4. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اس وقت کو یاد کرو جب تم اپنے پروردگار سے فریاد کر رہے تھے، پھر اس نے تمہاری فریاد سن لی، اور فرمایا کہ تمہیں لگاتار ایک ہزار فرشتوں سے مدد دوں گا اور اللہ نے یہ بس اس لیے کیا کہ تمہیں بشارت ہو اور تاکہ تمہارے دلوں کو اس سے اطمینان حاصل ہو جائے، ورنہ فتح تو بس اللہ ہی کے پاس سے ہے، بیشک اللہ غالب حکمت والا ہے اور وہ وقت بھی یاد کرو جب اللہ نے اپنی طرف سے چین دینے کو تم پر نیند کو بھیج دیا تھا اور آسمان سے تمہارے لیے پانی اتار رہا تھا کہ اس کے ذریعے سے تمہیں پاک کر دے اور تم سے شیطانی وسوسہ کو دفع کر دے اور تاکہ تمہارے دلوں کو مضبوط کر دے اور اس کے باعث تمہارے قدم جما دے (اور اس وقت کو یاد کرو) جب تیرا پروردگار وحی کر رہا تھا فرشتوں کی طرف کہ میں تمہارے ساتھ ہوں، سو ایمان لانے والوں کو جمائے رکھو میں ابھی کافروں کے دلوں میں رعب ڈالے دیتا ہوں، سو تم کافروں کی گردنوں پر مارو اور ان کے جوڑوں پر ضرب لگاو۔ یہ اس لیے کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کی ہے اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی مخالفت کرتا ہے، سو اللہ تعالیٰ سخت سزا دینے والا ہے۔
18. باب: جب تم میں سے دو جماعتیں ایسا ارادہ کر بیٹھتی تھیں کہ ہمت ہار دیں حالانکہ اللہ دونوں کا مددگار تھا اور ایمانداروں کو تو اللہ پر بھروسہ رکھنا چاہیے۔
19. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان ”بیشک تم میں سے جو لوگ اس دن واپس لوٹ گئے جس دن کہ دونوں جماعتیں آپس میں مقابل ہوئی تھیں تو یہ تو بس اس سبب سے ہوا کہ شیطان نے انہیں ان کے بعض کاموں کی وجہ سے بہکا دیا تھا اور بیشک اللہ انہیں معاف کر چکا ہے، یقیناً اللہ بڑا مغفرت والا، بڑا حلم والا ہے“۔
20. باب: (اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”وہ وقت یاد کرو جب تم چڑھے جا رہے تھے اور پیچھے مڑ کر بھی کسی کو نہ دیکھتے تھے اور رسول تم کو پکار رہے تھے، تمہارے پیچھے سے، سو اللہ نے تمہیں غم دیا، غم کی پاداش میں، تاکہ تم رنجیدہ نہ ہو اس چیز پر جو تمہارے ہاتھ سے نکل گئی اور نہ اس مصیبت سے جو تم پر آ پڑی اور اللہ تعالیٰ تمہارے کاموں سے خبردار ہے“۔
21. باب: (اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”پھر اس نے اس غم کے بعد تمہارے اوپر راحت یعنی غنودگی نازل کی کہ اس کا تم میں سے ایک جماعت پر غلبہ ہو رہا تھا اور ایک جماعت وہ تھی کہ اسے اپنی جانوں کی پڑی ہوئی تھی، یہ اللہ کے بارے میں خلاف حق اور جاہلیت کے خیالات قائم کر رہے تھے اور یہ کہہ رہے تھے کہ کیا ہم کو بھی کچھ اختیار ہے؟ آپ کہہ دیجئیے کہ اختیار تو سب اللہ کا ہے، یہ لوگ دلوں میں ایسی بات چھپائے ہوئے ہیں جو آپ پر ظاہر نہیں کرتے اور کہتے ہیں کہ کچھ بھی ہمارا اختیار چلتا تو ہم یہاں نہ مارے جاتے، آپ کہہ دیجئیے کہ اگر تم گھروں میں ہوتے تب بھی وہ لوگ جن کے لیے قتل مقدر ہو چکا تھا، اپنی قتل گاہوں کی طرف نکل ہی پڑتے اور یہ سب اس لیے ہوا کہ اللہ تمہارے دلوں کی آزمائش کرے اور تاکہ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے اسے صاف کرے اور اللہ تعالیٰ دل کی باتوں کو خوب جانتا ہے“۔
26. باب: (اللہ تعالیٰ کا فرمان) ”وہ لوگ جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی آواز کو عملاً قبول کیا“ (یعنی ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کی تعمیل کے لیے فوراً تیار ہو گئے)۔
55. باب: اللہ تعالیٰ کا فرمان اور اللہ تعالیٰ کا فرمان (سورۃ التوبہ میں) کہ ”یاد کرو تم کو اپنی کثرت تعداد پر گھمنڈ ہو گیا تھا پھر وہ کثرت تمہارے کچھ کام نہ آئی اور تم پر زمین باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہونے لگی، پھر تم پیٹھ دے کر بھاگ کھڑے ہوئے، اس کے بعد اللہ نے تم پر اپنی طرف سے تسلی نازل کی“ «غفور رحيم» تک۔
حدثنا قتيبة بن سعيد حدثنا يعقوب عن ابي حازم انه سمع سهل بن سعد، وهو يسال عن جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال اما والله إني لاعرف من كان يغسل جرح رسول الله صلى الله عليه وسلم ومن كان يسكب الماء وبما دووي- قال- كانت فاطمة- عليها السلام- بنت رسول الله صلى الله عليه وسلم تغسله وعلي يسكب الماء بالمجن، فلما رات فاطمة ان الماء لا يزيد الدم إلا كثرة اخذت قطعة من حصير، فاحرقتها والصقتها فاستمسك الدم، وكسرت رباعيته يومئذ، وجرح وجهه، وكسرت البيضة على راسه.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ عَنْ أَبِي حَازِمٍ أَنَّهُ سَمِعَ سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ، وَهْوَ يُسْأَلُ عَنْ جُرْحِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَمَا وَاللَّهِ إِنِّي لأَعْرِفُ مَنْ كَانَ يَغْسِلُ جُرْحَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَمَنْ كَانَ يَسْكُبُ الْمَاءَ وَبِمَا دُووِيَ- قَالَ- كَانَتْ فَاطِمَةُ- عَلَيْهَا السَّلاَمُ- بِنْتُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَغْسِلُهُ وَعَلِيٌّ يَسْكُبُ الْمَاءَ بِالْمِجَنِّ، فَلَمَّا رَأَتْ فَاطِمَةُ أَنَّ الْمَاءَ لاَ يَزِيدُ الدَّمَ إِلاَّ كَثْرَةً أَخَذَتْ قِطْعَةً مِنْ حَصِيرٍ، فَأَحْرَقَتْهَا وَأَلْصَقَتْهَا فَاسْتَمْسَكَ الدَّمُ، وَكُسِرَتْ رَبَاعِيَتُهُ يَوْمَئِذٍ، وَجُرِحَ وَجْهُهُ، وَكُسِرَتِ الْبَيْضَةُ عَلَى رَأْسِهِ.
ہم سے قتیبہ بن سعید نے بیان کیا، کہا ہم سے یعقوب نے بیان کیا، ان سے ابوحازم نے اور انہوں نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے سنا، ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے (غزوہ احد کے موقع پر ہونے والے) زخموں کے متعلق پوچھا گیا، تو انہوں نے بیان کیا کہ اللہ کی قسم! مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زخموں کو کس نے دھویا تھا اور کون ان پر پانی ڈال رہا تھا اور جس دوا سے آپ کا علاج کیا گیا۔ انہوں نے بیان کیا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی خون کو دھو رہی تھیں۔ علی رضی اللہ عنہ ڈھال سے پانی ڈال رہے تھے۔ جب فاطمہ رضی اللہ عنہا نے دیکھا کہ پانی ڈالنے سے خون اور زیادہ نکلا آ رہا ہے تو انہوں نے چٹائی کا ایک ٹکڑا لے کر جلایا اور پھر اسے زخم پر چپکا دیا جس سے خون کا آنا بند ہو گیا۔ اسی دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے کے دندان مبارک شہید ہوئے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک بھی زخمی ہو گیا تھا اور خود سر مبارک پر ٹوٹ گئی تھی۔
Narrated Abu Hazim: That he heard Sahl bin Sa`d being asked about the wounds of Allah's Apostle saying, "By Allah, I know who washed the wounds of Allah's Apostle and who poured water (for washing them), and with what he was treated." Sahl added, "Fatima, the daughter of Allah's Apostle used to wash the wounds, and `Ali bin Abi Talib used to pour water from a shield. When Fatima saw that the water aggravated the bleeding, she took a piece of a mat, burnt it, and inserted its ashes into the wound so that the blood was congealed (and bleeding stopped). His canine tooth got broken on that day, and face was wounded, and his helmet was broken on his head."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 402
حدثني عمرو بن علي حدثنا ابو عاصم حدثنا ابن جريج عن عمرو بن دينار عن عكرمة عن ابن عباس قال اشتد غضب الله على من قتله نبي، اشتد غضب الله على من دمى وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنِي عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ حَدَّثَنَا أَبُو عَاصِمٍ حَدَّثَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ عَنْ عَمْرِو بْنِ دِينَارٍ عَنْ عِكْرِمَةَ عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى مَنْ قَتَلَهُ نَبِيٌّ، اشْتَدَّ غَضَبُ اللَّهِ عَلَى مَنْ دَمَّى وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
مجھ سے عمرو بن علی نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوعاصم نے بیان کیا، کہا ہم سے ابن جریج نے بیان کیا، ان سے عمرو بن دینار نے، ان سے عکرمہ نے اور ان سے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جسے اللہ کے نبی نے قتل کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کا انتہائی غضب اس شخص پر نازل ہوا جس نے (یعنی عبداللہ بن قمیہ نے لعنتہ اللہ علیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ مبارک کو خون آلود کیا تھا۔
Narrated Ibn `Abbas: Allah's Wrath gets severe on a person killed by a prophet, and Allah's Wrath became severe on him who had caused the face of Allah's Apostle to bleed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 5, Book 59, Number 403