الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان
23. باب قَوْلِ عَلِيٍّ وَعَبْدِ اللَّهِ وَزَيْدٍ في الرَّدِّ:
سیدنا علی و سیدنا عبداللہ و سیدنا زید رضی اللہ عنہم کی باقی بچے ترکے میں رائے کا بیان
حدیث نمبر: 2978
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا يزيد بن هارون، انبانا شريك، عن الاعمش، عن إبراهيم، عن عبد الله في ابنة، وابنة ابن، قال: "النصف والسدس، وما بقي، فرد على البنت".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَنْبَأَنَا شَرِيكٌ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ فِي ابْنَةٍ، وَابْنَةِ ابْنٍ، قَالَ: "النِّصْفُ وَالسُّدُسُ، وَمَا بَقِيَ، فَرَدٌّ عَلَى الْبِنْتِ".
ابراہیم رحمہ اللہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیٹی اور پوتی کے بارے میں کہا: نصف (بیٹی کے لئے) اور چھٹا حصہ (پوتی کے لئے) ہے، باقی جو بچے وہ بیٹی کو لوٹا دیا جائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لانقطاعه، [مكتبه الشامله نمبر: 2988]»
اس اثر کی سند میں انقطاع ہے، لیکن بخاری وغیرہ میں صحیح سند سے موجود ہے۔ دیکھئے: [بخاري 6742]، لیکن بخاری میں ہے: لڑکی کو آ دھا، پوتی کو چھٹا، باقی جو بچا وہ بہن کیلئے ہے۔ مزید تفصیل و تخریج کے لئے دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11224]، [عبدالرزاق 19128]، [أبويعلی 5108]، [ابن حبان 6034]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لانقطاعه
حدیث نمبر: 2979
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن عيسى، حدثنا جرير، عن منصور، عن إبراهيم، عن علقمة، عن عبد الله:"انه اتي في إخوة لام، وام، فاعطى الإخوة من الام الثلث، والام سائر المال، وقال: الام عصبة من لا عصبة له".(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عِيسَى، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ، عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ عَلْقَمَةَ، عَنْ عَبْدِ اللَّه:"أَنَّهُ أُتِيَ فِي إِخْوَةٍ لِأُمٍّ، وَأُمٍّ، فَأَعْطَى الْإِخْوَةَ مِنَ الْأُمِّ الثُّلُثَ، وَالْأُمَّ سَائِرَ الْمَالِ، وَقَالَ: الْأُمُّ عَصَبَةُ مَنْ لَا عَصَبَةَ لَهُ".
علقمہ سے مروی ہے سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے پاس پدری بھائیوں اور ماں کا مسئلہ لایا گیا تو انہوں نے پدری بھائیوں کو ثلث دیا، باقی سارا مال ماں کو دیا اور کہا: جس (میت کے وارث) کا عصبہ نہ ہو ماں اس کی عصبہ میں شمار ہوگی۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وهو موقوف على عبد الله، [مكتبه الشامله نمبر: 2989]»
اس اثر کی سند صحیح موقوف علی سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11213]، [ابن منصور 117]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح وهو موقوف على عبد الله
حدیث نمبر: 2980
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث مقطوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا حسن، عن ابيه، قال: سالت الشعبي عن رجل مات وترك ابنته، لا يعلم له وارث غيرها، قال: "لها المال كله".(حديث مقطوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا حَسَنٌ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: سَأَلْتُ الشَّعْبِيَّ عَنْ رَجُلٍ مَاتَ وَتَرَكَ ابْنَتَهُ، لَا يُعْلَمُ لَهُ وَارِثٌ غَيْرُهَا، قَالَ: "لَهَا الْمَالُ كُلُّهُ".
حسن (بن صالح بن مسلم) نے اپنے والد سے روایت کیا کہ انہوں نے امام عامر الشعبی رحمہ اللہ سے پوچھا: ایک آدمی فوت ہوا اور اپنی لڑکی کو چھوڑا، اس کے علاوہ کوئی وارث معلوم نہیں؟ کہا: سارا مال بیٹی کا ہوگا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الشعبي، [مكتبه الشامله نمبر: 2990]»
اس اثر کی سند امام شعبی رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11218]، [عبدالرزاق 19130]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الشعبي
حدیث نمبر: 2981
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) حدثنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن محمد بن سالم، عن الشعبي، ان ابن مسعود كان لا يرد على اخ لام مع ام، ولا على جدة، إذا كان معها غيرها من له فريضة، ولا على ابنة ابن، مع ابنة الصلب، ولا على امراة وزوج. وكان علي "يرد على كل ذي سهم، إلا المراة والزوج"..(حديث موقوف) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، أَنَّ ابْنَ مَسْعُودٍ كَانَ لَا يَرُدُّ عَلَى أَخٍ لِأُمٍّ مَعَ أُمٍّ، وَلا عَلَى جَدَّةٍ، إِذَا كَانَ مَعَهَا غَيْرُهَا مَنْ لَهُ فَرِيضَةٌ، وَلَا عَلَى ابْنَةِ ابْنٍ، مَعَ ابْنَةِ الصُّلْبِ، وَلَا عَلَى امْرَأَةٍ وَزَوْج. وَكَانَ عَلِيٌّ "يَرُدُّ عَلَى كُلِّ ذِي سَهْمٍ، إِلَّا الْمَرْأَةَ وَالزَّوْجَ"..
امام شعبی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ ماں کے ساتھ پدری بھائی پر بقیہ ترکہ نہیں لوٹاتے تھے، اور نہ جدہ پر بقیہ مال لوٹاتے تھے جب کہ اس کے ساتھ صاحبِ فریضہ موجود ہو، اور نہ پوتی پر ما بقیٰ لوٹاتے تھے جب کہ حقیقی بیٹی موجود ہو، اور نہ بیوی اور شوہر پر لوٹاتے تھے، اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ ہر صاحبِ سہم پر باقی بچا لوٹا دیتے تھے سوائے بیوی اور شوہر کے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم، [مكتبه الشامله نمبر: 2991]»
محمد بن سالم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے، لیکن صحیح سند سے بھی یہ اثر موقوفاً مروی ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11220]، [عبدالرزاق 19128]، [ابن منصور 112-116]، [البيهقي 244/6]

وضاحت:
(تشریح احادیث 2977 سے 2981)
یہ مسئلہ بقیہ بچے مال کے بارے میں ہے کہ اصحاب القروض کو مال دینے کے بعد جو مال ترکے میں سے بچے وہ کس کو دیا جائے؟ بعض اصحاب السہام کو لوٹا دیتے، اور بعض صحابہ کی رائے یہ تھی کہ جو بچے اس کو بیت المال میں دے دینا چاہے، سیدنا زید رضی اللہ عنہ اس کے قائل تھے۔
کما سیأتی۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم
حدیث نمبر: 2982
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا محمد، حدثنا سفيان، قال: اخبرني محمد بن سالم، عن خارجة بن زيد، عن زيد بن ثابت:"انه اتي في ابنة، او اخت، فاعطاها النصف، وجعل ما بقي في بيت المال وقال يزيد بن هارون: عن محمد بن سالم، عن الشعبي، عن خارجة.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ: أَخْبَرَنِي مُحَمَّدُ بْنُ سَالِمٍ، عَنْ خَارِجَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِت:"أَنَّهُ أُتِيَ فِي ابْنَةٍ، أَوْ أُخْت، فَأَعْطَاهَا النِّصْفَ، وَجَعَلَ مَا بَقِيَ فِي بَيْتِ الْمَالِ وقَالَ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ: عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ خَارِجَةَ.
خارجہ بن زید نے کہا سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کے پاس بیٹی اور بہن کا قضیہ لایا گیا تو انہوں نے بیٹی کو نصف دے دیا، باقی نصف بیت المال میں جمع کر دیا، اور یہ اثر یزید بن ہارون نے محمد بن سالم سے، انہوں نے شعبی سے اور انہوں نے خارجہ (بن زید) سے بھی روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم، [مكتبه الشامله نمبر: 2992]»
محمد بن سالم کی وجہ سے یہ اثر ضعیف ہے، لیکن صحیح سند سے بھی مروی ہے۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 19131، 19132]، [ابن منصور 113، 114]، [البيهقي 244/6]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.