الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن دارمي کل احادیث 3535 :حدیث نمبر
سنن دارمي
من كتاب الفرائض
وراثت کے مسائل کا بیان
27. باب في مِيرَاثِ ذَوِي الأَرْحَامِ:
ذوی الارحام کی میراث کا بیان
حدیث نمبر: 3009
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا عبد الله بن يزيد، حدثنا حيوة، حدثنا ابو الاسود محمد بن عبد الرحمن بن نوفل: ان عاصم بن عمر بن قتادة الانصاري اخبره: ان عمر بن الخطاب"التمس من يرث ابن الدحداحة، فلم يجد وارثا، فدفع مال ابن الدحداحة إلى اخوال ابن الدحداحة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ، حَدَّثَنَا حَيْوَةُ، حَدَّثَنَا أَبُو الْأَسْوَدِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ نَوْفَلٍ: أَنَّ عَاصِمَ بْنَ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيَّ أَخْبَرَهُ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ"الْتَمَسَ مَنْ يَرِثُ ابْنَ الدَّحْدَاحَةِ، فَلَمْ يَجِدْ وَارِثًا، فَدَفَعَ مَالَ ابْنِ الدَّحْدَاحَةِ إِلَى أَخْوَالِ ابْنِ الدَّحْدَاحَةِ".
عاصم بن عمر بن قتادہ انصاری نے خبر دی کہ امیر المومنین سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابن الدحداحہ کا وارث تلاش کیا جو انہیں ملا نہیں، چنانچہ انہوں نے ابن الدحداحہ کا مال ان کے ماموؤں کو دے دیا۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أنه منقطع، [مكتبه الشامله نمبر: 3019]»
اس اثر کے رجال ثقات ہیں لیکن سند میں انقطاع ہے۔ دیکھیں: [البيهقي 216/6-217]۔ نیز (3093) پر آگے یہ اثر آ رہا ہے۔

وضاحت:
(تشریح احادیث 3005 سے 3009)
ذوی الارحام ان قرابت داروں کو کہا جاتا ہے جو نہ اصحاب الفروض سے ہوں اور نہ ہی عصبہ سے، جیسے: ماموں، خالہ، پھوپھی، چچا کی بیٹی، بھانجا، بھانجی، اور بیٹی کی اولاد (نواسی نواسے) وغیرہ جو وارث نہیں ہوتے۔
ان قرابت داروں کے وارث ہونے میں اختلاف ہے، بعض صحابۂ کرام، تابعین اور ائمہ رحمہم اللہ ان کی وراثت کے قائل نہیں، کیوں کہ الله تعالیٰ نے اپنی کتاب میں انہیں وارث نہیں بنایا، اس کے برعکس بعض صحابہ و تابعین نے انہیں وارث مانا ہے جیسا کہ مذکور بالا اثر میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، ایک حدیث میں ہے: «الخال وارث من لا وارث له» [ترمذي 2104]، اور اس مسئلہ میں یہی مسلک ہے امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کا اور امام احمد رحمہ اللہ اسی کے قائل ہیں، الله تعالى کا فرمان ہے: « ﴿وَأُولُو الْأَرْحَامِ بَعْضُهُمْ أَوْلَى بِبَعْضٍ .....﴾ [الأحزاب: 6] » ۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أنه منقطع
حدیث نمبر: 3010
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا ابو عاصم، عن ابن جريج، عن عمرو بن مسلم، عن طاوس، عن عائشة، قالت: "الله ورسوله مولى من لا مولى له، والخال وارث من لا وارث له".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ ابْنِ جُرَيْجٍ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُسْلِمٍ، عَنْ طَاوُسٍ، عَنْ عَائِشَةَ، قَالَتْ: "اللَّهُ وَرَسُولُهُ مَوْلَى مَنْ لَا مَوْلَى لَهُ، وَالْخَالُ وَارِثُ مَنْ لَا وَارِثَ لَهُ".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ اور رسول اس کے والی ہیں جس کا کوئی والی نہ ہو اور ماموں اس کا وارث ہے جس کا کوئی وارث نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «رجاله ثقات غير أن ابن جريج قد عنعن وهو مدلس، [مكتبه الشامله نمبر: 3020]»
اس حدیث کے رجال ثقات ہیں، ابن جریج کا عنعنہ اس میں قادح ہے لیکن مصنف عبدالرزاق میں سماع کی صراحت ہے۔ حوالہ کے لئے دیکھئے: [ترمذي 2103]، [ابن ماجه 2737]، [عبدالرزاق 19124]، [ابن حبان 6035]، [موارد الظمآن 1225]، [ابن منصور 171]، [البيهقي 215/6]۔ کچھ روایات میں یہ حدیث مرفوعاً مروی ہے جیسا کہ ترمذی، ابن ماجہ اور بیہقی میں صراحت ہے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: رجاله ثقات غير أن ابن جريج قد عنعن وهو مدلس
حدیث نمبر: 3011
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن فراس، عن الشعبي، عن زياد، قال:"اتي عمر في عم لام، وخالة، فاعطى العم للام الثلثين، واعطى الخالة الثلث".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ فِرَاسٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ زِيَادٍ، قَالَ:"أُتِيَ عُمَرُ فِي عَمٍّ لِأُمٍّ، وَخَالَة، فَأَعْطَى الْعَمَّ لِلْأُمِّ الثُّلُثَيْنِ، وَأَعْطَى الْخَالَةَ الثُّلُثَ".
زیاد نے کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس ماں کے چچا اور خالہ کا قضیہ لایا گیا تو انہوں نے ماں کے چچا کو دو ثلث دیئے اور خالہ کو ایک ثلث دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 3021]»
اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11161]، [ابن منصور 154]، [طحاوي فى شرح معاني الآثار 399/4]، [البيهقي 216/6-217]۔ اس کی سند میں زیاد: ابن عیاض ہیں۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده جيد
حدیث نمبر: 3012
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن يونس، عن الحسن: ان عمر بن الخطاب "اعطى الخالة الثلث، والعمة الثلثين".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ يُونُسَ، عَنِ الْحَسَنِ: أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ "أَعْطَى الْخَالَةَ الثُّلُثَ، وَالْعَمَّةَ الثُّلُثَيْنِ".
حسن رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے خالہ کو ثلث اور پھوپھی کو دو ثلث دیا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح إلى الحسن، [مكتبه الشامله نمبر: 3022]»
اس اثر کی سند حسن رحمہ اللہ تک صحیح ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11162، 11168]، [عبدالرزاق 19113]، [ابن منصور 154]

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح إلى الحسن
حدیث نمبر: 3013
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن الحسن بن عمرو، عن غالب بن عباد، عن قيس بن حبتر النهشلي، قال: اتي عبد الملك بن مروان في خالة وعمة، فقام شيخ، فقال: شهدت عمر بن الخطاب "اعطى الخالة الثلث، والعمة الثلثين"، قال: فهم ان يكتب به، ثم قال: اين زيد عن هذا.(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ الْحَسَنِ بْنِ عَمْرٍو، عَنْ غَالِبِ بْنِ عَبَّادٍ، عَنْ قَيْسِ بْنِ حَبْتَرٍ النَّهْشَلِيِّ، قَالَ: أُتِيَ عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ مَرْوَانَ فِي خَالَةٍ وَعَمَّةٍ، فَقَامَ شَيْخٌ، فَقَالَ: شَهِدْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ "أَعْطَى الْخَالَةَ الثُّلُثَ، وَالْعَمَّةَ الثُّلُثَيْنِ"، قَالَ: فَهَمَّ أَنْ يَكْتُبَ بِهِ، ثُمَّ قَالَ: أَيْنَ زَيْدٌ عَنْ هَذَا.
قیس بن حبتر نہشلی نے کہا: عبدالملک بن مروان کے پاس خالہ اور پھوپھی کا مسئلہ لایا گیا تو ایک شیخ کھڑے ہوئے اور انہوں نے کہا: میں سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس حاضر تھا، انہوں نے خالہ کو ثلث دیا اور پھوپھی کو دو ثلث (دو تہائی) دیا۔ اور انہوں نے اس کو لکھ دینے کا ارادہ کیا پھر کہا: ز ید اس سے کہاں جائیں گے؟

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف جدا، [مكتبه الشامله نمبر: 3023]»
اس اثر کی سند بہت ضعیف ہے۔ غالب بن زیاد غیر معروف اور شیخ نامعلوم ہیں۔ دیکھئے: [عبدالرزاق 19112]۔ واضح رہے کہ اکثر صحابہ وراثت کے ذوی الارحام کی طرف منتقل ہونے کے قائل تھے، لیکن سیدنا زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ان کے مخالف تھے۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف جدا
حدیث نمبر: 3014
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(حديث موقوف) اخبرنا محمد بن يوسف، حدثنا سفيان، عن محمد بن سالم، عن الشعبي، عن مسروق، عن عبد الله قال: "الخالة بمنزلة الام، والعمة بمنزلة الاب، وبنت الاخ بمنزلة الاخ، وكل ذي رحم بمنزلة رحمه التي يدلي بها إذا لم يكن وارث ذو قرابة".(حديث موقوف) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَالِمٍ، عَنْ الشَّعْبِيِّ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ: "الْخَالَةُ بِمَنْزِلَةِ الْأُمِّ، وَالْعَمَّةُ بِمَنْزِلَةِ الْأَبِ، وَبِنْتُ الْأَخِ بِمَنْزِلَةِ الْأَخِ، وَكُلُّ ذِي رَحِمٍ بِمَنْزِلَةِ رَحِمِهِ الَّتِي يُدْلِي بِهَا إِذَا لَمْ يَكُنْ وَارِثٌ ذُو قَرَابَةٍ".
مسروق رحمہ اللہ سے مروی ہے: سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: خالہ ماں کے درجے میں ہے، اور پھوپھی باپ کے درجے میں، اور بھتیجی بھائی کے درجہ میں، اور ہر ذی رحم (قرابت دار) اس درجہ میں ہے جو میت سے قریب کا رشتہ دار ہو جب کہ اس کا قریبی وارث نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم، [مكتبه الشامله نمبر: 3024]»
محمد بن سالم کی وجہ سے اس اثر کی سند ضعیف ہے۔ دیکھئے: [ابن أبى شيبه 11165]، [عبدالرزاق 19115]، [ابن منصور 155]

وضاحت:
(تشریح احادیث 3009 سے 3014)
ان تمام آثار سے ثابت ہوا کہ خالہ، پھوپھی، ماموں، چچا، بھائی اور بہن کی اولاد میت کے اصل وارث نہ ہونے کی صورت میں اس کے مال کے وارث ہوں گے، اور اس کے مال کو بیت المال میں جمع کرنے کے بعد ذوی الارحام میں ذوی الفروض کی طرح تقسیم کر دیا جائے گا۔
والله اعلم وعلمہ اتم۔

قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده ضعيف لضعف محمد بن سالم

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.