَنْ يَزِيدَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أُسَامَةَ بِإِسْنَادِهِ: «إِنَّ مِنْ أَبَرِّ الْبِرِّ صِلَةَ الرَّجُلِ أَهْلَ وُدِّ أَبِيهِ بَعْدَ أَنْ يُوَلِّيَ»
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کی وفات کے بعد اس کے دوستوں سے اچھا سلوک کرے۔
اے مسلم بن حجاج نے بھی اپنی سند کے ساتھ روایت کیا ہے کہ بے شک سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے والد کی وفات کے بعد اس کے دوستوں سے صلہ رحمی کرے۔

تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2552، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 430، 431، وأبو داود فى «سننه» برقم: 5143، والترمذي فى «جامعه» برقم: 1903، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 7862، وأحمد فى «مسنده» برقم: 5716، 5757، 5825»

وضاحت:
تشریح: -
ان احادیث سے پتا چلا کہ والدین کی وفات کے بعد ان کے دوستوں اور رشتے داروں سے تعلق برقرار رکھنا اور ان سے حسن سلوک کرنا ایک بہت بڑی نیکی ہے نیز صلہ رحمی کا بھی یہ تقاضا ہے کہ والدین موجود ہوں یا اللہ تعالیٰ کو پیارے ہو چکے ہوں، ہر حال میں ان کے دوست اور رشتے داروں سے اچھا سلوک کیا جائے۔
اس سلسلے میں سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کا واقعہ ہمارے لیے نمونہ ہے۔ چنانچہ عبد اللہ بن دینار کا بیان ہے کہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ جب مکہ جاتے تو ان کے پاس ایک گدھا ہوتا جب وہ اونٹ کی سواری سے اکتا جاتے تو اس پر سوار ہو کر راحت حاصل کرتے اور ایک عمامہ ہوتا جسے وہ سر پر باندھ لیتے۔ ایک دن وہ اس گدھے پر سوار تھے کہ ان کے پاس سے ایک دیہاتی گزرا آپ نے اسے کچھ پہچان کر اس سے پوچھا: کیا تو فلاں بن فلاں کا بیٹا نہیں ہے؟ اس نے جواب دیا: ہاں، کیوں نہیں۔ آپ نے اسے وہ گدھا دے دیا اور فرمایا: اس پر سوار ہو جا اور اسے عمامہ بھی عنایت فرما دیا۔ اور کہا کہ اس کے ساتھ اپنے سر کو باندھ لے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کے بعض ساتھیوں نے کہا: اللہ تعالیٰ آپ کو معاف فرمائے، آپ نے اس دیہاتی کو وہ گدھا بھی دے دیا جس پر آپ دوران سفر آرام حاصل کرتے تھے اور وہ عمامہ بھی دے دیا جس کے ساتھ آپ اپنا سر باندھتے تھے؟ آپ نے فرمایا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے کہ سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ کے مرنے کے بعد اس کے دوستوں سے تعلق برقرار رکھے اور ان سے حسن سلوک کرے اور تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ اس کا باپ (میرے باپ) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کا دوست تھا۔ [مسلم: 2552]
ایک مرتبہ ایک آدمی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو اس نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں نے ایک بہت بڑے گناہ کا ارتکاب کیا ہے کیا میرے لیے توبہ کی گنجائش ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہاری والدہ ہے؟ اس نے عرض کیا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تمہاری خالہ ہے؟ اس نے عرض کیا: جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے ساتھ حسن سلوک کرو۔ [ترمذي: 1904، صحيح]
سیدنا ابواسید حمیدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ اتنے میں بنو سلمہ کے قبیلے سے ایک آدمی آپ کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کرنے لگا: اللہ کے رسول! کیا والدین کے ساتھ حسن سلوک کی کوئی ایسی صورت ہے جس کے ذریعے میں ان کی وفات کے بعد بھی ان سے حسن سلوک کر سکوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ان کے لیے دعا کرو، ان کے لیے مغفرت طلب کرو، ان کے بعد ان کی وصیت پر عمل کرو، جو وہ صلہ رحمی کیا کرتے تھے اسے جاری رکھو اور ان کے دوستوں کی عزت و تکریم کرو۔ [أبو داود: 5142، ابن ماجه: 3664، حسن]

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.