مسند احمد کل احادیث 27647 :حدیث نمبر
مسند احمد
مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ
1104. حَدِيثُ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حدیث نمبر: 23703
Save to word اعراب
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، عن سلمان ، قال: قال بعض المشركين وهم يستهزئون به: إني لارى صاحبكم يعلمكم حتى الخراءة!، قال سلمان: اجل، " امرنا ان لا نستقبل القبلة، ولا نستنجي بايماننا، ولا نكتفي بدون ثلاثة احجار ليس فيها رجيع ولا عظم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: قَالَ بَعْضُ الْمُشْرِكِينَ وَهُمْ يَسْتَهْزِئُونَ بِهِ: إِنِّي لَأَرَى صَاحِبَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ حَتَّى الْخِرَاءَةِ!، قَالَ سَلْمَانُ: أَجَلْ، " أَمَرَنَا أَنْ لَا نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ، وَلَا نَسْتَنْجِيَ بِأَيْمَانِنَا، وَلَا نَكْتَفِيَ بِدُونِ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ لَيْسَ فِيهَا رَجِيعٌ وَلَا عَظْمٌ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
حدیث نمبر: 23704
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن إسحاق ، اخبرنا شريك ، عن عبيد المكتب ، عن ابي الطفيل ، عن سلمان ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم " يقبل الهدية، ولا يقبل الصدقة" ، قال عبد الله: وحدثناه علي بن حكيم ، اخبرنا شريك ، عن عبيد المكتب ، بإسناده نحوه.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ إِسْحَاقَ ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عُبَيْدٍ الْمُكْتِبِ ، عَنْ أَبِي الطُّفَيْلِ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَقْبَلُ الْهَدِيَّةَ، وَلَا يَقْبَلُ الصَّدَقَةَ" ، قَالَ عَبْد اللَّهِ: وحَدَّثَنَاه عَلِيُّ بْنُ حَكِيمٍ ، أَخْبَرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ عُبَيْدٍ الْمُكْتِبِ ، بِإِسْنَادِهِ نَحْوَهُ.
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے ہدیہ قبول فرما لیتے تھے لیکن صدقہ قبول نہیں فرماتے تھے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك بن عبدالله
حدیث نمبر: 23705
Save to word اعراب
حدثنا ابو سعيد ، حدثنا زائدة ، حدثنا منصور ، عن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، حدثنا رجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم، قال: قال رجل: إني لارى صاحبكم يعلمكم كيف تصنعون؟ حتى إنه ليعلمكم إذا اتى احدكم الغائط! قال: قلت: نعم، اجل، ولو سخرت" إنه ليعلمنا كيف ياتي احدنا الغائط، وإنه ينهانا ان يستقبل احدنا القبلة وان يستدبرها، وان يستنجي احدنا بيمينه، وان يتمسح احدنا برجيع ولا عظم، وان يستنجي باقل من ثلاثة احجار" .حَدَّثَنَا أَبُو سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، حَدَّثَنَا رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: إِنِّي لَأَرَى صَاحِبَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ كَيْفَ تَصْنَعُونَ؟ حَتَّى إِنَّهُ لَيُعَلِّمُكُمْ إِذَا أَتَى أَحَدُكُمْ الْغَائِطَ! قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، أَجَلْ، وَلَوْ سَخِرْتَ" إِنَّهُ لَيُعَلِّمُنَا كَيْفَ يَأْتِي أَحَدُنَا الْغَائِطَ، وَإِنَّهُ يَنْهَانَا أَنْ يَسْتَقْبِلَ أَحَدُنَا الْقِبْلَةَ وَأَنْ يَسْتَدْبِرَهَا، وَأَنْ يَسْتَنْجِيَ أَحَدُنَا بِيَمِينِهِ، وَأَنْ يَتَمَسَّحَ أَحَدُنَا بِرَجِيعٍ وَلَا عَظْمٍ، وَأَنْ يَسْتَنْجِيَ بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
حدیث نمبر: 23706
Save to word اعراب
حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا زائدة ، حدثنا عمر بن قيس الماصر ، عن عمرو بن ابي قرة ، قال: كان حذيفة بالمدائن، فكان يذكر اشياء قالها رسول الله صلى الله عليه وسلم، فجاء حذيفة إلى سلمان، فيقول سلمان : يا حذيفة، إن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان يغضب فيقول، ويرضى فيقول، لقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم خطب، فقال: " ايما رجل من امتي سببته سبة في غضبي، او لعنته لعنة، فإنما انا من ولد آدم اغضب كما يغضبون، وإنما بعثني رحمة للعالمين، فاجعلها صلاة عليه يوم القيامة" .حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ الْمَاصِرُ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ ، قَالَ: كَانَ حُذَيْفَةُ بِالْمَدَائِنِ، فَكَانَ يَذْكُرُ أَشْيَاءَ قَالَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ حُذَيْفَةُ إِلَى سَلْمَانَ، فَيَقُولُ سَلْمَانُ : يَا حُذَيْفَةُ، إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يَغْضَبُ فَيَقُولُ، وَيَرْضَى فَيَقُولُ، لَقَدْ عَلِمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ خَطَبَ، فَقَالَ: " أَيُّمَا رَجُلٍ مِنْ أُمَّتِي سَبَبْتُهُ سَبَّةً فِي غَضَبِي، أَوْ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً، فَإِنَّمَا أَنَا مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَغْضَبُ كَمَا يَغْضَبُونَ، وَإِنَّمَا بَعَثَنِي رَحْمَةً لِلْعَالَمِينَ، فَاجْعَلْهَا صَلَاةً عَلَيْهِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ" .
عمرو بن قرہ (رح) کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن شہر میں رہتے تھے اور کچھ باتیں ذکر کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھیں ایک دن حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ حذیفہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات غصے میں کچھ باتیں کہتے تھے اور کچھ باتیں خوشی کی حالت میں کہتے تھے میں جانتا ہوں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں نے اپنے جس امتی کو غصے کی حالت میں سخت سست کہا ہو یا اسے لعنت ملامت کی ہو تو میں بھی اولاد آدم میں سے ہوں اور جس طرح عام لوگوں کو غصہ آتا ہے مجھے بھی آتا ہے اور اللہ نے مجھے رحمتہ للعالمین بنایا ہے اے اللہ! میرے ان کلمات کو قیامت کے دن اس شخص کے لئے باعث رحمت بنا دیجئے گا۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن صح سماع عمرو بن أبى قرة من سلمان
حدیث نمبر: 23707
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا علي بن زيد ، عن ابي عثمان ، قال: كنت مع سلمان الفارسي تحت شجرة، واخذ منها غصنا يابسا، فهزه حتى تحات ورقه، ثم قال: يا ابا عثمان، الا تسالني لم افعل هذا؟ قلت: ولم تفعله؟ فقال: هكذا فعل رسول الله صلى الله عليه وسلم وانا معه تحت شجرة، فاخذ منها غصنا يابسا فهزه حتى تحات ورقه، فقال: يا سلمان، الا تسالني لم افعل هذا؟" فقلت: ولم تفعله؟ قال: " إن المسلم إذا توضا فاحسن الوضوء، ثم صلى الصلوات الخمس، تحاتت خطاياه كما يتحات هذا الورق"، وقال واقم الصلاة طرفي النهار وزلفا من الليل إن الحسنات يذهبن السيئات ذلك ذكرى للذاكرين سورة هود آية 114 .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ تَحْتَ شَجَرَةٍ، وَأَخَذَ مِنْهَا غُصْنًا يَابِسًا، فَهَزَّهُ حَتَّى تَحَاتَّ وَرَقُهُ، ثُمَّ قَالَ: يَا أَبَا عُثْمَانَ، أَلَا تَسْأَلُنِي لِمَ أَفْعَلُ هَذَا؟ قُلْتُ: وَلِمَ تَفْعَلُهُ؟ فَقَالَ: هَكَذَا فَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَنَا مَعَهُ تَحْتَ شَجَرَةٍ، فَأَخَذَ مِنْهَا غُصْنًا يَابِسًا فَهَزَّهُ حَتَّى تَحَاتَّ وَرَقُهُ، فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ، أَلَا تَسْأَلُنِي لِمَ أَفْعَلُ هَذَا؟" فَقُلْتُ: وَلِمَ تَفْعَلُهُ؟ قَالَ: " إِنَّ الْمُسْلِمَ إِذَا تَوَضَّأَ فَأَحْسَنَ الْوُضُوءَ، ثُمَّ صَلَّى الصَّلَوَاتِ الْخَمْسَ، تَحَاتَّتْ خَطَايَاهُ كَمَا يَتَحَاتُّ هَذَا الْوَرَقُ"، وَقَالَ وَأَقِمِ الصَّلاةَ طَرَفَيِ النَّهَارِ وَزُلَفًا مِنَ اللَّيْلِ إِنَّ الْحَسَنَاتِ يُذْهِبْنَ السَّيِّئَاتِ ذَلِكَ ذِكْرَى لِلذَّاكِرِينَ سورة هود آية 114 .
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا انہوں نے اس کی ایک خشک ٹہنی کو پکڑ کر اسے ہلایا تو اس کے پتے گرنے لگے پھر انہوں نے فرمایا کہ اے ابو عثمان! تم مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ بھی اسی طرح کیا تھا اور یہی سوال و جواب ہوئے تھے جس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب کوئی مسلمان خوب اچھی طرح وضو کرے اور پانچوں نمازیں پڑھے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے یہ پتے جھڑ رہے ہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ " واقم الصلاۃ طرفی النھار وزلفا من اللیل ان الحسنات یذہبن السئیات ذلک ذکرٰی للذاکرین "

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدیث نمبر: 23708
Save to word اعراب
حدثنا عبد الرحمن بن مهدي ، حدثنا سفيان ، عن منصور ، والاعمش ، عن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، عن سلمان الفارسي ، قال: قال له المشركون: إنا نرى صاحبكم يعلمكم حتى يعلمكم الخراءة! قال: اجل، إنه ينهانا ان يستنجي احدنا بيمينه، او يستقبل القبلة، وينهانا عن الروث والعظام، وقال: " لا يستنجي احدكم بدون ثلاثة احجار" ، حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، عن منصور ، عن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، ان رجلا من المشركين قال لرجل من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم علمكم هذا كل شيء، فذكر الحديث.حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، وَالْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ ، قَالَ: قَالَ لَهُ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّا نَرَى صَاحِبَكُمْ يُعَلِّمُكُمْ حَتَّى يُعَلِّمَكُمْ الْخِرَاءَةَ! قَالَ: أَجَلْ، إِنَّهُ يَنْهَانَا أَنْ يَسْتَنْجِيَ أَحَدُنَا بِيَمِينِهِ، أَوْ يَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ، وَيَنْهَانَا عَنِ الرَّوْثِ وَالْعِظَامِ، وَقَالَ: " لَا يَسْتَنْجِي أَحَدُكُمْ بِدُونِ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ" ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، أَنَّ رَجُلًا مِنَ الْمُشْرِكِينَ قَالَ لِرَجُلٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَّمَكُمْ هَذَا كُلَّ شَيْءٍ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ.
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
حدیث نمبر: 23709
Save to word اعراب
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
حدیث نمبر: 23710
Save to word اعراب
حدثنا حجاج بن محمد ، حدثنا ابن ابي ذئب ، عن سعيد المقبري ، قال: اخبرني ابي ، عن عبد الله بن وديعة ، عن سلمان الخير ، عن النبي صلى الله عليه وسلم انه قال: " لا يغتسل رجل يوم الجمعة، ويتطهر بما استطاع من طهر، ويدهن من دهنه، او يمس من طيب بيته، ثم يروح إلى المسجد فلا يفرق بين اثنين، ثم يصلي ما كتب الله له، ثم ينصت للإمام إذا تكلم، إلا غفر له ما بينه وبين الجمعة الاخرى" .حَدَّثَنَا حَجَّاجُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، قَالَ: أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَدِيعَةَ ، عَنْ سَلْمَانَ الْخَيْرِ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ: " لَا يَغْتَسِلُ رَجُلٌ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيَتَطَهَّرُ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ، وَيَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ، أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ، ثُمَّ يَرُوحُ إِلَى الْمَسْجِدِ فَلَا يُفَرِّقُ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ثُمَّ يُصَلِّي مَا كَتَبَ اللَّهُ لَهُ، ثُمَّ يُنْصِتُ لِلْإِمَامِ إِذَا تَكَلَّمَ، إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 883
حدیث نمبر: 23711
Save to word اعراب
حدثنا هشيم ، عن منصور ، عن الحسن ، قال: لما احتضر سلمان بكى، وقال: إن رسول الله صلى الله عليه وسلم " عهد إلينا عهدا، فتركنا ما عهد إلينا ان يكون بلغة احدنا من الدنيا كزاد الراكب" قال: ثم نظرنا فيما ترك، فإذا قيمة ما ترك بضعة وعشرون درهما، او بضعة وثلاثون درهما .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنِ الْحَسَنِ ، قَالَ: لَمَّا احْتُضِرَ سَلْمَانُ بَكَى، وَقَالَ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " عَهِدَ إِلَيْنَا عَهْدًا، فَتَرَكْنَا مَا عَهِدَ إِلَيْنَا أَنْ يَكُونَ بُلْغَةُ أَحَدِنَا مِنَ الدُّنْيَا كَزَادِ الرَّاكِبِ" قَالَ: ثُمَّ نَظَرْنَا فِيمَا تَرَكَ، فَإِذَا قِيمَةُ مَا تَرَكَ بِضْعَةٌ وَعِشْرُونَ دِرْهَمًا، أَوْ بِضْعَةٌ وَثَلَاثُونَ دِرْهَمًا .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا جب وقت آخر قریب آیا تو وہ رونے لگے اور فرمانے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک عہد لیا تھا اور اسی عہد پر ہمیں چھوڑا تھا کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ سامان ہمارے پاس ایک مسافر کے توشے جتنا ہونا چاہئے راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد جب ہم نے ان کے ترکے کا جائزہ لیا تو اس تمام ترکے کی قیمت صرف بیس یا تیس سے کچھ اوپر درہم تھے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، إسناده منقطع، الحسن البصري لا يعرف له سماع من سلمان، وقد توبع
حدیث نمبر: 23712
Save to word اعراب
حدثنا ابو كامل ، حدثنا إسرائيل ، حدثنا ابو إسحاق ، عن ابي قرة الكندي ، عن سلمان الفارسي ، قال: كنت من ابناء اساورة فارس، فذكر الحديث، قال: فانطلقت ترفعني ارض، وتخفضني اخرى، حتى مررت على قوم من الاعراب، فاستعبدوني فباعوني حتى اشترتني امراة، فسمعتهم يذكرون النبي صلى الله عليه وسلم، وكان العيش عزيزا، فقلت لها: هبي لي يوما، فقالت: نعم، فانطلقت فاحتطبت حطبا، فبعته فصنعت طعاما، فاتيت به النبي صلى الله عليه وسلم فوضعته بين يديه، فقال:" ما هذا؟" فقلت: صدقة، فقال لاصحابه:" كلوا"، ولم ياكل، قلت: هذه من علاماته، ثم مكثت ما شاء الله ان امكث، فقلت لمولاتي: هبي لي يوما، قالت: نعم، فانطلقت فاحتطبت حطبا، فبعته باكثر من ذلك فصنعت طعاما، فاتيته به وهو جالس بين اصحابه، فوضعته بين يديه، فقال:" ما هذا؟" قلت: هدية، فوضع يده، وقال لاصحابه:" خذوا بسم الله" وقمت خلفه، فوضع رداءه فإذا خاتم النبوة، فقلت: اشهد انك رسول الله، فقال:" وما ذاك؟" فحدثته عن الرجل، وقلت: ايدخل الجنة يا رسول الله، فإنه حدثني انك نبي؟ فقال: " لن يدخل الجنة إلا نفس مسلمة"، فقلت: يا رسول الله، إنه اخبرني انك نبي، ايدخل الجنة؟ قال:" لن يدخل الجنة إلا نفس مسلمة" .حَدَّثَنَا أَبُو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ ، قَالَ: كُنْتُ مِنْ أَبْنَاءِ أَسَاوِرَةِ فَارِسَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ تَرْفَعُنِي أَرْضٌ، وَتَخْفِضُنِي أُخْرَى، حَتَّى مَرَرْتُ عَلَى قَوْمٍ مِنَ الْأَعْرَابِ، فَاسْتَعْبَدُونِي فَبَاعُونِي حَتَّى اشْتَرَتْنِي امْرَأَةٌ، فَسَمِعْتُهُمْ يَذْكُرُونَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَكَانَ الْعَيْشُ عَزِيزًا، فَقُلْتُ لَهَا: هَبِي لِي يَوْمًا، فَقَالَتْ: نَعَمْ، فَانْطَلَقْتُ فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا، فَبِعْتُهُ فَصَنَعْتُ طَعَامًا، فَأَتَيْتُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" مَا هَذَا؟" فَقُلْتُ: صَدَقَةٌ، فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ:" كُلُوا"، وَلَمْ يَأْكُلْ، قُلْتُ: هَذِهِ مِنْ عَلَامَاتِهِ، ثُمَّ مَكَثْتُ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَمْكُثَ، فَقُلْتُ لِمَوْلَاتِي: هَبِي لِي يَوْمًا، قَالَتْ: نَعَمْ، فَانْطَلَقْتُ فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا، فبِعتُه بِأَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَصَنَعْتُ طَعَامًا، فَأَتَيْتُهُ بِهِ وَهُوَ جَالِسٌ بَيْنَ أَصْحَابِهِ، فَوَضَعْتُهُ بَيْنَ يَدَيْهِ، فَقَالَ:" مَا هَذَا؟" قُلْتُ: هَدِيَّةٌ، فَوَضَعَ يَدَهُ، وَقَالَ لِأَصْحَابِهِ:" خُذُوا بِسْمِ اللَّهِ" وَقُمْتُ خَلْفَهُ، فَوَضَعَ رِدَاءَهُ فَإِذَا خَاتَمُ النُّبُوَّةِ، فَقُلْتُ: أَشْهَدُ أَنَّكَ رَسُولُ اللَّهِ، فَقَالَ:" وَمَا ذَاكَ؟" فَحَدَّثْتُهُ عَنِ الرَّجُلِ، وَقُلْتُ: أَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَإِنَّهُ حَدَّثَنِي أَنَّكَ نَبِيٌّ؟ فَقَالَ: " لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ"، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّهُ أَخْبَرَنِي أَنَّكَ نَبِيٌّ، أَيَدْخُلُ الْجَنَّةَ؟ قَالَ:" لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا نَفْسٌ مُسْلِمَةٌ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم فارس کے سرداروں کی اولاد میں سے تھے۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کرتے ہوئے (جو عنقریب ٢٤١٣٨ پر آیا چاہتی ہے) فرمایا کہ میں زمین کے نشیب و فراز طے کرتے ہوا چلتا رہا یہاں تک کہ دیہاتیوں کی ایک قوم پر میرا گذر ہوا تو انہوں نے مجھے غلام بنا کر بیچ ڈالا اور مجھے ایک عورت نے خرید لیا میں نے ان لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا لیکن اس وقت تک زندگی تلخ ہوچکی تھی میں نے اپنی مالکہ سے کہا کہ مجھے ایک دن کی چھٹی دے دے اس نے مجھے چھٹی دے دی۔ میں وہاں سے روانہ ہوا کچھ لکڑیاں کاٹیں اور انہیں بیچ کر کھانا تیار کیا اور اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم لوگ ہی کھالو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول نہ فرمایا میں نے سوچا کہ یہ ایک علامت ہے (جو پوری ہوگئی) پھر کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ایک مرتبہ دوبارہ میں نے اپنی مالکہ سے ایک دن کی چھٹی مانگی جو اس نے مجھے دے دی میں نے حسب سابق لکڑیاں کاٹ کر بیچ کر کھانا تیار کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے میں نے وہ کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لے جا کر رکھ دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا یہ ہدیہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی فرمایا کہ کھاؤ اللہ کے نام سے۔ پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر ہٹا دی تو وہاں مہر نبوت نظر آگئی میں نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آدمی کے متعلق بتایا اور پوچھا یا رسول اللہ! کیا وہ آدمی جنت میں جائے گا کیونکہ اس نے ہی مجھے بتایا تھا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں صرف وہی آدمی جائے گا جو مسلمان ہوگا میں نے پھر اپنا سوال دہرایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا۔

حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 23713
Save to word اعراب
حدثنا ابن فضيل ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، عن سلمان ، قال: قال المشركون: إن هذا ليعلمكم حتى إنه ليعلمكم الخراءة! قال: قلت:" لئن قلتم ذاك، لقد " نهانا ان نستقبل القبلة او نستدبرها، او نستنجي بايماننا، او يكتفي احدنا بدون ثلاثة احجار، او يستنجي احدنا برجيع او عظم" .حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: قَالَ الْمُشْرِكُونَ: إِنَّ هَذَا لَيُعَلِّمُكُمْ حَتَّى إِنَّهُ لَيُعَلِّمُكُمْ الْخِرَاءَةَ! قَالَ: قُلْتُ:" لَئِنْ قُلْتُمْ ذَاكَ، لَقَدْ " نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ أَوْ نَسْتَدْبِرَهَا، أَوْ نَسْتَنْجِيَ بِأَيْمَانِنَا، أَوْ يَكْتَفِيَ أَحَدُنَا بِدُونِ ثَلَاثَةِ أَحْجَارٍ، أَوْ يَسْتَنْجِيَ أَحَدُنَا بِرَجِيعٍ أَوْ عَظْمٍ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
حدیث نمبر: 23714
Save to word اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا سليمان التيمي ، عن ابي عثمان ، عن سلمان ، قال: " إن الله عز وجل ليستحي ان يبسط العبد إليه يديه يساله خيرا، فيردهما خائبتين" ..حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ التَّيْمِيُّ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ لَيَسْتَحِي أَنْ يَبْسُطَ الْعَبْدُ إِلَيْهِ يَدَيْهِ يَسْأَلُهُ خَيْرًا، فَيَرُدَّهُمَا خَائِبَتَيْنِ" ..
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات سے حیاء آتی ہے کہ اس کا کوئی بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کوئی سوال کرے اور وہ انہیں خالی لوٹا دے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وهو هنا موقوف إلا أنه قد روي أيضا مرفوعا
حدیث نمبر: 23715
Save to word اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا رجل في مجلس عمرو بن عبيد، انه سمع ابا عثمان ، يحدث بهذا، عن سلمان الفارسي ، عن النبي صلى الله عليه وسلم بمثله، قال يزيد: سموه لي، قالوا: هو جعفر بن ميمون، قال عبد الله: قال ابي: يعني: جعفر صاحب الانماط.حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا رَجُلٌ فِي مَجْلِسِ عَمْرِو بْنِ عُبَيْدٍ، أَنَّهُ سَمِعَ أَبَا عُثْمَانَ ، يُحَدِّثُ بِهَذَا، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بمثلِه، قَالَ يَزِيدُ: سَمُّوهُ لِي، قَالُوا: هُوَ جَعْفَرُ بْنُ مَيْمُونٍ، قَالَ عَبْد اللَّهِ: قَالَ أَبِي: يَعْنِي: جَعْفَرَ صَاحِبَ الْأَنْمَاطِ.
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد، الرجل المبهم الذى روى عنه يزيد بن هارون هو جعفر بن ميمون، وهذا يعتبر به، وهو متابع
حدیث نمبر: 23716
Save to word اعراب
حدثنا يزيد ، اخبرنا حماد بن سلمة ، عن علي بن زيد ، عن ابي عثمان النهدي ، قال: كنا مع سلمان تحت شجرة فاخذ غصنا منها فنفضه، فتساقط ورقه، فقال: الا تسالوني عما صنعت؟ فقلنا: اخبرنا، فقال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في ظل شجرة، فاخذ غصنا منها فنفضه فتساقط ورقه، فقال:" الا تسالوني عما صنعت؟" فقلنا: اخبرنا يا رسول الله، فقال: " إن العبد المسلم إذا قام إلى الصلاة، تحاتت عنه خطاياه كما تحات ورق هذه الشجرة" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، أَخْبَرَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ سَلْمَانَ تَحْتَ شَجَرَةٍ فَأَخَذَ غُصْنًا مِنْهَا فَنَفَضَهُ، فَتَسَاقَطَ وَرَقُهُ، فَقَالَ: أَلَا تَسْأَلُونِي عَمَّا صَنَعْتُ؟ فَقُلْنَا: أَخْبِرْنَا، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَأَخَذَ غُصْنًا مِنْهَا فَنَفَضَهُ فَتَسَاقَطَ وَرَقُهُ، فَقَالَ:" أَلَا تَسْأَلُونِي عَمَّا صَنَعْتُ؟" فَقُلْنَا: أَخْبِرْنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: " إِنَّ الْعَبْدَ الْمُسْلِمَ إِذَا قَامَ إِلَى الصَّلَاةِ، تَحَاتَّتْ عَنْهُ خَطَايَاهُ كَمَا تَحَاتَّ وَرَقُ هَذِهِ الشَّجَرَةِ" .
ابو عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا انہوں نے اس کی ایک خشک ٹہنی کو پکڑ کر اسے ہلایا تو اس کے پتے گرنے لگے پھر انہوں نے فرمایا کہ اے ابو عثمان! تم مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ بھی اسی طرح کیا تھا اور یہی سوال جواب ہوئے تھے جس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب کوئی مسلمان خوب اچھی طرح وضو کرے اور پانچوں نمازیں پڑھے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔

حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حدیث نمبر: 23717
Save to word اعراب
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا داود يعني ابن ابي الفرات ، حدثنا محمد بن زيد ، عن ابي شريح ، عن ابي مسلم مولى زيد بن صوحان العبدي، قال: كنت مع سلمان الفارسي، فراى رجلا قد احدث، وهو يريد ان ينزع خفيه، فامره سلمان ان يمسح على خفيه وعلى عمامته ويمسح بناصيته، وقال سلمان : رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم " يمسح على خفيه وعلى خماره" .حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا دَاوُدُ يَعْنِي ابْنَ أَبِي الْفُرَاتِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ مَوْلَى زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ الْعَبْدِيِّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، فَرَأَى رَجُلًا قَدْ أَحْدَثَ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَنْزِعَ خُفَّيْهِ، فَأَمَرَهُ سَلْمَانُ أَنْ يَمْسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ وَعَلَى عِمَامَتِهِ وَيَمْسَحَ بِنَاصِيَتِهِ، وَقَالَ سَلْمَانُ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " يَمْسَحُ عَلَى خُفَّيْهِ وَعَلَى خِمَارِهِ" .
ابومسلم (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی کو حدث لاحق ہوا اور وہ اپنے موزے اتارنا چاہتا ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ موزوں اور عمامہ پر مسح کرے اور اپنی پیشانی کے بقدر مسح کرے اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے موزوں اور اوڑھنی (عمامے) پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح الغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى شريح، وأبي مسلم
حدیث نمبر: 23718
Save to word اعراب
حدثنا هشيم ، عن مغيرة ، عن ابي معشر ، عن إبراهيم ، عن قرثع الضبي ، عن سلمان الفارسي ، قال: قال لي النبي صلى الله عليه وسلم: " اتدري ما يوم الجمعة؟" قلت: هو اليوم الذي جمع الله فيه اباكم، قال:" لكني ادري ما يوم الجمعة، لا يتطهر الرجل فيحسن طهوره، ثم ياتي الجمعة، فينصت حتى يقضي الإمام صلاته، إلا كان كفارة له ما بينه وبين الجمعة المقبلة ما اجتنبت المقتلة" .حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ قَرْثَعٍ الضَّبِّيِّ ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ ، قَالَ: قَالَ لِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَتَدْرِي مَا يَوْمُ الْجُمُعَةِ؟" قُلْتُ: هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي جَمَعَ اللَّهُ فِيهِ أَبَاكُمْ، قَالَ:" لَكِنِّي أَدْرِي مَا يَوْمُ الْجُمُعَةِ، لَا يَتَطَهَّرُ الرَّجُلُ فَيُحْسِنُ طُهُورَهُ، ثُمَّ يَأْتِي الْجُمُعَةَ، فَيُنْصِتُ حَتَّى يَقْضِيَ الْإِمَامُ صَلَاتَهُ، إِلَّا كَانَ كَفَّارَةً لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْمُقْبِلَةِ مَا اجْتُنِبَتْ الْمَقْتَلَةُ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، جب تک کہ لڑائی سے بچتا رہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل قريع الضبي
حدیث نمبر: 23719
Save to word اعراب
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن إبراهيم ، عن عبد الرحمن بن يزيد ، قال: قيل لسلمان : قد علمكم نبيكم كل شيء حتى الخراءة! قال: اجل، " نهانا ان نستقبل القبلة بغائط او ببول، او ان نستنجي باليمين، او ان يستنجي احدنا باقل من ثلاث احجار، او ان يستنجي برجيع او بعظم" .حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَ: قِيلَ لِسَلْمَانَ : قَدْ عَلَّمَكُمْ نَبِيُّكُمْ كُلَّ شَيْءٍ حَتَّى الْخِرَاءَةِ! قَالَ: أَجَلْ، " نَهَانَا أَنْ نَسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةَ بِغَائِطٍ أَوْ بِبَوْلٍ، أَوْ أَنْ نَسْتَنْجِيَ بِالْيَمِينِ، أَوْ أَنْ يَسْتَنْجِيَ أَحَدُنَا بِأَقَلَّ مِنْ ثَلَاثِ أَحْجَارٍ، أَوْ أَنْ يَسْتَنْجِيَ بِرَجِيعٍ أَوْ بِعَظْمٍ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
حدیث نمبر: 23720
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن سليمان ، عن ابي عثمان ، عن سلمان ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " إن الله عز وجل خلق مائة رحمة فمنها رحمة يتراحم بها الخلق، فبها تعطف الوحوش على اولادها، واخر تسعة وتسعين إلى يوم القيامة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ خَلَقَ مِائَةَ رَحْمَةٍ فَمِنْهَا رَحْمَةٌ يَتَرَاحَمُ بِهَا الْخَلْقُ، فَبِهَا تَعْطِفُ الْوُحُوشُ عَلَى أَوْلَادِهَا، وَأَخَّرَ تِسْعَةً وَتِسْعِينَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کی ہیں جن میں سے ایک رحمت وہ ہے کہ جس کے ذریعے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور وحشی جانور تک اپنی اولاد پر ترس کھاتے ہیں اور ننانوے رحمتیں قیامت کے دن کے لئے مؤخر کردی ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2753
حدیث نمبر: 23721
Save to word اعراب
حدثنا ابو اسامة ، اخبرني مسعر ، حدثني عمر بن قيس ، عن عمرو بن ابي قرة الكندي ، قال: عرض ابي على سلمان اخته فابى، وتزوج مولاة له، يقال لها: بقيرة، قال: فبلغ ابا قرة انه كان بين سلمان وحذيفة شيء، فاتاه يطلبه، فاخبر انه في مبقلة له، فتوجه إليه فلقيه معه زبيل فيه بقل، قد ادخل عصاه في عروة الزبيل، وهو على عاتقه، قال: ابا عبد الله، ما كان بينك وبين حذيفة؟ قال: يقول سلمان: وكان الإنسان عجولا سورة الإسراء آية 11، فانطلقا حتى اتيا دار سلمان، فدخل سلمان الدار، فقال: السلام عليكم، ثم اذن فإذا نمط موضوع على باب وعند راسه لبنات، وإذا قرطان، فقال: اجلس على فراش مولاتك الذي تمهد لنفسها، قال: ثم انشا يحدثه، قال: إن حذيفة كان يحدث باشياء يقولها رسول الله صلى الله عليه وسلم في غضبه لاقوام، فاسال عنها فاقول: حذيفة اعلم بما يقول، واكره ان يكون ضغائن بين اقوام، فاتي حذيفة، فقيل له: إن سلمان لا يصدقك ولا يكذبك بما تقول، فجاءني حذيفة، فقال: يا سلمان ابن ام سلمان! قلت: يا حذيفة ابن ام حذيفة، لتنتهين او لاكتبن إلى عمر، فلما خوفته بعمر تركني، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من ولد آدم انا، فايما عبد مؤمن لعنته لعنة او سببته سبة في غير كنهه، فاجعلها عليه صلاة" .حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، أَخْبَرَنِي مِسْعَرٌ ، حَدَّثَنِي عُمَرُ بْنُ قَيْسٍ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي قُرَّةَ الْكِنْدِيِّ ، قَالَ: عَرَضَ أَبِي عَلَى سَلْمَانَ أُخْتَهُ فَأَبَى، وَتَزَوَّجَ مَوْلَاةً لَهُ، يُقَالُ لَهَا: بُقَيْرَةُ، قَالَ: فَبَلَغَ أَبَا قُرَّةَ أَنَّهُ كَانَ بَيْنَ سَلْمَانَ وَحُذَيْفَةَ شَيْءٌ، فَأَتَاهُ يَطْلُبُهُ، فَأُخْبِرَ أَنَّهُ فِي مَبْقَلَةٍ لَهُ، فَتَوَجَّهَ إِلَيْهِ فَلَقِيَهُ مَعَهُ زَبِيلٌ فِيهِ بَقْلٌ، قَدْ أَدْخَلَ عَصَاهُ فِي عُرْوَةِ الزَّبِيلِ، وَهُوَ عَلَى عَاتِقِهِ، قَالَ: أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، مَا كَانَ بَيْنَكَ وَبَيْنَ حُذَيْفَةَ؟ قَالَ: يَقُولُ سَلْمَانُ: وَكَانَ الإِنْسَانُ عَجُولا سورة الإسراء آية 11، فَانْطَلَقَا حَتَّى أَتَيَا دَارَ سَلْمَانَ، فَدَخَلَ سَلْمَانُ الدَّارَ، فَقَالَ: السَّلَامُ عَلَيْكُمْ، ثُمَّ أَذِنَ فَإِذَا نَمَطٌ مَوْضُوعٌ عَلَى بَابٍ وَعِنْدَ رَأْسِهِ لَبِنَاتٌ، وَإِذَا قُرْطَانِ، فَقَالَ: اجْلِسْ عَلَى فِرَاشِ مَوْلَاتِكَ الَّذِي تُمَهِّدُ لِنَفْسِهَا، قَالَ: ثُمَّ أَنْشَأَ يُحَدِّثُهُ، قَالَ: إِنَّ حُذَيْفَةَ كَانَ يُحَدِّثُ بِأَشْيَاءَ يَقُولُهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَضَبِهِ لِأَقْوَامٍ، فَأُسْأَلُ عَنْهَا فَأَقُولُ: حُذَيْفَةُ أَعْلَمُ بِمَا يَقُولُ، وَأَكْرَهُ أَنْ يَكُونَ ضَغَائِنُ بَيْنَ أَقْوَامٍ، فَأُتِيَ حُذَيْفَةُ، فَقِيلَ لَهُ: إِنَّ سَلْمَانَ لَا يُصَدِّقُكَ وَلَا يُكَذِّبُكَ بِمَا تَقُولُ، فَجَاءَنِي حُذَيْفَةُ، فَقَالَ: يَا سَلْمَانُ ابْنَ أُمِّ سَلْمَانَ! قُلْتُ: يَا حُذَيْفَةُ ابْنَ أُمِّ حُذَيْفَةَ، لَتَنْتَهِيَنَّ أَوْ لَأَكْتُبَنَّ إِلَى عُمَرَ، فَلَمَّا خَوَّفْتُهُ بِعُمَرَ تَرَكَنِي، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مِنْ وَلَدِ آدَمَ أَنَا، فَأَيُّمَا عَبْدٍ مُؤْمِنٍ لَعَنْتُهُ لَعْنَةً أَوْ سَبَبْتُهُ سَبَّةً فِي غَيْرِ كُنْهِهِ، فَاجْعَلْهَا عَلَيْهِ صَلَاةً" .
عمرو بن ابی قرہ کندی (رح) کہتے ہیں کہ میرے والد نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنی بہن سے نکاح کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کردیا اور ان کی آزاد کردہ باندی " جس کا نام بقیرہ تھا " سے نکاح کرلیا پھر ابو قرہ کو معلوم ہوا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ رنجش ہے تو وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے آئے معلوم ہوا کہ وہ اپنی سبزیوں کے پاس ہیں ابوقرہ ادھر روانہ ہوگئے راستے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی جن کے ساتھ ایک ٹوکری بھی سبزی سے بھری ہوئی تھی انہوں نے اپنی لاٹھی اس ٹوکری کی رسی میں داخل کر کے اسے اپنے کندھے پر رکھا ہوا تھا میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابو عبداللہ! کیا آپ کے اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی رنجش ہے؟ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی " انسان بڑا جلد باز ہے " اور وہ دونوں چلتے رہے حتیٰ کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ گئے۔ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ گھر کے اندرچلے گئے اور سلام کیا پھر ابوقرہ کو اندر آنے کی اجازت دی وہاں دروازے کے پاس ایک چادر پڑھی ہوئی تھی سرہانے کچھ اینٹیں رکھی ہوئی تھیں اور دو بالیاں پڑی ہوئی تھیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنی باندی کے بستر پر بیٹھ جاؤ جس نے اپنے آپ کو تیار کرلیا تھا انہوں نے بات کا آغاز اور فرمایا کہ حذیفہ بہت ساری ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کچھ لوگوں سے کہہ دیتے تھے لوگ مجھ سے اس کے متعلق پوچھتے تو میں ان سے کہہ دیتا کہ حذیفہ ہی زیادہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں میں لوگوں کے درمیان نفرت بڑھانے کو اچھا نہیں سمجھتا لوگ حذیفہ کے پاس جاتے اور ان سے کہتے کہ سلمان آپ کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تکذیب، تو ایک مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے ام سلمان کے بیٹے سلمان! میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ اے ام حذیفہ کے بیٹھے حذیفہ! تم باز آجاؤ ورنہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھوں گا جب میں نے انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خوف دلایا تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں بھی اولاد آدم میں سے ہوں سو جس بندہ مؤمن پر میں نے لعنت ملامت کی ہو یا اس کے حق میں سخت سست کہا ہو تو اے اللہ! اسے اس کے حق میں باعث رحمت بنا دے۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن صح سماع عمرو بن أبى قرة من سلمان
حدیث نمبر: 23722
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن زكريا بن ابي زائدة ، حدثنا محمد بن إسحاق ، عن عاصم بن عمر بن قتادة ، عن محمود بن لبيد ، عن ابن عباس، قال: حدثني سلمان ، قال: " اتيت النبي صلى الله عليه وسلم بطعام وانا مملوك، فقلت: هذه صدقة، فامر اصحابه فاكلوا ولم ياكل، ثم اتيته بطعام، فقلت: هذه هدية اهديتها لك، اكرمك بها فإني رايتك لا تاكل الصدقة، فامر اصحابه فاكلوا واكل معهم" ..حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا بْنِ أَبِي زَائِدَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمَانُ ، قَالَ: " أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِطَعَامٍ وَأَنَا مَمْلُوكٌ، فَقُلْتُ: هَذِهِ صَدَقَةٌ، فَأَمَرَ أَصْحَابَهُ فَأَكَلُوا وَلَمْ يَأْكُلْ، ثُمَّ أَتَيْتُهُ بِطَعَامٍ، فَقُلْتُ: هَذِهِ هَدِيَّةٌ أَهْدَيْتُهَا لَكَ، أُكْرِمُكَ بِهَا فَإِنِّي رَأَيْتُكَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، فَأَمَرَ أَصْحَابَهُ فَأَكَلُوا وَأَكَلَ مَعَهُمْ" ..
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اپنے دور غلامی میں ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا اور انہوں نے اسے کھالیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہ کھایا دوبارہ میں کھانا لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ ہدیہ ہے جو میں آپ کے احترام میں آپ کے لئے لایا ہوں کیونکہ میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ صدقہ نہیں کھاتے چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا اور انہوں نے بھی اسے کھایا اور ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے کھایا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حدیث نمبر: 23723
Save to word اعراب
حدثنا يحيى بن زكريا ، حدثني ابي ، عن ابي إسحاق ، عن آل ابي قرة ، عن سلمان ، قال: كنت استاذنت مولاتي في ذلك، فطيبت لي فاحتطبت حطبا فبعته، فاشتريت ذلك الطعام.حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ زَكَرِيَّا ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ آلِ أَبِي قُرَّةَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: كُنْتُ اسْتَأْذَنْتُ مَوْلَاتِي فِي ذَلِكَ، فَطَيَّبَتْ لِي فَاحْتَطَبْتُ حَطَبًا فَبِعْتُهُ، فَاشْتَرَيْتُ ذَلِكَ الطَّعَامَ.
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس سلسلے میں میں اپنی مالکن سے اجازت لیتا تھا وہ دلی خوشی کے ساتھ مجھے اجازت دے دیتی میں لکڑیاں کاٹتا انہیں بیچتا اور وہ کھانا خریدا کرتا تھا۔

حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين
حدیث نمبر: 23724
Save to word اعراب
حدثنا ابو عبد الرحمن المقري ، وعفان ، قالا: حدثنا داود بن ابي الفرات ، عن محمد بن زيد ، عن ابي شريح ، عن ابي مسلم مولى زيد بن صوحان العبدي، قال: كنت مع سلمان الفارسي، فراى رجلا قد احدث، وهو يريد ان ينزع خفيه للوضوء، فامره سلمان ان يمسح على خفيه وعلى عمامته ويمسح بناصيته، وقال سلمان : رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم " مسح على خفيه وعلى خماره" .حَدَّثَنَا أَبُو عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْمُقْرِيُّ ، وَعَفَّانُ ، قَالَا: حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ أَبِي الْفُرَاتِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي شُرَيْحٍ ، عَنْ أَبِي مُسْلِمٍ مَوْلَى زَيْدِ بْنِ صُوحَانَ الْعَبْدِيِّ، قَالَ: كُنْتُ مَعَ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، فَرَأَى رَجُلًا قَدْ أَحْدَثَ، وَهُوَ يُرِيدُ أَنْ يَنْزِعَ خُفَّيْهِ لِلْوُضُوءِ، فَأَمَرَهُ سَلْمَانُ أَنْ يَمْسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ وَعَلَى عِمَامَتِهِ وَيَمْسَحَ بِنَاصِيَتِهِ، وَقَالَ سَلْمَانُ : رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " مَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ وَعَلَى خِمَارِهِ" .
ابومسلم (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی کو حدث لاحق ہوا اور وہ اپنے موزے اتارنا چاہتا ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ موزوں اور عمامہ پر مسح کرے اور اپنی پیشانی کے بقدر مسح کرے اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے موزوں اور اوڑھنی (عمامے) پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔

حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى شريح، وأبي مسلم
حدیث نمبر: 23725
Save to word اعراب
حدثنا ابو النضر ، عن ابن ابي ذئب ، عن سعيد المقبري ، اخبرني ابي ، عن عبد الله بن وديعة ، عن سلمان الخير ، ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: " لا يغتسل الرجل يوم الجمعة، ويتطهر بما استطاع من طهر، ثم يدهن من دهنه، او يمس من طيب بيته، ثم يروح، فلم يفرق بين اثنين، ثم صلى ما كتب له، ثم ينصت إذا تكلم الإمام، إلا غفر له ما بينه وبين الجمعة الاخرى" .حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، عَنِ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنْ سَعِيدٍ الْمَقْبُرِيِّ ، أَخْبَرَنِي أَبِي ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ وَدِيعَةَ ، عَنْ سَلْمَانَ الْخَيْرِ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " لَا يَغْتَسِلُ الرَّجُلُ يَوْمَ الْجُمُعَةِ، وَيَتَطَهَّرُ بِمَا اسْتَطَاعَ مِنْ طُهْرٍ، ثُمَّ يَدَّهِنُ مِنْ دُهْنِهِ، أَوْ يَمَسُّ مِنْ طِيبِ بَيْتِهِ، ثُمَّ يَرُوحُ، فَلَمْ يُفَرِّقْ بَيْنَ اثْنَيْنِ، ثُمَّ صَلَّى مَا كُتِبَ لَهُ، ثُمَّ يُنْصِتُ إِذَا تَكَلَّمَ الْإِمَامُ، إِلَّا غُفِرَ لَهُ مَا بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الْأُخْرَى" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔

حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 883
حدیث نمبر: 23726
Save to word اعراب
حدثنا الزبيري محمد بن عبد الله ، حدثنا إسرائيل ، عن عطاء بن السائب ، عن ابي البختري ، عن سلمان ، انه انتهى إلى حصن او مدينة، فقال لاصحابه: دعوني ادعوهم كما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يدعوهم، فقال: " إنما كنت رجلا منكم، فهداني الله للإسلام، فإن اسلمتم فلكم ما لنا وعليكم ما علينا، وإن انتم ابيتم، فادوا الجزية وانتم صاغرون، فإن ابيتم نابذناكم على سواء، إن الله لا يحب الخائنين" ، يفعل ذلك بهم ثلاثة ايام، فلما كان اليوم الرابع غدا الناس إليها ففتحوها.حَدَّثَنَا الزُّبَيْرِيُّ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا إِسْرَائِيلُ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، عَنْ سَلْمَانَ ، أَنَّهُ انْتَهَى إِلَى حِصْنٍ أَوْ مَدِينَةٍ، فَقَالَ لِأَصْحَابِهِ: دَعُونِي أَدْعُوهُمْ كَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْعُوهُمْ، فَقَالَ: " إِنَّمَا كُنْتُ رَجُلًا مِنْكُمْ، فَهَدَانِي اللَّهُ لِلْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَسْلَمْتُمْ فَلَكُمْ مَا لَنَا وَعَلَيْكُمْ مَا عَلَيْنَا، وَإِنْ أَنْتُمْ أَبَيْتُمْ، فَأَدُّوا الْجِزْيَةَ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ، فَإِنْ أَبَيْتُمْ نَابَذْنَاكُمْ عَلَى سَوَاءٍ، إِنَّ اللَّهَ لَا يُحِبُّ الْخَائِنِينَ" ، يَفْعَلُ ذَلِكَ بِهِمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، فَلَمَّا كَانَ الْيَوْمُ الرَّابِعُ غَدَا النَّاسُ إِلَيْهَا فَفَتَحُوهَا.
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ ایک شہر کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ان کے سامنے اسی طرح دعوت پیش کر دوں جیسے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے اہل شہر سے فرمایا کہ میں تم ہی میں کا ایک فرد تھا اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی اگر تم بھی اسلام قبول کرلو تو تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اگر تم اس سے انکار کرتے ہو جز یہ ادا کرو اس حال میں تم ذلیل ہوگے اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں برابر کا جواب دیں گے بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا " تین دن تک وہ اسی طرح کرتے رہے پھر جب چوتھا دن ہوا تو وہ لوگوں کو لے کر اس شہر کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرلیا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه بين أبى البختري وبين سلمان، وعطاء بن السائب مختلط
حدیث نمبر: 23727
Save to word اعراب
حدثنا حسن بن موسى ، حدثنا ابن لهيعة ، حدثنا ابن ابي جعفر ، عن ابان بن صالح ، عن ابن ابي زكريا الخزاعي ، عن سلمان الخير ، انه سمعه وهو يحدث شرحبيل بن السمط، وهو مرابط على الساحل، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " من رابط يوما او ليلة كان له كصيام شهر للقاعد، ومن مات مرابطا في سبيل الله، اجرى الله له اجره والذي كان يعمل اجر صلاته وصيامه ونفقته، ووقي من فتان القبر، وامن من الفزع الاكبر" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بْنُ مُوسَى ، حَدَّثَنَا ابْنُ لَهِيعَةَ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي جَعْفَرٍ ، عَنْ أَبَانَ بْنِ صَالِحٍ ، عَنِ ابْنِ أَبِي زَكَرِيَّا الْخُزَاعِيِّ ، عَنْ سَلْمَانَ الْخَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَهُ وَهُوَ يُحَدِّثُ شُرَحْبِيلَ بْنَ السِّمْطِ، وَهُوَ مُرَابِطٌ عَلَى السَّاحِلِ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ رَابَطَ يَوْمًا أَوْ لَيْلَةً كَانَ لَهُ كَصِيَامِ شَهْرٍ لِلْقَاعِدِ، وَمَنْ مَاتَ مُرَابِطًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، أَجْرَى اللَّهُ لَهُ أَجْرَهُ وَالَّذِي كَانَ يَعْمَلُ أَجْرَ صَلَاتِهِ وَصِيَامِهِ وَنَفَقَتِهِ، وَوُقِيَ مِنْ فَتَّانِ الْقَبْرِ، وَأَمِنَ مِنَ الْفَزَعِ الْأَكْبَرِ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے شرحبیل بن سمط پر محافظ مقرر تھے کے سامنے بیان کرتے ہوئے، مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک دن یا ایک رات کے لئے سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے یہ ایسے ہے جیسے کوئی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ کر ایک مہینے تک روزے رکھے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوجائے اللہ اس کا اجر جاری رکھتا ہے اور ان اعمال کا اجر بھی جو وہ کرتا تھا مثلاً نماز، روزہ اور انفاق فی سبیل اللہ اور اسے قبر کی آزمائش سے محفوظ رکھا جائے گا اور وہ بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل ابن لهيعة، وقد توبع
حدیث نمبر: 23728
Save to word اعراب
حدثنا معاوية بن عمرو ، حدثنا ابو إسحاق ، عن زائدة ، عن محمد بن إسحاق ، عن جميل بن ابي ميمونة ، عن ابي زكريا الخزاعي ، عن سلمان ، انه سمع رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " رباط يوم وليلة في سبيل الله كصيام شهر وقيامه، إن مات جرى عليه اجر المرابط حتى يبعث، ويؤمن الفتان" .حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ ، عَنْ زَائِدَةَ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ إِسْحَاقَ ، عَنْ جَمِيلِ بْنِ أَبِي مَيْمُونَةَ ، عَنْ أَبِي زَكَرِيَّا الْخُزَاعِيِّ ، عَنْ سَلْمَانَ ، أَنَّهُ سَمِعَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ فِي سَبِيلِ اللَّهِ كَصِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ، إِنْ مَاتَ جَرَى عَلَيْهِ أَجْرُ الْمُرَابِطِ حَتَّى يُبْعَثَ، وَيُؤْمَنَ الْفَتَّانَ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک دن یا ایک رات کے لئے سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے یہ ایسے ہے جیسے کوئی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ کر ایک مہینے تک روزے رکھے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوجائے اللہ اس کا اجر جاری رکھتا ہے اور ان اعمال کا اجر بھی جو وہ کرتا تھا مثلاً نماز، روزہ اور انفاق فی سبیل اللہ اور اسے قبر کی آزمائش سے محفوظ رکھا جائے گا اور وہ بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة جيمل ابن أبى ميمونة
حدیث نمبر: 23729
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا ابو عوانة ، عن مغيرة ، عن ابي معشر ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن قرثع الضبي ، عن سلمان الفارسي ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اتدري ما يوم الجمعة؟ قلت: الله ورسوله اعلم , ثم قال:" اتدري ما يوم الجمعة؟" قلت: نعم، قال: لا ادري زعم ساله الرابعة ام لا، قال: قلت: هو اليوم الذي جمع فيه ابوه او ابوكم، قال النبي صلى الله عليه وسلم: " الا احدثك عن يوم الجمعة؟ لا يتطهر رجل مسلم ثم يمشي إلى، المسجد ثم ينصت حتى يقضي الإمام صلاته إلا كان كفارة لما بينها وبين الجمعة التي بعدها ما اجتنبت المقتلة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ مُغِيرَةَ ، عَنْ أَبِي مَعْشَرٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ قَرْثَعٍ الضَّبِّيِّ ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَدْرِي مَا يَوْمُ الْجُمُعَةِ؟ قلت: الله ورسوله أعلم , ثم قال:" أتدري ما يوم الجمعة؟" قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: لَا أَدْرِي زَعَمَ سَأَلَهُ الرَّابِعَةَ أَمْ لَا، قَالَ: قُلْتُ: هُوَ الْيَوْمُ الَّذِي جُمِعَ فِيهِ أَبُوهُ أَوْ أَبُوكُمْ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَلَا أُحَدِّثُكَ عَنْ يَوْمِ الْجُمُعَةِ؟ لَا يَتَطَهَّرُ رَجُلٌ مُسْلِمٌ ثُمَّ يَمْشِي إِلَى، الْمَسْجِدِ ثُمَّ يُنْصِتُ حَتَّى يَقْضِيَ الْإِمَامُ صَلَاتَهُ إِلَّا كَانَ كَفَّارَةً لِمَا بَيْنَهَا وَبَيْنَ الْجُمُعَةِ الَّتِي بَعْدَهَا مَا اجْتُنِبَتْ الْمَقْتَلَةُ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، جب تک کہ لڑائی سے بچتار ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل قرثع الضبي
حدیث نمبر: 23730
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، انبانا علي بن زيد ، عن ابي عثمان النهدي ، عن سلمان ، قال: كاتبت اهلي على ان اغرس لهم خمس مائة فسيلة، فإذا علقت فانا حر، قال: فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم، فذكرت ذلك له، قال: " اغرس واشترط لهم، فإذا اردت ان تغرس فآذني" قال: فآذنته، قال: فجاء، فجعل يغرس بيده إلا واحدة غرستها بيدي، فعلقن إلا الواحدة .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَنْبَأَنَا عَلِيُّ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: كَاتَبْتُ أَهْلِي عَلَى أَنْ أَغْرِسَ لَهُمْ خَمْسَ مِائَةِ فَسِيلَةٍ، فَإِذَا عَلِقَتْ فَأَنَا حُرٌّ، قَالَ: فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لَهُ، قَالَ: " اغْرِسْ وَاشْتَرِطْ لَهُمْ، فَإِذَا أَرَدْتَ أَنْ تَغْرِسَ فَآذِنِّي" قَالَ: فَآذَنْتُهُ، قَالَ: فَجَاءَ، فَجَعَلَ يَغْرِسُ بِيَدِهِ إِلَّا وَاحِدَةً غَرَسْتُهَا بِيَدَيَّ، فَعَلِقْنَ إِلَّا الْوَاحِدَةَ .
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے آقا سے اس شرط پر مکاتبت منظور کرلی کہ میں ان کے لئے کھجور کے پانچ سو پودے لگاؤں گا جب ان پر کھجور آجائے گی تو میں آزاد ہوجاؤں گا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شرط ذکر کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یہ شرط قبول کرلو اور جب پودے لگانے کا ارادہ ہو تو مجھے مطلع کرنا چناچہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے پودے لگانے لگے سوائے ایک پودے کے جو میں نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا اور اس ایک پودے کے علاوہ سب پودے پھل لے آئے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد، لكنه توبع
حدیث نمبر: 23731
Save to word اعراب
حدثنا شجاع بن الوليد ، قال: ذكره قابوس بن ابي ظبيان ، عن ابيه ، عن سلمان ، قال: قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا سلمان، " لا تبغضني فتفارق دينك"، قال: قلت: يا رسول الله، وكيف ابغضك وبك هدانا الله؟! قال:" تبغض العرب فتبغضني" .حَدَّثَنَا شُجَاعُ بْنُ الْوَلِيدِ ، قَالَ: ذَكَرَهُ قَابُوسُ بْنُ أَبِي ظَبْيَانَ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا سَلْمَانُ، " لَا تُبْغِضْنِي فَتُفَارِقَ دِينَكَ"، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، وَكَيْفَ أُبْغِضُكَ وَبِكَ هَدَانَا اللَّهُ؟! قَالَ:" تُبْغِضُ الْعَرَبَ فَتُبْغِضُنِي" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے سلمان! مجھ سے بغض نہ رکھیں اور نہ تم اپنے دین سے جدا ہوجاؤ گے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں آپ سے بغض کیسے رکھ سکتا ہوں جبکہ اللہ نے ہمیں آپ کے ذریعے ہدایت عطاء فرمائی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم عرب سے نفرت کرو گے تو مجھ سے نفرت کرنے والے ہوگے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الضعف قابوس بن أبى ظبيان، ولانقطاعه بين أبى ظبيان وبين سلمان الفارسي
حدیث نمبر: 23732
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا قيس بن الربيع ، حدثنا ابو هاشم ، عن زاذان ، عن سلمان ، قال: قرات في التوراة: بركة الطعام الوضوء بعده، قال: فذكرت ذلك لرسول الله صلى الله عليه وسلم، واخبرته بما قرات في التوراة، فقال: " بركة الطعام الوضوء قبله والوضوء بعده" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا أَبُو هَاشِمٍ ، عَنْ زَاذَانَ ، عَنْ سَلْمَانَ ، قَالَ: قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ: بَرَكَةُ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ بَعْدَهُ، قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَخْبَرْتُهُ بِمَا قَرَأْتُ فِي التَّوْرَاةِ، فَقَالَ: " بَرَكَةُ الطَّعَامِ الْوُضُوءُ قَبْلَهُ وَالْوُضُوءُ بَعْدَهُ" .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے تورات میں پڑھا تھا کہ کھانے کی برکت اس سے پہلے ہاتھ دھونا ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی اور تورات میں پڑھی ہوئی بات کا حوالہ دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھانے کی برکت اس سے پہلے ہاتھ دھونا بھی ہے اور اس کے بعد ہاتھ دھونا بھی ہے۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف من أجل قيس بن الربيع
حدیث نمبر: 23733
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا قيس بن الربيع ، حدثنا عثمان بن شابور رجل من بني اسد، عن شقيق او نحوه شك قيس، ان سلمان دخل عليه رجل فدعا له بما كان عنده، وقال: لولا ان رسول الله صلى الله عليه وسلم " نهانا او لولا انا نهينا ان يتكلف احدنا لصاحبه"، لتكلفنا لك.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ الرَّبِيعِ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ شَابُورَ رَجُلٌ مَنْ بَنِي أَسَدٍ، عَنْ شَقِيقٍ أَوْ نَحْوِهِ شَكَّ قَيْسٌ، أَنَّ سَلْمَانَ دَخَلَ عَلَيْهِ رَجُلٌ فَدَعَا لَهُ بِمَا كَانَ عِنْدَهُ، وَقَالَ: لَوْلَا أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " نَهَانَا أَوْ لَوْلَا أَنَّا نُهِينَا أَنْ يَتَكَلَّفَ أَحَدُنَا لِصَاحِبِهِ"، لَتَكَلَّفْنَا لَكَ.
شقیق کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس جو موجود تھا وہی اس کے سامنے پیش کردیا اور فرمایا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تکلف برتنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں تمہارے لئے تکلف کرتا۔

حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين بمجموع طرقه، وهذا إسناد ضعيف الجهالة عثمان بن سابور، وقيس بن الربيع فيه ضعف
حدیث نمبر: 23734
Save to word اعراب
حدثنا عفان ، حدثنا حماد ، عن عطاء بن السائب ، عن ابي البختري ، ان سلمان حاصر قصرا من قصور فارس، فقال لاصحابه: دعوني حتى افعل ما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم يفعل،" فحمد الله واثنى عليه، ثم قال: إني امرؤ منكم وإن الله رزقني الإسلام، وقد ترون طاعة العرب، فإن انتم اسلمتم وهاجرتم إلينا، فانتم بمنزلتنا، يجري عليكم ما يجري علينا، وإن انتم اسلمتم واقمتم في دياركم، فانتم بمنزلة الاعراب، يجري لكم ما يجري لهم، ويجري عليكم ما يجري عليهم، فإن ابيتم واقررتم بالجزية، فلكم ما لاهل الجزية، وعليكم ما على اهل الجزية" ، عرض عليهم ذلك ثلاثة ايام، ثم قال لاصحابه: انهدوا إليهم ففتحها.حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، أَنَّ سَلْمَانَ حَاصَرَ قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ، فقال لأصحابه: دَعُوني حتى أَفعلَ ما رأيتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَفْعَلُ،" فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: إِنِّي امْرُؤٌ مِنْكُمْ وَإِنَّ اللَّهَ رَزَقَنِي الْإِسْلَامَ، وَقَدْ تَرَوْنَ طَاعَةَ الْعَرَبِ، فَإِنْ أَنْتُمْ أَسْلَمْتُمْ وَهَاجَرْتُمْ إِلَيْنَا، فَأَنْتُمْ بِمَنْزِلَتِنَا، يَجْرِي عَلَيْكُمْ مَا يَجْرِي عَلَيْنَا، وَإِنْ أَنْتُمْ أَسْلَمْتُمْ وَأَقَمْتُمْ فِي دِيَارِكُمْ، فَأَنْتُمْ بِمَنْزِلَةِ الْأَعْرَابِ، يَجْرِي لَكُمْ مَا يَجْرِي لَهُمْ، وَيَجْرِي عَلَيْكُمْ مَا يَجْرِي عَلَيْهِمْ، فَإِنْ أَبَيْتُمْ وَأَقْرَرْتُمْ بِالْجِزْيَةِ، فَلَكُمْ مَا لِأَهْلِ الْجِزْيَةِ، وَعَلَيْكُمْ مَا عَلَى أَهْلِ الْجِزْيَةِ" ، عَرَضَ عَلَيْهِمْ ذَلِكَ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ، ثُمَّ قَالَ لِأَصْحَابِهِ: انْهَدُوا إِلَيْهِمْ فَفَتَحَهَا.
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ ایک شہر کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ان کے سامنے اسی طرح دعوت پیش کردوں جیسے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے اہل شہر سے فرمایا کہ میں تم ہی میں کا ایک فرد تھا اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی اگر تم بھی اسلام قبول کرلو تو تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اگر تم اس سے انکار کرتے ہوجزیہ ادا کرو اس حال میں تم ذلیل ہوگے اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں برابرکا جواب دیں گے بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا " تین دن تک وہ اسی طرح کرتے رہے پھر جب چوتھا دن ہوا تو وہ لوگوں کو لے کر اس شہر کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرلیا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه بين أبى البختري وبين سلمان، وعطاء بن السائب مختلط
حدیث نمبر: 23735
Save to word اعراب
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا ابن ثابت بن ثوبان ، حدثني حسان بن عطية ، عن عبد الله بن ابي زكريا ، عن رجل ، عن سلمان ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " رباط يوم وليلة افضل من صيام شهر وقيامه، صائما لا يفطر، وقائما لا يفتر، وإن مات مرابطا جرى عليه كصالح عمله حتى يبعث، ووقي عذاب القبر" ..حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَابِتِ بْنِ ثَوْبَانَ ، حَدَّثَنِي حَسَّانُ بْنُ عَطِيَّةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي زَكَرِيَّا ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ سَلْمَانَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " رِبَاطُ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ أَفْضَلُ مِنْ صِيَامِ شَهْرٍ وَقِيَامِهِ، صَائِمًا لَا يُفْطِرُ، وَقَائِمًا لَا يَفْتُرُ، وَإِنْ مَاتَ مُرَابِطًا جَرَى عَلَيْهِ كَصَالِحِ عَمَلِهِ حَتَّى يُبْعَثَ، وَوُقِيَ عَذَابَ الْقَبْرِ" ..
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک دن یا رات کے لئے سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے یہ ایک مہینے مسلسل صیام و قیام سے افضل ہے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوجائے اللہ اس کا اجر جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ دوبارہ جی اٹھے اور وہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن سلمان
حدیث نمبر: 23736
Save to word اعراب
حدثنا ابو المغيرة ، حدثنا ابن ثوبان ، حدثني من سمع خالد بن معدان يحدث، عن شرحبيل بن السمط ، عن سلمان مثل ذلك.حَدَّثَنَا أَبُو الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ابْنُ ثَوْبَانَ ، حَدَّثَنِي مَنْ سَمِعَ خَالِدَ بْنَ مَعْدَانَ يُحَدِّثُ، عَنْ شُرَحْبِيلَ بْنِ السِّمْطِ ، عَنْ سَلْمَانَ مِثْلَ ذَلِكَ.
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔

حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن خالد بن معدان
حدیث نمبر: 23737
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثني عاصم بن عمر بن قتادة الانصاري ، عن محمود بن لبيد ، عن عبد الله بن عباس ، قال: حدثني سلمان الفارسي حديثه من فيه، قال: كنت رجلا فارسيا من اهل اصبهان من اهل قرية منها، يقال لها: جي، وكان ابي دهقان قريته، وكنت احب خلق الله إليه، فلم يزل به حبه إياي حتى حبسني في بيته اي ملازم النار كما تحبس الجارية، واجهدت في المجوسية حتى كنت قطن النار الذي يوقدها لا يتركها تخبو ساعة، قال: وكانت لابي ضيعة عظيمة، قال: فشغل في بنيان له يوما، فقال لي: يا بني، إني قد شغلت في بنيان هذا اليوم عن ضيعتي، فاذهب فاطلعها وامرني فيها ببعض ما يريد، فخرجت اريد ضيعته، فمررت بكنيسة من كنائس النصارى، فسمعت اصواتهم فيها وهم يصلون، وكنت لا ادري ما امر الناس لحبس ابي إياي في بيته، فلما مررت بهم، وسمعت اصواتهم، دخلت عليهم انظر ما يصنعون، قال: فلما رايتهم اعجبني صلاتهم ورغبت في امرهم، وقلت: هذا والله خير من الدين الذي نحن عليه، فوالله ما تركتهم حتى غربت الشمس وتركت ضيعة ابي ولم آتها، فقلت لهم: اين اصل هذا الدين؟ قالوا: بالشام، قال: ثم رجعت إلى ابي، وقد بعث في طلبي وشغلته عن عمله كله، قال: فلما جئته، قال: اي بني، اين كنت؟ الم اكن عهدت إليك ما عهدت؟ قال: قلت: يا ابت، مررت بناس يصلون في كنيسة لهم فاعجبني ما رايت من دينهم، فوالله ما زلت عندهم حتى غربت الشمس، قال: اي بني، ليس في ذلك الدين خير، دينك ودين آبائك خير منه، قال: قلت: كلا والله، إنه خير من ديننا، قال: فخافني، فجعل في رجلي قيدا، ثم حبسني في بيته، قال: وبعثت إلي النصارى، فقلت لهم: إذا قدم عليكم ركب من الشام تجار من النصارى فاخبروني بهم، قال: فقدم عليهم ركب من الشام تجار من النصارى، قال: فاخبروني بهم، قال: فقلت لهم: إذا قضوا حوائجهم وارادوا الرجعة إلى بلادهم فآذنوني بهم، قال: لما ارادوا الرجعة إلى بلادهم اخبروني بهم، فالقيت الحديد من رجلي، ثم خرجت معهم حتى قدمت الشام، فلما قدمتها، قلت: من افضل اهل هذا الدين، قالوا: الاسقف في الكنيسة، قال: فجئته، فقلت: إني قد رغبت في هذا الدين، واحببت ان اكون معك اخدمك في كنيستك، واتعلم منك واصلي معك، قال: فادخل، فدخلت معه، قال: فكان رجل سوء يامرهم بالصدقة ويرغبهم فيها، فإذا جمعوا إليه منها اشياء، اكتنزه لنفسه، ولم يعطه المساكين، حتى جمع سبع قلال من ذهب وورق، قال: وابغضته بغضا شديدا لما رايته يصنع ثم مات فاجتمعت إليه النصارى ليدفنوه، فقلت لهم: إن هذا كان رجل سوء يامركم بالصدقة ويرغبكم فيها، فإذا جئتموه بها اكتنزها لنفسه ولم يعط المساكين منها شيئا، قالوا: وما علمك بذلك؟ قال: قلت: انا ادلكم على كنزه، قالوا: فدلنا عليه، قال: فاريتهم موضعه، قال: فاستخرجوا منه سبع قلال مملوءة ذهبا وورقا، قال: فلما راوها، قالوا: والله لا ندفنه ابدا، فصلبوه ثم رجموه بالحجارة، ثم جاءوا برجل آخر، فجعلوه بمكانه، قال: يقول سلمان: فما رايت رجلا لا يصلي الخمس، ارى انه افضل منه، ازهد في الدنيا ولا ارغب في الآخرة، ولا اداب ليلا ونهارا منه، قال: فاحببته حبا لم احبه من قبله، واقمت معه زمانا، ثم حضرته الوفاة، فقلت له: يا فلان، إني كنت معك واحببتك حبا لم احبه من قبلك، وقد حضرك ما ترى من امر الله فإلى من توصي بي؟ وما تامرني؟ قال، اي بني، والله ما اعلم احدا اليوم على ما كنت عليه، لقد هلك الناس وبدلوا وتركوا اكثر ما كانوا عليه إلا رجلا بالموصل، وهو فلان، فهو على ما كنت عليه، فالحق به، قال: فلما مات وغيب لحقت بصاحب الموصل، فقلت له: يا فلان، إن فلانا اوصاني عند موته ان الحق بك، واخبرني انك على امره، قال: فقال لي: اقم عندي فاقمت عنده، فوجدته خير رجل على امر صاحبه، فلم يلبث ان مات، فلما حضرته الوفاة، قلت له: يا فلان، إن فلانا اوصى بي إليك، وامرني باللحوق بك، وقد حضرك من الله عز وجل ما ترى، فإلى من توصي بي وما تامرني؟ قال اي بني، والله ما اعلم رجلا على مثل ما كنا عليه إلا بنصيبين، وهو فلان، فالحق به، وقال: فلما مات وغيب لحقت بصاحب نصيبين، فجئته، فاخبرته بخبري، وما امرني به صاحبي، قال: فاقم عندي فاقمت عنده، فوجدته على امر صاحبيه، فاقمت مع خير رجل، فوالله ما لبث ان نزل به الموت، فلما حضر، قلت له: يا فلان، إن فلانا كان اوصى بي إلى فلان، ثم اوصى بي فلان إليك، فإلى من توصي بي، وما تامرني؟ قال: اي بني، والله ما نعلم احدا بقي على امرنا، آمرك ان تاتيه إلا رجلا بعمورية، فإنه بمثل ما نحن عليه، فإن احببت فاته، قال: فإنه على امرنا، قال: فلما مات وغيب لحقت بصاحب عمورية، واخبرته خبري، فقال: اقم عندي فاقمت مع رجل على هدي اصحابه وامرهم، قال: واكتسبت حتى كان لي بقرات وغنيمة، قال: ثم نزل به امر الله، فلما حضر، قلت له: يا فلان، إني كنت مع فلان، فاوصى بي فلان إلى فلان، واوصى بي فلان إلى فلان، ثم اوصى بي فلان إليك، فإلى من توصي بي، وما تامرني؟ قال: اي بني، والله ما اعلمه اصبح على ما كنا عليه احد من الناس آمرك ان تاتيه، ولكنه قد اظلك زمان نبي هو مبعوث بدين إبراهيم يخرج بارض العرب، مهاجرا إلى ارض بين حرتين بينهما نخل، به علامات لا تخفى: ياكل الهدية، ولا ياكل الصدقة، بين كتفيه خاتم النبوة، فإن استطعت ان تلحق بتلك البلاد فافعل، قال: ثم مات وغيب، فمكثت بعمورية ما شاء الله ان امكث، ثم مر بي نفر من كلب تجارا، فقلت لهم تحملوني إلى ارض العرب، واعطيكم بقراتي هذه وغنيمتي هذه، قالوا: نعم،، وحملوني، حتى إذا قدموا بي وادي القرى، ظلموني فباعوني من رجل من يهود عبدا، فكنت عنده، ورايت النخل، ورجوت ان تكون البلد الذي وصف لي صاحبي، ولم يحق لي في نفسي، فبينما انا عنده، قدم عليه ابن عم له من المدينة من بني قريظة فابتاعني منه، فاحتملني إلى المدينة، فوالله ما هو إلا ان رايتها فعرفتها بصفة صاحبي، فاقمت بها وبعث الله رسوله، فاقام بمكة ما اقام لا اسمع له بذكر مع ما انا فيه من شغل الرق، ثم هاجر إلى المدينة، فوالله إني لفي راس عذق لسيدي اعمل فيه بعض العمل، وسيدي جالس، إذ اقبل ابن عم له حتى وقف عليه، فقال: فلان قاتل الله بني قيلة، والله إنهم الآن لمجتمعون بقباء على رجل قدم عليهم من مكة اليوم، يزعمون انه نبي، قال: فلما سمعتها اخذتني العرواء، حتى ظننت ساسقط على سيدي، قال: ونزلت عن النخلة، فجعلت اقول لابن عمه ذلك: ماذا تقول؟ ماذا تقول؟ قال: فغضب سيدي فلكمني لكمة شديدة، ثم قال: ما لك ولهذا!! اقبل على عملك، قال: قلت: لا شيء، إنما اردت ان استثبت عما قال، وقد كان عندي شيء قد جمعته، فلما امسيت اخذته ثم ذهبت إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو بقباء، فدخلت عليه، فقلت له: إنه قد بلغني انك رجل صالح، ومعك اصحاب لك غرباء ذوو حاجة، وهذا شيء كان عندي للصدقة، فرايتكم احق به من غيركم، قال: فقربته إليه، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه:" كلوا" وامسك يده فلم ياكل، قال: فقلت في نفسي: هذه واحدة، ثم انصرفت عنه فجمعت شيئا، وتحول رسول الله صلى الله عليه وسلم إلى المدينة، ثم جئت به، فقلت: إني رايتك لا تاكل الصدقة، وهذه هدية اكرمتك بها، قال: فاكل رسول الله صلى الله عليه وسلم منها وامر اصحابه فاكلوا معه، قال: فقلت في نفسي: هاتان اثنتان، قال: ثم جئت رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو ببقيع الغرقد، قال: وقد تبع جنازة من اصحابه، عليه شملتان له، وهو جالس في اصحابه، فسلمت عليه، ثم استدرت انظر إلى ظهره، هل ارى الخاتم الذي وصف لي صاحبي؟ فلما رآني رسول الله صلى الله عليه وسلم استدرته، عرف اني استثبت في شيء وصف لي، قال: فالقى رداءه عن ظهره، فنظرت إلى الخاتم فعرفته، فانكببت عليه اقبله وابكي، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تحول" فتحولت، فقصصت عليه حديثي كما حدثتك يا ابن عباس، قال: فاعجب رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يسمع ذلك اصحابه، ثم شغل سلمان الرق حتى فاته مع رسول الله صلى الله عليه وسلم بدر واحد، قال: ثم قال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" كاتب يا سلمان" فكاتبت صاحبي على ثلاث مائة نخلة احييها له بالفقير وباربعين اوقية، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم لاصحابه:" اعينوا اخاكم" فاعانوني بالنخل، الرجل بثلاثين ودية، والرجل بعشرين، والرجل بخمس عشرة، والرجل بعشر يعني: الرجل بقدر ما عنده حتى اجتمعت لي ثلاث مائة ودية، فقال لي رسول الله صلى الله عليه وسلم:" اذهب يا سلمان ففقر لها، فإذا فرغت فاتني اكون انا اضعها بيدي" ففقرت لها، واعانني اصحابي، حتى إذا فرغت منها جئته فاخبرته، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم معي إليها، فجعلنا نقرب له الودي ويضعه رسول الله صلى الله عليه وسلم بيده، فوالذي نفس سلمان بيده، ما ماتت منها ودية واحدة، فاديت النخل، وبقي علي المال، فاتي رسول الله صلى الله عليه وسلم بمثل بيضة الدجاجة من ذهب من بعض المغازي، فقال:" ما فعل الفارسي المكاتب" قال: فدعيت له، فقال:" خذ هذه فاد بها ما عليك يا سلمان"، فقلت: واين تقع هذه يا رسول الله مما علي؟ قال:" خذها فإن الله عز وجل سيؤدي بها عنك"، قال: فاخذتها فوزنت لهم منها والذي نفس سلمان بيده اربعين اوقية، فاوفيتهم حقهم وعتقت، فشهدت مع رسول الله صلى الله عليه وسلم الخندق، ثم لم يفتني معه مشهد .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنِي عَاصِمُ بْنُ عُمَرَ بْنِ قَتَادَةَ الْأَنْصَارِيُّ ، عَنْ مَحْمُودِ بْنِ لَبِيدٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: حَدَّثَنِي سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ حَدِيثَهُ مِنْ فِيهِ، قَالَ: كُنْتُ رَجُلًا فَارِسِيًّا مِنْ أَهْلِ أَصْبَهَانَ مِنْ أَهْلِ قَرْيَةٍ مِنْهَا، يُقَالُ لَهَا: جَيٌّ، وَكَانَ أَبِي دِهْقَانَ قَرْيَتِهِ، وَكُنْتُ أَحَبَّ خَلْقِ اللَّهِ إِلَيْهِ، فَلَمْ يَزَلْ بِهِ حُبُّهُ إِيَّايَ حَتَّى حَبَسَنِي فِي بَيْتِهِ أَيْ مُلَازِمَ النَّارِ كَمَا تُحْبَسُ الْجَارِيَةُ، وَأَجْهَدْتُ فِي الْمَجُوسِيَّةِ حَتَّى كُنْتُ قَطَنَ النَّارِ الَّذِي يُوقِدُهَا لَا يَتْرُكُهَا تَخْبُو سَاعَةً، قَالَ: وَكَانَتْ لِأَبِي ضَيْعَةٌ عَظِيمَةٌ، قَالَ: فَشُغِلَ فِي بُنْيَانٍ لَهُ يَوْمًا، فَقَالَ لِي: يَا بُنَيَّ، إِنِّي قَدْ شُغِلْتُ فِي بُنْيَانٍ هَذَا الْيَوْمَ عَنْ ضَيْعَتِي، فَاذْهَبْ فَاطَّلِعْهَا وَأَمَرَنِي فِيهَا بِبَعْضِ مَا يُرِيدُ، فَخَرَجْتُ أُرِيدُ ضَيْعَتَهُ، فَمَرَرْتُ بِكَنِيسَةٍ مِنْ كَنَائِسِ النَّصَارَى، فَسَمِعْتُ أَصْوَاتَهُمْ فِيهَا وَهُمْ يُصَلُّونَ، وَكُنْتُ لَا أَدْرِي مَا أَمْرُ النَّاسِ لِحَبْسِ أَبِي إِيَّايَ فِي بَيْتِهِ، فَلَمَّا مَرَرْتُ بِهِمْ، وَسَمِعْتُ أَصْوَاتَهُمْ، دَخَلْتُ عَلَيْهِمْ أَنْظُرُ مَا يَصْنَعُونَ، قَالَ: فَلَمَّا رَأَيْتُهُمْ أَعْجَبَنِي صَلَاتُهُمْ وَرَغِبْتُ فِي أَمْرِهِمْ، وَقُلْتُ: هَذَا وَاللَّهِ خَيْرٌ مِنَ الدِّينِ الَّذِي نَحْنُ عَلَيْهِ، فَوَاللَّهِ مَا تَرَكْتُهُمْ حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ وَتَرَكْتُ ضَيْعَةَ أَبِي وَلَمْ آتِهَا، فَقُلْتُ لَهُمْ: أَيْنَ أَصْلُ هَذَا الدِّينِ؟ قَالُوا: بِالشَّامِ، قَالَ: ثُمَّ رَجَعْتُ إِلَى أَبِي، وَقَدْ بَعَثَ فِي طَلَبِي وَشَغَلْتُهُ عَنْ عَمَلِهِ كُلِّهِ، قَالَ: فَلَمَّا جِئْتُهُ، قَالَ: أَيْ بُنَيَّ، أَيْنَ كُنْتَ؟ أَلَمْ أَكُنْ عَهِدْتُ إِلَيْكَ مَا عَهِدْتُ؟ قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَتِ، مَرَرْتُ بِنَاسٍ يُصَلُّونَ فِي كَنِيسَةٍ لَهُمْ فَأَعْجَبَنِي مَا رَأَيْتُ مِنْ دِينِهِمْ، فَوَاللَّهِ مَا زِلْتُ عِنْدَهُمْ حَتَّى غَرَبَتْ الشَّمْسُ، قَالَ: أَيْ بُنَيَّ، لَيْسَ فِي ذَلِكَ الدِّينِ خَيْرٌ، دِينُكَ وَدِينُ آبَائِكَ خَيْرٌ مِنْهُ، قَالَ: قُلْتُ: كَلَّا وَاللَّهِ، إِنَّهُ خَيْرٌ مِنْ دِينِنَا، قَالَ: فَخَافَنِي، فَجَعَلَ فِي رِجْلَيَّ قَيْدًا، ثُمَّ حَبَسَنِي فِي بَيْتِهِ، قَالَ: وَبَعَثَتْ إِلَيَّ النَّصَارَى، فَقُلْتُ لَهُمْ: إِذَا قَدِمَ عَلَيْكُمْ رَكْبٌ مِنَ الشَّامِ تُجَّارٌ مِنْ النَّصَارَى فَأَخْبِرُونِي بِهِمْ، قَالَ: فَقَدِمَ عَلَيْهِمْ رَكْبٌ مِنَ الشَّامِ تُجَّارٌ مِنْ النَّصَارَى، قَالَ: فَأَخْبَرُونِي بِهِمْ، قَالَ: فَقُلْتُ لَهُمْ: إِذَا قَضَوْا حَوَائِجَهُمْ وَأَرَادُوا الرَّجْعَةَ إِلَى بِلَادِهِمْ فَآذِنُونِي بِهِمْ، قَالَ: َلَمَّا أَرَادُوا الرَّجْعَةَ إِلَى بِلَادِهِمْ أَخْبَرُونِي بِهِمْ، فَأَلْقَيْتُ الْحَدِيدَ مِنْ رِجْلَيَّ، ثُمَّ خَرَجْتُ مَعَهُمْ حَتَّى قَدِمْتُ الشَّامَ، فَلَمَّا قَدِمْتُهَا، قُلْتُ: مَنْ أَفْضَلُ أَهْلِ هَذَا الدِّينِ، قَالُوا: الْأَسْقُفُّ فِي الْكَنِيسَةِ، قَالَ: فَجِئْتُهُ، فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ رَغِبْتُ فِي هَذَا الدِّينِ، وَأَحْبَبْتُ أَنْ أَكُونَ مَعَكَ أَخْدُمُكَ فِي كَنِيسَتِكَ، وَأَتَعَلَّمُ مِنْكَ وَأُصَلِّي مَعَكَ، قَالَ: فَادْخُلْ، فَدَخَلْتُ مَعَهُ، قَالَ: فَكَانَ رَجُلَ سَوْءٍ يَأْمُرُهُمْ بِالصَّدَقَةِ وَيُرَغِّبُهُمْ فِيهَا، فَإِذَا جَمَعُوا إِلَيْهِ مِنْهَا أَشْيَاءَ، اكْتَنَزَهُ لِنَفْسِهِ، وَلَمْ يُعْطِهِ الْمَسَاكِينَ، حَتَّى جَمَعَ سَبْعَ قِلَالٍ مِنْ ذَهَبٍ وَوَرِقٍ، قَالَ: وَأَبْغَضْتُهُ بُغْضًا شَدِيدًا لِمَا رَأَيْتُهُ يَصْنَعُ ثُمَّ مَاتَ فَاجْتَمَعَتْ إِلَيْهِ النَّصَارَى لِيَدْفِنُوهُ، فَقُلْتُ لَهُمْ: إِنَّ هَذَا كَانَ رَجُلَ سَوْءٍ يَأْمُرُكُمْ بِالصَّدَقَةِ وَيُرَغِّبُكُمْ فِيهَا، فَإِذَا جِئْتُمُوهُ بِهَا اكْتَنَزَهَا لِنَفْسِهِ وَلَمْ يُعْطِ الْمَسَاكِينَ مِنْهَا شَيْئًا، قَالُوا: وَمَا عِلْمُكَ بِذَلِكَ؟ قَالَ: قُلْتُ: أَنَا أَدُلُّكُمْ عَلَى كَنْزِهِ، قَالُوا: فَدُلَّنَا عَلَيْهِ، قَالَ: فَأَرَيْتُهُمْ مَوْضِعَهُ، قَالَ: فَاسْتَخْرَجُوا مِنْهُ سَبْعَ قِلَالٍ مَمْلُوءَةٍ ذَهَبًا وَوَرِقًا، قَالَ: فَلَمَّا رَأَوْهَا، قَالُوا: وَاللَّهِ لَا نَدْفِنُهُ أَبَدًا، فَصَلَبُوهُ ثُمَّ رَجَمُوهُ بِالْحِجَارَةِ، ثُمَّ جَاءُوا بِرَجُلٍ آخَرَ، فَجَعَلُوهُ بِمَكَانِهِ، قَالَ: يَقُولُ سَلْمَانُ: فَمَا رَأَيْتُ رَجُلًا لَا يُصَلِّي الْخَمْسَ، أَرَى أَنَّهُ أَفْضَلُ مِنْهُ، أَزْهَدُ فِي الدُّنْيَا وَلَا أَرْغَبُ فِي الْآخِرَةِ، وَلَا أَدْأَبُ لَيْلًا وَنَهَارًا مِنْهُ، قَالَ: فَأَحْبَبْتُهُ حُبًّا لَمْ أُحِبَّهُ مَنْ قَبْلَهُ، وَأَقَمْتُ مَعَهُ زَمَانًا، ثُمَّ حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا فُلَانُ، إِنِّي كُنْتُ مَعَكَ وَأَحْبَبْتُكَ حُبًّا لَمْ أُحِبَّهُ مَنْ قَبْلَكَ، وَقَدْ حَضَرَكَ مَا تَرَى مِنْ أَمْرِ اللَّهِ فَإِلَى مَنْ تُوصِي بِي؟ وَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ، أَيْ بُنَيَّ، وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ أَحَدًا الْيَوْمَ عَلَى مَا كُنْتُ عَلَيْهِ، لَقَدْ هَلَكَ النَّاسُ وَبَدَّلُوا وَتَرَكُوا أَكْثَرَ مَا كَانُوا عَلَيْهِ إِلَّا رَجُلًا بِالْمَوْصِلِ، وَهُوَ فُلَانٌ، فَهُوَ عَلَى مَا كُنْتُ عَلَيْهِ، فَالْحَقْ بِهِ، قَالَ: فَلَمَّا مَاتَ وَغَيَّبَ لَحِقْتُ بِصَاحِبِ الْمَوْصِلِ، فَقُلْتُ لَهُ: يَا فُلَانُ، إِنَّ فُلَانًا أَوْصَانِي عِنْدَ مَوْتِهِ أَنْ أَلْحَقَ بِكَ، وَأَخْبَرَنِي أَنَّكَ عَلَى أَمْرِهِ، قَالَ: فَقَالَ لِي: أَقِمْ عِنْدِي فَأَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَوَجَدْتُهُ خَيْرَ رَجُلٍ عَلَى أَمْرِ صَاحِبِهِ، فَلَمْ يَلْبَثْ أَنْ مَاتَ، فَلَمَّا حَضَرَتْهُ الْوَفَاةُ، قُلْتُ لَهُ: يَا فُلَانُ، إِنَّ فُلَانًا أَوْصَى بِي إِلَيْكَ، وَأَمَرَنِي بِاللُّحُوقِ بِكَ، وَقَدْ حَضَرَكَ مِنَ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ مَا تَرَى، فَإِلَى مَنْ تُوصِي بِي وَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ أَيْ بُنَيَّ، وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُ رَجُلًا عَلَى مِثْلِ مَا كُنَّا عَلَيْهِ إِلَّا بِنَصِيبِينَ، وَهُوَ فُلَانٌ، فَالْحَقْ بِهِ، وَقَالَ: فَلَمَّا مَاتَ وَغَيَّبَ لَحِقْتُ بِصَاحِبِ نَصِيبِينَ، فَجِئْتُهُ، فَأَخْبَرْتُهُ بِخَبَرِي، وَمَا أَمَرَنِي بِهِ صَاحِبِي، قَالَ: فَأَقِمْ عِنْدِي فَأَقَمْتُ عِنْدَهُ، فَوَجَدْتُهُ عَلَى أَمْرِ صَاحِبَيْهِ، فَأَقَمْتُ مَعَ خَيْرِ رَجُلٍ، فَوَاللَّهِ مَا لَبِثَ أَنْ نَزَلَ بِهِ الْمَوْتُ، فَلَمَّا حَضَرَ، قُلْتُ لَهُ: يَا فُلَانُ، إِنَّ فُلَانًا كَانَ أَوْصَى بِي إِلَى فُلَانٍ، ثُمَّ أَوْصَى بِي فُلَانٌ إِلَيْكَ، فَإِلَى مَنْ تُوصِي بِي، وَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: أَيْ بُنَيَّ، وَاللَّهِ مَا نَعْلَمُ أَحَدًا بَقِيَ عَلَى أَمْرِنَا، آمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَهُ إِلَّا رَجُلًا بِعَمُّورِيَّةَ، فَإِنَّهُ بِمِثْلِ مَا نَحْنُ عَلَيْهِ، فَإِنْ أَحْبَبْتَ فَأْتِهِ، قَالَ: فَإِنَّهُ عَلَى أَمْرِنَا، قَالَ: فَلَمَّا مَاتَ وَغَيَّبَ لَحِقْتُ بِصَاحِبِ عَمُّورِيَّةَ، وَأَخْبَرْتُهُ خَبَرِي، فَقَالَ: أَقِمْ عِنْدِي فَأَقَمْتُ مَعَ رَجُلٍ عَلَى هَدْيِ أَصْحَابِهِ وَأَمْرِهِمْ، قَالَ: وَاكْتَسَبْتُ حَتَّى كَانَ لِي بَقَرَاتٌ وَغُنَيْمَةٌ، قَالَ: ثُمَّ نَزَلَ بِهِ أَمْرُ اللَّهِ، فَلَمَّا حَضَرَ، قُلْتُ لَهُ: يَا فُلَانُ، إِنِّي كُنْتُ مَعَ فُلَانٍ، فَأَوْصَى بِي فُلَانٌ إِلَى فُلَانٍ، وَأَوْصَى بِي فُلَانٌ إِلَى فُلَانٍ، ثُمَّ أَوْصَى بِي فُلَانٌ إِلَيْكَ، فَإِلَى مَنْ تُوصِي بِي، وَمَا تَأْمُرُنِي؟ قَالَ: أَيْ بُنَيَّ، وَاللَّهِ مَا أَعْلَمُهُ أَصْبَحَ عَلَى مَا كُنَّا عَلَيْهِ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ آمُرُكَ أَنْ تَأْتِيَهُ، وَلَكِنَّهُ قَدْ أَظَلَّكَ زَمَانُ نَبِيٍّ هُوَ مَبْعُوثٌ بِدِينِ إِبْرَاهِيمَ يَخْرُجُ بِأَرْضِ الْعَرَبِ، مُهَاجِرًا إِلَى أَرْضٍ بَيْنَ حَرَّتَيْنِ بَيْنَهُمَا نَخْلٌ، بِهِ عَلَامَاتٌ لَا تَخْفَى: يَأْكُلُ الْهَدِيَّةَ، وَلَا يَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، بَيْنَ كَتِفَيْهِ خَاتَمُ النُّبُوَّةِ، فَإِنْ اسْتَطَعْتَ أَنْ تَلْحَقَ بِتِلْكَ الْبِلَادِ فَافْعَلْ، قَالَ: ثُمَّ مَاتَ وَغَيَّبَ، فَمَكَثْتُ بِعَمُّورِيَّةَ مَا شَاءَ اللَّهُ أَنْ أَمْكُثَ، ثُمَّ مَرَّ بِي نَفَرٌ مِنْ كَلْبٍ تُجَّارًا، فَقُلْتُ لَهُمْ تَحْمِلُونِي إِلَى أَرْضِ الْعَرَبِ، وَأُعْطِيكُمْ بَقَرَاتِي هَذِهِ وَغُنَيْمَتِي هَذِهِ، قَالُوا: نَعَمْ،، وَحَمَلُونِي، حَتَّى إِذَا قَدِمُوا بِي وَادِي الْقُرَى، ظَلَمُونِي فَبَاعُونِي مِنْ رَجُلٍ مِنْ يَهُودَ عَبْدًا، فَكُنْتُ عِنْدَهُ، وَرَأَيْتُ النَّخْلَ، وَرَجَوْتُ أَنْ تَكُونَ الْبَلَدَ الَّذِي وَصَفَ لِي صَاحِبِي، وَلَمْ يَحِقْ لِي فِي نَفْسِي، فَبَيْنَمَا أَنَا عِنْدَهُ، قَدِمَ عَلَيْهِ ابْنُ عَمٍّ لَهُ مِنَ الْمَدِينَةِ مِنْ بَنِي قُرَيْظَةَ فَابْتَاعَنِي مِنْهُ، فَاحْتَمَلَنِي إِلَى الْمَدِينَةِ، فَوَاللَّهِ مَا هُوَ إِلَّا أَنْ رَأَيْتُهَا فَعَرَفْتُهَا بِصِفَةِ صَاحِبِي، فَأَقَمْتُ بِهَا وَبَعَثَ اللَّهُ رَسُولَهُ، فَأَقَامَ بِمَكَّةَ مَا أَقَامَ لَا أَسْمَعُ لَهُ بِذِكْرٍ مَعَ مَا أَنَا فِيهِ مِنْ شُغْلِ الرِّقِّ، ثُمَّ هَاجَرَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَفِي رَأْسِ عَذْقٍ لِسَيِّدِي أَعْمَلُ فِيهِ بَعْضَ الْعَمَلِ، وَسَيِّدِي جَالِسٌ، إِذْ أَقْبَلَ ابْنُ عَمٍّ لَهُ حَتَّى وَقَفَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: فُلَانُ قَاتَلَ اللَّهُ بَنِي قَيْلَةَ، وَاللَّهِ إِنَّهُمْ الْآنَ لَمُجْتَمِعُونَ بِقُبَاءَ عَلَى رَجُلٍ قَدِمَ عَلَيْهِمْ مِنْ مَكَّةَ الْيَوْمَ، يَزْعُمُونَ أَنَّهُ نَبِيٌّ، قَالَ: فَلَمَّا سَمِعْتُهَا أَخَذَتْنِي الْعُرَوَاءُ، حَتَّى ظَنَنْتُ سَأَسْقُطُ عَلَى سَيِّدِي، قَالَ: وَنَزَلْتُ عَنِ النَّخْلَةِ، فَجَعَلْتُ أَقُولُ لِابْنِ عَمِّهِ ذَلِكَ: مَاذَا تَقُولُ؟ مَاذَا تَقُولُ؟ قَالَ: فَغَضِبَ سَيِّدِي فَلَكَمَنِي لَكْمَةً شَدِيدَةً، ثُمَّ قَالَ: مَا لَكَ وَلِهَذَا!! أَقْبِلْ عَلَى عَمَلِكَ، قَالَ: قُلْتُ: لَا شَيْءَ، إِنَّمَا أَرَدْتُ أَنْ أَسْتَثْبِتَ عَمَّا قَالَ، وَقَدْ كَانَ عِنْدِي شَيْءٌ قَدْ جَمَعْتُهُ، فَلَمَّا أَمْسَيْتُ أَخَذْتُهُ ثُمَّ ذَهَبْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِقُبَاءَ، فَدَخَلْتُ عَلَيْهِ، فَقُلْتُ لَهُ: إِنَّهُ قَدْ بَلَغَنِي أَنَّكَ رَجُلٌ صَالِحٌ، وَمَعَكَ أَصْحَابٌ لَكَ غُرَبَاءُ ذَوُو حَاجَةٍ، وَهَذَا شَيْءٌ كَانَ عِنْدِي لِلصَّدَقَةِ، فَرَأَيْتُكُمْ أَحَقَّ بِهِ مِنْ غَيْرِكُمْ، قَالَ: فَقَرَّبْتُهُ إِلَيْهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" كُلُوا" وَأَمْسَكَ يَدَهُ فَلَمْ يَأْكُلْ، قَالَ: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: هَذِهِ وَاحِدَةٌ، ثُمَّ انْصَرَفْتُ عَنْهُ فَجَمَعْتُ شَيْئًا، وَتَحَوَّلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ، ثُمَّ جِئْتُ بِهِ، فَقُلْتُ: إِنِّي رَأَيْتُكَ لَا تَأْكُلُ الصَّدَقَةَ، وَهَذِهِ هَدِيَّةٌ أَكْرَمْتُكَ بِهَا، قَالَ: فَأَكَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهَا وَأَمَرَ أَصْحَابَهُ فَأَكَلُوا مَعَهُ، قَالَ: فَقُلْتُ فِي نَفْسِي: هَاتَانِ اثْنَتَانِ، قال: ثُمَّ جِئْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ بِبَقِيعِ الْغَرْقَدِ، قَالَ: وَقَدْ تَبِعَ جَنَازَةً مِنْ أَصْحَابِهِ، عَلَيْهِ شَمْلَتَانِ لَهُ، وَهُوَ جَالِسٌ فِي أَصْحَابِهِ، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، ثُمَّ اسْتَدَرْتُ أَنْظُرُ إِلَى ظَهْرِهِ، هَلْ أَرَى الْخَاتَمَ الَّذِي وَصَفَ لِي صَاحِبِي؟ فَلَمَّا رَآنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اسْتَدَرْتُهُ، عَرَفَ أَنِّي أَسْتَثْبِتُ فِي شَيْءٍ وُصِفَ لِي، قَالَ: فَأَلْقَى رِدَاءَهُ عَنْ ظَهْرِهِ، فَنَظَرْتُ إِلَى الْخَاتَمِ فَعَرَفْتُهُ، فَانْكَبَبْتُ عَلَيْهِ أُقَبِّلُهُ وَأَبْكِي، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَحَوَّلْ" فَتَحَوَّلْتُ، فَقَصَصْتُ عَلَيْهِ حَدِيثِي كَمَا حَدَّثْتُكَ يَا ابْنَ عَبَّاسٍ، قَالَ: فَأَعْجَبَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَسْمَعَ ذَلِكَ أَصْحَابُهُ، ثُمَّ شَغَلَ سَلْمَانَ الرِّقُّ حَتَّى فَاتَهُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَدْرٌ وَأُحُدٌ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَاتِبْ يَا سَلْمَانُ" فَكَاتَبْتُ صَاحِبِي عَلَى ثَلَاثِ مِائَةِ نَخْلَةٍ أُحْيِيهَا لَهُ بِالْفَقِيرِ وَبِأَرْبَعِينَ أُوقِيَّةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِأَصْحَابِهِ:" أَعِينُوا أَخَاكُمْ" فَأَعَانُونِي بِالنَّخْلِ، الرَّجُلُ بِثَلَاثِينَ وَدِيَّةً، وَالرَّجُلُ بِعِشْرِينَ، وَالرَّجُلُ بِخَمْسَ عَشْرَةَ، وَالرَّجُلُ بِعَشْرٍ يَعْنِي: الرَّجُلُ بِقَدْرِ مَا عِنْدَهُ حَتَّى اجْتَمَعَتْ لِي ثَلَاثُ مِائَةِ وَدِيَّةٍ، فَقَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" اذْهَبْ يَا سَلْمَانُ فَفَقِّرْ لَهَا، فَإِذَا فَرَغْتَ فَأْتِنِي أَكُونُ أَنَا أَضَعُهَا بِيَدَيَّ" فَفَقَّرْتُ لَهَا، وَأَعَانَنِي أَصْحَابِي، حَتَّى إِذَا فَرَغْتُ مِنْهَا جِئْتُهُ فَأَخْبَرْتُهُ، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَعِي إِلَيْهَا، فَجَعَلْنَا نُقَرِّبُ لَهُ الْوَدِيَّ وَيَضَعُهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِيَدِهِ، فَوَالَّذِي نَفْسُ سَلْمَانَ بِيَدِهِ، مَا مَاتَتْ مِنْهَا وَدِيَّةٌ وَاحِدَةٌ، فَأَدَّيْتُ النَّخْلَ، وَبَقِيَ عَلَيَّ الْمَالُ، فَأُتِيَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمِثْلِ بَيْضَةِ الدَّجَاجَةِ مِنْ ذَهَبٍ مِنْ بَعْضِ الْمَغَازِي، فَقَالَ:" مَا فَعَلَ الْفَارِسِيُّ الْمُكَاتَبُ" قَالَ: فَدُعِيتُ لَهُ، فَقَالَ:" خُذْ هَذِهِ فَأَدِّ بِهَا مَا عَلَيْكَ يَا سَلْمَانُ"، فَقُلْتُ: وَأَيْنَ تَقَعُ هَذِهِ يَا رَسُولَ اللَّهِ مِمَّا عَلَيَّ؟ قَالَ:" خُذْهَا فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ سَيُؤَدِّي بِهَا عَنْكَ"، قَالَ: فَأَخَذْتُهَا فَوَزَنْتُ لَهُمْ مِنْهَا وَالَّذِي نَفْسُ سَلْمَانَ بِيَدِهِ أَرْبَعِينَ أُوقِيَّةً، فَأَوْفَيْتُهُمْ حَقَّهُمْ وَعُتِقْتُ، فَشَهِدْتُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْخَنْدَقَ، ثُمَّ لَمْ يَفُتْنِي مَعَهُ مَشْهَدٌ .
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں فارس صوبہ اصبہان میں ایک جگہ کا رہنے والا ہوں جس کا نام جے تھا میرا باپ اس جگہ کا چوہدری اور سردار تھا اور مجھ سے بہت ہی زیادہ محبت تھی اور میرے حوالے سے ان کی یہ محبت اتنی بڑھی کہ انہوں نے مجھے بچیوں کی طرح گھر میں بٹھا دیا میں نے اپنے قدیم مذہب مجوسیت میں اتنی زیادہ محنت کی کہ میں آتشکدہ کا محافظ بن گیا جس کی آگ کبھی بجھنے نہیں دی جاتی تھی میرے والد کی ایک بہت بڑی جائیداد تھی ایک دن وہ اپنے کسی کام میں مصروف ہوگئے تو مجھ سے کہنے لگے بیٹا! آج میں اس تعمیراتی کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے زمینوں پر نہیں جاسکا اس لئے تم وہاں جا کر ان کی دیکھ بھال کرو اور مجھے چند ضروری باتیں بتادیں میں زمینوں پر جانے کے ارادے سے روانہ ہوگیا راستہ میں میرا گذر نصاریٰ کے گرجے پر ہوا میں نے اس گرجے میں سے ان کی آوازیں سنیں وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے چونکہ والد صاحب نے مجھے گھر میں بٹھائے رکھا تھا اس لئے مجھے لوگوں کے معاملات کا کچھ علم نہ تھا لہٰذا جب میں ان کے پاس گذرا اور ان کی آوازیں سنیں تو میں سیر کے لئے اس میں چلا گیا میں نے ان کو نماز پڑھتے دیکھا تو مجھے وہ پسند آگئی اور میں اس دین کو پسند کرنے لگا اور میں نے سوچا کہ واللہ یہ دین ہمارے دین سے زیادہ بہتر ہے شام تک میں وہیں رہا اور والد صاحب کی زمینوں پر نہیں گیا ان سے میں نے دریافت کیا کہ اس دین کا مرکز کہاں ہے؟ انہوں نے کہا ملک شام میں ہے رات کو میں گھر واپس آیا تو گھر والوں نے پوچھا کہ تو تمام دن کہاں رہا؟ میں نے تمام قصہ سنایا باپ نے کہا کہ بیٹا وہ دین اچھا نہیں ہے تیرا اور تیرے بڑوں کا جو دین ہے وہی بہتر ہے۔ میں نے ہرگز نہیں وہی دین بہتر ہے۔ باپ کو میری طرف سے خدشہ ہوگیا کہ کہیں چلا نہ جائے اس لئے میرے پاؤں میں ایک بیڑی ڈال دی اور گھر میں قید کردیا، میں نے ان عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب شام سے سوداگر لوگ جو اکثر آتے رہتے تھے آئیں تو مجھے اطلاع کرا دیں چناچہ کچھ سوداگر آئے اور ان عیسائیوں نے مجھے اطلاع کرا دی جب وہ واپس جانے لگے تو میں نے اپنی پاؤں کی بیڑی کاٹ دی اور بھاگ کر ان کے ساتھ شام چلا گیا وہاں پہنچ کر میں نے تحقیق کی کہ اس مذہب کا سب سے زیادہ ماہر کون ہے لوگوں نے بتایا کہ گرجا میں فلاں پادری ہے میں اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ مجھے آپ کے دین میں داخل ہونے کی رغبت ہے اور میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں اس نے منظور کرلیا میں اس کے پاس رہنے لگا لیکن وہ کچھ اچھا نہ نکلا لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دیتا اور جو کچھ جمع ہوتا اس کو اپنے خزانہ میں رکھ لیتا غریبوں کو کچھ نہ دیتا، یہاں تک کہ اس نے سونے چاندی کے سات مٹکے جمع کر لئے تھے مجھے اس کی ان حرکتوں پر اس سے شدید نفرت ہوگئی جب وہ مرگیا اور عیسائی اسے دفن کرنے کے لئے جمع ہوئے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ بہت برا آدمی تھا تمہیں صدقہ کرنے کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا تھا اور جب تم اس کے پاس صدقات لے کر آتے تو وہ انہیں اپنے پاس ذخیرہ کرلیتا تھا اور مسکینوں کو اس میں سے کچھ نہیں دیتا تھا لوگوں نے پوچھا تمہیں اس بات کا علم کیسے ہوا؟ میں نے کہا کہ میں تمہیں اس خزانے کا پتہ بتائے دیتا ہوں انہوں نے کہا ضرور بتاؤ چناچہ میں نے انہیں وہ جگہ دکھا دی اور لوگوں نے وہاں سے سونے چاندی سے بھرے ہوئے سات مٹکے برآمد کر لئے اور یہ دیکھ کہنے واللہ ہم اسے کبھی دفن نہیں کرے گے چناچہ انہوں نے اس پادری کو سولی پر لٹکا دیا اور پھر اسے پتھروں سے سنگسار کرنے لگے اس کی جگہ دوسرے شخص کو بٹھایا وہ اس سے بہتر تھا اور دنیا سے بےرغبت تھا میں نے اسے پنجگانہ نماز پڑھنے والے کو اس سے زیادہ افضل اس کی نسبت دنیا سے زیادہ بےرغبت اور رات دن عبادت کرنے والا نہیں دیکھا میں اس کی خدمت میں رہنے لگا اور اس سے مجھے ایسی محبت ہوگئی کہ اس سے پہلے کسی سے نہ ہوئی تھی بالآخر وہ بھی مرنے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ مجھے کسی کے پاس رہنے کی وصیت کردو اس نے کہا کہ میرے طریقہ پر صرف ایک ہی شخص دنیا میں ہے اس کے سوا کوئی نہیں وہ موصل میں رہتا ہے تو اس کے پاس چلے جانا میں اس کے مرنے کے بعد موصل چلا گیا اور اس سے جا کر اپنا قصہ سنایا اس نے اپنی خدمت میں رکھ لیا وہ بھی بہترین آدمی تھا آخر اس کی بھی وفات ہونے لگی تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤ اس نے کہا فلاں شخص کے پاس نصیبین میں چلے جانا میں اس کے پاس چلا گیا اور اس سے اپنا قصہ سنایا اس نے اپنے پاس رکھ لیا وہ بھی اچھا آدمی تھا جب اس کے مرنے کا وقت آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤ اس نے کہا غموریا میں فلاں شخص کے پاس چلے جانا میں وہاں چلا گیا اس کے پاس اسی طرح رہنے لگا وہاں میں نے کچھ کمائی کا دھندا بھی کیا جس سے میرے پاس چند گائیں اور کچھ بکریاں جمع ہوگئیں جب اس کی وفات کا وقت قریب ہوا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤں اس نے کہا کہ اب اللہ کی قسم! کوئی شخص اس طریقے کا جس پر ہم لوگ ہیں عالم نہیں رہا البتہ نبی آخرالزمان کے پیدا ہونے کا زمانہ قریب آگیا جو دین ابراہیمی پر ہوں گے عرب میں پیدا ہوں گے اور ان کی ہجرت کی جگہ ایسی زمین ہے جہاں کھجوروں کی پیداوار بکثرت ہے اور اس کے دونوں جانب کنکریلی زمین ہے وہ ہدیہ نوش فرمائیں گے اور صدقہ نہیں کھائیں گے ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی پس اگر تم سے ہوسکے تو اس سر زمین پر پہنچ جانا۔ اس کے انتقال کے کچھ عرصے بعد قبیلہ بنو قلب کے چند تاجروں کا وہاں سے گذر ہوا میں نے ان سے کہا کہ تم مجھے اپنے ساتھ عرب لے چلو تو اس کے بدلے میں یہ گائیں اور بکریاں تمہاری نذر ہیں انہوں نے قبول کرلیا اور مجھے وادی القریٰ (یعنی مکہ مکرمہ) اور وہ گائیں اور بکریاں میں نے ان کو دے دیں لیکن انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا کہ مجھے مکہ مکرمہ میں اپنا غلام ظاہر کر کے آگے بیچ دیا بنو قریظہ کے ایک یہودی نے مجھے خرید لیا اور اپنے ساتھ اپنے وطن مدینہ طیبہ لے آیا مدینہ طبیہ کو دیکھتے ہی میں نے ان علامات سے جو مجھے عموریا کے ساتھی (پادری) نے بتائی تھی پہچان لیا کہ یہی وہ جگہ ہے میں وہاں رہتا رہا کہ اتنے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ ایک دن میں اپنے آقا کے باغ میں کام کر رہا تھا کہ میرے آقا کے بیٹھے بیٹھے اس کا چچا زاد بھائی آگیا اور کہنے لگا بنو قیلہ پر اللہ کی مار ہو اب وہ قبا میں ایک ایسے آدمی کے پاس جمع ہو رہے تھے جو ان کے پاس آج ہی آیا ہے اور اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے یہ سنتے ہی مجھ پر ایسی بےخودی طاری ہوئی کہ مجھے لگتا تھا میں اپنے آقا کے اوپر گر پڑوں گا پھر میں درخت سے نیچے اترا اور اس کے چچا زاد بھائی سے کہنے لگا کہ آپ کیا کہہ رہے تھے آپ کیا کہہ رہے تھے؟ اس پر میرے آقا کو غصہ آگیا اور اس نے مجھے ضرور سے مکہ مار کر کہا کہ تمہیں اس سے کیا مقصد؟ جاؤ جا کر اپنا کام کرو میں نے سوچا کوئی بات نہیں اور میں نے یہ ارادہ کرلیا کہ اس کے متعلق معلومات حاصل کر کے رہوں گا میرے پاس کچھ پونجی جمع تھی شام ہوئی تو وہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک قباہی میں تشریف فرما تھے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نیک آدمی ہیں اور آپ کے ساتھ غریب اور حاجت مند لوگ ہیں یہ صدقے کا مال ہے میں دوسرے سے زیادہ آپ لوگوں کو اس کا حق دار سمجھتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تناول نہیں فرمایا صحابہ کرام (فقراء) سے فرمایا تم کھالو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایک علامت تو پوری نکلی پھر میں مدینہ واپس آگیا اور کچھ جمع کیا کہ اس دوران میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچ گئے میں نے کچھ کھجوریں اور کھانا وغیرہ پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ ہدیہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے تناول فرمایا میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ دوسری علامت بھی پوری ہوگئی اس کے بعد میں ایک مرتبہ حاضرخدمت ہوا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی ؓ کے جنازے میں شرکت کی وجہ سے بقیع میں تشریف فرما تھے میں نے سلام کیا اور پشت کی طرف گھومنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے اور اپنی چادر مبارک کمر سے ہٹا دی میں نے مہر نبوت کو دیکھا کر جوش میں اس پر جھک گیا اس کو چوم رہا تھا اور رو رہا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامنے آؤ میں سامنے حاضر ہوا اور حاضر ہو کر سارا قصہ سنایا اس کے بعد میں اپنی غلامی کے مشاغل میں پھنسا رہا اور اسی بناء پر بدر واحد میں بھی شریک نہ ہوسکا۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے آقا سے مکاتبت کا معاملہ کرلو، میں نے اس سے معاملہ کرلیا اس نے دو چیزیں بدل کتابت قرار دیں ایک چالیس اوقیہ نقد سونا (ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور ایک درہم تقریباً ٣۔ ٤ ماشتہ کا) اور دوسری یہ کہ تین سو درخت کھجور کے لگاؤں اور ان کو پرورش کروں یہاں تک کہ کھانے کے قابل ہوجائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو چناچہ انہوں نے درختوں کے حوالے سے میری اس طرح مدد کی کہ کسی نے مجھے تیس پودے دیئے کسی نے بیس، کسی نے پندرہ اور کسی نے دس، ہر آدمی اپنی گنجائش کے مطابق میری مدد کر رہا تھا یہاں تک میرے پاس تین سو پودے جمع ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سلمان جا کر ان کے لئے کھدائی کرو اور فارغ ہو کر مجھے بتاؤ میں خود اپنے ہاتھ سے یہ پودے لگاؤں گا چناچہ میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے زمین کی کھدائی اور فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں مطلع کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ باغ کی جانب روانہ ہوگئے ہم ایک ایک پودا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے جاتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے دست مبارک سے لگاتے جاتے تھے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں سلمان کی جان ہے ان میں سے ایک پودا بھی نہیں مرجھایا تھا اور یوں میں نے باغ کی شرط پوری کردی۔ اب مجھ پر مال باقی رہ گیا تھا اتفاق سے کسی غزوے سے مرغی کے انڈے کے برابر سونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان کو مرحمت فرما دیا کہ اس کو جا کر اپنے بدل کتابت میں دے دو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ کیا کافی ہوگا وہ بہت زیادہ مقدار ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شانہ اسی سے عجب نہیں پورا فرما دیں چناچہ میں لے گیا اور اس میں سے وزن کر کے چالیس اوقیہ سونا اس کو تول دیا اور میں آزاد ہوگیا پھر میں غزوہ خندق میں شریک ہوا اور اس کے بعد کسی غزوے کو نہیں چھوڑا۔

حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 23738
Save to word اعراب
حدثنا يعقوب ، حدثنا ابي ، عن ابن إسحاق ، حدثنا يزيد بن ابي حبيب ، عن رجل من بني عبد القيس، عن سلمان الخير ، قال: لما قلت: واين تقع هذه من الذي علي يا رسول الله؟! اخذها رسول الله صلى الله عليه وسلم فقلبها على لسانه، ثم قال: " خذها فاوفهم منها"، فاخذتها فاوفيتهم منها حقهم كله اربعين اوقية .حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، عَنِ ابْنِ إِسْحَاقَ ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ أَبِي حَبِيبٍ ، عَنْ رَجُلٍ مِنْ بَنِي عَبْدِ الْقَيْسِ، عَنْ سَلْمَانَ الْخَيْرِ ، قَالَ: لَمَّا قُلْتُ: وَأَيْنَ تَقَعُ هَذِهِ مِنَ الَّذِي عَلَيَّ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟! أَخَذَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَلَّبَهَا عَلَى لِسَانِهِ، ثُمَّ قَالَ: " خُذْهَا فَأَوْفِهِمْ مِنْهَا"، فَأَخَذْتُهَا فَأَوْفَيْتُهُمْ مِنْهَا حَقَّهُمْ كُلَّهُ أَرْبَعِينَ أُوقِيَّةً .
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ میرے اوپرواجب الاداء مقدارتک کہاں پہنچ سکے گا؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکر کر اپنی زبان مبارک پر پھیرا اور فرمایا اسے لے جاؤ اور اس میں سے ان کا حق ادا کردو چناچہ میں نے اسے لے لیا اور ان کو پورا حق یعنی چالیس اوقیہ ادا کردیا۔

حكم دارالسلام: حديث حسن دون قوله: أخذها رسول الله فقلبها على لسانه، وهذا إسناد ضعيف الإبهام الرجل من عبدالقيس
حدیث نمبر: 23739
Save to word اعراب
حدثنا علي بن عاصم ، عن عطاء بن السائب ، عن ابي البختري ، قال: حاصر سلمان الفارسي قصرا من قصور فارس، فقال له اصحابه: يا ابا عبد الله، الا تنهد إليهم؟ قال: لا، حتى ادعوهم كما كان يدعوهم رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فاتاهم فكلمهم، قال:" انا رجل فارسي وانا منكم، والعرب يطيعوني، فاختاروا إحدى ثلاث: إما ان تسلموا، وإما ان تعطوا الجزية عن يد وانتم صاغرون غير محمودين، وإما ان ننابذكم فنقاتلكم" ، قالوا: لا نسلم، ولا نعطي الجزية، ولكنا ننابذكم، فرجع سلمان إلى اصحابه، قالوا: الا تنهد إليهم؟ قال: لا، قال: فدعاهم ثلاثة ايام فلم يقبلوا، فقاتلهم ففتحها.حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَاصِمٍ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ السَّائِبِ ، عَنْ أَبِي الْبَخْتَرِيِّ ، قَالَ: حَاصَرَ سَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ قَصْرًا مِنْ قُصُورِ فَارِسَ، فَقَالَ لَهُ أَصْحَابُهُ: يَا أَبَا عَبْدِ اللَّهِ، أَلَا تَنْهَدُ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ: لَا، حَتَّى أَدْعُوَهُمْ كَمَا كَانَ يَدْعُوهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَأَتَاهُمْ فَكَلَّمَهُمْ، قَالَ:" أَنَا رَجُلٌ فَارِسِيٌّ وَأَنَا مِنْكُمْ، وَالْعَرَبُ يُطِيعُونِي، فَاخْتَارُوا إِحْدَى ثَلَاثٍ: إِمَّا أَنْ تُسْلِمُوا، وَإِمَّا أَنْ تُعْطُوا الْجِزْيَةَ عَنْ يَدٍ وَأَنْتُمْ صَاغِرُونَ غَيْرُ مَحْمُودِينَ، وَإِمَّا أَنْ نُنَابِذَكُمْ فَنُقَاتِلَكُمْ" ، قَالُوا: لَا نُسْلِمُ، وَلَا نُعْطِي الْجِزْيَةَ، وَلَكِنَّا نُنَابِذُكُمْ، فَرَجَعَ سَلْمَانُ إِلَى أَصْحَابِهِ، قَالُوا: أَلَا تَنْهَدُ إِلَيْهِمْ؟ قَالَ: لَا، قَالَ: فَدَعَاهُمْ ثَلَاثَةَ أَيَّامٍ فَلَمْ يَقْبَلُوا، فَقَاتَلَهُمْ فَفَتَحَهَا.
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ ایک شہر کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ان کے سامنے اسی طرح دعوت پیش کر دوں جیسے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے اہل شہر سے فرمایا کہ میں تم ہی میں کا ایک فرد تھا اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی اگر تم بھی اسلام قبول کرلو تو تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اگر تم اس سے انکار کرتے ہو جزیہ ادا کرو اس حال میں تم ذلیل ہو گے اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں برابر کا جواب دیں گے بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا " تین دن تک وہ اسی طرح کرتے رہے پھر جب چوتھا دن ہوا تو وہ لوگوں کو لے کر اس شہر کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرلیا۔

حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه بين أبى البختري وبين سلمان، وعطاء بن السائب مختلط

https://islamicurdubooks.com/ 2005-2024 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to https://islamicurdubooks.com will be appreciated.