كتاب إقامة الصلاة والسنة کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل 166. . بَابُ: مَا جَاءَ فِيمَا إِذَا اجْتَمَعَ الْعِيدَانِ فِي يَوْمٍ باب: عید اور جمعہ ایک دن اکٹھا ہو جائیں تو کیسے کرے؟
ایاس بن ابورملہ شامی کہتے ہیں کہ میں نے ایک آدمی کو زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے پوچھتے ہوئے سنا: کیا آپ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کبھی ایک ہی دن دو عید میں حاضر رہے؟ انہوں نے کہا: جی ہاں، اس آدمی نے کہا: تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کیسے کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے عید پڑھائی پھر جمعہ کے بارے میں رخصت دے دی اور فرمایا: ”جو پڑھنا چاہے پڑھے“ ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 217 (1070)، سنن النسائی/العیدین 31 (1592)، (تحفة الأشراف: 3657)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/372)، سنن الدارمی/الصلاة 225، (1653) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: جمعہ اور عید دونوں پڑھنا افضل ہے، اور دور دراز کے لوگوں کو اگر جمعہ کے لئے جامع مسجد آنے میں مشقت اور دشواری ہو تو اس صورت میں صرف عید پر اکتفا ہو سکتا ہے، اور اس صورت میں ظہر پڑھ لے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تمہارے آج کے دن میں دو عیدیں جمع ہوئی ہیں، لہٰذا جو جمعہ نہ پڑھنا چاہے اس کے لیے عید کی نماز ہی کافی ہے، اور ہم تو ان شاءاللہ جمعہ پڑھنے والے ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5419، ومصباح الزجاجة: 461) (صحیح)» (ابوداود: 1073) نے محمد بن المصفی سے اسی سند سے یہ حدیث روایت کی ہے، اور ابن عباس کے بجائے، ابو ہریرہ کہا ہے، بوصیری نے اس کو محفوظ کہا ہے، اور وہ مولف کے ہاں آنے والی روایت ہے)
قال الشيخ الألباني: صحيح
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی روایت مرفوعاً آئی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 217 (1073)، (تحفة الأشراف: 12827) (ضعیف)» (سند میں بقیہ بن الولید مدلس ہیں)
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں دو عیدیں (عید اور جمعہ) اکٹھا ہو گئیں، تو آپ نے لوگوں کو عید پڑھائی، پھر فرمایا ”جو جمعہ کے لیے آنا چاہے آئے، اور جو نہ چاہے نہ آئے“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 7772، ومصباح الزجاجة: 462) (صحیح)» (سابقہ حدیث سے تقویت پاکر یہ حدیث صحیح ہے، ورنہ اس کی سند میں دو راوی مندل و جبارہ ضعیف ہیں)
قال الشيخ الألباني: صحيح لغيره
|