الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان
39. باب في الاِدِّعَاءِ وَالإِنْكَارِ:
کسی چیز کے انکار کا دعویٰ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 3096
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا احمد بن عبد الله، حدثنا ابو شهاب، عن عمرو، عن الحسن: في رجل اعترف عند موته بالف درهم لرجل، واقام آخر بينة بالف درهم، وترك الميت الف درهم، فقال: "المال بينهما نصفين، إلا ان يكون مفلسا، فلا يجوز إقراره".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، عَنْ عَمْرٍو، عَنِ الْحَسَنِ: فِي رَجُلٍ اعْتَرَفَ عِنْدَ مَوْتِهِ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ لِرَجُلٍ، وَأَقَامَ آخَرُ بَيِّنَةً بِأَلْفِ دِرْهَمٍ، وَتَرَكَ الْمَيِّتُ أَلْفَ دِرْهَمٍ، فَقَالَ: "الْمَالُ بَيْنَهُمَا نِصْفَيْنِ، إِلَّا أَنْ يَكُونَ مُفْلِسًا، فَلَا يَجُوزُ إِقْرَارُهُ".
حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت اعتراف کیا کہ فلاں آدمی کے اس کے پاس ہزار درہم ہیں، دوسرے آدمی نے بینہ (دلیل) سے ثابت کیا کہ اس کے بھی ہزار درہم ہیں، اور مرنے والے نے صرف ہزار درہم چھوڑے ہیں؟ حسن رحمہ اللہ نے کہا: آدھا آدھا مال دونوں کے درمیان تقسیم کر دیا جائے الا یہ کہ مرنے والا مفلس ہو ایسی صورت میں اس کی بات ماننا جائز نہ ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف عمرو بن عبيد بن باب ضعفوه وقد اتهمه بعضهم مع عبادة، [مكتبه الشامله نمبر: 3105]»
اس اثر کی سند عمرو بن عبید بن باب معتزلی کی وجہ سے ضعیف ہے، اور امام دارمی رحمہ اللہ کے علاوہ کسی محدث نے اسے روایت نہیں کیا۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف عمرو بن عبيد بن باب ضعفوه وقد اتهمه بعضهم مع عبادة
حدیث نمبر: 3097
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا ابو نعيم، قال: قلت لشريك: كيف ذكرت في الاخوين يدعي احدهما اخا؟ قال: "يدخل عليه في نصيبه"، قلت: من ذكره؟ قال: جابر، عن عامر، عن علي.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، قَالَ: قُلْتُ لِشَرِيكٍ: كَيْفَ ذَكَرْتَ فِي الْأَخَوَيْنِ يَدَّعِي أَحَدُهُمَا أَخًا؟ قَالَ: "يَدْخُلُ عَلَيْهِ فِي نَصِيبِهِ"، قُلْتُ: مَنْ ذَكَرَهُ؟ قَالَ: جَابِرٌ، عَنْ عَامِرٍ، عَنْ عَلِيٍّ.
ابونعیم نے کہا: میں نے شریک سے پوچھا: دو بھائیوں کے بارے میں آپ نے کیا ذکر کیا ہے جن میں سے ایک دعویٰ کرتا ہے کہ وہ (میت کا) بھائی ہے؟ انہوں نے کہا: وہ بھائی کا حصہ پائے گا، میں نے عرض کیا: یہ کس نے ذکر کیا ہے؟ جواب دیا کہ جابر نے عامر سے اور انہوں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف جابر وهو: ابن يزيد الجعفي، [مكتبه الشامله نمبر: 3106]»
اس اثر کو بھی صرف امام دارمی رحمہ اللہ نے روایت کیا ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف جابر وهو: ابن يزيد الجعفي
حدیث نمبر: 3098
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا عبد الرحمن بن محمد المحاربي، عن الاعمش، عن إبراهيم: في الإخوة يدعي بعضهم الاخ، وينكر الآخرون، قال: "يدخل معهم بمنزلة عبد يكون بين الإخوة، فيعتق احدهم نصيبه، قال: وكان عامر، والحكم، واصحابهما يقولون: لا يدخل إلا في نصيب الذي اعترف به.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدٍ الْمُحَارِبِيُّ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ: فِي الْإِخْوَةِ يَدَّعِي بَعْضُهُمْ الْأَخَ، وَيُنْكِرُ الْآخَرُونَ، قَالَ: "يَدْخُلُ مَعَهُمْ بِمَنْزِلَةِ عَبْدٍ يَكُونُ بَيْنَ الْإِخْوَةِ، فَيَعْتِقَ أَحَدُهُمْ نَصِيبَهُ، قَالَ: وَكَانَ عَامِرٌ، وَالْحَكَمُ، وَأَصْحَابُهُمَا يَقُولُونَ: لَا يَدْخُلُ إِلَّا فِي نَصِيبِ الَّذِي اعْتَرَفَ بِهِ.
اعمش (سلیمان بن مہران) نے روایت کیا، ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے: بھائیوں میں سے بعض (کسی کے) بھائی ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسرے اس کا انکار کریں، ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: وہ بھائیوں کے ساتھ غلام کی حیثیت سے شامل ہو گا، ان میں سے ایک آزاد کرانے کا حصہ دے گا۔ اور عامر و حکم اور ان کے شاگردوں نے کہا: جس بھائی نے اعتراف کیا اسی کے حصے سے وہ حصہ لے گا۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن عبد الرحمن قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3107]»
اس اثر کی سند میں عبدالرحمٰن بن محمد المحاربی مدلس ہیں اور عن سے روایت کی ہے، باقی رجال ثقات ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11543]، [عبدالرزاق 19143]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن عبد الرحمن قد عنعن وهو مدلس
حدیث نمبر: 3099
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا ابو بكر ابن ابي شيبة، عن وكيع، قال: إذا كانا اخوين، فادعى احدهما اخا وانكره الآخر؟ قال: كان ابن ابي ليلى، يقول: "هي من ستة: للذي لم يدع ثلاثة، وللمدعي سهمان، وللمدعى سهم".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ، عَنْ وَكِيعٍ، قَالَ: إِذَا كَانَا أَخَوَيْنِ، فَادَّعَى أَحَدُهُمَا أَخًا وَأَنْكَرَهُ الْآخَرُ؟ قَالَ: كَانَ ابْنُ أَبِي لَيْلَى، يَقُولُ: "هِيَ مِنْ سِتَّةٍ: لِلَّذِي لَمْ يَدَّعِ ثَلَاثَةٌ، وَلِلْمُدَّعِي سَهْمَانِ، وَلِلْمُدَّعَى سَهْمٌ".
وکیع رحمہ اللہ نے کہا: دو بھائیوں میں سے ایک (تیسرے کے) بھائی ہونے کا دعویٰ کرے اور دوسرا انکار کرے، انہوں نے کہا: ابن ابی لیلیٰ کہتے تھے: مسئلہ چھ سے ہو گا، جس نے انکار کیا تین حصے لے گا، دو حصے دعویٰ کرنے والا لے گا اور ایک حصہ وہ لے گا جس کے بھائی ہونے کا دعویٰ کیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 3108]»
اس اثر میں محمد بن عبدالرحمٰن بن ابی لیلیٰ سیٔ الحفظ جدا ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11547]، [عبدالرزاق 19142]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف محمد بن عبد الرحمن بن أبي ليلى سيئ الحفظ جدا
حدیث نمبر: 3100
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا يونس بن محمد، حدثنا ابو عوانة، عن مغيرة، عن حماد:"في الرجل يكون له ثلاثة بنين، فقال: ثلثي لاصغر بني، فقال الاوسط: انا اجيز، وقال الاكبر: انا لا اجيز، قال: هي من تسعة يخرج ثلاثة فله سهمه، وسهم الذي اجاز". وقال حماد: يرد السهم عليهم جميعا، وقال عامر: الذي رد إنما رد على نفسه.(حديث موقوف) حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ حَمَّادٍ:"فِي الرَّجُلِ يَكُونُ لَهُ ثَلَاثَةُ بَنِينَ، فَقَالَ: ثُلُثِي لِأَصْغَرِ بَنِيَّ، فَقَالَ الْأَوْسَطُ: أَنَا أُجِيزُ، وَقَالَ الْأَكْبَرُ: أَنَا لَا أُجِيزُ، قَالَ: هِيَ مِنْ تِسْعَةٍ يُخْرِجُ ثَلاثَةً فَلَهُ سَهْمُهُ، وَسَهْمُ الَّذِي أَجَاز". وَقَالَ حَمَّادٌ: يَرُدُّ السَّهْمَ عَلَيْهِمْ جَمِيعًا، وَقَالَ عَامِرٌ: الَّذِي رَدَّ إِنَّمَا رَدَّ عَلَى نَفْسِهِ.
حماد سے مروی ہے: آدمی کے تین بیٹے ہیں، اس نے کہا: میرا ایک ثلث (تہائی) مال سب سے چھوٹے بیٹے کے لئے ہے، بیچ والے لڑکے نے کہا: میری طرف سے اجازت ہے، اور بڑے بیٹے نے کہا: میں نہیں مانتا؟ حماد نے کہا: مسئلہ نو سے ہو گا، اس میں تین (سب سے چھوٹے لڑکے ہوں گے) اس کا حصہ اور جس نے اجازت دی اس کا حصہ ہے۔ اور حماد نے کہا: جو باقی بچا وه سب پر برابر لوٹا دیا جائے گا، اور شعبی رحمہ اللہ نے کہا: جس نے رد کر دیا (گویا) اس نے اپنے سے (اپنا حصہ) رد کر دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى حماد وهو: ابن أبي سليمان، [مكتبه الشامله نمبر: 3109]»
حماد: ابن ابی سلیمان ہیں، اور ابوسلیمان کا نام مسلم ہے، ان تک یہ سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11072]، [عبدالرزاق 19145]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى حماد وهو: ابن أبي سليمان
حدیث نمبر: 3101
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة، حدثنا يحيى بن آدم، عن شريك، عن خالد، عن ابن سيرين، عن شريح: في رجل اقر باخ، قال: "بينته انه اخوه".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ آدَمَ، عَنْ شَرِيكٍ، عَنْ خَالِدٍ، عَنْ ابْنِ سِيرِينَ، عَنْ شُرَيْحٍ: فِي رَجُلٍ أَقَرَّ بِأَخٍ، قَالَ: "بَيِّنَتُهُ أَنَّهُ أَخُوهُ".
قاضی شریح نے کہا: ایک آدمی نے (دوسرے کے) بھائی ہونے کا اقرار کیا، انہوں نے کہا: اس کو دلیل لانی ہو گی کہ وہ اس کا بھائی ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3110]»
اس روایت کی سند شریک کی وجہ سے حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11545]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 3102
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا ابو النعمان، حدثنا ابو عوانة، عن مغيرة، عن الحارث العكلي: في رجل اقر عند موته بالف درهم مضاربة، والف دينا، ولم يدع إلا الف درهم، قال: "يبدا بالدين، فإن فضل فضل كان لصاحب المضاربة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو النُّعْمَانِ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ مُغِيرَةَ، عَنْ الْحَارِثِ الْعُكْلِيِّ: فِي رَجُلٍ أَقَرَّ عِنْدَ مَوْتِهِ بِأَلْفِ دِرْهَمٍ مُضَارَبَةً، وَأَلْفٍ دَيْنًا، وَلَمْ يَدَعْ إِلَّا أَلْفَ دِرْهَمٍ، قَالَ: "يُبْدَأُ بِالدَّيْنِ، فَإِنْ فَضَلَ فَضْلٌ كَانَ لِصَاحِبِ الْمُضَارَبَةِ".
حارث عکلی نے کہا: ایک آدمی نے اپنی موت کے وقت ایک ہزار درہم کا مضاربت (تجارت) کے لئے اقرار کیا، اور ایک ہزار قرض کا، اور صرف ایک ہزار درہم چھوڑے؟ انہوں نے کہا: پہلے قرض ادا کیا جائے گا اور اگر اس کے بعد کچھ بچ گیا تو وہ صاحب مضاربت کے لئے (یعنی جس نے تجارت کے لئے درہم دیئے تھے اس کا) ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحارث العكلي، [مكتبه الشامله نمبر: 3111]»
اس روایت کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11057]۔ اس اثر کی سند میں ابوعوانہ: وضاح بن عبداللہ اور ابوالنعمان: محمد بن فضل عارم الدوسی ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحارث العكلي
حدیث نمبر: 3103
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا حسن، عن مطرف، عن الشعبي:"في رجل مات وترك ثلاث مئة درهم، وثلاثة بنين، فجاء رجل يدعي مائة درهم على الميت، فاقر له احدهم، قال: يدخل عليه بالحصة"، ثم قال الشعبي: ما ارى ان يكون ميراثا، حتى يقضى الدين.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا حَسَنٌ، عَنْ مُطَرِّفٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ:"فِي رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَكَ ثَلَاثَ مِئَةِ دِرْهَمٍ، وَثَلَاثَةَ بَنِينَ، فَجَاءَ رَجُلٌ يَدَّعِي مِائَةَ دِرْهَمٍ عَلَى الْمَيِّتِ، فَأَقَرَّ لَهُ أَحَدُهُمْ، قَالَ: يَدْخُلُ عَلَيْهِ بِالْحِصَّةِ"، ثُمَّ قَالَ الشَّعْبِيُّ: مَا أُرَى أَنْ يَكُونَ مِيرَاثًا، حَتَّى يُقْضَى الدَّيْنُ.
شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے: ایک آدمی فوت ہو گیا اور تین سو درہم اور تین لڑکے چھوڑ گیا، اس کے بعد کوئی آدمی آیا اس نے میت پر سو درہم کا دعویٰ کیا اور ان تینوں بھائیوں میں سے ایک نے اس کا اقرار بھی کیا، شعبی رحمہ اللہ نے کہا: وہ ان سے اپنا حصہ لے گا، پھر کہا: میرا خیال ہے قرض دینے کے بعد میراث تقسیم ہو گی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى عامر الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 3112]»
اس اثر کی سند شعبی رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11049]، [عبدالرزاق 19142]، [ابن منصور 314]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى عامر الشعبي
حدیث نمبر: 3104
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا ابو خيثمة مصعب بن سعيد الحراني، حدثنا محمد بن عبد الله، عن الاشعث، عن الحسن: في رجل هلك وترك ابنين، وترك الفي درهم، فاقتسما الالفي درهم، وغاب احد الابنين، فجاء رجل، فاستحق على الميت الف درهم، قال: "ياخذ جميع ما في يد هذا الشاهد، ويقال له: اتبع اخاك الغائب، وخذ نصف ما في يده".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَبُو خَيْثَمَةَ مُصْعَبُ بْنُ سَعِيدٍ الْحَرَّانِيُّ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ الْأَشْعَثِ، عَنْ الْحَسَنِ: فِي رَجُلٍ هَلَكَ وَتَرَكَ ابْنَيْنِ، وَتَرَكَ أَلْفَيْ دِرْهَمٍ، فَاقْتَسَمَا الْأَلْفَيْ دِرْهَمٍ، وَغَابَ أَحَدُ الِابْنَيْنِ، فَجَاءَ رَجُلٌ، فَاسْتَحَقَّ عَلَى الْمَيِّتِ أَلْفَ دِرْهَمٍ، قَالَ: "يَأْخُذُ جَمِيعَ مَا فِي يَدِ هَذَا الشَّاهِدِ، وَيُقَالُ لَهُ: اتَّبِعْ أَخَاكَ الْغَائِبَ، وَخُذْ نِصْفَ مَا فِي يَدِهِ".
اشعث سے مروی ہے حسن رحمہ اللہ نے اس شخص کے بارے میں کہا جو انتقال کر گیا اور اپنے دو بیٹے اور دو ہزار درہم چھوڑ گیا، دونوں بھائیوں نے دو ہزار درہم تقسیم کر لئے پھر ان میں سے ایک لڑکا غائب ہو گیا اور ایک آدمی نے ہزار درہم کا دعویٰ کیا؟ حسن رحمہ اللہ نے کہا: موجود بھائی کے پاس جو کچھ ہے وہ مدعی لے لے گا اور کہا جائے گا کہ تم اپنے بھائی کو تلاش کر کے جو اس کے پاس ہو اس کا آدھا حصہ اس سے لے لو۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3113]»
اس اثر کی سند حسن ہے۔ اشعث: ابن عبدالملک ہیں۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11048]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 3105
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا سليمان بن حرب، عن حماد بن سلمة، عن زياد الاعلم، عن الحسن، قال: "إذا اقر بعض الورثة بدين، فهو عليه بحصته".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ زِيَادٍ الْأَعْلَمِ، عَنْ الْحَسَنِ، قَالَ: "إِذَا أَقَرَّ بَعْضُ الْوَرَثَةِ بِدَيْنٍ، فَهُوَ عَلَيْهِ بِحِصَّتِهِ".
حسن رحمہ اللہ نے کہا: جب کچھ وارثین (مرنے والے پر) قرض کا اقرار کر لیں تو وہی اپنے حصہ سے قرض ادا کریں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3114]»
اس اثر کی سند حسن رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11050]، [ابن منصور 316]۔ زیاد: ابن حسان ہیں۔ نیز سنن سعید بن منصور میں ہے کہ اگر ایک وارث نے اقرار کیا تو وہ اپنے حصے سے قرض ادا کرے گا، اور دو نے اعتراف کیا تو دو، اور زیادہ نے اعتراف کیا تو سب اپنے حصہ سے اس کا قرض ادا کریں گے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
حدیث نمبر: 3106
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا سليمان بن حرب، عن حماد بن سلمة، عن ابي هاشم، عن إبراهيم، قال: "إذا شهد اثنان من الورثة بدين، فهو من جميع المال إذا كانوا عدولا"، وقال الشعبي: عليهما في باب في ميراث المرتد.(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هَاشِمٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: "إِذَا شَهِدَ اثْنَانِ مِنْ الْوَرَثَةِ بِدَيْنٍ، فَهُوَ مِنْ جَمِيعِ الْمَالِ إِذَا كَانُوا عُدُولًا"، وَقَالَ الشَّعْبِيُّ: عَلَيْهِمَا فِي بَاب فِي مِيرَاثِ الْمُرْتَدِّ.
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: جب دو وارث جو سچے ہوں اور قرض کی گواہی دیں تو کل مال سے قرض ادا کیا جائے گا، امام شعبی رحمہ اللہ نے کہا: بس وہی دونوں اپنے حصہ سے قرض ادا کریں گے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى إبراهيم النخعي، [مكتبه الشامله نمبر: 3115]»
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ تک اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [سنن سعيد بن منصور 322]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى إبراهيم النخعي

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.