الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
مسنَد الشَّامِیِّینَ
522. حَدِیث سرَاقَةَ بنِ مَالِكِ بنِ جعشم رَضِیَ اللَّه تَعَالَى عَنه
حدیث نمبر: 17581
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يعلى ، اخبرنا محمد يعني ابن إسحاق ، عن الزهري ، عن عبد الرحمن بن مالك بن جعشم ، عن ابيه ، عن عمه سراقة بن جعشم ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الضالة من الإبل تغشى حياضي، هل من اجر اسقيها؟ قال:" نعم، في كل ذات كبد حرى اجر" .حَدَّثَنَا يَعْلَى ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عن عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عن عَمِّهِ سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الضَّالَّةِ مِنَ الْإِبِلِ تَغْشَى حِيَاضِي، هَلْ مِنْ أَجْرٍ أَسْقِيهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ" .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان بھٹکے ہوئے اونٹوں کا مسئلہ پوچھا جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ہر تر جگر رکھنے والے میں اجروثواب ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 17582
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا مسعر ، عن عبد الملك بن ميسرة ، عن طاوس ، عن سراقة بن مالك بن جعشم ، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم خطيبا في الوادي، فقال: " الا إن العمرة دخلت في الحج إلى يوم القيامة" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عَنْ طَاوُسٍ ، عن سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطِيبًا فِي الْوَادِي، فَقَالَ: " أَلَا إِنَّ الْعُمْرَةَ دَخَلَتْ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ" .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم وادی میں خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے اور فرمایا یاد رکھو! قیامت تک کے لئے عمرہ، حج میں داخل ہوگیا ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد منقطع، طاؤوس لم يسمعه من سراقة
حدیث نمبر: 17583
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني مكي بن إبراهيم ، حدثنا داود يعني ابن يزيد ، قال: سمعت عبد الملك الزراد ، يقول: سمعت النزال بن سبرة صاحب علي، يقول: سمعت سراقة ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " دخلت العمرة في الحج إلى يوم القيامة". قال: وقرن رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع .حَدَّثَنِي مَكِيُّ بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ يَزِيدَ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ الْمَلِكِ الزَّرَّادَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّزَّالَ بْنَ سَبْرَةَ صَاحِبَ عَلِيٍّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ سُرَاقَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " دَخَلَتِ الْعُمْرَةُ فِي الْحَجِّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ". قَالَ: وَقَرَنَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قیامت تک کے لئے عمرہ، حج میں داخل ہوگیا ہے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم حجۃ الوداع میں حج قرآن فرمایا۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف داود، لكنه توبع
حدیث نمبر: 17584
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا محمد بن إسحاق ، عن الزهري ، عن عبد الرحمن بن مالك بن جعشم , عن ابيه ، عن عمه سراقة بن مالك بن جعشم ، قال: سالت رسول الله صلى الله عليه وسلم عن الضالة من الإبل تغشى حياضي، قد لطتها لإبلي، هل لي من اجر في شان ما اسقيها؟ قال:" نعم، في كل ذات كبد حرى اجر" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ , عَنْ أَبِيهِ ، عن عَمِّهِ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ، قَالَ: سَأَلْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ الضَّالَّةِ مِنَ الْإِبِلِ تَغْشَى حِيَاضِي، قَدْ لُطْتُهَا لِإِبِلِي، هَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ فِي شَأْنِ مَا أَسْقِيهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ، فِي كُلِّ ذَاتِ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ" .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ان بھٹکے ہوئے اونٹوں کا مسئلہ پوچھا جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ہر تر جگر رکھنے والے میں اجروثواب ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 17585
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن يزيد المقرئ ، حدثنا موسى بن علي ، قال: سمعت ابي ، يقول: بلغني عن سراقة بن مالك بن جعشم المدلجي ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له:" يا سراقة، الا اخبرك باهل الجنة واهل النار؟" قال: بلى يا رسول الله. قال:" اما اهل النار، فكل جعظري جواظ مستكبر، واما اهل الجنة الضعفاء المغلوبون" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ الْمُقْرِئُ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عَلِيٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: بَلَغَنِي عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ الْمُدْلِجِيِّ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:" يَا سُرَاقَةُ، أَلَا أُخْبِرُكَ بِأَهْلِ الْجَنَّةِ وَأَهْلِ النَّارِ؟" قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:" أَمَّا أَهْلُ النَّارِ، فَكُلُّ جَعْظَرِيٍّ جَوَّاظٍ مُسْتَكْبِرٍ، وَأَمَّا أَهْلُ الْجَنَّةِ الضُّعَفَاءُ الْمَغْلُوبُونَ" .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سراقہ! کیا میں تمہیں اہل جنت اور اہل جہنم کے بارے نہ بتاؤں؟ عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جہنمی تو ہر وہ شخص ہوگا جو سخت دل، تند خو اور متکبر ہو اور جنتی وہ لوگ ہوں گے جو کمزور اور مغلوب ہوں۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد منقطع، على بن رباح لم يسمعه من سراقة
حدیث نمبر: 17586
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الله بن يزيد ، حدثنا موسى بن علي ، قال: سمعت ابي ، يقول: بلغني عن سراقة بن مالك ، يقول: إنه حدث ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال له:" يا سراقة، الا ادلك على اعظم الصدقة" او" من اعظم الصدقة؟" قال: بلى يا رسول الله. قال:" ابنتك مردودة إليك، ليس لها كاسب غيرك" .حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ عُلِيٍّ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبِي ، يَقُولُ: بَلَغَنِي عَنْ سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ ، يَقُولُ: إِنَّهُ حَدَّثَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لَهُ:" يَا سُرَاقَةُ، أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَعْظَمِ الصَّدَقَةِ" أَوْ" مِنْ أَعْظَمِ الصَّدَقَةِ؟" قَالَ: بَلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ. قَالَ:" ابْنَتُكَ مَرْدُودَةٌ إِلَيْكَ، لَيْسَ لَهَا كَاسِبٌ غَيْرَكَ" .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا سراقہ! کیا میں تمہیں سب سے عظیم صدقہ نہ بتاؤں؟ عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمہاری وہ بیٹی جو اپنے شوہر کی وفات یا طلاق کی وجہ سے تمہارے پاس واپس جائے اور تمہارے علاوہ اس کا کوئی کمانے والا نہ ہو۔

حكم دارالسلام: رجاله ثقات غير أن على بن رباح لم يسمعه من سراقة
حدیث نمبر: 17587
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن صالح ، وحدث ابن شهاب ، ان عبد الرحمن بن مالك اخبره، ان سراقة بن جعشم ، دخل على رسول الله صلى الله عليه وسلم في وجعه الذي توفي فيه، قال: فطفقت اسال رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ما اذكر ما اساله عنه. فقال: اذكره. قال: وكان مما سالته عنه ان قلت: يا رسول الله، الضالة تغشى حياضي وقد ملاتها ماء لإبلي، هل لي من اجر في ان اسقيها؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" نعم، في سقي كل كبد حرى اجر لله عز وجل" .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنْ صَالِحٍ ، وَحَدَّثَ ابْنُ شِهَابٍ ، أَنَّ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ مَالِكٍ أَخْبَرَهُ، أَنَّ سُرَاقَةَ بْنَ جُعْشُمٍ ، دَخَلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ الَّذِي تُوُفِّيَ فِيهِ، قَالَ: فَطَفِقْتُ أَسْأَلُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى مَا أَذْكُرُ مَا أَسْأَلُهُ عَنْهُ. فَقَالَ: اذْكُرْهُ. قَالَ: وَكَانَ مِمَّا سَأَلْتُهُ عَنْهُ أَنْ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، الضَّالَّةُ تَغْشَى حِيَاضِي وَقَدْ مَلَأْتُهَا مَاءً لِإِبِلِي، هَلْ لِي مِنْ أَجْرٍ فِي أَنْ أَسْقِيَهَا؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" نَعَمْ، فِي سَقْيِ كُلِّ كَبِدٍ حَرَّى أَجْرٌ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں حاضر خدمت ہوا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھنا شروع کردیئے، حتی کہ میرے پاس سوالات ختم ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ اور یاد کرلو، ان سوالات میں سے ایک سوال میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! وہ بھٹکے ہوئے اونٹ جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا؟ جبکہ میں نے وہ پانی اپنے اونٹوں کے لئے بھرا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ہر تر جگر رکھنے والے میں اجروثواب ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد مرسل، عبدالرحمن بن مالك لم يشهد القصة ، فهو تابعي
حدیث نمبر: 17588
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن الزهري ، عن عروة بن الزبير ، عن سراقة بن مالك ، انه جاء إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم في وجعه، فقال: ارايت الضالة ترد على حوض إبلي، هل لي اجر ان اسقيها؟ فقال:" نعم، في الكبد الحرى اجر" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عن سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّهُ جَاءَ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي وَجَعِهِ، فَقَالَ: أَرَأَيْتَ الضَّالَّةَ تَرِدُ عَلَى حَوْضِ إِبِلِي، هَلْ لِي أَجْرٌ أَنْ أَسْقِيَهَا؟ فَقَالَ:" نَعَمْ، فِي الْكَبِدِ الْحَرَّى أَجْرٌ" .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں حاضر خدمت ہوا، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے سوالات پوچھنا شروع کردیئے، حتی کہ میرے پاس سوالات ختم ہوگئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ اور یاد کرلو، ان سوالات میں سے ایک سوال میں نے یہ بھی پوچھا تھا کہ یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم وہ بھٹکے ہوئے اونٹ جو میرے حوض پر آئیں تو کیا مجھے ان کو پانی پلانے پر اجروثواب ملے گا؟ جبکہ میں نے وہ پانی اپنے اونٹوں کے لئے بھرا ہو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! ہر تر جگر رکھنے والے میں اجروثواب ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح
حدیث نمبر: 17589
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك بن ميسرة ، عن طاوس ، عن سراقة بن مالك بن جعشم ، انه قال: يا رسول الله، ارايت عمرتنا هذه، لعامنا هذا ام للابد؟ فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بل للابد" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ مَيْسَرَةَ ، عن طَاوُسٍ ، عن سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ ، أَنَّهُ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَرَأَيْتَ عُمْرَتَنَا هَذِهِ، لعَامِنَا هَذَا أَمْ لِلْأَبَدِ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بَلْ لِلْأَبَدِ" .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! صلی اللہ علیہ وسلم یہ بتائیے! کیا سفر حج میں عمرہ کا یہ حکم صرف ہمارے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیشہ کے لئے ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد منقطع، طاؤوس لم يسمعه من سراقة
حدیث نمبر: 17590
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا شعبة ، عن عبد الملك ، قال: سمعت طاوسا يحدث، عن سراقة بن جعشم الكناني ولم يسمعه منه، كذا في الحديث، انه سال النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، عمرتنا هذه لعامنا هذا , او للابد؟ قال:" للابد" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ ، قَالَ: سَمِعْتُ طَاوُسًا يُحَدِّثُ، عن سُرَاقَةَ بْنِ جُعْشُمٍ الْكِنَانِيِّ وَلَمْ يَسْمَعْهُ مِنْهُ، كَذَا فِي الْحَدِيثِ، أَنَّهُ سَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، عُمْرَتُنَا هَذِهِ لِعَامِنَا هَذَا , أَوْ لِلْأَبَدِ؟ قَالَ:" لِلْأَبَدِ" .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا یا رسول اللہ! یہ بتائیے! کیا سفر حج میں عمرہ کا یہ حکم صرف ہمارے لئے ہے یا ہمیشہ کے لئے ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمیشہ کے لئے ہے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا الإسناد منقطع، طاؤوس لم يسمعه من سراقة
حدیث نمبر: 17591
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا عبد الرزاق ، عن معمر ، عن الزهري ، اخبرني عبد الرحمن بن مالك المدلجي وهو ابن اخي سراقة بن مالك بن جعشم، ان اباه اخبره، انه سمع سراقة ، يقول: جاءنا رسل كفار قريش، يجعلون في رسول الله صلى الله عليه وسلم وفي ابي بكر رضي الله عنه دية كل واحد منهما لمن قتلهما، او اسرهما، فبينا انا جالس في مجلس من مجالس قومي، بني مدلج، اقبل رجل منهم حتى قام علينا، فقال: يا سراقة، إني رايت آنفا اسودة بالساحل، إني اراها محمدا واصحابه. قال سراقة: فعرفت انهم هم، فقلت: إنهم ليسوا بهم، ولكن رايت فلانا وفلانا انطلقا آنفا، قال: ثم لبثت في المجلس ساعة، حتى قمت، فدخلت بيتي، فامرت جاريتي ان تخرج لي فرسي، وهي من وراء اكمة، فتحبسها علي، واخذت رمحي، فخرجت به من ظهر البيت، فخططت برمحي الارض، وخفضت عالية الرمح حتى اتيت فرسي، فركبتها، فرفعتها تقرب بي، حتى رايت اسودتهما. فلما دنوت منهم حيث يسمعهم الصوت، عثرت بي فرسي، فخررت عنها، فقمت، فاهويت بيدي إلى كنانتي، فاستخرجت منها الازلام، فاستقسمت بها، اضرهم ام لا؟ فخرج الذي اكره ان لا اضرهم، فركبت فرسي، وعصيت الازلام , فرفعتها تقرب بي، حتى إذا دنوت منهم، عثرت بي فرسي، فخررت عنها، فقمت، فاهويت بيدي إلى كنانتي، فاخرجت الازلام، فاستقسمت بها، فخرج الذي اكره ان لا اضرهم , فعصيت الازلام، وركبت فرسي، فرفعتها تقرب بي، حتى إذا سمعت قراءة النبي صلى الله عليه وسلم، وهو لا يلتفت، وابو بكر رضي الله عنه يكثر الالتفات ساخت يدا فرسي في الارض حتى بلغت الركبتين، فخررت عنها فزجرتها، فنهضت فلم تكد تخرج يديها، فلما استوت قائمة إذا لاثر يديها عثان ساطع في السماء مثل الدخان. قال معمر قلت لابي عمرو بن العلاء: ما العثان؟ فسكت ساعة، ثم قال: هو الدخان من غير نار. قال الزهري في حديثه: فاستقسمت بالازلام، فخرج الذي اكره ان لا اضرهم، فناديتهما بالامان، فوقفا، فركبت فرسي حتى جئتهم، فوقع في نفسي حين لقيت ما لقيت من الحبس عنهم انه سيظهر امر رسول الله صلى الله عليه وسلم. فقلت له: إن قومك قد جعلوا فيك الدية، واخبرتهم من اخبار سفرهم، وما يريد الناس بهم، وعرضت عليهم الزاد والمتاع، فلم يرزءوني شيئا، ولم يسالوني، إلا ان اخف عنا، فسالته ان يكتب لي كتاب موادعة آمن به، فامر عامر بن فهيرة، فكتب لي في رقعة من اديم، ثم مضى .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، عَنْ مَعْمَرٍ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَالِكٍ الْمُدْلِجِيُّ وَهُوَ ابْنُ أَخِي سُرَاقَةَ بْنِ مَالِكِ بْنِ جُعْشُمٍ، أَنَّ أَبَاهُ أَخْبَرَهُ، أَنَّهُ سَمِعَ سُرَاقَةَ ، يَقُولُ: جَاءَنَا رُسُلُ كُفَّارِ قُرَيْشٍ، يَجْعَلُونَ فِي رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَفِي أَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ دِيَةَ كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا لِمَنْ قَتَلَهُمَا، أَوْ أَسَرَهُمَا، فَبَيْنَا أَنَا جَالِسٌ فِي مَجْلِسٍ مِنْ مَجَالِسِ قَوْمِي، بَنِي مُدْلِجٍ، أَقْبَلَ رَجُلٌ مِنْهُمْ حَتَّى قَامَ عَلَيْنَا، فَقَالَ: يَا سُرَاقَةُ، إِنِّي رَأَيْتُ آنِفًا أَسْوَدَةً بِالسَّاحِلِ، إِنِّي أُرَاهَا مُحَمَّدًا وَأَصْحَابَهُ. قَالَ سُرَاقَةُ: فَعَرَفْتُ أَنَّهُمْ هُمْ، فَقُلْتُ: إِنَّهُمْ لَيْسُوا بِهِمْ، وَلَكِنْ رَأَيْتُ فُلَانًا وَفُلَانًا انْطَلَقَا آنِفًا، قَالَ: ثُمَّ لَبِثْتُ فِي الْمَجْلِسِ سَاعَةً، حَتَّى قُمْتُ، فَدَخَلْتُ بَيْتِي، فَأَمَرْتُ جَارِيَتِي أَنْ تُخْرِجَ لِي فَرَسِي، وَهِيَ مِنْ وَرَاءِ أَكَمَةٍ، فَتَحْبِسَهَا عَلَيَّ، وَأَخَذْتُ رُمْحِي، فَخَرَجْتُ بِهِ مِنْ ظَهْرِ الْبَيْتِ، فَخَطَطْتُ بِرُمْحِي الْأَرْضَ، وَخَفَضْتُ عَالِيَةَ الرُّمْحِ حَتَّى أَتَيْتُ فَرَسِي، فَرَكِبْتُهَا، فَرَفَعْتُهَا تُقَرَّبُ بِي، حَتَّى رَأَيْتُ أَسْوَدَتَهُمَا. فَلَمَّا دَنَوْتُ مِنْهُمْ حَيْثُ يُسْمِعُهُمْ الصَّوْتُ، عَثَرَتْ بِي فَرَسِي، فَخَرَرْتُ عَنْهَا، فَقُمْتُ، فَأَهْوَيْتُ بِيَدَيَّ إِلَى كِنَانَتِي، فَاسْتَخْرَجْتُ مِنْهَا الْأَزْلَامَ، فَاسْتَقْسَمْتُ بِهَا، أَضُرُّهُمْ أَمْ لَا؟ فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ أَنْ لَا أَضُرَّهُمْ، فَرَكِبْتُ فَرَسِي، وَعَصَيْتُ الْأَزْلَامَ , فَرَفَعْتُهَا تُقَرَّبُ بِي، حَتَّى إِذَا دَنَوْتُ مِنْهُمْ، عَثَرَتْ بِي فَرَسِي، فَخَرَرْتُ عَنْهَا، فَقُمْتُ، فَأَهْوَيْتُ بِيَدَي إِلَى كِنَانَتِي، فَأَخْرَجْتُ الْأَزْلَامَ، فَاسْتَقْسَمْتُ بِهَا، فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ أَنْ لَا أَضُرَّهُمْ , فَعَصَيْتُ الْأَزْلَامَ، وَرَكِبْتُ فَرَسِي، فَرَفَعْتُهَا تَقَرَّبُ بِي، حَتَّى إِذَا سَمِعْتُ قِرَاءَةَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَهُوَ لَا يَلْتَفِتُ، وَأَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يُكْثِرُ الِالْتِفَاتَ سَاخَتْ يَدَا فَرَسِي فِي الْأَرْضِ حَتَّى بَلَغَتْ الرُّكْبَتَيْنِ، فَخَرَرْتُ عَنْهَا فَزَجَرْتُهَا، فَنَهَضْتْ فَلَمْ تَكَدْ تُخْرِجُ يَدَيْهَا، فَلَمَّا اسْتَوَتْ قَائِمَةً إِذَا لأَثَرِ يديها عُثَانٌ سَاطِعٌ فِي السَّمَاءِ مِثْلُ الدُّخَانِ. قَالَ مَعْمَرٌ قُلْتُ لِأَبِي عَمْرِو بْنِ الْعَلَاءِ: مَا الْعُثَانُ؟ فَسَكَتَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ: هُوَ الدُّخَانُ مِنْ غَيْرِ نَارٍ. قَالَ الزُّهْرِيُّ فِي حَدِيثِهِ: فَاسْتَقْسَمْتُ بِالْأَزْلَامِ، فَخَرَجَ الَّذِي أَكْرَهُ أَنْ لَا أَضُرَّهُمْ، فَنَادَيْتُهُمَا بِالْأَمَانِ، فَوَقَفَا، فَرَكِبْتُ فَرَسِي حَتَّى جِئْتُهُمْ، فَوَقَعَ فِي نَفْسِي حِينَ لَقِيتُ مَا لَقِيتُ مِنَ الْحَبْسِ عَنْهُمْ أَنَّهُ سَيَظْهَرُ أَمْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّ قَوْمَكَ قَدْ جَعَلُوا فِيكَ الدِّيَةَ، وَأَخْبَرْتُهُمْ مِنْ أَخْبَارِ سَفَرِهِمْ، وَمَا يُرِيدُ النَّاسُ بِهِمْ، وَعَرَضْتُ عَلَيْهِمْ الزَّادَ وَالْمَتَاعَ، فَلَمْ يَرْزَءُوني شَيْئًا، وَلَمْ يَسْأَلُونِي، إِلَّا أَنْ أَخْفِ عَنَّا، فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَكْتُبَ لِي كِتَابَ مُوَادَعَةٍ آمَنُ بِهِ، فَأَمَرَ عَامِرَ بْنَ فُهَيْرَةَ، فَكَتَبَ لِي فِي رُقْعَةٍ مِنْ أَدِيمٍ، ثُمَّ مَضَى .
حضرت سراقہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے (میرے قبول اسلام سے پہلے ہجرت کے موقع پر) کفار قریش کے کچھ قاصد ہمارے پاس آئے اور بتایا کہ قریش نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ کو شہید یا قید کرنے والے کے لئے پوری پوری دیت (سو اونٹوں) کا اعلان کیا ہے، ابھی میں اپنی قوم بنو مدلج کی مجلس میں بیٹھا ہوا تھا کہ ایک آدمی آیا اور ہمارے پاس کھڑے ہو کر کہنے لگا اے سراقہ! میں نے ابھی ساحل کی طرف کچھ لوگوں کو جاتے ہوئے دیکھا ہے، میرا خیال ہے کہ وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے ساتھی ہیں، سراقہ کہتے ہیں کہ میں سمجھ گیا یہ وہی لوگ ہیں لیکن میں نے ان سے کہہ دیا کہ یہ وہ لوگ نہیں ہیں، تم نے فلاں فلاں شخص کو دیکھا ہوگا جو ابھی ابھی یہاں سے گذر کر گئے ہیں۔ پھر میں تھوڑی دیر تک اس مجلس میں بیٹھا رہا، اس کے بعد میں کھڑا ہوا اور گھر چلا گیا اور اپنی باندی کو حکم دیا کہ ٹیلے کے پیچھے میرا گھوڑا لے جائے اور میرا انتظار کرے، پھر میں نے اپنا نیزہ سنبھالا اور گھر سے نکل پڑا، میں اپنے نیزے سے زمین پر لکیر کھینچتا چلا جا رہا تھا کہ اپنے گھوڑے کے پاس پہنچ گیا، میں اس پر سوار ہوا اور اسے سرپٹ دوڑا دیا، میں ان کے اتنا قریب پہنچ گیا کہ ان کا جسم مجھے نظر آنے لگا۔ جب میں ان دونوں کے اتنا قریب ہوا کہ ان کی آواز سنی جاسکتی تھی تو میرا گھوڑا ٹھوکر کھا کر گرپڑا اور میں بھی اس سے نیچے آپڑا، میں زمین سے اٹھا اور اپنے ترکش سے تیر نکالے اور فال نکالنے لگا کہ انہیں نقصان پہنچاؤں یا نہیں؟ فال میں وہ تیر نکل آیا جو مجھے ناپسد تھا یعنی انہیں نقصان نہ پہنچاؤں، لیکن میں نے تیر کی بات کو ہوا میں اڑا دیا اور دوبارہ گھوڑے پر سوار ہوگیا، لیکن دوسری مرتبہ پھر اسی طرح ہوا، تیسری مرتبہ جب میں قریب پہنچا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی قرأت سنائی دینے لگی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم دائیں بائیں نہیں دیکھ رہے تھے لیکن حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ بار بار ادھر ادھر دیکھتے تھے تو میرے گھوڑے کے اگلے دونوں پاؤں گھٹنوں تک زمین میں دھنس گئے اور میں گرپڑا۔ میں نے ڈانٹ کر اپنے گھوڑے کو اٹھایا، وہ اٹھ تو گیا لیکن اس کے پاؤں باہر نہیں نکل سکے اور جب وہ سیدھا کھڑا ہوا تو وہاں سے دھوئیں کا ایک بادل آسمان تک چھا گیا، میں نے ایک مرتبہ پھر تیروں سے فال نکالی تو حسب سابق وہی تیر نکلا جو مجھے ناپسند تھا، یعنی انہیں نقصان نہ پہنچاؤں، چنانچہ میں نے ان دونوں کو آواز دے کر اپنی طرف سے اطمینان دلایا اور وہ رک گئے میں اپنے گھوڑے پر سوار ہو کر ان کے پاس پہنچ گیا۔ جب میرے ساتھ یہ معاملہ پیش آیا تو اسی وقت میرے دل میں یہ بات جاگزیں ہوگئی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا دین غالب آکر رہے گا، چنانچہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عرض کیا کہ آپ کی قوم نے آپ کے لئے دیت کا اعلان کردیا ہے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے سفر پر نکل پڑنے اور لوگوں کی جاسوسی کے متعلق سب کچھ بتادیا، پھر میں نے انہیں زاد راہ اور سامان سفر کی پیشکش کی، لیکن انہوں نے مجھ سے کچھ نہیں لیا اور مجھ سے یہی مطالبہ کیا کہ میں ان کے متعلق ان تمام حالات کو مخفی رکھوں، میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ میرے لئے پروانہ امن لکھ دیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عامر بن فہیرہ کو حکم دیا اور انہوں نے چمڑے کے ایک رقعے میں میرے لئے پروانہ امن لکھ دیا اور پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگے روانہ ہوگئے۔

حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.