الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل 89. باب فِي قَوْلِهِ تَعَالَى: {وَأَنْذِرْ عَشِيرَتَكَ الأَقْرَبِينَ}: باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان کہ اے نبی! اپنے قرابت داروں کو ڈراؤ۔
جریر نےعبد الملک بن عمیر سے حدیث سنائی، انہوں نے موسیٰ بن طلحہ اور انہوں نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب یہ آیت اتری: ”اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈائیے“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قریش کو بلایا۔ جب وہ جمع ہو گئے تو آپ نے عمومی حیثیت سے (سب کو) اور خاص کر کے (الگ خاندانوں اور لوگوں کے ان کے نام لے لے کر) فرمایا: ”اے کعب بن لؤی کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے مرہ بن کعب کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے عبدمناف کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے بنو ہاشم کی اولاد! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، اے عبد المطلب کی اولاد! اپنےآپ کو آگ سے بچالو، اے فاطمہ (ینت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم )! اپنے آپ کو آگ سے بچالو، میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے (کسی مؤاخذے کی صورت میں) تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا، تم لوگوں کے ساتھ رشتہ ہے، اسے میں اسی طرح جوڑتا رہوں گا جس طرح جوڑنا چاہیے۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه الترمذي في ((جامعه)) في تفسير القرآن، باب: ومن سورة الشعراء وقال: هذا حديث حسن صحيح غريب من هذا الوجه برقم (3185) والنسائي في ((المجتبي)) في الوصايا، باب: اذا وصي لعشيرته الاقربين 248/6-249 - انظر ((التحفة)) برقم (14923)»
عبدالملک سے (جریر کے علاوہ) ابوعوانہ نے بھی یہ حدیث اسی سند کے ساتھ بیان کی۔ لیکن جریر کی روایت زیادہ مکمل اور سیر حاصل ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (500)»
حضرت عائشہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا کہ جب آیت: ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ نازل ہوئی تو رسو ل ا للہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفا پہاڑ پر کھڑے ہو کر فرمایا: ” اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بیٹی فاطمہ! اے عبد المطلب کی بیٹی صفیہ! اے عبدالمطلب کی اولاد! میں اللہ تعالیٰ کی طرف سے تمہارے لیے کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔ (ہاں!) میرے مال میں سے جوچاہو مجھ سے مانگ لو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (17338)»
ابن مسیب اور ابوسلمہ بن عبد الرحمن نے بتایا کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہاکہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر یہ آیت اتاری گئی: ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کوڈرائیں“ تو آپ نے فرمایا: ” اے قریش کےلوگو!اپنی جانوں کو اللہ تعالیٰ سے خرید لو، میں اللہ تعالیٰ کے (فیصلے کے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آسکتا، اے عبد المطلب کے بیٹے عباس! میں اللہ کے (فیصلے کے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا، اے اللہ کے رسول کی پھوپھی صفیہ! میں اللہ کے (فیصلے کے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا، اے اللہ کےرسول کے بیٹی فاطمہ! مجھ سے (میرے مال میں سے) جو چاہو مانگ لو، میں اللہ کے (فیصلےکے) سامنے تمہارے کچھ کام نہیں آ سکتا۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في (صحيحه) في الوصايا، باب: هل يدخل النساء والولد في الاقارب برقم (2753) تعليقا - وفي التفسير، باب: ﴿ وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ ﴾ برقم (4771) ايضا معلقا وأخرجه النسائي في ((المجتبي)) في الوصايا، باب اذا اوصي لعشيرته الأقربين 248/6 - انظر ((التحفة)) برقم (15328)»
ایک اور سند سے اعرج نےحضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح روایت کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (13660)»
یزید بن زریع نے (سلیمان) تیمی سے، انہوں نے ابو عثمان کے واسطے سے حضرت قبیصہ بن مخارق اور حضرت زہیر بن عمرو رضی اللہ عنہ سے حدیث بیان کی، دونوں نےکہا کہ جب آیت: ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ اتری، کہا: تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم ایک پہاڑی چٹان کی طرف تشریف لے گئے اور اس کے سب سے اونچے پتھروں والے حصے پر چڑھے، پھر آواز دی: ” اے عبد مناف کی اولاد! میں ڈرانے والا ہوں، میری اور تمہاری مثال اس آدمی کی ہے جس نے دشمن کو دیکھا تو وہ خاندان کو بچانے کے لیے چل پڑا اور اسے خطرہ ہوا کہ دشمن اس سے پہلے نہ پہنچ جائے تووہ بلند آواز سے پکارنے لگاؤ: وائے اس کی صبح (کی تباہی!)“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3652 و (11066)»
(یزید بن زریع کے بجائے) معتمر نے اپنے والد (سلیمان) کے حوالے سے باقی ماندہ سابقہ سند کے ساتھ اسی طرح حدیث بیان کی۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (3652 و 11066)»
ابو اسامہ نے اعمش سے حدیث سنائی، انہوں نے عمرو بن مرہ سے، انہوں نے سعید بن جبیر سے اور انہوں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ جب یہ آیت اتری: ” اور اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے“ (خاص کر) اپنے خاندان کے مخلص لوگوں کو۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (گھر سے) نکلے یہاں تک کہ کوہ صفا پر چڑھ گئے اور پکار کر کہا: ”وائے اس کی صبح (کی تباہی) ِِ (سب ایک دوسرے سے) پوچھنے لگے: یہ کون پکا رہا ہے؟ (کچھ) لوگوں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ، چنانچہ سب لوگ آپ کے پاس جمع ہو گئے۔ آپ نے فرمایا: ” اے فلاں کی اولاد! اے فلاں کی اولاد! اے عبدمناف کی اولاد! اے عبد المطلب کی اولاد!“ یہ لوگ آپ کےقریب جمع ہو گئے تو آپ نے پوچھا: ”تمہارا کیا خیال ہے ہے کہ اگر میں تمہیں خبر دوں کہ اس پہاڑ کے دامن سے گھڑ سوار نکلنے والے ہیں تو کیا تم میری تصدیق کروگے؟“ انہوں نے کہا: ہمیں آپ سے کبھی جھوٹی بات (سننے) کا تجربہ نہیں ہوا۔ آپ نے فرمایا: ”تو میں تمہیں آنےوالے شدید عذاب سے ڈرا رہا ہوں۔“ ابن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا: تو ابولہب کہنے لگا: تمہارے لیے تباہی ہو، کیا تم نے ہمیں اسی بات کے لیے جمع کیا تھا؟ پھر وہ اٹھ گیا۔ اس پر یہ سورت نازل ہوئی: ”ابولہب کے دونوں ہاتھ تباہ ہوئے اور وہ خود ہلاک ہوا۔“ اعمش نے اسی طرح سورت کے آخر تک پڑھا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري في ((صحيحه)) في الجنائز، باب: ذكر شرار الموتى برقم (1394) مختصراً - وفي المناقب، باب: من انتسب الى آبائه فى الاسلام والجاهلية برق (3526) وفي التفسير، باب: ﴿ إِنْ هُوَ إِلَّا نَذِيرٌ لَّكُم بَيْنَ يَدَيْ عَذَابٍ شَدِيدٍ ﴾ برقم (4801) وفي، باب: ﴿ تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ ﴾ برقم (4971 و 4972 و 4973) والترمذى فى((جامعه)) في التفسير، باب: و من سورة ﴿ تَبَّتْ يَدَا ﴾ وقال: هذا حديث حسن صحيح برقم (3363) انظر ((التحفة)) برقم (5594)»
اعمش شے (ابو اسامہ کے بجائے) ابو معاویہ نے اسی (سابقہ) سند کے ساتھ بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن کوہ صفا پر چڑھے اور فرمایا: ” وائے اس کی صبح (کی تباہی!)“ اس کے بعد ابو اسامہ کی بیان کر دہ حدیث کی طرح روایت کی اورآیت: ﴿وَأَنْذِرْ عَشِیرَتَکَ الْأَقْرَبِینَ﴾ اترنے کا ذکر نہیں کیا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه فى الحديث السابق برقم (507)»
|