الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
65. باب مَنْ أَحْيَا أَرْضاً مَيْتَةً فَهِيَ لَهُ:
جو خالی زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے
حدیث نمبر: 2643
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) اخبرنا عبد الله بن سعيد، حدثنا ابو اسامة، عن هشام بن عروة، قال: اخبرني عبيد الله بن عبد الرحمن بن رافع: ان جابر بن عبد الله اخبره: ان رسول الله صلى الله عليه وسلم , قال: "من احيا ارضا ميتة فله فيها اجر وما اكلت العافية منها، فله فيها صدقة". قال ابو محمد: العافية: الطير وغير ذلك.(حديث مرفوع) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، قَالَ: أَخْبَرَنِي عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ رَافِعٍ: أَنَّ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ أَخْبَرَهُ: أَنَّ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: "مَنْ أَحْيَا أَرْضًا مَيْتَةً فَلَهُ فِيهَا أَجْرٌ وَمَا أَكَلَتِ الْعَافِيَةُ مِنْهَا، فَلَهُ فِيهَا صَدَقَةٌ". قَالَ أَبُو مُحَمَّدٍ: الْعَافِيَةُ: الطَّيْرُ وَغَيْرُ ذَلِكَ.
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے خبر دی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص خالی غیر آباد زمین کو آباد کرے اس کے لئے اس میں اجر و ثواب ہے، اور اس کی زراعت سے جو کوئی بھی کچھ کھائے تو یہ اس کے لئے صدقہ ہے۔ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: عافیہ سے مراد پرندے وغیرہ ہیں۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن والحديث صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2649]»
اس روایت کی سند حسن اور حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 1379]، [أبويعلی 1805]، [ابن حبان 5202]، [موارد الظمآن 1136]

وضاحت:
(تشریح حدیث 2642)
«عافية عافي» کا مؤنث ہے، اور اس سے مراد لغت میں ہر وہ ذو نفس ہے جو رزق کی تلاش میں ہو، خواہ وہ انسان ہو، چوپایہ، یا پرنده، مطلب یہ ہوا کہ غیر آباد زمین پر کھیتی کرنے سے اجر بھی ہے، اور مذکورہ اجناس میں سے کوئی تھوڑا بہت کھا لے تو یہ اس آباد کرنے والے کی طرف سے صدقہ ہے۔
ترمذی میں ہے: جو ایسی زمین کو آباد کرے وہ اسی کی ہے۔
اس سے یہ معلوم ہوا کہ بنجر زمین آباد کرنے کے لئے حاکم کی اجازت کی ضرورت نہیں، اور بعض علماء نے کہا کہ بلا اجازت کسی زمین پر قبضہ کرنا درست نہیں۔
اور «أَرْضًا مَيْتَةً» سے مراد وہ زمین ہے جس میں نہ زراعت ہو، نا مکان ہو، اور نہ وہ کسی کی ملک ہو۔
اور آباد کرنے سے مراد مکان بنانا، زراعت کرنا یا درخت و باغ لگانا ہے۔
اس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلام میں بے کار زمین پڑے رہنے کا تصور نہیں ہے، اس کو آباد ہونا چاہیے۔
کسی ملک کے استحکام کا بھی یہی تقاضا ہے، اور اس سے انفرادی ملکیت کا بھی ثبوت ملتا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن والحديث صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.