الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
79. باب في النَّهْيِ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ:
جفتی کرانے پر اجرت لینے کی ممانعت کا بیان
حدیث نمبر: 2659
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا محمد بن عيسى، حدثنا ابن فضيل، عن الاعمش، عن ابي حازم، عن ابي هريرة، قال:"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن ثمن عسب الفحل".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ثَمَنِ عَسْبِ الْفَحْلِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نر (جانور) کے پانی (منی) کی قیمت لینے سے منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2665]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 3429]، [ترمذي 1273]، [نسائي 4689]، [ابن ماجه 2160]، [أبويعلی 6371]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2658)
نر گھوڑا، اونٹ، یا گدھا، بیل، یا بکرا وغیرہ سے ان کی مادہ کا جفتی کرانے پر اجرت لینا منع ہے۔
البتہ اگر بلا شرط مادہ کا مالک کچھ دے بطورِ سلوک کے تو اس کا لینا درست ہے، نیز نر کا عاریتاً دینا بھی مستحب ہے۔
اور علماء کی ایک جماعت نے اجرت کی بھی اجازت دی ہے تاکہ نسل منقطع نہ ہو، ان احادیث کی رو سے فقہاء اس کی حرمت کے قائل ہیں۔
«(وحيدي فى شرح ابن ماجه)» ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2660
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا القاسم بن الفضل، حدثنا ابي، عن المهري، قال: قال ابو هريرة"نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن عسب الفحل، واجر المومسة".(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا الْقَاسِمُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ الْمَهْرِيِّ، قَالَ: قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ"نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ عَسْبِ الْفَحْلِ، وَأَجْرِ الْمُومِسَةِ".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نر کے پانی پر اجرت لینے سے منع فرمایا اور زانیہ عورت کی اجرت (لینے) سے بھی منع فرمایا۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2666]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [أحمد 332/2، 415]، اور امام بخاری نے اس کو [تاريخ كبير 115/7] میں تعلیقاً ذکر کیا ہے اور مومسہ (یعنی زانیہ) کا اس میں ذکر نہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.