حدثنا محمد بن ابي عدي , عن سليمان يعني التيمي , عن سيار , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " فضلني ربي على الانبياء عليهم الصلاة والسلام , او قال: على الامم باربع , قال: ارسلت إلى الناس كافة , وجعلت الارض كلها لي ولامتي مسجدا وطهورا , فاينما ادركت رجلا من امتي الصلاة فعنده مسجده , وعنده طهوره , ونصرت بالرعب مسيرة شهر يقذفه في قلوب اعدائي , واحل لنا الغنائم" ..حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ , عَنْ سُلَيْمَانَ يَعْنِي التَّيْمِيَّ , عَنْ سَيَّارٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فَضَّلَنِي رَبِّي عَلَى الْأَنْبِيَاءِ عَلَيْهِمْ الصَّلَاةُ وَالسَّلَامُ , أَوْ قَالَ: عَلَى الْأُمَمِ بِأَرْبَعٍ , قَالَ: أُرْسِلْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً , وَجُعِلَتْ الْأَرْضُ كُلُّهَا لِي وَلِأُمَّتِي مَسْجِدًا وَطَهُورًا , فَأَيْنَمَا أَدْرَكَتْ رَجُلًا مِنْ أُمَّتِي الصَّلَاةُ فَعِنْدَهُ مَسْجِدُهُ , وَعِنْدَهُ طَهُورُهُ , وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مَسِيرَةَ شَهْرٍ يَقْذِفُهُ فِي قُلُوبِ أَعْدَائِي , وَأَحَلَّ لَنَا الْغَنَائِمَ" ..
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام انبیاء (علیہم السلام) یا امتوں پر مجھے چار فضیلتیں عطاء فرمائی ہیں مجھے ساری انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہے روئے زمین کو میرے لئے اور میری امت کے لئے سجدہ گاہ اور طہارت کا ذریعہ بنادیا گیا ہے چنانچہ میری امت پر جہاں بھی نماز کا وقت آجائے تو وہی اس کی مسجد ہے اور وہیں اس کی طہارت کے لئے مٹی موجود ہے اور ایک ماہ کی مسافت پر رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے جو میرے دشمنوں کے دلوں میں پیدا ہوجاتا ہے اور ہمارے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لے آیا اور اس شخص کے لئے بھی خوشخبری ہے جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لے آئے سات مرتبہ فرمایا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أيمن
حدثنا روح , عن هشام , عن واصل مولى ابي عيينة , عن محمد بن ابي يعقوب , عن رجاء بن حيوة , عن ابي امامة , قال: انشا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوة فاتيته , فقلت: يا رسول الله , ادع الله لي بالشهادة , فقال: " اللهم سلمهم وغنمهم" , قال: فسلمنا وغنمنا , قال: ثم انشا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوا ثانيا , فاتيته , فقلت: يا رسول الله , ادع الله لي بالشهادة , فقال:" اللهم سلمهم وغنمهم" , قال: ثم انشا غزوا ثالثا , فاتيته , فقلت: يا رسول الله , إني اتيتك مرتين قبل مرتي هذه , فسالتك ان تدعو الله لي بالشهادة , فدعوت الله عز وجل ان يسلمنا ويغنمنا , فسلمنا وغنمنا , يا رسول الله , فادع الله لي بالشهادة , فقال:" اللهم سلمهم وغنمهم" , قال: فسلمنا وغنمنا , ثم اتيته , فقلت: يا رسول الله , مرني بعمل , قال:" عليك بالصوم , فإنه لا مثل له" , قال: فما رئي ابو امامة , ولا امراته , ولا خادمه إلا صياما , قال: فكان إذا رئي في دارهم دخان بالنهار , قيل: اعتراهم ضيف , نزل بهم نازل , قال: فلبث بذلك ما شاء الله , ثم اتيته , فقلت: يا رسول الله , امرتنا بالصيام , فارجو ان يكون قد بارك الله لنا فيه , يا رسول الله , فمرني بعمل آخر , قال:" اعلم انك لن تسجد لله سجدة إلا رفع الله لك بها درجة , وحط عنك بها خطيئة" ..حَدَّثَنَا رَوْحٌ , عَنْ هِشَامٍ , عَنْ وَاصِلٍ مَوْلَى أَبِي عُيَيْنَةَ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ , عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: أَنْشَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوَةً فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ادْعُ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , فَقَالَ: " اللَّهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ" , قَالَ: فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا , قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوًا ثَانِيًا , فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ادْعُ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , فَقَالَ:" اللَّهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ" , قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ غَزْوًا ثَالِثًا , فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أَتَيْتُكَ مَرَّتَيْنِ قَبْلَ مَرَّتِي هَذِهِ , فَسَأَلْتُكَ أَنْ تَدْعُوَ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , فَدَعَوْتَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُسَلِّمَنَا وَيُغَنِّمَنَا , فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا , يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَادْعُ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , فَقَالَ:" اللَّهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ" , قَالَ: فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا , ثُمَّ أَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مُرْنِي بِعَمَلٍ , قَالَ:" عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ , فَإِنَّهُ لَا مِثْلَ لَهُ" , قَالَ: فَمَا رُئِيَ أَبُو أُمَامَةَ , وَلَا امْرَأَتُهُ , وَلَا خَادِمُهُ إِلَّا صُيَّامًا , قَالَ: فَكَانَ إِذَا رُئِيَ فِي دَارِهِمْ دُخَانٌ بِالنَّهَارِ , قِيلَ: اعْتَرَاهُمْ ضَيْفٌ , نَزَلَ بِهِمْ نَازِلٌ , قَالَ: فَلَبِثَ بِذَلِكَ مَا شَاءَ اللَّهُ , ثُمَّ أَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَمَرْتَنَا بِالصِّيَامِ , فَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ قَدْ بَارَكَ اللَّهُ لَنَا فِيهِ , يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَمُرْنِي بِعَمَلٍ آخَرَ , قَالَ:" اعْلَمْ أَنَّكَ لَنْ تَسْجُدَ لِلَّهِ سَجْدَةً إِلَّا رَفَعَ اللَّهُ لَكَ بِهَا دَرَجَةً , وَحَطَّ عَنْكَ بِهَا خَطِيئَةً" ..
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر ترتییب دیا (جس میں میں بھی تھا) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے حق میں اللہ سے شہادت کی دعاء کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء کی کہ اے اللہ! انہیں سلامت رکھ اور مال غنیمت عطاء فرما، چنانچہ ہم مال غنیمت کے ساتھ صحیح سالم واپس آگئے (دو بارہ لشکر ترتیب دیا تو پھر میں نے یہی عرض کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعاء دی) تیسری مرتبہ جب لشکر ترتیب دیا تو میں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس سے پہلے بھی دو مرتبہ آپ کے پاس آچکا ہوں، میں نے آپ سے یہ درخواست کی تھی کہ اللہ سے میرے حق میں شہادت کی دعاء کر دیجئے لیکن آپ نے سلامتی اور غنیمت کی دعاء کی اور ہم مال غنیمت لے کر صحیح سالم واپس آگئے لہٰذا یا رسول اللہ! اب تو میرے لئے شہادت کی دعا فرما دیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سلامتی اور غنیمت کی دعاء کی اور ہم مال غنیمت لے کر صحیح سالم واپس آگئے۔
اس کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کسی عمل کا حکم دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اوپر روزے کو لازم کرلو کیونکہ روزے کی حالت ہی میں ملے اور اگر دن کے وقت ان کے گھر سے دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دیتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے یہاں کوئی مہمان آیا ہے۔
حضرت امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عرصہ تک میں اس پر عمل کرتا رہاجب تک اللہ کو منظور ہوا پھر میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا مجھے امید ہے کہ اللہ نے ہمیں اس کی برکتیں عطاء فرمائی ہیں اب مجھے کوئی اور عمل بتا دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات پر یقین رکھو کہ اگر تم اللہ کے لئے ایک سجدہ کرو گے تو اللہ اس کی برکت سے تمہارا ایک درجہ بلند کر دے گا اور ایک گناہ معاف کر دے گا۔
حدثنا عبد الله , حدثنا فطر بن حماد , حدثنا ابي , قال: سمعت مالك بن دينار , يقول: يقول الناس: مالك بن دينار يعني: مالك بن دينار زاهد " إنما الزاهد عمر بن عبد العزيز الذي اتته الدنيا , فتركها" .حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ , حَدَّثَنَا فِطْرُ بْنُ حَمَّادٍ , حَدَّثَنَا أَبِي , قَالَ: سَمِعْتُ مَالِكَ بْنَ دِينَارٍ , يَقُولُ: يَقُولُ النَّاسُ: مَالِكُ بْنُ دِينَارٍ يَعْنِي: مَالِكَ بْنَ دِينَارٍ زَاهِدٌ " إِنَّمَا الزَّاهِدُ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ الَّذِي أَتَتْهُ الدُّنْيَا , فَتَرَكَهَا" .
مالک بن دینار رحمہ اللہ فرمایا کرتے تھے لوگوں کا خیال ہے کہ مالک بن دینار بڑا پرہیزگار ہے اصل پرہیز تو عمر بن عبدالعزیز رحمہ اللہ ہیں جن کے پاس دنیا آئی اور پھر بھی انہوں نے اسے چھوڑ دیا۔
حكم دارالسلام: هذا الأثر فى زهد عمر بن عبدالعزيز، ولا تعلق له بمسند أبى أمامة، و إسناده ضعيف، حماد بن واقد متفق على ضعفه وفطر بن حماد مختلف فيه
حدثنا هشام بن عبد الملك , حدثنا ابو عوانة , عن حصين , عن سالم , ان ابا امامة حدث , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , انه قال: " من قال: الحمد لله عدد ما خلق , والحمد لله ملء ما خلق , والحمد لله عدد ما في السموات والارض , والحمد لله ملء ما في السموات والارض , والحمد لله عدد ما احصى كتابه , والحمد لله ملء ما احصى كتابه , والحمد لله عدد كل شيء , والحمد لله ملء كل شيء , وسبحان الله مثلها , فاعظم ذلك" .حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَبْدِ الْمَلِكِ , حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ , عَنْ حُصَيْنٍ , عَنْ سَالِمٍ , أَنَّ أَبَا أُمَامَةَ حَدَّثَ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَنَّهُ قَالَ: " مَنْ قَالَ: الْحَمْدُ لِلَّهِ عَدَدَ مَا خَلَقَ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِلْءَ مَا خَلَقَ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَدَدَ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِلْءَ مَا فِي السَّمَوَاتِ وَالْأَرْضِ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَدَدَ مَا أَحْصَى كِتَابُهُ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِلْءَ مَا أَحْصَى كِتَابُهُ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ عَدَدَ كُلِّ شَيْءٍ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ مِلْءَ كُلِّ شَيْءٍ , وَسُبْحَانَ اللَّهِ مِثْلَهَا , فَأَعْظِمْ ذَلِكَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص یہ کلمات کہہ لے اسے عظمت نصیب ہوگی تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اس کی مخلوقات کی تعداد کے برابر تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اس کی مخلوقات کے بھرپور ہونے کے بقدر تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں آسمان و زمین کی چیزوں کی تعداد کے برابر تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں آسمان و زمین کے بھرپور کے بقدر، تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں اس کی تقدیر کے احاطے میں آنے والی چیزوں کی تعداد کے برابر تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں احاطہ تقدیر میں آنے والی چیزوں کے بھرپور ہونے کے بقدر تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ہر چیز کی تعداد کے برابر تمام تعریفیں اللہ کے لئے ہیں ہر چیز کے بھرپور ہونے کے بقدر اور اسی طرح اللہ کی پاکیزگی ہے۔
حدثنا عبد الصمد , حدثنا حماد , عن الجريري , عن ابي المشاء وهو لقيط بن المشاء , عن ابي امامة , قال: لا تقوم الساعة حتى يتحول خيار اهل العراق إلى الشام , ويتحول شرار اهل الشام إلى العراق , وقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" عليكم بالشام" , قال ابو عبد الرحمن: ابو المشاء يقال له: لقيط , ويقولون: ابن المشاء , وابو المشاء.حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنِ الْجُرَيْرِيِّ , عَنْ أَبِي الْمَشَّاءِ وَهُوَ لَقِيطُ بْنُ الْمَشَّاءِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: لَا تَقُومُ السَّاعَةُ حَتَّى يَتَحَوَّلَ خِيَارُ أَهْلِ الْعِرَاقِ إِلَى الشَّامِ , وَيَتَحَوَّلَ شِرَارُ أَهْلِ الشَّامِ إِلَى الْعِرَاقِ , وَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" عَلَيْكُمْ بِالشَّامِ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: أَبُو الْمشاء يُقَالُ لَهُ: لَقِيطٌ , وَيَقُولُونَ: ابْنُ الْمشاء , وَأَبُو الْمشاء.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قیامت اس وقت تک قائم نہیں ہوگی جب تک عراق کے بہترین لوگ شام اور شام کے بدترین لوگ عراق منتقل نہ ہوجائیں اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ تم شام کو اپنے اوپر لازم پکڑو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو المشاء لقيط بن المشاء يخطئ ويخالف
حدثنا عبد الملك بن عمرو , حدثنا هشام , عن يحيى بن ابي كثير , , عن ابي سلام , عن ابي امامة , حدثه , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " اقرؤا القرآن فإنه شافع لاصحابه يوم القيامة , اقرءوا الزهراوين: البقرة وآل عمران , فإنهما ياتيان يوم القيامة كانهما غمامتان , او كانهما غيايتان , او كانهما فرقان من طير صواف , يحاجان عن اهلهما" , ثم قال:" اقرؤا البقرة فإن اخذها بركة , وتركها حسرة , ولا يستطيعها البطلة" ..حَدَّثَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ بْنُ عَمْرٍو , حَدَّثَنَا هِشَامٌ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ , , عَنْ أَبِي سَلَّامٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , حَدَّثَهُ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " اقْرَؤا الْقُرْآنَ فَإِنَّهُ شَافِعٌ لِأَصْحَابِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ: الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ , فَإِنَّهُمَا يَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ , أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ , أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ , يُحَاجَّانِ عَنْ أَهْلِهِمَا" , ثُمَّ قَالَ:" اقْرَؤا الْبَقَرَةَ فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ , وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ , وَلَا يَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ" ..
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا دو روشن سورتیں یعنی سورت بقرہ اور آل عمران کی تلاوت کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن سائبانوں کی شکل یا پرندوں کی دو صف بستہ ٹولیوں کی شکل میں آئیں گی اور اپنے پڑھنے والوں کا دفاع کریں گی پھر فرمایا سورت بقرہ کی تلاوت کیا کرو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت ہے اور باطل (جادوگر) اس کی طاقت نہیں رکھتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، يحيى بن أبى كثير لم يسمعه من أبى سلام، لكنه توبع
حدثنا محمد بن عبيد , حدثنا الاعمش , عن شيخ , عن ابي امامة , قال: ضحك رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقلنا: ما يضحكك يا رسول الله , قال: " عجبت من قوم يقادون في السلاسل إلى الجنة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ شَيْخٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قالَ: ضَحِكَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْنَا: مَا يُضْحِكُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَالَ: " عَجِبْتُ مِنْ قَوْمٍ يُقَادُونَ فِي السَّلَاسِلِ إِلَى الْجَنَّةِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تعجب ہوتا ہے اس قوم پر جسے زنجیروں میں جکڑ کر جنت کی طرف لے جایا جاتا ہے۔ (ان کے اعمال انہیں جہنم کی طرف لے جا رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ کی نظر کرم انہیں جنت کی طرف لے جا رہی ہوتی ہے)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لابهام الراوي عن أبى أمامة
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کسی عمل کا حکم دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرا دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اوپر روزے کو لازم کرلو کیونکہ روزے جیسا کوئی عمل نہیں ہے پھر میں دوبارہ بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا روزے ہی کو اپنے اوپر لازم رکھو۔
حدثنا ابو سعيد , حدثنا عبد الله بن بجير , حدثنا سيار , ان ابا امامة ذكر , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " يكون في هذه الامة في آخر الزمان رجال , او قال: يخرج رجال من هذه الامة في آخر الزمان , معهم اسياط كانها اذناب البقر , يغدون في سخط الله , ويروحون في غضبه" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُجَيْرٍ , حَدَّثَنَا سَيَّارٌ , أَنَّ أَبَا أُمَامَةَ ذَكَرَ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " يَكُونُ فِي هَذِهِ الْأُمَّةِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ رِجَالٌ , أَوْ قَالَ: يَخْرُجُ رِجَالٌ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ فِي آخِرِ الزَّمَانِ , مَعَهُمْ أَسْيَاطٌ كَأَنَّهَا أَذْنَابُ الْبَقَرِ , يَغْدُونَ فِي سَخَطِ اللَّهِ , وَيَرُوحُونَ فِي غَضَبِهِ" .
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اس امت کے آخری زمانے میں کچھ لوگ ایسے آئیں گے جن کے ہاتھوں میں گائے کی دموں کی طرح کوڑے ہوں گے ان کی صبح اللہ کی ناراضگی میں اور شام اس کے غضب میں گذرے گی۔
حدثنا ابو سعيد , حدثنا عبد الله بن بجير , حدثنا سيار , قال: جيء برءوس من قبل العراق , فنصبت عند باب المسجد , وجاء ابو امامة فدخل المسجد , فركع ركعتين , ثم خرج إليهم , فنظر إليهم , فرفع راسه , فقال: " شر قتلى تحت ظل السماء ثلاثا , وخير قتلى تحت ظل السماء من قتلوه , وقال: كلاب النار ثلاثا , ثم إنه بكى , ثم انصرف عنهم , فقال له قائل: يا ابا امامة , ارايت هذا الحديث حيث قلت: كلاب النار , شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , او شيء تقوله برايك؟ قال: سبحان الله , إني إذا لجريء , لو سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم مرة او مرتين , حتى ذكر سبعا , لخلت ان لا اذكره , فقال الرجل: لاي شيء بكيت؟ قال: رحمة لهم , او من رحمتهم .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُجَيْرٍ , حَدَّثَنَا سَيَّارٌ , قَالَ: جِيءَ بِرُءُوسٍ مِنْ قِبَلِ الْعِرَاقِ , فَنُصِبَتْ عِنْدَ بَابِ الْمَسْجِدِ , وَجَاءَ أَبُو أُمَامَةَ فَدَخَلَ الْمَسْجِدَ , فَرَكَعَ رَكْعَتَيْنِ , ثُمَّ خَرَجَ إِلَيْهِمْ , فَنَظَرَ إِلَيْهِمْ , فَرَفَعَ رَأْسَهُ , فَقَالَ: " شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ ثَلَاثًا , وَخَيْرُ قَتْلَى تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ مَنْ قَتَلُوهُ , وَقَالَ: كِلَابُ النَّارِ ثَلَاثًا , ثُمَّ إِنَّهُ بَكَى , ثُمَّ انْصَرَفَ عَنْهُمْ , فَقَالَ لَهُ قَائِلٌ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , أَرَأَيْتَ هَذَا الْحَدِيثَ حَيْثُ قُلْتَ: كِلَابُ النَّارِ , شَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , أَوْ شَيْءٌ تَقُولُهُ بِرَأْيِكَ؟ قَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ , إِنِّي إِذًا لَجَرِيءٌ , لَوْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَرَّةً أَوْ مَرَّتَيْنِ , حَتَّى ذَكَرَ سَبْعًا , لَخِلْتُ أَنْ لَا أَذْكُرَهُ , فَقَالَ الرَّجُلُ: لِأَيِّ شَيْءٍ بَكَيْتَ؟ قَالَ: رَحْمَةً لَهُمْ , أَوْ مِنْ رَحْمَتِهِمْ .
سیار کہتے ہیں کہ عراق سے کچھ لوگوں کے سر لا کر مسجد کے دروازے پر لٹکا دیئے گئے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ آئے اور مسجد میں داخل ہو کردو رکعتیں پڑھیں اور باہر نکل کر ان کی طرف سر اٹھا کر دیکھا اور تین مرتبہ فرمایا آسمان کے سائے تلے سب سے بدترین مقتول ہیں اور آسمان کے سائے تلے سب سے بہترین مقتول وہ تھا جسے انہوں نے شہید کردیا پھر تین مرتبہ فرمایا جہنم کے کتے ہیں اور رونے لگے۔ تھوڑے دیر بعد جب واپس ہوئے تو کسی نے پوچھا اے ابو امامہ! یہ جو آپ نے " جہنم کے کتے " کہا یہ بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں، انہوں نے فرمایا سبحان اللہ! اگر میں نے کوئی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سات مرتبہ تک سنی ہو اور پھر درمیان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نکال دوں تو میں بڑا جری ہوں گا، اس نے پوچھا کہ پھر آپ روئے کیوں تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے ان پر ترس آرہا تھا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے تم میں سے کوئی شخص پیشاب وغیرہ کو زبردستی روک کر نماز کے لئے مت آیا کرے کوئی شخص اجازت لئے بغیر گھر میں داخل نہ ہو اور جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے وہ لوگوں کو چھوڑ کر صرف اپنے لئے دعاء نہ مانگے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: ولا يؤمن... وهذا إسناد ضعيف لضعف السفر بن نسير، ثم قد اختلف فيه على يزيد بن شريح
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی یتیم کے سر پر ہاتھ پھیرے اور صرف اللہ کی رضا کے لئے پھیرے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پھر جائے گا، اسے ہر بال کے بدلے نیکیاں ملیں گی اور جو شخص اپنے زیر تربیت کسی یتیم بچے یا بچی کے ساتھ حسن سلوک کرے میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت والی اور درمیانی انگلی میں تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر دکھایا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون الشطر الأول منه بقصة المسح على رأس اليتيم، وهذا إسناد ضعيف جدا، فيه على بن يزيد ضعيف، وعبيد الله بن زحر ضعيف أيضا
حدثنا حسن بن موسى , وعفان , قالا: حدثنا حماد بن سلمة , قال عفان: اخبرنا ابو غالب , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اقبل من خيبر ومعه غلامان , وهب احدهما لعلي بن ابي طالب , وقال: " لا تضربه , فإني قد نهيت عن ضرب اهل الصلاة , وقد رايته يصلي" , قال عفان في حديثه: اخبرنا ابو طالب , عن ابي امامة , ان النبي صلى الله عليه وسلم اقبل من خيبر ومعه غلامان , فقال علي: يا رسول الله , اخدمنا , قال:" خذ ايهما شئت" , قال: خر لي , قال:" خذ هذا ولا تضربه , فإني قد رايته يصلي مقبلنا من خيبر , وإني قد نهيت" , واعطى ابا ذر غلاما , وقال:" استوص به معروفا" , فاعتقه , فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ما فعل الغلام؟" , قال: يا رسول الله , امرتني ان استوصي به معروفا , فاعتقته .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى , وَعَفَّانُ , قَالَا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , قَالَ عَفَّانُ: أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ مِنْ خَيْبَرَ وَمَعَهُ غُلَامَانِ , وَهَبَ أَحَدَهُمَا لِعَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ , وَقَالَ: " لَا تَضْرِبْهُ , فَإِنِّي قَدْ نَهَيْتُ عَنْ ضَرْبِ أَهْلِ الصَّلَاةِ , وَقَدْ رَأَيْتُهُ يُصَلِّي" , قَالَ عَفَّانُ فِي حَدِيثِهِ: أَخْبَرَنَا أَبُو طَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ مِنْ خَيْبَرَ وَمَعَهُ غُلَامَانِ , فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَخْدِمْنَا , قَالَ:" خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ" , قَالَ: خِرْ لِي , قَالَ:" خُذْ هَذَا وَلَا تَضْرِبْهُ , فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُهُ يُصَلِّي مَقْبَلَنَا مِنْ خَيْبَرَ , وَإِنِّي قَدْ نَهَيْتُ" , وَأَعْطَى أَبَا ذَرٍّ غُلَامًا , وَقَالَ:" اسْتَوْصِ بِهِ مَعْرُوفًا" , فَأَعْتَقَهُ , فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا فَعَلَ الْغُلَامُ؟" , قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَمَرْتَنِي أَنْ أَسْتَوْصِيَ بِهِ مَعْرُوفًا , فَأَعْتَقْتُهُ .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس تشریف لائے تو ان کے ہمراہ دو غلام بھی تھے جن میں سے ایک غلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور فرمایا اسے مارنا نہیں کیونکہ میں نے نمازیوں کو مارنے سے منع کیا ہے اور اسے میں نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور دوسرا غلام حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور فرمایا میں تمہیں اس کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں انہوں نے اسے آزاد کردیا ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا وہ غلام کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے اس کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی تھی لہٰذا میں نے اسے آزاد کردیا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مسلمان دوسرے مسلمان پر کسی کو پناہ دے سکتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، الحجاج بن أرطاة مدلس، وقد عنعن
حدثنا عصام بن خالد , حدثني صفوان بن عمرو , عن سليم بن عامر الخبائري , وابي اليمان الهوزني , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إن الله عز وجل وعدني ان يدخل من امتي الجنة سبعين الفا بغير حساب" , فقال يزيد بن الاخنس السلمي: والله ما اولئك في امتك إلا كالذباب الاصهب في الذبان , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كان ربي عز وجل قد وعدني سبعين الفا مع كل الف سبعون الفا , وزادني ثلاث حثيات" , قال: فما سعة حوضك يا نبي الله؟ قال: " كما بين عدن إلى عمان , واوسع , واوسع" يشير بيده , قال:" فيه مثعبان من ذهب , وفضة" , قال: فما حوضك يا نبي الله؟ قال:" اشد بياضا من اللبن , واحلى مذاقة من العسل , واطيب رائحة من المسك , من شرب منه لم يظما بعدها , ولم يسود وجهه ابدا" .حَدَّثَنَا عِصَامُ بْنُ خَالِدٍ , حَدَّثَنِي صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ الْخَبَائِرِيِّ , وَأَبِي الْيَمَانِ الْهَوْزَنِيِّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَعَدَنِي أَنْ يُدْخِلَ مِنْ أُمَّتِي الْجَنَّةَ سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ" , فَقَالَ يَزِيدُ بْنُ الْأَخْنسَ السُّلَمِيُّ: وَاللَّهِ مَا أُولَئِكَ فِي أُمَّتِكَ إِلَّا كَالذُّبَابِ الْأَصْهَبِ فِي الذِّبَّانِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ قَدْ وَعَدَنِي سَبْعِينَ أَلْفًا مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا , وَزَادَنِي ثَلَاثَ حَثَيَاتٍ" , قَالَ: فَمَا سِعَةُ حَوْضِكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ: " كَمَا بَيْنَ عَدَنَ إِلَى عُمَانَ , وَأَوْسَعَ , وَأَوْسَعَ" يُشِيرُ بِيَدِهِ , قَالَ:" فِيهِ مَثْعَبَانِ مِنْ ذَهَبٍ , وَفِضَّةٍ" , قَالَ: فَمَا حَوْضُكَ يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ قَالَ:" أَشَدُّ بَيَاضًا مِنَ اللَّبَنِ , وَأَحْلَى مَذَاقَةً مِنَ الْعَسَلِ , وَأَطْيَبُ رَائِحَةً مِنَ الْمِسْكِ , مَنْ شَرِبَ مِنْهُ لَمْ يَظْمَأْ بَعْدَهَا , وَلَمْ يَسْوَدَّ وَجْهُهُ أَبَدًا" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت کے ستر ہزار آدمیوں کو بلاحساب کتاب جنت میں داخل فرمائے گا، یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ یہ سن کر کہنے لگے بخدا! یہ تو آپ کی امت میں سے صرف اتنے ہی لوگ ہوں گے جیسے مکھیوں میں سرخ مکھی ہوتی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے رب نے مجھ سے ستر ہزار کا وعدہ اس طرح کیا ہے کہ ہر ہزار کے ساتھ ستر ہزار ہوں گے اور اس پر تین گنا کا مزید اضافہ ہوگا، یزید بن اخنس رضی اللہ عنہ نے پوچھا اے اللہ کے نبی! آپ کے حوض کی وسعت کتنی ہوگی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جتنی عدن اور عمان کے درمیان ہے اس سے بھی دوگنی جس میں سونے چاندی کے دو پرنالوں سے پانی گرتا ہوگا، انہوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی! آپ کے حوض کا پانی کیسا ہوگا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دودھ سے زیادہ سفید، شہد سے زیادہ شیرین اور مشک سے زیادہ مہکتا ہوا جو شخص ایک مرتبہ اس کا پانی پی لے گا وہ کبھی پیاسا نہ ہوگا اور اس کے چہرے کا رنگ کبھی سیاہ نہ ہوگا۔
قال عبد الله: وجدت هذا الحديث في كتاب ابي بخط يده , وقد ضرب عليه , فظننت انه قد ضرب عليه لانه خطا , إنما هو: عن زيد , عن ابي سلام , عن ابي امامة , حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , عن يحيى بن ابي كثير , عن ابي سلمة , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تعلموا القرآن , فإنه شافع يوم القيامة , تعلموا البقرة وآل عمران , تعلموا الزهراوين , فإنهما ياتيان يوم القيامة كانهما غمامتان , او غيايتان , او كانهما فرقان من طير صواف , يحاجان عن صاحبهما , تعلموا البقرة فإن تعليمها بركة , وتركها حسرة , ولا يستطيعها البطلة" .قَالَ عَبْد اللَّهِ: وَجَدْتُ هَذَا الْحَدِيثَ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ , وَقَدْ ضَرَبَ عَلَيْهِ , فَظَنَنْتُ أَنَّهُ قَدْ ضَرَبَ عَلَيْهِ لِأَنَّهُ خَطَأٌ , إِنَّمَا هُوَ: عَنْ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي سَلَّامٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ أَبِي سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَعَلَّمُوا الْقُرْآنَ , فَإِنَّهُ شَافِعٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , تَعَلَّمُوا الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ , تَعَلَّمُوا الزَّهْرَاوَيْنِ , فَإِنَّهُمَا يَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ , أَوْ غَيَايَتَانِ , أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ , يُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا , تَعَلَّمُوا الْبَقَرَةَ فَإِنَّ تَعْلِيمَهَا بَرَكَةٌ , وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ , وَلَا يَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ" .
امام احمد رحمہ اللہ کے صاحبزادے کہتے ہیں کہ یہ حدیث میں نے اپنے والد صاحب کی تحریرات میں ان کی اپنی لکھائی سے لکھی ہوئی پائی ہے لیکن اس پر انہوں نے نشان لگایا ہوا تھا جس کی وجہ سے میرے خیال کے مطابق سند کی غلطی ہے، یہ حدیث زید نے ابو سلام کے حوالے سے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے نقل کی تھی، وہ حدیث یہ ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرآن کریم کو سیکھو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا دو روشن سورتیں یعنی سورت بقرہ اور آل عمران کو سیکھو، کیونکہ یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن سائبانوں کی شکل یا پرندوں کی دو صف بستہ ٹولیوں کی شکل میں آئیں گی اور اپنے پڑھنے والوں کا دفاع کریں گی پھر فرمایا سورت بقرہ کو سیکھو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت ہے اور باطل (جادوگر) اس کی طاقت نہیں رکھتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ممعر أخطأ فيه، فقال: عن يحيى عن أبى سلمة، وإنما هو عن يحيى، عن زيد بن سلام، عن جده أبى سلام، أو عن يحيى عن أبى سلام
حدثنا محمد بن الحسن بن اتش , حدثنا جعفر يعني ابن سليمان , عن معلى يعني ابن زياد , عن ابي غالب , عن ابي امامة . ح وحدثنا روح , حدثنا حماد , عن ابي غالب , عن ابي امامة , قال: اتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يرمي الجمرة , فقال: يا رسول الله , اي الجهاد احب إلى الله عز وجل؟ قال: فسكت عنه حتى إذا رمى الثانية , عرض له , فقال: يا رسول الله , اي الجهاد احب إلى الله عز وجل؟ قال: فسكت عنه , ثم مضى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى إذا اعترض في الجمرة الثالثة , عرض له , فقال: يا رسول الله , اي الجهاد احب إلى الله عز وجل؟ قال: " كلمة حق تقال لإمام جائر" , قال محمد بن الحسن في حديثه: وكان الحسن يقول: لإمام ظالم.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ بْنِ أَتَشٍ , حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ يَعْنِي ابْنَ سُلَيْمَانَ , عَنْ مُعَلَّى يَعْنِي ابْنَ زِيَادٍ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ . ح وحَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَرْمِي الْجَمْرَةَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ الْجِهَادِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ حَتَّى إِذَا رَمَى الثَّانِيَةَ , عَرَضَ لَهُ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ الْجِهَادِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ , ثُمَّ مَضَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا اعْتَرَضَ فِي الْجَمْرَةِ الثَّالِثَةِ , عَرَضَ لَهُ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ الْجِهَادِ أَحَبُّ إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟ قَالَ: " كَلِمَةُ حَقٍّ تُقَالُ لِإِمَامٍ جَائِرٍ" , قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ الْحَسَنِ فِي حَدِيثِهِ: وَكَانَ الْحَسَنُ يَقُولُ: لِإِمَامٍ ظَالِمٍ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جمرات کو کنکریاں مار رہے تھے اس نے یہ سوال پوچھا کہ یا رسول اللہ! سب سے زیادہ پسندیدہ جہاد اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا جہاد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر وہ جمرہ ثانیہ کے پاس دوبارہ حاضر ہوا اور یہی سوال دہرایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے پھر وہ جمرہ ثالثہ کے پاس دوبارہ حاضر ہوا اور یہی سوال دہرایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق بات جو کسی ظالم بادشاہ کے سامنے کہی جائے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وحديث أبى أمامة هذا فيه أبو غالب البصري، وهو ممن يعتبر به فى المتابعات والشواهد
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہوتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں اپنی برائی سے غم اور نیکی سے خوشی ہو تو تم مؤمن ہو گناہ کیا ہوتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی چیز تمہارے دل میں کھٹکے تو اسے چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وفي سماع يحيى بن أبى كثير من زيد بن سلام خلاف، وقد توبع
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اسلام کی ایک ایک رسی کو چن چن کر توڑ دیا جائے گا اور جب ایک رسی ٹوٹ جایا کرے گی تو لوگ دوسری کے پیچھے پڑجایا کریں گے سب سے پہلے ٹوٹنے والی رسی انصاف کی ہوگی اور سب سے آخر میں ٹوٹنے والی نماز ہوگی۔
حدثنا زيد بن الحباب , حدثنا معاوية بن صالح , حدثني سليم بن عامر , قال: سمعت ابا امامة يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطب الناس في حجة الوداع وهو على الجدعاء , واضع رجله في غراز الرحل يتطاول , يقول:" الا تسمعون؟" , فقال رجل من آخر القوم: ما تقول؟ قال: " اعبدوا ربكم , وصلوا خمسكم , وصوموا شهركم , وادوا زكاة اموالكم , واطيعوا ذا امركم , تدخلوا جنة ربكم" , قلت له: فمذ كم سمعت هذا الحديث يا ابا امامة؟ قال: وانا ابن ثلاثين سنة.حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ , حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ صَالِحٍ , حَدَّثَنِي سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبُ النَّاسَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ عَلَى الْجَدْعَاءِ , وَاضِعٌ رِجْلَهُ فِي غَرَازِ الرَّحْلِ يَتَطَاوَلُ , يَقُولُ:" أَلَا تَسْمَعُونَ؟" , فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ آخِرِ الْقَوْمِ: مَا تَقُولُ؟ قَالَ: " اعْبُدُوا رَبَّكُمْ , وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ , وَصُومُوا شَهْرَكُمْ , وَأَدُّوا زَكَاةَ أَمْوَالِكُمْ , وَأَطِيعُوا ذَا أَمْرِكُمْ , تَدْخُلُوا جَنَّةَ رَبِّكُمْ" , قُلْتُ لَهُ: فَمُذْ كَمْ سَمِعْتَ هَذَا الْحَدِيثَ يَا أَبَا أُمَامَةَ؟ قَالَ: وَأَنَا ابْنُ ثَلَاثِينَ سَنَةً.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع سنا ہے بنی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور پاؤں سواری کی رکاب میں رکھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہوگئے تھے اور فرما رہے تھے کیا تم سنتے نہیں؟ تو سب سے آخری آدمی نے کہا کہ آپ کیا فرمانا چاہتے ہیں (ہم تک آواز پہنچ رہی ہے اور ہم سن رہے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو، پنج گانہ نماز ادا کرو، ایک مہینے کے روزے رکھو اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو اپنے امیر کی اطاعت کرو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔
راوی نے حضرت امامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ حدیث آپ نے کس عمر میں سنی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ جب میں تیس سال کا تھا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وضو گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور نماز انعامات کا سبب بنتی ہے کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک دو یا تین چار اور پانچ مرتبہ نہیں (بےشمار مرتبہ سنی ہے)
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، وهذه الأسانيد وإن كان مدارها على شهر، وهو ضعيف، وقد توبع
حدثنا زيد بن الحباب , حدثني عكرمة بن عمار اليمامي , عن شداد بن عبد الله , عن ابي امامة , قال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في مجلس , فجاءه رجل , فقال: يا رسول الله , اصبت حدا فاقم علي كتاب الله , قال: فاقيمت الصلاة , قال: فصلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فلما فرغ خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم , وتبعه الرجل , وتبعته , فقال: يا رسول الله اصبت حدا فاقم علي كتاب الله , فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " اليس خرجت من منزلك , توضات فاحسنت الوضوء , وصليت معنا؟" , قال الرجل: بلى , قال:" فإن الله عز وجل قد غفر لك حدك" او" ذنبك" .حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ الْحُبَابِ , حَدَّثَنِي عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ الْيَمَامِيُّ , عَنْ شَدَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَجْلِسٍ , فَجَاءَهُ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْ عَلَيَّ كِتَابَ اللَّهِ , قَالَ: فَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ , قَالَ: فَصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمَّا فَرَغَ خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَتَبِعَهُ الرَّجُلُ , وَتَبِعْتُهُ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْ عَلَيَّ كِتَابَ اللَّهِ , فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَيْسَ خَرَجْتَ مِنْ مَنْزِلِكَ , تَوَضَّأْتَ فَأَحْسَنْتَ الْوُضُوءَ , وَصَلَّيْتَ مَعَنَا؟" , قَالَ الرَّجُلُ: بَلَى , قَالَ:" فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ غَفَرَ لَكَ حَدَّكَ" أَوْ" ذَنْبَكَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھ سے گناہ سرزد ہوگیا ہے لہٰذا مجھے کتاب اللہ کی روشنی میں سزا دے دیجئے اسی دوران نماز کھڑی ہوگئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور فراغت کے بعد جب واپس جانے لگے تو وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے چلا گیا میں بھی اس کے پیچھے چلا گیا، اس نے پھر اپنی بات دہرائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کیا ایسا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تمہارا گناہ معاف کردیا ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہدایت پر گامزن ہونے کے بعد جو قوم بھی دوبارہ گمراہ ہوتی ہے وہ لڑائی جھگڑوں میں پڑجاتی ہے، پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی یہ لوگ آپ کے سامنے جھگڑے کے علاوہ کچھ نہیں رکھتے بلکہ یہ تو جھگڑالو لوگ ہیں "
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه وشواهده، أبو غالب يعتبر به فى المتابعات والشواهد
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخار جہنم کی بھٹی کا اثر ہوتا ہے اگر مسلمان کو بخار ہوتا ہے تو وہ جہنم سے اس کا حصہ ہوتا ہے (جو دنیا میں اسے دے دیا جاتا ہے اور آخرت میں اسے جہنم سے پچالیا جاتا ہے)
حكم دارالسلام: حسن لغيره، أبو حصين إن كان هو مروان بن رؤبة الشامي فهو ثقة، وإن كان هو راو آخر فهو مجهول
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہوتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں اپنی برائی سے غم اور نیکی سے خوشی ہو تو تم مؤمن ہو اس نے پوچھا کہ گناہ کیا ہوتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی چیز تمہارے دل میں کھٹکے تو اسے چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وفي سماع يحيى من زيد بن سلام خلاف
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل رشک دوست وہ ہے جو ہلکے پھلکے سامان والا ہو نماز کا بہت ساحصہ رکھتا ہو اپنے رب کی عمدگی سے عبادت کرتا ہو، لوگوں کی نظروں میں مخفی ہو انگلیوں سے اس کی طرف اشارے نہ کئے جاتے ہوں، اس کی موت جلدی آجائے، اس کی وراثت بھی تھوڑی ہو اور اس پر رونے والے بھی تھوڑے ہوں۔
حكم دارالسلام: ضعيف جدا شبه موضوع، أبو المهلب، وعبيد الله بن زحر ضعيفان، وعلي بن يزيد واهي الحديث
حدثنا وكيع , حدثنا ثور , عن خالد بن معدان , عن ابي امامة , ان النبي صلى الله عليه وسلم كان إذا فرغ من طعامه , او رفعت مائدته , قال: " الحمد لله كثيرا طيبا مباركا فيه , غير مكفي , ولا مودع , ولا مستغنى عنه ربنا عز وجل" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا ثَوْرٌ , عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنْ طَعَامِهِ , أَوْ رُفِعَتْ مَائِدَتُهُ , قَالَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ , غَيْرَ مَكْفِيٍّ , وَلَا مُوَدَّعٍ , وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے سے فارغ ہوجاتے یا دستر خوان اٹھا لیا جاتا تو یہ دعاء پڑھتے الحمد للہ کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مکفی ولا مودع ولا مستغنی عنہ ربنا عزوجل۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا گانا گانے والی باندیوں کو پیچنا خریدنا اور ان کی تجارت کرنا جائز نہیں ہے اور ان کی قیمت (کمائی) کھانا حرام ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عبيدالله بن زحر وعلي بن زيد ضعيفان خالد الصفار محرف، صوابه: خلاد الصفار
حدثنا وكيع , قال: سمعت الاعمش , قال: حدثت عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يطبع المؤمن على الخلال كلها إلا الخيانة والكذب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , قَالَ: سَمِعْتُ الْأَعْمَشَ , قَالَ: حُدِّثْتُ عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يُطْبَعُ الْمُؤْمِنُ عَلَى الْخِلَالِ كُلِّهَا إِلَّا الْخِيَانَةَ وَالْكَذِبَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مؤمن کی ہر عادت پر مہر لگائی جاسکتی ہے لیکن خیانت اور جھوٹ پر نہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لإبهام الواسطة بين الأعمش وأبي امامة
حدثنا وكيع , حدثنا الاعمش , عن شمر , عن شهر بن حوشب , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا توضا الرجل المسلم , خرجت ذنوبه من سمعه , وبصره , ويديه , ورجليه , فإن قعد قعد مغفورا له" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ شِمْرٍ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَوَضَّأَ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ , خَرَجَتْ ذُنُوبُهُ مِنْ سَمْعِهِ , وَبَصَرِهِ , وَيَدَيْهِ , وَرِجْلَيْهِ , فَإِنْ قَعَدَ قَعَدَ مَغْفُورًا لَهُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی مسلمان وضو کرتا ہے تو اس کے کان، آنکھ ہاتھ اور پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ بیٹھتا ہے تو بخشا بخشایا ہوا بیٹھتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، وقد توبع
حدثنا حجاج , قال: سمعت شعبة يحدث , عن قتادة . وهاشم , قال: حدثني شعبة , اخبرنا قتادة , قال: سمعت ابا الجعد يحدث , قال هاشم في حديثه: ابو الجعد مولى لبني ضبيعة , عن ابي امامة , ان رجلا من اهل الصفة توفي وترك دينارا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم له: " كية" , قال: ثم توفي آخر , فترك دينارين , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كيتان" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , قَالَ: سَمِعْتُ شُعْبَةَ يُحَدِّثُ , عَنْ قَتَادَةَ . وَهَاشِمٍ , قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ , أَخْبَرَنَا قَتَادَةُ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْجَعْدِ يُحَدِّثُ , قَالَ هَاشِمٌ فِي حَدِيثِهِ: أَبُو الْجَعْدِ مَوْلًى لِبَنِي ضُبَيْعَةَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَجُلًا مِنْ أَهْلِ الصُّفَّةِ تُوُفِّيَ وَتَرَكَ دِينَارًا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ: " كَيَّةٌ" , قَالَ: ثُمَّ تُوُفِّيَ آخَرُ , فَتَرَكَ دِينَارَيْنِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَيَّتَانِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ میں سے ایک آدمی فوت ہوگیا اور ایک دینار چھوڑ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جہنم کا ایک داغ ہے، کچھ عرصے بعد ایک اور آدمی فوت ہوگیا اور وہ دو دینار چھوڑ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دو داغ ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات من أجل أبى الجعد
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا شعبة . وحجاج , قال: حدثني شعبة , عن منصور , قال: سمعت سالما , قال حجاج: عن سالم بن ابي الجعد , قال ابن جعفر: سمعت سالم بن ابي الجعد , قال: ذكر لي عن ابي امامة , ان امراة اتت النبي صلى الله عليه وسلم تساله , ومعها صبيان لها , فاعطاها ثلاث تمرات , فاعطت كل واحد منهما تمرة , قال: ثم إن احد الصبيين بكى , قال: فشقتها , فاعطت كل واحد نصفا , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حاملات والدات رحيمات باولادهن , لولا ما يصنعن بازواجهن , لدخل مصلياتهن الجنة" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ . وَحَجَّاجٌ , قَالَ: حَدَّثَنِي شُعْبَةُ , عَنْ مَنْصُورٍ , قَالَ: سَمِعْتُ سَالِمًا , قَالَ حَجَّاجٌ: عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ , قَالَ ابْنُ جَعْفَرٍ: سَمِعْتُ سَالِمَ بْنَ أَبِي الْجَعْدِ , قَالَ: ذُكِرَ لِي عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَسْأَلُهُ , وَمَعَهَا صَبِيَّانِ لَهَا , فَأَعْطَاهَا ثَلَاثَ تَمَرَاتٍ , فَأَعْطَتْ كُلَّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا تَمْرَةً , قَالَ: ثُمَّ إِنَّ أَحَدَ الصَّبِيَّيْنِ بَكَى , قَالَ: فَشَقَّتْهَا , فَأَعْطَتْ كُلَّ وَاحِدٍ نِصْفًا , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حَامِلَاتٌ وَالِدَاتٌ رَحِيمَاتٌ بِأَوْلَادِهِنَّ , لَوْلَا مَا يَصْنَعْنَ بِأَزْوَاجِهِنَّ , لَدَخَلَ مُصَلِّيَاتُهُنَّ الْجَنَّةَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت اپنے دو بچوں کے ہمراہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مانگنے کے لئے آئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تین کھجوریں دیں، اس نے دونوں بچوں کو ایک کھجور دے دی (اور تیسری خود کھانے کے لئے اٹھائی) اتنی دیر میں ایک بچہ رونے لگا اس نے تیسری کھجور کے دو ٹکڑے کئے اور دونوں بچوں کو ایک ایک ٹکڑا دے دیا (اور خودبھو کی رہ گئی) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا بچوں کو اٹھانے والی یہ مائیں اپنی اولاد پر کتنی مہربان ہوتی ہیں، اگر یہ چیز نہ ہوتی جو یہ اپنے شوہروں کے ساتھ کرتی ہیں تو ان کی نمازیں جنت میں داخل ہوجائیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة ، فهو منقطع بين سالم و أبى أمامة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ میں سے ایک آدمی فوت ہوگیا اور ایک دینار چھوڑ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جہنم کا ایک داغ ہے، کچھ عرصے بعد ایک اور آدمی فوت ہوگیا اور وہ دو دینار چھوڑ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دو داغ ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، وقد توبع
حدثنا بهز , حدثنا حماد بن سلمة , اخبرنا يعلى بن عطاء , انه سمع شيخا من اهل دمشق , انه سمع ابا امامة الباهلي , يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا دخل في الصلاة من الليل , كبر ثلاثا , وسبح ثلاثا , وهلل ثلاثا , ثم يقول: " اللهم إني اعوذ بك من الشيطان الرجيم , من همزه , ونفخه , وشركه" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , أَخْبَرَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ , أَنَّهُ سَمِعَ شَيْخًا مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ , يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا دَخَلَ فِي الصَّلَاةِ مِنَ اللَّيْلِ , كَبَّرَ ثَلَاثًا , وَسَبَّحَ ثَلَاثًا , وَهَلَّلَ ثَلَاثًا , ثُمَّ يَقُولُ: " اللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ , مِنْ هَمْزِهِ , وَنَفْخِهِ , وَشِرْكِهِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب رات کی نماز شروع کرنے لگتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر تین مرتبہ سبحان اللہ اور تین مرتبہ لا الہ الا اللہ کہتے پھر یہ دعاء پڑھتے اے اللہ میں شیطان کے کچوکے اس کی پھونک اور اس کے شرک سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف الإبهام الراوي له عن أبى أمامة، وقوله: وشركه غير محفوظ فى هذا الحديث، والمحفوظ: ونفثه
حدثنا بهز , حدثنا حماد بن سلمة , حدثنا يعلى بن عطاء , عن شيخ من اهل دمشق , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خمس بخ بخ: سبحان الله , والحمد لله , ولا إله إلا الله , والله اكبر , والولد الصالح يموت للرجل , فيحتسبه" .حَدَّثَنَا بَهْزٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , حَدَّثَنَا يَعْلَى بْنُ عَطَاءٍ , عَنْ شَيْخٍ مِنْ أَهْلِ دِمَشْقَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَمْسٌ بَخٍ بَخٍ: سُبْحَانَ اللَّهِ , وَالْحَمْدُ لِلَّهِ , وَلَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ , وَاللَّهُ أَكْبَرُ , وَالْوَلَدُ الصَّالِحُ يَمُوتُ لِلرَّجُلِ , فَيَحْتَسِبُهُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پانچ چیزیں کیا ہی خوب ہیں سبحان اللہ والحمدللہ ولا الہ الا اللہ واللہ اکبر اور انسان کا وہ نیک لڑکا جو فوت ہوجائے اور وہ اس پر ثواب کی نیت سے صبر کرے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي له عن أبى أمامة
حدثنا إسحاق بن يوسف , حدثنا شريك , عن يعلى بن عطاء , عن رجل حدثه , انه سمع ابا امامة الباهلي , يقول: كان نبي الله صلى الله عليه وسلم إذا قام إلى الصلاة , كبر ثلاث مرات , ثم قال: " لا إله إلا الله" , ثلاث مرات ," وسبحان الله وبحمده" , ثلاث مرات , ثم قال:" اعوذ بك من الشيطان الرجيم , من همزه , ونفخه , ونفثه" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بْنُ يُوسُفَ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ يَعْلَى بْنِ عَطَاءٍ , عَنْ رَجُلٍ حَدَّثَهُ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ , يَقُولُ: كَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ , كَبَّرَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , ثُمَّ قَالَ: " لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ" , ثَلَاثَ مَرَّاتٍ ," وَسُبْحَانَ اللَّهِ وَبِحَمْدِهِ" , ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , ثُمَّ قَالَ:" أَعُوذُ بِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ , مِنْ هَمْزِهِ , وَنَفْخِهِ , وَنَفْثِهِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز شروع کرنے لگتے تو تین مرتبہ اللہ اکبر تین مرتبہ سبحان اللہ اور تین مرتبہ لا الہ الا اللہ کہتے پھر یہ دعاء پڑھتے اے اللہ میں شیطان کے کچوکے اس کی پھونک اور اس کے شرک سے آپ کی پناہ میں آتا ہوں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي له عن أبى أمامة ، وشريك سيئ الحفظ، لكنه توبع
حدثنا حجاج , حدثني شعبة , عن عبد الرحمن من اهل حمص من بني العداء من كندة , قال: سمعت ابا امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم في رجل توفي , وترك دينارا , او دينارين , يعني: قال له: " له كية , او كيتان" .حَدَّثَنَا حَجَّاجٌ , حَدَّثَنِي شُعْبَةُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ مِنْ أَهْلِ حِمْصَ مِنْ بَنِي الْعَدَّاءِ مِنْ كِنْدَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي رَجُلٍ تُوُفِّيَ , وَتَرَكَ دِينَارًا , أَوْ دِينَارَيْنِ , يَعْنِي: قَالَ له: " لَهُ كَيَّةٌ , أَوْ كَيَّتَانِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ میں سے ایک آدمی فوت ہوگیا اور ایک دو دینار چھوڑ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جہنم کا ایک یا دو داغ ہیں۔
حدثنا ابن نمير , حدثنا مسعر , عن ابي العنبس , عن ابي العدبس , عن ابي مرزوق , عن ابي غالب , عن ابي امامة , قال: خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو متوكئ على عصا , فقمنا إليه , فقال: " لا تقوموا كما تقوم الاعاجم يعظم بعضها بعضا" , قال: فكانا اشتهينا ان يدعو الله لنا , فقال:" اللهم اغفر لنا , وارحمنا , وارض عنا , وتقبل منا , وادخلنا الجنة , ونجنا من النار , واصلح لنا شاننا كله" , فكانا اشتهينا ان يزيدنا , فقال:" قد جمعت لكم الامر" ..حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا مِسْعَرٌ , عَنْ أَبِي الْعَنْبَس , عَنْ أَبِي الْعَدَبَّسِ , عَنْ أَبِي مَرْزُوقٍ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُتَوَكِّئٌ عَلَى عَصًا , فَقُمْنَا إِلَيْهِ , فَقَالَ: " لَا تَقُومُوا كَمَا تَقُومُ الْأَعَاجِمُ يُعَظِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا" , قَالَ: فَكَأَنَّا اشْتَهَيْنَا أَنْ يَدْعُوَ اللَّهَ لَنَا , فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا , وَارْحَمْنَا , وَارْضَ عَنَّا , وَتَقَبَّلْ مِنَّا , وَأَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ , وَنَجِّنَا مِنَ النَّارِ , وَأَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا كُلَّهُ" , فَكَأَنَّا اشْتَهَيْنَا أَنْ يَزِيدَنَا , فَقَالَ:" قَدْ جَمَعْتُ لَكُمْ الْأَمْرَ" ..
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لاٹھی سے ٹیک لگاتے ہوئے ہمارے پاس باہر تشریف لائے تو ہم احتراماً کھڑے ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ عجمیوں کی طرح مت کھڑے ہوا کرو جو ایک دوسرے کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں ہماری خواہش تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے دعاء فرما دیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء فرمائی کہ اے اللہ! ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما ہم سے راضی ہوجا ہماری نیکیاں قبول فرما ہمیں جنت میں داخل فرما جہنم سے نجات عطاء فرما اور ہمارے تمام معاملات کو درست فرما ہم چاہتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مزید دعاء فرمائیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اس دعاء میں تمہارے لئے ساری چیزوں کو شامل کرلیا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا لضعف رواته واضطرابه
حدثنا عبد الرزاق , اخبرنا معمر , قال: سمعت ابا غالب , يقول: لما اتي برءوس الازارقة , فنصبت على درج دمشق , جاء ابو امامة , فلما رآهم , دمعت عيناه , فقال: " كلاب النار ثلاث مرات هؤلاء شر قتلى قتلوا تحت اديم السماء , وخير قتلى قتلوا تحت اديم السماء الذين قتلهم هؤلاء" , قال: فقلت: فما شانك دمعت عيناك؟ قال: رحمة لهم , إنهم كانوا من اهل الإسلام , قال: قلنا: ابرايك , قلت: هؤلاء كلاب النار , او شيء سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: إني لجريء , بل سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم غير مرة , ولا ثنتين , ولا ثلاث , قال: فعد مرارا .حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ , أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا غَالِبٍ , يَقُولُ: لَمَّا أُتِيَ بِرُءُوسِ الْأزَارِقَةِ , فَنُصِبَتْ عَلَى دَرَجِ دِمَشْقَ , جَاءَ أَبُو أُمَامَةَ , فَلَمَّا رَآهُمْ , دَمَعَتْ عَيْنَاهُ , فَقَالَ: " كِلَابُ النَّارِ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ هَؤُلَاءِ شَرُّ قَتْلَى قُتِلُوا تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ , وَخَيْرُ قَتْلَى قُتِلُوا تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ الَّذِينَ قَتَلَهُمْ هَؤُلَاءِ" , قَالَ: فَقُلْتُ: فَمَا شَأْنُكَ دَمَعَتْ عَيْنَاكَ؟ قَالَ: رَحْمَةً لَهُمْ , إِنَّهُمْ كَانُوا مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ , قَالَ: قُلْنَا: أَبِرَأْيِكَ , قُلْتَ: هَؤُلَاءِ كِلَابُ النَّارِ , أَوْ شَيْءٌ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِنِّي لَجَرِيءٌ , بَلْ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَيْرَ مَرَّةٍ , وَلَا ثِنْتَيْنِ , وَلَا ثَلَاثٍ , قَالَ: فَعَدَّ مِرَارًا .
ابو غالب کہتے ہیں کہ عراق سے کچھ خوارج کے سر لا کر مسجد دمشق کے دروازے پر لٹکا دیئے گئے، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ آئے اور رونے لگے اور تین مرتبہ فرمایا جہنم کے کتے ہیں اور تین مرتبہ فرمایا آسمان کے سائے تلے سب سے بدترین مقتول ہیں اور آسمان کے سائے تلے سب سے بہترین مقتول وہ تھا جسے انہوں نے شہید کردیا۔
تھوڑی دیر بعد جب واپس ہوئے تو کسی نے پوچھا کہ پھر آپ روئے کیوں تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے ان پر ترس آرہا تھا اے ابو امامہ! یہ جو آپ نے " جہنم کے کتے " کہا یہ بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں، انہوں نے فرمایا سبحان اللہ! اگر میں نے کوئی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سات مرتبہ تک سنی ہو اور پھر درمیان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نکال دوں تو میں بڑا جری ہوں گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل أبى غالب
حدثنا سليمان بن حرب , حدثنا حماد بن سلمة , عن علي بن زيد , عن ابي طالب الضبعي , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لان اذكر الله تعالى من طلوع الشمس: اكبر , واهلل , واسبح , احب إلي من ان اعتق اربعا من ولد إسماعيل , ولان اذكر الله من صلاة العصر إلى ان تغيب الشمس , احب إلي من ان اعتق كذا وكذا من ولد إسماعيل" .حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي طَالِبٍ الضُّبَعِيِّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأَنْ أَذْكُرَ اللَّهَ تَعَالَى مِنْ طُلُوعِ الشَّمْسِ: أُكَبِّرُ , وَأُهَلِّلُ , وَأُسَبِّحُ , أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتِقَ أَرْبَعًا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ , وَلَأَنْ أَذْكُرَ اللَّهَ مِنْ صَلَاةِ الْعَصْرِ إِلَى أَنْ تَغِيبَ الشَّمْسُ , أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتِقَ كَذَا وَكَذَا مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے نزدیک طلوع آفتاب کے وقت اللہ کا ذکر کرنا اللہ اکبر لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کہنا اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ بہتر ہے اسی طرح نماز عصر سے غروب آفتاب تک اللہ کا ذکر کرنا میرے نزدیک اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے اتنے اتنے غلام آزاد کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا الحسن بن سوار , حدثنا ليث بن سعد , عن معاوية بن صالح , ان ابا عبد الرحمن حدثه , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " تدنو الشمس يوم القيامة على قدر ميل , ويزاد في حرها كذا وكذا , يغلي منها الهوام كما تغلي القدور , يعرقون فيها على قدر خطاياهم , منهم من يبلغ إلى كعبيه , ومنهم من يبلغ إلى ساقيه , ومنهم من يبلغ إلى وسطه , ومنهم من يلجمه العرق" .حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ سَوَّارٍ , حَدَّثَنَا لَيْثُ بْنُ سَعْدٍ , عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ , أَنَّ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ حَدَّثَهُ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَدْنُو الشَّمْسُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَلَى قَدْرِ مِيلٍ , وَيُزَادُ فِي حَرِّهَا كَذَا وَكَذَا , يَغْلِي مِنْهَا الْهَوَامُّ كَمَا تغْلِي الْقُدُورُ , يَعْرَقُونَ فِيهَا عَلَى قَدْرِ خَطَايَاهُمْ , مِنْهُمْ مَنْ يَبْلُغُ إِلَى كَعْبَيْهِ , وَمِنْهُمْ مَنْ يَبْلُغُ إِلَى سَاقَيْهِ , وَمِنْهُمْ مَنْ يَبْلُغُ إِلَى وَسَطِهِ , وَمِنْهُمْ مَنْ يُلْجِمُهُ الْعَرَقُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن سورج صرف ایک میل کی مسافت کے برابر قریب آجائے گا اور اس کی گرمی میں اتنا اضافہ ہوجائے گا کہ دماغ ہانڈیوں کی طرح ابلنے لگیں گے اور تمام لوگ اپنے اپنے گناہوں کے اعتبار سے پسینے میں ڈوبے ہوئے ہوں گے چنانچہ کسی کا پسینہ اس کے ٹخنوں تک ہوگا کسی کا پنڈلی تک کسی کا جسم کے درمیان تک اور کسی کے منہ میں پسینے کی لگام ہوگی۔
حدثنا علي بن إسحاق , اخبرنا عبد الله يعني ابن المبارك , اخبرنا يحيى بن ايوب , عن عبيد الله بن زحر , عن علي بن يزيد , عن القاسم , عن ابي امامة , قال: لما وضعت ام كلثوم ابنة رسول الله صلى الله عليه وسلم في القبر , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " منها خلقناكم وفيها نعيدكم ومنها نخرجكم تارة اخرى سورة طه آية 55" , قال: ثم لا ادري اقال: بسم الله , وفي سبيل الله , وعلى ملة رسول الله ام لا؟ فلما بنى عليها لحدها , طفق يطرح لهم الجبوب , ويقول:" سدوا خلال اللبن" , ثم قال:" اما إن هذا ليس بشيء , ولكنه يطيب بنفس الحي" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ الْمُبَارَكِ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ , عَنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: لَمَّا وُضِعَتْ أُمُّ كُلْثُومٍ ابْنَةُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْقَبْرِ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى سورة طه آية 55" , قَالَ: ثُمَّ لَا أَدْرِي أَقَالَ: بِسْمِ اللَّهِ , وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَعَلَى مِلَّةِ رَسُولِ اللَّهِ أَمْ لَا؟ فَلَمَّا بَنَى عَلَيْهَا لَحْدَهَا , طَفِقَ يَطْرَحُ لَهُمْ الْجَبُوبَ , وَيَقُولُ:" سُدُّوا خِلَالَ اللَّبِنِ" , ثُمَّ قَالَ:" أَمَا إِنَّ هَذَا لَيْسَ بِشَيْءٍ , وَلَكِنَّهُ يَطِيبُ بِنَفْسِ الْحَيِّ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صاحبزادی حضرت ام کلثوم رضی اللہ عنہ کو قبر میں اتارا جانے لگا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " ہم نے تمہیں اس مٹی سے پیدا کیا، اسی میں واپس لوٹائیں گے اور اسی سے دوبارہ نکالیں گے " اب یہ مجھے یاد نہیں رہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے " بسم اللہ وفی سبیل اللہ وعلی ملۃ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم " کہا یا نہیں پھر جب لحد بن گئی تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی طرف ٹہنیاں پھینکیں اور فرمایا کہ اینٹوں کے درمیان کی خالی جگہیں اس سے پر کردو پھر فرمایا اس سے ہوتا کچھ نہیں ہے لیکن زندے خوش ہوجاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عبيدالله بن زحر وعلي بن يزيد ضعيفان
حدثنا نوح بن ميمون , قال ابو عبد الرحمن: هو ابو محمد بن نوح وهو المضروب , حدثنا ابو خريم عقبة بن ابي الصهباء , حدثني ابو غالب الراسبي , انه لقي ابا امامة بحمص , فساله عن اشياء حدثهم انه سمع النبي صلى الله عليه وسلم وهو يقول: " ما من عبد مسلم يسمع اذان صلاة , فقام إلى وضوئه , إلا غفر له باول قطرة تصيب كفه من ذلك الماء , فبعدد ذلك القطر حتى يفرغ من وضوئه , إلا غفر له ما سلف من ذنوبه , وقام إلى صلاته وهي نافلة" , قال ابو غالب: قلت لابي امامة: آنت سمعت هذا من النبي صلى الله عليه وسلم؟ قال: إي والذي بعثه بالحق بشيرا ونذيرا , غير مرة , ولا مرتين , ولا ثلاث , ولا اربع , ولا خمس , ولا ست , ولا سبع , ولا ثمان , ولا تسع , ولا عشر , وعشر وصفق بيديه.حَدَّثَنَا نُوحُ بْنُ مَيْمُونٍ , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هُوَ أَبُو مُحَمَّدِ بْنُ نُوحٍ وَهُوَ الْمَضْرُوبُ , حَدَّثَنَا أَبُو خُرَيْمٍ عُقْبَةُ بْنُ أَبِي الصَّهْبَاءِ , حَدَّثَنِي أَبُو غَالِبٍ الرَّاسِبِيُّ , أَنَّهُ لَقِيَ أَبَا أُمَامَةَ بِحِمْصَ , فَسَأَلَهُ عَنْ أَشْيَاءَ حَدَّثَهُمْ أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَقُولُ: " مَا مِنْ عَبْدٍ مُسْلِمٍ يَسْمَعُ أَذَانَ صَلَاةٍ , فَقَامَ إِلَى وَضُوئِهِ , إِلَّا غُفِرَ لَهُ بِأَوَّلِ قَطْرَةٍ تُصِيبُ كَفَّهُ مِنْ ذَلِكَ الْمَاءِ , فَبِعَدَدِ ذَلِكَ الْقَطْرِ حَتَّى يَفْرُغَ مِنْ وُضُوئِهِ , إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا سَلَفَ مِنْ ذُنُوبِهِ , وَقَامَ إِلَى صَلَاتِهِ وَهِيَ نَافِلَةٌ" , قَالَ أَبُو غَالِبٍ: قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ: آنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: إِي وَالَّذِي بَعَثَهُ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا , غَيْرَ مَرَّةٍ , وَلَا مَرَّتَيْنِ , وَلَا ثَلَاثٍ , وَلَا أَرْبَعٍ , وَلَا خَمْسٍ , وَلَا سِتٍّ , وَلَا سَبْعٍ , وَلَا ثَمَانٍ , وَلَا تِسْعٍ , وَلَا عَشْرٍ , وَعَشْرٍ وَصَفَّقَ بِيَدَيْهِ.
ابو غالب راسبی کہتے ہیں کہ شہر حمص میں ان کی ملاقات حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے ہوئی تو انہوں نے کچھ سوالات حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھے اسی دوران حضرت ابو امام رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو بندہ مسلم نماز کے لئے اذان کی آواز سنتا ہے اور وضو کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھوں پر پانی کا پہلا قطرہ ٹپکتے ہی اس کے گناہ معاف ہونے لگتے ہیں اور پانی کے ان قطرات کی تعداد کے اعتبار سے جب وہ وضو کر کے فارغ ہوتا ہے تو اس کے گزشتہ سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور جب وہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اس کے درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہے۔
اور غالب نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا آپ نے واقعی یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! اس ذات کی قسم جس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو حق کے ساتھ بشیرونذیر بنا کر بھیجا تھا ایک دو مرتبہ نہیں دسیوں مرتبہ سنا ہے اور سارے اعداد ذکر کے دونوں ہاتھوں سے تالی بجائی۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى غالب
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تنہا نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے یعنی اس کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے؟ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں جماعت ہوگئے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف جدا، عبيدالله بن زحر ضعيف، وعلي بن يزيد واهي الحديث
حدثنا علي بن إسحاق , حدثنا عبد الله , اخبرنا يحيى بن ايوب , حدثنا عبيد الله بن زحر , عن علي بن يزيد , عن القاسم , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , قال: وحدثنا بهذا الإسناد , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " عرض علي ربي عز وجل ليجعل لي بطحاء مكة ذهبا , فقلت: لا يا رب ولكن اشبع يوما , واجوع يوما , او نحو ذلك , فإذا جعت , تضرعت إليك وذكرتك , وإذا شبعت حمدتك , وشكرتك" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ , أَخْبَرَنَا يَحْيَى بْنُ أَيُّوبَ , حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زَحْرٍ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ , عَنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: وَحُدِّثْنَا بِهَذَا الْإِسْنَادِ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " عَرَضَ عَلَيَّ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ لِيَجْعَلَ لِي بَطْحَاءَ مَكَّةَ ذَهَبًا , فَقُلْتُ: لَا يَا رَبِّ وَلَكِنْ أَشْبَعُ يَوْمًا , وَأَجُوعُ يَوْمًا , أَوْ نَحْوَ ذَلِكَ , فَإِذَا جُعْتُ , تَضَرَّعْتُ إِلَيْكَ وَذَكَرْتُكَ , وَإِذَا شَبِعْتُ حَمِدْتُكَ , وَشَكَرْتُكَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پروردگار نے مجھے یہ پیشکش کی کہ وہ بطحاء مکہ کو میرے لئے سونے کا بنا دے لیکن میں نے عرض کیا کہ پروردگار! نہیں میں ایک دن بھوکا رہوں اور ایک دن سیراب ہوجاؤں تاکہ جب بھوکا رہوں تو تیری بارگاہ میں عاجزی وزاری کروں اور تجھے یاد کروں اور جب سیراب ہوں تو تیری تعریف اور شکر ادا کروں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا ، عبيدالله بن زحر ضعيف، وعلي بن يزيد واهي الحديث
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے میرے نزدیک بندے کی سب سے پسندیدہ عبادت " جو وہ میری کرتا ہے " میرے ساتھ خیر خواہی ہے (میرے احکامات پر عمل کرنا)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف جدا ، عبيد الله بن زحر ضعيف، وعلي بن يزيد واهي الحديث
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سلام میں پہل کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا، عبيدالله بن زحر ضعيف، وعلي بن يزيد واهي الحديث
حدثنا عفان , حدثنا ابان , حدثنا يحيى بن ابي كثير , عن زيد , عن ابي سلام , عن ابي امامة الباهلي , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقرءوا القرآن , فإنه ياتي شفيعا يوم القيامة لصاحبه , اقرءوا الزهراوين البقرة وآل عمران , فإنهما ياتيان يوم القيامة كانهما غيايتان , او كانهما غمامتان , او كانهما فرقان من طير صواف يحاجان عن اصحابهما , اقرءوا سورة البقرة , فإن اخذها بركة , وتركها حسرة , ولا تستطيعها البطلة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا أَبَانُ , حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي سَلَّامٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَءُوا الْقُرْآنَ , فَإِنَّهُ يَأْتِي شَفِيعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ لِصَاحِبِهِ , اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ , فَإِنَّهُمَا يَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ , أَوْ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ , أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ يُحَاجَّانِ عَنْ أَصْحَابِهِمَا , اقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ , فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ , وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ , وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا، دو روشن سورتیں یعنی سورت بقرہ اور آل عمران کی تلاوت کیا کرو کیونکہ یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن سائبانوں کی شکل یا پرندوں کی دو صف بستہ ٹولیوں کی شکل میں آئیں گی اور اپنے پڑھنے والوں کا دفاع کریں گی پھر فرمایا سورت بقرہ کی تلاوت کیا کرو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت ہے اور باطل (جادوگر) اس کی طاقت نہیں رکھتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وفي سماع يحيى من زيد بن سلام خلاف
حدثنا عفان , حدثنا حماد بن سلمة , اخبرنا علي بن زيد , عن ابي طالب الضبعي , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " لان اقعد اذكر الله , واكبره , واحمده , واسبحه واهلله حتى تطلع الشمس , احب إلي من ان اعتق رقبتين او اكثر من ولد إسماعيل , ومن بعد العصر حتى تغرب الشمس , احب إلي من ان اعتق اربع رقاب من ولد إسماعيل" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ أَبِي طَالِبٍ الضُّبَعِيِّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَأَنْ أَقْعُدَ أَذْكُرُ اللَّهَ , وَأُكَبِّرُهُ , وَأَحْمَدُهُ , وَأُسَبِّحُهُ وَأُهَلِّلُهُ حَتَّى تَطْلُعَ الشَّمْسُ , أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتِقَ رَقَبَتَيْنِ أَوْ أَكْثَرَ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيلَ , وَمِنْ بَعْدِ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ , أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أَعْتِقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ مِنْ وَلَدِ إِسْمَاعِيل" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میرے نزدیک طلوع آفتاب کے وقت اللہ کا ذکر کرنا اللہ اکبر لا الہ الا اللہ اور سبحان اللہ کہنا اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ بہتر ہے اسی طرح نماز عصر سے غروب آفتاب تک اللہ کا ذکر کرنا میرے نزدیک اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے اتنے اتنے غلام آزاد کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدثنا بهز بن اسد , حدثنا مهدي بن ميمون , حدثنا محمد بن عبد الله بن ابي يعقوب الضبي , عن رجاء بن حيوة , عن ابي امامة , قال: انشا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوا فاتيته , فقلت: يا رسول الله , ادع الله لي بالشهادة , فقال: " اللهم سلمهم وغنمهم" , قال: فغزونا , فسلمنا وغنمنا , قال: ثم انشا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوا ثانيا , فاتيته , فقلت: يا رسول الله , ادع الله لي بالشهادة , قال:" اللهم سلمهم وغنمهم" , قال: فغزونا , فسلمنا وغنمنا , قال: ثم انشا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوا ثالثا , فاتيته , فقلت: يا رسول الله , قد اتيتك تترى مرتين , اسالك ان تدعو الله لي بالشهادة , فقلت: اللهم سلمهم وغنمهم , يا رسول الله , فادع الله لي بالشهادة , فقال:" اللهم سلمهم وغنمهم" , قال: فغزونا , فسلمنا وغنمنا , ثم اتيته بعد ذلك , فقلت: يا رسول الله , مرني بعمل آخذه عنك ينفعني الله به , قال:" عليك بالصوم , فإنه لا مثل له" , قال: فكان ابو امامة , وامراته , وخادمه , لا يلفون إلا صياما فإذا راوا نارا , او دخانا بالنهار في منزلهم , عرفوا انهم اعتراهم ضيف , قال: ثم اتيته بعد , فقلت: يا رسول الله , إنك قد امرتني بامر , وارجو ان يكون الله عز وجل قد نفعني به , فمرني بامر آخر ينفعني الله به , قال:" اعلم انك لا تسجد لله سجدة , إلا رفع الله لك بها درجة , او حط , او قال: وحط , شك مهدي عنك بها خطيئة" .حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ , حَدَّثَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ , حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ الضَّبِّيُّ , عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: أَنْشَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوًا فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ادْعُ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , فَقَالَ: " اللَّهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ" , قَالَ: فَغَزَوْنَا , فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا , قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوًا ثَانِيًا , فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ادْعُ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , قَالَ:" اللَّهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ" , قَالَ: فَغَزَوْنَا , فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا , قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوًا ثَالِثًا , فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , قَدْ أَتَيْتُكَ تَتْرَى مَرَّتَيْنِ , أَسْأَلُكَ أَنْ تَدْعُوَ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , فَقُلْتَ: اللَّهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ , يَا رَسُولَ اللَّهِ , فَادْعُ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , فَقَالَ:" اللَّهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ" , قَالَ: فَغَزَوْنَا , فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا , ثُمَّ أَتَيْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مُرْنِي بِعَمَلٍ آخُذُهُ عَنْكَ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهِ , قَالَ:" عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ , فَإِنَّهُ لَا مِثْلَ لَهُ" , قَالَ: فَكَانَ أَبُو أُمَامَةَ , وَامْرَأَتُهُ , وَخَادِمُهُ , لَا يُلْفَوْنَ إِلَّا صِيَامًا فَإِذَا رَأَوْا نَارًا , أَوْ دُخَانًا بِالنَّهَارِ فِي مَنْزِلِهِمْ , عَرَفُوا أَنَّهُمْ اعْتَرَاهُمْ ضَيْفٌ , قَالَ: ثُمَّ أَتَيْتُهُ بَعْدُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّكَ قَدْ أَمَرْتَنِي بِأَمْرٍ , وَأَرْجُو أَنْ يَكُونَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ نَفَعَنِي بِهِ , فَمُرْنِي بِأَمْرٍ آخَرَ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهِ , قَالَ:" اعْلَمْ أَنَّكَ لَا تَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً , إِلَّا رَفَعَ اللَّهُ لَكَ بِهَا دَرَجَةً , أَوْ حَطَّ , أَوْ قَالَ: وَحَطَّ , شَكَّ مَهْدِيٌّ عَنْكَ بِهَا خَطِيئَةً" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر ترتییب دیا (جس میں میں بھی تھا) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے حق میں اللہ سے شہادت کی دعاء کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء کی کہ اے اللہ! انہیں سلامت رکھ اور مال غنیمت عطاء فرما، چنانچہ ہم مال غنیمت کے ساتھ صحیح سالم واپس آگئے (دوربارہ لشکر ترتیب دیا تو پھر میں نے یہی عرض کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعاء دی) تیسری مرتبہ جب لشکر ترتیب دیا تو میں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس سے پہلے بھی دو مرتبہ آپ کے پاس آچکا ہوں، میں نے آپ سے یہ درخواست کی تھی کہ اللہ سے میرے حق میں شہادت کی دعاء کر دیجئے لیکن آپ نے سلامتی اور غنیمت کی دعاء کی اور ہم مال غنیمت لے کر صحیح سالم واپس آگئے لہٰذا یا رسول اللہ! اب تو میرے لئے شہادت کی دعا فرما دیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سلامتی اور غنیمت کی دعاء کی اور ہم مال غنیمت لے کر صحیح سالم واپس آگئے۔
اس کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کسی عمل کا حکم دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اوپر روزے کو لازم کرلو کیونکہ روزے کی حالت ہی میں ملے اور اگر دن کے وقت ان کے گھر سے دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دیتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے یہاں کوئی مہمان آیا ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عرصہ تک میں اس پر عمل کرتا رہا جب تک اللہ کو منظور ہوا پھر میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا مجھے امید ہے کہ اللہ نے ہمیں اس کی برکتیں عطاء فرمائی ہیں اب مجھے کوئی اور عمل بتا دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات پر یقین رکھو کہ اگر تم اللہ کے لئے ایک سجدہ کرو گے تو اللہ اس کی برکت سے تمہارا ایک درجہ بلند کر دے گا اور ایک گناہ معاف کر دے گا۔
حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا سليم بن حيان , حدثنا ابو غالب , قال: سمعت ابا امامة , يقول: " إذا وضعت الطهور مواضعه , قعدت مغفورا لك , فإن قام يصلي , كانت له فضيلة واجرا , وإن قعد , قعد مغفورا له" , فقال له رجل: يا ابا امامة , ارايت إن قام فصلى تكون له نافلة؟ قال:" لا , إنما النافلة للنبي صلى الله عليه وسلم , كيف تكون له نافلة , وهو يسعى في الذنوب والخطايا؟! تكون له فضيلة واجرا" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا سَلِيمُ بْنُ حَيَّانَ , حَدَّثَنَا أَبُو غَالِبٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: " إِذَا وَضَعْتَ الطَّهُورَ مَوَاضِعَهُ , قَعَدْتَ مَغْفُورًا لَكَ , فَإِنْ قَامَ يُصَلِّي , كَانَتْ لَهُ فَضِيلَةً وَأَجْرًا , وَإِنْ قَعَدَ , قَعَدَ مَغْفُورًا لَهُ" , فَقَالَ لَهُ رَجُلٌ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , أَرَأَيْتَ إِنْ قَامَ فَصَلَّى تَكُونُ لَهُ نَافِلَةً؟ قَالَ:" لَا , إِنَّمَا النَّافِلَةُ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , كَيْفَ تَكُونُ لَهُ نَافِلَةً , وَهُوَ يَسْعَى فِي الذُّنُوبِ وَالْخَطَايَا؟! تَكُونُ لَهُ فَضِيلَةً وَأَجْرًا" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب تم اچھی طرح وضو کرو تو جب بیٹھو گے اس وقت تمہارے سارے گناہ بخشے جاچکے ہوں گے اگر اس کے بعد کوئی شخص کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگا تو وہ اس کے لئے فضیلت اور باعث اجربن جاتی ہے وہ بیٹھتا ہے توبخشا بخشایا ہوا بیٹھتا ہے ایک آدمی نے ان سے پوچھا اے ابو امامہ! یہ بتائیے کہ اگر وہ کھڑا ہو کر نماز پڑھنے لگے تو وہ اس کے لئے نفل ہوگی؟ انہوں نے فرمایا نہیں، نفل ہونا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خصوصیت تھی، عام آدمی کے لئے کیسے ہوسکتی ہے جبکہ وہ گناہوں اور لغزشوں میں بھاگا پھرتا ہے اس کے لئے وہ باعث اجر ہوتی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف من أجل أبى غالب البصري، وقد اضطرب فى هذا الحديث
حدثنا إسماعيل بن إبراهيم , اخبرنا ليث بن ابي سليم , عن عبيد الله , عن القاسم , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن اغبط الناس عندي , عبد مؤمن خفيف الحاذ ذو حظ من صلاة , اطاع ربه واحسن عبادته في السر , وكان غامضا في الناس لا يشار إليه بالاصابع , وكان عيشه كفافا" , قال: وجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم ينقر باصبعيه وكان عيشه كفافا , وكان عيشه كفافا , عجلت منيته , وقلت بواكيه , وقل تراثه" , قال ابو عبد الرحمن: سالت ابي , قلت: ما تراثه؟ قال: ميراثه..حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ , أَخْبَرَنَا لَيْثُ بْنُ أَبِي سُلَيْمٍ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ , عَنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ أَغْبَطَ النَّاسِ عِنْدِي , عَبْدٌ مُؤْمِنٌ خَفِيفُ الْحَاذِ ذُو حَظٍّ مِنْ صَلَاةٍ , أَطَاعَ رَبَّهُ وَأَحْسَنَ عِبَادَتَهُ فِي السِّرِّ , وَكَانَ غَامِضًا فِي النَّاسِ لَا يُشَارُ إِلَيْهِ بِالْأَصَابِعِ , وَكَانَ عَيْشُهُ كَفَافًا" , قَالَ: وَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْقُرُ بِأُصْبُعَيْهِ وَكَانَ عَيْشُهُ كَفَافًا , وَكَانَ عَيْشُهُ كَفَافًا , عُجِّلَتْ مَنِيَّتُهُ , وَقَلَّتْ بَوَاكِيهِ , وَقَلَّ تُرَاثُهُ" , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: سَأَلْتُ أَبِي , قُلْتُ: مَا تُرَاثُهُ؟ قَالَ: مِيرَاثُهُ..
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے نزدیک سب سے زیادہ قابل رشک انسان وہ بندہ مومن ہے جو ہلکے پھلکے سامان والا ہو نماز کا بہت سا حصہ رکھتا ہوا پنے رب کی اطاعت اور چھپ کر عمدگی سے عبادت کرتا ہو، لوگوں کی نظروں میں مخفی ہو، انگلیوں سے اس کی طرف سے اشارے نہ کئے جاتے ہوں، بقدر کفایت اس کی روزی ہو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہ جملہ دہراتے ہوئے چٹکی بجانے لگے پھر فرمایا اس کی موت جلدی آجائے، اس کی وراثت بھی تھوڑی ہو اور اس پر رونے والے بھی تھوڑے ہوں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، ليث بن أبى سليم وعبيد الله ضعيفان، وعبيد الله لم يسمعه من القاسم
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ایمان کیا ہوتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تمہیں اپنی برائی سے غم اور نیکی سے خوشی ہو تو تم مؤمن ہو گناہ کیا ہوتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی چیز تمہارے دل میں کھٹکے تو اسے چھوڑ دو۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وفي سماع يحيى من زيد بن سلام خلاف
حدثنا يحيى بن سعيد , عن ثور , عن خالد بن معدان , عن ابي امامة , قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا رفعت المائدة , قال: " الحمد لله كثيرا طيبا مباركا فيه , غير مكفي , ولا مودع , ولا مستغنى عنه ربنا" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ ثَوْرٍ , عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا رُفِعَتْ الْمَائِدَةُ , قَالَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ , غَيْرَ مَكْفِيٍّ , وَلَا مُوَدَّعٍ , وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ رَبَّنَا" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کھانے سے فارغ ہوجاتے یا دستر خوان اٹھا لیا جاتا تو یہ دعاء پڑھتے الحمدللہ کثیرا طیبامبارکا فیہ غیر مکفی ولامودع ولامستغنی عنہ ربنا۔
حدثنا يحيى بن سعيد , عن مسعر , حدثنا ابو العدبس , عن رجل اظنه ابا خلف , حدثنا ابو مرزوق , قال: قال ابو امامة : خرج علينا رسول الله صلى الله عليه وسلم , فلما رايناه قمنا , قال: " فإذا رايتموني , فلا تقوموا كما يفعل العجم , يعظم بعضها بعضا" , قال: كانا اشتهينا ان يدعو لنا , فقال:" اللهم اغفر لنا , وارحمنا , وارض عنا , وتقبل منا , وادخلنا الجنة , ونجنا من النار , واصلح لنا شاننا كله" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ , عَنْ مِسْعَرٍ , حَدَّثَنَا أَبُو الْعَدَبَّسِ , عَنْ رَجُلٍ أَظُنُّهُ أَبَا خَلَفٍ , حَدَّثَنَا أَبُو مَرْزُوقٍ , قَالَ: قَالَ أَبُو أُمَامَةَ : خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَلَمَّا رَأَيْنَاهُ قُمْنَا , قَالَ: " فَإِذَا رَأَيْتُمُونِي , فَلَا تَقُومُوا كَمَا يَفْعَلُ الْعَجَمُ , يُعَظِّمُ بَعْضُهَا بَعْضًا" , قَالَ: كَأَنَّا اشْتَهَيْنَا أَنْ يَدْعُوَ لَنَا , فَقَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ لَنَا , وَارْحَمْنَا , وَارْضَ عَنَّا , وَتَقَبَّلْ مِنَّا , وَأَدْخِلْنَا الْجَنَّةَ , وَنَجِّنَا مِنَ النَّارِ , وَأَصْلِحْ لَنَا شَأْنَنَا كُلَّهُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم لاٹھی سے ٹیک لگاتے ہوئے ہمارے پاس باہر تشریف لائے تو ہم احتراماً کھڑے ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم لوگ عجمیوں کی طرح مت کھڑے ہوا کرو جو ایک دوسرے کی اس طرح تعظیم کرتے ہیں ہماری خواہش تھی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے لئے دعاء فرما دیں چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء فرمائی کہ اے اللہ! ہمیں معاف فرما ہم پر رحم فرما ہم سے راضی ہوجا ہماری نیکیاں قبول فرما ہمیں جنت میں داخل فرما جہنم سے نجات عطاء فرما اور ہمارے تمام معاملات کو درست فرما۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا لضعف رواته واضطرابه
حدثنا ابن نمير , حدثنا الاعمش , عن حسين الخراساني , عن ابي غالب , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن لله عز وجل عند كل فطر عتقاء" . حدثنا عبد الله , قال: سمعت ابي , يقول: حسين الخراساني هذا هو حسين بن واقد.حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ حُسَيْنٍ الْخُرَاسَانِيِّ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ لِلَّهِ عَزَّ وَجَلَّ عِنْدَ كُلِّ فِطْرٍ عُتَقَاءَ" . حَدَّثَنَا عَبْد اللَّهِ , قَالَ: سَمِعْت أَبِي , يَقُولُ: حُسَيْنٌ الْخُرَاسَانِيُّ هَذَا هُوَ حُسَيْنُ بْنُ وَاقِدٍ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا روزانہ افطاری کے وقت اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل أبى غالب، فقد اختلف فيه
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسکرا رہے تھے، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کس وجہ سے مسکرا رہے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تعجب ہوتا ہے اس قوم پر جسے زنجیروں میں جکڑ کر جنت کی طرف لے جایا جاتا ہے (ان کے اعمال انہیں جہنم کی طرف لے جا رہے ہوتے ہیں لیکن اللہ کی نظر کرم انہیں جنت کی طرف لے جا رہی ہوتی ہے)
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل أبى غالب
حدثنا ابن نمير , حدثنا حجاج بن دينار الواسطي , عن ابي غالب , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما ضل قوم بعد هدى كانوا عليه , إلا اوتوا الجدل" , ثم قرا: ما ضربوه لك إلا جدلا بل هم قوم خصمون سورة الزخرف آية 58 ..حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ , حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ دِينَارٍ الْوَاسِطِيُّ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا ضَلَّ قَوْمٌ بَعْدَ هُدًى كَانُوا عَلَيْهِ , إِلَّا أُوتُوا الْجَدَلَ" , ثُمَّ قَرَأَ: مَا ضَرَبُوهُ لَكَ إِلا جَدَلا بَلْ هُمْ قَوْمٌ خَصِمُونَ سورة الزخرف آية 58 ..
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا راہ ہدایت پر گامزن ہونے کے بعد جو قوم بھی دوبارہ گمراہ ہوتی ہے وہ لڑائی جھگڑوں میں پڑجاتی ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی " یہ لوگ آپ کے سامنے جھگڑے کے علاوہ کچھ نہیں رکھتے بلکہ یہ تو جھگڑالو لوگ ہیں "
حكم دارالسلام: حديث حسن بطرقه وشواهده، أبو غالب يعتبر به فى المتابعات والشواهد، وقد اختلف فيه
حدثنا وكيع , حدثنا الاعمش , عن شمر , عن شهر بن حوشب , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا توضا الرجل المسلم , خرجت ذنوبه من سمعه , وبصره , ويديه , ورجليه , فإن قعد , قعد مغفورا له" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ , عَنْ شِمْرٍ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَوَضَّأَ الرَّجُلُ الْمُسْلِمُ , خَرَجَتْ ذُنُوبُهُ مِنْ سَمْعِهِ , وَبَصَرِهِ , وَيَدَيْهِ , وَرِجْلَيْهِ , فَإِنْ قَعَدَ , قَعَدَ مَغْفُورًا لَهُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب کوئی مسلمان وضو کرتا ہے تو اس کے کان، آنکھ ہاتھ اور پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں، پھر جب وہ بیٹھتا ہے تو بخشا بخشایا ہوا بیٹھتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر ، وقد توبع
حدثنا وكيع , حدثنا حماد بن سلمة , عن ابي غالب , عن ابي امامة , قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم وهو عند الجمرة الاولى , فقال: يا رسول الله , اي الجهاد افضل؟ قال: فسكت عنه , ولم يجبه , ثم ساله عند الجمرة الثانية , فقال له مثل ذلك , فلما رمى النبي صلى الله عليه وسلم جمرة العقبة , ووضع رجله في الغرز , قال:" اين السائل؟" قال: " كلمة عدل عند إمام جائر" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الْأُولَى , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَيُّ الْجِهَادِ أَفْضَلُ؟ قَالَ: فَسَكَتَ عَنْهُ , وَلَمْ يُجِبْهُ , ثُمَّ سَأَلَهُ عِنْدَ الْجَمْرَةِ الثَّانِيَةِ , فَقَالَ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ , فَلَمَّا رَمَى النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَمْرَةَ الْعَقَبَةِ , وَوَضَعَ رِجْلَهُ فِي الْغَرْزِ , قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ؟" قَالَ: " كَلِمَةُ عَدْلٍ عِنْدَ إِمَامٍ جَائِرٍ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک آدمی حاضر ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت جمرات کو کنکریاں مار رہے تھے اس نے یہ سوال پوچھا کہ یا رسول اللہ! سب سے زیادہ پسندیدہ جہاد اللہ تعالیٰ کے نزدیک کون سا جہاد ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے پھر وہ جمرہ ثانیہ کے پاس دوبارہ حاضر ہوا اور یہی سوال دہرایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر خاموش رہے پھر وہ جمرہ ثالثہ کے پاس دوبارہ حاضر ہوا اور یہی سوال دہرایا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ حق بات جو کسی ظالم بادشاہ کے سامنے کہی جائے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل أبى غالب
حدثنا وكيع , حدثنا حماد بن سلمة , عن ابي غالب , عن ابي امامة , انه راى رءوسا منصوبة على درج مسجد دمشق , فقال ابو امامة: " كلاب النار , كلاب النار, ثلاثا شر قتلى تحت اديم السماء , خير قتلى من قتلوه" , ثم قرا يوم تبيض وجوه وتسود وجوه سورة آل عمران آية 106 الآيتين , قلت لابي امامة: اسمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: لو لم اسمعه إلا مرتين , او ثلاثا , او اربعا , او خمسا , او ستا , او سبعا ما حدثتكم.حَدَّثَنَا وَكِيعٌ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنُهْ رَأَى رُءُوسًا مَنْصُوبَةً عَلَى دَرَجِ مَسْجِدِ دِمَشْقَ , فَقَالَ أَبُو أُمَامَةَ: " كِلَابُ النَّارِ , كِلَابُ النَّارِ, ثَلَاثًا شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ أَدِيمِ السَّمَاءِ , خَيْرُ قَتْلَى مَنْ قَتَلُوهُ" , ثُمَّ قَرَأَ يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ سورة آل عمران آية 106 الْآيَتَيْنِ , قُلْتُ لِأَبِي أُمَامَةَ: أَسَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ إِلَّا مَرَّتَيْنِ , أَوْ ثَلَاثًا , أَوْ أَرْبَعًا , أَوْ خَمْسًا , أَوْ سِتًّا , أَوْ سَبْعًا مَا حَدَّثْتُكُمْ.
ابو غالب کہتے ہیں کہ عراق سے کچھ خوارج کے سر لا کر مسجد دمشق کے دروازے پر لٹکا دیئے گئے، حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ آئے اور رونے لگے اور تین مرتبہ فرمایا جہنم کے کتے ہیں اور تین مرتبہ فرمایا آسمان کے سائے تلے سب سے بدترین مقتول ہیں اور آسمان کے سائے تلے سب سے بہترین مقتول وہ تھا جسے انہوں نے شہید کردیا۔
تھوڑے دیر بعد جب واپس ہوئے تو کسی نے پوچھا کہ پھر آپ روئے کیوں تھے؟ انہوں نے فرمایا کہ مجھے ان پر ترس آرہا تھا اے ابو امامہ! یہ جو آپ نے " جہنم کے کتے " کہا یہ بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں، انہوں نے فرمایا سبحان اللہ! اگر میں نے کوئی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سات مرتبہ تک سنی ہو اور پھر درمیان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نکال دوں تو میں بڑا جری ہوں گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل أبى غالب، وقد توبع
حدثنا يزيد , حدثنا سليمان التيمي , عن سيار , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " فضلت باربع: جعلت الارض لامتي مسجدا وطهورا , وارسلت إلى الناس كافة , ونصرت بالرعب من مسيرة شهر يسير بين يدي , واحلت لامتي الغنائم" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ , عَنْ سَيَّارٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " فُضِّلْتُ بِأَرْبَعٍ: جُعِلَتْ الْأَرْضُ لِأُمَّتِي مَسْجِدًا وَطَهُورًا , وَأُرْسِلْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً , وَنُصِرْتُ بِالرُّعْبِ مِنْ مَسِيرَةِ شَهْرٍ يَسِيرُ بَيْنَ يَدَيَّ , وَأُحِلَّتْ لِأُمَّتِي الْغَنَائِمُ" .
حضرت ابو امامہ باہلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء (علیہم السلام) یا امتوں پر مجھے چار فضیلتیں عطاء فرمائی ہیں مجھے ساری انسانیت کی طرف بھیجا گیا ہے روئے زمین کو میرے لئے اور میری امت کے لئے سجدہ گاہ اور طہارت کا ذریعہ بنادیا گیا ہے چنانچہ میری امت پر جہاں بھی نماز کا وقت آجائے تو وہی اس کی مسجد ہے اور وہیں اس کی طہارت کے لئے مٹی موجود ہے اور ایک ماہ کی مسافت پر رعب کے ذریعے میری مدد کی گئی ہے جو میرے دشمنوں کے دلوں میں پیدا ہوجاتا ہے اور ہمارے لئے مال غنیمت کو حلال کردیا گیا ہے۔
حدثنا يزيد بن هارون , حدثنا حريز , حدثنا سليم بن عامر , عن ابي امامة , قال: إن فتى شابا اتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: يا رسول الله , ائذن لي بالزنا , فاقبل القوم عليه , فزجروه , قالوا: مه مه , فقال:" ادنه" , فدنا منه قريبا , قال: فجلس , قال: " اتحبه لامك؟" , قال: لا والله , جعلني الله فداءك , قال:" ولا الناس يحبونه لامهاتهم" , قال:" افتحبه لابنتك؟" , قال: لا والله يا رسول الله , جعلني الله فداءك , قال:" ولا الناس يحبونه لبناتهم , قال: افتحبه لاختك؟" , قال: لا والله , جعلني الله فداءك , قال:" ولا الناس يحبونه لاخواتهم , قال: افتحبه لعمتك؟" , قال: لا والله , جعلني الله فداءك , قال:" ولا الناس يحبونه لعماتهم , قال: افتحبه لخالتك؟" , قال: لا والله , جعلني الله فداءك , قال:" ولا الناس يحبونه لخالاتهم , قال: فوضع يده عليه , وقال:" اللهم اغفر ذنبه , وطهر قلبه , وحصن فرجه" , فلم يكن بعد ذلك الفتى يلتفت إلى شيء ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا حَرِيزٌ , حَدَّثَنَا سُلَيْمُ بْنُ عَامِرٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: إِنَّ فَتًى شَابًّا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ائْذَنْ لِي بِالزِّنَا , فَأَقْبَلَ الْقَوْمُ عَلَيْهِ , فَزَجَرُوهُ , قَالُوا: مَهْ مَهْ , فَقَالَ:" ادْنُهْ" , فَدَنَا مِنْهُ قَرِيبًا , قَالَ: فَجَلَسَ , قَالَ: " أَتُحِبُّهُ لِأُمِّكَ؟" , قَالَ: لَا وَاللَّهِ , جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ , قَالَ:" وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأُمَّهَاتِهِمْ" , قَالَ:" أَفَتُحِبُّهُ لِابْنَتِكَ؟" , قَالَ: لَا وَاللَّهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ , جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ , قَالَ:" وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِبَنَاتِهِمْ , قَالَ: أَفَتُحِبُّهُ لِأُخْتِكَ؟" , قَالَ: لَا وَاللَّهِ , جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ , قَالَ:" وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِأَخَوَاتِهِمْ , قَال: أَفَتُحِبُّهُ لِعَمَّتِكَ؟" , قَالَ: لَا وَاللَّهِ , جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ , قَالَ:" وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِعَمَّاتِهِمْ , قَالَ: أَفَتُحِبُّهُ لِخَالَتِكَ؟" , قَالَ: لَا وَاللَّهِ , جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ , قَالَ:" وَلَا النَّاسُ يُحِبُّونَهُ لِخَالَاتِهِمْ , قَالَ: فَوَضَعَ يَدَهُ عَلَيْهِ , وَقَالَ:" اللَّهُمَّ اغْفِرْ ذَنْبَهُ , وَطَهِّرْ قَلْبَهُ , وَحَصِّنْ فَرْجَهُ" , فَلَمْ يَكُنْ بَعْدُ ذَلِكَ الْفَتَى يَلْتَفِتُ إِلَى شَيْءٍ ..
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک نوجوان نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھے زنا کرنے کی اجازت دے دیجئے لوگ اس کی طرف متوجہ ہو کر اسے ڈانٹنے لگے اور اسے پیچھے ہٹانے لگے، لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سے فرمایا میرے قریب آجاؤ، وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب جا کر بیٹھ گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے پوچھا کیا تم اپنی والدہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی ماں کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بیٹی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بیٹی کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی بہن کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی بہن کے لے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی پھوپھی کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا اللہ کی قسم! کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی پھوپھی کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر پوچھا کیا تم اپنی خالہ کے حق میں بدکاری کو پسند کرو گے؟ اس نے کہا کہ اللہ کی قسم کبھی نہیں، میں آپ پر قربان جاؤں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگ بھی اسے اپنی خالہ کے لئے پسند نہیں کرتے، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا دست مبارک اس کے جسم پر رکھا اور دعاء کی کہ اے اللہ! اس کے گناہ معاف فرما، اس کے دل کو پاک فرما اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرما، راوی کہتے ہیں کہ اس کے بعد اس نوجوان نے کبھی کسی کی طرف توجہ بھی نہیں کی۔
حدثنا يزيد بن هارون , اخبرنا هشام , عن يحيى , عن زيد بن سلام , عن ابي سلام , انه سمع ابا امامة , يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اقرءوا القرآن , فإنه ياتي شافعا لاصحابه يوم القيامة , اقرءوا الزهراوين البقرة وآل عمران , فإنهما ياتيان يوم القيامة كانهما غمامتان او غيايتان , او كانهما فرقان من طير صواف يحاجان عن صاحبهما , واقرءوا سورة البقرة , فإن اخذها بركة , وتركها حسرة , ولا تستطيعها البطلة" , قال عبد الله: هذا الحديث املاه يزيد بن هارون بواسط.حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , أَخْبَرَنَا هِشَامٌ , عَنْ يَحْيَى , عَنْ زَيْدِ بْنِ سَلَّامٍ , عَنْ أَبِي سَلَّامٍ , أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اقْرَءُوا الْقُرْآنَ , فَإِنَّهُ يَأْتِي شَافِعًا لِأَصْحَابِهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , اقْرَءُوا الزَّهْرَاوَيْنِ الْبَقَرَةَ وَآلَ عِمْرَانَ , فَإِنَّهُمَا يَأْتِيَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ أَوْ غَيَايَتَانِ , أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ يُحَاجَّانِ عَنْ صَاحِبِهِمَا , وَاقْرَءُوا سُورَةَ الْبَقَرَةِ , فَإِنَّ أَخْذَهَا بَرَكَةٌ , وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ , وَلَا تَسْتَطِيعُهَا الْبَطَلَةُ" , قَالَ عَبْد اللَّهِ: هَذَا الْحَدِيثُ أَمْلَاهُ يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ بِوَاسِطٍ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ قرآن کریم کی تلاوت کیا کرو کیونکہ یہ قیامت کے دن اپنے پڑھنے والوں کی سفارش کرے گا دو روشن سورتیں یعنی سورت بقرہ اور آل عمران کی تلاوت کیا کرو، کیونکہ یہ دونوں سورتیں قیامت کے دن سائبانوں کی شکل یا پرندوں کی دو صف بستہ ٹولیوں کی شکل میں آئیں گی اور اپنے پڑھنے والوں کا دفاع کریں گی پھر فرمایا سورت بقرہ کی تلاوت کیا کرو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت ہے اور باطل (جادوگر) اس کی طاقت نہیں رکھتے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، يحيى بن أبى كثير لم يسمعه من أبى سلام، لكنه توبع
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لے آیا اور اس شخص کے لئے بھی خوشخبری ہے جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لے آئے سات مرتبہ فرمایا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أيمن
حدثنا يزيد , حدثنا حريز بن عثمان , عن عبد الرحمن بن ميسرة , عن ابي امامة , انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " ليدخلن الجنة بشفاعة رجل ليس بنبي , مثل الحيين , او مثل احد الحيين: ربيعة , ومضر" , فقال رجل: يا رسول الله , او ما ربيعة من مضر؟ فقال:" إنما اقول ما اقول" ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ , حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَيْسَرَةَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ رَجُلٍ لَيْسَ بِنَبِيٍّ , مِثْلُ الْحَيَّيْنِ , أَوْ مِثْلُ أَحَدِ الْحَيَّيْنِ: رَبِيعَةَ , وَمُضَرَ" , فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أوَ مَا رَبِيعَةُ مِنْ مُضَرَ؟ فَقَالَ:" إِنَّمَا أَقُولُ مَا أُقَوَّلُ" ..
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ صرف ایک آدمی کی شفاعت کی برکت سے " جو نبی نہیں ہوگا " ربیعہ اور مضر جیسے دو قبیلوں یا ایک قبیلے کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ربیعہ، مضر قبیلے کا حصہ نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہنا ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده دون قوله: فقال رجل: يارسول الله.... فهي زيادة شاذة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ وضو کیا تو تین تین مرتبہ دونوں ہاتھوں کو دھویا تین مرتبہ کلی کی ناک میں پانی ڈالا اور ہر عضو کو تین تین مرتبہ دھویا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، سميع مجهول، وعمرو لم يسمع من سميع، وسميع لم يسمع من أبى أمامة
حدثنا حدثنا يزيد , انبانا فرج بن فضالة الحمصي , عن علي بن يزيد , عن القاسم , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" إن الله عز وجل بعثني رحمة وهدى للعالمين , وامرني ان امحق المزامير والكبارات يعني: البرابط , والمعازف , والاوثان التي كانت تعبد في الجاهلية , واقسم ربي عز وجل بعزته: لا يشرب عبد من عبيدي جرعة من خمر , إلا سقيته مكانها من حميم جهنم معذبا او مغفورا له , ولا يسقيها صبيا صغيرا , إلا سقيته مكانها من حميم جهنم معذبا او مغفورا له , ولا يدعها عبد من عبيدي من مخافتي , إلا سقيتها إياه من حظيرة القدس , ولا يحل بيعهن , ولا شراؤهن , ولا تعليمهن , ولا تجارة فيهن , واثمانهن حرام للمغنيات" . قال يزيد: الكبارات: البرابط.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا يَزِيدُ , أَنْبَأَنَا فَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ الْحِمْصِيُّ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ , عَنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ بَعَثَنِي رَحْمَةً وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ , وَأَمَرَنِي أَنْ أَمْحَقَ الْمَزَامِيرَ وَالْكَبَارَاتِ يَعْنِي: الْبَرَابِطَ , وَالْمَعَازِفَ , وَالْأَوْثَانَ الَّتِي كَانَتْ تُعْبَدُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ , وَأَقْسَمَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بِعِزَّتِهِ: لَا يَشْرَبُ عَبْدٌ مِنْ عَبِيدِي جَرْعَةً مِنْ خَمْرٍ , إِلَّا سَقَيْتُهُ مَكَانَهَا مِنْ حَمِيمِ جَهَنَّمَ مُعَذَّبًا أَوْ مَغْفُورًا لَهُ , وَلَا يَسْقِيهَا صَبِيًّا صَغِيرًا , إِلَّا سَقَيْتُهُ مَكَانَهَا مِنْ حَمِيمِ جَهَنَّمَ مُعَذَّبًا أَوْ مَغْفُورًا لَهُ , وَلَا يَدَعُهَا عَبْدٌ مِنْ عَبِيدِي مِنْ مَخَافَتِي , إِلَّا سَقَيْتُهَا إِيَّاهُ مِنْ حَظِيرَةِ الْقُدُسِ , وَلَا يَحِلُّ بَيْعُهُنَّ , وَلَا شِرَاؤُهُنَّ , وَلَا تَعْلِيمُهُنَّ , وَلَا تِجَارَةٌ فِيهِنَّ , وَأَثْمَانُهُنَّ حَرَامٌ لِلْمُغَنِّيَاتِ" . قَالَ يَزِيدُ: الْكَبَارَاتِ: الْبَرَابِطُ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے جہان والوں کے لئے باعث رحمت و ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ موسقی کے آلات، طبلے، آلات لہو ولعب اور ان تمام بتوں کو مٹا ڈالوں جن کی زمانہ جاہلیت میں پرستش کی جاتی تھی اور میرے رب نے اپنی عزت کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ میرا جو بندہ بھی شراب کا ایک گھونٹ پیئے گا میں اس کے بدلے میں اسے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ضرور پلاؤں گا خواہ اسے عذاب میں مبتلا رکھا جائے یا بعد میں اس کی بخشش کردی جائے اور اگر کسی نابالغ بچے کو بھی اس کا ایک گھونٹ پلایا تو اسے بھی اس کے بدلے میں جہنم کا کھولتا ہوا پانی ضرور پلاؤں گا خواہ اسے عذاب میں مبتلا رکھا جائے یا بعد میں اس کی بخشش کردی جائے اور میرا جو بندہ میرے خوف کی وجہ سے اسے چھوڑ دے گا میں اسے اپنی پاکیزہ شراب پلاؤں گا اور مغنیہ عورتوں کی بیع وشراء انہیں گانابجانا سکھانا اور ان کی تجارت کرنا جائز نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، فرج بن فضالة ضعيف، وعلي بن يزيد ضعيف
حدثنا يزيد بن هارون , حدثنا شريك , عن منصور , عن سالم بن ابي الجعد , عن ابي امامة , قال: اتت النبي صلى الله عليه وسلم امراة ومعها صبي لها تحمله , وبيدها آخر ولا اعلمه إلا قال: وهي حامل , فلم تسال رسول الله صلى الله عليه وسلم شيئا يومئذ إلا اعطاها إياه , ثم قال: " حاملات والدات رحيمات باولادهن , لولا ما ياتين إلى ازواجهن , دخل مصلياتهن الجنة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ مَنْصُورٍ , عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: أَتَتْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ امْرَأَةٌ وَمَعَهَا صَبِيٌّ لَهَا تَحْمِلُهُ , وَبِيَدِهَا آخَرُ وَلَا أَعْلَمُهُ إِلَّا قَالَ: وَهِيَ حَامِلٌ , فَلَمْ تَسْأَلْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا يَوْمَئِذٍ إِلَّا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ , ثُمَّ قَالَ: " حَامِلَاتٌ وَالِدَاتٌ رَحِيمَاتٌ بِأَوْلَادِهِنَّ , لَوْلَا مَا يَأْتُينَ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ , دَخَلَ مُصَلِّيَاتُهُنَّ الْجَنَّةَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت اپنے ایک بچے کے ہمراہ اسے اٹھاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مانگنے کے لئے آئی اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی مانگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دے دیا پھر فرمایا بچوں کو اٹھانے والی یہ مائیں اپنی اولاد پر کتنی مہربان ہیں اگر وہ چیز نہ ہوتی جو یہ اپنے شوہروں کے ساتھ کرتی ہیں تو ان کی نمازی عورتیں جنت میں داخل ہوجائیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، سالم لم يسمعه من أبى أمامة
حدثنا يزيد , اخبرنا مهدي بن ميمون , عن محمد بن ابي يعقوب , عن رجاء بن حيوة , عن ابي امامة , قال: انشا رسول الله صلى الله عليه وسلم غزوا فاتيته , فقلت: يا رسول الله , ادع الله لي بالشهادة , قال: " اللهم سلمهم وغنمهم" , فغزونا , فسلمنا وغنمنا , ثم انشا غزوا آخر , فاتيته , فقلت: يا رسول الله , ادع الله لي بالشهادة , قال:" اللهم سلمهم وغنمهم" فغزونا , فسلمنا وغنمنا , ثم انشا غزوا آخر , فاتيته , فقلت: يا رسول الله , اتيتك تترى ثلاثا اسالك ان تدعو الله لي بالشهادة , فقلت: اللهم سلمهم وغنمهم , فغزونا , فسلمنا وغنمنا , فمرني يا رسول الله , بامر ينفعني الله به , قال:" عليك بالصوم , فإنه لا مثل له" , قال: وكان ابو امامة لا يكاد يرى في بيته الدخان بالنهار , فإذا رئي الدخان بالنهار , عرفوا ان ضيفا اعتراهم , مما كان يصوم هو واهله , قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم , فقلت: يا رسول الله , إنك امرتني بامر ارجو ان يكون الله قد نفعني به , فمرني بامر آخر , قال:" اعلم انك لا تسجد لله سجدة , إلا رفعك الله بها درجة , وحط عنك بها خطيئة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ , أَخْبَرَنَا مَهْدِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي يَعْقُوبَ , عَنْ رَجَاءِ بْنِ حَيْوَةَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: أَنْشَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزْوًا فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ادْعُ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , قَالَ: " اللَّهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ" , فَغَزَوْنَا , فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا , ثُمَّ أَنْشَأَ غَزْوًا آخَرَ , فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , ادْعُ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , قَالَ:" اللَّهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ" فَغَزَوْنَا , فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا , ثُمَّ أَنْشَأَ غَزْوًا آخَرَ , فَأَتَيْتُهُ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَتَيْتُكَ تَتْرَى ثَلَاثًا أَسْأَلُكَ أَنْ تَدْعُوَ اللَّهَ لِي بِالشَّهَادَةِ , فَقُلْتَ: اللَّهُمَّ سَلِّمْهُمْ وَغَنِّمْهُمْ , فَغَزَوْنَا , فَسَلِمْنَا وَغَنِمْنَا , فَمُرْنِي يَا رَسُولَ اللَّهِ , بِأَمْرٍ يَنْفَعُنِي اللَّهُ بِهِ , قَالَ:" عَلَيْكَ بِالصَّوْمِ , فَإِنَّهُ لَا مِثْلَ لَهُ" , قَالَ: وَكَانَ أَبُو أُمَامَةَ لَا يَكَادُ يُرَى فِي بَيْتِهِ الدُّخَانُ بِالنَّهَارِ , فَإِذَا رُئِيَ الدُّخَانُ بِالنَّهَارِ , عَرَفُوا أَنَّ ضَيْفًا اعْتَرَاهُمْ , مِمَّا كَانَ يَصُومُ هُوَ وَأَهْلُهُ , قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّكَ أَمَرْتَنِي بِأَمْرٍ أَرْجُو أَنْ يَكُونَ اللَّهُ قَدْ نَفَعَنِي بِهِ , فَمُرْنِي بِأَمْرٍ آخَرَ , قَالَ:" اعْلَمْ أَنَّكَ لَا تَسْجُدُ لِلَّهِ سَجْدَةً , إِلَّا رَفَعَكَ اللَّهُ بِهَا دَرَجَةً , وَحَطَّ عَنْكَ بِهَا خَطِيئَةً" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک لشکر ترتییب دیا (جس میں میں بھی تھا) میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! میرے حق میں اللہ سے شہادت کی دعاء کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دعاء کی کہ اے اللہ! انہیں سلامت رکھ اور مال غنیمت عطاء فرما، چنانچہ ہم مال غنیمت کے ساتھ صحیح سالم واپس آگئے (دو بارہ لشکر ترتیب دیا تو پھر میں نے یہی عرض کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی دعاء دی) تیسری مرتبہ جب لشکر ترتیب دیا تو میں نے حاضر خدمت ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ! میں اس سے پہلے بھی دو مرتبہ آپ کے پاس آچکا ہوں، میں نے آپ سے یہ درخواست کی تھی کہ اللہ سے میرے حق میں شہادت کی دعاء کر دیجئے لیکن آپ نے سلامتی اور غنیمت کی دعاء کی اور ہم مال غنیمت لے کر صحیح سالم واپس آگئے لہٰذا یا رسول اللہ! اب تو میرے لئے شہادت کی دعا فرمادیں لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر سلامتی اور غنیمت کی دعاء کی اور ہم مال غنیمت لے کر صحیح سالم واپس آگئے۔
اس کے بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کسی عمل کا حکم دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اوپر روزے کو لازم کرلو کیونکہ روزے کی حالت ہی میں ملے اور اگر دن کے وقت ان کے گھر سے دھواں اٹھتا ہوا دکھائی دیتا تو لوگ سمجھ جاتے کہ آج ان کے یہاں کوئی مہمان آیا ہے۔
حضرت امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک عرصہ تک میں اس پر عمل کرتا رہاجب تک اللہ کو منظور ہوا پھر میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے روزہ رکھنے کا حکم دیا تھا مجھے امید ہے کہ اللہ نے ہمیں اس کی برکتیں عطاء فرمائی ہیں اب مجھے کوئی اور عمل بتا دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس بات پر یقین رکھو کہ اگر تم اللہ کے لئے ایک سجدہ کرو گے تو اللہ اس کی برکت سے تمہارا ایک درجہ بلند کر دے گا اور ایک گناہ معاف کر دے گا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اصحاب صفہ میں سے ایک آدمی فوت ہوگیا اور ایک دو دینار چھوڑ گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ جہنم کا ایک یا دو داغ ہیں۔
حدثنا عفان , حدثنا حماد بن زيد , حدثنا سنان ابو ربيعة صاحب السابري , عن شهر بن حوشب , عن ابي امامة , قال: " وصف وضوء رسول الله صلى الله عليه وسلم , فذكر ثلاثا ثلاثا , ولا ادري كيف ذكر المضمضة والاستنشاق , وقال: والاذنان من الراس , قال: وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح الماقين , وقال: باصبعيه" , وارانا حماد ومسح ماقيه.حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , حَدَّثَنَا سِنَانٌ أَبُو رَبِيعَةَ صَاحِبُ السَّابِرِيِّ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: " وَصَفَ وُضُوءَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَر ثَلَاثًا ثَلَاثًا , وَلَا أَدْرِي كَيْفَ ذَكَرَ الْمَضْمَضَةَ وَالِاسْتِنْشَاقَ , وَقَالَ: وَالْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ , قَالَ: وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ الْمَاقَيْنِ , وَقَالَ: بِأُصْبُعَيْهِ" , وَأَرَانَا حَمَّادٌ وَمَسَحَ مَاقَيْهِ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے وضو کرنے کا طریقہ بیان کرتے ہوئے اعضاء وضو کو تین تین مرتبہ دھونے کا ذکر کیا، کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا عدد مجھے یاد نہیں رہا اور فرمایا کہ کان سر کا حصہ ہیں نیز یہ بھی فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کے حلقوں کو مسلتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: الأذنان من الرأس، والمسح على المأقين، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، وأبي ربيعة، وللاختلاف فى رفع ووقف قوله: الأذنان من الرأس
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تین مرتبہ کلی کرتے تھے تین مرتبہ ناک میں پانی ڈالتے تھے اور چہرہ اور ہاتھوں کو تین تین مرتبہ دھوتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، سميع مجهول، وعمرو لم يسمع من سميع، وسميع لم يسمع من أبى أمامة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اپنی صفیں سیدھی رکھا کرو ورنہ تمہارے چہرے مسخ کردیئے جائیں گے اور نگاہیں نیچی رکھا کرو، ورنہ تمہاری بینائی سلب کرلی جائے گی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عبيد الله بن زحر، وعلي بن يزيد ضعيفان، لكنه صح بغير هذه السياقة
حدثنا قتيبة , حدثنا ليث , عن سعيد بن ابي هلال , عن علي بن خالد , ان ابا امامة الباهلي مر على خالد بن يزيد بن معاوية فساله عن الين كلمة سمعها من رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " الا كلكم يدخل الجنة إلا من شرد على الله شراد البعير على اهله" .حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ , حَدَّثَنَا لَيْثٌ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ أَبِي هِلَالٍ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ خَالِدٍ , أَنَّ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ مَرَّ عَلَى خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ بْنِ مُعَاوِيَةَ فَسَأَلَهُ عَنْ أَلْيَنِ كَلِمَةٍ سَمِعَهَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " أَلَا كُلُّكُمْ يَدْخُلُ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ شَرَدَ عَلَى اللَّهِ شِرَادَ الْبَعِيرِ عَلَى أَهْلِهِ" .
علی بن خالد کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کا گذر خالد بن یزید پر ہوا تو اس نے ان سے پوچھا کہ کوئی نرم بات جو آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہو؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے یاد رکھو! تم میں سے ہر شخص جنت میں داخل ہوگا سوائے اس آدمی کے جو اللہ کی اطاعت سے اس طرح بدک کر نکل جائے جیسے اونٹ اپنے مالک کے سامنے بدک جاتا ہے۔
حدثنا عفان , حدثنا حماد بن سلمة , اخبرنا ابو غالب , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم اقبل من خيبر ومعه غلامان , فقال علي رضي الله عنه: يا رسول الله , اخدمنا , فقال: " خذ ايهما شئت" , فقال: خر لي , قال:" خذ هذا ولا تضربه , فإني قد رايته يصلي مقبلنا من خيبر , وإني قد نهيت عن ضرب اهل الصلاة" , واعطى ابا ذر الغلام الآخر , فقال:" استوص به خيرا" , ثم قال:" يا ابا ذر , ما فعل الغلام الذي اعطيتك؟" , قال: امرتني ان استوصي به خيرا , فاعتقته .حَدَّثَنَا عَفَّانُ , حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , أَخْبَرَنَا أَبُو غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَقْبَلَ مِنْ خَيْبَرَ وَمَعَهُ غُلَامَانِ , فَقَالَ عَلِيٌّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَخْدِمْنَا , فَقَالَ: " خُذْ أَيَّهُمَا شِئْتَ" , فَقَالَ: خِرْ لِي , قَالَ:" خُذْ هَذَا وَلَا تَضْرِبْهُ , فَإِنِّي قَدْ رَأَيْتُهُ يُصَلِّي مَقْبَلَنَا مِنْ خَيْبَرَ , وَإِنِّي قَدْ نَهَيْتُ عَنْ ضَرْبِ أَهْلِ الصَّلَاةِ" , وَأَعْطَى أَبَا ذَرٍّ الْغُلَامَ الْآخَرَ , فَقَالَ:" اسْتَوْصِ بِهِ خَيْرًا" , ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ , مَا فَعَلَ الْغُلَامُ الَّذِي أَعْطَيْتُكَ؟" , قَالَ: أَمَرْتَنِي أَنْ أَسْتَوْصِيَ بِهِ خَيْرًا , فَأَعْتَقْتُهُ .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر سے واپس تشریف لائے تو ان کے ہمراہ دو غلام بھی تھے جن میں سے ایک غلام نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دے دیا اور فرمایا اسے مارنا نہیں کیونکہ میں نے نمازیوں کو مارنے سے منع کیا ہے اور اسے میں نے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا ہے اور دوسرا غلام حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ کودے دیا اور فرمایا میں تمہیں اس کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتا ہوں انہوں نے اسے آزاد کردیا ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا وہ غلام کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ نے مجھے اس کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کی تھی لہٰذا میں نے اسے آزاد کردیا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے اے ابن آدم! اگر میں تیری پیاری آنکھیں واپس لے لوں اور تو اس پر ثواب کی نیت سے ابتدائی صدمہ کے اوقات میں صبر کرلے تو میں تیرے لئے جنت کے علاوہ کسی اور بدلے پر راضی نہیں ہوں گا۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ اللہ کی رضاء کے لئے کسی شخص سے محبت کرتا ہے تو در حقیقت وہ اللہ تعالیٰ کی عزت کرتا ہے۔
ابو غالب سے مروی ہے کہ میں نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے " نافلہ " کا مطلب پوچھا تو انہوں نے فرمایا کہ وہ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے نافلہ ہے جبکہ تمہارے لئے باعث اجروثواب ہے۔
حدثنا سيار بن حاتم , حدثنا جعفر , قال: اتيت فرقدا يوما فوجدته خاليا , فقلت: يا ابن ام فرقد لاسالنك اليوم عن هذا الحديث , فقلت: اخبرني عن قولك في الخسف والقذف , اشيء تقوله انت , او تاثره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: لا , بل آثره عن رسول الله صلى الله عليه وسلم , قلت: ومن حدثك؟ قال: حدثني عاصم بن عمرو البجلي , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم , وحدثني قتادة , عن سعيد بن المسيب , وحدثني به إبراهيم النخعي , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " تبيت طائفة من امتي على اكل , وشرب , ولهو , ولعب , ثم يصبحون قردة وخنازير , فيبعث على احياء من احيائهم ريح , فتنسفهم كما نسفت من كان قبلهم , باستحلالهم الخمور , وضربهم بالدفوف , واتخاذهم القينات" .حَدَّثَنَا سَيَّارُ بْنُ حَاتِمٍ , حَدَّثَنَا جَعْفَرٌ , قَالَ: أَتَيْتُ فَرْقَدًا يَوْمًا فَوَجَدْتُهُ خَالِيًا , فَقُلْتُ: يَا ابْنَ أُمِّ فَرْقَدٍ لَأَسْأَلَنَّكَ الْيَوْمَ عَنْ هَذَا الْحَدِيثِ , فَقُلْتُ: أَخْبِرْنِي عَنْ قَوْلِكَ فِي الْخَسْفِ وَالْقَذْفِ , أَشَيْءٌ تَقُولُهُ أَنْتَ , أَوْ تَأْثُرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: لَا , بَلْ آثُرُهُ عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قُلْتُ: وَمَنْ حَدَّثَكَ؟ قَالَ: حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عَمْرٍو الْبَجَلِيُّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَحَدَّثَنِي قَتَادَةُ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيَّبِ , وَحَدَّثَنِي بِهِ إِبْرَاهِيمُ النَّخَعِيُّ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " تَبِيتُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى أَكْلٍ , وَشُرْبٍ , وَلَهْوٍ , وَلَعِبٍ , ثُمَّ يُصْبِحُونَ قِرَدَةً وَخَنَازِيرَ , فَيُبْعَثُ عَلَى أَحْيَاءٍ مِنْ أَحْيَائِهِمْ رِيحٌ , فَتَنْسِفُهُمْ كَمَا نَسَفَتْ مَنْ كَانَ قَبْلَهُمْ , بِاسْتِحْلَالِهِمْ الْخُمُورَ , وَضَرْبِهِمْ بِالدُّفُوفِ , وَاتِّخَاذِهِمْ الْقَيْنَاتِ" .
جعفر کہتے ہیں کہ ایک دن میں " فرقد " کے پاس آیا تو انہیں تنہا پایا، میں نے ان سے کہا اے ابن ام فرقد! آج میں آپ سے اس حدیث کے متعلق ضرور پوچھ کر رہوں گا یہ بتائیے کہ خسف اور قذف سے متعلق بات آپ اپنی رائے کہتے ہیں یا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کرتے ہیں؟ انہوں نے کہا کہ میں تو اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے نقل کرتا ہوں میں نے ان سے پوچھا کہ پھر یہ حدیث آپ سے کس نے بیان کی ہے؟ انہوں نے کہا عاصم بن عمرو بجلی نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے اور انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل کی ہے۔
ابراہیم نخعی رحمہ اللہ سے مرسلاً مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری امت کا ایک گروہ رات بھر کھانے پینے اور لہو ولعب میں مصروف رہے گا جب صبح ہوگی تو ان کی شکلیں بندروں اور خنزیروں کی شکل میں بدل چکی ہوں گی، پھر ان کے محلوں پر ایک ہوا بھیجی جائے گی جو انہیں اس طرح بکھیر کر رکھ دے گی جیسے پہلے لوگوں کو بکھیر کر رکھ دیا تھا کیونکہ وہ شراب کو حلال سمجھتے ہوں گے، دف (آلات موسیقی) بجاتے ہوں گے اور گانے والی عورتیں (گلو کارائیں) بنا رکھی ہوں گی۔
حكم دارالسلام: هذا الحديث له ثلاثة أسانيد، الأول ضعيف لضعف سيار فرقد، والثاني مرسل، والثالث: معضل
حدثنا الهذيل بن ميمون الكوفي الجعفي , كان يجلس في مسجد المدينة يعني: مدينة ابي جعفر , قال عبد الله: هذا شيخ قديم كوفي , عن مطرح بن يزيد , عن عبيد الله بن زحر , عن علي بن يزيد , عن القاسم , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " دخلت الجنة , فسمعت فيها خشفة بين يدي , فقلت: ما هذا؟ قال: بلال , قال: فمضيت فإذا اكثر اهل الجنة فقراء المهاجرين , وذراري المسلمين , ولم ار احدا اقل من الاغنياء والنساء , قيل لي: اما الاغنياء فهم هاهنا بالباب يحاسبون ويمحصون , واما النساء , فالهاهن الاحمران الذهب والحرير , قال: ثم خرجنا من احد ابواب الجنة الثمانية , فلما كنت عند الباب , اتيت بكفة , فوضعت فيها , ووضعت امتي في كفة , فرجحت بها , ثم اتي بابي بكر رضي الله عنه , فوضع في كفة , وجيء بجميع امتي , فوضعت في كفة , فرجح ابو بكر رضي الله عنه , ثم اتى بعمر , فوضع في كفة , وجيء بجميع امتي فوضعوا , فرجح عمر رضي الله عنه , وعرضت امتي رجلا رجلا , فجعلوا يمرون , فاستبطات عبد الرحمن بن عوف , ثم جاء بعد الإياس , فقلت: عبد الرحمن! فقال: بابي وامي يا رسول الله , والذي بعثك بالحق ما خلصت إليك حتى ظننت اني لا انظر إليك ابدا إلا بعد المشيبات , قال: وما ذاك؟ قال: من كثرة مالي احاسب وامحص" .حَدَّثَنَا الْهُذَيْلُ بْنُ مَيْمُونٍ الْكُوفِيُّ الْجُعْفِيُّ , كَانَ يَجْلِسُ فِي مَسْجِدِ الْمَدِينَةِ يَعْنِي: مَدِينَةَ أَبِي جَعْفَرٍ , قَالَ عَبْد اللَّهِ: هَذَا شَيْخٌ قَدِيمٌ كُوفِيٌّ , عَنْ مُطَّرِحِ بْنِ يَزِيدَ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ زَحْرٍ , عَنْ عَلِيِّ بْنِ يَزِيدَ , عَنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " دَخَلْتُ الْجَنَّةَ , فَسَمِعْتُ فِيهَا خَشْفَةً بَيْنَ يَدَيَّ , فَقُلْتُ: مَا هَذَا؟ قَالَ: بِلَالٌ , قَالَ: فَمَضَيْتُ فَإِذَا أَكْثَرُ أَهْلِ الْجَنَّةِ فُقَرَاءُ الْمُهَاجِرِينَ , وَذَرَارِيُّ الْمُسْلِمِينَ , وَلَمْ أَرَ أَحَدًا أَقَلَّ مِنَ الْأَغْنِيَاءِ وَالنِّسَاءِ , قِيلَ لِي: أَمَّا الْأَغْنِيَاءُ فَهُمْ هَاهُنَا بِالْبَابِ يُحَاسَبُونَ وَيُمَحَّصُونَ , وَأَمَّا النِّسَاءُ , فَأَلْهَاهُنَّ الْأَحْمَرَانِ الذَّهَبُ وَالْحَرِيرُ , قَالَ: ثُمَّ خَرَجْنَا مِنْ أَحَدِ أَبْوَابِ الْجَنَّةِ الثَّمَانِيَةِ , فَلَمَّا كُنْتُ عِنْدَ الْبَابِ , أُتِيتُ بِكِفَّةٍ , فَوُضِعْتُ فِيهَا , وَوُضِعَتْ أُمَّتِي فِي كِفَّةٍ , فَرَجَحْتُ بِهَا , ثُمَّ أُتِيَ بِأَبِي بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , فَوُضِعَ فِي كِفَّةٍ , وَجِيءَ بِجَمِيعِ أُمَّتِي , فوُضعَتْ فِي كِفَّةٍ , فَرَجَحَ أَبُو بَكْرٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , ثم أتى بِعُمَرَ , فَوُضِعَ فِي كِفَّةٍ , وَجِيءَ بِجَمِيعِ أُمَّتِي فَوُضِعُوا , فَرَجَحَ عُمَرُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , وَعُرِضَتْ أُمَّتِي رَجُلًا رَجُلًا , فَجَعَلُوا يَمُرُّونَ , فَاسْتَبْطَأْتُ عَبْدَ الرَّحْمَنِ بْنَ عَوْفٍ , ثُمَّ جَاءَ بَعْدَ الْإِيَاسِ , فَقُلْتُ: عَبْدُ الرُّحْمَنِ! فَقَالَ: بِأَبِي وَأُمِّي يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَالَّذِي بَعَثَكَ بِالْحَقِّ مَا خَلَصْتُ إِلَيْكَ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنِّي لَا أَنْظُرُ إِلَيْكَ أَبَدًا إِلَّا بَعْدَ الْمُشِيبَاتِ , قَالَ: وَمَا ذَاكَ؟ قَالَ: مِنْ كَثْرَةِ مَالِي أُحَاسَبُ وَأُمَحَّصُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جنت میں داخل ہوا تو اپنے سے آگے کسی کے جوتوں کی آہٹ سنائی دی، میں نے پوچھا یہ کون ہے؟ تو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے بتایا کہ یہ بلال ہیں، میں آگے چل پڑا تو دیکھا کہ جنت میں اکثریت مہاجر فقراء اور مسلمانوں کے بچوں کی ہے اور میں نے وہاں مالداروں اور عورتوں سے زیادہ کم تعداد کسی طبقے کی نہیں دیکھی اور بتایا گیا کہ مالدار تو یہاں جنت کے دروازے پر کھڑے ہیں جہاں ان سے حساب کتاب اور جانچ پڑتال کی جا رہی ہے اور خواتین کو سونے اور ریشم نے ہی غفلت میں ڈالے رکھا۔
پھر ہم جنت کے آٹھ میں سے کسی دروازے سے نکل کر باہر آگئے ابھی میں دروازے پر ہی تھا کہ ایک ترازو لایا گیا جس کے ایک پلڑے میں مجھے رکھا گیا اور دوسرے میں میری ساری امت کو تو میرا پلڑا جھک گیا پھر ابوبکر کو لا کر ایک پلڑے میں رکھا گیا اور ساری امت کو دوسرے پلڑے میں ابوبکر کا پلڑا جھک گیا پھر عمر کو لا کر ایک پلڑے میں رکھا گیا اور ساری امت کو دوسرے پلڑے میں تو عمر کا پلڑا جھک گیا پھر میری امت کے ایک ایک آدمی کو میرے سامنے پیش کیا گیا اور وہ میرے آگے سے گذرتے رہے لیکن میں نے دیکھا کہ عبدالرحمن بن عوف نے آنے میں بہت تاخیر کردی ہے کافی دیر بعد جب امید ٹوٹنے لگی تو وہ آئے میں نے ان سے پوچھا عبدالرحمن! کیا بات ہے؟ انہوں نے کہا یا رسول اللہ! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں اس ذات کی قسم جس نے آپ کو حق کے ساتھ بھیجا میری تو جان خلاصی اس وقت ہوئی ہے جب کہ میں یہ سمجھ بیٹھا تھا کہ اب کبھی آپ کی زیارت نہیں کرسکوں گا، الاّ یہ کہ ٹھنڈے دن آجائیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کس وجہ سے؟ عرض کیا مال و دولت کی کثرت کی وجہ سے میرا حساب کتاب اور جانچ پڑتال کی جا رہی تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، على بن يزيد واهي الحديث، وعبيد الله وأبو المهلب ضعيفان
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محبت (اللہ کی طرف سے اور ناموری) آسمان سے آتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو (حضرت جبرائیل علیہ السلام سے) فرماتا ہے کہ میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، پھر یہ محبت زمین والوں کے دل میں ڈال دی جاتی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك
حدثنا يحيى بن إسحاق السيلحيني , حدثنا ابن لهيعة , عن سليمان بن عبد الرحمن , عن القاسم , عن ابي امامة , قال: إني لتحت راحلة رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح , فقال قولا حسنا جميلا , وكان فيما قال: " من اسلم من اهل الكتابين فله اجره مرتين , وله ما لنا وعليه ما علينا , ومن اسلم من المشركين فله اجره , وله ما لنا وعليه ما علينا" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ السِّيلَحِينِيُّ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنِ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: إِنِّي لَتَحْتَ رَاحِلَةِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ , فَقَالَ قَوْلًا حَسَنًا جَمِيلًا , وَكَانَ فِيمَا قَالَ: " مَنْ أَسْلَمَ مِنْ أَهْلِ الْكِتَابَيْنِ فَلَهُ أَجْرُهُ مَرَّتَيْنِ , وَلَهُ مَا لَنَا وَعَلَيْهِ مَا عَلَيْنَا , وَمَنْ أَسْلَمَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ فَلَهُ أَجْرُهُ , وَلَهُ مَا لَنَا وَعَلَيْهِ مَا عَلَيْنَا" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے موقع پر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سواری کے نیچے تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس موقع پر بڑی عمدہ باتیں فرمائیں، انہی میں سے ایک بات یہ بھی تھی کہ اہل کتاب کا جو آدمی مسلمان ہوجائے گا اسے دوگنا اجر ملے گا اور حقوق و فرائض میں وہ ہماری طرح ہوجائے گا اور مشرکین میں سے جو آدمی مسلمان ہوجائے گا، اسے اس کا اجر ملے گا اور وہ بھی حقوق و فرائض میں ہماری طرح ہوجائے گا۔
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف عبدالله بن الهيعة، لكنه توبع
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مؤمن کی نجات کس طرح ہوگی؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے عقبہ! اپنی زبان کی حفاظت کرو اپنے گھر کو اپنے لئے کافی سمجھو اور اپنے گناہوں پر آہ بکاء کرو۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، عبيدالله بن زحر وعلي بن يزيد ضعيفان
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مریض کی مکمل بیمار پرسی یہ ہے کہ تم اس کی پیشانی یا ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر پوچھو کہ وہ کیسا ہے؟ اور تمہاری باہمی ملاقات کے آداب کا مکمل ہونا " مصافحہ " سے ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا ، عبيدالله بن زحر وعلي بن يزيد ضعيفان
حدثنا روح , حدثنا عمر بن ذر , حدثنا ابو الرصافة رجل من اهل الشام من باهلة اعرابي , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من امرئ مسلم تحضره صلاة مكتوبة , فيقوم , فيتوضا , فيحسن الوضوء ويصلي , فيحسن الصلاة , إلا غفر الله له بها ما كان بينها وبين الصلاة التي كانت قبلها من ذنوبه , ثم يحضر صلاة مكتوبة , فيصلي , فيحسن الصلاة , إلا غفر له ما بينها وبين الصلاة التي كانت قبلها من ذنوبه , ثم يحضر صلاة مكتوبة , فيصلي , فيحسن الصلاة , إلا غفر له ما بينها وبين الصلاة التي كانت قبلها من ذنوبه" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ , حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ ذَرٍّ , حَدَّثَنَا أَبُو الرَّصَافَةِ رَجُلٌ مِنْ أَهْلِ الشَّامِ مِنْ بَاهِلَةَ أَعْرَابِيٌّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ تَحْضُرُهُ صَلَاةٌ مَكْتُوبَةٌ , فَيَقُومُ , فَيَتَوَضَّأُ , فَيُحْسِنُ الْوُضُوءَ وَيُصَلِّي , فَيُحْسِنُ الصَّلَاةَ , إِلَّا غَفَرَ اللَّهُ لَهُ بِهَا مَا كَانَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الَّتِي كَانَتْ قَبْلَهَا مِنْ ذُنُوبِهِ , ثُمَّ يَحْضُرُ صَلَاةً مَكْتُوبَةً , فَيُصَلِّي , فَيُحْسِنُ الصَّلَاةَ , إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الَّتِي كَانَتْ قَبْلَهَا مِنْ ذُنُوبِهِ , ثُمَّ يَحْضُرُ صَلَاةً مَكْتُوبَةً , فَيُصَلِّي , فَيُحْسِنُ الصَّلَاةَ , إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الصَّلَاةِ الَّتِي كَانَتْ قَبْلَهَا مِنْ ذُنُوبِهِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جس مسلمان آدمی پر فرض نماز کا وقت آئے اور وہ کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح وضو کرے، پھر خوب اچھی طرح نماز پڑھے تو اس نماز اور گزشتہ نماز کے درمیان ہونے والے اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں پھر دوسری فرض نماز کا وقت آئے اور وہ کھڑا ہو کر خوب اچھی طرح نماز پڑھے تو اس نماز اور گزشتہ نماز کے درمیان ہونے والے اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص اپنی قسم کے ذریعے کسی مسلمان کا حق مار لیتا ہے، اللہ اس کے لئے جہنم کو واجب کردیتا ہے اور جنت کو اس پر حرام قرار دے دیتا ہے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! اگرچہ تھوڑی سی چیز ہو؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگرچہ پیلو کے درخت کی ایک شاخ ہی ہو۔
حدثنا يزيد اخبرنا محمد بن إسحاق , عن معبد بن كعب , فذكر مثله , إلا انه قال: عن ابي امامة بن سهل احد بني حارثة , قال ابو عبد الرحمن: هذا ابو امامة الحارثي , وليس هو ابا امامة الباهلي.حَدَّثَنَا يَزِيدُ أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ , عَنْ مَعْبَدِ بْنِ كَعْبٍ , فَذَكَرَ مِثْلَهُ , إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: عَنْ أَبِي أُمَامَةَ بْنِ سَهْلٍ أَحَدِ بَنِي حَارِثَةَ , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: هَذَا أَبُو أُمَامَةَ الْحَارِثِيُّ , وَلَيْسَ هُوَ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ.
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے البتہ یاد رہے کہ یہ حضرت ابو امامہ حارثی انصاری رضی اللہ عنہ کی روایت ہے جو دوسرے صحابی ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، محمد بن إسحاق مدلس، وقد عنعن، وقد توبع
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص پیشاب وغیرہ زبردستی روک کر نماز کے لئے مت آیا کرے اور جو شخص کو نماز پڑھائے وہ لوگوں کو چھوڑ کر صرف اپنے لئے دعاء نہ مانگے جو ایسا کرتا ہے وہ نمازیوں سے خیانت کرتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: ولا يؤمن أحدكم.....،وهذا إسناد ضعيف لضعف السفر بن نسير، ثم قد اختلف فيه على يزيد بن شريح
حدثنا زيد , حدثني حسين , حدثني ابو غالب , حدثني ابو امامة , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " تقعد الملائكة على ابواب المساجد يوم الجمعة , فيكتبون الاول , والثاني , والثالث حتى إذا خرج الإمام رفعت الصحف" .حَدَّثَنَا زَيْدٌ , حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ , حَدَّثَنِي أَبُو غَالِبٍ , حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " تَقْعُدُ الْمَلَائِكَةُ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسَاجِدِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ , فَيَكْتُبُونَ الْأَوَّلَ , وَالثَّانِيَ , وَالثَّالِثَ حَتَّى إِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ رُفِعَتْ الصُّحُفُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جمعہ کے دن ملائکہ مسجدوں کے دروازوں پر آکربیٹھ جاتے ہیں اور پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والوں کے نام لکھتے رہتے ہیں اور جب امام نکل آتا ہے تو وہ صحیفے اٹھالیے جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل أبى غالب
حدثنا الاسود بن عامر , حدثنا ابو بكر يعني ابن عياش , عن ليث , عن ابن سابط , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تصلوا عند طلوع الشمس , فإنها تطلع بين قرني شيطان , ويسجد لها كل كافر , ولا عند غروبها , فإنها تغرب بين قرني شيطان , ويسجد لها كل كافر , ولا نصف النهار , فإنه عند سجر جهنم" .حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ , حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرٍ يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ , عَنْ لَيْثٍ , عَنِ ابْنِ سَابِطٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُصَلُّوا عِنْدَ طُلُوعِ الشَّمْسِ , فَإِنَّهَا تَطْلُعُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ , وَيَسْجُدُ لَهَا كُلُّ كَافِرٍ , وَلَا عِنْدَ غُرُوبِهَا , فَإِنَّهَا تَغْرُبُ بَيْنَ قَرْنَيْ شَيْطَانٍ , وَيَسْجُدُ لَهَا كُلُّ كَافِرٍ , وَلَا نِصْفَ النَّهَارِ , فَإِنَّهُ عِنْدَ سَجْرِ جَهَنَّمَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا طلوع آفتاب کے وقت کوئی نماز نہ پڑھا کرو، کیونکہ سورج شیطان کے دوسینگوں کے درمیان طلوع ہوتا ہے اور اس وقت ہر کافر اسے سجدہ کرتا ہے اسی طرح غروب آفتاب کے وقت کوئی نماز نہ پڑھا کرو، کیونکہ سورج شیطان کے دو سینگوں کے درمیان غروب ہوتا ہے اور اس وقت ہر کافر اسے سجدہ کرتا ہے اسی طرح نصف النہار کے وقت کوئی نماز نہ پڑھا کرو، کیونکہ اس وقت جہنم کو بھڑکایا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث، وابن سابط لم يسمع من أبى أمامة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد بیٹھ کردو رکعتیں پڑھتے تھے اور ان میں سورت زلزال اور سورت کافرون کی تلاوت فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون تعيين قرأة النيي ﷺ فيهما، فهي محتملة للتحسين، وهذا إسناد حسن فى المتابعات _x000D_
والشواهد من أجل أبى غالب
حدثنا حسن , حدثنا ابن لهيعة , عن خالد بن ابي عمران , عن ابي امامة الباهلي , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم انه قال: " اربعة تجري عليهم اجورهم بعد الموت: مرابط في سبيل الله , ومن عمل عملا اجري له مثل ما عمل , ورجل تصدق بصدقة فاجرها له ما جرت , ورجل ترك ولدا صالحا فهو يدعو له" .حَدَّثَنَا حَسَنٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " أَرْبَعَةٌ تَجْرِي عَلَيْهِمْ أُجُورُهُمْ بَعْدَ الْمَوْتِ: مُرَابِطٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَمَنْ عَمِلَ عَمَلًا أُجْرِيَ لَهُ مِثْلُ مَا عَمِلَ , وَرَجُلٌ تَصَدَّقَ بِصَدَقَةٍ فَأَجْرُهَا لَهُ مَا جَرَتْ , وَرَجُلٌ تَرَكَ وَلَدًا صَالِحًا فَهُوَ يَدْعُو لَهُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چار قسم کے لوگوں کا اجروثواب ان کے مرنے کے بعد بھی انہیں ملتا رہتا ہے (١) اللہ کے راستہ میں اسلامی سرحدوں کی حفاظت کرنے والا (٢) ایسا نیک عمل کرنے والا جس کا عمل جاری ہوجائے (٣) صدقہ جاریہ کرنے والا آدمی (٤) وہ آدمی جو نیک اولاد چھوڑ جائے اور وہ اولاد اس کے لئے دعاء کرتی رہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، وخالد بن أبى عمران لم يسمع من أبى أمامة، وقوله: ومن عمل عملا....ما عملخطأ، صوابه: ورجل علم علما، فأجره يجري عليه ما عمل به
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ ریشم اور سونا نہ پہنے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو وہ ریشم اور سونا نہ پہنے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ابن لهيعة، لكنه توبع
حدثنا ابو النضر , حدثنا حريز , عن عبد الرحمن بن ميسرة , قال: سمعت ابا امامة يقول: " ليدخلن الجنة بشفاعة الرجل الواحد ليس بنبي مثل الحيين او احد الحيين: ربيعة ومضر" , قال قائل: يا رسول الله , او ما ربيعة من مضر؟ قال:" إنما اقول ما اقول" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا حَرِيزٌ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ مَيْسَرَةَ , قَال: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يَقُولُ: " لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ لَيْسَ بِنَبِيٍّ مِثْلُ الْحَيَّيْنِ أَوْ أَحَدِ الْحَيَّيْنِ: رَبِيعَةَ وَمُضَرَ" , قَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , أَوَ مَا رَبِيعَةُ مِنْ مُضَرَ؟ قَالَ:" إِنَّمَا أَقُولُ مَا أُقَوَّلُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ صرف ایک آدمی کی شفاعت کی برکت سے " جو نبی نہیں ہوگا " ربیعہ اور مضر جیسے دو قبیلوں یا ایک قبیلے کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ربیعہ، مضر قبیلے کا حصہ نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہنا ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده دون قوله: قال قائل: يا رسول الله.... فهي شاذة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی کی سفارش کرے اور سفارش کروانے والا اسے کوئی ہدیہ پیش کرے جسے وہ قبول کرلے تو وہ سود کے ایک عظیم دروازے میں داخل ہوگیا۔
حكم دارالسلام: ضعيف، ابن لهيعة سيئ الحفظ، لكنه متابع، والقاسم بن عبدالرحمن له أفرادات، وهذا منها
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سلام میں پہل کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا، أبو المهلب وعبيد الله بن زحر ضعيفان، وعلي بن يزيد واهي الحديث
حدثنا محمد بن جعفر , حدثنا سعيد , عن قتادة , عن شهر بن حوشب , عن ابي امامة الحمصي , قال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن الوضوء يكفر ما قبله , ثم تصير الصلاة نافلة" , قال: فقيل له: انت سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: نعم , غير مرة , ولا مرتين , ولا ثلاث , ولا اربع , ولا خمس.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ , حَدَّثَنَا سَعِيد , عَنْ قَتَادَةَ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْحِمْصِيِّ , قَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ الْوُضُوءَ يُكَفِّرُ مَا قَبْلَهُ , ثُمَّ تَصِيرُ الصَّلَاةُ نَافِلَةً" , قَالَ: فَقِيلَ لَهُ: أَنْتَ سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ , غَيْرَ مَرَّةٍ , وَلَا مَرَّتَيْنِ , وَلَا ثَلَاثٍ , وَلَا أَرْبَعٍ , وَلَا خَمْسٍ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وضو گزشتہ گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے اور نماز انعامات کا سبب بنتی ہے کسی نے ان سے پوچھا کہ کیا آپ نے واقعی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سنی ہے؟ انہوں نے فرمایا ہاں! ایک دو یا تین چار اور پانچ مرتبہ نہیں (بےشمار مرتبہ سنی ہے)
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، لكنه توبع
حدثنا محمد , حدثنا شعبة , عن ابي التياح , قال: سمعت ابا الجعد يحدث , عن ابي امامة , قال: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على قاص يقص , فامسك , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " قص فلان اقعد غدوة إلى ان تشرق الشمس , احب إلي من ان اعتق اربع رقاب , وبعد العصر حتى تغرب الشمس , احب إلي من ان اعتق اربع رقاب" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ , حَدَّثَنَا شُعْبَةُ , عَنْ أَبِي التَّيَّاحِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا الْجَعْدِ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى قَاصٍّ يَقُصُّ , فَأَمْسَكَ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " قُصَّ فَلَأَنْ أَقْعُدَ غُدْوَةً إِلَى أَنْ تُشْرِقَ الشَّمْسُ , أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُعْتِقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ , وَبَعْدَ الْعَصْرِ حَتَّى تَغْرُبَ الشَّمْسُ , أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ أَنْ أُعْتِقَ أَرْبَعَ رِقَابٍ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم باہر نکلے تو ایک واعظ وعظ کہہ رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھ کر وہ خاموش ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم اپنا وعظ کرتے رہو میرے نیزدیک طلوع آفتاب کے وقت تک بیٹھ کر اللہ کا ذکر کرنا، اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ بہتر ہے اسی طرح نماز عصر سے غروب آفتاب تک اللہ کا ذکر کرنا میرے نزدیک اولاد اسماعیل علیہ السلام میں سے چار غلام آزاد کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا تم میں سے کوئی شخص پیشاب وغیرہ زبردستی روک کر نماز کے لئے مت آیا کرے اور جو شخص نماز پڑھائے وہ لوگوں کو چھوڑ کر صرف اپنے لئے دعاء نہ مانگے کوئی شخص اجازت لئے بغیر گھر میں داخل نہ ہو۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: ولا يخص نفسه بشيء دون أصحابه، وهذا إسناد ضعيف لضعف السفر بن نسير، وقد اختلف فيه على يزيد بن شريح
حدثنا ابن مهدي , عن معاوية يعني ابن صالح , عن عامر بن جشيب , عن خالد بن معدان , قال: حضرنا صنيعا لعبد الاعلى بن هلال , فلما فرغنا من الطعام قام ابو امامة , فقال: لقد قمت مقامي هذا وما انا بخطيب , وما اريد الخطبة , ولكني سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول عند انقضاء الطعام: " الحمد لله كثيرا طيبا مباركا فيه , غير مكفي , ولا مودع , ولا مستغنى عنه" , قال: فلم يزل يرددهن علينا حتى حفظناهن .حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ , عَنْ مُعَاوِيَةَ يَعْنِي ابْنَ صَالِحٍ , عَنْ عَامِرِ بْنِ جَشِيبٍ , عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ , قَالَ: حَضَرْنَا صَنِيعًا لِعَبْدِ الْأَعْلَى بْنِ هِلَالٍ , فَلَمَّا فَرَغْنَا مِنَ الطَّعَامِ قَامَ أَبُو أُمَامَةَ , فَقَالَ: لَقَدْ قُمْتُ مَقَامِي هَذَا وَمَا أَنَا بِخَطِيبٍ , وَمَا أُرِيدُ الْخُطْبَةَ , وَلَكِنِّي سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ عِنْدَ انْقِضَاءِ الطَّعَامِ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ , غَيْرَ مَكْفِيٍّ , وَلَا مُوَدَّعٍ , وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ" , قَالَ: فَلَمْ يَزَلْ يُرَدِّدُهُنَّ عَلَيْنَا حَتَّى حَفِظْنَاهُنَّ .
خالد بن معدان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ عبدالاعلیٰ بن بلال کی دعوت میں شریک تھے کھانے سے فراغت کے بعد حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس جگہ کھڑا تو ہوگیا ہوں لیکن میں خطیب ہوں اور نہ ہی تقریر کے ارادے سے کھڑا ہوا ہوں البتہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعاء پڑھتے ہوتے سنا ہے " الحمدللہ کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مکفی ولامودع ولامستغنی عنہ " خالد کہتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات اتنی مرتبہ دہرائے کہ ہمیں حفظ ہوگئے۔
حدثنا ابن مهدي , عن معاوية بن صالح , عن ابي عتبة الكندي , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما من امتي احد إلا وانا اعرفه يوم القيامة" , قالوا: يا رسول الله , من رايت ومن لم تر؟ قال:" من رايت ومن لم ار , غرا محجلين من اثر الطهور" .حَدَّثَنَا ابْنُ مَهْدِيٍّ , عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ , عَنْ أَبِي عُتْبَةَ الْكِنْدِيِّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا مِنْ أُمَّتِي أَحَدٌ إِلَّا وَأَنَا أَعْرِفُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَنْ رَأَيْتَ وَمَنْ لَمْ تَرَ؟ قَالَ:" مَنْ رَأَيْتُ وَمَنْ لَمْ أَرَ , غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ أَثَرِ الطُّهُورِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن میں اپنے ہر امتی کو پہچانوں گا، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! جنہیں آپ نے دیکھا ہے انہیں بھی اور جنہیں نہیں دیکھا انہیں بھی پہچان لیں گے؟ فرمایا ہاں! ان کی پیشانیاں وضو کی برکت سے چمک رہی ہوں گی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى عتبة الكندي
حدثنا عبد الرحمن , عن معاوية بن صالح , عن سليم بن عامر الكلاعي , قال: سمعت ابا امامة , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يومئذ على الجدعاء , واضع رجليه في الغرز يتطاول يسمع الناس , فقال باعلى صوته:" الا تسمعون؟" , فقال رجل من طوائف الناس: يا رسول الله , ماذا تعهد إلينا؟ قال: " اعبدوا ربكم , وصلوا خمسكم , وصوموا شهركم , واطيعوا ذا امركم , تدخلوا جنة ربكم" , فقلت: يا ابا امامة , مثل من انت يومئذ؟ قال: انا يومئذ ابن ثلاثين سنة , ازاحم البعير ازحزحه لرسول الله صلى الله عليه وسلم.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ , عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ صَالِحٍ , عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ الْكَلَاعِيِّ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ عَلَى الْجَدْعَاءِ , وَاضِعٌ رِجْلَيْهِ فِي الْغَرْزِ يَتَطَاوَلُ يُسْمِعُ النَّاسَ , فَقَالَ بِأَعْلَى صَوْتِهِ:" أَلَا تَسْمَعُونَ؟" , فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ طَوَائِفِ النَّاسِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , مَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا؟ قَالَ: " اعْبَدُوا رَبَّكُمْ , وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ , وَصُومُوا شَهْرَكُمْ , وَأَطِيعُوا ذَا أَمْرِكُمْ , تَدْخُلُوا جَنَّةَ رَبِّكُمْ" , فَقُلْتُ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , مِثْلُ مَنْ أَنْتَ يَوْمَئِذٍ؟ قَالَ: أَنَا يَوْمَئِذٍ ابْنُ ثَلَاثِينَ سَنَةً , أُزَاحِمُ الْبَعِيرَ أُزَحْزِحُهُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا خطبہ حجۃ الوداع سنا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی پر سوار تھے اور پاؤں سواری کی رکاب میں رکھے ہوئے تھے جس کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اونچے ہوگئے تھے اور فرما رہے تھے کیا تم سنتے نہیں؟ تو سب سے آخری آدمی نے کہا کہ آپ کیا فرمانا چاہتے ہیں (ہم تک آواز پہنچ رہی ہے اور ہم سن رہے ہیں) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو، پنج گانہ نماز ادا کرو، ایک مہینے کے روزے رکھو اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو اپنے امیر کی اطاعت کرو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔
راوی نے حضرت امامہ رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ یہ حدیث آپ نے کس عمر میں سنی تھی تو انہوں نے فرمایا کہ جب میں تیس سال کا تھا۔ اور لوگوں کے رش میں گھستا ہوا آگے چلا گیا تھا۔
حدثنا ابو كامل , حدثنا حماد , عن ابي غالب , قال: سمعت ابا امامة يحدث , عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله عز وجل: فاما الذين في قلوبهم زيغ فيتبعون ما تشابه منه سورة آل عمران آية 7 , قال: " هم الخوارج" , وفي قوله: يوم تبيض وجوه وتسود وجوه سورة آل عمران آية 106 قال:" هم الخوارج" .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ , عَنْ أَبِي غَالِبٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ يُحَدِّثُ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَأَمَّا الَّذِينَ فِي قُلُوبِهِمْ زَيْغٌ فَيَتَّبِعُونَ مَا تَشَابَهَ مِنْهُ سورة آل عمران آية 7 , قَالَ: " هُمْ الْخَوَارِجُ" , وَفِي قَوْلِهِ: يَوْمَ تَبْيَضُّ وُجُوهٌ وَتَسْوَدُّ وُجُوهٌ سورة آل عمران آية 106 قَالَ:" هُمْ الْخَوَارِجُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد باری تعالیٰ " فاما الذین فی قلوبہم زیغ۔۔۔۔۔۔۔ " کی تفسیر میں فرمایا کہ اس سے مراد خوارج ہیں اسی طرح " یوم تبیض وجوہ وتسود وجوہ " کی تفسیر میں بھی فرمایا کہ سیاہ چہروں والوں سے خوارج مراد ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، أبو غالب ممن يعتبر به فى المتابعات و الشواهد، وفي رفعه نكارة، لكنه ثابت موقوفا على أبى أمامة
حدثنا ابو النضر , حدثنا فرج بن فضالة , حدثنا لقمان بن عامر , عن ابي امامة , قال: حججت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم حجة الوداع , فحمد الله واثنى عليه , ثم قال:" الا لعلكم لا تروني بعد عامكم هذا , الا لعلكم لا تروني بعد عامكم هذا , الا لعلكم لا تروني بعد عامكم هذا" , فقام رجل طويل كانه من رجال شنوءة , فقال: يا نبي الله , فما الذي نفعل؟ فقال: " اعبدوا ربكم , وصلوا خمسكم , وصوموا شهركم , وحجوا بيتكم , وادوا زكاتكم , طيبة بها انفسكم تدخلوا جنة ربكم عز وجل" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا فَرَجُ بْنُ فَضَالَةَ , حَدَّثَنَا لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: حَجَجْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَجَّةَ الْوَدَاعِ , فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ , ثُمَّ قَالَ:" أَلَا لَعَلَّكُمْ لَا تَرَوْنِي بَعْدَ عَامِكُمْ هَذَا , أَلَا لَعَلَّكُمْ لَا تَرَوْنِي بَعْدَ عَامِكُمْ هَذَا , أَلَا لَعَلَّكُمْ لَا تَرَوْنِي بَعْدَ عَامِكُمْ هَذَا" , فَقَامَ رَجُلٌ طَوِيلٌ كَأَنَّهُ مِنْ رِجَالِ شَنُوءَةَ , فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فَمَا الَّذِي نَفْعَلُ؟ فَقَالَ: " اعْبُدُوا رَبَّكُمْ , وَصَلُّوا خَمْسَكُمْ , وَصُومُوا شَهْرَكُمْ , وَحُجُّوا بَيْتَكُمْ , وَأَدُّوا زَكَاتَكُمْ , طَيِّبَةً بِهَا أَنْفُسُكُمْ تَدْخُلُوا جَنَّةَ رَبِّكُمْ عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ حجۃ الوداع میں شرکت کی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمدوثناء بیان کرنے کے بعد تین مرتبہ فرمایا شاید اس سال کے بعد تم مجھے نہ دیکھ سکو، اس پر ایک لمبے قد کا آدمی جو قبیلہ سنوء کا ایک فرد محسوس ہوتا تھا کھڑا ہوا اور کہنے لگا اے اللہ کے نبی! ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے رب کی عبادت کرو، پنج گانہ نماز ادا کرو ایک مہینے کے روزے رکھو بیت اللہ کا حج کرو، دل کی خوشی سے اپنے مال کی زکوٰۃ ادا کرو اور اپنے رب کی جنت میں داخل ہوجاؤ۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل فرج ابن فضالة
حدثنا ابو النضر , حدثنا الفرج , حدثنا لقمان بن عامر , قال: سمعت ابا امامة , قال: قلت: يا نبي الله , ما كان اول بدء امرك , قال: " دعوة ابي إبراهيم , وبشرى عيسى , ورات امي انه يخرج منها نور اضاءت منها قصور الشام" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا الْفَرَجُ , حَدَّثَنَا لُقْمَانُ بْنُ عَامِرٍ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , مَا كَانَ أَوَّلُ بَدْءِ أَمْرِكَ , قَالَ: " دَعْوَةُ أَبِي إِبْرَاهِيمَ , وَبُشْرَى عِيسَى , وَرَأَتْ أُمِّي أَنَّهُ يَخْرُجُ مِنْهَا نُورٌ أَضَاءَتْ مِنْهَا قُصُورُ الشَّامِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا اے اللہ کے نبی! آپ کا آغاز کیا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعاء اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی بشارت اور میری والدہ نے دیکھا کہ ان سے ایک نور نکلا جس سے شام کے محلات روشن ہوگئے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل فرج بن فضالة
حدثنا ابو النضر , حدثنا فرج , حدثنا لقمان , عن ابي امامة , قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن " قتل عوامر البيوت , إلا من ذي الطفيتين والابتر , فإنهما يكمهان الابصار , وتخدج منهن النساء" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا فَرَجٌ , حَدَّثَنَا لُقْمَانُ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ " قَتْلِ عَوَامِرِ الْبُيُوتِ , إِلَّا مِنْ ذِي الطُّفْيَتَيْنِ وَالْأَبْتَرِ , فَإِنَّهُمَا يُكْمِهَانِ الْأَبْصَارَ , وَتَخْدِجُ مِنْهُنَّ النِّسَاءُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے گھروں میں رہنے والے درندوں کو مارنے سے منع فرمایا ہے البتہ وہ سانپ جس کی دو دمیں ہوں یا جس کی دم کٹی ہوئی ہو، اسے مارنے کی اجازت ہے کیونکہ وہ بینائی زائل کردیتا ہے اور خواتین کا حمل ساقط کردیتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف فرج
حدثنا هاشم , حدثنا فرج , حدثنا لقمان , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله وملائكته يصلون على الصف الاول" , قالوا: يا رسول الله , وعلى الثاني , قال:" إن الله وملائكته يصلون على الصف الاول" , قالوا: يا رسول الله , وعلى الثاني , قال:" وعلى الثاني" , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سووا صفوفكم , وحاذوا بين مناكبكم , ولينوا في ايدي إخوانكم , وسدوا الخلل , فإن الشيطان يدخل بينكم بمنزلة الحذف" يعني: اولاد الضان الصغار.حَدَّثَنَا هَاشِمٌ , حَدَّثَنَا فَرَجٌ , حَدَّثَنَا لُقْمَانُ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الْأَوَّلِ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَعَلَى الثَّانِي , قَالَ:" إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى الصَّفِّ الْأَوَّلِ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَعَلَى الثَّانِي , قَالَ:" وَعَلَى الثَّانِي" , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سَوُّوا صُفُوفَكُمْ , وَحَاذُوا بَيْنَ مَنَاكِبِكُمْ , وَلِينُوا فِي أَيْدِي إِخْوَانِكُمْ , وَسُدُّوا الْخَلَلَ , فَإِنَّ الشَّيْطَانَ يَدْخُلُ بَيْنَكُمْ بِمَنْزِلَةِ الْحَذَفِ" يَعْنِي: أَوْلَادَ الضَّأْنِ الصِّغَارَ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا صف اول کے نمازیوں پر اللہ اور اس کے فرشتے رحمت بھیجتے ہیں صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے صف ثانی کو اس فضیلت میں شامل کرنے کی دو مرتبہ درخواست کی لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم یہی فرماتے رہے پھر تیسری مرتبہ درخواست پر فرمایا اور صف ثانی پر بھی۔
اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا صفوں کو سیدھا رکھا کرو، کندھوں کو ملا لیا کرو اپنے بھائیوں کے ہاتھوں میں نرم ہوجایا کرو، درمیان میں خلا پر کرلیا کرو، کیونکہ شیطان بکری کے چھوٹے بچوں کی طرح تمہاری صفوں میں گھس جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف فرج
حدثنا ابو النضر , حدثنا الفرج , حدثنا لقمان , قال: سمعت ابا امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اجيفوا ابوابكم , واكفئوا آنيتكم , واوكئوا اسقيتكم , واطفئوا سرجكم , فإنه لن يؤذن لهم بالتسور عليكم" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا الْفَرَجُ , حَدَّثَنَا لُقْمَانُ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَجِيفُوا أَبْوَابَكُمْ , وَأَكْفِئُوا آنِيَتَكُمْ , وَأَوْكِئُوا أَسْقِيَتَكُمْ , وَأَطْفِئُوا سُرُجَكُمْ , فَإِنَّهُ لَنْ يُؤْذَنَ لَهُمْ بِالتَّسَوُّرِ عَلَيْكُمْ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا رات کو سوتے وقت دروازے بند کرلیا کرو برتن اوندھا دیا کرو، مشکیزوں کا منہ باندھ دیا کرو اور چراغ بجھا دیا کرو، کیونکہ اس طرح شیاطین کو تمہاری دیوار پھاندنے کی اجازت نہیں ملے گی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف فرج
حدثنا ابو نوح قراد , قال ابو عبد الرحمن: سمعت ابي غير مرة , يقول: وحدثنا ابو نوح قراد , حدثنا عكرمة بن عمار , عن شداد بن عبد الله , قال: سمعت ابا امامة , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " يا ابن آدم إنك إن تبذل الخير خير لك , وإن تمسكه شر لك , ولا تلام على الكفاف , وابدا بمن تعول , واليد العليا خير من اليد السفلى" .حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ , قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: سَمِعْتُ أَبِي غَيْرَ مَرَّةٍ , يَقُولُ: وَحِدْثنَا أَبُو نُوحٍ قُرَادٌ , حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ , عَنْ شَدَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " يَا ابْنَ آدَمَ إِنَّكَ إِنْ تَبْذُلْ الْخَيْرَ خَيْرٌ لَكَ , وَإِنْ تُمْسِكْهُ شَرٌّ لَكَ , وَلَا تُلَامُ عَلَى الْكَفَافِ , وَابْدَأْ بِمَنْ تَعُولُ , وَالْيَدُ الْعُلْيَا خَيْرٌ مِنَ الْيَدِ السُّفْلَى" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے اے ابن آدم! اگر تو مال خرچ کرلے تو یہ تیرے حق میں بہتر ہے اور اگر روک کر رکھے تو یہ تیرے حق میں برا ہے البتہ کفایت شعاری پر تجھے ملامت نہیں کی جاسکتی اور جو لوگ تیری ذمہ داری میں ہوں خرچ کرنے میں ان سے آغاز کیا کر اور اوپر والا ہاتھ نیچے والے ہاتھ سے بہتر ہوتا ہے۔
حدثنا ابو نوح , وعبد الصمد , قالا: حدثنا عكرمة , وقال ابو نوح: اخبرنا عكرمة بن عمار , عن شداد بن عبد الله , قال: سمعت ابا امامة , يقول: اتى رجل رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو في المسجد , فقال: يا رسول الله , إني اصبت حدا فاقمه علي , قال: فسكت النبي صلى الله عليه وسلم , ثم عاد , فقال له مرة اخرى ثم اقيمت الصلاة , فصلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ثم انصرف , قال ابو امامة: فاتبعه الرجل , قال: وتبعته , قال عبد الصمد في حديثه: فانصرفت مع النبي صلى الله عليه وسلم والرجل يتبعه , لاعلم ما يقول له , قال: فقال له الرجل: يا رسول الله , إني اصبت حدا فاقمه علي , قال: فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: " اليس قد توضات قبل ان تخرج من منزلك , فاحسنت الوضوء ثم صليت معنا؟" , قال: بلى , قال:" فإن الله قد غفر لك حدك او ذنبك" , شك فيه عكرمة , قال عبد الصمد في حديثه: فانصرفت مع النبي صلى الله عليه وسلم واتبعه الرجل.حَدَّثَنَا أَبُو نُوحٍ , وَعَبْدُ الصَّمَدِ , قَالَا: حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ , وَقَالَ أَبُو نُوحٍ: أَخْبَرَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ , عَنْ شَدَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: أَتَى رَجُلٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ فِي الْمَسْجِدِ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ , قَالَ: فَسَكَتَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , ثُمَّ عَادَ , فَقَالَ لَهُ مَرَّةً أُخْرَى ثُمَّ أُقِيمَتْ الصَّلَاةُ , فَصَلَّى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ انْصَرَفَ , قَالَ أَبُو أُمَامَةَ: فَاتَّبَعَهُ الرَّجُلُ , قَالَ: وَتَبِعْتُهُ , قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ فِي حَدِيثِهِ: فَانْصَرَفْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَالرَّجُلُ يَتْبَعُهُ , لِأَعْلَمَ مَا يَقُولُ لَهُ , قَالَ: فَقَالَ لَهُ الرَّجُلُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ , قَالَ: فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَيْسَ قَدْ تَوَضَّأْتَ قَبْلَ أَنْ تَخْرُجَ مِنْ مَنْزِلِكَ , فَأَحْسَنْتَ الْوُضُوءَ ثُمَّ صَلَّيْتَ مَعَنَا؟" , قَالَ: بَلَى , قَالَ:" فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ غَفَرَ لَكَ حَدَّكَ أَوْ ذَنْبَكَ" , شَكَّ فِيهِ عِكْرِمَةُ , قَالَ عَبْدُ الصَّمَدِ فِي حَدِيثِهِ: فَانْصَرَفْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَاتَّبَعَهُ الرَّجُلُ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسجد میں ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھ سے گناہ سرزد ہوگیا ہے لہٰذا مجھے کتاب اللہ کی روشنی میں سزا دے دیجئے اسی دوران نماز کھڑی ہوگئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی اور فراغت کے بعد جب واپس جانے لگے تو وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے چلا گیا میں بھی اس کے پیچھے چلا گیا، اس نے پھر اپنی بات دہرائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کیا ایسا نہیں ہے کہ تم اپنے گھر سے خوب اچھی طرح وضو کر کے نکلے اور ہمارے ساتھ نماز میں شریک ہوئے؟ اس نے کہا کیوں نہیں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تمہارا گناہ معاف کردیا ہے۔
حدثنا ابو النضر , حدثنا عبد الحميد بن بهرام , عن شهر بن حوشب , حدثني ابو امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " ايما رجل قام إلى وضوئه يريد الصلاة , ثم غسل كفيه , نزلت خطيئته من كفيه مع اول قطرة , فإذا مضمض واستنشق واستنثر , نزلت خطيئته من لسانه وشفتيه مع اول قطرة , فإذا غسل وجهه , نزلت خطيئته من سمعه وبصره , مع اول قطرة , فإذا غسل يديه إلى المرفقين , ورجليه إلى الكعبين , سلم من كل ذنب هو له , ومن كل خطيئة كهيئته يوم ولدته امه" , قال:" فإذا قام إلى الصلاة , رفع الله بها درجته , وإن قعد قعد سالما" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَيُّمَا رَجُلٍ قَامَ إِلَى وَضُوئِهِ يُرِيدُ الصَّلَاةَ , ثُمَّ غَسَلَ كَفَّيْهِ , نَزَلَتْ خَطِيئَتُهُ مِنْ كَفَّيْهِ مَعَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ , فَإِذَا مَضْمَضَ وَاسْتَنْشَقَ وَاسْتَنْثَرَ , نَزَلَتْ خَطِيئَتُهُ مِنْ لِسَانِهِ وَشَفَتَيْهِ مَعَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ , فَإِذَا غَسَلَ وَجْهَهُ , نَزَلَتْ خَطِيئَتُهُ مِنْ سَمْعِهِ وَبَصَرِهِ , مَعَ أَوَّلِ قَطْرَةٍ , فَإِذَا غَسَلَ يَدَيْهِ إِلَى الْمِرْفَقَيْنِ , وَرِجْلَيْهِ إِلَى الْكَعْبَيْنِ , سَلِمَ مِنْ كُلِّ ذَنْبٍ هُوَ لَهُ , وَمِنْ كُلِّ خَطِيئَةٍ كَهَيْئَتِهِ يَوْمَ وَلَدَتْهُ أُمُّهُ" , قَالَ:" فَإِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ , رَفَعَ اللَّهُ بِهَا دَرَجَتَهُ , وَإِنْ قَعَدَ قَعَدَ سَالِمًا" .
حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو بندہ مسلم نماز کے لئے اذان کی آواز سنتا ہے اور وضو کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو اس کے ہاتھوں پر پانی کا پہلا قطرہ ٹپکتے ہی اس کے گناہ معاف ہونے لگتے ہیں جب وہ کلی کرتا، ناک میں پانی ڈالتا اور ناک صاف کرتا ہے تو اس کی زبان اور ہونٹوں کے گناہ پانی کے پہلے قطرے سے ہی زائل ہوجاتے ہیں جب وہ چہرہ دھوتا ہے تو پانی کے پہلے قطرے سے ہی اس کی آنکھوں اور کانوں کے گناہ زائل ہوجاتے ہیں اور جب وہ کہنیوں تک ہاتھوں اور ٹخنوں تک پاؤں دھوتا ہے تو اس کے گزشتہ سارے خطرناک گناہ معاف ہوجاتے ہیں اور وہ ہر گناہ سے اس طرح محفوظ ہوجاتا ہے جیسے اپنی پیدائش کے وقت تھا اور جب وہ نماز کے لئے کھڑا ہوتا ہے تو وہ اس کے درجات کی بلندی کا سبب بنتی ہے اور اگر وہ بیٹھتا ہے تو بخشا بخشایا ہوا بیٹھتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، لكنه توبع
حدثنا ابو النضر , حدثنا مبارك يعني ابن فضالة , حدثني ابو غالب , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تقعد الملائكة يوم الجمعة على ابواب المسجد , معهم الصحف يكتبون الناس , فإذا خرج الإمام , طويت الصحف" , قلت: يا ابا امامة , ليس لمن جاء بعد خروج الإمام جمعة؟ قال: بلى , ولكن ليس ممن يكتب في الصحف.حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ , حَدَّثَنَا مُبَارَكٌ يَعْنِي ابْنَ فَضَالَةَ , حَدَّثَنِي أَبُو غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَقْعُدُ الْمَلَائِكَةُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ عَلَى أَبْوَابِ الْمَسْجِدِ , مَعَهُمْ الصُّحُفُ يَكْتُبُونَ النَّاسَ , فَإِذَا خَرَجَ الْإِمَامُ , طُوِيَتْ الصُّحُفُ" , قُلْتُ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , لَيْسَ لِمَنْ جَاءَ بَعْدَ خُرُوجِ الْإِمَامِ جُمُعَةٌ؟ قَالَ: بَلَى , وَلَكِنْ لَيْسَ مِمَّنْ يُكْتَبُ فِي الصُّحُفِ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جمعہ کے دن ملائکہ مسجدوں کے دروازوں پر آکربیٹھ جاتے ہیں اور پہلے دوسرے اور تیسرے نمبر پر آنے والوں کے نام لکھتے رہتے ہیں اور جب امام نکل آتا ہے تو وہ صحیفے اٹھا لئے جاتے ہیں۔ راوی نے پوچھا اے ابو امامہ! امام کے نکل آنے کے بعدجو لوگ جمعہ میں شریک ہوتے ہیں انہیں کوئی ثواب نہیں ملتا؟ انہوں نے فرمایا کیوں نہیں لیکن ان صحیفوں میں ان کا نام نہیں لکھا جاتا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل أبى غالب
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس جب بھی جبرائیل علیہ السلام آئے انہوں نے مجھے ہمیشہ مسواک کا حکم دیا یہاں تک کہ مجھے اندیشہ ہونے لگا کہ میں اپنے منہ کا اگلا حصہ چھیل ڈالوں گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عبيدالله بن زحر وعلي بن يزيد ضعيفان
حدثنا اسود بن عامر , حدثنا شريك , عن محمد بن سعد الواسطي , عن ابي ظبية , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن المقة من الله قال شريك: هي المحبة , والقيت من السماء , فإذا احب الله عبدا , قال لجبريل: إني احب فلانا , فينادي جبريل: إن الله عز وجل يمق يعني يحب فلانا , فاحبوه ارى شريكا قد قال: فينزل له المحبة في الارض , وإذا ابغض عبدا , قال لجبريل: إني ابغض فلانا فابغضه , قال: فينادي جبريل: إن ربكم يبغض فلانا فابغضوه , قال: ارى شريكا قد قال: فيجري له البغض في الارض" ..حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بْنُ عَامِرٍ , حَدَّثَنَا شَرِيكٌ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ سَعْدٍ الواسِطيَّ , عَنْ أَبِي ظَبْيَةَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمِقَةَ مِنَ اللَّهِ قَالَ شَرِيكٌ: هِيَ الْمَحَبَّةُ , وَأُلْقِيَتْ مِنَ السَّمَاءِ , فَإِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا , قَالَ لِجِبْرِيلَ: إِنِّي أُحِبُّ فُلَانًا , فَيُنَادِي جِبْرِيلُ: إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَمِقُ يَعْنِي يُحِبُّ فُلَانًا , فَأَحِبُّوهُ أَرَى شَرِيكًا قَدْ قَالَ: فَيُنْزِلُ لَهُ الْمَحَبَّةَ فِي الْأَرْضِ , وَإِذَا أَبْغَضَ عَبْدًا , قَالَ لِجِبْرِيلَ: إِنِّي أُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضْهُ , قَالَ: فَيُنَادِي جِبْرِيلُ: إِنَّ رَبَّكُمْ يُبْغِضُ فُلَانًا فَأَبْغِضُوهُ , قَالَ: أَرَى شَرِيكًا قَدْ قَالَ: فَيَجْرِي لَهُ الْبُغْضُ فِي الْأَرْضِ" ..
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محبت اللہ کی طرف سے اور ناموری آسمان سے آتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ جب کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو حضرت جبرائیل علیہ السلام سے فرماتا ہے کہ میں فلاں شخص سے محبت کرتا ہوں لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو، پھر جبرائیل علیہ السلام اعلان کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ فلاں آدمی سے محبت کرتے ہیں لہٰذا تم بھی اس سے محبت کرو پھر یہ محبت زمین والوں کے دل میں ڈال دی جاتی ہے۔ اور جب اللہ تعالیٰ کسی بندے سے نفرت کرتا ہے تو جبرائیل علیہ السلام سے کہتا ہے کہ میں فلاں آدمی سے نفرت کرتا ہوں لہٰذا تم بھی اس سے نفرت کرو پھر جبرائیل علیہ السلام اعلان کردیتے ہیں کہ تمہارا رب فلاں آدمی سے نفرت کرتا ہے لہٰذا تم بھی اس سے نفرت کرو چنانچہ زمین والوں کے دل میں اس کی نفرت بیٹھ جاتی ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل شريك
حدثنا ابو احمد الزبيري , حدثنا ابان يعني ابن عبد الله , حدثنا ابو مسلم , قال: دخلت على ابي امامة وهو يتفلى في المسجد , ويدفن القمل في الحصى , فقلت له: يا ابا امامة , إن رجلا حدثني عنك انك قلت: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من توضا فاسبغ الوضوء , فغسل يديه ووجهه , ومسح على راسه واذنيه , ثم قام إلى الصلاة المفروضة , غفر الله له في ذلك اليوم ما مشت إليه رجله , وقبضت عليه يداه , وسمعت إليه اذناه , ونظرت إليه عيناه , وحدث به نفسه من سوء" , قال: والله لقد سمعته من نبي الله صلى الله عليه وسلم ما لا احصيه.حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ الزُّبَيْرِيُّ , حَدَّثَنَا أَبَانُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ اللَّهِ , حَدَّثَنَا أَبُو مُسْلِمٍ , قَالَ: دَخَلْتُ عَلَى أَبِي أُمَامَةَ وَهُوَ يَتَفَلَّى فِي الْمَسْجِدِ , وَيَدْفِنُ الْقَمْلَ فِي الْحَصَى , فَقُلْتُ لَهُ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , إِنَّ رَجُلًا حَدَّثَنِي عَنْكَ أَنَّكَ قُلْتَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ تَوَضَّأَ فَأَسْبَغَ الْوُضُوءَ , فَغَسَلَ يَدَيْهِ وَوَجْهَهُ , وَمَسَحَ عَلَى رَأْسِهِ وَأُذُنَيْهِ , ثُمَّ قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ الْمَفْرُوضَةِ , غَفَرَ اللَّهُ لَهُ فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ مَا مَشَتْ إِلَيْهِ رِجْلُهُ , وَقَبَضَتْ عَلَيْهِ يَدَاهُ , وَسَمِعَتْ إِلَيْهِ أُذُنَاهُ , وَنَظَرَتْ إِلَيْهِ عَيْنَاهُ , وَحَدَّثَ بِهِ نَفْسَهُ مِنْ سُوءٍ" , قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ سَمِعْتُهُ مِنْ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَا لَا أُحْصِيهِ.
ابو مسلم کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کے پاس گیا تو وہ مسجد میں بیٹھے تھے اور جوئیں نکال نکال کر کنکریوں میں ڈال رہے تھے، میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابو امامہ! ایک آدمی نے مجھے آپ کے حوالے سے بتایا ہے کہ آپ یہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے جو شخص خوب اچھی طرح وضو کرے اپنے ہاتھوں اور چہرے کو دھوئے اپنے سر اور کانوں کا مسح کرے، پھر فرض نماز کے لئے کھڑا ہو تو اس دن اس کے وہ گناہ معاف ہوجائیں گے جن کی طرف وہ اپنے پاؤں سے چل کر گیا، جنہیں ہاتھ سے پکڑ کر کیا جنہیں اس کے کانوں نے سنا، اس کی آنکھوں نے دیکھا اور دل میں ان کا خیال پیدا ہوا؟ انہوں نے فرمایا بخدا! میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث اتنی مرتبہ سنی ہے کہ میں شمار نہیں کرسکتا۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى مسلم، لكنه توبع
حدثنا محمد بن يزيد الواسطي , عن عثمان بن ابي العاتكة , عن القاسم ابي عبد الرحمن , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صلاة في دبر صلاة" , قال ابي: وقال غيره: في إثر صلاة لا لغو بينهما كتاب في عليين" , قال عبد الله: قلت لابي: من اين سمع محمد بن يزيد , عن عثمان بن ابي العاتكة؟ قال: كان اصله شاميا سمع منه بالشام.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ , عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاتِكَةِ , عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلَاةٌ فِي دُبُرِ صَلَاةٍ" , قَالَ أَبِي: وَقَالَ غَيْرُهُ: فِي إِثْرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ" , قَالَ عَبْد اللَّهِ: قُلْتُ لِأَبِي: مِنْ أَيْنَ سَمِعَ مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاتِكَةِ؟ قَالَ: كَانَ أَصْلُهُ شَامِيًّا سَمِعَ مِنْهُ بِالشَّامِ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ایک نماز کے بعد دوسری نماز اس طرح پڑھنا کہ درمیان میں کوئی لغو کام نہ کرے علیین میں لکھا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل عثمان ابن أبى العاتكة، وقد توبع
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بخار جہنم کی بھٹی کا اثر ہوتا ہے اگر مسلمان کو بخار ہوتا ہے تو وہ جہنم سے اس کا حصہ ہوتا ہے (جو دنیا میں اسے دے دیا جاتا ہے اور آخرت میں اسے جہنم سے پچا لیا جاتا ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، أبو حصين إن كان هو مروان بن رؤية الشامي فهو ثقة، وإن كان هو راو آخر فهو مجهول
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر میں نے یہ حدیث کم از کم سات مربہ نہ سنی ہوتی تو میں اسے کبھی بیان نہ کرتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص حکم کے مطابق وضو کرتا ہے تو اس کے کانوں، آنکھوں، ہاتھوں اور پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، لكنه توبع
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے کسی ایسے عمل کا حکم دیجئے جو مجھے جنت میں داخل کرا دے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اوپر روزے کو لازم کرلو کیونکہ روزے جیسا کوئی عمل نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رجاله ثقات غير أن بين أبى نصر وبين أبى أمامة رجاء بن حيوة الكندي
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کے لئے خوشخبری ہے جس نے مجھے دیکھا اور مجھ پر ایمان لے آیا اور اس شخص کے لئے بھی خوشخبری ہے جو مجھے دیکھے بغیر مجھ پر ایمان لے آئے سات مرتبہ فرمایا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أيمن
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس مسلمان کی پہلی نظر کسی عورت کے محاسن پر پڑے اور وہ اپنی نگاہیں جھکا لے تو اللہ تعالیٰ اس کی عبادت میں وہ لذت پیدا کردیں گے جس کی حلاوت وہ خود محسوس کرے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا ، على بن يزيد وعبيد الله بن زحر ضعيفان
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سلام میں پہل کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا من أجل على بن يزيد وعبيد الله بن زحر
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا گانا گانے والی باندیوں کی خریدوفروخت نہ کرو اور انہیں گانے بجانے کی تعلیم نہ دلواؤ اور ان کی تجارت میں کوئی خیر نہیں اور ان کی قیمت میں (کمائی) کھانا حرام ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عبيدالله بن زحر وعلي بن يزيد ضعيفان
حدثنا معاوية بن عمرو , حدثنا زائدة , عن عاصم , عن شهر بن حوشب , عن ابي امامة , قال: لو لم اسمعه من النبي صلى الله عليه وسلم إلا سبع مرار , ما حدثت به , قال: " إذا توضا الرجل كما امر , ذهب الإثم من سمعه , وبصره , ويديه , ورجليه" .حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو , حَدَّثَنَا زَائِدَةُ , عَنْ عَاصِمٍ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: لَوْ لَمْ أَسْمَعْهُ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَّا سَبْعَ مِرَارٍ , مَا حَدَّثْتُ بِهِ , قَالَ: " إِذَا تَوَضَّأَ الرَّجُلُ كَمَا أُمِرَ , ذَهَبَ الْإِثْمُ مِنْ سَمْعِهِ , وَبَصَرِهِ , وَيَدَيْهِ , وَرِجْلَيْهِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اگر میں نے یہ حدیث کم از کم سات مربہ نہ سنی ہوتی تو میں اسے کبھی بیان نہ کرتا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب کوئی شخص حکم کے مطابق وضو کرتا ہے تو اس کے کانوں، آنکھوں، ہاتھوں اور پاؤں سے گناہ نکل جاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر، لكنه توبع
حدثنا يونس , حدثنا حماد يعني ابن زيد , عن سنان بن ربيعة , عن شهر بن حوشب , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم توضا , فغسل وجهه ثلاثا , ويديه ثلاثا ثلاثا , ومسح براسه , وقال: " الاذنان من الراس" , قال حماد: فلا ادري من قول ابي امامة , او من قول النبي صلى الله عليه وسلم , وكان رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسح على الموقين.حَدَّثَنَا يُونُسُ , حَدَّثَنَا حَمَّادٌ يَعْنِي ابْنَ زَيْدٍ , عَنْ سِنَانِ بْنِ رَبِيعَةَ , عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ , فَغَسَلَ وَجْهَهُ ثَلَاثًا , وَيَدَيْهِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا , وَمَسَحَ بِرَأْسِهِ , وَقَالَ: " الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ" , قَالَ حَمَّادٌ: فَلَا أَدْرِي مِنْ قَوْلِ أَبِي أُمَامَةَ , أَوْ مِنْ قَوْلِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ عَلَى الْمُوقَيْنِ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے چہرے اور ہاتھوں کو تین تین مرتبہ دھویا سر کا مسح کیا اور فرمایا کہ کان سر کا حصہ ہیں نیز یہ بھی فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کے حلقے مسلتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: الأذنان من الرأس ....، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر وابن ربيعة، وللاختلاف فى رفع ووقف قوله:الأذنان من الرأس
حدثنا زيد بن يحيى , حدثنا عبد الله بن العلاء بن زبر , حدثني القاسم , قال: سمعت ابا امامة , يقول: خرج رسول الله صلى الله عليه وسلم على مشيخة من الانصار بيض لحاهم , فقال:" يا معشر الانصار , حمروا , وصفروا , وخالفوا اهل الكتاب" , قال: فقلت: يا رسول الله , إن اهل الكتاب يتسرولون ولا ياتزرون! فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تسرولوا وائتزروا , وخالفوا اهل الكتاب" , قال: فقلت: يا رسول الله , إن اهل الكتاب يتخففون ولا ينتعلون , , قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" فتخففوا وانتعلوا , وخالفوا اهل الكتاب" , قال: فقلنا: يا رسول الله , إن اهل الكتاب يقصون عثانينهم , ويوفرون سبالهم , قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" قصوا سبالكم ووفروا عثانينكم , وخالفوا اهل الكتاب" .حَدَّثَنَا زَيْدُ بْنُ يَحْيَى , حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْعَلَاءِ بْنِ زَبْرٍ , حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: خَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى مَشْيَخَةٍ مِنَ الْأَنْصَارٍ بِيضٌ لِحَاهُمْ , فَقَالَ:" يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ , حَمِّرُوا , وَصَفِّرُوا , وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ" , قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَتَسَرْوَلَونَ وَلَا يَأْتَزِرُونَ! فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَسَرْوَلُوا وَائْتَزِرُوا , وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ" , قَالَ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَتَخَفَّفُونَ وَلَا يَنْتَعِلُونَ , , قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَتَخَفَّفُوا وَانْتَعِلُوا , وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ" , قَالَ: فَقُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنَّ أَهْلَ الْكِتَابِ يَقُصُّونَ عَثَانِينَهُمْ , وَيُوَفِّرُونَ سِبَالَهُمْ , قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قُصُّوا سِبَالَكُمْ وَوَفِّرُوا عَثَانِينَكُمْ , وَخَالِفُوا أَهْلَ الْكِتَابِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انصار کے کچھ عمر رسیدہ افراد کے پاس " جن کی ڈاڑھیاں سفید ہوچکی تھیں " تشریف لائے اور فرمایا اے گروہ انصار! اپنی ڈاڑھیوں کو سرخ یا زرد کرلو اور اہل کتاب کی مخالفت کرو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! اہل کتاب شلوار پہنتے ہیں تہنبد نہیں باندھتے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم شلوار بھی پہن سکتے ہو اور تہبند بھی باندھ سکتے ہو، البتہ اہل کتاب کی مخالفت کیا کرو، ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! اہل کتاب موزے پہنتے ہیں، جوتے نہیں پہنتے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم موزے بھی پہنا کرو اور جوتے بھی پہنا کرو اور اس طرح اہل کتاب کی مخالفت کیا کرو ہم نے عرض کیا یا رسول اللہ! اہل کتاب ڈاڑھی کٹاتے اور مونچھیں بڑھاتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم مونچھیں تراشا کرو اور ڈاڑھیاں بڑھایا کرو اور اس طرح اہل کتاب کی مخالفت کیا کرو۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی یتیم بچے یا بچی کے سر پر ہاتھ پھیرے اور صرف اللہ کی رضا کے لئے پھیرے تو جتنے بالوں پر اس کا ہاتھ پھر جائے گا، اسے ہر بال کے بدلے نیکیاں ملیں گی اور جو شخص اپنے زیر تربیت کسی یتیم بچے یا بچی کے ساتھ حسن سلوک کرے میں اور وہ جنت میں اس طرح ہوں گے یہ کہہ کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے شہادت والی اور درمیانی انگلی میں تھوڑا سا فاصلہ رکھ کر دکھایا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، دون شطر الأول منه بقصة المسح على رأس اليتيم، وهذا إسناد ضعيف جدا من أجل على بن يزيد وعبدالله بن زحر
حدثنا علي بن إسحاق , اخبرنا عبد الله , اخبرنا صفوان بن عمرو , عن عبيد الله بن بسر , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم في قوله: ويسقى من ماء صديد يتجرعه سورة إبراهيم آية 17 - 17 قال: " يقرب إليه , فيتكرهه , فإذا دنا منه شوي وجهه , ووقعت فروة راسه , وإذا شربه , قطع امعاءه حتى خرج من دبره , يقول الله عز وجل: وسقوا ماء حميما فقطع امعاءهم سورة محمد آية 15 ويقول الله: وإن يستغيثوا يغاثوا بماء كالمهل يشوي الوجوه بئس الشراب سورة الكهف آية 29" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ إِسْحَاقَ , أَخْبَرَنَا عَبْدُ اللَّهِ , أَخْبَرَنَا صَفْوَانُ بْنُ عَمْرٍو , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ بُسْرٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي قَوْلِهِ: وَيُسْقَى مِنْ مَاءٍ صَدِيدٍ يَتَجَرَّعُهُ سورة إبراهيم آية 17 - 17 قَالَ: " يُقَرَّبُ إِلَيْهِ , فَيَتَكَرَّهُهُ , فَإِذَا دَنَا مِنْهُ شُوِيَ وَجْهُهُ , وَوَقَعَتْ فَرْوَةُ رَأْسِهِ , وَإِذَا شَرِبَهُ , قَطَّعَ أَمْعَاءَهُ حَتَّى خَرَجَ مِنْ دُبُرِهِ , يَقُولُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: وَسُقُوا مَاءً حَمِيمًا فَقَطَّعَ أَمْعَاءَهُمْ سورة محمد آية 15 وَيَقُولُ اللَّهُ: وَإِنْ يَسْتَغِيثُوا يُغَاثُوا بِمَاءٍ كَالْمُهْلِ يَشْوِي الْوُجُوهَ بِئْسَ الشَّرَابُ سورة الكهف آية 29" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت قرآنی و یسقی من ماء صدید " کی تفسیر میں فرمایا کہ جہنمی کو پیپ کا پانی پلایا جائے گا وہ پانی اس کے قریب کیا جائے گا تو وہ اس سے گھن کھائے گا جب مزید قریب کیا جائے گا تو اس کا چہرہ جھلس جائے گا اور اس کے سر کے بال جھڑ جائیں گے اور جب وہ پانی اپنے حلق سے اتارے گا تو اس کی آنتیں کٹ جائیں گی حتی کہ وہ پانی اس کی پچھلی شرمگاہ سے باہر آجائے گا اسی کے متعلق ارشادربانی ہے " وسقو ماء حمیما فقطع امعاہ م " اور " وان یستغیثوا یغاثوا بماء کلمہل یشوی۔۔۔۔۔۔۔ "
حكم دارالسلام: رجاله ثقات معروفون غير عبيدالله بن بسر، فقد اختلف فيه على عبدالله بن المبارك
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا الاوزاعي , حدثني ابو عمار شداد , حدثني ابو امامة , ان رجلا اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم , فقال: يا رسول الله , إني اصبت حدا فاقمه علي , فاعرض عنه , ثم قال: إني اصبت حدا فاقمه علي , فاعرض عنه , ثم قال: يا رسول الله , إني اصبت حدا فاقمه علي , فاعرض عنه , واقيمت الصلاة فلما سلم النبي صلى الله عليه وسلم , قام فقال: يا رسول الله , إني اصبت حدا فاقمه علي , فقال: " هل توضات حين اقبلت؟" , قال: نعم , فقال:" هل صليت معنا حين صلينا؟" , قال: نعم , قال:" اذهب فإن الله قد عفا عنك" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا الْأَوْزَاعِيُّ , حَدَّثَنِي أَبُو عَمَّارٍ شَدَّادٌ , حَدَّثَنِي أَبُو أُمَامَةَ , أَنَّ رَجُلًا أَتَى رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ , فَأَعْرَضَ عَنْهُ , ثُمَّ قَالَ: إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ , فَأَعْرَضَ عَنْهُ , ثُمَّ قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ , فَأَعْرَضَ عَنْهُ , وَأُقِيمَتْ الصَّلَاةُ فَلَمَّا سَلَّمَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَامَ فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أَصَبْتُ حَدًّا فَأَقِمْهُ عَلَيَّ , فَقَالَ: " هَلْ تَوَضَّأْتَ حِينَ أَقْبَلْتَ؟" , قَالَ: نَعَمْ , فَقَالَ:" هَلْ صَلَّيْتَ مَعَنَا حِينَ صَلَّيْنَا؟" , قَالَ: نَعَمْ , قَالَ:" اذْهَبْ فَإِنَّ اللَّهَ قَدْ عَفَا عَنْكَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں بیٹھے ہوئے تھے کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! مجھ سے گناہ سرزد ہوگیا ہے لہٰذا مجھے کتاب اللہ کی روشنی میں سزا دے دیجئے اسی دوران نماز کھڑی ہوگئی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور فراغت کے بعد جب واپس جانے لگے تو وہ آدمی بھی پیچھے پیچھے چلا گیا میں بھی اس کے پیچھے چلا گیا، اس نے پھر اپنی بات دہرائی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کیا ایسا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر اللہ نے تمہارا گناہ معاف کردیا ہے۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا معان بن رفاعة , حدثني علي بن يزيد , عن القاسم ابي عبد الرحمن , عن ابي امامة , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بينما هو يمشي في شدة حر انقطع شسع نعله , فجاءه رجل بشسع , فوضعه في نعله , فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لو تعلم ما حملت عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم , لم يعل ما حملت عليه رسول الله صلى الله عليه وسلم" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ , حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْنَمَا هُوَ يَمْشِي فِي شِدَّةِ حَرٍّ انْقَطَعَ شِسْعُ نَعْلِهِ , فَجَاءَهُ رَجُلٌ بِشِسْعٍ , فَوَضَعَهُ فِي نَعْلِهِ , فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَوْ تَعْلَمُ مَا حَمَلْتَ عَلَيْهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , لَمْ يَعْلُ مَا حَمَلْتَ عَلَيْهِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ شدید گرمی کے موسم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں جوتی کا تسمہ ٹوٹ گیا ایک آدمی دوسرا تسمہ لے کر آیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی جوتی میں ڈالنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا اگر تمہیں یہ معلوم ہوتا کہ تم نے اللہ کے پیغمبر پر کتنا بوجھ لاد دیا ہے تو وہ اتنا بلند نہ ہوتا جو تم نے اللہ کے رسول پر ڈال دیا ہے۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا معان بن رفاعة , حدثني علي بن يزيد , عن القاسم ابي عبد الرحمن , عن ابي امامة , قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم في المسجد جالسا , وكانوا يظنون انه ينزل عليه , فاقصروا عنه حتى جاء ابو ذر فاقتحم , فاتى , فجلس إليه , فاقبل عليهم النبي صلى الله عليه وسلم , فقال:" يا ابا ذر , هل صليت اليوم؟" , قال: لا , قال:" قم فصل" , فلما صلى اربع ركعات الضحى اقبل عليه , فقال:" يا ابا ذر , تعوذ من شر شياطين الجن والإنس" , قال: يا نبي الله , وهل للإنس شياطين؟ قال:" نعم , شياطين الإنس والجن يوحي بعضهم إلى بعض زخرف القول غرورا" , ثم قال:" يا ابا ذر , الا اعلمك كلمة من كنز الجنة؟" , قال: بلى , جعلني الله فداءك , قال:" قل لا حول ولا قوة إلا بالله" , قال: فقلت: لا حول ولا قوة إلا بالله , قال: ثم سكت عني , فاستبطات كلامه , قال: قلت: يا نبي الله , إنا كنا اهل جاهلية وعبدة اوثان , فبعثك الله رحمة للعالمين , ارايت الصلاة ماذا هي؟ قال:" خير موضوع , من شاء استقل , ومن شاء استكثر" , قال: قلت: يا نبي الله , ارايت الصيام , ماذا هو؟ قال:" فرض مجزئ" , قال: قلت: يا نبي الله , ارايت الصدقة , ماذا هي؟ قال:" اضعاف مضاعفة وعند الله المزيد" , قال: قلت: يا نبي الله , فاي الصدقة افضل؟ قال:" سر إلى فقير , وجهد من مقل" , قال: قلت: يا نبي الله , ايما انزل عليك اعظم؟ قال:" الله لا إله إلا هو الحي القيوم سورة البقرة آية 255 آية الكرسي" , قال: قلت: يا نبي الله , اي الشهداء افضل؟ قال:" من سفك دمه , وعقر جواده" , قال: قلت: يا نبي الله , فاي الرقاب افضل؟ قال:" اغلاها ثمنا , وانفسها عند اهلها" , قال: قلت: يا نبي الله , فاي الانبياء كان اول؟ قال:" آدم عليه السلام" , قال: قلت: يا نبي الله؟ اونبي كان آدم؟ قال:" نعم نبي مكلم , خلقه الله بيده , ثم نفخ فيه روحه , ثم قال له: يا آدم قبلا" , قال: قلت: يا رسول الله , كم وفى عدة الانبياء؟ قال:" مائة الف واربعة وعشرون الفا , الرسل من ذلك ثلاث مائة وخمسة عشر جما غفيرا" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ , حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ الْقَاسِم أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي الْمَسْجِدِ جَالِسًا , وَكَانُوا يَظُنُّونَ أَنَّهُ يَنْزِلُ عَلَيْهِ , فَأَقْصَرُوا عَنْهُ حَتَّى جَاءَ أَبُو ذَرٍّ فَاقْتَحَمَ , فَأَتَى , فَجَلَسَ إِلَيْهِ , فَأَقْبَلَ عَلَيْهِمْ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ , هَلْ صَلَّيْتَ الْيَوْمَ؟" , قَالَ: لَا , قَالَ:" قُمْ فَصَلِّ" , فَلَمَّا صَلَّى أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ الضُّحَى أَقْبَلَ عَلَيْهِ , فَقَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ , تَعَوَّذْ مِنْ شَرِّ شَيَاطِينِ الْجِنِّ وَالْإِنْسِ" , قَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , وَهَلْ لَلْإِنْسِ شَيَاطِينٌ؟ قَالَ:" نَعَمْ , شَيَاطِينُ الْإِنْسِ وَالْجِنِّ يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَى بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا" , ثُمَّ قَالَ:" يَا أَبَا ذَرٍّ , أَلَا أُعَلِّمُكَ كلمة مِنْ كَنْزِ الْجَنَّةِ؟" , قَالَ: بَلَى , جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ , قَالَ:" قُلْ لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ" , قَالَ: فَقُلْتُ: لَا حَوْلَ وَلَا قُوَّةَ إِلَّا بِاللَّهِ , قَالَ: ثُمَّ سَكَتَ عَنِّي , فَاسْتَبْطَأْتُ كَلَامَهُ , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنَّا كُنَّا أَهْلَ جَاهِلِيَّةٍ وَعَبَدَةَ أَوْثَانٍ , فَبَعَثَكَ اللَّهُ رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ , أَرَأَيْتَ الصَّلَاةَ مَاذَا هِيَ؟ قَالَ:" خَيْرٌ مَوْضُوعٌ , مَنْ شَاءَ اسْتَقَلَّ , وَمَنْ شَاءَ اسْتَكْثَرَ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , أَرَأَيْتَ الصِّيَامَ , مَاذَا هُوَ؟ قَالَ:" فَرْضٌ مُجْزِئٌ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , أَرَأَيْتَ الصَّدَقَةَ , مَاذَا هِيَ؟ قَالَ:" أَضْعَافٌ مُضَاعَفَةٌ وَعِنْدَ اللَّهِ الْمَزِيدُ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فَأَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" سِرٌّ إِلَى فَقِيرٍ , وَجُهْدٌ مِنْ مُقِلٍّ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , أَيُّمَا أُنَزَلَ عَلَيْكَ أَعْظَمُ؟ قَالَ:" اللَّهُ لا إِلَهَ إِلا هُوَ الْحَيُّ الْقَيُّومُ سورة البقرة آية 255 آيَةُ الْكُرْسِيِّ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , أَيُّ الشُّهَدَاءِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" مَنْ سُفِكَ دَمُهُ , وَعُقِرَ جَوَادُهُ" , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فَأَيُّ الرِّقَابِ أَفْضَلُ؟ قَالَ:" أَغْلَاهَا ثَمَنًا , وَأَنْفَسُهَا عِنْدَ أَهْلِهَا" , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فَأَيُّ الْأَنْبِيَاءِ كَانَ أَوَّلَ؟ قَالَ:" آدَمُ عَلَيْهِ السَّلَام" , قَالَ: قُلْتُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ؟ أَوَنَبِيٌّ كَانَ آدَمُ؟ قَالَ:" نَعَمْ نَبِيٌّ مُكَلَّمٌ , خَلَقَهُ اللَّهُ بِيَدِهِ , ثُمَّ نَفَخَ فِيهِ رُوحَهُ , ثُمَّ قَالَ لَهُ: يَا آدَمُ قُبْلًا" , قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , كَمْ وَفَّى عِدَّةُ الْأَنْبِيَاءِ؟ قَالَ:" مِائَةُ أَلْفٍ وَأَرْبَعَةٌ وَعِشْرُونَ أَلْفًا , الرُّسُلُ مِنْ ذَلِكَ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَخَمْسَةَ عَشَرَ جَمًّا غَفِيرًا" .
حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں بارگاہ رسالت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں تھے میں بھی مجلس میں شریک ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے پوچھا اے ابوذر کیا تم نے نماز پڑھ لی؟ میں نے عرض کیا نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا پھر کھڑے ہو کر نماز پڑھو، چنانچہ میں نے کھڑے ہو کر نماز پڑھی اور آکر مجلس میں دوبارہ شریک ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابوذر! انسانوں اور جنات میں سے شیاطین کے شر سے اللہ کی پناہ مانگا کرو، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا انسانوں میں بھی شیطان ہوتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں میں نے پوچھا یا رسول اللہ! نماز کا کیا حکم ہے؟ فرمایا بہترین موضوع ہے جو چاہے کم حاصل کرے اور جو چاہے زیادہ حاصل کرلے میں نے پوچھا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روزے کا کیا حکم ہے؟ فرمایا ایک فرض ہے جسے ادا کیا جائے گا تو کافی ہوجاتا ہے اور اللہ کے یہاں اس کا اضافی ثواب ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! صدقہ کا کیا حکم ہے؟ فرمایا اس کا بدلہ دوگنا چوگنا ملتا ہے میں نے پوچھا یا رسول اللہ! سب سے افضل صدقہ کون سا ہے؟ فرمایا کم مال والے کی محنت کا صدقہ یا کسی ضرورت مند کا راز، میں نے پوچھا یا رسول اللہ! سب سے پہلے نبی کون تھے؟ فرمایا حضرت آدم علیہ السلام میں نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا وہ نبی تھے؟ فرمایا ہاں، بلکہ ایسے نبی جن سے باری تعالیٰ نے کلام فرمایا: میں نے پوچھا یا رسول اللہ! رسول کتنے آئے؟ فرمایا تین سو دس سے کچھ اوپر ایک عظیم گروہ میں نے پوچھا یا رسول اللہ! آپ پر سب سے عظیم آیت کون سی نازل ہوئی؟ فرمایا آیت الکرسی۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک آدمی کے پاس سے گذرے جو سورت اخلاص کی تلاوت کر رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کے لئے جنت واجب ہوگئی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف جدا، من أجل على بن يزيد
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا معان بن رفاعة , حدثني علي بن يزيد , حدثني القاسم مولى بني يزيد , عن ابي امامة الباهلي , قال: لما كان في حجة الوداع قام رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يومئذ مردف الفضل بن عباس على جمل آدم , فقال:" يا ايها الناس خذوا من العلم قبل ان يقبض العلم , وقبل ان يرفع العلم" وقد كان انزل الله عز وجل: يايها الذين آمنوا لا تسالوا عن اشياء إن تبد لكم تسؤكم وإن تسالوا عنها حين ينزل القرآن تبد لكم عفا الله عنها والله غفور حليم سورة المائدة آية 101 , قال: فكنا قد كرهنا كثيرا من مسالته , واتقينا ذاك حين انزل الله على نبيه صلى الله عليه وسلم , قال: فاتينا اعرابيا فرشوناه برداء , قال: فاعتم به حتى رايت حاشية البرد خارجة من حاجبه الايمن , قال: ثم قلنا له: سل النبي صلى الله عليه وسلم , قال: فقال له: يا نبي الله , كيف يرفع العلم منا وبين اظهرنا المصاحف , وقد تعلمنا ما فيها , وعلمنا نساءنا , وذرارينا , وخدمنا؟ قال: فرفع النبي صلى الله عليه وسلم راسه وقد علت وجهه حمرة من الغضب , قال: فقال:" اي ثكلتك امك! وهذه اليهود والنصارى بين اظهرهم المصاحف , لم يصبحوا يتعلقوا بحرف مما جاءتهم به انبياؤهم , الا وإن من ذهاب العلم ان يذهب حملته" ثلاث مرار .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ , حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ , حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ مَوْلَى بَنِي يَزِيدَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ , قَالَ: لَمَّا كَانَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَوْمَئِذٍ مُرْدِفٌ الْفَضْلَ بْنَ عَبَّاسٍ عَلَى جَمَلٍ آدَمَ , فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ خُذُوا مِنَ الْعِلْمِ قَبْلَ أَنْ يُقْبَضَ الْعِلْمُ , وَقَبْلَ أَنْ يُرْفَعَ الْعِلْمُ" وَقَدْ كَانَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: يَأَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لا تَسْأَلُوا عَنْ أَشْيَاءَ إِنْ تُبْدَ لَكُمْ تَسُؤْكُمْ وَإِنْ تَسْأَلُوا عَنْهَا حِينَ يُنَزَّلُ الْقُرْآنُ تُبْدَ لَكُمْ عَفَا اللَّهُ عَنْهَا وَاللَّهُ غَفُورٌ حَلِيمٌ سورة المائدة آية 101 , قَالَ: فَكُنَّا قَدْ كَرِهْنَا كَثِيرًا مِنْ مَسْأَلَتِهِ , وَاتَّقَيْنَا ذَاكَ حِينَ أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَى نَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَأَتَيْنَا أَعْرَابِيًّا فَرَشَوْنَاهُ بِرِدَاءٍ , قَالَ: فَاعْتَمَّ بِهِ حَتَّى رَأَيْتُ حَاشِيَةَ الْبُرْدِ خَارِجَةً مِنْ حَاجِبِهِ الْأَيْمَنِ , قَالَ: ثُمَّ قُلْنَا لَهُ: سَلْ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ: فَقَالَ لَهُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , كَيْفَ يُرْفَعُ الْعِلْمُ مِنَّا وَبَيْنَ أَظْهُرِنَا الْمَصَاحِفُ , وَقَدْ تَعَلَّمْنَا مَا فِيهَا , وَعَلَّمْنَا نِسَاءَنَا , وَذَرَارِيَّنَا , وَخَدَمَنَا؟ قَالَ: فَرَفَعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَأْسَهُ وَقَدْ عَلَتْ وَجْهَهُ حُمْرَةٌ مِنَ الْغَضَبِ , قَالَ: فَقَالَ:" أَيْ ثَكِلَتْكَ أُمُّكَ! وهَذِهِ الْيَهُودُ وَالنَّصَارَى بَيْنَ أَظْهُرِهِمْ الْمَصَاحِفُ , لَمْ يُصْبِحُوا يَتَعَلَّقُوا بِحَرْفٍ مِمَّا جَاءَتْهُمْ بِهِ أَنْبِيَاؤُهُمْ , أَلَا وَإِنَّ مِنْ ذَهَابِ الْعِلْمِ أَنْ يَذْهَبَ حَمَلَتُهُ" ثَلَاثَ مِرَارٍ .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے ایک گندمی رنگ کے اونٹ پر کھڑے ہوئے اس دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ردیف حضرت فضل بن عباس رضی اللہ عنہ تھے اور فرمایا اے لوگو! علم حاصل کرو قبل اس کے کہ علم اٹھا لیا جائے اور قبل اس کے کہ علم قبض کرلیا جائے اور اللہ تعالیٰ نے یہ حکم نازل فرمایا ہے " اے اہل ایمان! ان چیزوں کے متعلق سوال نہ کرو جن کی وضاحت اگر تمہارے سامنے کردی جائے تو تمہیں ناگوار گذرے۔۔۔۔۔۔۔ " اس آیت کے نزول کے بعد ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے بہت زیادہ سوالات کرنے کو اچھا نہیں سمجھتے تھے اور اس سے احتیاط کرتے تھے۔
ایک دن ہم ایک دیہاتی کے پاس گئے اس نے ہماری خاطر اپنی چادر بچھائی اور دیر تک بیٹھا رہاحتیٰ کہ میں نے چادر کے کنارے نکل کر اس کی دائیں ابرو پر لٹکتے ہوئے دیکھے تھوڑی دیر بعد ہم نے اس سے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے کوئی سوال پوچھو، چنانچہ اس نے کہا کہ اے اللہ کے نبی! جب ہمارے درمیان قرآن کے نسخے موجود ہوں گے تو ہمارے درمیان سے علم کیسے اٹھا لیا جائے گا جبکہ ہم خود بھی اس کے احکامات کو سیکھ چکے ہیں اور اپنی بیویوں، بچوں اور خادموں کو بھی سکھا چکے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا سر مبارک اٹھایا تو چہرہ مبارک پر غصے کی وجہ سے سرخی چھا چکی تھی پھر فرمایا تیری ماں تجھے روئے ان یہودیوں اور عیسائیوں کے پاس بھی تو آسمانی کتابوں کے مصاحف موجود ہیں لیکن اب وہ کسی ایک حرف سے بھی نہیں چمٹے ہوئے جو ان کے انبیاء (علیہم السلام) لے کر آئے تھے یاد رکھو! علم اٹھ جانے سے مراد یہ ہے کہ حاملین علم اٹھ جائیں گے تین مرتبہ فرمایا۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا معان بن رفاعة , حدثني علي بن يزيد , عن القاسم , عن ابي امامة , قال: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية من سراياه , قال: فمر رجل بغار فيه شيء من ماء , قال: فحدث نفسه بان يقيم في ذلك الغار , فيقوته ما كان فيه من ماء , ويصيب ما حوله من البقل , ويتخلى من الدنيا , ثم قال: لو اني اتيت نبي الله صلى الله عليه وسلم , فذكرت ذلك له , فإن اذن لي فعلت , وإلا لم افعل , فاتاه فقال: يا نبي الله , إني مررت بغار فيه ما يقوتني من الماء والبقل , فحدثتني نفسي بان اقيم فيه , واتخلى من الدنيا , قال: فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إني لم ابعث باليهودية ولا بالنصرانية , ولكني بعثت بالحنيفية السمحة , والذي نفس محمد بيده لغدوة او روحة في سبيل الله خير من الدنيا وما فيها , ولمقام احدكم في الصف خير من صلاته ستين سنة" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ , حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ الْقَاسِمِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ مِنْ سَرَايَاهُ , قَالَ: فَمَرَّ رَجُلٌ بِغَارٍ فِيهِ شَيْءٌ مِنْ مَاءٍ , قَالَ: فَحَدَّثَ نَفْسَهُ بِأَنْ يُقِيمَ فِي ذَلِكَ الْغَارِ , فَيَقُوتُهُ مَا كَانَ فِيهِ مِنْ مَاءٍ , وَيُصِيبُ مَا حَوْلَهُ مِنَ الْبَقْلِ , وَيَتَخَلَّى مِنَ الدُّنْيَا , ثُمَّ قَالَ: لَوْ أَنِّي أَتَيْتُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ , فَإِنْ أَذِنَ لِي فَعَلْتُ , وَإِلَّا لَمْ أَفْعَلْ , فَأَتَاهُ فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , إِنِّي مَرَرْتُ بِغَارٍ فِيهِ مَا يَقُوتُنِي مِنَ الْمَاءِ وَالْبَقْلِ , فَحَدَّثَتْنِي نَفْسِي بِأَنْ أُقِيمَ فِيهِ , وَأَتَخَلَّى مِنَ الدُّنْيَا , قَالَ: فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَمْ أُبْعَثْ بِالْيَهُودِيَّةِ وَلَا بِالنَّصْرَانِيَّةِ , وَلَكِنِّي بُعِثْتُ بِالْحَنِيفِيَّةِ السَّمْحَةِ , وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَغَدْوَةٌ أَوْ رَوْحَةٌ فِي سَبِيلِ اللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدُّنْيَا وَمَا فِيهَا , وَلَمُقَامُ أَحَدِكُمْ فِي الصَّفِّ خَيْرٌ مِنْ صَلَاتِهِ سِتِّينَ سَنَةً" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کسی جہاد میں نکلے تو ایک آدمی ایک غار کے پاس سے گذرا جہاں کچھ پانی بھی موجود تھا، اس کے دل میں خیال آیا کہ اسی غار میں مقیم ہوجائے اور وہاں موجود پانی سے اپنی زندگی کا سہارا قائم رکھے اور آس پاس موجود سبزیاں کھالیا کرے اور دنیا سے گوشہ نشینی اختیار کرلے پھر اس نے سوچا کہ پہلے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر ان سے اس کا تذکرہ کرلوں اگر انہوں نے اجازت دے دی تو میں ایسا ہی کروں گا ورنہ نہیں کروں گا۔
چنانچہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا اے اللہ کے نبی! میرا ایک غار کے پاس سے گذر ہوا جس میں میرے گذارے کے بقدر پانی اور سبزی موجود ہے میرے دل میں خیال پیدا ہوا کہ وہیں مقیم ہوجاؤں اور دنیا سے کنارہ کشی کرلوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہودیت یا عیسائیت کے ساتھ نہیں بھیجا گیا مجھے تو صاف ستھرے دین حنیف کے ساتھ بھیجا گیا ہے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے اللہ کے راستہ میں ایک صبح یا شام کو نکلنا دنیا ومافیہا سے بہتر ہے اور تم میں سے کسی کا جہاد کی صف میں کھڑا ہونا ساٹھ سال کی نماز سے بہتر ہے۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا معان بن رفاعة , حدثني علي بن يزيد , قال: سمعت القاسم ابا عبد الرحمن يحدث , عن ابي امامة , قال: مر النبي صلى الله عليه وسلم في يوم شديد الحر نحو بقيع الغرقد , قال: فكان الناس يمشون خلفه , قال: فلما سمع صوت النعال , وقر ذلك في نفسه , فجلس حتى قدمهم امامه لئلا يقع في نفسه شيء من الكبر , فلما مر ببقيع الغرقد , إذا بقبرين قد دفنوا فيهما رجلين , قال: فوقف النبي صلى الله عليه وسلم فقال: " من دفنتم هاهنا اليوم؟" , قالوا: يا نبي الله , فلان وفلان , قال:" إنهما ليعذبان الآن , ويفتنان في قبريهما" , قالوا: يا رسول الله , فيم ذاك؟ قال:" اما احدهما فكان لا يتنزه من البول , واما الآخر فكان يمشي بالنميمة" واخذ جريدة رطبة فشقها , ثم جعلها على القبرين , قالوا: يا نبي الله , ولم فعلت؟ قال:" ليخفف عنهما" , قالوا: يا نبي الله , وحتى متى يعذبهما الله؟ قال:" غيب لا يعلمه إلا الله" , قال:" ولولا تمزع قلوبكم او تزيدكم في الحديث , لسمعتم ما اسمع" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ , حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ , قَال: سَمِعْتُ الْقَاسِمَ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ يُحَدِّثُ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: مَرَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَوْمٍ شَدِيدِ الْحَرِّ نَحْوَ بَقِيعِ الْغَرْقَدِ , قَالَ: فَكَانَ النَّاسُ يَمْشُونَ خَلْفَهُ , قَالَ: فَلَمَّا سَمِعَ صَوْتَ النِّعَالِ , وَقَرَ ذَلِكَ فِي نَفْسِهِ , فَجَلَسَ حَتَّى قَدَّمَهُمْ أَمَامَهُ لِئَلَّا يَقَعَ فِي نَفْسِهِ شَيْءٌ مِنَ الْكِبْرِ , فَلَمَّا مَرَّ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ , إِذَا بِقَبْرَيْنِ قَدْ دَفَنُوا فِيهِمَا رَجُلَيْنِ , قَالَ: فَوَقَفَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " مَنْ دَفَنْتُمْ هَاهُنَا الْيَوْمَ؟" , قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , فُلَانٌ وَفُلَانٌ , قَالَ:" إِنَّهُمَا لَيُعَذَّبَانِ الْآنَ , وَيُفْتَنَانِ فِي قَبْرَيْهِمَا" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , فِيمَ ذَاكَ؟ قَالَ:" أَمَّا أَحَدُهُمَا فَكَانَ لَا يَتَنَزَّهُ مِنَ الْبَوْلِ , وَأَمَّا الْآخَرُ فَكَانَ يَمْشِي بِالنَّمِيمَةِ" وَأَخَذَ جَرِيدَةً رَطْبَةً فَشَقَّهَا , ثُمَّ جَعَلَهَا عَلَى الْقَبْرَيْنِ , قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , وَلِمَ فَعَلْتَ؟ قَالَ:" لِيُخَفَّفَ عَنْهُمَا" , قَالُوا: يَا نَبِيَّ اللَّهِ , وَحَتَّى مَتَى يُعَذِّبُهُمَا اللَّهُ؟ قَالَ:" غَيْبٌ لَا يَعْلَمُهُ إِلَّا اللَّهُ" , قَالَ:" وَلَوْلَا تَمَزُّعُ قُلُوبِكُمْ أَوْ تَزَيُّدُكُمْ فِي الْحَدِيثِ , لَسَمِعْتُمْ مَا أَسْمَعُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سخت گرمی کی موسم میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بقیع غرقد کے پاس سے گذرے کچھ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے چل رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب جوتیوں کی آواز سنی تو دل میں اس کا خیال پیدا ہوا چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بیٹھ گئے اور انہیں آگے روانہ کردیا تاکہ دل میں کسی قسم کی بڑائی کا کوئی خیال نہ آئے، اس کے بعد وہاں سے گذرتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دو قبروں کے پاس سے گذرے جہاں دو آدمیوں کو دفن کیا گیا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وہاں رک گئے اور پوچھا کہ آج تم نے یہاں کسے دفن کیا ہے؟ لوگوں نے بتایا یا رسول اللہ! فلاں فلاں آدمی کو، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس وقت انہیں ان کی قبروں میں عذاب ہو رہا ہے اور ان کی آزمائش ہو رہی ہے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کی کیا وجہ ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے ایک تو پیشاب کے قطرات سے نہیں بچتا تھا اور دوسرا چغلخوری کیا کرتا ہے۔
پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی درخت کی ایک تر شاخ لے کر اس کے دو ٹکڑے کئے اور دونوں قبروں پر اسے لگا دیا صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا اے اللہ کے نبی! آپ نے ایسا کیوں کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تاکہ ان کے عذاب میں تخفیف ہوجائے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا اے اللہ کے نبی! انہیں کب تک عذاب میں مبتلا رکھا جائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ غیب کی بات ہے جسے اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا اگر تمہارے دلوں میں بات خلط ملط نہ ہوجاتی یا تمہارا آپس میں اس پر بحث کرنے کا اندیشہ نہ ہوتا تو جو آوازیں میں سن رہا ہوں وہ تم بھی سنتے۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا معان بن رفاعة , حدثني علي بن يزيد , عن القاسم ابي عبد الرحمن , عن ابي امامة , قال: جلسنا إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكرنا ورققنا , فبكى سعد بن ابي وقاص , فاكثر البكاء , فقال: يا ليتني مت , فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" يا سعد , اعندي تتمنى الموت؟" , فردد ذلك ثلاث مرات , ثم قال:" يا سعد , إن كنت خلقت للجنة فما طال عمرك , او حسن من عملك , فهو خير لك" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا مُعَانُ بْنُ رِفَاعَةَ , حَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ الْقَاسِم أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: جَلَسْنَا إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَّرَنَا وَرَقَّقَنَا , فَبَكَى سَعْدُ بْنُ أَبِي وَقَّاصٍ , فَأَكْثَرَ الْبُكَاءَ , فَقَالَ: يَا لَيْتَنِي مِتُّ , فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَا سَعْدُ , أَعِنْدِي تَتَمَنَّى الْمَوْتَ؟" , فَرَدَّدَ ذَلِكَ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ , ثُمَّ قَالَ:" يَا سَعْدُ , إِنْ كُنْتَ خُلِقْتَ لِلْجَنَّةِ فَمَا طَالَ عُمْرُكَ , أَوْ حَسُنَ مِنْ عَمَلِكَ , فَهُوَ خَيْرٌ لَكَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں دلوں کو نرم کرنے والی نصیحتیں فرمائیں جس پر حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ رونے لگے اور بہت دیر تک روتے رہے اور کہنے لگے اے کاش! میں مرچکا ہوتا نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے سعد! میرے سامنے تم موت کی تمنا کر رہے ہو اور تین مرتبہ اس بات کو دہرایا پھر فرمایا اے سعد! اگر تم جنت کے لئے پیدا ہوئے ہو تو تمہاری عمر جتنی لمبی ہو اور تمہارے اعمال جتنے اچھے ہوں یہ تمہارے حق میں اتنا ہی بہتر ہے۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا إسماعيل بن عياش , حدثنا شرحبيل بن مسلم الخولاني , قال: سمعت ابا امامة الباهلي , يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم في خطبته عام حجة الوداع: " إن الله قد اعطى كل ذي حق حقه , فلا وصية لوارث , والولد للفراش وللعاهر الحجر , وحسابهم على الله , ومن ادعى إلى غير ابيه , او انتمى إلى غير مواليه , فعليه لعنة الله التابعة إلى يوم القيامة , لا تنفق المراة شيئا من بيتها إلا بإذن زوجها" , فقيل: يا رسول الله , ولا الطعام؟ قال:" ذلك افضل اموالنا" , قال: ثم قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" العارية مؤداة , والمنحة مردودة , والدين مقضي , والزعيم غارم" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , حَدَّثَنَا شُرَحْبِيلُ بْنُ مُسْلِمٍ الْخَوْلَانِيُّ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ الْبَاهِلِيَّ , يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خُطْبَتِهِ عَامَّ حَجَّةِ الْوَدَاعِ: " إِنَّ اللَّهَ قَدْ أَعْطَى كُلَّ ذِي حَقٍّ حَقَّهُ , فَلَا وَصِيَّةَ لِوَارِثٍ , وَالْوَلَدُ لِلْفِرَاشِ وَلِلْعَاهِرِ الْحَجَرُ , وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ , وَمَنْ ادَّعَى إِلَى غَيْرِ أَبِيهِ , أَوْ انْتَمَى إِلَى غَيْرِ مَوَالِيهِ , فَعَلَيْهِ لَعْنَةُ اللَّهِ التَّابِعَةُ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ , لَا تُنْفِقُ الْمَرْأَةُ شَيْئًا مِنْ بَيْتِهَا إِلَّا بِإِذْنِ زَوْجِهَا" , فَقِيلَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَلَا الطَّعَامَ؟ قَالَ:" ذَلِكَ أَفْضَلُ أَمْوَالِنَا" , قَالَ: ثُمَّ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْعَارِيَةُ مُؤَدَّاةٌ , وَالْمِنْحَةُ مَرْدُودَةٌ , وَالدَّيْنَ مَقْضِيٌّ , وَالزَّعِيمُ غَارِمٌ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خطبہ حجۃ الوداع میں یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ہر حقدار کو اس کا حق دے دیا ہے لہٰذا وارث کے لئے وصیت نہیں ہوگی بچہ بستر والے کا ہوگا اور بدکار کے لئے پتھر ہیں اور ان کا حساب اللہ کے ذمے ہے اور جو شخص اپنی نسبت اپنے باپ کے علاوہ یا اپنے آقاؤں کے علاوہ کسی اور کی طرف کرتا ہے تو اس پر اللہ کی لعنت ہے جو قیامت تک اس کا پیچھا کرے گی، کوئی عورت اپنے گھر میں سے اپنے خاوند کی اجازت کے بغیر کچھ خرچ نہ کرے کسی نے پوچھا یا رسول اللہ! کھانا بھی نہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ تو ہمارا افضل مال ہے پھر فرمایا عاریت ادا کی جائے اور ہدیئے کا بدلہ دیا جائے، قرض ادا کیا جائے اور قرض دار ضامن ہوگا۔
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا حريز بن عثمان , حدثنا عبد الرحمن بن ميسرة الحضرمي , قال: سمعت ابا امامة , يقول: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ليدخلن الجنة بشفاعة الرجل الواحد ليس بنبي مثل الحيين , او احد الحيين: ربيعة , ومضر" , فقال قائل: إنما ربيعة من مضر , قال:" إنما اقول ما اقول" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا حَرِيزُ بْنُ عُثْمَانَ , حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَيْسَرَةَ الْحَضْرَمِيُّ , قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ , يَقُولُ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَيَدْخُلَنَّ الْجَنَّةَ بِشَفَاعَةِ الرَّجُلِ الْوَاحِدِ لَيْسَ بِنَبِيٍّ مِثْلُ الْحَيَّيْنِ , أَوْ أَحَدِ الْحَيَّيْنِ: رَبِيعَةَ , وَمُضَرَ" , فَقَالَ قَائِلٌ: إِنَّمَا رَبِيعَةُ مِنْ مُضَرَ , قَالَ:" إِنَّمَا أَقُولُ مَا أَقُولُ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ صرف ایک آدمی کی شفاعت کی برکت سے " جو نبی نہیں ہوگا " ربیعہ اور مضر جیسے دو قبیلوں یا ایک قبیلے کے برابر لوگ جنت میں داخل ہوں گے ایک آدمی نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ربیعہ، مضر قبیلے کا حصہ نہیں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں تو وہی کہتا ہوں جو کہنا ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح بطرقه وشواهده دون قوله: فقال قائل: إنما ربيعة من مضر....، فهي شاذة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جبرائیل علیہ السلام نے مجھے پڑوسی کے متعلق اتنی مرتبہ وصیت کی کہ مجھے یہ خیال ہونے لگا کہ وہ اسے وارث بھی قرار دے دیں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى الشواهد من أجل بقية
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ ہاتھ پکڑ کر فرمایا اے ابو امامہ! وہ شخص مومنین میں سے ہے کہ جس کا دل میرے لئے نرم ہوجائے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، تفرد به بقية ، وهو ضعيف عند التفرد
حدثنا ابو اليمان , حدثنا إسماعيل بن عياش , عن يزيد بن ابي مالك , عن لقمان بن عامر , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " ما من رجل يلي امر عشرة فما فوق ذلك , إلا اتى الله عز وجل مغلولا يوم القيامة يده إلى عنقه , فكه بره , او اوبقه إثمه , اولها ملامة , واوسطها ندامة , وآخرها خزي يوم القيامة" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي مَالِكٍ , عَنْ لُقْمَانَ بْنِ عَامِرٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " مَا مِنْ رَجُلٍ يَلِي أَمْرَ عَشَرَةٍ فَمَا فَوْقَ ذَلِكَ , إِلَّا أَتَى اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ مَغْلُولًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ يَدُهُ إِلَى عُنُقِهِ , فَكَّهُ بِرُّهُ , أَوْ أَوْبَقَهُ إِثْمُهُ , أَوَّلُهَا مَلَامَةٌ , وَأَوْسَطُهَا نَدَامَةٌ , وَآخِرُهَا خِزْيٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص دس یا اس سے زیادہ لوگوں کے معاملات کا ذمہ دار بنتا ہے وہ قیامت کے دن اللہ کی بارگاہ میں اس حال میں پیش ہوگا کہ اس کے ہاتھ اس کی گردن سے بندھے ہوئے ہوں گے جنہیں اس کی نیکی ہی کھول سکے گی ورنہ اس کے گناہ اسے ہلاک کردیں گے حکومت کا آغاز ملامت سے ہوتا ہے درمیان ندامت سے اور اختتام قیامت کے دن رسوائی پر ہوگا۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لاضطرب إسماعيل بن عياش فيه
حدثنا ابو المغيرة , حدثنا السري بن ينعم , حدثني عامر بن جشيب , عن خالد بن معدان , عن ابي امامة , قال: دعينا إلى وليمة وهو معنا , فلما شبع من الطعام , قام فقال: اما إني لست اقوم مقامي هذا خطيبا , كان النبي صلى الله عليه وسلم إذا شبع من الطعام , قال: " الحمد لله كثيرا طيبا مباركا فيه , غير مكفي , ولا مستغنى عنه" .حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ , حَدَّثَنَا السَّرِيُّ بْنُ يَنْعُمَ , حَدَّثَنِي عَامِرُ بْنُ جَشِيبٍ , عَنْ خَالِدِ بْنِ مَعْدَانَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: دُعِينَا إِلَى وَلِيمَةٍ وَهُوَ مَعَنَا , فَلَمَّا شَبِعَ مِنَ الطَّعَامِ , قَامَ فَقَالَ: أَمَا إِنِّي لَسْتُ أَقُومُ مَقَامِي هَذَا خَطِيبًا , كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا شَبِعَ مِنَ الطَّعَامِ , قَالَ: " الْحَمْدُ لِلَّهِ كَثِيرًا طَيِّبًا مُبَارَكًا فِيهِ , غَيْرَ مَكْفِيٍّ , وَلَا مُسْتَغْنًى عَنْهُ" .
خالد بن معدان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ عبدالاعلیٰ بن بلال کی دعوت میں شریک تھے کھانے سے فراغت کے بعد حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے کہ میں اس جگہ کھڑا تو ہوگیا ہوں لیکن میں خطیب ہوں اور نہ ہی تقریر کے ارادے سے کھڑا ہوا ہوں البتہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کھانے سے فارغ ہونے کے بعد یہ دعاء پڑھتے ہوتے سنا ہے " الحمدللہ کثیرا طیبا مبارکا فیہ غیر مکفی ولامودع ولامستغنی عنہ " خالد کہتے ہیں کہ حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ نے یہ کلمات اتنی مرتبہ دہرائے کہ ہمیں حفظ ہوگئے۔
حدثنا ابو اليمان , حدثنا إسماعيل بن عياش , عن ابي بكر بن عبد الله يعني ابن ابي مريم , عن حبيب بن عبيد الرحبي , ان ابا امامة دخل على خالد بن يزيد , فالقى له وسادة , فظن ابو امامة انها حرير , فتنحى يمشي القهقرى حتى بلغ آخر السماط , وخالد يكلم رجلا , ثم التفت إلى ابي امامة , فقال له: يا اخي ما ظننت اظننت انها حرير؟ قال ابو امامة : قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يستمتع بالحرير من يرجو ايام الله" , فقال له خالد: يا ابا امامة , انت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ فقال: اللهم غفرا , انت سمعت هذا من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ بل كنا في قوم ما كذبونا ولا كذبنا.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي مَرْيَمَ , عَنْ حَبِيبِ بْنِ عُبَيْدٍ الرَّحَبِيِّ , أَنَّ أَبَا أُمَامَةَ دَخَلَ عَلَى خَالِدِ بْنِ يَزِيدَ , فَأَلْقَى لَهُ وَسَادَةً , فَظَنَّ أَبُو أُمَامَةَ أَنَّهَا حَرِيرٌ , فَتَنَحَّى يَمْشِي الْقَهْقَرَى حَتَّى بَلَغَ آخِرَ السِّمَاطِ , وَخَالِدٌ يُكَلِّمُ رَجُلًا , ثُمَّ الْتَفَتَ إِلَى أَبِي أُمَامَةَ , فَقَالَ لَهُ: يَا أَخِي مَا ظَنَنْتَ أَظَنَنْتَ أَنَّهَا حَرِيرٌ؟ قَالَ أَبُو أُمَامَةَ : قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَسْتَمْتِعُ بِالْحَرِيرِ مَنْ يَرْجُو أَيَّامَ اللَّهِ" , فَقَالَ لَهُ خَالِدٌ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَ: اللَّهُمَّ غُفْرًا , أَنْتَ سَمِعْتَ هَذَا مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ بَلْ كُنَّا فِي قَوْمٍ مَا كَذَبُونَا وَلَا كُذِّبْنَا.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ خالد بن یزید کے پاس گئے اس نے ان کے لئے تکیہ پیش کیا حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سمجھے کہ یہ ریشمی تکیہ ہے اس لئے وہ الٹے پاؤں واپس چلتے ہوئے صف کے آخر میں پہنچ گئے خالد ایک دوسرے آدمی سے محو گفتگو تھا کچھ دیر بعد اس نے حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کو دیکھا تو کہنے لگا بھائی جان! آپ کیا سمجھے؟ کیا آپ کا خیال ہے کہ یہ ریشمی تکیہ ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا وہ شخص ریشم سے فائدہ نہیں اٹھاسکتا جو اللہ سے ملنے کی امید رکھتاہو خالد نے پوچھا اے ابو امامہ! کیا واقعی آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے؟ انہوں نے فرمایا اللہ معافی یہ سوال کہ کیا آپ نے یہ حدیث نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، ہم ایک ایسی قوم میں رہتے تھے جو ہمارے ساتھ جھوٹ بولتے تھے اور نہ ہم ان کے ساتھ جھوٹ بولتے تھے۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى بكر الغساني
حدثنا ابو اليمان , حدثنا إسماعيل بن عياش , عن محمد بن زياد , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " وعدني ربي عز وجل ان يدخل الجنة من امتي سبعين الفا بغير حساب ولا عذاب , مع كل الف سبعون الفا , وثلاث حثيات من حثيات ربي عز وجل" .حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زِيَادٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " وَعَدَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُدْخِلَ الْجَنَّةَ مِنْ أُمَّتِي سَبْعِينَ أَلْفًا بِغَيْرِ حِسَابٍ وَلَا عَذَابٍ , مَعَ كُلِّ أَلْفٍ سَبْعُونَ أَلْفًا , وَثَلَاثَ حَثَيَاتٍ مِنْ حَثَيَاتِ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھ سے وعدہ فرمایا ہے کہ میری امت کے ستر ہزار آدمیوں کو بلا حساب کتاب جنت میں داخل فرمائے گا، ہر ہزار کے ساتھ مزید ستر ہزار ہوں گے اور اس پر تین گنا کا مزید اضافہ ہوگا۔
حدثنا ابو اليمان , حدثنا إسماعيل بن عياش , عن يحيى بن الحارث الذماري , عن القاسم ابي عبد الرحمن , عن ابي امامة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من مشى إلى صلاة مكتوبة وهو متطهر , كان له كاجر الحاج المحرم , ومن مشى إلى سبحة الضحى , كان له كاجر المعتمر , وصلاة على إثر صلاة لا لغو بينهما , كتاب في عليين" , وقال ابو امامة: الغدو والرواح إلى هذه المساجد من الجهاد في سبيل الله.حَدَّثَنَا أَبُو الْيَمَانِ , حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ عَيَّاشٍ , عَنْ يَحْيَى بْنِ الْحَارِثِ الذِّمَارِي , عَنِ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ مَشَى إِلَى صَلَاةٍ مَكْتُوبَةٍ وَهُوَ مُتَطَهِّرٌ , كَانَ لَهُ كَأَجْرِ الْحَاجِّ الْمُحْرِمِ , وَمَنْ مَشَى إِلَى سُبْحَةِ الضُّحَى , كَانَ لَهُ كَأَجْرِ الْمُعْتَمِرِ , وَصَلَاةٌ عَلَى إِثْرِ صَلَاةٍ لَا لَغْوَ بَيْنَهُمَا , كِتَابٌ فِي عِلِّيِّينَ" , وقَالَ أَبُو أُمَامَةَ: الْغُدُوُّ وَالرَّوَاحُ إِلَى هَذِهِ الْمَسَاجِدِ مِنَ الْجِهَادِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص وضو کر کے فرض نماز کے لئے روانہ ہوتا ہے اسے احرام باندھنے والے حاجی کے برابر ثواب ملتا ہے جو شخص چاشت کی نماز کے لئے روانہ ہوتا ہے اسے عمرہ کرنے والے کے برابر ثواب ملتا ہے اور ایک نماز کے بعد دوسری نماز اس طرح پڑھنا کہ درمیان میں کوئی لغو کام نہ ہو علیین میں لکھا جاتا ہے اور حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ صبح و شام ان مساجد کی طرف جانا جہاد فی سبیل اللہ کا حصہ ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ان سے صحابی رضی اللہ عنہ نقل کرتے ہیں جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو آٹھ ذی الحجہ کے دن منٰی کی طرف جاتے ہوئے دیکھا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک جانب حضرت بلال رضی اللہ عنہ تھے ان کے ہاتھ میں ایک چھڑی تھی جس پر ایک کپڑا تھا اور وہ اس سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کئے ہوئے تھے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، من أجل على بن يزيد، وعمان بن أبى العاتكة ضعيف
حدثنا هاشم بن القاسم , حدثنا بكر بن خنيس , عن ليث بن ابي سليم , عن زيد بن ارطاة , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما اذن لعبد في شيء افضل من ركعتين يصليهما , وإن البر ليذر فوق راس العبد ما دام في صلاته , وما تقرب العباد إلى الله تعالى بمثل ما خرج منه" يعني: القرآن.حَدَّثَنَا هَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ , حَدَّثَنَا بَكْرُ بْنُ خُنَيْسٍ , عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ , عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْطَاةَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا أُذِنَ لِعَبْدٍ فِي شَيْءٍ أَفْضَلَ مِنْ رَكْعَتَيْنِ يُصَلِّيهِمَا , وَإِنَّ الْبِرَّ لَيُذَرُّ فَوْقَ رَأْسِ الْعَبْدِ مَا دَامَ فِي صَلَاتِهِ , وَمَا تَقَرَّبَ الْعِبَادُ إِلَى اللَّهِ تَعَالَى بِمِثْلِ مَا خَرَجَ مِنْهُ" يَعْنِي: الْقُرْآنَ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کسی انسان کو کسی چیز کے متعلق اس سے افضل اجازت نہیں دی گئی جو دو رکعتوں کے متعلق دی گئی ہے جنہیں وہ ادا کرتا ہے اور انسان جب تک نماز میں مشغول رہتا ہے اس وقت تک نیکی اس کے سر پر بکھرتی رہتی ہے اور انسان کو اللہ کا اس جیسا قرب حاصل نہیں ہوتا جو اس سے نکلنے والے کلام یعنی قرآن کے ذریعے حاصل ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف بكر بن خنيس وليث ، ولانقطاعه، زيد بن أرطاة حديثه عن أبى أمامة مرسل
حدثنا حدثنا الهاشم بن القاسم , حدثنا الفرج , حدثنا علي بن يزيد , عن القاسم ابي عبد الرحمن , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الله بعثني رحمة للعالمين وهدى للعالمين , وامرني ربي عز وجل بمحق المعازف , والمزامير , والاوثان , والصلب , وامر الجاهلية , وحلف ربي عز وجل بعزته: لا يشرب عبد من عبيدي جرعة من خمر إلا سقيته من الصديد مثلها يوم القيامة , مغفورا له او معذبا , ولا يسقيها صبيا صغيرا ضعيفا مسلما إلا سقيته من الصديد مثلها يوم القيامة مغفورا له او معذبا , ولا يتركها من مخافتي إلا سقيته من حياض القدس يوم القيامة , ولا يحل بيعهن , ولا شراؤهن , ولا تعليمهن , ولا تجارة فيهن وثمنهن حرام" يعني: الضاربات.حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا الْهَاشِمُ بْنُ الْقَاسِمِ , حَدَّثَنَا الْفَرَجُ , حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ يَزِيدَ , عَنْ الْقَاسِمِ أَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ اللَّهَ بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ وَهُدًى لِلْعَالَمِينَ , وَأَمَرَنِي رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بِمَحْقِ الْمَعَازِفِ , وَالْمَزَامِيرِ , وَالْأَوْثَانِ , وَالصُّلُبِ , وَأَمْرِ الْجَاهِلِيَّةِ , وَحَلَفَ رَبِّي عَزَّ وَجَلَّ بِعِزَّتِهِ: لَا يَشْرَبُ عَبْدٌ مِنْ عَبِيدِي جَرْعَةً مِنْ خَمْرٍ إِلَّا سَقَيْتُهُ مِنَ الصَّدِيدِ مِثْلَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ , مَغْفُورًا لَهُ أَوْ مُعَذَّبًا , وَلَا يَسْقِيهَا صَبِيًّا صَغِيرًا ضَعِيفًا مُسْلِمًا إِلَّا سَقَيْتُهُ مِنَ الصَّدِيدِ مِثْلَهَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ مَغْفُورًا لَهُ أَوْ مُعَذَّبًا , وَلَا يَتْرُكُهَا مِنْ مَخَافَتِي إِلَّا سَقَيْتُهُ مِنْ حِيَاضِ الْقُدُسِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ , وَلَا يَحِلُّ بَيْعُهُنَّ , وَلَا شِرَاؤُهُنَّ , وَلَا تَعْلِيمُهُنَّ , وَلَا تِجَارَةٌ فِيهِنَّ وَثَمَنُهُنَّ حَرَامٌ" يَعْنِي: الضَّارِبَاتِ.
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے مجھے جہاں والوں کے لئے باعث رحمت و ہدایت بنا کر بھیجا ہے اور مجھے حکم دیا ہے کہ موسقی کے آلات، طبلے، آلات لہو ولعب اور ان تمام بتوں کو مٹا ڈالوں جن کی زمانہ جاہلیت میں پرستش کی جاتی تھی اور میرے رب نے اپنی عزت کی قسم کھا کر فرمایا ہے کہ میرا جو بندہ بھی شراب کا ایک گھونٹ پئے گا میں اس کے بدلے میں اسے جہنم کا کھولتا ہوا پانی ضرور پلاؤں گا خواہ اسے عذاب میں مبتلا رکھا جائے یا بعد میں اس کی بخشش کردی جائے اور اگر کسی نابالغ بچے کو بھی اس کا ایک گھونٹ پلایا تو اسے بھی اس کے بدلے میں جہنم کا کھولتا ہوا پانی ضرور پلاؤں گا خواہ اسے عذاب میں مبتلا رکھا جائے یا بعد میں اس کی بخشش کردی جائے اور میرا جو بندہ میرے خوف کی وجہ سے اسے چھوڑ دے گا میں اسے اپنی پاکیزہ شراب پلاؤں گا اور مغنیہ عورتوں کی بیع وشراء انہیں گانا بجانا سکھانا اور ان کی تجارت کرنا جائز نہیں ہے اور ان کی قیمت حرام ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، فرج وعلى بن يزيد ضعيفان
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دابۃ الارض کا خروج ہوگا تو وہ لوگوں کے منہ پر نشان لگا دے گا اور وہ اس نشان کے ساتھ ہی زندہ رہیں گے حتیٰ کہ اگر ایک آدمی کوئی آونٹ خریدے گا اور کوئی شخص اس سے پوچھے گا کہ یہ اونٹ تم نے کس سے خریدا ہے؟ تو وہ جواب دے گا کہ یہ میں نے اس شخص سے خریدا ہے جس کے منہ پر نشانی لگی ہوئی ہے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیمار کی عیادت کرنے والا رحمت الہٰی کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی کوکھ پر ہاتھ رکھ کر فرمایا وہ اس طرح آگے پیچھے ہوتا ہے اور جب اس کے پاس بیٹھتا ہے تو رحمت الہٰی اسے ڈھانپ لیتی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا، عبيدالله بن زحر وعلي بن يزيد ضعيفان
حدثنا يحيى بن إسحاق , اخبرنا حماد بن زيد , عن سنان بن ربيعة , عن شهر يعني ابن حوشب , عن ابي امامة , ان النبي صلى الله عليه وسلم توضا فمضمض ثلاثا , واستنشق ثلاثا , وغسل وجهه , وكان يمسح الماقين من العين , قال: وكان النبي صلى الله عليه وسلم يمسح راسه مرة واحدة , وكان يقول: " الاذنان من الراس" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ , أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , عَنْ سِنَانِ بْنِ رَبِيعَةَ , عَنْ شَهْرٍ يَعْنِي ابْنَ حَوْشَبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَوَضَّأَ فَمَضْمَضَ ثَلَاثًا , وَاسْتَنْشَقَ ثَلَاثًا , وَغَسَلَ وَجْهَهُ , وَكَانَ يَمْسَحُ الْمَاقَيْنِ مِنَ الْعَيْنِ , قَالَ: وَكَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُ رَأْسَهُ مَرَّةً وَاحِدَةً , وَكَانَ يَقُولُ: " الْأُذُنَانِ مِنَ الرَّأْسِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کرتے ہوئے چہرے اور ہاتھوں کو تین تین مرتبہ دھویا سر کا مسح کیا اور فرمایا کہ کان سر کا حصہ ہیں نیز یہ بھی فرمایا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنی انگلیوں سے اپنی آنکھوں کے حلقے مسلتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: والأذنان من الرأس، والمسح على المأقين، وهذا إسناد ضعيف لضعف شهر وأبن ربيعة، وللاختلاف فى رفع ووقف قوله: والأذنان من الرأس
حدثنا زياد بن عبد الله البكائي , حدثنا منصور , عن سالم بن ابي الجعد , عن ابي امامة , قال: جاءت امراة رسول الله صلى الله عليه وسلم معها ابنان لها وهي حامل , فما سالته يومئذ إلا اعطاها , ثم قال: " حاملات والدات رحيمات , لولا ما ياتين إلى ازواجهن , دخلن الجنة" .حَدَّثَنَا زِيَادُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْبَكَّائِيُّ , حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ , عَنْ سَالِمِ بْنِ أَبِي الْجَعْدِ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةٌ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعَهَا ابْنَانِ لَهَا وَهِيَ حَامِلٌ , فَمَا سَأَلَتْهُ يَوْمَئِذٍ إِلَّا أَعْطَاهَا , ثُمَّ قَالَ: " حَامِلَاتٌ وَالِدَاتٌ رَحِيمَاتٌ , لَوْلَا مَا يَأْتِينَ إِلَى أَزْوَاجِهِنَّ , دَخَلْنَ الْجَنَّةَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت اپنے ایک بچے کے ہمراہ اسے اٹھاتے ہوئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ مانگنے کے لئے آئی اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے جو بھی مانگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دے دیا پھر فرمایا بچوں کو اٹھانے والی یہ مائیں اپنی اولاد پر کتنی مہربان ہیں اگر وہ چیز نہ ہوتی جو یہ اپنے شوہروں کے ساتھ کرتی ہیں تو ان کی نمازی عورتیں جنت میں داخل ہوجائیں۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه، سالم لم يسمعه من أبى أمامة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حیاء اور بےضرر گفتگو کرنا ایمان کے دو شعبے ہیں جبکہ فحش گوئی اور بےجا گفتگو کرنا نفاق کے دو شعبے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: والعي والبيان، وهذا إسناد ضعيف لانقطاعه بين حسان بن عطية وبين أبى أمامة
حدثنا حسن بن موسى , حدثنا عمارة يعني ابن زاذان , حدثني ابو غالب , عن ابي امامة , قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يوتر بتسع , حتى إذا بدن وكثر لحمه , اوتر بسبع , وصلى ركعتين وهو جالس , فقرا ب إذا زلزلت و قل يا ايها الكافرون" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى , حَدَّثَنَا عُمَارَةُ يَعْنِي ابْنَ زَاذَانَ , حَدَّثَنِي أَبُو غَالِبٍ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُوتِرُ بِتِسْعٍ , حَتَّى إِذَا بَدَّنَ وَكَثُرَ لَحْمُهُ , أَوْتَرَ بِسَبْعٍ , وَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ , فَقَرَأَ بِ إِذَا زُلْزِلَتْ و َقُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابتداء میں نو رکعت وتر پڑھتے تھے بعد میں جب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا بدن مبارک بھاری ہوگیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سات رکعتوں پر وتر بنانے لگے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم وتر کے بعد بیٹھ کردو رکعتیں پڑھتے تھے اور ان میں سورت زلزال اور سورت کافروں کی تلاوت فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون تعيين قراءة النبىﷺ فى الركعتين بعد الوتر، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل أبى غالب وعمارة بن زاذان
حدثنا انس بن عياض , قال: سمعت صفوان بن سليم , يقول: دخل ابو امامة الباهلي دمشق , فراى رءوس حروراء قد نصبت , فقال: " كلاب النار , كلاب النار , ثلاثا , شر قتلى تحت ظل السماء , خير قتلى من قتلوا" , ثم بكى , فقام إليه رجل , فقال: يا ابا امامة , هذا الذي تقول من رايك ام سمعته؟ قال: إني إذا لجريء كيف اقول هذا عن راي , قال: قد سمعته غير مرة , ولا مرتين , قال: فما يبكيك , قال: ابكي لخروجهم من الإسلام هؤلاء الذين تفرقوا , واتخذوا دينهم شيعا .حَدَّثَنَا أَنَسُ بْنُ عِيَاضٍ , قَالَ: سَمِعْتُ صَفْوَانَ بْنَ سُلَيْمٍ , يَقُولُ: دَخَلَ أَبُو أُمَامَةَ الْبَاهِلِيُّ دِمَشْقَ , فَرَأَى رُءُوسَ حَرُورَاءَ قَدْ نُصِبَتْ , فَقَالَ: " كِلَابُ النَّارِ , كِلَابُ النَّارِ , ثَلَاثًا , شَرُّ قَتْلَى تَحْتَ ظِلِّ السَّمَاءِ , خَيْرُ قَتْلَى مَنْ قَتَلُوا" , ثُمَّ بَكَى , فَقَامَ إِلَيْهِ رَجُلٌ , فَقَالَ: يَا أَبَا أُمَامَةَ , هَذَا الَّذِي تَقُولُ مِنْ رَأْيِكَ أَمْ سَمِعْتَهُ؟ قَالَ: إِنِّي إِذًا لَجَرِيءٌ كَيْفَ أَقُولُ هَذَا عَنْ رَأْيٍ , قَالَ: قَدْ سَمِعْتُهُ غَيْرَ مَرَّةٍ , وَلَا مَرَّتَيْنِ , قَالَ: فَمَا يُبْكِيكَ , قَالَ: أَبْكِي لِخُرُوجِهِمْ مِنْ الْإِسْلَامِ هَؤُلَاءِ الَّذِينَ تَفَرَّقُوا , وَاتَّخَذُوا دِينَهُمْ شِيَعًا .
صفوان بن سلیم کہتے ہیں کہ حضرت ابوامامہ رضی اللہ عنہ دمشق میں داخل ہوئے تو خوارج کے سر لٹکے ہوئے نظر آئے انہوں نے تین مرتبہ فرمایا جہنم کے کتے ہیں آسمان کے سائے تلے سب سے بدترین مقتول ہیں اور آسمان کے سائے تلے سب سے بہترین مقتول وہ تھا جسے انہوں نے شہید کردیا اور رونے لگے۔
تھوڑی دیر بعد جب واپس ہوئے تو کسی نے پوچھا اے ابوامامہ! یہ جو آپ نے " جہنم کے کتے " کہا یہ بات آپ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے یا اپنی رائے سے کہہ رہے ہیں، انہوں نے فرمایا سبحان اللہ! اگر میں نے کوئی چیز نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے سات مرتبہ تک سنی ہو اور پھر درمیان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر نکال دوں تو میں بڑا جری ہوں گا، اس نے پوچھا کہ پھر آپ روئے کیوں تھے؟ انہوں نے فرمایا اس لئے کہ یہ لوگ اسلام سے خارج ہوگئے اور یہ وہی لوگ ہیں جنہوں نے تفرقہ بازی کی اور اپنے دین کو مختلف گروہوں میں تقسیم کرلیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد منقطع، صفوان بن سليم لم يسمع من أبى أمامة
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو تنہا نماز پڑھتے ہوئے دیکھا تو فرمایا کوئی ہے جو اس پر صدقہ کرے یعنی اس کے ساتھ نماز میں شریک ہوجائے؟ یہ سن کر ایک آدمی کھڑا ہوا اور اس کے ساتھ نماز پڑھنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ دونوں جماعت ہوگئے۔
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص سلام میں پہل کرتا ہے وہ اللہ اور اس کے رسول کے زیادہ قریب ہوتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا، أبو المهلب وعبيدالله بن زحر ضعيفان، وعلي بن يزيد واهي الحديث
حدثنا يحيى بن إسحاق , حدثنا ابن المبارك , اخبرنا ابن لهيعة , عن خالد بن ابي عمران , عمن حدثه , عن ابي امامة الباهلي , قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" اربع تجري عليهم اجورهم بعد الموت: رجل مات مرابطا في سبيل الله , ورجل علم علما , فاجره يجري عليه ما عمل به , ورجل اجرى صدقة , فاجرها يجري عليه ما جرت عليه , ورجل ترك ولدا صالحا يدعو له". حدثنا حسن , حدثنا ابن لهيعة , عن خالد بن ابي عمران , عن ابي امامة , عن رسول الله صلى الله عليه وسلم فذكره , إلا انه قال: " ومن علم علما اجري له مثل ما علم" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ , حَدَّثَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ , أَخْبَرَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ , عَمَّنْ حَدَّثَهُ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ الْبَاهِلِيِّ , قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" أَرْبَعٌ تَجْرِي عَلَيْهِمْ أُجُورُهُمْ بَعْدَ الْمَوْتِ: رَجُلٌ مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ , وَرَجُلٌ عَلَّمَ عِلْمًا , فَأَجْرُهُ يَجْرِي عَلَيْهِ مَا عَمِلَ بِهِ , وَرَجُلٌ أَجْرَى صَدَقَةً , فَأَجْرُهَا يَجْرِي عَلَيْهِ مَا جَرَتْ عَلَيْهِ , وَرَجُلٌ تَرَكَ وَلَدًا صَالِحًا يَدْعُو لَهُ". حَدَّثَنَا حَسَنٌ , حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ , عَنْ خَالِدِ بْنِ أَبِي عِمْرَانَ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَهُ , إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: " وَمَنْ عَلَّمَ عِلْمًا أُجْرِيَ لَهُ مِثْلُ مَا عَلَّمَ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا چار قسم کے لوگوں کا اجروثواب ان کے مرنے کے بعد بھی انہیں ملتا رہتا ہے (ایک ایسا نیک عمل کرنے والا جس کا عمل جاری ہوجائے (دو صدقہ جاریہ کرنے والا آدمی (تین وہ آدمی جو نیک اولاد چھوڑ جائے اور وہ اولاد اس کے لئے دعاء کرتی رہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي له عن أبى أمامة ، ورواية ابن المبارك عن ابن لهيعة صالحة
قال ابو عبد الرحمن: وجدت في كتاب ابي بخط يده: حدثني مهدي بن جعفر الرملي , حدثنا ضمرة , عن السيباني واسمه يحيى بن ابي عمرو , عن عمرو بن عبد الله الحضرمي , عن ابي امامة , قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تزال طائفة من امتي على الدين , ظاهرين لعدوهم قاهرين , لا يضرهم من خالفهم إلا ما اصابهم من لاواء , حتى ياتيهم امر الله وهم كذلك" , قالوا: يا رسول الله , واين هم؟ قال:" ببيت المقدس , واكناف بيت المقدس" .قَالَ أَبُو عَبْد الرَّحْمَنِ: وَجَدْتُ فِي كِتَابِ أَبِي بِخَطِّ يَدِهِ: حَدَّثَنِي مَهْدِيُّ بْنُ جَعْفَرٍ الرَّمْلِيُّ , حَدَّثَنَا ضَمْرَةُ , عَنِ السَّيْبَانِيِّ وَاسْمُهُ يَحْيَى بْنُ أَبِي عَمْرٍو , عَنْ عَمْرِو بْنِ عَبْدِ اللَّهِ الْحَضْرَمِيِّ , عَنْ أَبِي أُمَامَةَ , قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَزَالُ طَائِفَةٌ مِنْ أُمَّتِي عَلَى الدّينِ , ظَاهِرِينَ لَعَدُوِّهِمْ قَاهِرِينَ , لَا يَضُرُّهُمْ مَنْ خَالَفَهُمْ إِلَّا مَا أَصَابَهُمْ مِنْ لَأْوَاءَ , حَتَّى يَأْتِيَهُمْ أَمْرُ اللَّهِ وَهُمْ كَذَلِكَ" , قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ , وَأَيْنَ هُمْ؟ قَالَ:" بِبَيْتِ الْمَقْدِسِ , وَأَكْنَافِ بَيْتِ الْمَقْدِسِ" .
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا میری امت میں ایک گروہ ہمیشہ غالب اور دین پر رہے گا اپنے دشمنوں پر غالب رہے گا وہ اپنی مخالفت کرنے والوں یا بےیارو مددگار چھوڑ دینے والوں کی پرواہ نہیں کرے گا الاّ یہ کہ انہیں کوئی تکلیف پہنچ جائے یہاں تک کہ اللہ کا حکم آجائے اور وہ اسی حال میں پر ہوں گے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ لوگ کہاں ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیت المقدس میں اور اس کے آس پاس۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، دون قوله: قالوا: يارسول الله! وأين هم....، وهذا إسناد ضعيف لجهالة عمرو بن عبدالله
حضرت ابو امامہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کون سا صدقہ سب سے افضل ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی راہ میں کسی خیمے کا سایہ مہیا کرنا یا اللہ کے لئے مجاہد کی خدمت کرنا یا اللہ کے لئے کسی نر جانور پر کسی کو سوار کرنا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف جدا، مطرح بن يزيد وعبيد الله بن زحر ضعيفان، وعلي بن يزيد متروك