الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الرقاق
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
79. باب في شَأْنِ السَّاعَةِ وَنُزُولِ الرَّبِّ تَعَالَى:
قیامت کے احوال اور رب العالمین کے نزول کا بیان
حدیث نمبر: 2834
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث قدسي) حدثنا حدثنا الحكم بن نافع، حدثنا شعيب، عن الزهري، قال: سمعت ابا سلمة بن عبد الرحمن، قال: سمعت ابا هريرة، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم , يقول:"يقبض الله الارض ويطوي السموات بيمينه، ثم يقول: انا الملك، اين ملوك الارض؟".(حديث قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْحَكَمُ بْنُ نَافِعٍ، حَدَّثَنَا شُعَيْبٌ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا سَلَمَةَ بْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا هُرَيْرَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , يَقُولُ:"يَقْبِضُ اللَّهُ الْأَرْضَ وَيَطْوِي السَّمَوَاتِ بِيَمِينِهِ، ثُمَّ يَقُولُ: أَنَا الْمَلِكُ، أَيْنَ مُلُوكُ الْأَرْضِ؟".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرمارہے تھے: (قیامت کے دن) الله تعالیٰ زمین کو اپنی مٹھی میں لے گا اور آسمان کو اپنے داہنے ہاتھ میں لپیٹ لے گا، پھر فرمائے گا: آج صرف میں بادشاہ ہوں دنیا کے بادشاہ (آج) کہاں ہیں؟

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 2841]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 4812]، [مسلم 2787]، [أبويعلی 5850]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 2835
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا حدثنا محمد بن الفضل، حدثنا الصعق بن حزن، عن علي بن الحكم، عن عثمان بن عمير، عن ابي وائل، عن ابن مسعود، عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: قيل له: ما المقام المحمود؟، قال:"ذاك يوم ينزل الله تعالى على كرسيه يئط كما يئط الرحل الجديد من تضايقه به، وهو كسعة ما بين السماء والارض، ويجاء بكم حفاة، عراة، غرلا، فيكون اول من يكسى إبراهيم، يقول الله تعالى: اكسوا خليلي، فيؤتى بريطتين بيضاوين من رياط الجنة، ثم اكسى على إثره، ثم اقوم عن يمين الله مقاما يغبطني الاولون والآخرون".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْفَضْلِ، حَدَّثَنَا الصَّعْقُ بْنُ حَزْنٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحَكَمِ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنِ ابْنِ مَسْعُودٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: قِيلَ لَهُ: مَا الْمَقَامُ الْمَحْمُودُ؟، قَالَ:"ذَاكَ يَوْمٌ يَنْزِلُ اللَّهُ تَعَالَى عَلَى كُرْسِيِّهِ يَئِطُّ كَمَا يَئِطُّ الرَّحْلُ الْجَدِيدُ مِنْ تَضَايُقِهِ بِهِ، وَهُوَ كَسَعَةِ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، وَيُجَاءُ بِكُمْ حُفَاةً، عُرَاةً، غُرْلًا، فَيَكُونُ أَوَّلَ مَنْ يُكْسَى إِبْرَاهِيمُ، يَقُولُ اللَّهُ تَعَالَى: اكْسُوا خَلِيلِي، فَيُؤْتَى بِرَيْطَتَيْنِ بَيْضَاوَيْنِ مِنْ رِيَاطِ الْجَنَّةِ، ثُمَّ أُكْسَى عَلَى إِثْرِهِ، ثُمَّ أَقُومُ عَنْ يَمِينِ اللَّهِ مَقَامًا يَغْبِطُنِي الْأَوَّلُونَ وَالْآخِرُونَ".
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا کہ مقامِ محمود سے کیا مراد ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ وہ دن ہے جس دن اللہ تعالیٰ اپنی کرسی پر جلوہ افروز ہوگا اور وہ اس طرح آواز نکالے گی جیسے نئے کجاوے (پالان) پر بیٹھنے سے آواز ہوتی ہے، یہ اس کی تنگی کی وجہ سے ہوگی حالانکہ اس کرسی کی وسعت زمین و آسمان کے درمیان جتنی ہوگی، اور اس دن تم کو ننگے پیر ننگے بدن غیر مختون لایا جائے گا، اور سب سے پہلے جن کو کپڑا پہنایا جائے گا وہ ابراہیم (علیہ السلام) ہیں، الله تعالیٰ فرمائے گا: میرے خلیل کو کپڑے پہناؤ، چنانچہ جنت کے دو باریک کپڑے لائے جائیں گے، پھر ان کے بعد مجھے کپڑا پہنایا جائے گا، پھر میں الله (جل جلالہ) کے داہنے جانب کھڑا ہو جاؤں گا اور یہی وہ مقام (محمود) ہے جس پر مجھ سے اگلے پچھلے لوگ رشک کریں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا عثمان بن عمير قال أحمد والبخاري: منكر الحديث، [مكتبه الشامله نمبر: 2842]»
اس روایت کی سند ضعیف ہے۔ عثمان بن عمیر کو امام بخاری نے منکر الحدیث کہا ہے۔ دیکھئے: [طبراني 99/10، 10018]، [أبونعيم فى الحلية 239/6] و [البخاري تعليقًا فى الكبير 137/4]، [أبوالشيخ فى العظمة 227] و [الحاكم 364/2، وغيرهم]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2833 سے 2835)
اس حدیث کے طرفِ اوّل اور «يُجَاءُ بِكُمْ حُفَاةً عُرَاةً» کے شواہد موجود ہیں (جیسا کہ آگے 2837 نمبر پر آ رہا ہے) جس سے اللہ تعالیٰ کا کرسی پر بیٹھنا ثابت ہوا، قرآن پاک میں بھی ہے: « ﴿وَسِعَ كُرْسِيُّهُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ﴾ [البقرة: 255] » اور کرسی سے بعض علماء نے عرش، بعض نے موضع قدمین (جل جلالہ) مراد لیا ہے، لیکن محدثین و سلف صالحین نے ان صفاتِ باری تعالیٰ کو جس طرح وارد ہوئیں ان پر بلا تمثیل و تکیف کے ایمان کو واجب کیا ہے، اس کی تاویل کرنے سے منع کیا ہے اور یہ ہی صحیح مسلک ہے، اس لئے کرسی اور اس پر بیٹھنے پر ایمان رکھنا لازمی ہے۔
الله تعالیٰ سب کو ایمان کی حقیقت سمجھنے کی توفیق بخشے، آمین۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا عثمان بن عمير قال أحمد والبخاري: منكر الحديث

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.