الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان
28. باب الْعَصَبَةِ:
عصبہ کا بیان
حدیث نمبر: 3015
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا هشام، عن محمد، عن عبد الله بن عتبة، قال: حدثني الضحاك بن قيس: ان عمر قضى في اهل طاعون عمواس انهم كانوا إذا كانوا من قبل الاب سواء، فبنو الام احق، وإذا كان بعضهم اقرب من بعض باب، فهم احق بالمال".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا هِشَامٌ، عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُتْبَةَ، قَالَ: حَدَّثَنِي الضَّحَّاكُ بْنُ قَيْسٍ: أَنَّ عُمَرَ قَضَى فِي أَهْلِ طَاعُونِ عَمَوَاسَ أَنَّهُمْ كَانُوا إِذَا كَانُوا مِنْ قِبَلِ الْأَبِ سَوَاءً، فَبَنُو الْأُمِّ أَحَقُّ، وَإِذَا كَانَ بَعْضُهُمْ أَقْرَبَ مِنْ بَعْضٍ بِأَبٍ، فَهُمْ أَحَقُّ بِالْمَالِ".
ضحاک بن قیس نے بیان کیا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے طاعون عمواس (یا دور اسلام میں جو پہلا طاعون آیا اس) میں میراث کے بارے میں فیصلہ کیا کہ وارثین جو باپ کی جانب سے بچے ہوں وہ سب درجے میں برابر ہوں تو ماں کی جانب والے زیادہ حق دار ہوں گے اور وارثین میں سے جو بھی باپ کے زیادہ قریب ہو گا وہ ہی مال کا زیادہ حق دار ہو گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3025]»
اس اثر کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 19039، 19136]، [البيهقي 239/6]

وضاحت:
(تشریح حدیث 3014)
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے میں عمواس نامی مقام پر طاعون کی وبا پھیلی تو اس میں پورے خاندان اور قبیلے کے قبیلے ختم ہو گئے اور مال کے وارثین نہ بچے، وہاں کے امیر نے امیر المؤمنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس لکھا کہ ہلاک شدگان کے اموال و ترکے کا کیا کیا جائے؟ تو امیر المؤمنین نے جواب دیا کہ باپ اور ماں کے قریبی رشتے دار موجود ہوں تو ان میں اس مال کو تقسیم کر دیا جائے جنہیں عصبہ کہتے ہیں۔
یعنی عاصب وہ شخص ہے جس کا حصہ قرآن پاک میں مقرر نہیں اور وارث کی غیر موجودگی میں کل مال سمیٹ لے، یا اصحاب الفروض کے سہام نکال دینے کے بعد جو بچ جائے وہ اس کا ہو جائے۔
عصبہ کی دو قسمیں ہیں: عصبہ بالنسب اور عصب بالسبب، عصبہ بالسبب تو یہ ہے کہ جو شخص کسی کو آزاد کرائے اور اس کا کوئی وارث نہ ہو تو آزاد کرانے والا اس کے کل مال کا حق دار ہوگا، اور عصبہ بالنسب تین طرح کے ہیں: (1) عصبہ بنفسہ: باپ، دادا، پردادا وغیرہ، بیٹا، پوتا، پڑپوتا وغیره، حقیقی بھائی، پدری بھائی وغیرہ، (2) عصب لغیرہ: وہ عورت جو کسی مرد کی معیت سے عصبہ بنے، مثلاً حقیقی بہن جب کہ اس کے ساتھ حقیقی بھائی موجود ہو، وغیرہ وغیرہ، (3) عصبہ مع الغير: وہ عورت جو کسی عورت کی معیت میں عصبہ بنے، جیسے ایک یا زیادہ حقیقی بہنیں، ایک یا زیادہ بیٹوں یا ایک یا زیادہ پوتیوں کے ساتھ مل کر عصبہ مع الغیر ہو جاتی ہیں۔
تفصیل کے لئے دیکھئے: [التحقيقات المرضية فى المباحث الفرضية، ص: 112] اور [منهاج المسلم للشيخ الجزائري، ص: 674] ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 3016
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا احمد بن عبد الله، حدثنا ابو شهاب، حدثني ابو إسحاق الشيباني، عن عبيد بن ابي الجعد، عن عبد الله بن شداد بن الهاد، قال: اصيب سالم مولى ابي حذيفة يوم اليمامة، فبلغ ميراثه مائتي درهم، فقال عمر: "احبسوها على امه حتى تاتي على آخرها".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا أَبُو شِهَابٍ، حَدَّثَنِي أَبُو إِسْحَاق الشَّيْبَانِيُّ، عَنْ عُبَيْدِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ شَدَّادِ بْنِ الْهَادِ، قَالَ: أُصِيبَ سَالِمٌ مَوْلَى أَبِي حُذَيْفَةَ يَوْمَ الْيَمَامَة، فَبَلَغَ مِيرَاثُهُ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَقَالَ عُمَرُ: "احْبِسُوهَا عَلَى أُمِّهِ حَتَّى تَأْتِيَ عَلَى آخِرِهَا".
عبداللہ بن شداد بن الہاد نے کہا: ابوحذیفہ کے آزاد کردہ غلام: سالم معرکہ یمامہ میں جاں بحق ہو گئے اور انہوں نے دو سو درہم میراث میں چھوڑے، سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: ان (دراہم) کو ان کی ماں کے لئے روکے رکھو یہاں تک کہ وہ فوت ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «إسناده قوي وأبو شهاب هو: عبد ربه بن نافع وأبو إسحاق الشيباني هو: سليمان بن أبي سليمان، [مكتبه الشامله نمبر: 3026]»
اس اثر کی سند قوی ہے۔ ابوشہاب کا نام عبدربہ بن نافع ہے اور ابواسحاق کانام سلیمان بن ابی سلیمان الشیبانی ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 16237 وفيه: حتى تستكمه أو تموت]

وضاحت:
(تشریح حدیث 3015)
مرنے والا اپنے پیچھے صرف ماں کو چھوڑے اور میت کے بیٹے، پوتے، بھائی، بہن کوئی نہ ہوں تو ماں کا مقررہ حصہ ثلث ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي وأبو شهاب هو: عبد ربه بن نافع وأبو إسحاق الشيباني هو: سليمان بن أبي سليمان
حدیث نمبر: 3017
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا زهير، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "الإخوة من الام يتوارثون دون بني العلات، يرث الرجل اخاه لابيه وامه، دون اخيه لابيه".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، عَنْ أَبِي إِسْحَاق، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "الْإِخْوَةُ مِنْ الْأُمِّ يَتَوَارَثُونَ دُونَ بَنِي الْعَلَّاتِ، يَرِثُ الرَّجُلُ أَخَاهُ لِأَبِيهِ وَأُمِّهِ، دُونَ أَخِيهِ لِأَبِيهِ".
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مادری بھائی (ماں کے) وارث ہوں گے، پدری بھائی وارث نہ ہوں گے، اور آدمی اپنے حقیقی بھائی کا وارث ہو گا پدری بھائی کے علاوہ (یعنی پدری بھائی، حقیقی بھائی کی موجودگی میں وارث نہ ہو گا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3027]»
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2739، فى ميراث العصبه]، [أبويعلی 300، 361]، [الحميدي 55]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده حسن
حدیث نمبر: 3018
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا سهل بن حماد، حدثنا شعبة، عن النعمان بن سالم، قال: قلت لابن عمر:"ارايت رجلا ترك ابن ابنته، ايرثه؟ قال: لا".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ حَمَّادٍ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، عَنْ النُّعْمَانِ بْنِ سَالِمٍ، قَالَ: قُلْتُ لِابْنِ عُمَرَ:"أَرَأَيْتَ رَجُلًا تَرَكَ ابْنَ ابْنَتِهِ، أَيَرِثُهُ؟ قَالَ: لا".
نعمان بن سالم نے کہا: میں نے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے پوچھا: اس بارے میں آپ کی کیا رائے ہے کہ ایک آدمی اپنا نواسہ چھوڑ کر مر گیا، کیا وہ اس مرنے والے کا وارث ہو گا؟ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: نہیں (کیونکہ نواسہ وارث نہیں تو عصبہ ہو کر بھی وہ ترکہ نہ لے گا)۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى ابن عمر وهو موقوف عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 3028]»
یہ اثر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما پرموقوف ہے اور اس کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2094]، [ابن ماجه 2739]، [ابن أبى شيبه 11245]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى ابن عمر وهو موقوف عليه
حدیث نمبر: 3019
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا يعلى، حدثنا الاعمش، عن إبراهيم، قال: قال عبد الله: "الام عصبة من لا عصبة له، والاخت عصبة من لا عصبة له".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا يَعْلَى، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، قَالَ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: "الْأُمُّ عَصَبَةُ مَنْ لَا عَصَبَةَ لَهُ، وَالْأُخْتُ عَصَبَةُ مَنْ لَا عَصَبَةَ لَهُ".
ابراہیم رحمہ اللہ نے کہا: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: ماں اس کی عصبہ ہے جس کا اور کوئی عصبہ نہ ہو، اور بہن اس کی عصبہ ہے جس کا کوئی اور عصبہ نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 3029]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں، لیکن ابراہیم کا لقاء سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے ثابت نہ ہونے کی وجہ سے منقطع ہے۔ دیکھئے: [ابن منصور 166]۔ نیز دیکھئے اثر رقم (2997)۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع
حدیث نمبر: 3020
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مرفوع) حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا وهيب، حدثنا ابن طاوس، عن ابيه، عن ابن عباس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: "الحقوا الفرائض باهلها، فما بقي، فهو لاولى رجل ذكر".(حديث مرفوع) حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، حَدَّثَنَا ابْنُ طَاوُسٍ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: "أَلْحِقُوا الْفَرَائِضَ بِأَهْلِهَا، فَمَا بَقِي، فَهُوَ لِأَوْلَى رَجُلٍ ذَكَرٍ".
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میراث اس کے حق داروں تک پہنچا دو اور جو بچ جائے وہ (میت کے) قریب ترین مرد (رشتہ دار) کا حصہ ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 3030]»
اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6732]، [مسلم 1615]، [أبوداؤد 2898]، [ترمذي 2098]، [ابن ماجه 4740]، [ابن حبان 6028، 6049]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3016 سے 3020)
عصبہ کے حق میں یہ قوی دلیل ہے جو ان کو وراثت میں حق دار قرار دیتی ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.