حدثنا روح ، حدثنا علي بن سويد ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: اجتمع عند النبي صلى الله عليه وسلم عيينة بن بدر، والاقرع بن حابس، وعلقمة بن علاثة، فذكروا الجدود، فقال النبي صلى الله عليه وسلم: " إن شئتم اخبرتكم، جد بني عامر جمل احمر او آدم ياكل من اطراف الشجر، قال واحسبه قال: في روضة، وغطفان اكمة خشاء تنفي الناس عنها"، قال: فقال الاقرع بن حابس: فاين جد بني تميم؟ قال:" لو سكت" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بنُ سُوَيْدٍ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: اجْتَمَعَ عِنْدَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عُيَيْنَةُ بنُ بدْرٍ، وَالْأَقْرَعُ بنُ حَابسٍ، وَعَلْقَمَةُ بنُ عُلَاثَةَ، فَذَكَرُوا الْجُدُودَ، فَقَالَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنْ شِئْتُمْ أَخْبرْتُكُمْ، جَدُّ بنِي عَامِرٍ جَمَلٌ أَحْمَرُ أَوْ آدَمُ يَأْكُلُ مِنْ أَطْرَافِ الشَّجَرِ، قَالَ وَأَحْسِبهُ قَالَ: فِي رَوْضَةٍ، وَغَطَفَانُ أَكَمَةٌ خَشَّاءُ تَنْفِي النَّاسَ عَنْهَا"، قَالَ: فَقَالَ الْأَقْرَعُ بنُ حَابسٍ: فَأَيْنَ جَدُّ بنِي تَمِيمٍ؟ قَالَ:" لَوْ سَكَتَ" .
حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں عیینہ بن بدر اقرع بن حابس اور علقمہ بن علاثہ جمع تھے یہ لوگ دادوں کا تذکرہ کرنے لگے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم لوگ خاموشی اختیار کرو تو میں تمہیں ان کی حقیقت بتاتا ہوں بنو عامر کا جد امجد تو اس سرخ یا گندمی اونٹ کی طرح ہے جو کسی باغ میں مختلف درختوں کے پتے کھا رہا ہو بنو غطفان کا جد امجد اس کھر درے ٹیلے کی طرح ہے جو لوگوں کو اپنے سے دور رکھتا ہے اس پر اقرع بن حابس نے کہا کہ بنو تمیم کا جد امجد کہاں گیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش! تم خاموش رہ سکتے۔
حدثنا علي بن الحسن ، اخبرنا الحسين ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، عن ابيه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم كان جالسا على حراء ومعه ابو بكر، وعمر، وعثمان رضي الله عنهم، فتحرك الجبل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اثبت حراء، فإنه ليس عليك إلا نبي، او صديق، او شهيد" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بنُ الْحَسَنِ ، أَخْبرَنَا الْحُسَيْنُ ، حَدَّثَنَا عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ جَالِسًا عَلَى حِرَاءٍ وَمَعَهُ أَبو بكْرٍ، وَعُمَرُ، وَعُثْمَانُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ، فَتَحَرَّكَ الْجَبلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اثْبتْ حِرَاءُ، فَإِنَّهُ لَيْسَ عَلَيْكَ إِلَّا نَبيٌّ، أَوْ صِدِّيقٌ، أَوْ شَهِيدٌ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حراء پہاڑ لرزنے لگا جس پر اس وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر و عمر و عثمان غنی رضی اللہ عنہ موجود تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے حراء تھم جا تجھ پر ایک نبی ایک صدیق اور دو شہیدوں کے علاوہ کوئی نہیں۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہمارے مشرکین کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے لہٰذا جو شخص نماز چھوڑ دیتا ہے وہ کفر کرتا ہے۔
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا زهير ، عن واصل بن حيان البجلي ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " الكماة دواء العين، وإن العجوة من فاكهة الجنة، وإن هذه الحبة السوداء، قال ابن بريدة: يعني الشونيز الذي يكون في الملح دواء من كل داء، إلا الموت" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، عَنْ وَاصِلِ بنِ حِيانَ الْبجَلِيِّ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، عَنِ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم قَالَ: " الْكَمْأَةُ دَوَاءُ الْعَيْنِ، وَإِنَّ الْعَجْوَةَ مِنْ فَاكِهَةِ الْجَنَّةِ، وَإِنَّ هَذِهِ الْحَبةَ السَّوْدَاءَ، قَالَ ابنُ برَيْدَةَ: يَعْنِي الشُّونِيزَ الَّذِي يَكُونُ فِي الْمِلْحِ دَوَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا الْمَوْتَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کھنبی آنکھوں کے لئے علاج ہے عجوہ جنت کا میوہ ہے اور یہ کلونجی جو نمک میں ہو موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، واصل بن حيان غلط فى اسمه زهير، والصواب: صالح بن حيان، وهذا ضعيف
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا منافق کو اپنا آقا اور سردار مت کہا کرو کیونکہ اگر وہی تمہارا آقا ہو تو تم اپنے رب کو ناراض کرتے ہو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، لا يعرف سماع قتادة من عبدالله بن بريدة
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں اسی صفیں صرف اس امت کی ہوں گی۔
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثني حسين ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، قال: دخلت انا وابي على معاوية، فاجلسنا على الفرش، ثم اتينا بالطعام، فاكلنا، ثم اتينا بالشراب، فشرب معاوية، ثم ناول ابي ، ثم قال: " ما شربته منذ حرمه رسول الله صلى الله عليه وسلم" ، ثم قال معاوية: كنت اجمل شباب قريش، واجوده ثغرا، وما شيء كنت اجد له لذة كما كنت اجده وانا شاب غير اللبن، او إنسان حسن الحديث يحدثني.حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ الْحُباب ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَأَبي عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَأَجْلَسَنَا عَلَى الْفُرُشِ، ثُمَّ أُتِينَا بالطَّعَامِ، فَأَكَلْنَا، ثُمَّ أُتِينَا بالشَّرَاب، فَشَرِب مُعَاوِيَةُ، ثُمَّ نَاوَلَ أَبي ، ثُمَّ قَالَ: " مَا شَرِبتُهُ مُنْذُ حَرَّمَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" ، ثم قَالَ مُعَاوِيَةُ: كُنْتُ أَجْمَلَ شَباب قُرَيْشٍ، وَأَجْوَدَهُ ثَغْرًا، وَمَا شَيْءٌ كُنْتُ أَجِدُ لَهُ لَذَّةً كَمَا كُنْتُ أَجِدُهُ وَأَنَا شَاب غَيْرُ اللَّبنِ، أَوْ إِنْسَانٍ حَسَنِ الْحَدِيثِ يُحَدِّثُنِي.
حضرت عبداللہ بن بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں اور میرے والد حضرت امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے انہوں نے ہمیں بستر پر بٹھایا پھر کھانا پیش کیا جو ہم نے کھایا پھر پینے کی لئے (نبیذ) لائی گئی جسے پہلے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے نوش فرمایا پھر میرے والد کو اس کا برتن پکڑا دیا تو وہ کہنے لگے کہ جب سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی ممانعت فرمائی ہے میں نے اسے نہیں پیا پھر حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں قریش کا خوبصورت ترین نوجوان تھا اور سب سے زیادہ عمدہ دانتوں والا تھا مجھے دودھ یا اچھی باتیں کرنے والے انسانوں کے علاوہ اس سے بڑھ کر کسی چیز میں لذت نہیں محسوس ہوتی تھی۔
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا بشير بن المهاجر ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم إذ جاءه رجل يقال له: ماعز بن مالك، فقال: يا نبي الله، إني قد زنيت، وانا اريد ان تطهرني، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجع"، فلما كان من الغد اتاه ايضا، فاعترف عنده بالزنا، فقال له النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجع"، ثم ارسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى قومه، فسالهم عنه، فقال لهم: " ما تعلمون من ماعز بن مالك الاسلمي؟ هل ترون به باسا، او تنكرون من عقله شيئا؟"، قالوا: يا نبي الله، ما نرى به باسا، وما ننكر من عقله شيئا، ثم عاد إلى النبي صلى الله عليه وسلم الثالثة، فاعترف عنده بالزنا ايضا، فقال: يا نبي الله، طهرني، فارسل النبي صلى الله عليه وسلم إلى قومه ايضا، فسالهم عنه، فقالوا له كما قالوا له المرة الاولى: ما نرى به باسا، وما ننكر من عقله شيئا، ثم رجع إلى النبي صلى الله عليه وسلم الرابعة ايضا، فاعترف عنده بالزنا، فامر النبي صلى الله عليه وسلم فحفر له حفرة، فجعل فيها إلى صدره، ثم امر الناس ان يرجموه ، وقال بريدة: كنا نتحدث اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم بيننا ان ماعز بن مالك لو جلس في رحله بعد اعترافه ثلاث مرار، لم يطلبه، وإنما رجمه عند الرابعة.حَدَّثَنَا أَبو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ الْمُهَاجِرِ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذْ جَاءَهُ رَجُلٌ يُقَالُ لَهُ: مَاعِزُ بنُ مَالِكٍ، فَقَالَ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَقَالَ لَهُ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ"، فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَاهُ أَيْضًا، فَاعْترَفَ عِنْدَهُ بالزِّنَا، فَقَالَ لَهُ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعْ"، ثُمَّ أَرْسَلَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْمِهِ، فَسَأَلَهُمْ عَنْهُ، فَقَالَ لَهُمْ: " مَا تَعْلَمُونَ مِنْ مَاعِزِ بنِ مَالِكٍ الْأَسْلَمِيِّ؟ هَلْ تَرَوْنَ بهِ بأْسًا، أَوْ تُنْكِرُونَ مِنْ عَقْلِهِ شَيْئَا؟"، قَالُوا: يَا نَبيَّ اللَّهِ، مَا نَرَى بهِ بأْسًا، وَمَا نُنْكِرُ مِنْ عَقْلِهِ شَيْئًا، ثُمَّ عَادَ إِلَى النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الثَّالِثَةَ، فَاعْتَرَفَ عِنْدَهُ بالزِّنَا أَيْضًا، فَقَالَ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَأَرْسَلَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى قَوْمِهِ أَيْضًا، فَسَأَلَهُمْ عَنْهُ، فَقَالُوا لَهُ كَمَا قَالُوا لَهُ الْمَرَّةَ الْأُولَى: مَا نَرَى بهِ بأْسًا، وَمَا نُنْكِرُ مِنْ عَقْلِهِ شَيْئًا، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّابعَةَ أَيْضًا، فَاعْتَرَفَ عِنْدَهُ بالزِّنَا، فَأَمَرَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحُفِرَ لَهُ حُفْرَةً، فَجُعِلَ فِيهَا إِلَى صَدْرِهِ، ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَرْجُمُوهُ ، وَقَالَ برَيْدَةُ: كُنَّا نَتَحَدَّثُ أَصْحَاب النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بيْنَنَا أَنَّ مَاعِزَ بنَ مَالِكٍ لَوْ جَلَسَ فِي رَحْلِهِ بعْدَ اعْتِرَافِهِ ثَلَاثَ مِرَارٍ، لَمْ يَطْلُبهُ، وَإِنَّمَا رَجَمَهُ عِنْدَ الرَّابعَةِ.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھا کہ ماعز بن مالک نامی ایک آدمی آیا اور عرض کیا اے اللہ کے نبی! مجھ سے بدکاری کا گناہ سرزد ہوگیا ہے میں چاہتا ہوں کہ آپ مجھے پاک کردیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا واپس چلے جاؤ اگلے دن وہ دوبارہ حاضر ہوا اور دوبارہ بدکاری کا اعتراف کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے دوبارہ واپس بھیج دیا پھر ایک آدمی کو اس کی قوم میں بھیج کر ان سے پوچھا کہ تم لوگ ماعز بن مالک اسلمی کے متعلق کیا جانتے ہو؟ کیا تم اس میں کوئی نامناسب چیز دیکھتے ہو یا اس کی عقل میں کچھ نقص محسوس ہوتا ہے؟ انہوں نے عرض کیا اے اللہ کے نبی! ہم اس میں کوئی نامناسب بات نہیں دیکھتے اور اس کی عقل میں کوئی نقص بھی محسوس نہیں کرتے۔
پھر وہ تیسری مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور پھر بدکاری کا اعتراف کیا اور کہا کہ اے اللہ کے نبی! مجھے پاک کر دیجئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ اس کی قوم کی طرف ایک آدمی کو وہی سوال دے کر بھیجا تو انہوں نے حسب سابق جواب دہرایا پھر جب اس نے چوتھی مرتبہ اعتراف کیا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حکم دیا اور اس کے لئے ایک گڑھا کھود دیا گیا اور اسے سینے تک اس گڑھے میں اتار دیا گیا پھر لوگوں کو اس پر پتھرم ارنے کا حکم دیا۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم صحابہ کرام رضی اللہ عنہم آپس میں یہ باتیں کیا کرتے تھے کہ اگر ماعز تین مرتبہ اعتراف کرنے کے بعد بھی اپنے گھر میں بیٹھ جاتے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم انہیں تلاش نہ کرواتے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے چوتھی مرتبہ اعتراف کے بعد ہی انہیں رجم فرمایا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1695، وقول بريدة الذى فى آخر الحديث تفرد به بشير بن المهاجر، وهو مختلف فيه، وهو إلى الضعف أقرب، لكن يعتبر به فى المتابعات والشواهد
حدثنا الاسود بن عامر ، اخبرنا ابو إسرائيل ، عن حارث بن حصيرة ، عن ابن بريدة ، عن ابيه، قال: دخل على معاوية، فإذا رجل يتكلم، فقال بريدة: يا معاوية، فائذن لي في الكلام؟ فقال: نعم، وهو يرى انه سيتكلم بمثل ما قال الآخر، فقال بريدة : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " إني لارجو ان اشفع يوم القيامة عدد ما على الارض من شجرة ومدرة" ، قال: افترجوها انت يا معاوية، ولا يرجوها علي بن ابي طالب رضي الله عنه؟!.حَدَّثَنَا الْأَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ ، أَخْبرَنَا أَبو إِسْرَائِيلَ ، عَنْ حَارِثِ بنِ حَصِيرَةَ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أبيه، قَالَ: دَخَلَ عَلَى مُعَاوِيَةَ، فَإِذَا رَجُلٌ يَتَكَلَّمُ، فَقَالَ برَيْدَةُ: يَا مُعَاوِيَةُ، فَائْذَنْ لِي فِي الْكَلَامِ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، وَهُوَ يَرَى أَنَّهُ سَيَتَكَلَّمُ بمِثْلِ مَا قَالَ الْآخَرُ، فَقَالَ برَيْدَةُ : سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنِّي لَأَرْجُو أَنْ أَشْفَعَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ عَدَدَ مَا عَلَى الْأَرْضِ مِنْ شَجَرَةٍ وَمَدَرَةٍ" ، قَالَ: أَفَتَرْجُوهَا أَنْتَ يَا مُعَاوِيَةُ، وَلَا يَرْجُوهَا عَلِيُّ بنُ أَبي طَالِب رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ؟!.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ ایک مرتبہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے وہاں ایک آدمی بات کر رہا تھا حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا معاویہ! کیا آپ مجھے بولنے کی اجازت دیتے ہیں انہوں نے فرمایا ہاں! ان کا خیال یہ تھا کہ وہ بھی پہلے آدمی کی طرح کوئی بات کریں گے لیکن حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مجھے امید ہے کہ قیامت کے دن میں اتنے لوگوں کی سفارش کروں گا جتنے زمین پر درخت اور مٹی ہے اے معاویہ! تم اس شفاعت کی امید رکھ سکتے ہو اور حضرت علی رضی اللہ عنہ اس کی امید نہیں رکھ سکتے؟
حدثنا الخزاعي وهو ابو سلمة , اخبرنا شريك ، عن ابي بكر بن احمر اسمه جبريل ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال توفي رجل من الازد، فلم يدع وارثا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " التمسوا له وارثا، التمسوا له ذا رحم"، قال: فلم يوجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ادفعوه إلى اكبر خزاعة" .حَدَّثَنَا الْخُزَاعِيُّ وَهُوَ أَبو سَلَمَةَ , أَخْبرَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبي بكْرِ بنِ أَحْمَرَ اسْمُهُ جِبرِيلُ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ تُوُفِّيَ رَجُلٌ مِنَ الْأَزْدِ، فَلَمْ يَدَعْ وَارِثًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " الْتَمِسُوا لَهُ وَارِثًا، الْتَمِسُوا لَهُ ذَا رَحِمٍ"، قَالَ: فَلَمْ يُوجَدْ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ادْفَعُوهُ إِلَى أَكْبرِ خُزَاعَةَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ قبیلہ ازد کا ایک آدمی فوت ہوگیا اور پیچھے کوئی وارث چھوڑ کر نہیں گیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا کوئی وارث تلاش کرو اس کا کوئی قریبی رشتہ دار تلاش کرو لیکن تلاش کے باوجود کوئی نہ مل سکا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا مال خزاعہ کے سب سے بڑے آدمی کو دے دو۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف والحديث منكر من أجل أبى بكر بن أحمر، وشريك سيء الحفظ، لكنه توبع إلا فى قوله: التمسوا له ذا رحم
حدثنا الفضل بن دكين ، حدثنا ابن ابي غنية ، عن الحكم ، عن سعيد بن جبير ، عن ابن عباس ، عن بريدة ، قال: غزوت مع علي اليمن، فرايت منه جفوة، فلما قدمت على رسول الله صلى الله عليه وسلم ذكرت عليا، فتنقصته، فرايت وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم يتغير، فقال:" يا بريدة، الست اولى بالمؤمنين من انفسهم؟"، قلت: بلى يا رسول الله، قال: " من كنت مولاه، فعلي مولاه" .حَدَّثَنَا الْفَضْلُ بنُ دُكَيْنٍ ، حَدَّثَنَا ابنُ أَبي غَنِيَّةَ ، عَنِ الْحَكَمِ ، عَنْ سَعِيدِ بنِ جُبيْرٍ ، عَنِ ابنِ عَباسٍ ، عَنْ برَيْدَةَ ، قَالَ: غَزَوْتُ مَعَ عَلِيٍّ الْيَمَنَ، فَرَأَيْتُ مِنْهُ جَفْوَةً، فَلَمَّا قَدِمْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَكَرْتُ عَلِيًّا، فَتَنَقَّصْتُهُ، فَرَأَيْتُ وَجْهَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَغَيَّرُ، فَقَالَ:" يَا برَيْدَةُ، أَلَسْتُ أَوْلَى بالْمُؤْمِنِينَ مِنْ أَنْفُسِهِمْ؟"، قُلْتُ: بلَى يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں یمن میں جہاد کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک تھا مجھے ان کی طرف سے سختی کا سامنا ہوا لہٰذا جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شان میں کوتاہی کی میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بریدہ! کیا مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حق نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جس کا محبوب ہوں تو علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں۔
حدثنا عبد الصمد ، حدثنا هشام ، عن قتادة ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال:" كان رسول الله صلى الله عليه وسلم لا يتطير من شيء، ولكنه كان إذا اراد ان ياتي امراة، سال عن اسمها، فإن كان حسنا رئي البشر في وجهه، وإن كان قبيحا رئي ذلك في وجهه، وكان إذا بعث رجلا سال عن اسمه، فإن كان حسن الاسم رئي البشر في وجهه، وإن كان قبيحا رئي ذلك في وجهه" .حَدَّثَنَا عَبدُ الصَّمَدِ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا يَتَطَيَّرُ مِنْ شَيْءٍ، وَلَكِنَّهُ كَانَ إِذَا أَرَادَ أَنْ يَأْتِيَ امْرَأَةً، سَأَلَ عَنِ اسْمِهَا، فَإِنْ كَانَ حَسَنًا رُئِيَ الْبشْرُ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَانَ قَبيحًا رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، وَكَانَ إِذَا بعَثَ رَجُلًا سَأَلَ عَنِ اسْمِهِ، فَإِنْ كَانَ حَسَنَ الِاسْمِ رُئِيَ الْبشْرُ فِي وَجْهِهِ، وَإِنْ كَانَ قَبيحًا رُئِيَ ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کسی چیز سے شگون بد نہیں لیتے تھے البتہ جب کسی علاقے میں جانے کا ارادہ فرماتے تو پہلے اس کا نام پوچھتے اگر اس کا نام اچھا ہوتا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے مبارک پر بشاشت کے اثرات دیکھے جاسکتے تھے اور اگر اس اس کا نام اچھا نہ ہوتا تو اس کے اثرات بھی چہرہ مبارک پر نظر آجاتے تھے اسی طرح جب کسی آدمی کو کہیں بھیجتے تھے تو پہلے اس کا نام پوچھتے تھے، اگر اس کا نام اچھا ہوتا تو بشاشت کے اثرات روئے مبارک پر دیکھے جاسکتے تھے اور اگر نام برا ہوتا تو اس کے اثرات بھی نظر آجاتے تھے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد منقطع، لا يعرف سماع قتادة من ابن بريدة
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے مجھے اور قیامت کو ایک ساتھ بھیجا گیا ہے قریب تھا کہ وہ مجھ سے پہلے آجاتی۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا بشير ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: خرج إلينا النبي صلى الله عليه وسلم يوما، فنادى ثلاث مرار، فقال:" يا ايها الناس، تدرون ما مثلي ومثلكم؟"، قالوا: الله ورسوله اعلم، قال:" إنما مثلي ومثلكم مثل قوم خافوا عدوا ياتيهم، فبعثوا رجلا يتراءى لهم، فبينما هم كذلك، ابصر العدو، فاقبل لينذرهم، وخشي ان يدركه العدو قبل ان ينذر قومه، فاهوى بثوبه: ايها الناس اتيتم، ايها الناس اتيتم"، ثلاث مرار .حَدَّثَنَا أَبو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا بشِيرٌ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: خَرَجَ إِلَيْنَا النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا، فَنَادَى ثَلَاثَ مِرَارٍ، فَقَالَ:" يَا أَيُّهَا النَّاسُ، تَدْرُونَ مَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ؟"، قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" إِنَّمَا مَثَلِي وَمَثَلُكُمْ مَثَلُ قَوْمٍ خَافُوا عَدُوًّا يَأْتِيهِمْ، فَبعَثُوا رَجُلًا يَتَرَاءى لَهُمْ، فَبيْنَمَا هُمْ كَذَلِكَ، أَبصَرَ الْعَدُوَّ، فَأَقْبلَ لِيُنْذِرَهُمْ، وَخَشِيَ أَنْ يُدْرِكَهُ الْعَدُوُّ قَبلَ أَنْ يُنْذِرَ قَوْمَهُ، فَأَهْوَى بثَوْبهِ: أَيُّهَا النَّاسُ أُتِيتُمْ، أَيُّهَا النَّاسُ أُتِيتُمْ"، ثَلَاثَ مِرَارٍ .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے پاس تشریف لائے اور تین مرتبہ پکار کر فرمایا لوگو! کیا تم جانتے ہو کہ میری اور تمہاری کیا مثال ہے؟ لوگوں نے کہا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں فرمایا کہ میری اور تمہاری مثال اس شخص کی سی ہے جسے اس کی قوم نے ہر اول کے طور پر بھیجا ہو جب اسے اندیشہ ہو کہ دشمن اس سے آگے بڑھ جائے گا تو وہ اپنے کپڑے ہلا ہلا کر لوگوں کو خبردار کرے کہ تم پر دشمن آپہنچا پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ آدمی میں ہوں۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا بشير ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاءته امراة من غامد، فقالت: يا نبي الله، إني قد زنيت، وانا اريد ان تطهرني، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجعي"، فلما ان كان من الغد اتته ايضا، فاعترفت عنده بالزنا، فقالت: يا رسول الله، إني قد زنيت، وانا اريد ان تطهرني، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجعي"، فلما ان كان من الغد اتته ايضا، فاعترفت عنده بالزنا، فقالت: يا نبي الله، طهرني، فلعلك ان تردني كما رددت ماعز بن مالك، فوالله إني لحبلى، فقال لها النبي صلى الله عليه وسلم:" ارجعي حتى تلدي"، فلما ولدت جاءت بالصبي تحمله، فقالت: يا نبي الله، هذا قد ولدت، قال:" فاذهبي فارضعيه حتى تفطميه"، فلما فطمته، جاءت بالصبي في يده كسرة خبز، قالت: يا نبي الله، هذا قد فطمته، فامر النبي صلى الله عليه وسلم بالصبي فدفعه إلى رجل من المسلمين، وامر بها فحفر لها حفرة، فجعلت فيها إلى صدرها، ثم امر الناس ان يرجموها، فاقبل خالد بن الوليد بحجر، فرمى راسها، فنضح الدم على وجنة خالد فسبها، فسمع النبي صلى الله عليه وسلم سبه إياها، فقال:" مهلا يا خالد بن الوليد، لا تسبها، فوالذي نفسي بيده لقد تابت توبة لو تابها صاحب مكس لغفر له"، فامر بها، فصلى عليها، ودفنت .حَدَّثَنَا أَبو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا بشِيرٌ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَتْهُ امْرَأَةٌ مِنْ غَامِدٍ، فَقَالَتْ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَقَالَ لَهَا النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعِي"، فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ أَيْضًا، فَاعْتَرَفَتْ عِنْدَهُ بالزِّنَا، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي قَدْ زَنَيْتُ، وَأَنَا أُرِيدُ أَنْ تُطَهِّرَنِي، فَقَالَ لَهَا النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعِي"، فَلَمَّا أَنْ كَانَ مِنَ الْغَدِ أَتَتْهُ أَيْضًا، فَاعْتَرَفَتْ عِنْدَهُ بالزِّنَا، فَقَالَتْ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، طَهِّرْنِي، فَلَعَلَّكَ أَنْ تَرُدَّنِي كَمَا رَدَدْتَ مَاعِزَ بنَ مَالِكٍ، فَوَاللَّهِ إِنِّي لَحُبلَى، فَقَالَ لَهَا النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ارْجِعِي حَتَّى تَلِدِي"، فَلَمَّا وَلَدَتْ جَاءَتْ بالصَّبيِّ تَحْمِلُهُ، فَقَالَتْ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، هَذَا قَدْ وَلَدْتُ، قَالَ:" فَاذْهَبي فَأَرْضِعِيهِ حَتَّى تَفْطِمِيهِ"، فَلَمَّا فَطَمَتْهُ، جَاءَتْ بالصَّبيِّ فِي يَدِهِ كِسْرَةُ خُبزٍ، قَالَتْ: يَا نَبيَّ اللَّهِ، هَذَا قَدْ فَطَمْتُهُ، فَأَمَرَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بالصَّبيِّ فَدَفَعَهُ إِلَى رَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بهَا فَحُفِرَ لَهَا حُفْرَةٌ، فَجُعِلَتْ فِيهَا إِلَى صَدْرِهَا، ثُمَّ أَمَرَ النَّاسَ أَنْ يَرْجُمُوهَا، فَأَقْبلَ خَالِدُ بنُ الْوَلِيدِ بحَجَرٍ، فَرَمَى رَأْسَهَا، فَنَضَحَ الدَّمُ عَلَى وَجْنَةِ خَالِدٍ فَسَبهَا، فَسَمِعَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَبهُ إِيَّاهَا، فَقَالَ:" مَهْلًا يَا خَالِدُ بنَ الْوَلِيدِ، لَا تَسُبهَا، فَوَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ لَقَدْ تَابتْ تَوْبةً لَوْ تَابهَا صَاحِب مَكْسٍ لَغُفِرَ لَهُ"، فَأَمَرَ بهَا، فَصَلَّى عَلَيْهَا، وَدُفِنَتْ .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا کہ " غامد " سے ایک عورت آئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے نبی! مجھ سے بدکاری کا ارتکاب ہوگیا ہے چاہتی ہوں کہ آپ مجھے پاک کردیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے واپس بھیج دیا اگلے دن وہ پھر آگئی اور دوبارہ اعتراف کرتے ہوئے کہنے لگی کہ شاید آپ مجھے بھی ماعز کی طرح واپس بھیجنا چاہتے ہیں واللہ میں تو " امید " سے ہوں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا واپس چلی جاؤ یہاں تک کہ بچہ پیدا ہوجائے چنانچہ جب اس کے یہاں بچہ پیدا ہوچکا تو وہ بچے کو اٹھائے ہوئے پھر آگئی اور کہنے لگی کہ اے اللہ کے نبی! یہ بچہ پیدا ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جاؤ اور اسے دودھ پلاؤ چنانچہ جب اس نے اس کا دودھ بھی چھڑا دیا تو وہ بچے کو لے کر آئی اس وقت بچے کے ہاتھ میں روٹی کا ٹکڑا تھا اور کہنے لگی اے اللہ کے نبی! میں نے اس کا دودھ بھی چھڑا دیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ بچہ ایک مسلمان کے حوالے کردیا اور اس عورت کے لئے گڑھا کھودنے کا حکم دے دیا پھر اسے سینے تک اس میں اتارا گیا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو اس پر پتھر مارنے کا حکم دیا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک پتھر لے کر آئے اور اس کے سر پر مارا اس سے خون نکل کر حضرت خالد رضی اللہ عنہ کے رخسار پر گرا انہوں نے اسے سخت سست کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سنا تو فرمایا رکو خالد! اسے برا بھلا مت کہو اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس نے ایسی توبہ کی ہے کہ اگر ٹیکس وصولی میں ظلم کرنے والا کرلے تو اس کی بھی بخشش ہوجائے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم پر اسے نماز جنازہ پڑھ کر دفن کیا گیا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقصة سب خالد بن الوليد الغامدية، وقصة انتظار الفطام للرجم تفرد بهما بشير فى حديث بريدة وهو مختلف فيه
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا بشير بن المهاجر ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فسمعته يقول: " تعلموا سورة، فإن اخذها بركة، وتركها حسرة، ولا يستطيعها البطلة"، قال: ثم مكث ساعة، ثم قال:" تعلموا سورة عمران، فإنهما الزهراوان يظلان صاحبهما يوم القيامة، كانهما غمامتان، او غيايتان، او فرقان من طير صواف، وإن القرآن يلقى صاحبه يوم القيامة حين ينشق عنه قبره كالرجل الشاحب، فيقول له: هل تعرفني؟ فيقول: ما اعرفك، فيقول: انا صاحبك القرآن الذي اظماتك في الهواجر، واسهرت ليلك، وإن كل تاجر من وراء تجارته، وإنك اليوم من وراء كل تجارة، فيعطى الملك بيمينه، والخلد بشماله، ويوضع على راسه تاج الوقار، ويكسى والداه حلتين لا يقوم لهما اهل الدنيا، فيقولان: بم كسينا هذه؟ فيقال: باخذ ولدكما القرآن، ثم يقال له: اقرا، واصعد في درجة الجنة وغرفها، فهو في صعود ما دام يقرا، هذا كان، او ترتيلا" .حَدَّثَنَا أَبو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ الْمُهَاجِرِ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُهُ يَقُولُ: " تَعَلَّمُوا سُورَةَ، فَإِنَّ أَخْذَهَا برَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا يَسْتَطِيعُهَا الْبطَلَةُ"، قَالَ: ثُمَّ مَكَثَ سَاعَةً، ثُمَّ قَالَ:" تَعَلَّمُوا سُورَةَ عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا الزَّهْرَاوَانِ يُظِلَّانِ صَاحِبهُمَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ، كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ غَيَايَتَانِ، أَوْ فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، وَإِنَّ الْقُرْآنَ يَلْقَى صَاحِبهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ حِينَ يَنْشَقُّ عَنْهُ قَبرُهُ كَالرَّجُلِ الشَّاحِب، فَيَقُولُ لَهُ: هَلْ تَعْرِفُنِي؟ فَيَقُولُ: مَا أَعْرِفُكَ، فَيَقُولُ: أَنَا صَاحِبكَ الْقُرْآنُ الَّذِي أَظْمَأْتُكَ فِي الْهَوَاجِرِ، وَأَسْهَرْتُ لَيْلَكَ، وَإِنَّ كُلَّ تَاجِرٍ مِنْ وَرَاءِ تِجَارَتِهِ، وَإِنَّكَ الْيَوْمَ مِنْ وَرَاءِ كُلِّ تِجَارَةٍ، فَيُعْطَى الْمُلْكَ بيَمِينِهِ، وَالْخُلْدَ بشِمَالِهِ، وَيُوضَعُ عَلَى رَأْسِهِ تَاجُ الْوَقَارِ، وَيُكْسَى وَالِدَاهُ حُلَّتَيْنِ لَا يُقَوَّمُ لَهُمَا أَهْلُ الدُّنْيَا، فَيَقُولَانِ: بمَ كُسِينَا هَذِهِ؟ فَيُقَالُ: بأَخْذِ وَلَدِكُمَا الْقُرْآنَ، ثُمَّ يُقَالُ لَهُ: اقْرَأْ، وَاصْعَدْ فِي دَرَجَةِ الْجَنَّةِ وَغُرَفِهَا، فَهُوَ فِي صُعُودٍ مَا دَامَ يَقْرَأُ، هَذًّا كَانَ، أَوْ تَرْتِيلًا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک تھا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ سورت بقرہ کو سیکھو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت ہے اور غلط کار لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا سورت بقرہ اور آل عمران دونوں کو سیکھو کیونکہ یہ دونوں روشن سورتیں اپنے پڑھنے والوں پر قیامت کے دن بادلوں سائبانوں یا پرندوں کی دو ٹولیوں کی صورت میں سایہ کریں گی اور قیامت کے دن جب انسان کی قبر شق ہوگی تو قرآن اپنے پڑھنے والے سے " جو لاغر آدمی کی طرح ہوگا ملے گا اور اس سے پوچھے گا کہ کیا تم مجھے پہچانتے ہو؟ وہ کہے گا کہ میں تمہیں نہیں پہچانتا، قرآن کہے گا کہ میں تمہارا وہی ساتھی قرآن ہوں جس نے تمہیں سخت گرم دو پہروں میں پیاسا رکھا اور راتوں کو جگایا ہر تاجر اپنی تجارت کے پیچھے ہوتا ہے آج بھی اپنی تجارت کے پیچھے ہوگے چنانچہ اس کے دائیں ہاتھ میں حکومت اور بائیں ہاتھ میں دوام دے دیا جائے گا اور اس کے سر پر وقار کا تاج رکھاجائے گا اور اس کے والدین کو ایسے جوڑے پہنائے جائیں گے جن کی قیمت ساری دنیا کے لوگ مل کر بھی ادا نہ کرسکیں گے اس کے والدین پوچھیں گے کہ ہمیں یہ لباس کس بنا پر پہنایا جا رہا ہے؟ تو جواب دیا جائے گا کہ تمہارے بچے کے قرآن حاصل کرنے کی برکت سے پھر اس سے کہا جائے کا کہ قرآن پڑھنا اور جنت کے درجات اور بالاخانوں پر چڑھنا شروع کردو چنانچہ جب تک وہ پڑھتا رہے گا چڑھتا رہے گا خواہ تیزی کے ساتھ پڑھے یا ٹھہر ٹھہر کر۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا ابو نعيم ، حدثنا بشير بن مهاجر ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كنت جالسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فسمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " إن امتي يسوقها قوم عراض الاوجه، صغار الاعين، كان وجوههم الحجف، ثلاث مرار حتى يلحقوهم بجزيرة العرب، اما السائقة الاولى، فينجو من هرب منهم، واما الثانية، فيهلك بعض، وينجو بعض، واما الثالثة، فيصطلون كلهم من بقي منهم"، قالوا: يا نبي الله، من هم؟ قال:" هم الترك، قال: اما والذي نفسي بيده ليربطن خيولهم إلى سواري مساجد المسلمين" ، قال: وكان بريدة لا يفارقه بعيران او ثلاثة، ومتاع السفر والاسقية، يعد ذلك للهرب مما سمع من النبي صلى الله عليه وسلم من البلاء من امراء الترك.حَدَّثَنَا أَبو نُعَيْمٍ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ مُهَاجِرٍ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا عِنْدَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَمِعْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ أُمَّتِي يَسُوقُهَا قَوْمٌ عِرَاضُ الْأَوْجُهِ، صِغَارُ الْأَعْيُنِ، كَأَنَّ وُجُوهَهُمْ الْحَجَفُ، ثَلَاثَ مِرَارٍ حَتَّى يُلْحِقُوهُمْ بجَزِيرَةِ الْعَرَب، أَمَّا السَّائقَةُ الْأُولَى، فَيَنْجُو مَنْ هَرَب مِنْهُمْ، وَأَمَّا الثَّانِيَةُ، فَيَهْلِكُ بعْضٌ، وَيَنْجُو بعْضٌ، وَأَمَّا الثَّالِثَةُ، فَيُصْطَلُونَ كُلُّهُمْ مَنْ بقِيَ مِنْهُمْ"، قَالُوا: يَا نَبيَّ اللَّهِ، مَنْ هُمْ؟ قَالَ:" هُمْ التُّرْكُ، قَالَ: أَمَا وَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ لَيَرْبطُنَّ خُيُولَهُمْ إِلَى سَوَارِي مَسَاجِدِ الْمُسْلِمِينَ" ، قَالَ: وَكَانَ برَيْدَةُ لَا يُفَارِقُهُ بعِيرَانِ أَوْ ثَلَاثَةٌ، وَمَتَاعُ السَّفَرِ وَالْأَسْقِيَةُ، يُعْدَ ذَلِكَ لِلْهَرَب مِمَّا سَمِعَ مِنَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْبلَاءِ مِنْ أُمَرَاءِ التُّرْكِ.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک تھا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ میری امت کو چوڑے چہروں اور چھوٹی آنکھوں والی ایک قوم ہانک دے گی جس کے چہرے ڈھال کی طرح ہوں گے (تین مرتبہ فرمایا) حتیٰ کہ وہ انہیں جزیرہ عرب میں پہنچا دیں گے۔
سابقہ اولیٰ کے وقت تو جو لوگ بھاگ جائیں گے وہ بچ جائیں گے سابقہ ثانیہ کے وقت کچھ لوگ ہلاک ہوجائیں گے اور کچھ بچ جائیں گے اور سابقہ ثالثہ کے وقت بچ جانے والے تمام افراد کھیت ہو رہیں گے لوگوں نے پوچھا اے اللہ کے نبی وہ کون لوگ ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ترکی کے لوگ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے وہ اپنے گھوڑوں کو مسلمانوں کی مسجدوں کے ستونوں سے ضرور باندھیں گے ترکوں کے اس آزمائشی فتنے کے متعلق نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ حدیث سننے کے بعد حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ ہمیشہ اپنے ساتھ دو تین اونٹ سامان سفر اور مشکیزے تیار رکھتے تھے تاکہ فوری طور پر وہاں سے روانہ ہوسکیں۔
حدثنا عثمان بن عمر ، اخبرنا مالك ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: خرج بريدة عشاء، فلقيه النبي صلى الله عليه وسلم، فاخذ بيده فادخله المسجد، فإذا صوت رجل يقرا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" تراه مرائيا؟"، فاسكت بريدة، فإذا رجل يدعو، فقال: اللهم إني اسالك باني اشهد انك انت الله الذي لا إله إلا انت، الاحد الصمد، الذي لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفوا احد، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" والذي نفسي بيده، او قال: والذي نفس محمد بيده، لقد سال الله باسمه الاعظم الذي إذا سئل به اعطى، وإذا دعي به اجاب"، قال: فلما كان من القابلة خرج بريدة عشاء، فلقيه النبي صلى الله عليه وسلم، فاخذ بيده فادخله المسجد، فإذا صوت الرجل يقرا، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اتقوله مرائيا؟"، فقال بريدة: اتقوله مرائيا يا رسول الله؟ فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" لا، بل مؤمن منيب، لا، بل مؤمن منيب"، فإذا الاشعري يقرا بصوت له في جانب المسجد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" إن الاشعري، او إن عبد الله بن قيس، اعطي مزمارا من مزامير داود"، فقلت: الا اخبره يا رسول الله؟ قال:" بلى، فاخبره"، فاخبرته، فقال: انت لي صديق، اخبرتني عن رسول الله صلى الله عليه وسلم بحديث .حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بنُ عُمَرَ ، أَخْبرَنَا مَالِكٌ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: خَرَجَ برَيْدَةُ عِشَاءً، فَلَقِيَهُ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بيَدِهِ فَأَدْخَلَهُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا صَوْتُ رَجُلٍ يَقْرَأُ، فَقَالَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تُرَاهُ مُرَائِيًا؟"، فَأَسْكَتَ برَيْدَةُ، فَإِذَا رَجُلٌ يَدْعُو، فَقَالَ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، الْأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" وَالَّذِي نَفْسِي بيَدِهِ، أو قال: والذي نفس محمد بيده، لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ باسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا سُئِلَ بهِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِيَ بهِ أَجَاب"، قَالَ: فَلَمَّا كَانَ مِنَ الْقَابلَةِ خَرَجَ برَيْدَةُ عِشَاءً، فَلَقِيَهُ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَخَذَ بيَدِهِ فَأَدْخَلَهُ الْمَسْجِدَ، فَإِذَا صَوْتُ الرَّجُلِ يَقْرَأُ، فَقَالَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتَقُولُهُ مُرَائيًا؟"، فَقَالَ برَيْدَةُ: أَتَقُولُهُ مُرائيًا يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ فَقَالَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا، بلْ مُؤْمِنٌ مُنِيب، لَا، بلْ مُؤْمِنٌ مُنِيب"، فَإِذَا الْأَشْعَرِيُّ يَقْرَأُ بصَوْتٍ لَهُ فِي جَانِب الْمَسْجِدِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" إِنَّ الْأَشْعَرِيَّ، أَوْ إِنَّ عَبدَ اللَّهِ بنَ قَيْسٍ، أُعْطِيَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ دَاوُدَ"، فَقُلْتُ: أَلَا أُخْبرُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" بلَى، فَأَخْبرْهُ"، فَأَخْبرْتُهُ، فَقَالَ: أَنْتَ لِي صَدِيقٌ، أَخْبرْتَنِي عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بحَدِيثٍ .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ رات کو نکلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور مسجد میں داخل ہوگئے اچانک اس آدمی کی تلاوت قرآن کی آواز آئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اسے ریاکار سمجھتے ہو؟ بریدہ رضی اللہ عنہ خاموش رہے وہ آدمی یہ دعاء کر رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اکیلا ہے بےنیاز ہے اس کی کوئی اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس نے اللہ کے اس اسم اعظم کا واسطہ دے کر سوال کیا ہے کہ جب اس کے ذریعے سوال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور عطا فرماتا ہے اور جب دعا کی جائے تو ضرور قبول فرماتا ہے۔
اگلی رات حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ پھر عشاء کے بعد نکلے اور پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگئی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر مسجد میں داخل ہوگئے اور اسی طرح ایک آدمی کے قرآن پڑھنے کی آواز آئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا تم اسے ریاکار سمجھتے ہو؟ بریدہ رضی اللہ عنہ نے عرض یا رسول اللہ! کیا آپ اسے ریاکار سمجھتے ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو مرتبہ فرمایا نہیں بلکہ یہ رجوع کرنے والا اور مومن ہے یہ آواز حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی تھی جو مسجد کے ایک کونے میں قرآن پڑھ رہے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اشعری کو حضرت داؤد علیہ السلام کے خوبصورت لہجوں میں سے ایک لہجہ دیا گیا ہے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں انہیں یہ بات بتا نہ دوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیوں نہیں بتادو چنانچہ میں نے انہیں یہ بات بتادی وہ کہنے لگے کہ آپ میرے دوست ہیں کہ آپ نے مجھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث بتائی۔
حدثنا إسحاق بن يوسف ، قال: حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: اتى النبي صلى الله عليه وسلم رجل، فساله عن وقت الصلاة، فقال: " صل معنا هذين"، فامر بلالا حين طلع الفجر فاذن، ثم امره فاقام، ثم امره فاذن حين زالت الشمس الظهر، ثم امره فاقام، ثم امره فاقام العصر والشمس مرتفعة، ثم امره فاقام المغرب حين غاب حاجب الشمس، ثم امره حين غاب الشفق، فاقام العشاء فصلى، ثم امره من الغد، فاقام الفجر، فاسفر بها، ثم امره فابرد بالظهر، فانعم ان يبرد بها، ثم صلى العصر والشمس بيضاء، اخرها فوق ذلك الذي كان، امره فاقام المغرب قبل ان يغيب الشفق، ثم امره فاقام العشاء حين ذهب ثلث الليل، ثم قال:" اين السائل عن وقت الصلاة؟"، قال الرجل: انا يا رسول الله، فقال:" وقت صلاتكم بين ما رايتم" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بنُ يُوسُفَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: أَتَى النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ، فَسَأَلَهُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ، فَقَالَ: " صَلِّ مَعَنَا هَذَيْنِ"، فَأَمَرَ بلَالًا حِينَ طَلَعَ الْفَجْرُ فَأَذَّنَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَذَّنَ حِينَ زَالَتْ الشَّمْسُ الظُّهْرَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ مُرْتَفِعَةٌ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِب حِينَ غَاب حَاجِب الشَّمْسِ، ثُمَّ أَمَرَهُ حِينَ غَاب الشَّفَقُ، فَأَقَامَ الْعِشَاءَ فَصَلَّى، ثُمَّ أَمَرَهُ مِنَ الْغَدِ، فَأَقَامَ الْفَجْرَ، فَأَسْفَرَ بهَا، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَبرَدَ بالظُّهْرِ، فَأَنْعَمَ أَنْ يُبرِدَ بهَا، ثُمَّ صَلَّى الْعَصْرَ وَالشَّمْسُ بيْضَاءُ، أَخَّرَهَا فَوْقَ ذَلِكَ الَّذِي كَانَ، أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْمَغْرِب قَبلَ أَنْ يَغِيب الشَّفَقُ، ثُمَّ أَمَرَهُ فَأَقَامَ الْعِشَاءَ حِينَ ذَهَب ثُلُثُ اللَّيْلِ، ثُمَّ قَالَ:" أَيْنَ السَّائِلُ عَنْ وَقْتِ الصَّلَاةِ؟"، قَالَ الرَّجُلُ: أَنَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ:" وَقْتُ صَلَاتِكُمْ بيْنَ مَا رَأَيْتُمْ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر اوقات نماز کے حوالے سے پوچھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے کوئی جواب نہیں دیا بلکہ حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، انہوں نے فجر کی اقامت اس وقت کہی جب طلوع فجر ہوگئی اور لوگ ایک دوسرے کو پہچان نہیں سکتے تھے پھر انہیں حکم دیا انہوں نے ظہر کی اقامت اس وقت کہی جب زوال شمس ہوگیا اور کوئی کہتا تھا کہ آدھا دن ہوگیا کوئی کہتا تھا نہیں ہوا لیکن وہ زیادہ جانتے تھے پھر انہیں حکم دیا انہوں نے عصر کی اقامت اس وقت کہی جب سورج روشن تھا پھر انہیں حکم دیا انہوں نے مغرب کی اقامت اس وقت کہی جب سورج غروب ہوگیا پھر انہیں حکم دیا انہوں نے عشاء کی اقامت اس وقت کہی جب شفق غروب ہوگئی پھر اگلے دن فجر کو اتنا مؤخر کیا کہ جب نماز سے فارغ ہوئے تو لوگ کہنے لگے کہ سورج طلوع ہونے ہی والا ہے ظہر کو اتنا مؤخر کیا کہ وہ گزشتہ دن کی عصر کے قریب ہوگئی عصر کو اتنا مؤخر کیا کہ نماز سے فارغ ہونے کے بعد لوگ کہنے لگے کہ سورج سرخ ہوگیا ہے مغرب کو سقوط شفق تک مؤخر کردیا اور عشاء کو رات کی پہلی تہائی تک مؤخر کردیا پھر سائل کو بلا کر فرمایا کہ نماز کا وقت ان دو وقتوں کے درمیان ہے۔
حدثنا إسحاق بن يوسف ، عن عبد الملك بن ابي سليمان ، عن عبد الله بن عطاء المكي ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ان امراة اتت النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إني تصدقت على امي بجارية، فماتت، وإنها رجعت إلي في الميراث، قال: " قد آجرك الله، ورد عليك في الميراث"، قالت: فإن امي ماتت ولم تحج، فيجزئها ان احج عنها؟ قال:" نعم"، قالت: فإن امي كان عليها صوم شهر، فيجزئها ان اصوم عنها، قال:" نعم" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بنُ يُوسُفَ ، عَنْ عَبدِ الْمَلِكِ بنِ أَبي سُلَيْمَانَ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ عَطَاءٍ الْمَكِّيِّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنَّ امْرَأَةً أَتَتْ النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بجَارِيَةٍ، فَمَاتَتْ، وَإِنَّهَا رَجَعَتْ إِلَيَّ فِي الْمِيرَاثِ، قَالَ: " قد آجَرَكِ اللَّهُ، وَرَدَّ عَلَيْكِ فِي الْمِيرَاثِ"، قَالَتْ: فَإِنَّ أُمِّي مَاتَتْ وَلَمْ تَحُجَّ، فَيُجْزِئُهَا أَنْ أَحُجَّ عَنْهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَتْ: فَإِنَّ أُمِّي كَانَ عَلَيْهَا صَوْمُ شَهْرٍ، فَيُجْزِئُهَا أَنْ أَصُومَ عَنْهَا، قَالَ:" نَعَمْ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میں نے اپنی والدہ کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی والدہ کا انتقال ہوگیا اس لئے وراثت میں وہ باندی دوبارہ میرے پاس آگئی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دے گا اور باندی بھی تمہیں وراثت میں مل گئی اس نے کہا کہ میری والدہ حج کئے بغیر ہی فوت ہوگئی ہیں کیا میرا ان کی طرف سے حج کرنا ان کی لئے کفایت کرسکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! اس نے کہا کہ میری والدہ کے ذمے ایک ماہ کے روزے بھی فرض تھے کیا میرا ان کی طرف سے سے روزے رکھنا ان کے لئے کفایت کرسکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں!
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1149، غير أن قوله فيه: سليمان بن بريدة، وهم، والصواب: عبدالله ابن بريدة
ابو ملیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک تھے اس دن ابر چھایا ہوا تھا انہوں نے فرمایا جلدی نماز پڑھ لو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے اس کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔
حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا ضرار يعني ابن مرة ابو سنان ، عن محارب بن دثار ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها، ونهيتكم عن لحوم الاضاحي ان تمسكوها فوق ثلاث، فامسكوها ما بدا لكم، ونهيتكم عن النبيذ إلا في سقاء، فاشربوا في الاسقية كلها، ولا تشربوا مسكرا" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا ضِرَارٌ يَعْنِي ابنَ مُرَّةَ أَبو سِنَانٍ ، عَنْ مُحَارِب بنِ دِثَارٍ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبورِ، فَزُورُوهَا، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ أَنْ تُمْسِكُوهَا فَوْقَ ثَلَاثٍ، فَأَمْسِكُوهَا مَا بدَا لَكُمْ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ النَّبيذِ إِلَّا فِي سِقَاءٍ، فَاشْرَبوا فِي الْأَسْقِيَةِ كُلِّهَا، وَلَا تَشْرَبوا مُسْكِرًا" .
حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں قبرستان جانے سے منع کیا تھا اب چلے جایا کرو نیز میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے کی ممانعت کی تھی اب جب تک چاہو رکھو نیز میں نے تمہیں مشکیزے کے علاوہ دوسرے برتنوں میں نبیذ پینے سے منع کیا تھا اب جس برتن میں چاہو پی سکتے ہو البتہ نشہ آور چیز مت پینا۔
حدثنا إسماعيل ، عن الجريري ، عن ابي نضرة ، عن عبد الله بن مولة ، قال: بينما انا اسير بالاهواز، إذا انا برجل يسير بين يدي على بغل، او بغلة، فإذا هو يقول: اللهم ذهب قرني من هذه الامة، فالحقني بهم، فقلت: وانا فادخل في دعوتك، قال: وصاحبي هذا إن اراد ذلك، ثم قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " خير امتي قرني منهم، ثم الذين يلونهم، قال: ولا ادري اذكر الثالث، ام لا، ثم تخلف اقوام يظهر فيهم السمن، يهريقون الشهادة، ولا يسالونها"، قال: وإذا هو بريدة الاسلمي .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبي نَضْرَةَ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ مَوَلَةَ ، قَالَ: بيْنَمَا أَنَا أَسِيرُ بالْأَهْوَازِ، إِذَا أَنَا برَجُلٍ يَسِيرُ بيْنَ يَدَيَّ عَلَى بغْلٍ، أَوْ بغْلَةٍ، فَإِذَا هُوَ يَقُولُ: اللَّهُمَّ ذَهَب قَرْنِي مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ، فَأَلْحِقْنِي بهِمْ، فَقُلْتُ: وَأَنَا فَأَدْخِلْ فِي دَعْوَتِكَ، قَالَ: وَصَاحِبي هَذَا إِنْ أَرَادَ ذَلِكَ، ثُمَّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " خَيْرُ أُمَّتِي قَرْنِي مِنْهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، قَالَ: وَلَا أَدْرِي أَذَكَرَ الثَّالِثَ، أَمْ لَا، ثُمَّ تَخْلُفُ أَقْوَامٌ يَظْهَرُ فِيهِمْ السِّمَنُ، يُهْرِيقُونَ الشَّهَادَةَ، وَلَا يَسْأَلُونَهَا"، قَالَ: وَإِذَا هُوَ برَيْدَةُ الْأَسْلَمِيُّ .
عبداللہ بن مولہ کہتے کہ ایک دن میں " اہواز " میں چل رہا تھا کہ ایک آدمی پر نظر پڑی جو مجھ سے آگے ایک خچر پر سوار چلا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے اللہ! اس امت میں سے میرا دور گذر گیا ہے تو مجھے ان ہی میں شامل فرما میں نے کہا کہ مجھے بھی اپنی دعاء میں شامل کرلیجئے انہوں نے کہا کہ میرے ساتھی کو بھی اگر یہ چاہتا ہے پھر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میرے سب سے بہترین امتی میرے دور کے ہیں پھر ان کے بعد والے ہوں گے (تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں مجھے یاد نہیں) ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جن میں موٹاپا غالب آجائے گا وہ مطالبہ کے بغیر گواہی دینے کے لئے تیار ہوں گے وہ صحابی حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ تھے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد محتمل للتحسين
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن سعيد بن عبيدة ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: بعثنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية، قال: لما قدمنا، قال:" كيف رايتم صحابة صاحبكم؟"، قال: فإما شكوته، او شكاه غيري، قال: فرفعت راسي وكنت رجلا مكبابا، قال: فإذا النبي صلى الله عليه وسلم، قد احمر وجهه، قال: وهو يقول: " من كنت وليه، فعلي وليه" .حَدَّثَنَا أَبو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَعِيدِ بنِ عُبيْدَةَ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: بعَثَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ، قَالَ: لَمَّا قَدِمْنَا، قَالَ:" كَيْفَ رَأَيْتُمْ صَحَابةَ صَاحِبكُمْ؟"، قَالَ: فَإِمَّا شَكَوْتُهُ، أَوْ شَكَاهُ غَيْرِي، قَالَ: فَرَفَعْتُ رَأْسِي وَكُنْتُ رَجُلًا مِكْبابا، قَالَ: فَإِذَا النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَدْ احْمَرَّ وَجْهُهُ، قَالَ: وَهُوَ يَقُولُ: " مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ، فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں یمن میں جہاد کے موقع پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ساتھ شریک تھا مجھے ان کی طرف سے سختی کا سامنا ہوا جب میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کا ذکر کرتے ہوئے ان کی شان میں کوتاہی کی میں نے دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرہ انور کا رنگ تبدیل ہو رہا ہے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے بریدہ! کیا مجھے مسلمانوں پر ان کی اپنی جانوں سے زیادہ حق نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں جس کا محبوب ہوں، تو علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں۔
حدثنا ابو معاوية ، حدثنا الاعمش ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال ابو معاوية: ولا اراه سمعه منه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما يخرج رجل شيئا من الصدقة حتى يفك عنها لحيي سبعين شيطانا" .حَدَّثَنَا أَبو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ أَبو مُعَاوِيَةَ: وَلَا أُرَاهُ سَمِعَهُ مِنْهُ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا يُخْرِجُ رَجُلٌ شَيْئًا مِنَ الصَّدَقَةِ حَتَّى يَفُكَّ عَنْهَا لَحْيَيْ سَبعِينَ شَيْطَانًا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا انسان جو بھی صدقہ نکالتا ہے وہ اسے ستر شیطانوں کے جبڑوں سے چھڑا دیتا ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده منقطع، الأعمش لم يسمع من ابن بريدة
حدثنا إسماعيل ، حدثنا عيينة بن عبد الرحمن ، عن ابيه ، عن بريدة الاسلمي ، قال: خرجت ذات يوم لحاجة، فإذا انا بالنبي عليه الصلاة والسلام يمشي بين يدي، فاخذ بيدي فانطلقنا نمشي جميعا، فإذا نحن بين ايدينا برجل يصلي يكثر الركوع والسجود، فقال النبي صلى الله عليه وسلم:" اتراه يرائي؟"، فقلت: الله ورسوله اعلم، فترك يدي من يده، ثم جمع بين يديه، فجعل يصوبهما ويرفعهما، ويقول: " عليكم هديا قاصدا، عليكم هديا قاصدا، عليكم هديا قاصدا، فإنه من يشاد هذا الدين يغلبه" .حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، حَدَّثَنَا عُيَيْنَةُ بنُ عَبدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبيهِ ، عَنْ برَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، قَالَ: خَرَجْتُ ذَاتَ يَوْمٍ لِحَاجَةٍ، فَإِذَا أَنَا بالنَّبيِّ عَلَيْهِ الصَّلَاة وَالسَّلَامُ يَمْشِي بيْنَ يَدَيَّ، فَأَخَذَ بيَدِي فَانْطَلَقْنَا نَمْشِي جَمِيعًا، فَإِذَا نَحْنُ بيْنَ أَيْدِينَا برَجُلٍ يُصَلِّي يُكْثِرُ الرُّكُوعَ وَالسُّجُودَ، فَقَالَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أَتُرَاهُ يُرَائِي؟"، فَقُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، فَتَرَكَ يَدِي مِنْ يَدِهِ، ثُمَّ جَمَعَ بيْنَ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يُصَوِّبهُمَا وَيَرْفَعُهُمَا، وَيَقُولُ: " عَلَيْكُمْ هَدْيًا قَاصِدًا، عَلَيْكُمْ هَدْيًا قَاصِدًا، عَلَيْكُمْ هَدْيًا قَاصِدًا، فَإِنَّهُ مَنْ يُشَادَّ هَذَا الدِّينَ يَغْلِبهُ" .
حضرت ابوبریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ ایک دن میں ٹہلتا ہوا نکلا تو دیکھا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک جانب چہرے کا رخ کیا ہوا ہے میں سمجھا کہ شاید قضاء حاجت کے لئے جا رہے ہیں اس لئے میں ایک طرف کو ہو کر نکلنے لگا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے دیکھ لیا اور میری طرف اشارہ کیا میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ہم دونوں ایک طرف چلنے لگے اچانک ہم ایک آدمی کے قریب پہنچے جو نماز پڑھ رہا تھا اور کثرت سے رکوع و سجود کر رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اسے ریاکار سمجھتے ہو؟ میں نے عرض کیا اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے میرا ہاتھ چھوڑ کر دونوں ہتھیلیوں کو اکٹھا کیا اور کندھوں کے برابر اٹھانے اور نیچے کرنے لگے اور تین مرتبہ فرمایا اپنے اوپر درمیانہ راستہ لازم کرلو کیونکہ جو شخص دین کے معاملہ میں سختی کرتا ہے وہ مغلوب ہوجاتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمان آدمی کی موت پیشانی کے پسینے کی طرح (بڑی آسانی سے) واقع ہوجاتی ہے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، عن مالك بن مغول ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يقول: اللهم إني اسالك باني اشهد انك انت الله الذي لا إله إلا انت، الاحد الصمد، الذي لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفوا احد، فقال: " قد سال الله باسم الله الاعظم الذي إذا سئل به اعطى، وإذا دعي به اجاب" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بنِ مِغْوَلٍ ، حَدَّثَنَا عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: سَمِعَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بأَنِّي أَشْهَدُ أَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ الَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، الْأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ: " قَدْ سَأَلَ اللَّهَ باسْمِ اللَّهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا سُئِلَ بهِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِيَ بهِ أَجَاب" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ رات کو نکلے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات ہوگئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا ہاتھ پکڑا اور مسجد میں داخل ہوگئے اچانک اس آدمی کی تلاوت قرآن کی آواز آئی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم اسے ریاکار سمجھتے ہو؟ بریدہ رضی اللہ عنہ خاموش رہے وہ آدمی یہ دعاء کر رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اکیلا ہے بےنیاز ہے اس کی کوئی اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس نے اللہ کے اس اسم اعظم کا واسطہ دے کر سوال کیا ہے کہ جب اس کے ذریعے سوال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور عطا فرماتا ہے اور جب دعا کی جائے تو ضرور قبول فرماتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آج تو آپ نے وہ کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔
حدثنا يحيى بن سعيد ، حدثنا عبد الجليل ، قال: انتهيت إلى حلقة فيها ابو مجلز، وابن بريدة، فقال عبد الله بن بريدة : حدثني ابي بريدة ، قال: ابغضت عليا بغضا لم يبغضه احد قط، قال: واحببت رجلا من قريش لم احبه إلا على بغضه عليا، قال: فبعث ذلك الرجل على خيل، فصحبته ما اصحبه إلا على بغضه عليا، قال: فاصبنا سبيا، قال: فكتب إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم ابعث إلينا من يخمسه، قال: فبعث إلينا عليا، وفي السبي وصيفة هي افضل من السبي، فخمس وقسم، فخرج راسه مغطى، فقلنا: يا ابا الحسن، ما هذا؟ قال: الم تروا إلى الوصيفة التي كانت في السبي؟ فإني قد قسمت وخمست، فصارت في الخمس، ثم صارت في اهل بيت النبي صلى الله عليه وسلم، ثم صارت في آل علي، ووقعت بها، قال: فكتب الرجل إلى نبي الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: ابعثني، فبعثني مصدقا، قال: فجعلت اقرا الكتاب واقول: صدق، قال: فامسك يدي والكتاب، وقال:" اتبغض عليا"، قال: قلت: نعم، قال: " فلا تبغضه، وإن كنت تحبه فازدد له حبا، فوالذي نفس محمد بيده، لنصيب آل علي في الخمس افضل من وصيفة"، قال: فما كان من الناس احد بعد قول رسول الله صلى الله عليه وسلم احب إلي من علي ، قال عبد الله: فوالذي لا إله غيره، ما بيني وبين النبي صلى الله عليه وسلم في هذا الحديث غير ابي بريدة.حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبدُ الْجَلِيلِ ، قَالَ: انْتَهَيْتُ إِلَى حَلْقَةٍ فِيهَا أَبو مِجْلَزٍ، وَابنُ برَيْدَةَ، فَقَالَ عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ : حَدَّثَنِي أَبي برَيْدَةُ ، قَالَ: أَبغَضْتُ عَلِيًّا بغْضًا لَمْ يُبغَضْهُ أَحَدٌ قَطُّ، قَالَ: وَأَحْببتُ رَجُلًا مِنْ قُرَيْشٍ لَمْ أُحِبهُ إِلَّا عَلَى بغْضِهِ عَلِيًّا، قَالَ: فَبعِثَ ذَلِكَ الرَّجُلُ عَلَى خَيْلٍ، فَصَحِبتُهُ مَا أَصْحَبهُ إِلَّا عَلَى بغْضِهِ عَلِيًّا، قَالَ: فَأَصَبنَا سَبيًا، قَالَ: فَكَتَب إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ابعَثْ إِلَيْنَا مَنْ يُخَمِّسُهُ، قَالَ: فَبعَثَ إِلَيْنَا عَلِيًّا، وَفِي السَّبيِ وَصِيفَةٌ هِيَ أَفْضَلُ مِنَ السَّبيِ، فَخَمَّسَ وَقَسَمَ، فَخَرَجَ رَأْسُهُ مُغَطًّى، فَقُلْنَا: يَا أَبا الْحَسَنِ، مَا هَذَا؟ قَالَ: أَلَمْ تَرَوْا إِلَى الْوَصِيفَةِ الَّتِي كَانَتْ فِي السَّبيِ؟ فَإِنِّي قد قَسَمْتُ وَخَمَّسْتُ، فَصَارَتْ فِي الْخُمُسِ، ثُمَّ صَارَتْ فِي أَهْلِ بيْتِ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ صَارَتْ فِي آلِ عَلِيٍّ، وَوَقَعْتُ بهَا، قَالَ: فَكَتَب الرَّجُلُ إِلَى نَبيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: ابعَثْنِي، فَبعَثَنِي مُصَدِّقًا، قَالَ: فَجَعَلْتُ أَقْرَأُ الْكِتَاب وَأَقُولُ: صَدَقَ، قَالَ: فَأَمْسَكَ يَدِي وَالْكِتَاب، وَقَالَ:" أَتُبغِضُ عَلِيًّا"، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَلَا تَبغَضْهُ، وَإِنْ كُنْتَ تُحِبهُ فَازْدَدْ لَهُ حُبا، فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بيَدِهِ، لَنَصِيب آلِ عَلِيٍّ فِي الْخُمُسِ أَفْضَلُ مِنْ وَصِيفَةٍ"، قَال: فَمَا كَانَ مِنَ النَّاسِ أَحَدٌ بعْدَ قَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَب إِلَيَّ مِنْ عَلِيٍّ ، قَالَ عَبدُ اللَّهِ: فَوَالَّذِي لَا إِلَهَ غَيْرُهُ، مَا بيْنِي وَبيْنَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي هَذَا الْحَدِيثِ غَيْرُ أَبي برَيْدَةَ.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ابتداء مجھے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے اتنی نفرت تھی کہ کسی سے اتنی نفرت کبھی نہیں رہی تھی اور صرف حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نفرت کی وجہ سے میں قریش کے ایک آدمی سے محبت رکھتا تھا ایک مرتبہ اس شخص کو چند شہسواروں کا سردار بنا کر بھیجا گیا تو میں بھی اس کے ساتھ چلا گیا اور صرف اس بنیاد پر کہ وہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے نفرت کرتا تھا ہم لوگوں نے کچھ قیدی پکڑے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہ خط لکھا کہ ہمارے پاس کسی آدمی کو بھیج دیں جو مال غنیمت کا خمس وصول کرلے چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ہمارے پاس بھیج دیا۔
ان قیدیوں میں " وصیفہ " بھی تھی جو قیدیوں میں سب سے عمدہ خاتون تھی حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خمس وصول کیا اور اسے تقسیم کردیا پھر وہ باہر آئے تو ان کا سر ڈھکا ہوا تھا ہم نے ان سے پوچھا اے ابوالحسن! یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا تم نے وہ " وصیفہ " دیکھی تھی جو قیدیوں میں شامل تھی میں نے خمس وصول کیا تو وہ خمس میں شامل تھی پھر وہ اہل بیت نبوت میں آگئی اور وہاں سے آل علی میں آگئی اور میں نے اس سے مجامعت کی ہے اس شخص نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خط لکھ کر اس صورت حال سے آگاہ کیا میں نے اس سے کہا یہ خط میرے ہاتھ بھیجو چنانچہ اس نے مجھے اپنی تصدیق کرنے کے لئے بھیج دیا میں بارگاہ نبوت میں حاضر ہو کر خط پڑھنے لگا اور کہنے لگا کہ انہوں نے سچ کہا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خط پر سے میرے ہاتھ کو اٹھا کر فرمایا کیا تم علی سے نفرت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس سے نفرت نہ کرو بلکہ اگر محبت کرتے ہو تو اس میں مزید اضافہ کردو کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے خمس میں آل علی کا حصہ " وصیفہ " سے بھی افضل ہے چنانچہ اس فرمان کے بعد میری نظروں میں حضرت علی رضی اللہ عنہ سے زیادہ کوئی شخص محبوب نہ رہا۔
حدثنا ابن نمير ، عن شريك ، حدثنا ابو ربيعة ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله عز وجل يحب من اصحابي اربعة، اخبرني انه يحبهم وامرني ان احبهم"، قالوا: من هم يا رسول الله؟ قال:" إن عليا منهم، وابو ذر الغفاري، وسلمان الفارسي، والمقداد بن الاسود الكندي" .حَدَّثَنَا ابنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ شَرِيكٍ ، حَدَّثَنَا أَبو رَبيعَةَ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يُحِب مِنْ أَصْحَابي أَرْبعَةً، أَخْبرَنِي أَنَّهُ يُحِبهُمْ وَأَمَرَنِي أَنْ أُحِبهُمْ"، قَالُوا: مَنْ هُمْ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" إِنَّ عَلِيًّا مِنْهُمْ، وَأَبو ذَرٍّ الْغِفَارِيُّ، وَسَلْمَانُ الْفَارِسِيُّ، وَالْمِقْدَادُ بنُ الْأَسْوَدِ الْكِنْدِيُّ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ میرے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے چار لوگوں سے محبت کرتا ہے اور اس نے مجھے بتایا ہے کہ وہ ان سے محبت کرتا ہے اور مجھے بھی ان سے محبت کرنے کا حکم دیا ہے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! وہ کون ہیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ان میں سے سے ایک تو علی ہیں دوسرے ابوذر غفاری تیسرے سلمان فارسی اور چوتھے مقداد بن اسود کندی ہیں۔ رضی اللہ عنہ۔
حدثنا ابن نمير , حدثنا مالك ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: " إن عبد الله بن قيس الاشعري اعطي مزمارا من مزامير آل داود" .حدثنا ابن نمير , حَدَّثَنَا مَالِكٌ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " إِنَّ عَبدَ اللَّهِ بنَ قَيْسٍ الْأَشْعَرِيَّ أُعْطِيَ مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عبداللہ بن قیس اشعری کو آل داؤد کے لہجوں میں سے ایک لہجہ دیا گیا ہے۔
حدثنا ابن نمير ، اخبرنا الاعمش ، عن ابي داود , عن بريدة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " من انظر معسرا، كان له كل يوم صدقة، ومن انظره بعد حله، كان له مثله في كل يوم صدقة" .حَدَّثَنَا ابنُ نُمَيْرٍ ، أَخْبرَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبي دَاوُدَ , عَنْ برَيْدَةَ ، عَنِ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، كَانَ لَهُ كُلَّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ، وَمَنْ أَنْظَرَهُ بعْدَ حِلِّهِ، كَانَ لَهُ مِثْلُهُ فِي كُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص کسی تنگدست (مقروض) کو مہلت دیدے تو اسے روزانہ صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے اور جو شخص وقت مقررہ گذرنے کے بعد اسے مہلت دے دے تو اسے روزانہ اتنی ہی مقدار (جو اس نے قرض میں دے رکھی ہے) صدقہ کرنے کا ثواب ملتا ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف جدا من أجل أبى داود الأعمى، وقد اختلف عليه فيه
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میں نے اپنی والدہ کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی والدہ کا انتقال ہوگیا اس لئے وراثت میں وہ باندی دوبارہ میرے پاس آگئی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دے گا اور باندی بھی تمہیں وراثت میں مل گئی۔
حدثنا محمد بن عبيد ، حدثنا صالح يعني ابن حيان ، عن ابن بريدة ، عن ابيه انه كان مع رسول الله صلى الله عليه وسلم في اثنين واربعين من اصحابه، والنبي صلى الله عليه وسلم يصلي في المقام، وهم خلفه جلوس ينتظرونه، فلما صلى، اهوى فيما بينه وبين الكعبة كانه يريد ان ياخذ شيئا، ثم انصرف إلى اصحابه، فثاروا، واشار إليهم بيده ان اجلسوا، فجلسوا، فقال:" رايتموني حين فرغت من صلاتي اهويت فيما بيني وبين الكعبة كاني اريد ان آخذ شيئا؟"، قالوا: نعم، يا رسول الله، قال: " إن الجنة عرضت علي، فلم ار مثل ما فيها، وإنها مرت بي خصلة من عنب، فاعجبتني، فاهويت إليها لآخذها، فسبقتني، ولو اخذتها، لغرستها بين ظهرانيكم حتى تاكلوا من فاكهة الجنة، واعلموا ان الكماة دواء العين، وان العجوة من فاكهة الجنة، وان هذه الحبة السوداء التي تكون في الملح اعلموا انها دواء من كل داء، إلا الموت" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ عُبيْدٍ ، حَدَّثَنَا صَالِحٌ يَعْنِي ابنَ حَيَّانَ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنَّهُ كَانَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي اثْنَيْنِ وَأَرْبعِينَ مِنْ أَصْحَابهِ، وَالنَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي فِي الْمَقَامِ، وَهُمْ خَلْفَهُ جُلُوسٌ يَنْتَظِرُونَهُ، فَلَمَّا صَلَّى، أَهْوَى فِيمَا بيْنَهُ وَبيْنَ الْكَعْبةِ كَأَنَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَأْخُذَ شَيْئًا، ثُمَّ انْصَرَفَ إِلَى أَصْحَابهِ، فَثَارُوا، وَأَشَارَ إِلَيْهِمْ بيَدِهِ أَنْ اجْلِسُوا، فَجَلَسُوا، فَقَالَ:" رَأَيْتُمُونِي حِينَ فَرَغْتُ مِنْ صَلَاتِي أَهْوَيْتُ فِيمَا بيْنِي وَبيْنَ الْكَعْبةِ كَأَنِّي أُرِيدُ أَنْ آخُذَ شَيْئًا؟"، قَالُوا: نَعَمْ، يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: " إِنَّ الْجَنَّةَ عُرِضَتْ عَلَيَّ، فَلَمْ أَرَ مِثْلَ مَا فِيهَا، وَإِنَّهَا مَرَّتْ بي خَصْلَةٌ مِنْ عِنَب، فَأَعْجَبتْنِي، فَأَهْوَيْتُ إِلَيْهَا لِآخُذَهَا، فَسَبقَتْنِي، وَلَوْ أَخَذْتُهَا، لَغَرَسْتُهَا بيْنَ ظَهْرَانِيكُمْ حَتَّى تَأْكُلُوا مِنْ فَاكِهَةِ الْجَنَّةِ، وَاعْلَمُوا أَنَّ الْكَمْأَةَ دَوَاءُ الْعَيْنِ، وَأَنَّ الْعَجْوَةَ مِنْ فَاكِهَةِ الْجَنَّةِ، وَأَنَّ هَذِهِ الْحَبةَ السَّوْدَاءَ الَّتِي تَكُونُ فِي الْمِلْحِ اعْلَمُوا أَنَّهَا دَوَاءٌ مِنْ كُلِّ دَاءٍ، إِلَّا الْمَوْتَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ٢٤ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں شامل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مقام ابراہیم کے قریب نماز پڑھ رہے تھے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم پیچھے بیٹھے انتظار کر رہے تھے نماز سے فارغ ہو کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ کی جانب اس طرح بڑھے جیسے کوئی چیز پکڑنے کی کوشش کر رہے ہیں پھر واپس آئے تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کھڑے ہوگئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں دست مبارک سے بیٹھنے کا اشارہ کیا وہ لوگ بیٹھ گئے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے پوچھا کیا تم نے مجھے نماز سے فارغ ہو کر خانہ کعبہ کی طرف اس طرح بڑھتے ہوئے دیکھا تھا جیسے کوئی چیز پکڑنے کی کوشش کر رہا ہوں؟ انہوں نے عرض کیا جی یا رسول اللہ! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرے سامنے جنت کو پیش کیا گیا جس کی نعمتوں جیسی کوئی چیز میں نے کبھی نہیں دیکھی میرے سامنے سے انگوروں کا ایک خوشہ گذرا جو مجھے اچھا لگا میں اسے پکڑنے کے لئے آگے بڑھا تو وہ مجھ سے آگے نکل گیا اگر میں اسے پکڑ لیتا تو اسے تمہارے سامنے گاڑ دیتا تاکہ تم جنت کے میوے کھاتے اور جان رکھو کہ کھنبی آنکھوں کا علاج ہے اور عجوہ جنت کا میوہ ہے اور یہ کلونجی جو نمک میں ہوتی ہے موت کے علاوہ ہر بیماری کا علاج ہے۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، صالح بن حيان ضعيف، ولبعضه شواهد يصح بها
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما كان يوم الفتح فتح مكة، توضا ومسح على خفيه، فقال له عمر: رايتك يا رسول الله، صنعت اليوم شيئا لم تكن تصنعه! قال: " عمدا صنعته يا عمر" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفَتْحِ فَتْحُ مَكَّةَ، تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: رَأَيْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، صَنَعْتَ الْيَوْمَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ تَصْنَعُهُ! قَالَ: " عَمْدًا صَنَعْتُهُ يَا عُمَرُ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آج تو آپ نے وہ کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا شريك ، عن ابي ربيعة ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تتبع النظرة النظرة، فإنما لك الاولى، وليست لك الآخرة" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبي رَبيعَةَ ، عَنْ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تُتْبعْ النَّظْرَةَ النَّظْرَةَ، فَإِنَّمَا لَكَ الْأُولَى، وَلَيْسَتْ لَكَ الْآخِرَةُ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نامحرم عورت پر ایک مرتبہ نظر پڑجانے کے بعد دوبارہ نظر مت ڈالا کرو کیونکہ پہلی نظر تمہیں معاف ہے لیکن دوسری نظر معاف نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى ربيعة وشريك
حدثنا وكيع ، حدثنا بشير بن مهاجر ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تعلموا، فإن اخذها بركة، وتركها حسرة، ولا يستطيعها البطلة، تعلموا عمران، فإنهما هما الزهراوان، يجيئان يوم القيامة كانهما غمامتان، او غيايتان، او كانهما فرقان من طير صواف، تجادلان عن صاحبهما" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ مُهَاجِرٍ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَعَلَّمُوا، فَإِنَّ أَخْذَهَا برَكَةٌ، وَتَرْكَهَا حَسْرَةٌ، وَلَا يَسْتَطِيعُهَا الْبطَلَةُ، تَعَلَّمُوا عِمْرَانَ، فَإِنَّهُمَا هُمَا الزَّهْرَاوَانِ، يَجِيئَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ غَيَايَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ، تُجَادِلَانِ عَنْ صَاحِبهِمَا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں شریک تھا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ سورت بقرہ کو سیکھو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت ہے اور غلط کار لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا سورت بقرہ اور آل عمران دونوں کو سیکھو کیونکہ یہ دونوں روشن سورتیں اپنے پڑھنے والوں پر قیامت کے دن بادلوں، سائبانوں یا پرندوں کی دو ٹولیوں کی صورت میں سایہ کریں گی اور اپنے پڑھنے والوں کی طرف سے جھگڑا کریں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا وكيع ، حدثنا بشير بن المهاجر ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " يجيء القرآن يوم القيامة كالرجل الشاحب، فيقول لصاحبه: انا الذي اسهرت ليلك، واظمات هواجرك" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ الْمُهَاجِرِ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " يَجِيءُ الْقُرْآنُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَالرَّجُلِ الشَّاحِب، فَيَقُولُ لِصَاحِبهِ: أَنَا الَّذِي أَسْهَرْتُ لَيْلَكَ، وَأَظْمَأْتُ هَوَاجِرَكَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قیامت کے دن جب انسان کی قبر شق ہوگی تو قرآن اپنے پڑھنے والے سے " جو لاغر آدمی کی طرح ہوگا ملے گا اور اس سے کہے گا کہ میں تمہارا وہی ساتھی قرآن ہوں جس نے تمہیں سخت گرم دوپہروں میں پیاسا رکھا اور راتوں کو جگایا۔
حكم دارالسلام: إسناده حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " حرمة نساء المجاهدين على القاعدين كحرمة امهاتهم، وما من رجل من القاعدين يخلف رجلا من المجاهدين في اهله فيخونه فيها، إلا وقف له يوم القيامة، فياخذ من عمله ما شاء، فما ظنكم؟" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " حُرْمَةُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ كَحُرْمَةِ أُمَّهَاتِهِمْ، وَمَا مِنْ رَجُلٍ مِنَ الْقَاعِدِينَ يَخْلُفُ رَجُلًا مِنَ الْمُجَاهِدِينَ فِي أَهْلِهِ فَيَخُونُهُ فِيهَا، إِلَّا وَقَفَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَأْخُذُ مِنْ عَمَلِهِ مَا شَاءَ، فَمَا ظَنُّكُمْ؟" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجاہدین کی عورتوں کی حرمت انتظار جہاد میں بیٹھنے والوں پر ان کی ماؤں جیسی ہے اگر ان بیٹھنے والوں میں سے کوئی شخص کسی مجاہد کے پیچھے اس کے اہل خانہ کا ذمہ دار بنے اور اس میں خیانت کرے تو اسے قیامت کے دن اس مجاہد کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور وہ اس کے اعمال میں سے جو چاہے گا لے لے گا اب تمہارا کیا خیال ہے؟
حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا بعث اميرا على سرية او جيش، اوصاه في خاصة نفسه بتقوى الله، ومن معه من المسلمين خيرا، وقال: " اغزوا بسم الله في سبيل الله، قاتلوا من كفر بالله، فإذا لقيت عدوك من المشركين، فادعهم إلى إحدى ثلاث خصال، او خلال فايتهن ما اجابوك إليها، فاقبل منهم، وكف عنهم ادعهم إلى الإسلام، فإن اجابوك فاقبل منهم، ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، واعلمهم إن هم فعلوا ذلك، ان لهم ما للمهاجرين، وان عليهم ما على المهاجرين، فإن ابوا واختاروا دارهم، فاعلمهم انهم يكونون كاعراب المسلمين، يجري عليهم حكم الله الذي يجري على المؤمنين، ولا يكون لهم في الفيء والغنيمة نصيب، إلا ان يجاهدوا مع المسلمين، فإن هم ابوا، فادعهم إلى إعطاء الجزية، فإن اجابوا فاقبل منهم، وكف عنهم، فإن ابوا فاستعن الله، ثم قاتلهم" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا بعَثَ أَمِيرًا عَلَى سَرِيَّةٍ أَوْ جَيْشٍ، أَوْصَاهُ فِي خَاصَّةِ نَفْسِهِ بتَقْوَى اللَّهِ، وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، وَقَالَ: " اغْزُوا بسْمِ اللَّهِ فِي سَبيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ باللَّهِ، فَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ، أَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتُهُنَّ مَا أَجَابوكَ إِلَيْهَا، فَاقْبلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، فَإِنْ أَجَابوكَ فَاقْبلْ مِنْهُمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَعْلِمْهُمْ إِنْ هُمْ فَعَلُوا ذَلِكَ، أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَأَنَّ عَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، فَإِنْ أَبوْا وَاخْتَارُوا دَارَهُمْ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَاب الْمُسْلِمِينَ، يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُؤْمِنِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْفَيْءِ وَالْغَنِيمَةِ نَصِيب، إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبوْا، فَادْعُهُمْ إِلَى إِعْطَاءِ الْجِزْيَةِ، فَإِنْ أَجَابوا فَاقْبلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ، فَإِنْ أَبوْا فَاسْتَعِنْ اللَّهَ، ثُمَّ قَاتِلْهُمْ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو کسی دستہ یا لشکر کا امیر مقرر کر کے روانہ فرماتے تو اسے خصوصیت کے ساتھ اس کو اپنے متعلق تقوی کی وصیت فرماتے اور اس کے ہمراہ مسلمانوں کے ساتھ بہترین سلوک کی تاکید فرماتے پھر فرماتے کہ اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستہ میں جہاد کرو اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں کے ساتھ قتال کرو اور جب دشمن سے تمہارا آمنا سامنا ہو تو اسے تین میں سے کسی ایک بات کو قبول کرنے کی دعوت دو وہ ان میں سے جس بات کو بھی قبول کرلیں تم اسے ان کی طرف سے تسلیم کرلو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو سب سے پہلے اسلام کی دعوت ان کے سامنے پیش کرو اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو تم بھی اسے قبول کرلو پھر انہیں اپنے علاقے سے دارالمہاجرین کی طرف منتقل ہونے کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور وہی فرائض ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اگر وہ اس سے انکار کردیں اور اپنے علاقے ہی میں رہنے کو ترجیح دیں تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی مانند شمار ہوں گے ان پر اللہ کے احکام تو ویسے ہی جاری ہوں گے جیسے تمام مسلمانوں پر ہوتے ہیں لیکن مال غنیمت میں مسلمانوں کے ہمراہ جہاد کئے بغیر ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اگر وہ اس سے انکار کردیں تو انہیں جزیہ دینے کی دعوت دو اگر وہ اسے تسلیم کرلیں تو تم اسے ان کی طرف سے قبول کرلینا اور ان سے اپنے ہاتھ روک لینا لیکن اگر وہ اس سے بھی انکار کردیں تو پھر اللہ سے مدد چاہتے ہوئے ان سے قتال کرو۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بارہ ٹانی کے ساتھ کھیلتا ہے وہ گویا اپنے ہاتھ خنزیر کے خون اور گوشت میں ڈبو دیتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ شخص ہم میں سے نہیں ہے جو امانت پر قسم اٹھا لے اور جو شخص کسی عورت کو اس کے شوہر کے خلاف بھڑکائے یا غلام کو اس کے آقا کے خلاف تو وہ ہم میں سے نہیں ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں نجاشی شاہ حبشہ نے سیاہ رنگ کے دو سادہ موزے ہدیہ میں پیش کئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں پہن لیا اور وضو کرتے ہوئے ان پر مسح فرمایا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف، دلهم بن صالح ضعيف ، وحجر بن عبدالله مجهول
حدثنا يزيد ، حدثنا المسعودي ، عن علقمة بن مرثد ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: جاء رجل إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: يا رسول الله، إني احب الخيل، ففي الجنة خيل؟ قال: " إن يدخلك الله الجنة، فلا تشاء ان تركب فرسا من ياقوتة حمراء تطير بك في اي الجنة شئت، إلا ركبت"، واتاه رجل آخر، فقال: يا رسول الله، افي الجنة إبل؟ قال:" يا عبد الله، إن يدخلك الله الجنة، كان لك فيها ما اشتهت نفسك، ولذت عينك" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، حَدَّثَنَا الْمَسْعُودِيُّ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي أُحِب الْخَيْلَ، فَفِي الْجَنَّةِ خَيْلٌ؟ قَالَ: " إِنْ يُدْخِلْكَ اللَّهُ الْجَنَّةَ، فَلَا تَشَاءُ أَنْ تَرْكَب فَرَسًا مِنْ يَاقُوتَةٍ حَمْرَاءَ تَطِيرُ بكَ فِي أَيِّ الْجَنَّةِ شِئْتَ، إِلَّا رَكِبتَ"، وَأَتَاهُ رَجُلٌ آخَرُ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَفِي الْجَنَّةِ إِبلٌ؟ قَالَ:" يَا عَبدَ اللَّهِ، إِنْ يُدْخِلْكَ اللَّهُ الْجَنَّةَ، كَانَ لَكَ فِيهَا مَا اشْتَهَتْ نَفْسُكَ، وَلَذَّتْ عَيْنُكَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ! مجھے گھوڑوں سے بہت محبت ہے تو کیا جنت میں گھوڑے ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر اللہ نے تمہیں جنت میں داخل کردیا اور تمہاری یہ خواہش ہوئی کہ تم سرخ یاقوت کے ایک گھوڑے پر سوار ہو جنت میں جہاں چاہو گھومو تو وہ بھی تمہیں سواری کے لئے ملے گا پھر دوسرا آدمی آیا اور اس نے پوچھا یا رسول اللہ! کیا جنت میں اونٹ ہوں گے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بندہ خدا! اگر اللہ نے تمہیں جنت میں داخل کردیا تو وہاں تمہیں ہر چیز ملے گی جس کی خواہش تمہارے دل میں پیدا ہوگی اور تمہاری آنکھوں کو اس سے لذت حاصل ہوگی۔
حكم دارالسلام: حديث ضعيف من أجل اختلاط المسعودي، والاختلاف فى اسناده على علقمة بن مرثد
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پئے بغیر نہیں نکلتے تھے اور عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پئے بغیر نہیں نکلتے تھے اور عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے۔
حكم دارالسلام: حديث حسن، وهذا إسناد ضعيف من أجل عقبة بن عبدالله، فهو ضعيف، لكنه توبع
حدثنا معاوية بن هشام ، وابو احمد , قالا: حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمهم إذا خرجوا إلى المقابر، فكان قائلهم يقول: " السلام عليكم اهل الديار من المؤمنين والمسلمين، إنا إن شاء الله بكم لاحقون، قال معاوية في حديثه: انتم فرطنا، ونحن لكم تبع، ونسال الله لنا ولكم العافية" .حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بنُ هِشَامٍ ، وَأَبو أَحْمَدَ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوا إِلَى الْمَقَابرِ، فَكَانَ قَائِلُهُمْ يَقُولُ: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، إنا إن شاء الله بكم لاحقون، قَالَ مُعَاوِيَةُ فِي حَدِيثِهِ: أَنْتُمْ فَرَطُنَا، وَنَحْنُ لَكُمْ تَبعٌ، وَنَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمْ الْعَافِيَةَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یہ کہا کریں کہ مؤمنین ومسلمین کی جماعت والو! تم پر سلامتی ہو ہم بھی ان شاء اللہ تم سے آکرملنے والے ہیں تم ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں اور ہم اپنے اور تمہارے لئے اللہ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا حسين بن واقد ، حدثني عبد الله ، قال: سمعت ابي بريدة ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " خمس لا يعلمهن إلا الله: إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34" .حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ الْحُباب ، حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بنُ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبي برَيْدَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " خَمْسٌ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ: إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ پانچ چیزیں ایسی ہیں جنہیں اللہ کے علاوہ کوئی نہیں جانتا قیامت کا علم اللہ ہی کے پاس ہے وہی بارش برساتا ہے وہی جانتا ہے کہ شکم مادر میں کیا ہے؟ (خوش نصیب یا بدنصیب) کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کل کیا کمائے گا؟ کوئی شخص نہیں جانتا کہ وہ کس علاقے میں مرے گا؟ بیشک اللہ ہر چیز سے واقف اور باخبر ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہونے میں تاخیر کردی حاضر ہونے پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے تاخیر کی وجہ پوچھی تو عرض کیا کہ ہم اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا ہو۔
حدثنا يزيد بن هارون ، اخبرنا إسماعيل ، عن ابي داود الاعمى ، عن بريدة الخزاعي ، قال: قلنا: يا رسول الله، قد علمنا كيف نسلم عليك، فكيف نصلي عليك؟ قال: " قولوا: اللهم اجعل صلواتك ورحمتك وبركاتك على محمد، وعلى آل محمد، كما جعلتها على إبراهيم، وعلى آل إبراهيم، إنك حميد مجيد" .حَدَّثَنَا يَزِيدُ بنُ هَارُونَ ، أَخْبرَنَا إِسْمَاعِيلُ ، عَنْ أَبي دَاوُدَ الْأَعْمَى ، عَنْ برَيْدَةَ الْخُزَاعِيِّ ، قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ عَلِمْنَا كَيْفَ نُسَلِّمُ عَلَيْكَ، فَكَيْفَ نُصَلِّي عَلَيْكَ؟ قَالَ: " قُولُوا: اللَّهُمَّ اجْعَلْ صَلَوَاتِكَ وَرَحْمَتَكَ وَبرَكَاتِكَ عَلَى مُحَمَّدٍ، وَعَلَى آلِ مُحَمَّدٍ، كَمَا جَعَلْتَهَا عَلَى إِبرَاهِيمَ، وَعَلَى آلِ إِبرَاهِيمَ، إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ" .
حضرت بریدہ خزاعی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگوں نے بارگاہ نبوت میں عرض کیا یا رسول اللہ! یہ تو ہمیں معلوم ہوگیا ہے کہ آپ کو سلام کیسے کریں یہ بتائیے کہ آپ پر درود کس طرح پڑھیں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یوں کہا کرو اے اللہ! محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی آل پر اپنی عنایات ' رحمتوں اور برکتوں کا نزول فرما جیسا کہ آل ابراہیم علیہ السلام پر نازل فرمائیں بیشک تو قابل تعریف اور بزرگی والا ہے۔ "
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا من أجل أبى داود الأعمى، وهو متروك
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثنا حسين ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه , ان امة سوداء اتت رسول الله صلى الله عليه وسلم ورجع من بعض مغازيه، فقالت: إني كنت نذرت إن ردك الله صالحا ان اضرب عندك بالدف، قال:" إن كنت فعلت، فافعلي، وإن كنت لم تفعلي، فلا تفعلي"، فضربت، فدخل ابو بكر وهي تضرب، ودخل غيره وهي تضرب، ثم دخل عمر، قال: فجعلت دفها خلفها وهي مقنعة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الشيطان ليفرق منك يا عمر، انا جالس ودخل هؤلاء، فلما ان دخلت، فعلت ما فعلت" .حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ الْحُباب ، حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ , أَنَّ أَمَةً سَوْدَاءَ أَتَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَرَجَعَ مِنْ بعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَتْ: إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّكَ اللَّهُ صَالِحًا أَنْ أَضْرِب عِنْدَكَ بالدُّفِّ، قَالَ:" إِنْ كُنْتِ فَعَلْتِ، فَافْعَلِي، وَإِنْ كُنْتِ لَمْ تَفْعَلِي، فَلَا تَفْعَلِي"، فَضَرَبتْ، فَدَخَلَ أَبو بكْرٍ وَهِيَ تَضْرِب، وَدَخَلَ غَيْرُهُ وَهِيَ تَضْرِب، ثُمَّ دَخَلَ عُمَرُ، قَالَ: فَجَعَلَتْ دُفَّهَا خَلْفَهَا وَهِيَ مُقَنَّعَةٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الشَّيْطَانَ لَيَفْرَقُ مِنْكَ يَا عُمَرُ، أَنَا جَالِسٌ وَدَخَلَ هَؤُلَاءِ، فَلَمَّا أَنْ دَخَلْتَ، فَعَلَتْ مَا فَعَلَتْ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ کسی غزوے سے واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں نے منت مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح سلامت واپس لے آیا تو میں خوشی کے اظہار میں آپ کے پاس دف بجاؤں گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے یہ منت مانی تھی تو اپنی منت پوری کرلو اور اگر نہیں مانی تھی تو نہ کرو چنانچہ وہ دف بجانے لگی اسی دوران حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ آگئے اور وہ دف بجاتی رہی پھر کچھ اور لوگ آئے لیکن وہ بجاتی رہی تھوڑی دیر بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ آئے تو اس نے اپنا دف اپنے پیچھے چھپالیا اور اپناچہرہ ڈھانپ لیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ دیکھ کر فرمایا عمر! شیطان تم سے ڈرتا ہے میں بھی یہاں بیٹھا تھا اور یہ لوگ بھی آئے تھے لیکن جب تم آئے تو اس نے وہ کیا جو اس نے کیا۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا علی! نامحرم عورت پر ایک مرتبہ نظر پڑجانے کے بعد دوبارہ نظر مت ڈالا کرو کیونکہ پہلی نظر تمہیں معاف ہے لیکن دوسری نظر معاف نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف من أجل أبى ربيعة وشريك وقد توبع
حدثنا زيد هو ابن الحباب ، حدثني حسين بن واقد ، حدثني عبد الله بن بريدة ، قال: سمعت ابي ، يقول: بينا رسول الله صلى الله عليه وسلم يمشي إذ جاء رجل معه حمار، فقال: يا رسول الله، اركب، فتاخر الرجل، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا، انت احق بصدر دابتك مني إلا ان تجعله لي"، قال: فإني قد جعلته لك، قال: فركب .حَدَّثَنَا زَيْدٌ هُوَ ابنُ الْحُباب ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بنُ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبي ، يَقُولُ: بيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْشِي إِذْ جَاءَ رَجُلٌ مَعَهُ حِمَارٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، ارْكَب، فَتَأَخَّرَ الرَّجُلُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا، أَنْتَ أَحَقُّ بصَدْرِ دَابتِكَ مِنِّي إِلَّا أَنْ تَجْعَلَهُ لِي"، قَالَ: فَإِنِّي قَدْ جَعَلْتُهُ لَكَ، قَالَ: فَرَكِب .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پیدل چلے جا رہے تھے کہ ایک آدمی گدھے پر سوار آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! اس پر سوار ہوجائیے اور خود پیچھے ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی سواری کے اگلے حصے پر بیٹھنے کے زیادہ حقدار ہو، الاّ یہ کہ تم مجھے اس کی اجازت دے دو اس نے کہا کہ میں نے آپ کو اجازت دے دی چنانچہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوگئے۔
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثني الحسين بن واقد ، حدثني عبد الله بن بريدة ، حدثني ابي بريدة ، قال: حاصرنا خيبر، فاخذ اللواء ابو بكر، فانصرف ولم يفتح له، ثم اخذه من الغد عمر، فخرج، فرجع ولم يفتح له، واصاب الناس يومئذ شدة وجهد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني دافع اللواء غدا إلى رجل يحبه الله ورسوله ويحب الله ورسوله، لا يرجع حتى يفتح له"، فبتنا طيبة انفسنا ان الفتح غدا، فلما ان اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم صلى الغداة، ثم قام قائما، فدعا باللواء والناس على مصافهم، فدعا عليا وهو ارمد، فتفل في عينيه، ودفع إليه اللواء، وفتح له ، قال بريدة: وانا فيمن تطاول لها.حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ الْحُباب ، حَدَّثَنِي الْحُسَيْنُ بنُ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، حَدَّثَنِي أَبي برَيْدَةُ ، قَالَ: حَاصَرْنَا خَيْبرَ، فَأَخَذَ اللِّوَاءَ أَبو بكْرٍ، فَانْصَرَفَ وَلَمْ يُفْتَحْ لَهُ، ثُمَّ أَخَذَهُ مِنَ الْغَدِ عمر، فَخَرَجَ، فَرَجَعَ وَلَمْ يُفْتَحْ لَهُ، وَأَصَاب النَّاسَ يَوْمَئِذٍ شِدَّةٌ وَجَهْدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي دَافِعٌ اللِّوَاءَ غَدًا إِلَى رَجُلٍ يُحِبهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ وَيُحِب اللَّهَ وَرَسُولَهُ، لَا يَرْجِعُ حَتَّى يُفْتَحَ لَهُ"، فَبتْنَا طَيِّبةٌ أَنْفُسُنَا أَنَّ الْفَتْحَ غَدًا، فَلَمَّا أَنْ أَصْبحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ صَلَّى الْغَدَاةَ، ثُمَّ قَامَ قَائِمًا، فَدَعَا باللِّوَاءِ وَالنَّاسُ عَلَى مَصَافِّهِمْ، فَدَعَا عَلِيًّا وَهُوَ أَرْمَدُ، فَتَفَلَ فِي عَيْنَيْهِ، وَدَفَعَ إِلَيْهِ اللِّوَاءَ، وَفُتِحَ لَهُ ، قَالَ برَيْدَةُ: وَأَنَا فِيمَنْ تَطَاوَلَ لَهَا.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے خیبر کا محاصرہ کیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑا لیکن وہ مخصوص اور اہم قلعہ فتح کئے بغیر واپس آگئے اگلے دن پھر جھنڈا پکڑا اور روانہ ہوگئے لیکن آج بھی وہ قلعہ فتح نہ ہوسکا اور اس دن لوگوں کو خوب مشقت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جسے اللہ اور اس کا رسول محبوب رکھتے ہوں گے اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور فتح حاصل کئے بغیر واپس نہ آئے گا۔ چنانچہ ساری رات ہم اس بات پر خوش ہوتے رہے کہ کل یہ قلعہ بھی فتح ہوجائے گا جب صبح ہوئی تو نماز فجر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور جھنڈا منگوایا لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا جنہیں آشوب چشم تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگایا اور جھنڈا ان کے حوالے کردیا اور ان کے ہاتھوں وہ قلعہ فتح ہوگیا حالانکہ اس کی خواہش کرنے والوں میں میں بھی تھا۔
حدثنا زيد بن حباب ، حدثني حسين بن واقد ، حدثني عبد الله بن بريدة ، قال: سمعت ابي بريدة ، يقول: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يخطبنا، فجاء الحسن والحسين عليهما قميصان احمران يمشيان ويعثران، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم من المنبر، فحملهما فوضعهما بين يديه، ثم قال: " صدق الله ورسوله إنما اموالكم واولادكم فتنة سورة التغابن آية 15 نظرت إلى هذين الصبيين يمشيان ويعثران، فلم اصبر حتى قطعت حديثي، ورفعتهما" .حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ حُباب ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بنُ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، قال: سَمِعْتُ أَبي برَيْدَةَ ، يَقُولُ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَخْطُبنَا، فَجَاءَ الْحَسَنُ وَالْحُسَيْنُ عَلَيْهِمَا قَمِيصَانِ أَحْمَرَانِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنَ الْمِنْبرِ، فَحَمَلَهُمَا فَوَضَعَهُمَا بيْنَ يَدَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: " صَدَقَ اللَّهُ وَرَسُولُهُ إِنَّمَا أَمْوَالُكُمْ وَأَوْلادُكُمْ فِتْنَةٌ سورة التغابن آية 15 نَظَرْتُ إِلَى هَذَيْنِ الصَّبيَّيْنِ يَمْشِيَانِ وَيَعْثُرَانِ، فَلَمْ أَصْبرْ حَتَّى قَطَعْتُ حَدِيثِي، وَرَفَعْتُهُمَا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک مرتبہ ہمارے سامنے خطبہ دے رہے تھے کہ امام حسن اور حسین رضی اللہ عنہ سرخ رنگ کی قمیضیں پہنے ہوئے لڑکھڑاتے چلتے نظر آئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم منبر سے نیچے اترے اور انہیں اٹھا کر اپنے سامنے بٹھا لیا پھر فرمایا اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا کہ تمہارا مال اور تمہاری اولاد آزمائش کا سبب ہیں میں نے ان دونوں بچوں کو لڑکھڑا کر چلتے ہوئے دیکھا تو مجھ سے رہا نہ گیا اور میں نے اپنی بات درمیان میں چھوڑ کر انہیں اٹھا لیا۔
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثني حسين بن واقد ، اخبرني عبد الله بن بريدة ، قال: سمعت ابي بريدة ، يقول: اصبح رسول الله صلى الله عليه وسلم، فدعا بلالا، فقال:" يا بلال، بم سبقتني إلى الجنة؟ ما دخلت الجنة قط إلا سمعت خشخشتك امامي، إني دخلت البارحة الجنة، فسمعت خشخشتك، فاتيت على قصر من ذهب مرتفع مشرف، فقلت: لمن هذا القصر؟ قالوا: لرجل من العرب، قلت: انا عربي، لمن هذا القصر؟ قالوا: لرجل من المسلمين من امة محمد، قلت: فانا محمد، لمن هذا القصر؟ قالوا: لعمر بن الخطاب، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لولا غيرتك يا عمر، لدخلت القصر"، فقال: يا رسول الله، ما كنت لاغار عليك، قال: وقال لبلال:" بم سبقتني إلى الجنة؟!"، قال: ما احدثت إلا توضات، وصليت ركعتين، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بهذا" .حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ الْحُباب ، حَدَّثَنِي حُسَيْنُ بنُ وَاقِدٍ ، أَخْبرَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبي برَيْدَةَ ، يَقُولُ: أَصْبحَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَدَعَا بلَالًا، فَقَالَ:" يَا بلَالُ، بمَ سَبقْتَنِي إِلَى الْجَنَّةِ؟ مَا دَخَلْتُ الْجَنَّةَ قَطُّ إِلَّا سَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي، إِنِّي دَخَلْتُ الْبارِحَةَ الْجَنَّةَ، فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ، فَأَتَيْتُ عَلَى قَصْرٍ مِنْ ذَهَب مُرْتَفِعٍ مُشْرِفٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنَ الْعَرَب، قُلْتُ: أَنَا عَرَبيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنَ الْمُسْلِمِينَ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: فَأَنَا مُحَمَّدٌ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِعُمَرَ بنِ الْخَطَّاب، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَوْلَا غَيْرَتُكَ يَا عُمَرُ، لَدَخَلْتُ الْقَصْرَ"، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا كُنْتُ لِأَغَارَ عَلَيْكَ، قَالَ: وَقَالَ لِبلَالٍ:" بمَ سَبقْتَنِي إِلَى الْجَنَّةِ؟!"، قَالَ: مَا أَحْدَثْتُ إِلَّا تَوَضَّأْتُ، وَصَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بهَذَا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے پوچھا بلال! تم جنت میں مجھ سے آگے کیسے تھے؟ میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے سے تمہاری آہٹ سنی ابھی آج رات ہی میں جنت میں داخل ہوا تو تمہاری آہٹ پھر سنائی دی پھر میں سونے سے بنے ہوئے ایک بلند وبالا محل کے سامنے پہنچا اور لوگوں سے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ایک عربی آدمی کا ہے میں نے کہا کہ عربی تو میں بھی ہوں یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ امت محمدیہ کے ایک مسلمان آدمی کا ہے میں نے کہا کہ پھر میں تو خود محمد ہوں صلی اللہ علیہ وسلم یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ عمر بن خطاب کا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! اگر مجھے تمہاری غیرت کا خیال نہ آتا تو میں اس محل میں ضرور داخل ہوتا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے سامنے غیرت دکھاؤں گا؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا تم جنت میں مجھ سے آگے کیسے تھے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں جب بھی بےوضو ہوا تو وضو کر کے دو رکعتیں ضرور پڑھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی اس کا سبب ہے۔
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثني حسين ، حدثني عبد الله بن بريدة ، قال: سمعت بريدة ، يقول: جاء سلمان إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حين قدم المدينة بمائدة عليها رطب، فوضعها بين يدي رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما هذا يا سلمان؟"، قال: صدقة عليك وعلى اصحابك، قال: " ارفعها، فإنا لا ناكل الصدقة"، فرفعها، وجاءه من الغد بمثله، فوضعه بين يديه، قال:" ما هذا يا سلمان؟"، قال: صدقة عليك وعلى اصحابك، قال:" ارفعها، فإنا لا ناكل الصدقة"، فرفعها، فجاء من الغد بمثله، فوضعه بين يديه، ويحمله، فقال:" ما هذا يا سلمان؟"، فقال: هدية لك، فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم لاصحابه:" ابسطوا"، فنظر إلى الخاتم الذي على ظهر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فآمن به، وكان لليهود، فاشتراه رسول الله صلى الله عليه وسلم بكذا وكذا درهما، وعلى ان يغرس نخلا، فيعمل سلمان فيها حتى تطعم، قال: فغرس رسول الله صلى الله عليه وسلم النخل إلا نخلة واحدة غرسها عمر، فحملت النخل من عامها، ولم تحمل النخلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما شان هذه؟"، قال عمر: انا غرستها يا رسول الله، قال: فنزعها رسول الله صلى الله عليه وسلم، ثم غرسها فحملت من عامها .حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ الْحُباب ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ برَيْدَةَ ، يَقُولُ: جَاءَ سَلْمَانُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ قَدِمَ الْمَدِينَةَ بمَائِدَةٍ عَلَيْهَا رُطَب، فَوَضَعَهَا بيْنَ يَدَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا هَذَا يَا سَلْمَانُ؟"، قَالَ: صَدَقَةٌ عَلَيْكَ وَعَلَى أَصْحَابكَ، قَالَ: " ارْفَعْهَا، فَإِنَّا لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةَ"، فَرَفَعَهَا، وَجَاءهَ مِنَ الْغَدِ بمِثْلِهِ، فَوَضَعَهُ بيْنَ يَدَيْهِ، َقَالَ:" مَا هَذَا يَا سَلْمَانُ؟"، قال: صدقةٌ عليك وعلى أصحابك، قال:" أرفعها، فإنا لا نأكل الصدقة"، فرفعها، فجاء من الغد بمثله، فوضعه بين يديه، ويحمله، فقال:" ما هذا يا سلمان؟"، فقال: هديةٌ لك، فقال رسول الله صلي الله عليه وسلم لأصحابه:" ابسُطُوا"، فَنَظَرَ إِلَى الْخَاتَمِ الَّذِي عَلَى ظَهْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَآمَنَ بهِ، وَكَانَ لِلْيَهُوَدِ، فَاشْتَرَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بكَذَا وَكَذَا دِرْهَمًا، وَعَلَى أَنْ يَغْرِسَ نَخْلًا، فَيَعْمَلَ سَلْمَانُ فِيهَا حَتَّى تُطعَمَ، قَالَ: فَغَرَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ النَّخْلَ إِلَّا نَخْلَةً وَاحِدَةً غَرَسَهَا عُمَرُ، فَحَمَلَتْ النَّخْلُ مِنْ عَامِهَا، وَلَمْ تَحْمِلْ النَّخْلَةُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَا شَأْنُ هَذِهِ؟"، قَالَ عُمَرُ: أَنَا غَرَسْتُهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَنَزَعَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ثُمَّ غَرَسَهَا فَحَمَلَتْ مِنْ عَامِهَا .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ جب مدینہ منورہ آئے تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں تر کھجوروں کی ایک طشتری لے کر حاضر ہوئے اور اسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھ دیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا سلمان! یہ کیا ہے؟ عرض کیا کہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے لئے صدقہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسے لے جاؤ ہم صدقہ نہیں کھاتے وہ اسے اٹھا کرلے گئے اور اگلے دن اسی طرح کھجوریں لا کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے رکھیں (وہی سوال جواب ہوئے اور وہ تیسرے دن پھر حاضر ہوئے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا سلمان! یہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا یہ آپ کے لئے ہدیہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہ کو بھی اس میں شامل کرلیا۔ پھر انہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر نبوت "" جو پشت مبارک پر تھی "" دیکھی اور ایمان لے آئے چونکہ وہ ایک یہودی کے غلام تھے اس لئے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اتنے دراہم اور اس شرط پر انہیں خرید لیا کہ مسلمان ایک باغ لگا کر اس میں محنت کریں گے یہاں تک کہ اس میں پھل آجائے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس باغ میں پودے اپنے دست مبارک سے لگائے سوائے ایک پودے کے جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے لگایا تھا اور اسی سال درخت پر پھل آگیا سوائے اسی ایک درخت کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ اس کا کیا ماجرا ہے؟ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ! اسے میں نے لگایا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اکھیڑ کر خود لگایا تو وہ بھی ایک ہی سال میں پھل دینے لگا۔
حدثنا زيد ، حدثني حسين ، حدثني عبد الله بن بريدة ، قال: سمعت ابي بريدة ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " في الإنسان ستون وثلاث مائة مفصل، فعليه ان يتصدق عن كل مفصل منها صدقة"، قالوا: فمن الذي يطيق ذلك يا رسول الله؟ قال:" النخاعة في المسجد تدفنها، او الشيء تنحيه عن الطريق، فإن لم تقدر، فركعتا الضحى تجزئ عنك" .حَدَّثَنَا زَيْدٌ ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبي برَيْدَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " فِي الْإِنْسَانِ سِتُّونَ وَثَلَاثُ مِائَةِ مَفْصِلٍ، فَعَلَيْهِ أَنْ يَتَصَدَّقَ عَنْ كُلِّ مَفْصِلٍ مِنْهَا صَدَقَةً"، قَالُوا: فَمَنْ الَّذِي يُطِيقُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" النُّخَاعَةُ فِي الْمَسْجِدِ تَدْفِنُهَا، أَوْ الشَّيْءُ تُنَحِّيهِ عَنِ الطَّرِيقِ، فَإِنْ لَمْ تَقْدِرْ، فَرَكْعَتَا الضُّحَى تُجْزِئُ عَنْكَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر انسان کے تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور اس پر ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر مسجد میں تھوک نظر آئے تو اس پر مٹی ڈال دو راستے میں تکلیف دہ چیز کو ہٹا دو اگر یہ سب نہ کرسکو تو چاشت کے وقت دو رکعتیں تمہاری طرف سے کفایت کر جائیں گی۔
حدثنا زيد ، حدثني حسين ، حدثني عبد الله ، قال: سمعت ابي بريدة ، يقول: سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول: " عليكم بالحبة السوداء وهي الشونيز، فإن فيها شفاء" .حَدَّثَنَا زَيْدٌ ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبي برَيْدَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " عَلَيْكُمْ بالْحَبةِ السَّوْدَاءِ وَهِيَ الشُّونِيزُ، فَإِنَّ فِيهَا شِفَاءً" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ اس کلونجی کو اپنے اوپر لازم کرلو کیونکہ اس میں شفاء ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں اسی صفیں صرف اس امت کی ہوں گی۔
حدثنا حسن بن موسى ، واحمد بن عبد الملك , قالا: حدثنا زهير ، قال احمد بن عبد الملك في حديثه: حدثنا زبيد بن الحارث اليامي ، عن محارب بن دثار ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم، فنزل بنا ونحن معه قريب من الف راكب، فصلى ركعتين، ثم اقبل علينا بوجهه وعيناه تذرفان، فقام إليه عمر بن الخطاب، ففداه بالاب والام يقول: يا رسول الله، ما لك؟ قال: " إني سالت ربي عز وجل في الاستغفار لامي، فلم ياذن لي، فدمعت عيناي رحمة لها من النار، وإني كنت نهيتكم عن ثلاث: عن زيارة القبور، فزوروها لتذكركم زيارتها خيرا، ونهيتكم عن لحوم الاضاحي بعد ثلاث، فكلوا وامسكوا ما شئتم، ونهيتكم عن الاشربة في الاوعية، فاشربوا في اي وعاء شئتم، ولا تشربوا مسكرا" .حَدَّثَنَا حَسَنُ بنُ مُوسَى ، وَأَحْمَدُ بنُ عَبدِ الْمَلِكِ , قَالَا: حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، قَالَ أَحْمَدُ بنُ عَبدِ الْمَلِكِ فِي حَدِيثِهِ: حَدَّثَنَا زُبيْدُ بنُ الْحَارِثِ الْيَامِيُّ ، عَنْ مُحَارِب بنِ دِثَارٍ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَزَلَ بنَا وَنَحْنُ مَعَهُ قَرِيب مِنْ أَلْفِ رَاكِب، فَصَلَّى رَكْعَتَيْنِ، ثُمَّ أَقْبلَ عَلَيْنَا بوَجْهِهِ وَعَيْنَاهُ تَذْرِفَانِ، فَقَامَ إِلَيْهِ عُمَرُ بنُ الْخَطَّاب، فَفَدَاهُ بالْأَب وَالْأُمِّ يَقُولُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا لَكَ؟ قَالَ: " إِنِّي سَأَلْتُ رَبي عَزَّ وَجَلَّ فِي الِاسْتِغْفَارِ لِأُمِّي، فَلَمْ يَأْذَنْ لِي، فَدَمَعَتْ عَيْنَايَ رَحْمَةً لَهَا مِنَ النَّارِ، وَإِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ ثَلَاثٍ: عَنْ زِيَارَةِ الْقُبورِ، فَزُورُوهَا لِتُذَكِّرَكُمْ زِيَارَتُهَا خَيْرًا، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ بعْدَ ثَلَاثٍ، فَكُلُوا وَأَمْسِكُوا مَا شِئْتُمْ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ الْأَشْرِبةِ فِي الْأَوْعِيَةِ، فَاشْرَبوا فِي أَيِّ وِعَاءٍ شِئْتُمْ، وَلَا تَشْرَبوا مُسْكِرًا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ایک جگہ پہنچ کر پڑاؤ کیا اس وقت ہم لوگ ایک ہزار کے قریب شہسوار تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور ہماری طرف رخ کر کے متوجہ ہوئے تو آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اپنے ماں باپ کو قربان کرتے ہوئے پوچھا یا رسول اللہ! کیا بات ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کے لئے بخشش کی دعاء کرنے کی اجازت مانگی تھی، لیکن مجھے اجازت نہیں ملی تو شفقت کی وجہ سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا، قبرستان جانے سے لیکن اب چلے جایا کرو تاکہ تمہیں آخرت کی یاد آئے میں نے تمہیں تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا اب اسے کھاؤ اور جب تک چاہو رکھو اور میں نے تمہیں مخصوص برتنوں میں پینے سے منع فرمایا تھا اب جس برتن میں چاہو پی سکتے ہو البتہ نشہ آور چیز مت پینا۔
حدثنا ابو معاوية ، عن ليث ، عن علقمة بن مرثد ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " فضل نساء المجاهدين على القاعدين في الحرمة كفضل امهاتهم، وما من قاعد يخلف مجاهدا في اهله، فيخونه في اهله، إلا وقف له يوم القيامة، قيل له: إن هذا خانك في اهلك، فخذ من عمله ما شئت، قال: فما ظنكم؟" .حَدَّثَنَا أَبو مُعَاوِيَةَ ، عَنْ لَيْثٍ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فَضْلُ نِسَاءِ الْمُجَاهِدِينَ عَلَى الْقَاعِدِينَ فِي الْحُرْمَةِ كَفَضْلِ أُمَّهَاتِهِمْ، وَمَا مِنْ قَاعِدٍ يَخْلُفُ مُجَاهِدًا فِي أَهْلِهِ، فَيُخَونه فِي أَهْلِهِ، إِلَّا وَقَفَ لَهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، قِيلَ لَهُ: إِنَّ هَذَا خَانَكَ فِي أَهْلِكَ، فَخُذْ مِنْ عَمَلِهِ مَا شِئْتَ، قَالَ: فَمَا ظَنُّكُمْ؟" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجاہدین کی عورتوں کی حرمت انتظار جہاد میں بیٹھنے والوں پر ان کی ماؤں جیسی ہے اگر ان بیٹھنے والوں میں سے کوئی شخص کسی مجاہد کے پیچھے اس کے اہل خانہ کا ذمہ دار بنے اور اس میں خیانت کرے تو اسے قیامت کے دن اس مجاہد کے سامنے کھڑا کیا جائے گا اور وہ اس کے اعمال میں سے جو چاہے گا لے لے گا اب تمہارا کیا خیال ہے؟
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 1897، وهذا إسناد ضعيف لضعف ليث
حدثنا عبد الرزاق ، حدثنا معمر ، عن عطاء الخراساني ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني كنت نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها، فإنها تذكر الآخرة، ونهيتكم عن نبيذ الجر، فانتبذوا في كل وعاء، واجتنبوا كل مسكر، ونهيتكم عن اكل لحوم الاضاحي بعد ثلاث، فكلوا وتزودوا وادخروا" .حَدَّثَنَا عَبدُ الرَّزَّاقِ ، حَدَّثَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ عَطَاءٍ الْخُرَاسَانِيِّ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبورِ، فَزُورُوهَا، فَإِنَّهَا تُذَكِّرُ الْآخِرَةَ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ نَبيذِ الْجَرِّ، فَانْتَبذُوا فِي كُلِّ وِعَاءٍ، وَاجْتَنِبوا كُلَّ مُسْكِرٍ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ أَكْلِ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ بعْدَ ثَلَاثٍ، فَكُلُوا وَتَزَوَّدُوا وَادَّخِرُوا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا، قبرستان جانے سے لیکن اب چلے جایا کرو تاکہ تمہیں آخرت کی یاد آئے میں نے تمہیں تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا اب اسے کھاؤ اور جب تک چاہو رکھو اور میں نے تمہیں مخصوص برتنوں میں پینے سے منع فرمایا تھا اب جس برتن میں چاہو پی سکتے ہو البتہ نشہ آور چیز مت پینا۔
حدثنا زيد بن الحباب من كتابه، حدثني حسين ، حدثني ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من حلف انه بريء من الإسلام، فإن كان كاذبا، فهو كما قال، وإن كان صادقا، فلن يرجع إلى الإسلام سالما" .حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ الْحُباب مِنْ كِتَابهِ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنِي ابنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ حَلَفَ أَنَّهُ برِيءٌ مِنْ الْإِسْلَامِ، فَإِنْ كَانَ كَاذِبا، فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَإِنْ كَانَ صَادِقًا، فَلَنْ يَرْجِعَ إِلَى الْإِسْلَامِ سَالِمًا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس بات کی قسم کھائے کہ وہ اسلام سے بری ہے اگر وہ جھوٹی قسم کھا رہا ہو تو وہ ایسا ہی ہوگا جیسے اس نے کہا اور اگر وہ سچا ہو تو پھر وہ اسلام کی طرف کبھی بھی صحیح سالم واپس نہیں آئے گا۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہمارے اور مشرکین کے درمیان فرق کرنے والی چیز نماز ہے لہٰذا جو شخص نماز چھوڑ دیتا ہے وہ کفر کرتا ہے۔
حدثنا زيد بن الحباب ، حدثني حسين ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، قال: سمعت ابي بريدة ، يقول: إن معاذ بن جبل صلى باصحابه صلاة العشاء، فقرا فيها اقتربت الساعة، فقام رجل من قبل ان يفرغ، فصلى وذهب، فقال له معاذ قولا شديدا، فاتى الرجل النبي صلى الله عليه وسلم، فاعتذر إليه، فقال: إني كنت اعمل في نخل، فخفت على الماء، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " صل ب وضحاها، ونحوها من السور" .حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ الْحُباب ، حَدَّثَنِي حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبي برَيْدَةَ ، يَقُولُ: إِنَّ مُعَاذَ بنَ جَبلٍ صَلَّى بأَصْحَابهِ صَلَاةَ الْعِشَاءِ، فَقَرَأَ فِيهَا اقْتَرَبتْ السَّاعَةُ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنْ قَبلِ أَنْ يَفْرُغَ، فَصَلَّى وَذَهَب، فَقَالَ لَهُ مُعَاذٌ قَوْلًا شَدِيدًا، فَأَتَى الرَّجُلُ النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاعْتَذَرَ إِلَيْهِ، فَقَالَ: إِنِّي كُنْتُ أَعْمَلُ فِي نَخْلٍ، فَخِفْتُ عَلَى الْمَاءِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " صَلِّ ب وَضُحَاهَا، وَنَحْوِهَا مِنَ السُّوَرِ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے لوگوں کو نماز عشاء پڑھائی تو اس میں سورت قمر پوری تلاوت کی ایک آدمی ان کی نماز ختم ہونے سے پہلے اٹھا اور اپنی نماز تنہا پڑھ کر واپس چلا گیا حضرت معاذ رضی اللہ عنہ نے اس کے متعلق سخت باتیں کہیں وہ آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا کہ میں باغات میں کام کرتا ہوں اور مجھے پانی ختم ہوجانے کا اندیشہ تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا (اے معاذ) سورت الشمس اور اس جیسی سورتیں نماز میں پڑھا کرو۔
حدثنا يحيى بن واضح ابو تميلة ، اخبرني حسين بن واقد ، قال: سمعت ابن بريدة ، يقول: سمعت ابي ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من قال: إني بريء من الإسلام، فإن كان كاذبا، فهو كما قال، وإن كان صادقا، فلن يرجع إلى الإسلام" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ وَاضِحٍ أَبو تُمَيْلَةَ ، أَخْبرَنِي حُسَيْنُ بنُ وَاقِدٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ ابنَ برَيْدَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ أَبي ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يقول: " مَنْ قَالَ: إِنِّي برِيءٌ مِنْ الْإِسْلَامِ، فَإِنْ كَانَ كَاذِبا، فَهُوَ كَمَا قَالَ، وَإِنْ كَانَ صَادِقًا، فَلَنْ يَرْجِعَ إِلَى الْإِسْلَامِ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص اس بات کی قسم کھائے کہ وہ اسلام سے بری ہے اگر وہ جھوٹی قسم کھا رہا ہو تو وہ ایسا ہی ہوگا جیسے اس نے کہا اور اگر وہ سچا ہو تو پھر وہ اسلام کی طرف کبھی بھی صحیح سالم واپس نہیں آئے گا۔
حدثنا ابو تميلة يحيى بن واضح ، اخبرنا حسين بن واقد ، حدثني عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: رجع رسول الله صلى الله عليه وسلم من بعض مغازيه، فجاءت جارية سوداء، فقالت: يا رسول الله، إني كنت نذرت إن ردك الله تعالى سالما ان اضرب على راسك بالدف، فقال: " إن كنت نذرت، فافعلي، وإلا فلا"، قالت: إني كنت نذرت، قال: فقعد رسول الله صلى الله عليه وسلم، فضربت بالدف .حَدَّثَنَا أَبو تُمَيْلَةَ يَحْيَى بنُ وَاضِحٍ ، أَخْبرَنَا حُسَيْنُ بنُ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنِي عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: رَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بعْضِ مَغَازِيهِ، فَجَاءَتْ جَارِيَةٌ سَوْدَاءُ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ إِنْ رَدَّكَ اللَّهُ تَعَالَى سَالِمًا أَنْ أَضْرِب عَلَى رَأْسِكَ بالدُّفِّ، فَقَالَ: " إِنْ كُنْتِ نَذَرْتِ، فَافْعَلِي، وَإِلَّا فَلَا"، قَالَتْ: إِنِّي كُنْتُ نَذَرْتُ، قَالَ: فَقَعَدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَضَرَبتْ بالدُّفِّ .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ کسی غزوے سے واپس تشریف لائے تو ایک سیاہ فام عورت بارگاہ نبوت میں حاضر ہوئی اور عرض کیا کہ میں نے یہ منت مانی تھی کہ اگر اللہ تعالیٰ آپ کو صحیح سلامت واپس لے آیا تو میں خوشی کے اظہار میں آپ کے پاس دف بجاؤں گی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر تم نے یہ منت مانی تھی تو اپنی منت پوری کرلو اور اگر نہیں مانی تھی تو نہ کرو چناچہ وہ دف بجانے لگی۔
حدثنا ابن نمير ، حدثني اجلح الكندي ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه بريدة ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم بعثين إلى اليمن، على احدهما علي بن ابي طالب، وعلى الآخر خالد بن الوليد، فقال:" إذا التقيتم فعلي على الناس، وإن افترقتما، فكل واحد منكما على جنده"، قال: فلقينا بني زيد من اهل اليمن، فاقتتلنا، فظهر المسلمون على المشركين، فقتلنا المقاتلة، وسبينا الذرية، فاصطفى علي امراة من السبي لنفسه، قال بريدة: فكتب معي خالد بن الوليد إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم يخبره بذلك، فلما اتيت النبي صلى الله عليه وسلم، دفعت الكتاب، فقرئ عليه، فرايت الغضب في وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلت: يا رسول الله، هذا مكان العائذ، بعثتني مع رجل وامرتني ان اطيعه، ففعلت ما ارسلت به، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا تقع في علي، فإنه مني وانا منه، وهو وليكم بعدي، وإنه مني وانا منه، وهو وليكم بعدي" .حَدَّثَنَا ابنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنِي أَجْلَحُ الْكِنْدِيُّ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ برَيْدَةَ ، قَالَ: بعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بعْثَيْنِ إِلَى الْيَمَنِ، عَلَى أَحَدِهِمَا عَلِيُّ بنُ أَبي طَالِب، وَعَلَى الْآخَرِ خَالِدُ بنُ الْوَلِيدِ، فَقَالَ:" إِذَا الْتَقَيْتُمْ فَعَلِيٌّ عَلَى النَّاسِ، وَإِنْ افْتَرَقْتُمَا، فَكُلُّ وَاحِدٍ مِنْكُمَا عَلَى جُنْدِهِ"، قَالَ: فَلَقِينَا بنِي زَيْدٍ مِنْ أَهْلِ الْيَمَنِ، فَاقْتَتَلْنَا، فَظَهَرَ الْمُسْلِمُونَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ، فَقَتَلْنَا الْمُقَاتِلَةَ، وَسَبيْنَا الذُّرِّيَّةَ، فَاصْطَفَى عَلِيٌّ امْرَأَةً مِنَ السَّبيِ لِنَفْسِهِ، قَالَ برَيْدَةُ: فَكَتَب مَعِي خَالِدُ بنُ الْوَلِيدِ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُخْبرُهُ بذَلِكَ، فَلَمَّا أَتَيْتُ النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، دَفَعْتُ الْكِتَاب، فَقُرِئَ عَلَيْهِ، فَرَأَيْتُ الْغَضَب فِي وَجْهِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، هَذَا مَكَانُ الْعَائِذِ، بعَثْتَنِي مَعَ رَجُلٍ وَأَمَرْتَنِي أَنْ أُطِيعَهُ، فَفَعَلْتُ مَا أُرْسِلْتُ بهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا تَقَعْ فِي عَلِيٍّ، فَإِنَّهُ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَلِيُّكُمْ بعْدِي، وَإِنَّهُ مِنِّي وَأَنَا مِنْهُ، وَهُوَ وَلِيُّكُمْ بعْدِي" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یمن کی طرف دو دستے روانہ فرمائے جن میں سے ایک پر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو اور دوسرے پر حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو امیر مقرر کرتے ہوئے فرمایا جب تم لوگ اکٹھے ہو تو علی سب کے امیر ہوں گے اور جب جدا ہو تو ہر ایک اپنے دستے کا امیر ہوگا چناچہ ہماری ملاقات اہل یمن میں سے بنو زید سے ہوئی ہم نے ان سے قتال کیا تو مسلمان مشرکین پر غالب آگئے ہم نے لڑنے والوں کو قتل اور بچوں کو قید کرلیا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ان میں سے ایک قیدی عورت اپنے لئے منتخب کرلی۔
حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے یہ دیکھ کر نبی کریم کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک خط لکھا جس میں انہیں اس سے مطلع کیا گیا تھا اور وہ خط مجھے دے کر بھیج دیا میں بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور خط پیش کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ خط پڑھ کر سنایا گیا میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روئے انور پر غصے کے آثار دیکھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! میں اللہ کی پناہ میں آتا ہوں آپ نے مجھے ایک آدمی کے ساتھ بھیجا تھا اور مجھے اس کی اطاعت کا حکم دیا تھا میں نے اس پیغام پر عمل کیا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم علی کے متعلق کسی غلط فہمی میں نہ پڑنا وہ مجھ سے ہے اور میں اس سے ہوں اور وہ میرے بعد تمہارا محبوب ہے (یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا)
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف بهذه السياقة من أجل أجلح الكندي
حدثنا ابو كامل ، حدثنا زهير ، حدثنا الوليد بن ثعلبة الطائي ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من قال حين يصبح، او حين يمسي: اللهم انت ربي لا إله إلا انت، خلقتني وانا عبدك، وانا على عهدك ووعدك ما استطعت، اعوذ بك من شر ما صنعت، ابوء بنعمتك علي، وابوء بذنبي فاغفر لي، إنه لا يغفر الذنوب إلا انت، فمات من يومه، او من ليلته، دخل الجنة" .حَدَّثَنَا أَبو كَامِلٍ ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بنُ ثَعْلَبةَ الطَّائِيُّ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ قَالَ حِينَ يُصْبحُ، أَوْ حِينَ يُمْسِي: اللَّهُمَّ أَنْتَ رَبي لَا إِلَهَ إِلَّا أَنْتَ، خَلَقْتَنِي وَأَنَا عَبدُكَ، وَأَنَا عَلَى عَهْدِكَ وَوَعْدِكَ مَا اسْتَطَعْتُ، أَعُوذُ بكَ مِنْ شَرِّ مَا صَنَعْتُ، أَبوءُ بنِعْمَتِكَ عَلَيَّ، وَأَبوءُ بذَنْبي فَاغْفِرْ لِي، إِنَّهُ لَا يَغْفِرُ الذُّنُوب إِلَّا أَنْتَ، فَمَاتَ مِنْ يَوْمِهِ، أَوْ مِنْ لَيْلَتِهِ، دَخَلَ الْجَنَّةَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص صبح شام کے وقت یوں کہہ لیا کرے کہ اے اللہ تو ہی میرا رب ہے تیرے علاوہ کوئی معبود نہیں تو نے ہی مجھے پیدا کیا میں تیرا بندہ ہوں اور جہاں تک ممکن ہو تجھ سے کئے گئے عہد اور وعدے پر قائم ہوں میں اپنے گناہوں کے شر سے تیری پناہ میں آتا ہوں اپنے اوپر تیرے احسانات کا اعتراف کرتا ہوں اور اپنے گناہوں کا بھی اقرار کرتا ہوں پس تو میرے گناہوں کو معاف فرما کیونکہ تیرے علاوہ کوئی بھی گناہوں کو معاف نہیں کرسکتا اور اس دن یا رات کو مرگیا تو جنت میں داخل ہوگا۔
حدثنا اسود بن عامر ، حدثنا شريك ، عن ابي ربيعة ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: " امرني الله عز وجل بحب اربعة من اصحابي ارى شريكا، قال: واخبرني انه يحبهم علي منهم، وابو ذر، وسلمان، والمقداد الكندي" .حَدَّثَنَا أَسْوَدُ بنُ عَامِرٍ ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ ، عَنْ أَبي رَبيعَةَ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، عَنِ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " أَمَرَنِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بحُب أَرْبعَةٍ مِنْ أَصْحَابي أَرَى شَرِيكًا، قَالَ: وَأَخْبرَنِي أَنَّهُ يُحِبهُمْ عَلِيٌّ مِنْهُمْ، وَأَبو ذَرٍّ، وَسَلْمَانُ، وَالْمِقْدَادُ الْكِنْدِيُّ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے میرے صحابہ رضی اللہ عنہ میں سے چار لوگوں سے محبت کرنے کا مجھے حکم دیا ہے ان میں سے ایک تو علی ہیں دوسرے ابوذر غفاری تیسرے سلمان فارسی اور چوتھے مقداد بن اسود کندی ہیں۔ رضی اللہ عنہ
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف من أجل أبى ربيعة و شريك
حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں قبرستان جانے سے منع کیا تھا اب چلے جایا کرو نیز میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے کی ممانعت کی تھی اب جب تک چاہو رکھو نیز میں نے تمہیں مشکیزے کے علاوہ دوسرے برتنوں میں نبیذ پینے سے منع کیا تھا اب جس برتن میں چاہو پی سکتے ہو البتہ نشہ آور چیز مت پینا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح ، م: 977، وهذا إسناد ضعيف لعنعنة ابن إسحاق، لكنه توبع
حدثنا مؤمل ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إني كنت نهيتكم عن ثلاث: عن زيارة القبور، وعن لحوم الاضاحي ان تحبس فوق ثلاث، وعن الاوعية، ونهيتكم عن لحوم الاضاحي ليوسع ذو السعة على من لا سعة له، فكلوا وادخروا، ونهيتكم عن زيارة القبور، وإن محمدا قد اذن له في زيارة قبر امه، ونهيتكم عن الظروف، وإن الظروف لا تحرم شيئا ولا تحله، وكل مسكر حرام" .حَدَّثَنَا مُؤَمَّلٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ ثَلَاثٍ: عَنْ زِيَارَةِ الْقُبورِ، وَعَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ أَنْ تُحْبسَ فَوْقَ ثَلَاثٍ، وَعَنِ الْأَوْعِيَةِ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ لِيُوسِعْ ذُو السَّعَةِ عَلَى مَنْ لَا سَعَةَ لَهُ، فَكُلُوا وَادَّخِرُوا، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبورِ، وَإِنَّ مُحَمَّدًا قَدْ أُذِنَ لَهُ فِي زِيَارَةِ قَبرِ أُمِّهِ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنِ الظُّرُوفِ، وَإِنَّ الظُّرُوفَ لَا تُحَرِّمُ شَيْئًا وَلَا تُحِلُّهُ، وَكُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ" .
حضرت بریدہ اسلمی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں قبرستان جانے سے منع کیا تھا اب چلے جایا کرو نیز میں نے تمہیں تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت رکھنے کی ممانعت کی تھی اب جب تک چاہو رکھو نیز میں نے تمہیں مشکیزے کے علاوہ دوسرے برتنوں میں نبیذ پینے سے منع کیا تھا اب جس برتن میں چاہو پی سکتے ہو البتہ نشہ آور چیز مت پینا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 977، وهذا إسناد ضعيف لسوء حفظ مؤمل، لكنه توبع
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا ايوب بن جابر ، عن سماك ، عن القاسم بن عبد الرحمن ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: خرجت مع النبي صلى الله عليه وسلم حتى إذا كنا بودان، قال:" مكانكم حتى آتيكم"، فانطلق، ثم جاءنا وهو سقيم، فقال: " إني اتيت قبر ام محمد، فسالت ربي الشفاعة، فمنعنيها وإني كنت نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها، ونهيتكم عن لحوم الاضاحي بعد ثلاثة ايام، فكلوا وامسكوا ما بدا لكم، ونهيتكم عن هذه الاشربة في هذه الاوعية، فاشربوا فيما بدا لكم" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا أَيُّوب بنُ جَابرٍ ، عَنْ سِمَاكٍ ، عَنِ الْقَاسِمِ بنِ عَبدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: خَرَجْتُ مَعَ النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بوَدَّانَ، قَالَ:" مَكَانَكُمْ حَتَّى آتِيَكُمْ"، فَانْطَلَقَ، ثُمَّ جَاءَنَا وَهُوَ سَقِيمٌ، فَقَالَ: " إِنِّي أَتَيْتُ قَبرَ أُمِّ مُحَمَّدٍ، فَسَأَلْتُ رَبي الشَّفَاعَةَ، فَمَنَعَنِيهَا وَإِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبورِ، فَزُورُوهَا، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ بعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَكُلُوا وَأَمْسِكُوا مَا بدَا لَكُمْ، وَنَهَيْتُكُمْ عَنْ هَذِهِ الْأَشْرِبةِ فِي هَذِهِ الْأَوْعِيَةِ، فَاشْرَبوا فِيمَا بدَا لَكُمْ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ایک جگہ پہنچ کر پڑاؤ کیا اس وقت ہم لوگ ایک ہزار کے قریب شہسوار تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور ہماری طرف رخ کر کے متوجہ ہوئے تو آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اپنے ماں باپ کو قربان کرتے ہوئے پوچھا یا رسول اللہ! کیا بات ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کے لئے بخشش کی دعاء کرنے کی اجازت مانگی تھی، لیکن مجھے اجازت نہیں ملی تو شفقت کی وجہ سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا، قبرستان جانے سے لیکن اب چلے جایا کرو تاکہ تمہیں آخرت کی یاد آئے میں نے تمہیں تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا اب اسے کھاؤ اور جب تک چاہو رکھو اور میں نے تمہیں مخصوص برتنوں میں پینے سے منع فرمایا تھا اب جس برتن میں چاہو پی سکتے ہو البتہ نشہ آور چیز مت پینا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل أيوب
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ عنقریب میرے بعد بہت سے لشکر روانہ ہوں گے تم خراسان کی طرف جانے والے لشکر میں شامل ہوجانا اور " مرو " نامی شہر میں پڑاؤ ڈالنا کیونکہ اسے ذوالقرنین نے بنایا تھا اور اس میں برکت کی دعا کی تھی اس لئے وہاں رہنے والوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچے گا۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وتر کی نماز برحق ہے اور جو شخص وتر نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے تین مرتبہ فرمایا۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل عبيد الله بن عبدالله، والحسن بن يحيى فيه نظر، لكنه توبع
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جن زمینوں، جانوروں اور غلاموں کی ملکیت پر وہ اسلام قبول کریں ان پر ان کی ملکیت برقرار رہے گی اور اس میں ان پر زکوٰۃ کے علاوہ کوئی چیز واجب نہ ہوگی۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نامحرم عورت پر ایک مرتبہ نظر پڑجانے کے بعد دوبارہ نظر مت ڈالا کرو کیونکہ پہلی نظر تمہیں معاف ہے لیکن دوسری نظر معاف نہیں ہے۔
حكم دارالسلام: حسن لغيره، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى ربيعة وسوء حفظ شريك، لكنه متابع
حدثنا بهز ، حدثنا مثنى بن سعيد ، عن قتادة ، عن ابن بريدة ، عن ابيه انه كان بخراسان، فعاد اخا له وهو مريض، فوجده بالموت وإذا هو يعرق جبينه، فقال: الله اكبر، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " موت المؤمن بعرق الجبين" .حَدَّثَنَا بهْزٌ ، حَدَّثَنَا مُثَنَّى بنُ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنَّه كَانَ بخُرَاسَانَ، فَعَادَ أَخًا لَهُ وَهُوَ مَرِيضٌ، فَوَجَدَهُ بالْمَوْتِ وَإِذَا هُوَ يَعْرَقُ جَبينُهُ، فَقَالَ: اللَّهُ أَكْبرُ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَوْتُ الْمُؤْمِنِ بعَرَقِ الْجَبينِ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمان آدمی کی موت پیشانی کے پسینے کی طرح (بڑی آسانی سے) واقع ہوجاتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، لا يعرف سماع قتادة من عبدالله بن بريدة
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مجھے مکہ مکرمہ کے قریب دیہات کے ایک مقام پر لے گئے جو ایک خشک زمین تھی اور اس کے گرد ریت تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا دابۃ الارض کا خروج یہاں سے ہوگا وہ ایک بالشت چوڑی اور ایک انچ لمبی جگہ تھی۔
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف جدا من أجل خالد بن عبيد
حدثنا عفان ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن الجريري ، عن ابي نضرة ، عن عبد الله بن مولة ، قال: كنت اسير مع بريدة الاسلمي ، فقال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " خير هذه الامة القرن الذين بعثت انا فيهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم يكون قوم تسبق شهادتهم ايمانهم، وايمانهم شهادتهم" ، وقال عفان مرة:" القرن الذين بعثت فيهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم، ثم الذين يلونهم".حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بنُ سَلَمَةَ ، عَنِ الْجُرَيْرِيِّ ، عَنْ أَبي نَضْرَةَ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ مَوَلَةَ ، قَالَ: كُنْتُ أَسِيرُ مَعَ برَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، فَقَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " خَيْرُ هَذِهِ الْأُمَّةِ الْقَرْنُ الَّذِينَ بعِثْتُ أَنَا فِيهِمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ يَكُونُ قَوْمٌ تَسْبقُ شَهَادَتُهُمْ أَيْمَانَهُمْ، وَأَيْمَانُهُمْ شَهَادَتَهُمْ" ، وَقَالَ عَفَّانُ مَرَّةً:" الْقَرْنُ الَّذِينَ بعِثْتُ فِيهِمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ، ثُمَّ الَّذِينَ يَلُونَهُمْ".
عبداللہ بن مولہ کہتے کہ ایک دن میں " اہواز " میں چلا جا رہا تھا کہ ایک آدمی پر نظر پڑی جو مجھ سے آگے ایک خچر پر سوار چلا جا رہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ اے اللہ! اس امت میں سے میرا دور گذر گیا ہے تو مجھے ان ہی میں شامل فرما میں نے کہا کہ مجھے بھی اپنی دعاء میں شامل کرلیجئے انہوں نے کہا کہ میرے ساتھی کو بھی اگر یہ چاہتا ہے پھر کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے میرے سب سے بہترین امتی میرے دور کے ہیں پھر ان کے بعد والے ہوں گے (تیسری مرتبہ کا ذکر کیا یا نہیں مجھے یاد نہیں) ان کے بعد ایسے لوگ آئیں گے جن میں موٹاپا غالب آجائے گا وہ مطالبہ کے بغیر گواہی دینے کے لئے تیار ہوں گے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن لكن قوله: ثم الذين يلونهم، فى المرة الرابعة والخامسة غير محفوظ، فقد تفرد به حماد بن سلمة
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بارہ ٹانی کے ساتھ کھیلتا ہے وہ گویا اپنے ہاتھ خنزیر کے خون اور گوشت میں ڈبو دیتا ہے۔
ابوملیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک تھے اس دن ابر چھایا ہوا تھا انہوں نے فرمایا جلدی نماز پڑھ لو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے اس کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔
حدثنا إسحاق بن يوسف ، اخبرنا ابو فلانة ، قال عبد الله بن احمد: كذا قال ابي، لم يسمه على عمد، وحدثناه غيره فسماه يعني ابا حنيفة، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال لرجل اتاه: " اذهب، فإن الدال على الخير كفاعله" .حَدَّثَنَا إِسْحَاقُ بنُ يُوسُفَ ، أَخْبرَنَا أَبو فُلَانَةَ ، قال عبد الله بن أحمد: كَذَا قَالَ أَبي، لَمْ يُسَمِّهِ عَلَى عَمْدٍ، وحَدَّثَنَاه غَيْرُهُ فَسَمَّاهُ يَعْنِي أَبا حُنَيْفَةَ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِرَجُلٍ أَتَاهُ: " اذْهَب، فَإِنَّ الدَّالَّ عَلَى الْخَيْرِ كَفَاعِلِهِ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک آدمی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا جاؤ کہ نیکی کی طرف رہنمائی کرنے والا نیکی کرنے والے کی طرح ہوتا ہے۔
حدثنا وكيع ، حدثنا الاعمش ، عن سعد بن عبيدة ، عن ابن بريدة ، عن ابيه انه مر على مجلس وهم يتناولون من علي، فوقف عليهم، فقال: إنه قد كان في نفسي على علي شيء، وكان خالد بن الوليد كذلك، فبعثني رسول الله صلى الله عليه وسلم في سرية عليها علي، واصبنا سبيا، قال: فاخذ علي جارية من الخمس لنفسه، فقال خالد بن الوليد: دونك، قال: فلما قدمنا على النبي صلى الله عليه وسلم، جعلت احدثه بما كان، ثم قلت: إن عليا اخذ جارية من الخمس، قال: وكنت رجلا مكبابا، قال: فرفعت راسي، فإذا وجه رسول الله صلى الله عليه وسلم قد تغير، فقال: " من كنت وليه، فعلي وليه" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ سَعْدِ بنِ عُبيْدَةَ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنَّهُ مَرَّ عَلَى مَجْلِسٍ وَهُمْ يَتَنَاوَلُونَ مِنْ عَلِيٍّ، فَوَقَفَ عَلَيْهِمْ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ كَانَ فِي نَفْسِي عَلَى عَلِيٍّ شَيْءٌ، وَكَانَ خَالِدُ بنُ الْوَلِيدِ كَذَلِكَ، فَبعَثَنِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي سَرِيَّةٍ عَلَيْهَا عَلِيٌّ، وَأَصَبنَا سَبيًا، قَالَ: فَأَخَذَ عَلِيٌّ جَارِيَةً مِنَ الْخُمُسِ لِنَفْسِهِ، فَقَالَ خَالِدُ بنُ الْوَلِيدِ: دُونَكَ، قَالَ: فَلَمَّا قَدِمْنَا عَلَى النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، جَعَلْتُ أُحَدِّثُهُ بمَا كَانَ، ثُمَّ قُلْتُ: إِنَّ عَلِيًّا أَخَذَ جَارِيَةً مِنَ الْخُمُسِ، قَالَ: وَكُنْتُ رَجُلًا مِكْبابا، قَالَ: فَرَفَعْتُ رَأْسِي، فَإِذَا وَجْهُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ تَغَيَّرَ، فَقَالَ: " مَنْ كُنْتُ وَلِيَّهُ، فَعَلِيٌّ وَلِيُّهُ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ وہ کسی ایسی مجلس سے گذرے جہاں پر لوگ حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق کچھ باتیں کر رہے ہیں وہ ان کے پاس کھڑے ہو کر کہنے لگے کہ ابتداء میں میرے دل میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے متعلق بوجھ تھا حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی بھی یہی صورت حال تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مرتبہ مجھے ایک دستے کے ساتھ روانہ کردیا جس کے امیر حضرت علی رضی اللہ عنہ تھے ہمیں وہاں قیدی ہاتھ لگے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے خمس میں سے ایک باندی اپنے لئے رکھ لی حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے فرمایا ٹھہرو، پھر جب ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تو میں پیش آمدہ واقعہ بیان کرنے لگا اور کہا کہ علی نے خمس میں سے باندی لی ہے میں نے اس وقت سر جھکا رکھا تھا اچانک سر اٹھا کر دیکھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ انور متغیر ہو رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جس کا میں محبوب ہوں علی بھی اس کے محبوب ہونے چاہئیں۔
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كان النبي صلى الله عليه وسلم يتوضا عند كل صلاة، فلما كان يوم الفتح توضا ومسح على خفيه وصلى الصلوات بوضوء واحد، فقال له عمر: يا رسول الله، إنك فعلت شيئا لم تكن تفعله! قال: " إني عمدا فعلت يا عمر" .حَدَّثَنَا عَبدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كَانَ النَّبيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَتَوَضَّأُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ الْفَتْحِ تَوَضَّأَ وَمَسَحَ عَلَى خُفَّيْهِ وَصَلَّى الصَّلَوَاتِ بوُضُوءٍ وَاحِدٍ، فَقَالَ لَهُ عُمَرُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّكَ فَعَلْتَ شَيْئًا لَمْ تَكُنْ تَفْعَلُهُ! قَالَ: " إِنِّي عَمْدًا فَعَلْتُ يَا عُمَرُ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہی وضو سے کئی نمازیں پڑھیں تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ آج تو آپ نے وہ کام کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں کیا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے جان بوجھ کر ایسا کیا ہے۔
حدثنا عبد الرحمن ، حدثنا سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم إذا امر اميرا على جيش او سرية، اوصاه في خاصته بتقوى الله، ومن معه من المسلمين خيرا، ثم قال: " اغزوا بسم الله، في سبيل الله، قاتلوا من كفر بالله، اغزوا ولا تغلوا، ولا تغدروا، ولا تمثلوا، ولا تقتلوا وليدا، وإذا لقيت عدوك من المشركين، فادعهم إلى إحدى ثلاث خصال، او خلال فايتهن ما اجابوك إليها، فاقبل منهم، وكف عنهم: ادعهم إلى الإسلام، فإن اجابوك إليه فقبل منهم، وكف عنهم، ثم ادعهم إلى التحول من دارهم إلى دار المهاجرين، واخبرهم إن هم فعلوا ان لهم ما للمهاجرين، وعليهم ما على المهاجرين، وإن هم ابوا ان يتحولوا منها، فاخبرهم انهم يكونون كاعراب المسلمين، يجري عليهم حكم الله الذي يجري على المسلمين، ولا يكون لهم في الغنيمة والفيء شيء، إلا ان يجاهدوا مع المسلمين، فإن هم ابوا، فسلهم الجزية، فإن هم اجابوك، فاقبل منهم وكف عنهم، وإن هم ابوا، فاستعن بالله وقاتلهم، وإذا حاصرت اهل حصن، فارادوك ان تجعل لهم ذمة الله وذمة نبيك، فلا تجعل لهم ذمة الله ولا ذمة نبيه، ولكن اجعل لهم ذمتك وذمة ابيك وذمم اصحابك، فإنكم إن تخفروا ذممكم وذمم آبائكم، اهون من ان تخفروا ذمة الله وذمة رسوله، وإن حاصرت اهل حصن، فارادوك ان تنزلهم على حكم الله، فلا تنزلهم على حكم الله، ولكن انزلهم على حكمك، فإنك لا تدري اتصيب حكم الله فيهم، ام لا" ، قال عبد الرحمن: هذا، او نحوه.حَدَّثَنَا عَبدُ الرَّحْمَنِ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا أَمَّرَ أَمِيرًا عَلَى جَيْشٍ أَوْ سَرِيَّةٍ، أَوْصَاهُ فِي خَاصَّتِهِ بتَقْوَى اللَّهِ، وَمَنْ مَعَهُ مِنَ الْمُسْلِمِينَ خَيْرًا، ثُمَّ قَالَ: " اغْزُوا بسْمِ اللَّهِ، فِي سَبيلِ اللَّهِ، قَاتِلُوا مَنْ كَفَرَ باللَّهِ، اغْزُوا وَلَا تَغُلُّوا، وَلَا تَغْدِرُوا، وَلَا تُمَثِّلُوا، وَلَا تَقْتُلُوا وَلِيدًا، وَإِذَا لَقِيتَ عَدُوَّكَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَادْعُهُمْ إِلَى إِحْدَى ثَلَاثِ خِصَالٍ، أَوْ خِلَالٍ فَأَيَّتُهُنَّ مَا أَجَابوكَ إِلَيْهَا، فَاقْبلْ مِنْهُمْ، وَكُفَّ عَنْهُمْ: ادعهم إلى الإسلام، فإن أجابوك إليه فقبل منهم، وكف عنهم، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى التَّحَوُّلِ مِنْ دَارِهِمْ إِلَى دَارِ الْمُهَاجِرِينَ، وَأَخْبرْهُمْ إِنْ هُمْ فَعَلُوا أَنَّ لَهُمْ مَا لِلْمُهَاجِرِينَ، وَعَلَيْهِمْ مَا عَلَى الْمُهَاجِرِينَ، وَإِنْ هُمْ أَبوْا أَنْ يَتَحَوَّلُوا مِنْهَا، فَأَخْبرْهُمْ أَنَّهُمْ يَكُونُونَ كَأَعْرَاب الْمُسْلِمِينَ، يَجْرِي عَلَيْهِمْ حُكْمُ اللَّهِ الَّذِي يَجْرِي عَلَى الْمُسْلِمِينَ، وَلَا يَكُونُ لَهُمْ فِي الْغَنِيمَةِ وَالْفَيْءِ شَيْءٌ، إِلَّا أَنْ يُجَاهِدُوا مَعَ الْمُسْلِمِينَ، فَإِنْ هُمْ أَبوْا، فَسَلْهُمْ الْجِزْيَةَ، فَإِنْ هُمْ أَجَابوكَ، فَاقْبلْ مِنْهُمْ وَكُفَّ عَنْهُمْ، وَإِنْ هُمْ أَبوْا، فَاسْتَعِنْ باللَّهِ وَقَاتِلْهُمْ، وَإِذَا حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ، فَأَرَادُوكَ أَنْ تَجْعَلَ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ نَبيِّكَ، فَلَا تَجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّةَ اللَّهِ وَلَا ذِمَّةَ نَبيِّهِ، وَلَكِنْ اجْعَلْ لَهُمْ ذِمَّتَكَ وَذِمَّةَ أَبيكَ وَذِمَمَ أَصْحَابكَ، فَإِنَّكُمْ إِنْ تُخْفِرُوا ذِمَمَكُمْ وَذِمَمَ آبائِكُمْ، أَهْوَنُ مِنْ أَنْ تُخْفِرُوا ذِمَّةَ اللَّهِ وَذِمَّةَ رَسُولِهِ، وَإِنْ حَاصَرْتَ أَهْلَ حِصْنٍ، فَأَرَادُوكَ أَنْ تُنْزِلَهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، فَلَا تُنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِ اللَّهِ، وَلَكِنْ أَنْزِلْهُمْ عَلَى حُكْمِكَ، فَإِنَّكَ لَا تَدْرِي أَتُصِيب حُكْمَ اللَّهِ فِيهِمْ، أَمْ لَا" ، قَالَ عَبدُ الرَّحْمَنِ: هَذَا، أَوْ نَحْوَهُ.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب کسی شخص کو کسی دستہ یا لشکر کا امیر مقرر کر کے روانہ فرماتے تو اسے خصوصیت کے ساتھ اس کے اپنے متعلق تقوی کی وصیت فرماتے اور اس کے ہمراہ مسلمانوں کے ساتھ بہترین سلوک کی تاکید فرماتے پھر فرماتے کہ اللہ کا نام لے کر اللہ کے راستہ میں جہاد کرو اللہ کے ساتھ کفر کرنے والوں کے ساتھ قتال کرو اور جب دشمن سے تمہارا آمنا سامنا ہو تو اسے تین میں سے کسی ایک بات کو قبول کرنے کی دعوت دو وہ ان میں سے جس بات کو بھی قبول کرلیں تم اسے ان کی طرف سے تسلیم کرلو اور ان سے اپنے ہاتھ روک لو سب سے پہلے اسلام کی دعوت ان کے سامنے پیش کرو اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو تم بھی اسے قبول کرلو پھر انہیں اپنے علاقے سے دارالمہاجرین کی طرف منتقل ہونے کی دعوت دو اور انہیں بتاؤ کہ اگر انہوں نے ایسا کرلیا تو ان کے وہی حقوق ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اور وہی فرائض ہوں گے جو مہاجرین کے ہیں اگر وہ اس سے انکار کردیں اور اپنے علاقے ہی میں رہنے کو ترجیح دیں تو انہیں بتانا کہ وہ دیہاتی مسلمانوں کی مانند شمار ہوں گے ان پر اللہ کے احکام تو ویسے ہی جاری ہوں گے جیسے تمام مسلمانوں پر ہوتے ہیں لیکن مال غنیمت میں مسلمانوں کے ہمراہ جہاد کئے بغیر ان کا کوئی حصہ نہ ہوگا اگر وہ اس سے انکار کردیں تو انہیں جزیہ دینے کی دعوت دو اگر وہ اسے تسلیم کرلیں تو تم اسے ان کی طرف سے قبول کرلینا اور ان سے اپنے ہاتھ روک لینا لیکن اگر وہ اس سے بھی انکار کردیں تو پھر اللہ سے مدد چاہتے ہوئے ان سے قتال کرو۔
حدثنا محمد بن جعفر ، وروح , المعنى , قالا: حدثنا عوف ، عن ميمون ابي عبد الله ، قال روح: الكردي , عن عبد الله بن بريدة، عن ابيه بريدة الاسلمي ، قال: لما نزل رسول الله صلى الله عليه وسلم بحصن اهل خيبر، اعطى رسول الله صلى الله عليه وسلم اللواء عمر بن الخطاب، ونهض معه من نهض من المسلمين، فلقوا اهل خيبر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لاعطين اللواء غدا رجلا يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله"، فلما كان الغد، دعا عليا وهو ارمد، فتفل في عينيه، واعطاه اللواء، ونهض الناس معه، فلقي اهل خيبر، وإذا مرحب يرتجز بين ايديهم وهو يقول: لقد علمت خيبر اني مرحب شاكي السلاح بطل مجرب اطعن احيانا وحينا اضرب إذا الليوث اقبلت تلهب قال: فاختلف هو وعلي ضربتين، فضربه على هامته حتى عض السيف منها باضراسه، وسمع اهل العسكر صوت ضربته، قال: وما تتام آخر الناس مع علي حتى فتح له ولهم .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ جَعْفَرٍ ، وَرَوْحٌ , الْمَعْنَى , قَالَا: حَدَّثَنَا عَوْفٌ ، عَنْ مَيْمُونٍ أَبي عَبدِ اللَّهِ ، قَالَ رَوْحٌ: الْكُرْدِيُّ , عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ، عَنْ أَبيهِ برَيْدَةَ الْأَسْلَمِيِّ ، قَالَ: لَمَّا نَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بحِصْنِ أَهْلِ خَيْبرَ، أَعْطَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اللِّوَاءَ عُمَرَ بنَ الْخَطَّاب، وَنَهَضَ مَعَهُ مَنْ نَهَضَ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، فَلَقُوا أَهْلَ خَيْبرَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَأُعْطِيَنَّ اللِّوَاءَ غَدًا رَجُلًا يُحِب اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ"، فَلَمَّا كَانَ الْغَدُ، دَعَا عَلِيًّا وَهُوَ أَرْمَدُ، فَتَفَلَ فِي عَيْنَيْهِ، وَأَعْطَاهُ اللِّوَاءَ، وَنَهَضَ النَّاسُ مَعَهُ، فَلَقِيَ أَهْلَ خَيْبرَ، وَإِذَا مَرْحَب يَرْتَجِزُ بيْنَ أَيْدِيهِمْ وَهُوَ يَقُولُ: لَقَدْ عَلِمَتْ خَيْبرُ أَنِّي مَرْحَب شَاكِي السِّلَاحِ بطَلٌ مُجَرَّب أَطْعَنُ أَحْيَانًا وَحِينًا أَضْرِب إِذَا اللُّيُوثُ أَقْبلَتْ تَلَهَّب قَالَ: فَاخْتَلَفَ هُوَ وَعَلِيٌّ ضَرْبتَيْنِ، فَضَرَبهُ عَلَى هَامَتِهِ حَتَّى عَضَّ السَّيْفُ مِنْهَا بأَضْرَاسِهِ، وَسَمِعَ أَهْلُ الْعَسْكَرِ صَوْتَ ضَرْبتِهِ، قَالَ: وَمَا تَتَامَّ آخِرُ النَّاسِ مَعَ عَلِيٍّ حَتَّى فُتِحَ لَهُ وَلَهُمْ .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے خیبر کا محاصرہ کیا تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جھنڈا پکڑا لیکن وہ مخصوص اور اہم قلعہ فتح کئے بغیر واپس آگئے اگلے دن پھر جھنڈا پکڑا اور روانہ ہوگئے لیکن آج بھی وہ قلعہ فتح نہ ہوسکا اور اس دن لوگوں کو خوب مشقت اور تکلیف کا سامنا کرنا پڑا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کل میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جسے اللہ اور اس کا رسول محبوب رکھتے ہوں گے اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہوگا اور فتح حاصل کئے بغیر واپس نہ آئے گا۔
چنانچہ ساری رات ہم اس بات پر خوش ہوتے رہے کہ کل یہ قلعہ بھی فتح ہوجائے گا جب صبح ہوئی تو نماز فجر کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوئے اور جھنڈا منگوایا لوگ اپنی صفوں میں بیٹھے ہوئے تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو بلایا جنہیں آشوب چشم تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی آنکھوں پر اپنا لعاب دہن لگایا اور جھنڈا ان کے حوالے کردیا اور ان کے ہاتھوں وہ قلعہ فتح ہوگیا حالانکہ اس کی خواہش کرنے والوں میں میں بھی تھا۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ کا جب اہل خیبر سے آمنا سامنا ہوا تو مرحب ان کے سامنے رجزیہ اشعار پڑھتا ہوا آیا کہ سارا خیبر جانتا ہے کہ میں مرحب ہوں اسلحہ پہنے ہوئے بہادر اور تجربہ کار ہوں، کبھی نیزے سے لڑتا ہوں اور کبھی تلوار سے جب شیر دھاڑتے ہوئے سامنے آجائیں پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ اور اس کا مقابلہ ہوا حضرت علی رضی اللہ عنہ نے اس کی کھوپڑی پر ایسی ضرب لگائی کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تلوار اس کی ڈاڑھ کاٹتی ہوئی نکل گئی اور لشکر والوں نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ضرب کی آواز سنی بالآخر انہیں فتح نصیب ہوئی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف لضعف ميمون أبى عبدالله الكندي، لكنه توبع، وقول روح فى نسبته: الكردي، خطأ
حدثنا ابن نمير ، حدثنا عبد الله بن عطاء ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: جاءت امراة إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فقالت: يا رسول الله، إني تصدقت على امي بجارية، فماتت امي وبقيت الجارية، فقال: " قد وجب اجرك، ورجعت إليك في الميراث"، قالت: فإنه كان على امي صوم شهر، افاصوم عنها؟ قال:" نعم"، قالت: فإن امي لم تحج، افاحج عنها؟ قال:" حجي عن امك" .حَدَّثَنَا ابنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَبدُ اللَّهِ بنُ عَطَاءٍ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: جَاءَتْ امْرَأَةٌ إِلَى النَّبيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنِّي تَصَدَّقْتُ عَلَى أُمِّي بجَارِيَةٍ، فَمَاتَتْ أُمِّي وَبقِيَتْ الْجَارِيَةُ، فَقَالَ: " قَدْ وَجَب أَجْرُكِ، وَرَجَعَتْ إِلَيْكِ فِي الْمِيرَاثِ"، قَالَتْ: فَإِنَّهُ كَانَ عَلَى أُمِّي صَوْمُ شَهْرٍ، أَفَأَصُومُ عَنْهَا؟ قَالَ:" نَعَمْ"، قَالَتْ: فَإِنَّ أُمِّي لَمْ تَحُجَّ، أَفَأَحُجُّ عَنْهَا؟ قَالَ:" حُجِّي عَنْ أُمِّكِ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میں نے اپنی والدہ کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی والدہ کا انتقال ہوگیا اس لئے وراثت میں وہ باندی دوبارہ میرے پاس آگئی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دے گا اور باندی بھی تمہیں وراثت مل گئی اس نے کہا کہ میری والدہ حج کئے بغیر ہی فوت ہوگئی ہیں کیا میرا ان کی طرف سے حج کرنا ان کی لئے کفایت کرسکتا ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہاں! تم اپنی والدہ کی طرف سے حج کرلو۔
حدثنا زيد بن الحباب ، اخبرني مالك بن مغول ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم دخل المسجد، فاخذ بيدي، فدخلت معه، فإذا رجل يقرا ويصلي، قال: " لقد اوتي هذا مزمارا من مزامير آل داود" ، وإذا هو عبد الله بن قيس ابو موسى الاشعري، قال: قلت: يا رسول الله، فاخبره؟ قال: فاخبرته، فقال: لم تزل لي صديقا.حَدَّثَنَا زَيْدُ بنُ الْحُباب ، أَخْبرَنِي مَالِكُ بنُ مِغْوَلٍ ، حَدَّثَنَا عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ دَخَلَ الْمَسْجِدَ، فَأَخَذَ بيَدِي، فَدَخَلْتُ مَعَهُ، فَإِذَا رَجُلٌ يَقْرَأُ وَيُصَلِّي، قَالَ: " لَقَدْ أُوتِيَ هَذَا مِزْمَارًا مِنْ مَزَامِيرِ آلِ دَاوُدَ" ، وَإِذَا هُوَ عَبدُ اللَّهِ بنُ قَيْسٍ أَبو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَأُخْبرُهُ؟ قَالَ: فَأَخْبرْتُهُ، فَقَالَ: لَمْ تَزَلْ لِي صَدِيقًا.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے تو میرا ہاتھ پکڑ لیا میں بھی ان کے ساتھ مسجد میں داخل ہوگیا وہاں ایک آدمی قرآن پڑھ رہا تھا اور نماز پڑھ رہا تھا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس شخص کو آل داؤد علیہ السلام کے خوبصورت لہجوں میں سے ایک لہجہ دیا گیا ہے دیکھا تو وہ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ تھے میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں انہیں یہ بات بتادوں؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بتادو چناچہ میں نے انہیں بتادیا اور وہ کہنے لگے کہ آپ ہمیشہ میرے دوست ہی رہے ہیں۔
حدثنا يحيى بن واضح وهو ابو تميلة , عن عبد الله بن مسلم ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: راى رسول الله صلى الله عليه وسلم في يد رجل خاتما من ذهب، فقال: " ما لك ولحلي اهل الجنة؟" , قال: فجاء وقد لبس خاتما من صفر، فقال:" اجد معك ريح اهل الاصنام"، قال: فمم اتخذه يا رسول الله؟ قال:" من فضة" .حَدَّثَنَا يَحْيَى بنُ وَاضِحٍ وَهُوَ أَبو تُمَيْلَةَ , عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ مُسْلِمٍ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: رَأَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي يَدِ رَجُلٍ خَاتَمًا مِنْ ذَهَب، فَقَالَ: " مَا لَكَ وَلِحُلِيِّ أَهْلِ الْجَنَّةِ؟" , قَالَ: فَجَاءَ وَقَدْ لَبسَ خَاتَمًا مِنْ صُفْرٍ، فَقَالَ:" أَجِدُ مِعكَ رِيحَ أَهْلِ الْأَصْنَامِ"، قَالَ: فَمِمَّ أَتَّخِذُهُ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" مِنْ فِضَّةٍ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کے ہاتھ میں سونے کی انگوٹھی دیکھی تو اس سے فرمایا کہ تم اہل جنت کا زیور دنیا میں کیوں پہنے ہو؟ اگلی مرتبہ وہ آیا تو اس نے پیتل کی انگوٹھی پہن رکھی تھی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے تم سے بتوں کے بچاریوں جیسی بو آتی ہے " اس نے پوچھا یا رسول اللہ! پھر میں کس چیز کی انگوٹھی بناؤں؟ فرمایا چاندی کی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره دون قوله: فجاء وقد لبس خاتما من صفر، فقال النبى ﷺ: "أجد معك ريح اهل الاصنام"، وهذا اسناد حسن فى المتابعات والشواهد من اجل عبدالله بن مسلم
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ سے اپنا پیغام نکاح بھیجا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شادی کا ولیمہ ہونا ضروری ہے حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے عرض کیا میرے ذمے ایک مینڈھا ہے دوسرے نے کہا کہ میرے ذمے اتنا جو ہے۔
حدثنا روح ، حدثنا علي بن سويد بن منجوف ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: بعث رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا إلى خالد بن الوليد ليقسم الخمس، وقال روح مرة: ليقبض الخمس، قال: فاصبح علي وراسه يقطر، قال: فقال خالد لبريدة: الا ترى إلى ما يصنع هذا لما صنع علي؟! قال: وكنت ابغض عليا، قال: فقال:" يا بريدة، اتبغض عليا؟"، قال: قلت: نعم، قال: " فلا تبغضه، قال روح مرة: فاحبه، فإن له في الخمس اكثر من ذلك" .حَدَّثَنَا رَوْحٌ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بنُ سُوَيْدِ بنِ مَنْجُوفٍ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: بعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا إِلَى خَالِدِ بنِ الْوَلِيدِ لِيَقْسِمَ الْخُمُسَ، وَقَالَ رَوْحٌ مَرَّةً: لِيَقْبضَ الْخُمُسَ، قَالَ: فَأَصْبحَ عَلِيٌّ وَرَأْسُهُ يَقْطُرُ، قَالَ: فَقَالَ خَالِدٌ لِبرَيْدَةَ: أَلَا تَرَى إِلَى مَا يَصْنَعُ هَذَا لِمَا صَنَعَ عَلِيٌّ؟! قَالَ: وَكُنْتُ أُبغِضُ عَلِيًّا، قَالَ: فَقَالَ:" يَا برَيْدَةُ، أَتُبغِضُ عَلِيًّا؟"، قَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، قَالَ: " فَلَا تُبغِضْهُ، قَالَ رَوْحٌ مَرَّةً: فَأَحِبهُ، فَإِنَّ لَهُ فِي الْخُمُسِ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو حضرت خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے پاس خمس تقسیم کرنے کے لئے بھیج دیا۔۔۔۔۔۔ صبح ہوئی تو حضرت علی رضی اللہ عنہ کے سر سے پانی ٹپک رہا تھا حضرت خالد رضی اللہ عنہ نے بریدہ سے کہا کہ آپ دیکھ رہے ہو کہ علی نے کیا کیا ہے؟ مجھے بھی حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بغض تھا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا تم علی سے نفرت کرتے ہو؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اس سے نفرت نہ کرو بلکہ اگر محبت کرتے ہو تو اس میں مزید اضافہ کردو کیونکہ اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی جان ہے خمس میں آل علی کا حصہ " وصیفہ " سے بھی افضل ہے۔
حدثنا علي بن الحسن بن شقيق ، اخبرنا الحسين بن واقد ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " في الإنسان ثلاث مائة وستون مفصلا، فعليه ان يتصدق عن كل مفصل في كل يوم بصدقة"، قالوا: ومن يطيق ذلك يا رسول الله؟ قال:" النخاعة تراها في المسجد فتدفنها، او الشيء تنحيه عن الطريق، فإن لم تقدر، فركعتا الضحى تجزئك" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بنُ الْحَسَنِ بنِ شَقِيقٍ ، أَخْبرَنَا الْحُسَيْنُ بنُ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنَا عَبدُ اللَّهِ بنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " فِي الْإِنْسَانِ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَسِتُّونَ مَفْصِلًا، فَعَلَيْهِ أَنْ يَتَصَدَّقَ عَنْ كُلِّ مَفْصِلٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ بصَدَقَةٍ"، قَالُوا: وَمَنْ يُطِيقُ ذَلِكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ:" النُّخَاعَةُ تَرَاهَا فِي الْمَسْجِدِ فَتَدْفِنُهَا، أَوْ الشَّيْءُ تُنَحِّيهِ عَنِ الطَّرِيقِ، فَإِنْ لَمْ تَقْدِرْ، فَرَكْعَتَا الضُّحَى تُجْزِئُكَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ہر انسان کے تین سو ساٹھ جوڑ ہیں اور اس پر ہر جوڑ کی طرف سے صدقہ کرنا ضروری ہے لوگوں نے پوچھا یا رسول اللہ! اس کی طاقت کس میں ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس کا طریقہ یہ ہے کہ اگر مسجد میں تھوک نظر آئے تو اس پر مٹی ڈال دو راستے میں تکلیف دہ چیز کو ہٹا دو اگر یہ سب نہ کرسکو تو چاشت کے وقت دو رکعتیں تمہاری طرف سے کفایت کر جائیں گی۔
حدثنا حسين بن محمد ، حدثنا خلف يعني ابن خليفة ، عن ابي جناب ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ان رسول الله صلى الله عليه وسلم غزا غزوة الفتح، فخرج يمشي إلى القبور حتى إذا اتى إلى ادناها، جلس إليه كانه يكلم إنسانا جالسا يبكي، قال: فاستقبله عمر بن الخطاب، فقال: ما يبكيك، جعلني الله فداءك؟ قال: " سالت ربي عز وجل ان ياذن لي في زيارة قبر ام محمد، فاذن لي، فسالته ان ياذن لي فاستغفر لها، فابى، إني كنت نهيتكم عن ثلاثة اشياء: عن لحوم الاضاحي ان تمسكوا بعد ثلاثة ايام، فكلوا ما بدا لكم، وعن زيارة القبور، فمن شاء فليزر، فقد اذن لي في زيارة قبر ام محمد، ومن شاء فليدع، وعن الظروف تشربون فيها: الدباء، والحنتم، والمزفت، وامرتكم بظروف، وإن الوعاء لا يحل شيئا ولا يحرمه، فاجتنبوا كل مسكر" .حَدَّثَنَا حُسَيْنُ بنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا خَلَفٌ يَعْنِي ابنَ خَلِيفَةَ ، عَنْ أَبي جَنَاب ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ غَزَا غَزْوَةَ الْفَتْحِ، فَخَرَجَ يَمْشِي إِلَى الْقُبورِ حَتَّى إِذَا أَتَى إِلَى أَدْنَاهَا، جَلَسَ إِلَيْهِ كَأَنَّهُ يُكَلِّمُ إِنْسَانًا جَالِسًا يَبكِي، قَالَ: فَاسْتَقْبلَهُ عُمَرُ بنُ الْخَطَّاب، فَقَالَ: مَا يُبكِيكَ، جَعَلَنِي اللَّهُ فِدَاءَكَ؟ قَالَ: " سَأَلْتُ رَبي عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يَأْذَنَ لِي فِي زِيَارَةِ قَبرِ أُمِّ مُحَمَّدٍ، فَأَذِنَ لِي، فَسَأَلْتُهُ أَنْ يَأْذَنَ لِي فَأَسْتَغْفِرُ لَهَا، فَأَبى، إِنِّي كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ ثَلَاثَةِ أَشْيَاءَ: عَنْ لُحُومِ الْأَضَاحِيِّ أَنْ تُمْسِكُوا بعْدَ ثَلَاثَةِ أَيَّامٍ، فَكُلُوا مَا بدَا لَكُمْ، وَعَنْ زِيَارَةِ الْقُبورِ، فَمَنْ شَاءَ فَلْيَزُرْ، فَقَدْ أُذِنَ لِي فِي زِيَارَةِ قَبرِ أُمِّ مُحَمَّدٍ، وَمَنْ شَاءَ فَلْيَدَعْ، وَعَنِ الظُّرُوفِ تَشْرَبونَ فِيهَا: الدُّباءَ، وَالْحَنْتَمَ، وَالْمُزَفَّتَ، وَأَمَرْتُكُمْ بظُرُوفٍ، وَإِنَّ الْوِعَاءَ لَا يُحِلُّ شَيْئًا وَلَا يُحَرِّمُهُ، فَاجْتَنِبوا كُلَّ مُسْكِرٍ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ہم لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ تھے ایک جگہ پہنچ کر پڑاؤ کیا اس وقت ہم لوگ ایک ہزار کے قریب شہسوار تھے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعتیں پڑھیں اور ہماری طرف رخ کر کے متوجہ ہوئے تو آنکھیں آنسوؤں سے بھیگی ہوئی تھیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کھڑے ہو کر اپنے ماں باپ کو قربان کرتے ہوئے پوچھا یا رسول اللہ! کیا بات ہے؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے اپنے رب سے اپنی والدہ کے لئے بخشش کی دعاء کرنے کی اجازت مانگی تھی، لیکن مجھے اجازت نہیں ملی تو شفقت کی وجہ سے میری آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں نے تمہیں تین چیزوں سے منع کیا تھا، قبرستان جانے سے لیکن اب چلے جایا کرو تاکہ تمہیں آخرت کی یاد آئے میں نے تمہیں تین دن کے بعد قربانی کا گوشت کھانے سے منع کیا تھا اب اسے کھاؤ اور جب تک چاہو رکھو اور میں نے تمہیں مخصوص برتنوں میں پینے سے منع فرمایا تھا اب جس برتن میں چاہو پی سکتے ہو البتہ نشہ آور چیز مت پینا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف من أجل أبى جناب، فهو ضعيف، لكنه توبع
حدثنا محمد بن حميد ابو سفيان ، عن سفيان ، عن علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يعلمهم إذا خرجوا إلى المقابر، يقول: " السلام عليكم اهل الديار من المؤمنين والمسلمين، وإنا إن شاء الله بكم للاحقون، انتم لنا فرط ونحن لكم تبع، فنسال الله لنا ولكم العافية" .حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ حُمَيْدٍ أَبو سُفْيَانَ ، عَنْ سُفْيَانَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ بنِ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعَلِّمُهُمْ إِذَا خَرَجُوا إِلَى الْمَقَابرِ، يَقُولُ: " السَّلَامُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الدِّيَارِ مِنَ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمُسْلِمِينَ، وَإِنَّا إِنْ شَاءَ اللَّهُ بكُمْ لَلَاحِقُونَ، أَنْتُمْ لَنَا فَرَطٌ وَنَحْنُ لَكُمْ تَبعٌ، فَنَسْأَلُ اللَّهَ لَنَا وَلَكُمْ الْعَافِيَةَ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ تعلیم دیتے تھے کہ جب وہ قبرستان جائیں تو یہ کہا کریں کہ مؤمنین و مسلمین کی جماعت والو! تم پر سلامتی ہو ہم بھی ان شاء اللہ تم سے آکر ملنے والے ہیں تم ہم سے پہلے چلے گئے اور ہم تمہارے پیچھے آنے والے ہیں اور ہم اپنے اور تمہارے لئے اللہ سے عافیت کا سوال کرتے ہیں۔
حدثنا علي بن الحسن وهو ابن شقيق ، حدثنا الحسين بن واقد ، حدثنا ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم بلالا، فقال:" يا بلال، بم سبقتني إلى الجنة، إني دخلت الجنة البارحة، فسمعت خشخشتك امامي، فاتيت على قصر من ذهب مربع، فقلت: لمن هذا القصر؟ قالوا: لرجل من امة محمد، قلت: فانا محمد، لمن هذا القصر؟ قالوا: لرجل من العرب، قلت: انا عربي، لمن هذا القصر؟ قالوا: لرجل من قريش، قلت: فانا قرشي، لمن هذا القصر؟ قالوا: لعمر بن الخطاب"، فقال بلال: يا رسول الله، ما اذنت قط إلا صليت ركعتين، وما اصابني حدث قط إلا توضات عندها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" بهذا" .حَدَّثَنَا عَلِيُّ بنُ الْحَسَنِ وَهُوَ ابنُ شَقِيقٍ ، حَدَّثَنَا الْحُسَيْنُ بنُ وَاقِدٍ ، حَدَّثَنَا ابنُ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بلَالًا، فَقَالَ:" يَا بلَالُ، بمَ سَبقْتَنِي إِلَى الْجَنَّةِ، إِنِّي دَخَلْتُ الْجَنَّةَ الْبارِحَةَ، فَسَمِعْتُ خَشْخَشَتَكَ أَمَامِي، فَأَتَيْتُ عَلَى قَصْرٍ مِنْ ذَهَب مُرَبعٍ، فَقُلْتُ: لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنْ أُمَّةِ مُحَمَّدٍ، قُلْتُ: فَأَنَا مُحَمَّدٌ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنَ الْعَرَب، قُلْتُ: أَنَا عَرَبيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لِرَجُلٍ مِنْ قُرَيْشٍ، قُلْتُ: فَأَنَا قُرَشِيٌّ، لِمَنْ هَذَا الْقَصْرُ؟ قَالُوا: لَعُمَرَ بنِ الْخَطَّاب"، فَقَالَ بلَالٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَذَّنْتُ قَطُّ إِلَّا صَلَّيْتُ رَكْعَتَيْنِ، وَمَا أَصَابنِي حَدَثٌ قَطُّ إِلَّا تَوَضَّأْتُ عِنْدَهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" بهَذَا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ کو بلایا اور ان سے پوچھا بلال! تم جنت میں مجھ سے آگے کیسے تھے؟ میں جب بھی جنت میں داخل ہوا تو اپنے آگے سے تمہاری آہٹ سنی ابھی آج رات ہی میں جنت میں داخل ہوا تو تمہاری آہٹ پھر سنائی دی پھر میں سونے سے بنے ہوئے ایک بلند وبالا محل کے سامنے پہنچا اور لوگوں سے پوچھا کہ یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ایک عربی آدمی کا ہے میں نے کہا کہ عربی تو میں بھی ہوں یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک مسلمان آدمی کا ہے میں نے کہا کہ پھر میں تو خود محمد ہوں صلی اللہ علیہ وسلم یہ محل کس کا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ یہ عمر بن خطاب کا ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا عمر! اگر مجھے تمہاری غیرت کا خیال نہ آتا تو میں اس محل میں ضرور داخل ہوتا انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں آپ کے سامنے غیرت دکھاؤں گا؟ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت بلال رضی اللہ عنہ سے پوچھا تم جنت میں مجھ سے آگے کیسے تھے؟ انہوں نے عرض کیا کہ میں جب بھی بےوضو ہوا تو وضو کر کے دو رکعتیں ضرور پڑھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی اس کا سبب ہے۔
حدثنا وكيع ، عن مالك بن مغول ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ان النبي صلى الله عليه وسلم سمع رجلا يقول: اللهم إني اسالك بانك انت الله الاحد الصمد، الذي لم يلد ولم يولد، ولم يكن له كفوا احد، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لقد سال الله باسمه الاعظم الذي إذا سئل به اعطى، وإذا دعي به اجاب" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ مَالِكِ بنِ مِغْوَلٍ ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنّ النَّبيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَمِعَ رَجُلًا يَقُولُ: اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ بأَنَّكَ أَنْتَ اللَّهُ الْأَحَدُ الصَّمَدُ، الَّذِي لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ، وَلَمْ يَكُنْ لَهُ كُفُوًا أَحَدٌ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَقَدْ سَأَلَ اللَّهَ باسْمِهِ الْأَعْظَمِ الَّذِي إِذَا سُئِلَ بهِ أَعْطَى، وَإِذَا دُعِيَ بهِ أَجَاب" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو سنا کہ وہ آدمی یہ دعاء کر رہا تھا کہ اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ تو وہی اللہ ہے جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں اکیلا ہے بےنیاز ہے اس کی کوئی اولاد ہے نہ وہ کسی کی اولاد ہے اور اس کا کوئی ہمسر نہیں ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے اس نے اللہ کے اس اسم اعظم کا واسطہ دے کر سوال کیا ہے کہ جب اس کے ذریعے سوال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ ضرور عطا فرماتا ہے اور جب دعا کی جائے تو ضرور قبول فرماتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم عیدالفطر کے دن اپنے گھر سے کچھ کھائے پئے بغیر نہیں نکلتے تھے اور عیدالاضحی کے دن نماز عید سے فارغ ہو کر آنے تک کچھ کھاتے پیتے نہ تھے۔
حدثنا عبد الله بن الوليد ، ومؤمل , قالا: حدثنا سفيان ، حدثنا علقمة بن مرثد ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ان اعرابيا قال في المسجد: من دعا للجمل الاحمر؟ بعد الفجر، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا وجدته، لا وجدته، لا وجدته، إنما بنيت هذه البيوت، وقال مؤمل: هذه المساجد لما بنيت له" .حَدَّثَنَا عَبدُ اللَّهِ بنُ الْوَلِيدِ ، وَمُؤَمَّلٌ , قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا عَلْقَمَةُ بنُ مَرْثَدٍ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ أَنَّ أَعْرَابيًّا قَالَ فِي الْمَسْجِدِ: مَنْ دَعَا لِلْجَمَلِ الْأَحْمَرِ؟ بعْدَ الْفَجْرِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا وَجَدْتَهُ، لَا وَجَدْتَهُ، لَا وَجَدْتَهُ، إِنَّمَا بنِيَتْ هَذِهِ الْبيُوتُ، وقَالَ مُؤَمَّلٌ: هَذِهِ الْمَسَاجِدُ لِمَا بنِيَتْ لَهُ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی مسجد نبوی میں آیا اور اعلان کرنے لگا کہ نماز فجر کے بعد میرا سرخ اونٹ گم ہوگیا ہے مجھے اس کے بارے میں کون بتائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا تجھے تیرا اونٹ نہ ملے یہ گھر (مساجد) اس مقصد کے لئے ہی بنائے گئے ہیں جس کے لئے بنائے گئے ہیں۔
حدثنا عفان ، حدثنا عبد الوارث ، حدثنا محمد بن جحادة ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: " من انظر معسرا، فله بكل يوم مثله صدقة"، قال: ثم سمعته يقول:" من انظر معسرا، فله بكل يوم مثليه صدقة"، قلت: سمعتك يا رسول الله، تقول:" من انظر معسرا، فله بكل يوم مثله صدقة"، ثم سمعتك، تقول:" من انظر معسرا، فله بكل يوم مثليه صدقة"، قال له:" بكل يوم صدقة قبل ان يحل الدين، فإذا حل الدين، فانظره، فله بكل يوم مثليه صدقة" .حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا عَبدُ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بنُ جُحَادَةَ ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، فَلَهُ بكُلِّ يَوْمٍ مِثْلِهِ صَدَقَةٌ"، قَالَ: ثُمَّ سَمِعْتُهُ يَقُولُ:" مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، فَلَهُ بكُلِّ يَوْمٍ مِثْلَيْهِ صَدَقَةٌ"، قُلْتُ: سَمِعْتُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، تَقُولُ:" مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، فَلَهُ بكُلِّ يَوْمٍ مِثْلِهِ صَدَقَةٌ"، ثُمَّ سَمِعْتُكَ، تَقُولُ:" مَنْ أَنْظَرَ مُعْسِرًا، فَلَهُ بكُلِّ يَوْمٍ مِثْلَيْهِ صَدَقَةٌ"، قَالَ لَهُ:" بكُلِّ يَوْمٍ صَدَقَةٌ قَبلَ أَنْ يَحِلَّ الدَّيْنُ، فَإِذَا حَلَّ الدَّيْنُ، فَأَنْظَرَهُ، فَلَهُ بكُلِّ يَوْمٍ مِثْلَيْهِ صَدَقَةٌ" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے نبی کریم، صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کسی تنگدست مقروض کو مہلت دیدے اسے ہر دن کے عوض اتنا ہی صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا پھر ایک اور مرتبہ سنا تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جو شخص کسی تنگدست مقروض کو مہلت دے دے اسے ہر دن کے عوض دو گنا صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! پہلے میں نے آپ کو ایک گنا اور پھر دو گنا ثواب کا ذکر کرتے ہوئے سنا؟ تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قرض کی ادائیگی سے قبل اسے روزانہ ایک گنا صدقہ کرنے کا ثواب ملے گا اور قرض کی ادائیگی کے بعد مہلت دینے پر دو گنا ثواب ملے گا۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا مسلمان آدمی کی موت پیشانی کے پسینے کی طرح (بڑی آسانی سے) واقع ہوجاتی ہے۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد ضعيف، لا يعرف سماع قتادة من عبدالله بن بريدة
ابو ملیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک تھے اس دن ابر چھایا ہوا تھا انہوں نے فرمایا جلدی نماز پڑھ لو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے اس کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا سورت بقرہ کو سیکھو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت اور غلط کار لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حدثنا وكيع ، حدثنا بشير بن المهاجر ، عن عبد الله بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " تعلموا عمران، فإنهما الزهراوان يجيئان يوم القيامة كانهما غمامتان، او كانهما غيايتان، او كانهما فرقان من طير صواف يحاجان وقال وكيع مرة: يجادلان عن صاحبهما" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا بشِيرُ بنُ الْمُهَاجِر ، عَنْ عَبدِ اللَّهِ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " تَعَلَّمُوا عمران، فَإِنَّهُمَا الزَّهْرَاوَانِ يَجِيئَانِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ كَأَنَّهُمَا غَمَامَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا غَيَايَتَانِ، أَوْ كَأَنَّهُمَا فِرْقَانِ مِنْ طَيْرٍ صَوَافَّ يُحَاجَّانِ وَقَالَ وَكِيعٌ مَرَّةً: يُجَادِلَانِ عَنْ صَاحِبهِمَا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ سورت بقرہ کو سیکھو کیونکہ اس کا حاصل کرنا برکت اور چھوڑنا حسرت ہے اور غلط کار لوگ اس کی طاقت نہیں رکھتے پھر تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد فرمایا سورت بقرہ اور آل عمران دونوں کو سیکھو کیونکہ یہ دونوں روشن سورتیں اپنے پڑھنے والوں پر قیامت کے دن بادلوں، سائبانوں یا پرندوں کی دو ٹولیوں کی صورت سایہ کریں گی اپنے پڑھنے والے کی طرف سے جھگڑا کریں گی۔
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل بشير
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک دیہاتی مسجد نبوی میں آیا اور اعلان کرنے لگا کہ نماز فجر کے بعد میرا سرخ اونٹ گم ہوگیا ہے مجھے اس کے بارے میں کون بتائے گا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار فرمایا تجھے تیرا اونٹ نہ ملے یہ گھر (مساجد) اس مقصد کے لئے ہی بنائے گئے ہیں جس کے لئے بنائے گئے ہیں۔
حدثنا وكيع ، حدثنا ابو جناب ، عن سليمان بن بريدة ، عن ابيه ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " كنت نهيتكم عن زيارة القبور، فزوروها، ولا تقولوا هجرا" .حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا أَبو جَنَاب ، عَنْ سُلَيْمَانَ بنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " كُنْتُ نَهَيْتُكُمْ عَنْ زِيَارَةِ الْقُبورِ، فَزُورُوهَا، وَلَا تَقُولُوا هُجْرًا" .
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں نے تمہیں پہلے قبرستان جانے سے منع کیا تھا اب چلے جایا کرو البتہ بیہودہ بات نہ کہنا۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 977، وهذا إسناد ضعيف لضعف أبى جناب، لكنه توبع
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے اوپر درمیانہ راستہ لازم کرلو کیونکہ جو شخص دین کے معاملے میں سختی کرتا ہے وہ مغلوب ہوجاتا ہے۔
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک عورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئی اور کہنے لگی یا رسول اللہ! میں نے اپنی والدہ کو ایک باندی صدقہ میں دی تھی والدہ کا انتقال ہوگیا اس لئے وراثت میں وہ باندی دوبارہ میرے پاس آگئی ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ اس کا ثواب دے گا اور باندی بھی تمہیں وراثت مل گئی۔
ابو ملیح کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کسی غزوہ میں شریک تھے اس دن ابر چھایا ہوا تھا انہوں نے فرمایا جلدی نماز پڑھ لو کیونکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ جو شخص عصر کی نماز چھوڑ دے اس کے سارے اعمال ضائع ہوجاتے ہیں۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 553 على وهم فى إسناده و متنه، فقول الأوزاعي: عن أبى المهاجرة خطأ، صوابه: عن أبى المليح الهذلي، وفي متنه إدراج
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو شخص بارہ ٹینی کے ساتھ کھیلتا ہے وہ گویا اپنے ہاتھ خنزیر کے خون اور گوشت میں ڈبو دیتا ہے۔
حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث ، حدثنا زائدة ، حدثنا عبد الملك بن عمير ، عن ابن بريدة ، عن ابيه ، قال: مرض رسول الله صلى الله عليه وسلم فقال:" مروا ابا بكر يصلي بالناس"، فقالت عائشة: يا رسول الله، إن ابي رجل رقيق، فقال: " مروا ابا بكر يصلي بالناس، فإنكن صواحبات يوسف" ، فام ابو بكر الناس ورسول الله صلى الله عليه وسلم حي.حَدَّثَنَا عَبدُ الصَّمَدِ بنُ عَبدِ الْوَارِثِ ، حَدَّثَنَا زَائِدَةُ ، حَدَّثَنَا عَبدُ الْمَلِكِ بنُ عُمَيْرٍ ، عَنِ ابنِ برَيْدَةَ ، عَنْ أَبيهِ ، قَالَ: مَرِضَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" مُرُوا أَبا بكْرٍ يُصَلِّي بالنَّاسِ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ أَبي رَجُلٌ رَقِيقٌ، فَقَالَ: " مُرُوا أَبا بكْرٍ يُصَلِّيَ بالنَّاسِ، فَإِنَّكُنَّ صَوَاحِباتُ يُوسُفَ" ، فَأَمَّ أَبو بكْرٍ النَّاسَ وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيٌّ.
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب مرض الوفات میں مبتلا ہوئے تو فرمایا ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عرض کیا یا رسول اللہ! میرے والد رقیق القلب آدمی ہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پھر فرمایا کہ ابوبکر سے کہو کہ لوگوں کو نماز پڑھائیں تم لوگ حضرت یوسف علیہ السلام کے پاس آنے والی خواتین مصر کی طرح ہو چناچہ حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات میں لوگوں کو نماز پڑھائی۔
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وقوله: عن ابن بريدة عن أبيه خطأ، صوابه: عن أبى بردة عن أبيه ، أى من مسند أبى موسى الأشعري
حضرت بریدہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اہل جنت کی ایک سو بیس صفیں ہوں گی جن میں اسی صفیں صرف اس امت کی ہوں گی۔