مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ 1104. حَدِيثُ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے لئے ہدیہ قبول فرما لیتے تھے لیکن صدقہ قبول نہیں فرماتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف شريك بن عبدالله
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
عمرو بن قرہ (رح) کہتے ہیں کہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ مدائن شہر میں رہتے تھے اور کچھ باتیں ذکر کرتے تھے جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائی تھیں ایک دن حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے پاس آئے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا کہ حذیفہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات غصے میں کچھ باتیں کہتے تھے اور کچھ باتیں خوشی کی حالت میں کہتے تھے میں جانتا ہوں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا تھا کہ میں نے اپنے جس امتی کو غصے کی حالت میں سخت سست کہا ہو یا اسے لعنت ملامت کی ہو تو میں بھی اولاد آدم میں سے ہوں اور جس طرح عام لوگوں کو غصہ آتا ہے مجھے بھی آتا ہے اور اللہ نے مجھے رحمتہ للعالمین بنایا ہے اے اللہ! میرے ان کلمات کو قیامت کے دن اس شخص کے لئے باعث رحمت بنا دیجئے گا۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن صح سماع عمرو بن أبى قرة من سلمان
ابوعثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا انہوں نے اس کی ایک خشک ٹہنی کو پکڑ کر اسے ہلایا تو اس کے پتے گرنے لگے پھر انہوں نے فرمایا کہ اے ابو عثمان! تم مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ بھی اسی طرح کیا تھا اور یہی سوال و جواب ہوئے تھے جس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب کوئی مسلمان خوب اچھی طرح وضو کرے اور پانچوں نمازیں پڑھے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے یہ پتے جھڑ رہے ہیں پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ " واقم الصلاۃ طرفی النھار وزلفا من اللیل ان الحسنات یذہبن السئیات ذلک ذکرٰی للذاکرین "
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 883
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کا جب وقت آخر قریب آیا تو وہ رونے لگے اور فرمانے لگے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم سے ایک عہد لیا تھا اور اسی عہد پر ہمیں چھوڑا تھا کہ دنیا میں زیادہ سے زیادہ سامان ہمارے پاس ایک مسافر کے توشے جتنا ہونا چاہئے راوی کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے وصال کے بعد جب ہم نے ان کے ترکے کا جائزہ لیا تو اس تمام ترکے کی قیمت صرف بیس یا تیس سے کچھ اوپر درہم تھے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، إسناده منقطع، الحسن البصري لا يعرف له سماع من سلمان، وقد توبع
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم فارس کے سرداروں کی اولاد میں سے تھے۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کرتے ہوئے (جو عنقریب ٢٤١٣٨ پر آیا چاہتی ہے) فرمایا کہ میں زمین کے نشیب و فراز طے کرتے ہوا چلتا رہا یہاں تک کہ دیہاتیوں کی ایک قوم پر میرا گذر ہوا تو انہوں نے مجھے غلام بنا کر بیچ ڈالا اور مجھے ایک عورت نے خرید لیا میں نے ان لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا تذکرہ کرتے ہوئے سنا لیکن اس وقت تک زندگی تلخ ہوچکی تھی میں نے اپنی مالکہ سے کہا کہ مجھے ایک دن کی چھٹی دے دے اس نے مجھے چھٹی دے دی۔
میں وہاں سے روانہ ہوا کچھ لکڑیاں کاٹیں اور انہیں بیچ کر کھانا تیار کیا اور اسے لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ تم لوگ ہی کھالو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے تناول نہ فرمایا میں نے سوچا کہ یہ ایک علامت ہے (جو پوری ہوگئی) پھر کچھ عرصہ گذرنے کے بعد ایک مرتبہ دوبارہ میں نے اپنی مالکہ سے ایک دن کی چھٹی مانگی جو اس نے مجھے دے دی میں نے حسب سابق لکڑیاں کاٹ کر بیچ کر کھانا تیار کیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ساتھیوں کے درمیان بیٹھے ہوئے تھے میں نے وہ کھانا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے لے جا کر رکھ دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا یہ کیا ہے؟ میں نے عرض کیا یہ ہدیہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور صحابہ رضی اللہ عنہ سے بھی فرمایا کہ کھاؤ اللہ کے نام سے۔
پھر میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی چادر ہٹا دی تو وہاں مہر نبوت نظر آگئی میں نے اسے دیکھتے ہی کہا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ آپ اللہ کے رسول ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ کیا معاملہ ہے؟ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اس آدمی کے متعلق بتایا اور پوچھا یا رسول اللہ! کیا وہ آدمی جنت میں جائے گا کیونکہ اس نے ہی مجھے بتایا تھا کہ آپ اللہ کے نبی ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جنت میں صرف وہی آدمی جائے گا جو مسلمان ہوگا میں نے پھر اپنا سوال دہرایا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر وہی جواب دیا۔
حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کو اس بات سے حیاء آتی ہے کہ اس کا کوئی بندہ اس کے سامنے ہاتھ پھیلا کر کوئی سوال کرے اور وہ انہیں خالی لوٹا دے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، وهو هنا موقوف إلا أنه قد روي أيضا مرفوعا
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد، الرجل المبهم الذى روى عنه يزيد بن هارون هو جعفر بن ميمون، وهذا يعتبر به، وهو متابع
ابو عثمان کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا انہوں نے اس کی ایک خشک ٹہنی کو پکڑ کر اسے ہلایا تو اس کے پتے گرنے لگے پھر انہوں نے فرمایا کہ اے ابو عثمان! تم مجھ سے یہ کیوں نہیں پوچھتے کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟ میں نے کہا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا؟ انہوں نے فرمایا کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک درخت کے نیچے تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے ساتھ بھی اسی طرح کیا تھا اور یہی سوال جواب ہوئے تھے جس کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ جب کوئی مسلمان خوب اچھی طرح وضو کرے اور پانچوں نمازیں پڑھے تو اس کے گناہ اسی طرح جھڑ جاتے ہیں جیسے یہ پتے جھڑ رہے ہیں۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد
ابومسلم (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھا انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی کو حدث لاحق ہوا اور وہ اپنے موزے اتارنا چاہتا ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ موزوں اور عمامہ پر مسح کرے اور اپنی پیشانی کے بقدر مسح کرے اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے موزوں اور اوڑھنی (عمامے) پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح الغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى شريح، وأبي مسلم
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، جب تک کہ لڑائی سے بچتا رہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل قريع الضبي
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ کچھ مشرکین نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا مذاق اڑاتے ہوئے کہا کہ ہم دیکھتے ہیں کہ تمہارے پیغمبر تمہیں قضائے حاجت تک کا طریقہ سکھاتے ہیں، حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہاں! وہ ہمیں حکم دیتے ہیں کہ ہم قبلہ کی جانب اس وقت رخ نہ کیا کریں دائیں ہاتھ سے استنجاء نہ کیا کریں اور تین پتھروں سے کم پر اکتفاء نہ کریں جن میں لید ہو اور نہ ہڈی۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 262
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے سو رحمتیں پیدا کی ہیں جن میں سے ایک رحمت وہ ہے کہ جس کے ذریعے مخلوق ایک دوسرے پر رحم کرتی ہے اور وحشی جانور تک اپنی اولاد پر ترس کھاتے ہیں اور ننانوے رحمتیں قیامت کے دن کے لئے مؤخر کردی ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2753
عمرو بن ابی قرہ کندی (رح) کہتے ہیں کہ میرے والد نے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنی بہن سے نکاح کی پیشکش کی لیکن انہوں نے انکار کردیا اور ان کی آزاد کردہ باندی " جس کا نام بقیرہ تھا " سے نکاح کرلیا پھر ابو قرہ کو معلوم ہوا کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ رنجش ہے تو وہ انہیں تلاش کرتے ہوئے آئے معلوم ہوا کہ وہ اپنی سبزیوں کے پاس ہیں ابوقرہ ادھر روانہ ہوگئے راستے میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے ملاقات ہوگئی جن کے ساتھ ایک ٹوکری بھی سبزی سے بھری ہوئی تھی انہوں نے اپنی لاٹھی اس ٹوکری کی رسی میں داخل کر کے اسے اپنے کندھے پر رکھا ہوا تھا میں نے ان سے عرض کیا کہ اے ابو عبداللہ! کیا آپ کے اور حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کوئی رنجش ہے؟ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے یہ آیت پڑھی " انسان بڑا جلد باز ہے " اور وہ دونوں چلتے رہے حتیٰ کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے گھر پہنچ گئے۔
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ گھر کے اندرچلے گئے اور سلام کیا پھر ابوقرہ کو اندر آنے کی اجازت دی وہاں دروازے کے پاس ایک چادر پڑھی ہوئی تھی سرہانے کچھ اینٹیں رکھی ہوئی تھیں اور دو بالیاں پڑی ہوئی تھیں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ اپنی باندی کے بستر پر بیٹھ جاؤ جس نے اپنے آپ کو تیار کرلیا تھا انہوں نے بات کا آغاز اور فرمایا کہ حذیفہ بہت ساری ایسی چیزیں بیان کرتے ہیں جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم غصے کی حالت میں کچھ لوگوں سے کہہ دیتے تھے لوگ مجھ سے اس کے متعلق پوچھتے تو میں ان سے کہہ دیتا کہ حذیفہ ہی زیادہ جانتے ہیں کہ وہ کیا کہتے ہیں میں لوگوں کے درمیان نفرت بڑھانے کو اچھا نہیں سمجھتا لوگ حذیفہ کے پاس جاتے اور ان سے کہتے کہ سلمان آپ کی تصدیق کرتے ہیں اور نہ ہی تکذیب، تو ایک مرتبہ حضرت حذیفہ رضی اللہ عنہ میرے پاس آئے اور کہنے لگے کہ اے ام سلمان کے بیٹے سلمان! میں نے بھی کہہ دیا ہے کہ اے ام حذیفہ کے بیٹھے حذیفہ! تم باز آجاؤ ورنہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو خط لکھوں گا جب میں نے انہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا خوف دلایا تو انہوں نے مجھے چھوڑ دیا حالانکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ میں بھی اولاد آدم میں سے ہوں سو جس بندہ مؤمن پر میں نے لعنت ملامت کی ہو یا اس کے حق میں سخت سست کہا ہو تو اے اللہ! اسے اس کے حق میں باعث رحمت بنا دے۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح إن صح سماع عمرو بن أبى قرة من سلمان
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اپنے دور غلامی میں ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں کھانا لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ صدقہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا اور انہوں نے اسے کھالیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نہ کھایا دوبارہ میں کھانا لے کر حاضر ہوا اور عرض کیا کہ یہ ہدیہ ہے جو میں آپ کے احترام میں آپ کے لئے لایا ہوں کیونکہ میں نے آپ کو دیکھا ہے کہ آپ صدقہ نہیں کھاتے چناچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھیوں کو حکم دیا اور انہوں نے بھی اسے کھایا اور ان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اسے کھایا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اس سلسلے میں میں اپنی مالکن سے اجازت لیتا تھا وہ دلی خوشی کے ساتھ مجھے اجازت دے دیتی میں لکڑیاں کاٹتا انہیں بیچتا اور وہ کھانا خریدا کرتا تھا۔
حكم دارالسلام: إسناده محتمل للتحسين
ابومسلم (رح) کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے ساتھ انہوں نے دیکھا کہ ایک آدمی کو حدث لاحق ہوا اور وہ اپنے موزے اتارنا چاہتا ہے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے اسے حکم دیا کہ موزوں اور عمامہ پر مسح کرے اور اپنی پیشانی کے بقدر مسح کرے اور فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے موزوں اور اوڑھنی (عمامے) پر مسح کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
حكم دارالسلام: المرفوع منه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى شريح، وأبي مسلم
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 883
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ ایک شہر کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ان کے سامنے اسی طرح دعوت پیش کر دوں جیسے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے اہل شہر سے فرمایا کہ میں تم ہی میں کا ایک فرد تھا اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی اگر تم بھی اسلام قبول کرلو تو تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اگر تم اس سے انکار کرتے ہو جز یہ ادا کرو اس حال میں تم ذلیل ہوگے اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں برابر کا جواب دیں گے بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا " تین دن تک وہ اسی طرح کرتے رہے پھر جب چوتھا دن ہوا تو وہ لوگوں کو لے کر اس شہر کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرلیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه بين أبى البختري وبين سلمان، وعطاء بن السائب مختلط
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے شرحبیل بن سمط پر محافظ مقرر تھے کے سامنے بیان کرتے ہوئے، مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک دن یا ایک رات کے لئے سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے یہ ایسے ہے جیسے کوئی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ کر ایک مہینے تک روزے رکھے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوجائے اللہ اس کا اجر جاری رکھتا ہے اور ان اعمال کا اجر بھی جو وہ کرتا تھا مثلاً نماز، روزہ اور انفاق فی سبیل اللہ اور اسے قبر کی آزمائش سے محفوظ رکھا جائے گا اور وہ بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل ابن لهيعة، وقد توبع
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک دن یا ایک رات کے لئے سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے یہ ایسے ہے جیسے کوئی اپنی باری کے انتظار میں بیٹھ کر ایک مہینے تک روزے رکھے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوجائے اللہ اس کا اجر جاری رکھتا ہے اور ان اعمال کا اجر بھی جو وہ کرتا تھا مثلاً نماز، روزہ اور انفاق فی سبیل اللہ اور اسے قبر کی آزمائش سے محفوظ رکھا جائے گا اور وہ بڑی گھبراہٹ سے محفوظ رہے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لجهالة جيمل ابن أبى ميمونة
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص جمعہ کے دن غسل کرے حسب استطاعت پاکیزگی حاصل کرے، تیل لگائے اپنے گھر کی خوشبو لگائے پھر مسجد کی طرف روانہ ہو تو کسی دو آدمیوں کے درمیان تفرق پیدا نہ کرے حسب استطاعت نماز پڑھے جب امام گفتگو کر رہا ہو تو خاموشی اختیار کرے تو اگلے جمعہ تک اس کے سارے گناہ معاف ہوجاتے ہیں، جب تک کہ لڑائی سے بچتار ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل قرثع الضبي
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے اپنے آقا سے اس شرط پر مکاتبت منظور کرلی کہ میں ان کے لئے کھجور کے پانچ سو پودے لگاؤں گا جب ان پر کھجور آجائے گی تو میں آزاد ہوجاؤں گا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور یہ شرط ذکر کی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم یہ شرط قبول کرلو اور جب پودے لگانے کا ارادہ ہو تو مجھے مطلع کرنا چناچہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو بتادیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور اپنے ہاتھ سے پودے لگانے لگے سوائے ایک پودے کے جو میں نے اپنے ہاتھ سے لگایا تھا اور اس ایک پودے کے علاوہ سب پودے پھل لے آئے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف على بن زيد، لكنه توبع
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا اے سلمان! مجھ سے بغض نہ رکھیں اور نہ تم اپنے دین سے جدا ہوجاؤ گے میں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں آپ سے بغض کیسے رکھ سکتا ہوں جبکہ اللہ نے ہمیں آپ کے ذریعے ہدایت عطاء فرمائی ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم عرب سے نفرت کرو گے تو مجھ سے نفرت کرنے والے ہوگے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف الضعف قابوس بن أبى ظبيان، ولانقطاعه بين أبى ظبيان وبين سلمان الفارسي
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے تورات میں پڑھا تھا کہ کھانے کی برکت اس سے پہلے ہاتھ دھونا ہے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بات ذکر کی اور تورات میں پڑھی ہوئی بات کا حوالہ دیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کھانے کی برکت اس سے پہلے ہاتھ دھونا بھی ہے اور اس کے بعد ہاتھ دھونا بھی ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف من أجل قيس بن الربيع
شقیق کہتے ہیں کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے پاس ایک آدمی آیا تو حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے پاس جو موجود تھا وہی اس کے سامنے پیش کردیا اور فرمایا کہ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں تکلف برتنے سے منع نہ کیا ہوتا تو میں تمہارے لئے تکلف کرتا۔
حكم دارالسلام: حديث محتمل للتحسين بمجموع طرقه، وهذا إسناد ضعيف الجهالة عثمان بن سابور، وقيس بن الربيع فيه ضعف
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ ایک شہر کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ان کے سامنے اسی طرح دعوت پیش کردوں جیسے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے اہل شہر سے فرمایا کہ میں تم ہی میں کا ایک فرد تھا اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی اگر تم بھی اسلام قبول کرلو تو تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اگر تم اس سے انکار کرتے ہوجزیہ ادا کرو اس حال میں تم ذلیل ہوگے اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں برابرکا جواب دیں گے بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا " تین دن تک وہ اسی طرح کرتے رہے پھر جب چوتھا دن ہوا تو وہ لوگوں کو لے کر اس شہر کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرلیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه بين أبى البختري وبين سلمان، وعطاء بن السائب مختلط
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص ایک دن یا رات کے لئے سرحدوں کی حفاظت کرتا ہے یہ ایک مہینے مسلسل صیام و قیام سے افضل ہے اور جو شخص اللہ کے راستہ میں سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے فوت ہوجائے اللہ اس کا اجر جاری رکھتا ہے یہاں تک کہ دوبارہ جی اٹھے اور وہ قبر کے عذاب سے محفوظ رہے گا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن سلمان
گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لإبهام الراوي عن خالد بن معدان
حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں فارس صوبہ اصبہان میں ایک جگہ کا رہنے والا ہوں جس کا نام جے تھا میرا باپ اس جگہ کا چوہدری اور سردار تھا اور مجھ سے بہت ہی زیادہ محبت تھی اور میرے حوالے سے ان کی یہ محبت اتنی بڑھی کہ انہوں نے مجھے بچیوں کی طرح گھر میں بٹھا دیا میں نے اپنے قدیم مذہب مجوسیت میں اتنی زیادہ محنت کی کہ میں آتشکدہ کا محافظ بن گیا جس کی آگ کبھی بجھنے نہیں دی جاتی تھی میرے والد کی ایک بہت بڑی جائیداد تھی ایک دن وہ اپنے کسی کام میں مصروف ہوگئے تو مجھ سے کہنے لگے بیٹا! آج میں اس تعمیراتی کام میں مصروف ہونے کی وجہ سے زمینوں پر نہیں جاسکا اس لئے تم وہاں جا کر ان کی دیکھ بھال کرو اور مجھے چند ضروری باتیں بتادیں میں زمینوں پر جانے کے ارادے سے روانہ ہوگیا راستہ میں میرا گذر نصاریٰ کے گرجے پر ہوا میں نے اس گرجے میں سے ان کی آوازیں سنیں وہ لوگ نماز پڑھ رہے تھے چونکہ والد صاحب نے مجھے گھر میں بٹھائے رکھا تھا اس لئے مجھے لوگوں کے معاملات کا کچھ علم نہ تھا لہٰذا جب میں ان کے پاس گذرا اور ان کی آوازیں سنیں تو میں سیر کے لئے اس میں چلا گیا میں نے ان کو نماز پڑھتے دیکھا تو مجھے وہ پسند آگئی اور میں اس دین کو پسند کرنے لگا اور میں نے سوچا کہ واللہ یہ دین ہمارے دین سے زیادہ بہتر ہے شام تک میں وہیں رہا اور والد صاحب کی زمینوں پر نہیں گیا ان سے میں نے دریافت کیا کہ اس دین کا مرکز کہاں ہے؟ انہوں نے کہا ملک شام میں ہے رات کو میں گھر واپس آیا تو گھر والوں نے پوچھا کہ تو تمام دن کہاں رہا؟ میں نے تمام قصہ سنایا باپ نے کہا کہ بیٹا وہ دین اچھا نہیں ہے تیرا اور تیرے بڑوں کا جو دین ہے وہی بہتر ہے۔
میں نے ہرگز نہیں وہی دین بہتر ہے۔ باپ کو میری طرف سے خدشہ ہوگیا کہ کہیں چلا نہ جائے اس لئے میرے پاؤں میں ایک بیڑی ڈال دی اور گھر میں قید کردیا، میں نے ان عیسائیوں کے پاس کہلا بھیجا کہ جب شام سے سوداگر لوگ جو اکثر آتے رہتے تھے آئیں تو مجھے اطلاع کرا دیں چناچہ کچھ سوداگر آئے اور ان عیسائیوں نے مجھے اطلاع کرا دی جب وہ واپس جانے لگے تو میں نے اپنی پاؤں کی بیڑی کاٹ دی اور بھاگ کر ان کے ساتھ شام چلا گیا وہاں پہنچ کر میں نے تحقیق کی کہ اس مذہب کا سب سے زیادہ ماہر کون ہے لوگوں نے بتایا کہ گرجا میں فلاں پادری ہے میں اس کے پاس گیا اور اس سے کہا کہ مجھے آپ کے دین میں داخل ہونے کی رغبت ہے اور میں آپ کی خدمت میں رہنا چاہتا ہوں اس نے منظور کرلیا میں اس کے پاس رہنے لگا لیکن وہ کچھ اچھا نہ نکلا لوگوں کو صدقہ کی ترغیب دیتا اور جو کچھ جمع ہوتا اس کو اپنے خزانہ میں رکھ لیتا غریبوں کو کچھ نہ دیتا، یہاں تک کہ اس نے سونے چاندی کے سات مٹکے جمع کر لئے تھے مجھے اس کی ان حرکتوں پر اس سے شدید نفرت ہوگئی جب وہ مرگیا اور عیسائی اسے دفن کرنے کے لئے جمع ہوئے تو میں نے ان سے کہا کہ یہ بہت برا آدمی تھا تمہیں صدقہ کرنے کا حکم اور اس کی ترغیب دیتا تھا اور جب تم اس کے پاس صدقات لے کر آتے تو وہ انہیں اپنے پاس ذخیرہ کرلیتا تھا اور مسکینوں کو اس میں سے کچھ نہیں دیتا تھا لوگوں نے پوچھا تمہیں اس بات کا علم کیسے ہوا؟ میں نے کہا کہ میں تمہیں اس خزانے کا پتہ بتائے دیتا ہوں انہوں نے کہا ضرور بتاؤ چناچہ میں نے انہیں وہ جگہ دکھا دی اور لوگوں نے وہاں سے سونے چاندی سے بھرے ہوئے سات مٹکے برآمد کر لئے اور یہ دیکھ کہنے واللہ ہم اسے کبھی دفن نہیں کرے گے چناچہ انہوں نے اس پادری کو سولی پر لٹکا دیا اور پھر اسے پتھروں سے سنگسار کرنے لگے اس کی جگہ دوسرے شخص کو بٹھایا وہ اس سے بہتر تھا اور دنیا سے بےرغبت تھا میں نے اسے پنجگانہ نماز پڑھنے والے کو اس سے زیادہ افضل اس کی نسبت دنیا سے زیادہ بےرغبت اور رات دن عبادت کرنے والا نہیں دیکھا میں اس کی خدمت میں رہنے لگا اور اس سے مجھے ایسی محبت ہوگئی کہ اس سے پہلے کسی سے نہ ہوئی تھی بالآخر وہ بھی مرنے لگا تو میں نے اس سے پوچھا کہ مجھے کسی کے پاس رہنے کی وصیت کردو اس نے کہا کہ میرے طریقہ پر صرف ایک ہی شخص دنیا میں ہے اس کے سوا کوئی نہیں وہ موصل میں رہتا ہے تو اس کے پاس چلے جانا میں اس کے مرنے کے بعد موصل چلا گیا اور اس سے جا کر اپنا قصہ سنایا اس نے اپنی خدمت میں رکھ لیا وہ بھی بہترین آدمی تھا آخر اس کی بھی وفات ہونے لگی تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤ اس نے کہا فلاں شخص کے پاس نصیبین میں چلے جانا میں اس کے پاس چلا گیا اور اس سے اپنا قصہ سنایا اس نے اپنے پاس رکھ لیا وہ بھی اچھا آدمی تھا جب اس کے مرنے کا وقت آیا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤ اس نے کہا غموریا میں فلاں شخص کے پاس چلے جانا میں وہاں چلا گیا اس کے پاس اسی طرح رہنے لگا وہاں میں نے کچھ کمائی کا دھندا بھی کیا جس سے میرے پاس چند گائیں اور کچھ بکریاں جمع ہوگئیں جب اس کی وفات کا وقت قریب ہوا تو میں نے اس سے پوچھا کہ اب میں کہاں جاؤں اس نے کہا کہ اب اللہ کی قسم! کوئی شخص اس طریقے کا جس پر ہم لوگ ہیں عالم نہیں رہا البتہ نبی آخرالزمان کے پیدا ہونے کا زمانہ قریب آگیا جو دین ابراہیمی پر ہوں گے عرب میں پیدا ہوں گے اور ان کی ہجرت کی جگہ ایسی زمین ہے جہاں کھجوروں کی پیداوار بکثرت ہے اور اس کے دونوں جانب کنکریلی زمین ہے وہ ہدیہ نوش فرمائیں گے اور صدقہ نہیں کھائیں گے ان کے دونوں شانوں کے درمیان مہر نبوت ہوگی پس اگر تم سے ہوسکے تو اس سر زمین پر پہنچ جانا۔ اس کے انتقال کے کچھ عرصے بعد قبیلہ بنو قلب کے چند تاجروں کا وہاں سے گذر ہوا میں نے ان سے کہا کہ تم مجھے اپنے ساتھ عرب لے چلو تو اس کے بدلے میں یہ گائیں اور بکریاں تمہاری نذر ہیں انہوں نے قبول کرلیا اور مجھے وادی القریٰ (یعنی مکہ مکرمہ) اور وہ گائیں اور بکریاں میں نے ان کو دے دیں لیکن انہوں نے مجھ پر یہ ظلم کیا کہ مجھے مکہ مکرمہ میں اپنا غلام ظاہر کر کے آگے بیچ دیا بنو قریظہ کے ایک یہودی نے مجھے خرید لیا اور اپنے ساتھ اپنے وطن مدینہ طیبہ لے آیا مدینہ طبیہ کو دیکھتے ہی میں نے ان علامات سے جو مجھے عموریا کے ساتھی (پادری) نے بتائی تھی پہچان لیا کہ یہی وہ جگہ ہے میں وہاں رہتا رہا کہ اتنے میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے مکے سے ہجرت فرما کر مدینہ طیبہ ایک دن میں اپنے آقا کے باغ میں کام کر رہا تھا کہ میرے آقا کے بیٹھے بیٹھے اس کا چچا زاد بھائی آگیا اور کہنے لگا بنو قیلہ پر اللہ کی مار ہو اب وہ قبا میں ایک ایسے آدمی کے پاس جمع ہو رہے تھے جو ان کے پاس آج ہی آیا ہے اور اپنے آپ کو نبی سمجھتا ہے یہ سنتے ہی مجھ پر ایسی بےخودی طاری ہوئی کہ مجھے لگتا تھا میں اپنے آقا کے اوپر گر پڑوں گا پھر میں درخت سے نیچے اترا اور اس کے چچا زاد بھائی سے کہنے لگا کہ آپ کیا کہہ رہے تھے آپ کیا کہہ رہے تھے؟ اس پر میرے آقا کو غصہ آگیا اور اس نے مجھے ضرور سے مکہ مار کر کہا کہ تمہیں اس سے کیا مقصد؟ جاؤ جا کر اپنا کام کرو میں نے سوچا کوئی بات نہیں اور میں نے یہ ارادہ کرلیا کہ اس کے متعلق معلومات حاصل کر کے رہوں گا میرے پاس کچھ پونجی جمع تھی شام ہوئی تو وہ لے کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوگیا حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک قباہی میں تشریف فرما تھے میں ان کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ مجھے معلوم ہوا ہے کہ آپ نیک آدمی ہیں اور آپ کے ساتھ غریب اور حاجت مند لوگ ہیں یہ صدقے کا مال ہے میں دوسرے سے زیادہ آپ لوگوں کو اس کا حق دار سمجھتا ہوں حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے خود تناول نہیں فرمایا صحابہ کرام (فقراء) سے فرمایا تم کھالو میں نے اپنے دل میں کہا کہ ایک علامت تو پوری نکلی پھر میں مدینہ واپس آگیا اور کچھ جمع کیا کہ اس دوران میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ پہنچ گئے میں نے کچھ کھجوریں اور کھانا وغیرہ پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ ہدیہ ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں سے تناول فرمایا میں نے اپنے دل میں کہا کہ یہ دوسری علامت بھی پوری ہوگئی اس کے بعد میں ایک مرتبہ حاضرخدمت ہوا اس وقت حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک صحابی ؓ کے جنازے میں شرکت کی وجہ سے بقیع میں تشریف فرما تھے میں نے سلام کیا اور پشت کی طرف گھومنے لگا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ گئے اور اپنی چادر مبارک کمر سے ہٹا دی میں نے مہر نبوت کو دیکھا کر جوش میں اس پر جھک گیا اس کو چوم رہا تھا اور رو رہا تھا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سامنے آؤ میں سامنے حاضر ہوا اور حاضر ہو کر سارا قصہ سنایا اس کے بعد میں اپنی غلامی کے مشاغل میں پھنسا رہا اور اسی بناء پر بدر واحد میں بھی شریک نہ ہوسکا۔ ایک مرتبہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم اپنے آقا سے مکاتبت کا معاملہ کرلو، میں نے اس سے معاملہ کرلیا اس نے دو چیزیں بدل کتابت قرار دیں ایک چالیس اوقیہ نقد سونا (ایک اوقیہ چالیس درہم کا ہوتا ہے اور ایک درہم تقریباً ٣۔ ٤ ماشتہ کا) اور دوسری یہ کہ تین سو درخت کھجور کے لگاؤں اور ان کو پرورش کروں یہاں تک کہ کھانے کے قابل ہوجائیں۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ ؓ سے فرمایا کہ اپنے بھائی کی مدد کرو چناچہ انہوں نے درختوں کے حوالے سے میری اس طرح مدد کی کہ کسی نے مجھے تیس پودے دیئے کسی نے بیس، کسی نے پندرہ اور کسی نے دس، ہر آدمی اپنی گنجائش کے مطابق میری مدد کر رہا تھا یہاں تک میرے پاس تین سو پودے جمع ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا سلمان جا کر ان کے لئے کھدائی کرو اور فارغ ہو کر مجھے بتاؤ میں خود اپنے ہاتھ سے یہ پودے لگاؤں گا چناچہ میں نے اپنے ساتھیوں کی مدد سے زمین کی کھدائی اور فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور انہیں مطلع کردیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرے ساتھ باغ کی جانب روانہ ہوگئے ہم ایک ایک پودا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیتے جاتے تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اسے اپنے دست مبارک سے لگاتے جاتے تھے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں سلمان کی جان ہے ان میں سے ایک پودا بھی نہیں مرجھایا تھا اور یوں میں نے باغ کی شرط پوری کردی۔ اب مجھ پر مال باقی رہ گیا تھا اتفاق سے کسی غزوے سے مرغی کے انڈے کے برابر سونا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آگیا حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سلمان کو مرحمت فرما دیا کہ اس کو جا کر اپنے بدل کتابت میں دے دو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! یہ کیا کافی ہوگا وہ بہت زیادہ مقدار ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا حق تعالیٰ شانہ اسی سے عجب نہیں پورا فرما دیں چناچہ میں لے گیا اور اس میں سے وزن کر کے چالیس اوقیہ سونا اس کو تول دیا اور میں آزاد ہوگیا پھر میں غزوہ خندق میں شریک ہوا اور اس کے بعد کسی غزوے کو نہیں چھوڑا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! یہ میرے اوپرواجب الاداء مقدارتک کہاں پہنچ سکے گا؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پکر کر اپنی زبان مبارک پر پھیرا اور فرمایا اسے لے جاؤ اور اس میں سے ان کا حق ادا کردو چناچہ میں نے اسے لے لیا اور ان کو پورا حق یعنی چالیس اوقیہ ادا کردیا۔
حكم دارالسلام: حديث حسن دون قوله: أخذها رسول الله فقلبها على لسانه، وهذا إسناد ضعيف الإبهام الرجل من عبدالقيس
حضرت سلمان رضی اللہ عنہ کے حوالے سے مروی ہے کہ وہ ایک شہر کے قریب پہنچے تو اپنے ساتھیوں سے فرمایا کہ مجھے چھوڑ دو تاکہ میں ان کے سامنے اسی طرح دعوت پیش کر دوں جیسے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دعوت دیتے ہوئے دیکھا ہے پھر انہوں نے اہل شہر سے فرمایا کہ میں تم ہی میں کا ایک فرد تھا اللہ نے مجھے اسلام کی ہدایت دے دی اگر تم بھی اسلام قبول کرلو تو تمہارے وہی حقوق ہوں گے جو ہمارے ہیں اگر تم اس سے انکار کرتے ہو جزیہ ادا کرو اس حال میں تم ذلیل ہو گے اگر تم اس سے بھی انکار کرتے ہو تو ہم تمہیں برابر کا جواب دیں گے بیشک اللہ خیانت کرنے والوں کو پسند نہیں فرماتا " تین دن تک وہ اسی طرح کرتے رہے پھر جب چوتھا دن ہوا تو وہ لوگوں کو لے کر اس شہر کی طرف بڑھے اور اسے فتح کرلیا۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لانقطاعه بين أبى البختري وبين سلمان، وعطاء بن السائب مختلط
|