الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔

 

مسند الشهاب کل احادیث 1499 :حدیث نمبر
مسند الشهاب
احادیث201 سے 400
285. مَنْ يُشَادَّ هَذَا الدِّينَ يَغْلِبْهُ
جس شخص نے اس دین میں سخت راہ اختیار کی تو یہ (دین) اس پر غالب آ جائے گا
حدیث نمبر: 398
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
398 - اخبرنا عبد الرحمن بن عمر التجيبي، ابنا ابو سعيد بن الاعرابي، ثنا محمد بن يحيى بن المنذر، ثنا ابو عاصم، ثنا عيينة بن عبد الرحمن بن جوشن، قال: حدثني ابي، عن بريدة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من يشاد هذا الدين يغلبه» 398 - أَخْبَرَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ عُمَرَ التُّجِيبِيُّ، أبنا أَبُو سَعِيدِ بْنُ الْأَعْرَابِيِّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ الْمُنْذِرِ، ثنا أَبُو عَاصِمٍ، ثنا عُيَيْنَةُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ جَوْشَنٍ، قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي، عَنْ بُرَيْدَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ يُشَادَّ هَذَا الدِّينَ يَغْلِبْهُ»
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اس دین میں سخت راہ اختیار کی تو یہ (دین) اس پر غالب آ جائے گا۔

تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد: 422/3، وطيالسي: 847، وابن الاعرابي: 22»

وضاحت:
تشریح: -
تمام امور میں میانہ روی ہی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ عمل وہی بہتر ہے جس پر ہمیشگی ہو سکے اگر چہ وہ مقدار میں کم ہی ہو۔ مذکورہ حدیث میں اسی بات کی طرف اشارہ ہے کہ دین میں سخت راہ اختیار کرنے والا، آسان کو چھوڑ کر مشکل پر چلنے والا، اور شرعی رخصت کی جگہ عزیمت کو اپنانے والا، بالاخر مغلوب ہو جائے گا اور تھوڑے ہی عرصے بعد اپنے وظیفے میں کوتاہی شروع کر دے گا، لہٰذا دین پر اپنی طاقت اور قوت کے مطابق چلو تا کہ عمر بھر نباہ ہو سکے اور اپنے اوپر سختی نہ کرو کہ تھک جاؤ گے، یا اکتا جاؤ گے، عاجز آ جاؤ گے کیونکہ کسی بھی چیز پر جب اس کی استطاعت سے بڑھ کر بوجھ ڈالا جائے تو وہ عاجز آ جاتی ہے۔ غور کریں کہ اگر کوئی یہ سوچے کہ میں صائم الدھر اور قائم اللیل بنوں گا، تجرد کی زندگی گزاروں گا، تو وہ کب تک نباہ کر سکے گا؟ مسلسل صیام و قیام کی وجہ سے اس کے اندر کمزوری بڑھتی جائے گی اور وہ اس عمل کو نباہ نہیں سکے گا۔
لہٰذا اپنی قوت و طاقت کے مطابق چلنا چاہیے۔ اللہ تعالیٰ ٰ بھی بار بار اسی بات کا اعلان فرما رہا ہے کہ:
﴿لَا يُكَلِّفُ اللَّهُ نَفْسًا إِلَّا وُسْعَهَا﴾ (البقرة: 286)
اللہ کسی جان کو اس کی طاقت سے بڑھ کر مکلف نہیں ٹھہراتا۔
فرائض جتنے بھی ہیں وہ سب انسان کی قوت و طاقت کے دائرے میں ہیں، اسی طرح حرام کردہ چیزوں کا معاملہ ہے، لہٰذا ان پر عمل کے سلسلے میں سختی ہی برتی جائے گی، فرائض پر پابندی سے عمل کیا جائے گا اور منہیات سے بہر صورت بیچا جائے گا، لیکن جن امور میں اختیار ور خصت دی گئی ہے ان پر عمل میں سخت راہ اپنا نا کسی بھی صورت مستحن نہیں۔ حدیث کا پس منظر ملاحظہ کیجیے:
سیدنا بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایک دن میں گھر سے نکل کر قضائے حاجت کے لیے جا رہا تھا اچانک میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی جارہے ہیں، میں نے گمان کیا کہ آپ قضائے حا جت کے لیے جا رہے ہیں چنانچہ میں نے آپ سے دور ہٹنا شروع کردیا میں اس طرح کررہا تھا کہ آپ نے مجھے دیکھ لیا اور پھر اشارہ کر کے مجھے اپنے پاس بلا لیا، میں آپ کے پاس حاضر ہوا تو آپ نے میرا ہاتھ پکڑا پھر ہم اکٹھے چلنے لگے پھرا چانک ہم نے اپنے سامنے ایک آدمی دیکھا جو نماز پڑھ رہا تھا اور بکثرت رکوع و سجود کر رہا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمہارا کیا خیال ہے کیا یہ دکھلاوا کر رہا ہے؟ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کا رسول ہی جانتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ آپ نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور اپنے سامنے دونوں ہاتھوں سے تین بار اشارہ کیا آپ اپنے ہاتھ بلند کر لیتے اور پھر انہیں نیچے کرتے اور فرمایا: درمیانی راہ اختیار کرو، اعتدال والی راہ اپناؤ، تمہیں میانہ روی اختیار کرنی چاہیے کیونکہ جس شخص نے بھی اس دین میں سختی اختیار کی تو یہ دین اس پر غالب آ جائے گا۔ [ابن خزيمه: 179، صحيح]
اسی سے ملتی جلتی ایک اور حدیث ملاحظہ کیجیے: سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہے شک دین آسان ہے اور جو شخص دین میں سختی اختیار کرے گا تو یہ دین اس پر غالب آ جائے گا اور تم اپنے عمل کو درست رکھو اور جہاں تک ممکن ہو، میانہ روی برتو اور خوش ہو جاؤ، اور صبح و شام اور کسی قدررات میں (عبادت کے ذریعے) بارد حاصل کرو۔ [بخاري: 39]
جس طرح شرعی رخصت کو چھوڑ کر عزیمت کو اپنانا تشدد ہے، اسی طرح اصل دین کو چھوڑ کر بدعات اور رسومات، کو اپنانا بھی تشدد ہے۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.