الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 

مسند الشهاب کل احادیث 1499 :حدیث نمبر
مسند الشهاب
احادیث1001 سے 1200
664. إِنَّ لِكُلِّ عَامِلٍ شِرَّةً
بے شک ہر عمل کرنے والے کے لیے (عمل کی) تیزی ہے
حدیث نمبر: 1026
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
1026 - اخبرنا علي بن الحسن الشافعي، ثنا هشام بن ابي خليفة، ثنا ابو جعفر الطحاوي، ثنا ابو امية، ثنا سريج بن النعمان، ثنا هشيم، ثنا حصين، عن مجاهد، عن عبد الله بن عمرو، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «.. وذكر حديثا وفيه» إن لكل عامل شرة، ولكل شرة فترة"1026 - أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ الْحَسَنِ الشَّافِعِيُّ، ثنا هِشَامُ بْنُ أَبِي خَلِيفَةَ، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ الطَّحَاوِيُّ، ثنا أَبُو أُمَيَّةَ، ثنا سُرَيْجُ بْنُ النُّعْمَانِ، ثنا هُشَيْمٌ، ثنا حُصَيْنٌ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «.. وَذَكَرَ حَدِيثًا وَفِيهِ» إِنَّ لِكُلِّ عَامِلٍ شِرَّةً، وَلِكُلِّ شِرَّةٍ فَتْرَةً"
سیدنا عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔ اور انہوں نے ایک حدیث بیان کی جس میں یہ بھی تھا: بے شک ہر عمل کرنے والے کے لیے (عمل کی) تیزی ہے اور ہر تیزی کے لیے سستی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، وأخرجه أحمد: 2/158، شرح مشكل الآثار: 1236، التمهيد لابن عبد البر: 1/ 196»
حدیث نمبر: 1027
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
1027 - واخبرنا ابو الحسن الجواليقي، ثنا إبراهيم بن احمد الهمداني، ثنا محمد بن عبد الله الحضرمي، ثنا محمد بن يحيى بن ضريس، ثنا ابن فضيل، عن مسلم، عن مجاهد، عن ابن عباس، قال: كانت مولاة للنبي صلى الله عليه وسلم تصوم الدهر وتقوم الليل، فقيل له صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن لكل عامل شرة، والشرة إلى فترة» 1027 - وَأَخْبَرَنَا أَبُو الْحَسَنِ الْجَوَالِيقِيُّ، ثنا إِبْرَاهِيمُ بْنُ أَحْمَدَ الْهَمْدَانِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيُّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ ضُرَيْسٍ، ثنا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ مُسْلِمٍ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: كَانَتْ مَوْلَاةٌ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَصُومُ الدَّهْرَ وَتَقُومُ اللَّيْلَ، فَقِيلَ لَهُ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِنَّ لِكُلِّ عَامِلٍ شِرَّةً، وَالشِّرَّةُ إِلَى فَتْرَةٍ»
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کچھ آزاد کردہ غلام تھے جو مسلسل روزہ رکھتے اور رات کو قیام کرتے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا گیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر عمل کرنے والے کے لیے تیزی ہے پھر تیزی کے لیے سستی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، وأخرجه بزار: 4940، شرح مشكل الآثار: 1241»
مسلم سخت معیف ہے۔

وضاحت:
تشریح: -
ان احادیث میں میانہ روی اور اعتدال کا درس دیا گیا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ انسان شروع میں تو عبادت میں مبالغہ سے کام لیتا ہے لیکن یہ حقیقت ہے کہ ہر وہ شخص جو کسی کام میں مبالغہ کرے آخر میں تھک جاتا ہے، اس کی تیزی تھم جاتی ہے، اگر چہ کچھ عرصے بعد ہی ہو لیکن بہر حال تیزی اور زیادتی کے بعد کمزوری اور سستی یقینی ہے، اس لیے افراط و تفریط سے بچتے ہوئے میانہ روی کا رستہ اختیار کرنا چاہیے اسی میں بہتری ہے۔
1028- سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سیدنا معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے آپ اس وقت ٹیک لگائے ہوئے تھے آپ نے فرمایا: معاذ! تم نے صبح کس حال میں کی؟ انہوں نے عرض کیا: میں نے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے صبح کی ہے۔ آپ نے فرمایا: بے شک ہر بات کی ایک تصدیق ہوتی ہے اور ہر حق کی ایک حقیقت ہوتی ہے۔ اور لمبی حدیث بیان کی۔ تحقيق و تخریج: - إسناده ضعیف: حلية الاولياء: 313/1، تاريخ دمشق: 58 / 416، اسحاق بن عبد اللہ بن کیسان اور اس کا والد ضعیف ہیں۔
1029- سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے اور بے شک اللہ کی مخصوص چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ تحقيق و تخریج: -بخاری: 52، مسلم: 1599، أبو داود: 3329، ترمذی: 1205، ابن ماجه: 3984۔
1030- عامر شعمی کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ کو یہ فرماتے سنا اور انہوں نے ایک لمبی حدیث بیان کی جس میں یہ بھی تھا: سنو! ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے۔ سنو! اللہ کی مخصوص چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں۔ تحقيق وتخريج: -ايضًا۔ تشریح: - ان احادیث میں ایک خوبصورت مثال کے ذریعے اللہ تعالیٰ ٰ کی حرام کردہ چیزوں سے بچنے کی تلقین فرمائی گئی ہے جس طرح ہر بادشاہ کی ایک مخصوص چراگاہ ہوتی ہے، ایک مخصوص زمین ہوتی ہے جس میں کسی کو داخل ہونے یا جانور چرانے کی اجازت نہیں ہوتی اسی طرح اللہ تعالیٰ ٰ کی بھی ایک مخصوص چراگاہ ہے اور اللہ تعالیٰ ٰ کی مخصوص چراگاہ اس کی حرام کردہ چیزیں ہیں جن کے قریب جانے کی کسی کو اجازت نہیں۔ جس طرح بادشاہ کی مخصوص چراگاہ میں جانے کی کسی کو اجازت نہیں ہوتی جو جاتا ہے وہ سزا پاتا ہے اسی طرح اللہ تعالیٰ ٰ کی حرام کردہ چیزوں کا جو ارتکاب کرے گا وہ سزا کا مستحق ہوگا۔
1031-حارث بن عبیدہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر روزہ دار کے لیے ایک (مقبول) دعا ہوتی ہے اور جب وہ روزہ افطار کرنے کا ارادہ کرے تو اسے چاہیے کہ اپنے پہلے لقمہ کے وقت یہ دعا پڑھے: اے وسیع مغفرت والے! میری مغفرت فرما۔ تحقيق وتخريج: - منقطع: الزهد لابن المبارك: 1409، حارث بن عبیدہ سے آگے سند ہی نہیں۔ فائدہ: - سیدنا عبداللہ بن عمر و رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: روزہ دار کے لیے افطار کے وقت ایک دعا ہے جو رد نہیں ہوتی۔ عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کو روزہ افطار کرتے وقت یہ دعا پڑھتے سنا: اے اللہ! میں۔ تیری اس رحمت کے وسیلے سے تجھ سے دعا مانگتا ہوں جو ہر چیز سے وسیع تر ہے کہ تو مجھے بخش دے۔ (ابن ماجہ: 1753، حسن)
1032- ضمرہ بن حبیب کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر چیز کے لیے ایک دروازہ ہوتا ہے اور بے شک عبادت کا دروازہ روزہ ہے۔ تحقیق و تخریج: - مرسل ضعيف: الزهد لابن المبارك: 1423، الزهد لهناد: 679، اسے ضمرہ بن حبیب تابعی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور ابوبکر بن ابی مریم غسانی ضعیف ہے۔
1033- سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر چیز کے لیے ایک کان ہوتی ہے اور تقویٰ کی کان اہل معرفت کے دل ہیں۔ تحقيق و تخریج: - إسناده ضعيف جدا: شعب الايمان: 4330، الترغيب لابن شاهين: 256، ابن سمعان متروک ہے۔
1034- سالم بن عبد اللہ اپنے والد (سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ) سے روایت کرتے ہیں انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر چیز کے لیے ایک کان ہوتی ہے اور تقویٰ کی کان اہل معرفت کے دل ہیں۔ تحقیق و تخریج: - إسناده ضعيف: المعجم الكبير: 13185، محمد بن رجاء متہم ہے، اس میں اور بھی علتیں ہیں۔ السلسلة الضعيفة: 1291۔
1035- سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور بے شک قرآن کا دل سورةیسٰن ہے پس جس نے سورۃ یٰسن پڑھی اس کے لیے اسے پڑھنے کی وجہ سے دس مرتبہ قرآن پڑھنے کا ثواب لکھا جائے گا۔ تحقیق و تخریج: - إسناده ضعیف: ترمذی: 2887، دارمی: 3416، شعب الایمان: 2233، ہارون ابومحمد مجہول ہے، اس میں اور بھی علتیں ہیں۔
1036- سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر چیز کا ایک دل ہوتا ہے اور بے شک قرآن کا دل سورہ یسٰن ہے اور جس نے اللہ عزوجل کی رضا چاہتے ہوئے سورہ یٰسین پڑھی اللہ اس کی مغفرت فرما دے گا اور اسے اتنا اجر ملے گا کہ جیسے اس نے بارہ مرتبہ مکمل قرآن پڑھا ہو اور جس مسلمان کے پاس ملک الموت کے نزول کے وقت سورہ یسٰن پڑھی جائے تو اس کے پاس اس سورت کے ہر حرف کے بدلے دس فرشتے نازل ہوں گے جو اس کے سامنے صف باندھے کھڑے ہوں گے اس پر درود بھیجیں گے، اس کے لیے استغفار کریں گے، اس کے غسل کے وقت موجود رہیں گے، اس کے جنازے کے ساتھ چلیں گے۔ نماز جنازہ پڑھیں گے، اس کے دفن کا مشاہدہ کریں گے۔ اور جس مسلمان نے سکرات الموت کی حالت میں سورہ یسٰن پڑھی اس کی روح ملک الموت اس وقت تک قبض نہیں کرے گا جب تک جنت کا محافظ فرشتہ رضوان اس کے پاس جنت کی شراب نہ لے آئے جسے وہ اپنے بستر پر ہی پیئے گا۔ پھر ملک الموت اس کی روح قبض کرے گا جبکہ وہ سیراب ہو گا اور وہ اپنی قبر میں اس حال میں رہے گا کہ سیراب ہوگا اور روز قیامت بھی اس حال میں اٹھے گا کہ سیراب ہوگا اور وہ انبیاء کرام علیہ السلام میر کے حوضوں میں سے کسی حوض کا محتاج نہ ہوگا یہاں تک کہ جنت میں بھی داخل ہوگا تو سیراب ہوگا۔ تحقيق و تخریج: - إسناده ضعیف: مخلد بن عبد الواحد ضعیف ہے۔
1037- سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر نبی کے لیے ایک (مقبول) دعا ہوتی۔ اور بے شک میں نے اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے کے لیے چھپا کر رکھا ہے۔ اسے مسلم بن حجاج نے بھی اپنی سند کے ساتھ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔ اور انہوں نے یہ حدیث بیان کی۔ تحقیق و تخریج: -بخاری: 6305، مسلم: 200، أحمد: 3/ 218۔
1038- سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے لیے ایک دعا ہوتی ہے جسے وہ اپنی امت کے حق میں مانگتا ہے اور بے شک میں نے اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے کے لیے رکھا ہوا ہے۔ تحقيق وتخريج: - ايضا۔
1039- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہرنبی کے لیے ایک دعا ہوتی ہے اور میں ان شاء اللہ یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے کے لیے اپنی اس دعا کو چھپا لوں۔ ابن مرزوق کی روایت میں (لکل بنی) ہر نبی کے لیے کے الفاظ ہیں۔ تحقیق و تخریج: -بخاری: 6304، مسلم: 198، أحمد: 2/ 381۔
1040- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے کعب احبار سے کہا: اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے لیے ایک دعا ہوتی ہے جو وہ مانگتا ہے لیکن میں یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے کے لیے چھپالوں۔ تو کعب نے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے کہا: کیا آپ نے یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ہاں۔ تحقيق وتخريج: -ايضًا۔
1041- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے لیے ایک دعا ہوتی ہے جسے وہ مانگتا ہے تو قبول ہوتی ہے اور میں یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی یہ دعا آخرت میں اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے کے لیے چھپالوں۔ تحقيق وتخريج: - ايضا۔
1042- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے لیے ایک دعا ہوتی ہے میں ان شاء اللہ یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ اپنی اس دعا کو اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے کے لیے چھپالوں۔ تحقيق وتخريج: - ايضا۔
1043- سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ہر نبی کے لیے ایک دعا ہوتی ہے جسے وہ اپنی امت کے حق میں مانگتا ہے اور بے شک میں نے اپنی اس دعا کو اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے کے لیے چھپا رکھا ہے۔ تحقیق و تخریج: - دیکھئے حدیث نمبر 1037۔
1044- سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے لیے ایک دعا ہوتی ہے جسے وہ مانگتا ہے اور بے شک میں نے اپنی اس دعا کو قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے کے لیے ذخیرہ کر لیا ہے۔ تحقيق وتخريج: - ايضًا۔
1045- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہر نبی کے لیے ایک دعا ہوتی ہے اور میں ان شاء اللہ یہ ارادہ رکھتا ہوں کہ قیامت کے دن اپنی امت کے حق میں شفاعت کرنے کے لیے اپنی اس دعا کو چھیا کر رکھوں۔ تحقیق و تخریج: - دیکھئے حدیث نمبر 1039۔ تشریح: - ہمارے شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: 1:۔۔۔۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنی امت (مسلمانوں) کے لیے اللہ تعالیٰ ٰ کے اذن سے شفاعت (سفارش) کرنا برحق ہے اسے درج ذیل صحابہ نے بھی روایت کیا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ (صحیح بخاری: 6305، صحیح مسلم: 200) سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم: 201) سیدنا عبد الله بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہ (صحیح مسلم: 202) سیدنا کعب بن عجرہ رضی اللہ عنہ (الشريعة اللآ جری: ص 338، ح780وسندہ صحیح) سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ (أحمد: 12، 11/2وسنده حسن، ابن ماجه: 4280، صححہ الحاکم علی شرط مسلم: (2/ 585 , 586) سیدہ ام حبیبہ رضی اللہ عنہا (المستدرک للحاکم: 1/ 28 ج 227وسنده صحیح وصححہ الحاکم علی شرط الشیخین و وافقه الذہبی) وغیرہ۔ بلکہ شفاعت والی حدیث متواتر ہے۔ دیکھئے نظم المتناثر للكتانی (ح: 304) 2:۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی امت پر بے حد مہربان تھے اور اللہ نے آپ کو رحمتہ للعالمین بنا کر بھیجا۔ 3:۔۔۔۔ ہر نبی کی ایک دعا قطعی طور پر مقبول ہوتی رہی ہے اور نبی کو اس دعا کا علم بھی ہوتا تھا۔ 4:۔۔۔۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ ٰ نے تمام نبیوں پر فضیلت عطا فرمائی۔ 5:۔۔۔۔ جو مسلمان شرک و کفر نہ کرے اگر چہ کتنا ہی گناہ کار ہو جہنم میں ہمیشہ نہیں رہے گا۔ (الاتحاف الباسم، ص: 414، 415)
1046-حارثہ کہتے ہیں کہ ہم سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے گئے اور ان کے گھر میں ایک دیوار تعمیر کی جارہی تھی تو انہوں نے کہا: کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا ہے: بے شک مومن کو اس کے تمام اخراجات میں اجر ملتا ہے سوائے اس کے جو اس نے مٹی یا عمارت بنانے میں لگا دیا ہو۔ تحقیق و تخریج: - إسناده ضعیف: ابن ماجه: 4163، المعجم الكبير: 3675، شریک نخعی مدلس و مختلط ہے اور ابواسحاق مدلس کا عنعنہ ہے۔ فائدہ: - قیس بن ابی حازم کہتے ہیں کہ ہم سیدنا خباب رضی اللہ عنہ کی عیادت کے لیے گئے انہوں نے اپنے پیٹ میں سات داغ لگوائے ہوئے تھے پس انہوں نے کہا: ہمارے ساتھی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں وفات پا چکے وہ یہاں سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ دنیا ان کا اجر وثواب کچھ نہ گھٹا سکی اور ان کے عمل میں کوئی کمی نہیں ہوئی جبکہ ہم نے دنیا اتنی پائی کہ جس کے خرچ کرنے کے لیے ہم نے مٹی کے سوا کوئی جگہ نہیں پائی (یعنی عمارتیں بنانے لگے) اور اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں موت کی دعا کرنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں اس کی دعا کرتا (راوی نے کہا:) پھر ہم ان کی خدمت میں دوبارہ حاضر ہوئے تو وہ اپنی دیوار بنا رہے تھے، کہنے لگے: بے شک مسلمان کو ہر اس چیز پر اجر ملتا ہے جسے وہ خرچ کرتا ہے سوائے اس چیز کے جسے وہ مٹی میں لگا دے۔ (بخاری: 5672)
1047- عبد الرحمٰن بن كعب بن مالک اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! شعر کے بارے میں آپ کیا خیال رکھتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک مومن اپنی تلوار اور اپنی زبان کے ذریعے جہاد کرتا ہے، اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، گویا وہ (ہجو کے ذریعے) انہیں نیزوں سے مارتے ہیں۔ تحقیق و تخریج: حسن: أحمد: 3/ 456، ابن حبان: 4707، المعجم الكبير: 152، جز: 19۔ تشریح: -اسلام کی سربلندی کے لیے کی جانے والی ہر کوشش کا نام جہاد ہے، جہاد کے ان گنت فضائل اور فوائد ہیں اور اس کی اقسام بھی کئی ہیں۔ مذکورہ حدیث میں جہاد کی دو قسموں کی طرف اشارہ فرمایا گیا ہے: 1:۔۔۔۔ جہاد بالسیف: یعنی تلوار وغیرہ کے ذریعے کفار سے جہاد کرنا جسے قتال بھی کہا: جاتا ہے۔ 2:۔۔۔۔ جہاد باللسان: یعنی زبان کے ذریعے جہاد کرنا، اس میں تقریر، تدریس، مناظرات اور دعوت و تبلیغ وغیرہ سب شامل ہیں، کفار کی ہجو کرنا بھی جہاد ہے۔ ایک مسلمان کو موقع ومحل کی مناسبت سے حسب استطاعت ہر طرح کے جہاد میں حصہ لینا چاہیے۔
1048- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔ تحقیق و تخریج: - إسناده ضعیف: عمر بن محمد بن حفصہ اور محمد بن معاذ بن مستہل کی توثیق نہیں ملی۔
1049- سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک حسد نیکیوں کو اس طرح کھا جاتا ہے جیسے آگ لکڑیوں کو کھا جاتی ہے۔ تحقيق و تخریج: - إسناده ضعيف جدا: ابن ماجه: 4210، ابویعلی: 3656، عیسٰی بن ابی عیسٰی حناط متروک ہے۔
1050- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ زیادہ تر لوگوں کو کون سی چیز جہنم میں لے جائے گی؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ نے فرمایا: بے شک زیادہ تر لوگوں کو جہنم میں جو چیز لے جائے گی وہ دو کھوکھلی چیزیں منہ اور شرم گاہ۔ جانتے ہو کہ زیادہ تر لوگوں کو کون سی چیز جنت میں لے جائے گی؟ صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی بہتر جانتے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک زیادہ تر لوگوں کو جو چیز جنت میں لے جائے گی وہ اللہ کا ڈر اور اچھا اخلاق ہے۔ تحقیق و تخریج: - إسناده ضعيف: الادب المفرد: 289، أحمد: 2 /442، الزهد لابن المبارك: 1073، داود بن یزید اودی ضعیف ہے۔ فائدہ: - سیدنا ابوہر یرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ کون سا عمل سب سے زیادہ (لوگوں کو) جنت میں داخل کرے گا؟ آپ نے فرمایا: تقویٰ اور اچھا اخلاق۔ سوال کیا گیا کہ کون سی چیز سب سے زیادہ (لوگوں کو) جہنم میں لے جائے گی؟ فرمایا: دوکھوکھلی چیزیں منہ اور شرم گاہ۔ (ابن ماجه: 4246، قال شیخناعلی زئی: إسناده صحیح)
1051- سیدنا ابوہریر ہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک دین شروع ہوا تو یہ اجنبی تھا اور جلد ہی یہ دوبارہ اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جس طرح کہ شروع ہوا تھا پس اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے۔ تحقیق و تخریج: - مسلم: 145، أحمد: 2/ 389، المعجم الاوسط: 2777۔
1052-كثير بن عبدالله مزنی اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک دین شروع ہوا تو یہ اجنبی تھا اور جلد ہی یہ دوبارہ اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جس طرح کہ یہ شروع ہوا تھا پس اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ اجنبی کون ہیں؟ فرمایا: جو میری سنت کو زندہ کریں گے اور اللہ کے بندوں کو اس کی تعلیم دیں گے۔ تحقيق و تخریج: - إسناده ضعيف جدا: ترمذی: 2630، بزار: 3395، کثر بن عبد الله مزنی سخت ضعیف ہے۔
1053- كثير بن عبد اللہ اپنے والد سے وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بلا شبہ اسلامی شروع ہوا تو یہ اجنبی تھا اور جلد ہی یہ دوبارہ اسی طرح ہو جائے گا جس طرح کہ یہ شروع ہوا تھا پس اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ اجنبی کون ہیں؟ فرمایا: جو میری سنت کو زندہ کریں گے اور اللہ کے بندوں کو اس کی تعلیم دیں گے۔ تحقيق وتخريج: - ايضًا۔
1054- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام شروع ہوا تو یہ اجنبی تھا اور جلد ہی یہ دوبارہ اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جس طرح کہ شروع ہوا تھا پس اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے۔ تحقیق و تخریج: -مسلم: 146، من دون قولہ فطوبى للغرباء۔
1055- سیدنا سہل بن سعد ساعدی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اسلام شرع ہوا تو یہ اجنبی تھا اور جلد ہی یہ دوبارہ اسی طرح اجنبی ہو جائے گا جس طرح کہ شروع ہوا تھا پس اجنبیوں کے لیے خوشخبری ہے۔ عرض کیا گیا: اللہ کے رسول! یہ اجنبی کون ہیں؟ فرمایا: جو (سنتوں کی) اصلاح کریں گے جب لوگ (انہیں) بگاڑ دیں گے۔ تحقيق و تخریج: - إسناده ضعیف: المعجم الكبير: 5867، الاوسط: 3056، الصغير: 290، بکر بن سلیم ضعیف ہے۔ تشریح: - (1) غریب اجنبی اور بے وطن کو کہتے ہیں، شروع میں اسلام کی یہ کیفیت تھی کہ اسے کوئی نہ جانتا تھا، معاشرہ اسے قبول کرنے پر تیار نہ تھا، آہستہ آہستہ لوگ اسے سمجھتے اور قبول کرتے گئے حتیٰ کہ ہر طرف اسلام کا بول بالا ہو گیا اور کفر و شرک ختم ہو گیا۔ (2) خلفاء راشدین کے دور کے بعد اسلام میں بدعات کا ظہور ہوا بعد کے ادوار میں مسلمانوں نے غیر مسلموں کے رسم و رواج اور خیالات اپنا لیے اس طرح اصل اسلام چند لوگوں تک محدود ہو کر رہ گیا اکثریت نے خود ساختہ رسم و رواج اور غلط عقائد و اعمال ہی کو صحیح اسلام سمجھ لیا۔ (3) جن اجنبیوں کو مبارک باد دی گئی ہے ان سے مراد وہ لوگ ہیں جو بدعات کی کثرت میں سنت پر عمل پیرار ہیں، غلط عقائد مشہور ہونے پر صحیح عقائد پر قائم رہیں اور اخلاقی انحطاط کے دور میں صحیح اسلامی اخلاق کو اختیار کریں۔ (4) حق و باطل کا دارو مدار کسی نام کو اختیار کرنے پر نہیں بلکہ قرآن وحدیث کی موافقت اور مخالفت پر ہے۔ (سنن ابن ماجہ: 301/5)
1056- سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک ایک ایسا فتنہ برپا ہوگا جو بندوں کو اکھاڑ پھینکے گا لیکن عالم اپنے علم کی وجہ سے اس سے نجات پا جائے گا۔ تحقیق و تخریج: - إسناده ضعيف: حلية الأولياء: 6 / 277، تاریخ دمشق: 279/6، ابواسحاق ہمدانی مدلس کا عنعنہ ہے اور عمارہ بن غزیہ کا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سماع ثابت نہیں۔
1057- سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک نظر بد تو آدمی کو قبر میں اور اونٹ کو ہانڈی میں داخل کر دیتی ہے۔ تحقيق و تخریج: - إسناده ضعیف: حلية الأولياء: 5 / 406، تاريخ مدينة السلام: 10 / 337، سفیان ثوری مدلس کا عنعنہ ہے۔
1058-یہ حدیث ایک اور سند سے بھی شعیب سے ان کی سند کے ساتھ اسی طرح مروی ہے۔ تحقيق وتخريج: - ايضًا۔
1059- سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، بے شک نظر بد تو انسان کو قبر اور اونٹ کو ہانڈی میں داخل کر دیتی ہے۔ تحقيق و تخریج: - إسناده ضعيف جدا: علی بن ابی علی لہبی متروک ہے۔
1060- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک جو شخص تکبر کے ساتھ اپنا کپڑا گھسیٹتا ہے تو روز قیامت اللہ تعالیٰ ٰ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ اور عبداللہ بن دینار سے مروی ابومحمد کی حدیث میں (سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کی بجائے) سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما ہے۔ تحقیق و تخریج: - بخاری: 5783، مسلم: 2085، الموطا للامام مالك: 1698۔
1061- سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک جو شخص تکبر کے ساتھ اپنا کپڑا گھسیٹتا ہے تو روز قیامت اللہ تعالیٰ ٰ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ یہ حدیث مختصر ہے۔ تحقيق وتخريج: - ايضا۔
1062- سیدنا عبد الله رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک جو شخص تکبر کے ساتھ اپنا کپڑا گھسیٹتا ہے تو روز قیامت اللہ اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ تحقيق وتخريج: -ايضًا۔ تشریح: -ان احادیث سے معلوم ہوا کہ تکبر کے ساتھ کپڑا گھسیٹنا کبیرہ گناہ ہے، اللہ تعالیٰ ٰ قیامت کے دن اس شخص کی طرف نظر رحمت سے نہیں دیکھے گا جو دنیا میں تکبر کے ساتھ اپنا تہہ بند، پاجامہ یا شلوار وغیرہ زمین پر گھسیٹتا رہا، اس لیے بہتر تو یہی ہے کہ کپڑا نصف پنڈلی تک رہے کیونکہ اس میں تواضع اور عاجزی زیادہ ہے تاہم ٹخنوں تک کپڑا لٹکانے کی اجازت ہے کہ ٹخنے ننگے رہیں لیکن ٹخنوں سے نیچے کپڑے کا کوئی حق نہیں، یہ تکبر ہے اور اس پر بڑی وعید بیان ہوئی ہے۔ علاء کے والد عبد الرحمٰن بن یعقوب کہتے ہیں کہ میں نے سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے ازار کے متعلق پوچھا: تو انہوں نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: مومن کا ازار آدھی پنڈلیوں تک ہوتا ہے، اس سے لے کر ٹخنوں تک کوئی حرج نہیں، اس سے جو نیچے ہو گا وہ آگ میں ہوگا آپ نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ جو شخص تکبر سے اپنا از ار گھسیٹے گا تو قیامت کے دن اللہ (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ (الاتحاف الباسم: 138، وسندہ صحیح) ابوجری سیدنا جابر بن سلیم رضی اللہ عنہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نصیحت کرتے ہوئے فرمایا: اپنا از ار نصف پنڈلی تک اونچا رکھنا اگر یہ تیرے لیے ممکن نہ ہو تو ٹخنوں تک اونچا رکھنا اور ٹخنوں سے نیچے کپڑا لٹکانے سے بچنا کیونکہ یہ تکبر ہے اور تکبر اللہ کو پسند نہیں۔ (سنن ابی داود: ۴۰۸۴ وسندہ صحیح) معلوم ہوا کہ ازار کو ٹخنوں سے نیچے لٹکانا مطلق طور پر تکبر میں سے ہے اور اس سے صرف وہ شخص مستثنی ہے جو ہر وقت ازار کو ٹخنوں سے بلند رکھنے کی کوشش میں مصروف رہتا ہے لیکن بتقاضائے بشری بعض اوقات بے خیالی میں ازار نیچے ہو جاتا ہے۔ یادر ہے کہ ازار ہو ہی اتنا جو ٹخنوں سے نیچے نہ جائے یعنی چھوٹا ہو اگر کوئی شرعی عذر ہو تو پھر گنجائش ہے۔ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ وہ پنڈلیوں کی بدصورتی کی وجہ سے ازار نیچے رکھتے تھے۔ دیکھئے مصنف ابن ابی شیبہ (8/ 207، ح: 23806وسنده قوی)۔ (الاتحاف الباسم: ص: 326, 227) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ اتفاق سے ایک آدمی نماز پڑھ رہا تھا اور اس کا تہہ بند ٹخنوں سے نیچے لٹک رہا تھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے فرمایا: جاؤ اور وضو کرو چنانچہ وہ گیا اور وضو کر کے آیا تو آپ نے فرمایا: جاؤ اور وضو کروں تو ایک آدمی نے آپ سے عرض کیا: اللہ کے رسول! کیا وجہ تھی کہ آپ نے اس کو وضو کرنے کا حکم دیا، آپ خاموش رہے پھر فرمایا: یہ شخص تہہ بند لٹکائے نماز پڑھ رہا تھا اور اللہ تعالیٰ ٰ (ٹخنے سے نیچے کپڑا) لٹکانے والے (مرد) کی نماز قبول نہیں کرتا۔ (أبو داود: 4086حسن) سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین اشخاص ایسے ہیں جن سے روز قیامت اللہ کلام نہیں کرے گا اور نہ ان کی طرف دیکھے گا اور ان کے لیے درد ناک عذاب ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین بار ارشاد فرمائی۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہنے لگے: یہ نا کام ہو گئے، گھاٹے میں رہے، اللہ کے رسول! یہ کون لوگ ہیں؟ آپ نے فرمایا: اپنا ازار (ٹخنوں سے نیچے) لٹکانے والا، احسان جتلانے والا اور جھوٹی قسم کھا کر مال بیچنے والا۔ (مسلم: 106) سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ازار کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے لٹکا ہو وہ جہنم میں ہوگا۔ (بخاری: 5787) سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسبال (کپڑا لٹکانا) تہبند، قمیص اور پگڑی، سب میں ہوتا ہے جو شخص ان میں سے کسی بھی چیز کو تکبر کے ساتھ زمین پر گھسیٹے گا اللہ اس کی طرف قیامت کے دن (نظر رحمت سے) نہیں دیکھے گا۔ (نسائی: 5336حسن) اس موخر الذکر حدیث سے معلوم ہوا کہ جس طرح از ار ٹخنوں سے نیچے لٹکانا کبیرہ گناہ ہے اسی طرح قمیص اور پگڑی بھی تکبر کے طور پر ضرورت سے زیادہ لٹکا نا سخت گناہ ہے۔ سیدنا عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے اپنا کپڑا تکبر کے ساتھ لٹکا یا اللہ قیامت کے دن اس کی طرف دیکھے گا بھی نہیں۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا: میرے کپڑے کا ایک حصہ (بے خیالی میں) لٹک جاتا ہے البتہ اگر میں پوری طرح خیال رکھوں تو وہ نہیں لٹک سکے گا۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: آپ تو ایسا تکبر کی وجہ سے نہیں کرتے ہیں۔ (بخاری: 3665) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ مذکورہ بالا وعید یں اس شخص کے لیے ہیں جو تکبر سے یا ارادۃاپنا از ار لٹکائے البتہ اگر کبھی کبھار بے اختیاری یاسستی میں کسی کا ازار لٹک جائے اور توجہ ہونے پر وہ اسے اونچا کر لے تو معاف ہے۔ واللہ اعلم۔ کپڑا ٹخنوں سے نیچے لٹکانے کی ممانعت کے متعلق مولانا عبد الرحمٰن الذہبی نے ازارۃ المومن کے نام سے ایک مفید رسالہ بھی لکھا ہے۔
1063- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ تحقیق و تخریج: -بخاری: 6024، 2165، ترمذی: 2701، ابن ماجه: 3689۔
1064- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔۔۔۔۔ اور انہوں نے یہ حدیث بیان کی۔ تحقيق وتخريج: -ايضا۔
1065- سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ یہودیوں کی ایک جماعت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی۔۔۔۔ اور انہوں نے یہ حدیث بیان کی اور کہا: کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! بے شک اللہ ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ تحقيق وتخريج: -ايضًا۔
1066-ابن شہاب سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ ہر کام میں نرمی کو پسند کرتا ہے۔ اسے امام مسلم نے بھی اپنی سند کے ساتھ امام زہری سے ان کی سند کے ساتھ اسی طرح روایت کیا ہے۔ تحقیق و تخریج: -مرسل: اسے ابن شہاب زہری نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے۔ صحیح مسلم کی روایت مرفوع ہے جو اوپر بیان ہو چکی ہے۔ تشریح: - ان احادیث میں نرمی و ملائمت کا درس دیا گیا ہے کہ اللہ تعالیٰ ٰ کو تمام کاموں میں نرمی پسند ہے۔ لہٰذا بندوں کو چاہیے کہ اللہ تعالیٰ کی پسند کا خیال رکھتے ہوئے اپنے باہمی معاملات میں سختی کے بجائے نرمی اختیار کریں، ہاں جہاں شریعت نے سختی کا مطالبہ کیا ہے وہاں سختی ہی بہتر ہے لیکن باقی امور میں نرمی ہی محبوب ہے۔ مزید دیکھئے حدیث نمبر 732۔
1067- سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ تعالیٰ ٰ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کوپسند کرتا ہے اور اس بات کو بھی پسند کرتا ہے کہ اپنے بندے پر اپنی نعمت (کا اثر) دیکھے اور وہ مصیبت اور محتاجی (دکھانے) سے نفرت کرتا ہے۔ تحقیق و تخریج: - إسناده ضعیف: ابویعلی: 1055، شعب الایمان: 5790، عطیہ عوفی اور محمد بن ابی لیلیٰ ضعیف ہیں۔
1068-عبيد الله بن سعيد بن کثیر بن عفیر کہتے ہیں کہ مجھے میرے والد سعید نے اپنے والد سے انہوں نے ان کے دادا سے روایت کیا کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے۔ اسے مسلم نے بھی اپنی سند کے ساتھ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا ہے اور انہوں نے اسے مختصر بیان کیا۔ تحقیق و تخریج: - إسناده ضعیف: عبید اللہ بن سعید ضعیف ہے، اس میں اور بھی علتیں ہیں۔ فائدہ: - سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوا وہ جنت میں داخل نہ ہوگا۔ ایک آدمی نے عرض کیا: ایک شخص اس بات کو پسند کرتا ہے کہ اس کا کپڑا اچھا ہو، اس کا جوتا اچھا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ خوبصورت ہے اور خوبصورتی کو پسند کرتا ہے تکبر تو حق سے بے پرواہی اور لوگوں کو حقیر جاننا ہے۔ (مسلم: 91)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.